This document is posted to help you gain knowledge. Please leave a comment to let me know what you think about it! Share it to your friends and learn new things together.
Transcript
Page 1 of 23
www.AshabulHadith.com
ا لوا سطي ة -15
شرح ا لعقيدة
﷽
د
حم ح
ال
اء للبي
حن الأ
ات
خ
عل
م
لا
الس
و
ة
لا
الص
و
حمي
ال
ع
ح
الب
ر
عي حج
به آ
ح ص
له و
آ
عل
د و
م ا م
ن
بي
لي،ن
س
حر
الم
،و
:د
حعا ب
م
آ
15-
طي ةي د ةالواس
لعق شرح ا
الشیخ ال
طي ةي د ةالواس
لعقاللہ، شرح فضیلۃ الشیخ العلامہ محمد بن صالح ابن سلام ابو العباس احمد ابن تیمیہ رحمہ ا
عثیمین رحمہ اللہ۔
اور جو سب سے بباتیں کر رہے تھے اور پچھلے چند دروس میں ہم اس عظیم عقیدے کے ابتدائی جملے کے تعلق سے کچھ
صول یہ ہے کہ اللہ تعالی پہلا اصول ہے اللہ تعالی کے اسماء و صفات کے بباب میں اس کے تعلق سے چند بباتیں کی ہیں اور ا
ان چار ارا ایمان ہے لیکن م میں بیان ہوئی ہے ان سب پر ہ
ث
اور صحیح حدی رآن
ر وہ صفت کمال جو قماور ہ ام
ب ر وہ پیارا مکاہ
تعطيل ”( ۱شرطوں کے ساتھ) غير تحريف”( ۲)بغیر تعطیل کے بغیر انکار کے( ۔) “من غير )تحریف نہیں ہو “من
بیان کرنے کے(۔ “ من غير تمثيل”( اور ۴۔ )“ ييفمن غير تك ”( ۳گی(۔ )
لی ت
ث
)بغیر مي
ابن ری تفصیل سے جوشیخ العلامہ
بب ببات کر رہے تھے یہ درسوں میں ان چار شرطوں کے تعلق سے ہم پچھلے چند اور
سے بباتیں کی عثیمین رحمہ اللہ نے ان چار شرطوں کے تعلق سے جو اہم دلئل ہیں اور جو چند غلط فہمیاں ہیں ان کے تعلق
کے تھے وہیں سے درس کا آغاز کرتے ہیں “۔ ولا تمثيل”ہیں آج کی نشست میں جہاں پر ر
رماتے ہیں ”
“ ۔ ولا تمثيل" يعنى: ومن غير تمثيلشیخ السلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ق
مہ محمد بن صالح العثیمین یہ شرط بیان کی جاتی ہے یہ لفظ ہے اس لفظ کے تعلق سے اور اس کی شرح میں فضیلۃ الشیخ العلا
رماتے ہیں ”
تمثيلرحمہ اللہ ق تمثيل “ سے مراد ہے ”ولا غير رأت کا اظہار کرتے ہیں اللہ ومن بب
والجماع
“، یعنی اہل س
Page 2 of 23
www.AshabulHadith.com
ا لوا سطي ة -15
شرح ا لعقيدة
اور نہ ہی ری ہیں اس سے ۔ نہ تو اللہ تعالی کی ذات میں بب
، اہل س بیان کرنے سے
لی ت
ث
اور مي تعالی کو مخلوق سے تمثیل
ت میں یہ تمثیل ممکن ہے اور تمثیل سے مراد یہ ہے )تمثیل کا معنی کیا ہے( کہ کسی چیز کی دوسری چیزسے مماثلت کا صفا
ی ف کے لفظ اور تمثیل کے لفظ کی
تا لزمی ہے جس میں آپ نے مماثلت کرنی ہےاور
ا ۔ اس میں دو چیزوں کا ہوب
ذکر کرب
ر نکہکی اور عموم ہے میں خصوص مر ہ
ما ہے لیکن ہ
ی ف کرنے وال ہوبکی
تر تمثیل کرنے وال
مکی ف ہے یعنی ہ
مممثل جو ہے وہ
ا جس کا تمثیل
ی ف سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کی کیفیت کا ذکر کربکی
تا کینکہ
ی ف کرنے وال تمثیل کرنے وال نہیں ہوبکی
ت
ہے اور یہ شکل ہے ، یہ موببائل ہے اس کا سے کوئی تعلق نہیں ہے مثال کے طور میں کہتا ہوں یہ پین ہے جس کا
یہ رن
ا مقصود ہوتی ہے
ا تواس کی ہیئت بیان کرب
ہے اس کی یہ شکل ہے اس کی یہ اسکرین ہے۔ یہ چند اوصاف بیان کرب
یہ رن
ا ہے کہ دو چیزیں کر دیں "یہ پین اس پین جیسا ہے ، یہ کتاب اس کتا
ی ف ہے لیکن تمثیل میں کیا ہوبکی
تب )کیفیت( یہ
ا(۔
بیان کرب
لی ت
ث
جیسی ہے ، یہ موببائل اس موببائل جیسا ہے" تو اسے کہتے ہیں تمثیل )مي
کرتے ہیں بغیر
بای
ث
جو ہیں وہ اللہ تعالی کی جو صفات ہیں ان سب کو ب
والجماع
رماتے ہیں کہ اہل س
اور شیخ صاحب ق
بیان کرنے کے ”
لی ت
ث
مماثلةمي اری زندگی جیسی نہیں ،”“۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی بدون موليست کی زندگی ہے حیات ہے ہ
حياتنا ، اللہ تعالی کا چہرہ ہے مثل اری بصر جیسی نہیں م، اللہ تعالی کی بصر ہے ہ ارے علم جیسا نہیں
م“، اللہ تعالی کا علم ہے ہ
، اور اسی طریق ارے ہاتھ جیسا نہیں م، اللہ تعالی کا ہاتھ ہے ہ ارے چہرے جیسا نہیں
مسے تمام صفات جو ہیں اللہ تعالی ہ
کا یہ عقیدہ ہے کہ بے شک اللہ تعالی کی کوئی مماثلت نہیں ہے مخلوق کے ساتھ ، کسی
والجماع
کی۔کہتے ہیں اہل س
صورت میں بھی یہ ممکن نہیں ہے اور اس کے دلئل ہیں ۔
رماتے ہیں سمعی
ق کی نفی کی ہے دلئل کیا ہیں ؟ شیخ صاحب
لی ت
ث
مي اور عقلی دلئل "اب دلئل
أدلة اور
عي ةملس
ا
ادلة ال
"۔
قلي ة(، اور عقلی سے مراد جو عقلی دلئل ہیں ۔ع
رآن اور س
سمعی سے مراد کیا ہے ؟ نصوص )ق
رآن ۲( خبر ۔)۱اور جو سمعی دلئل ہیں ان کی دو قسمیں ہیں )
( اور طلب۔یعنی خبر کے انداز میں بھی یہ دلیل موجود ہےق
رق کیا ہے؟ خبر کی تصدیق کی جاتی ہے اور طلب سے مراد أمر اور س
میں اور طلب کے انداز میں بھی ۔دونوں میں ق
اور نہی ہے ) یعنی اللہ تعالی نے حکم بھی دب ا ہے اور منع بھی کیا ہے (۔
Page 3 of 23
www.AshabulHadith.com
ا لوا سطي ة -15
شرح ا لعقيدة
تو آئیے دیکھتے ہیں کہ کس طریق سے یہ دلئل موجود ہیں ۔
اد ہے خبر کے جو دلئل ہیں اللہ تعالی کا
ث
ارش ﴿ ء
ح له ش
حث
ك س حي
إلآية﴾ ل آخر آ لى (۔ تو یہ جملہ 11)الشوری: إ
﴿ حصي
ب
ح
ال ع
حمي
الس
و
ه
و
ء
ح ش له
حث
ك س حي
ہے ، ﴾ل ﴿پہلا جملہ
ء
ح ش له
حث
ك س حي
اس میں ﴾ ل
کی نفی ہو رہی ہے ۔
لی ت
ث
مي
ر کی نفی یعنی کیسے خوبصورت انداز بیان میں میں نے ای درس میں بیان کیا تھا تدبب
لی ت
ث
القرآن کے دروس میں کہ اس مي
کسی صورت میں بھی ہو سکے(۔
لی ت
ث
اممکن ہے کہ مي
کی نفی کی انتہا کر دی ہے )یعنی ب
لی ت
ث
رماب ا ہے مي
اللہ تعالی نے بیان ق
جیسے میں نے بتاب ا کہ اس کے تین درجات ہیں ب ا تین طریق ہیں :
اری ای تو بغیر -1م کسی حرف ب ا بغیر کسی لفظ کے ۔ فلان شیر ہے، ب ا فلان لڑکی جو ہے وہ چاند کا ٹکڑا ہے ب ا چاند ہے۔ یہ ہ
تشبیہ کون سی ہے ؟ تشبیہ بلیغ کہتے ہیں اسے ۔
"۔ فلان كالأسددوسرا ہے شیر جیسا ہے اس میں" -2
" یعنی شیر کے جیسے کے جیسا۔لأسدفلان كمثل إاور تیسرا ہے جو اس سے بھی دور ہے تشبیہ " -3
رق کیا ہے ؟
وں میں ق
ت
، اس کی چال اور اس کی گرج میں بولنے کے طریق سے میں
ر اعتبار سے شیر جیسا ہے )بہادری میں ، طاقمپہلے میں ہ
بہادری " بعض صفات ہیں بعض نہیں ہیں ۔كالأسد چلن میں ، اس کی دہشت میں ( تمام چیزوں میں أسد ہو گیا پورا۔"
كمثل ( کسی اور چیز میں کوئی کمی ہو گی لیکن مکمل شیر جیسا نہیں ہے ۔ تیسرا " گامیں ہو گا لیکن دہشت نہیں ہو گی )بہادر ہو
ا ہے وہ شیر جیسا ہے ۔إلأسد
" جو ہے اور دور تشبیہ ہے یعنی بس یہ کہا جاب
ا ۔ اور آپ غور کریں ای اللہ تعالی نے کس کی نفی کی ہے پہلے کی دوسرے کی ب ا تیسرے کی ؟
یعنی سوال ہی نہیں پیدا ہوب
پر " ب بھی لے لیں آپ کہ جہاں ب
رآن مجید میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے منافقین کے كمثلواح
ق پر ای ساتھ کئی جگہ "
جو ہے کس تعلق سے اور بھی کئی جگہ پر آپ انداز بیان کی خوبصورتی دیکھیں کہ کس طریق سے اللہ تعالی نے یہ لفظ تشبیہ
رماب ا ہے واللہ آپ حیران ہو جائیں گے !
طریق سے بیان ق
Page 4 of 23
www.AshabulHadith.com
ا لوا سطي ة -15
شرح ا لعقيدة
کی نفی کی
لی ت
ث
﴿تو سب سے پہلے خبر میں جو سب سے اہم دلیل ہے مي ء
ح له ش
حث
س كحي
پہلی دلیل ہے اور اس ﴾ل
بیان کرنے کی نفی صریح ہے(۔
لی ت
ث
میں نفی صریح ہے تمثیل کی )مي
آی
اد ہے
ث
میں اللہ تعالی کا ارش
ا﴿اور دوسری آی
ي
س
ه
ل
م
لحع
ت
حل
(۔ اگرچہ یہ جملہ جو ہے استفہام 65)مریم : ﴾ه
کو تعالی جیسا اللہ کہ مراد نفی ہے اس سے سوالیہ ہے لیکن یہ یعنی رماتے ہیں(
ق )شیخ صاحب اگرچہ ئی نہیں ہے۔اور
اءہے لیکن بمعنی الخبر ہے کینکہ استفہام ہے اور استفہام بمعنی نفی ہے ۔
ث
ان
﴿تیسری دلیل د
ح
ا ا
و
ف
ك
ه
نح ل
ك ي
ح
ل (۔4)الخلاص: ﴾و
وں دلئل میں مماثلت کی نفی ہو رہی ہے اور یہ تمام جملے جو ہیں خبریہ جملے
ہیں ۔یہ ت
اد ہے
ث
ا﴿اور طلب کی دلیل جو ہے اللہ تعالی کا ارشاد
د
حن ا
ا لل
حو
لع
ح
ت
لاآخر إلآية ﴾ف لى آ ( ، انداد سے 22)البقرۃ: إ
ٹھہراؤ((۔ نظرإء مماثلي مراد ”
بناؤ)شری م
“ ) اللہ تعالی کے ساتھ کوئی اور مثل م
﴿تو یہاں پر کیاہے ؟
لااف
حولع
ح
نہی ہے ۔﴾ت
میں(وقال ”
﴿ “ )دوسری آی
الث
حم
ح ال
ا لل
ح ب
حض
ت
لاآخر إلآية ﴾ف لى آ ( ، یہاں پر بھی نہی 74)النحل: إ
بیان کرو)یعنی کوئی اس کی مثال ہی نہیں ہے(۔
ہے کہ اللہ تعالی کی مثالیں م
رماتے ہیں کہ جس نے بھی اللہ تعالی کی
ری غلطیاں تو شیخ صاحب ق
بیان کی ہے تو اس نے دو بب
لی ت
ث
اپنی مخلوق کے ساتھ مي
ب بھی کی ہے اور أمر جو ہے اس کی بھی معصیت کی ہے اس لیے بعض سلف نے یہ تکفیر کی ہے ان کی ہیں کہ خبر کی تکذی
بیان کرتے ہیں جیسا کہ نعیم بن حماد الخزاعی
لی ت
ث
رحمہ اللہ جو امام بخاری کے لوگوں کی جو اللہ تعالی کی مخلوق کے ساتھ مي
رماتے ہیں ”
)جس نے اللہ تعالی کی تشبیہ بیان کی ہے اپنی مخلوق سے تو “من ش به الله بخلقه، فقد كفر شیخ ہیں استاد ہیں وہ ق
یقینا اس نے کفر کیا ہے(۔
میں بیان کیا ہے صفحہ نمبر
ة
سيلا امام ذہبی نے 936))اسے اللالكائی نے شرح اور ، ر العلومیں
ث
أب اس میں بیان کیا ہے
میں((۔116کونقل کیا ہے صفحہ نمبر
Page 5 of 23
www.AshabulHadith.com
ا لوا سطي ة -15
شرح ا لعقيدة
ب کی ہے ؟ کینکہ وجہ کیا ہے کیں تکذی
ب کی ہے ) دو غلطیاں کی ہیں (۔وجہ کیا ہےغلط کیا ہے ؟ ب کو جمع کر دب ا ہے کہ خبر کی تکذی
کینکہ اس نے دونوں تکذی
إلطلب ” وعصيان بالخبر إلتكذيب بي جمع ب کی ہے اور جو طلب ہے جو نہی ہے جس سے منع کیا گیا “لأنه )خبر کی تکذی
رمانبرداری نہیں کی ہے(۔
ہے اس کی ق
ا بہت آسان ہے ۔یہ دلئل
ا ہے اور ب اد کرب
کے انہیں ب اد کرب
لی ت
ث
﴿ ہیں سمعی دلئل مي ء
ح له ش
حث
س كحي
کافی ﴾ ل
ہے ا
کرب ری
م ﴿ہے د
ح
ا ا
و
ف
ك
ه
ل نح
كي
ح
لا ﴿ ، ﴾و
ي
س
ه
ل
م
لحع
ت
حل
﴿، ﴾ه
لل ا
حولع
ح
ت
لاف
ااد
د
حن ﴿، ﴾ا
الث
حم
ح ال
ا لل
ح ب
حض
ت
لا کی نفی ہو رہی ہے ۔﴾ف
لی ت
ث
، یہ سارے دلئل جو ہیں ان میں مي
کا امکان ہی نہیں ہے اور اس کی کئی وجوہات
لی ت
ث
دوسری قسم کے دلئل جو ہیں عقلی دلئل ہیں کہ خالق ، مخلوق میں مي
ہیں :
، تو سب سے پہلے وجود کا اعتبار دیکھ سب سے پہلے خالق اور مخلوق میں وجود کے اعتبا -1 ر سے مماثلت ہو ہی نہیں سکتی
اللہ ، پہلے عدم تھا پھر کا وجود کیا ہے ؟ممکن الوجود ہے ب الوجود ہے ہمیشہ ۔اور مخلوق ب
کا وجود واح لیں آپ کینکہ خالق
سے ہے اور ہمیشہ رہے گا کوئی ابتداء نہیں ہے کوئی تعالی نے مخلوق کو پیدا کیا ہے پھر فنا ہو جائے گی ۔اللہ تعالی کا وجود ہمیشہ
خر ﴿انتہاء نہیں ہے حال
و
لو
حال
و
رماب ا ہے) کوئی ابتداء نہیں کوئی انتہاء نہیں 3)الحدی : ﴾ ه
( جیسے اللہ تعالی نے ق
ہے( ۔تو وجود کے اعتبار سے دیکھ لیں آپ مماثلت ہو ہی نہیں سکتی ۔
عظیم تباین ہیں خالق اور مخلوق میں صفات اور افعال میں اللہ تعالی کی صفات اور افعال دیکھ لیں اور دوسرااعتبار ہے کہ -2
ا دیکھیں
ا ہے۔اب مخلوق کا س
کی صفت کہ اللہ تعالی س
،اس کی مثال شیخ صاحب نے دی ہے سن مخلوق کے دیکھ لیں
ا نہیں تھا پھر وجود میں
ا نہیں تھا پھر آہستہ آہستہ آپ پہلے عدم تھا اس کا س
ا شروع کیا، پہلے کمزور تھا س
آب ا پھر اس نے س
ب ا ، ا بھی نہیں ہے
ا ہے س
ا ہے پھر کبھی بہرا بھی ہو جاب
ری پھر کمزور ہو جاب
وہ م رھاپے میں آہستہ آہستہ
بب ملی پھر
طاق
ا ہے ،لیکن اللہ تعالی کا
ا کم ہو جاب
میں اللہ تعالی کا بیماری لحق ہو جاتی ہے س
ا کی پہلی آی
سمع دیکھیں آپ سورۃالمجادل
Page 6 of 23
www.AshabulHadith.com
ا لوا سطي ة -15
شرح ا لعقيدة
اد ہے
ث
﴿ارشمع
حس
ي
الل
و ڰ
الل
ال
ك
ـت
حش
ت
و ا
جه
حو
ز
حف
ك
ادل
ت تح ال
لحو
ق
الل
ع
س
حد
ق
ح صي
ب
ع
حي
س
الل
ان
كمر
او
ا:﴾ ت
رماتی ہیں میں اسی کمرے)حجرے( (۔سیدہ عائشہ1)المجادل
رضی اللہ عنہا ق
میں حاضر ہوئی اور اپنی شکای
م
ب وہ عورت آئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خب
کے کونے میں بیٹھی ہوئی تھی ح
رماتی ہیں کہ میں اسی کمرے کے کونے میں بیٹھی
کرتے ہوئے ، ق
ہوئی تھی مجھے کی اور اپنا مسئلہ بیان کیا اللہ تعالی کو شکای
ی سے اوپر سے اس کی بباتوں کو
معل
ذوالجلال نے ساتویں آسمان سے عرش سمجھ نہیں آ رہی تھیں بہت ساری بباتیں اور رب
رمائی ہے ۔
ازل ق
ب
سن کر یہ آی
اور مخلوق کی صرف اس صفت کو دیکھ لیں آپ ۔تمام صفات کو د اور تباعد ہے خالق یکھ لیں تو کتنا تفاوت ہے تباین ہے
رق ہے آپ کو ببالکل واضح نظر آ
آپ اللہ تعالی کے افعال کو دیکھ لیں مفعول کو اور مخلوق کے افعال کو بھی دیکھ لیں تو یہ جو ق
ہو ہی نہیں سکتی ، کسی صورت میں بھی ممکن نہیں ہے ۔
لی ت
ث
جائے گا تو دونوں میں مي
کی نفی کی جو عقلی دلیل -3
لی ت
ث
ہے ذات کے اعتبار سے دیکھ لیں اللہ تعالی کی ذات اور مخلوق کی تیسرا اعتبار جو ہے اس مي
ذات)پہلا تھا وجود، دوسرا صفات اور افعال(۔
را
رتیب کے ساتھ جا رہا ہوں جو شیخ صاحب نے یہاں پر بیان کی ہے( ذات کے اعتبار سے بھی بہت بب
تیسرا ہے ) میں اسی ب
رق ہے خالق اور مخلوق میں
اد ہے تباین ہے اور ق
ث
﴿، اللہ تعالی کا ارش
ضحر
حال
و ت
مو
الس
ه
سـي
حر
ك
سع
﴾ و
الکرسی )البقرۃ:
﴿(، اور 255آی
ه
ت
ض
حب
ق ا
ع
حي
ج
ض
حر
حال
( )تمام زمین اللہ تعالی کے قبضے 67)الزمر: ﴾و
رأت نہیں کہ وہ اس طریق سے کوئی کر سکے ذبات کےاعتبار سے بھی ۔ تو خالق میں ہے(۔ اور مخلوق میں سے کسی کی ج
ابع ہیں صفات ان میں ببالکل الگ ہے اور جو مخلوق ہے وہ ببالکل الگ ہے دونوں میں تماثل
اپنی ذات اور جو اس ذات کے ب
ا ۔
کا سوال ہی نہیں پیدا ہوب
لی ت
ث
اور مي
ہیں مخلوقات کا آپس میں بھی صفات چوتھی جو عقلی دلیل ہے ب ا چوتھا اعتبار جو ہے وہ یہ ہے کہ ہم مخلوقات کو دیکھتے -4
ہے
کے اعتبار سے اختلاف ہے شدی تباین اور اختلاف ہے ۔ بصر کو دیکھ لیں کیا دو لوگوں کی جو بینائی کی ب اور ہے طاق
Page 7 of 23
www.AshabulHadith.com
ا لوا سطي ة -15
شرح ا لعقيدة
ر ہے ؟ان کے ہاتھ کو دیکھ لیں )مخلو رابب ر ہے ؟ بولنے کا انداز بب رابب بب
کی طاق
ر ہے ؟ نہیں ہے۔ ان لوگوں کے سن رابب ق بب
ر ہیں ای جیسے ہیں سو فیصد؟ شکل تو ای ہے ہاتھ رابب ان کے ہاتھ کو دیکھ لیں کیا دونوں ای جیسے ہیں لیکن بب
کے ہاتھ( ان
ا ہے ۔
کو ہاتھ ہی کہا جاب
یہ ای اگر ای جنس کی مخلوق ہوں مختلف اجناس کی مخلوقات ہوں ؟ ہاتھی کے ہاتھ کو دیکھ لیں، چیونٹی کے ہاتھ کو دیکھ
ا لیں
ا ہے ب
۔ نہیں؟!اب ان کو آپس میں کمپیئر، شیر کے ہاتھ کو دیکھ لیں ، بلی کے ہاتھ کو دیکھ لیں سب کو ہاتھ ہی کہا جاب
(Compare اور ا ہے
( کر کے دیکھیں ای جیسے ہیں کیا ؟اب صفت ای ہی ہے معنی بھی ای ہے کہ ہاتھ کہا جاب
ببالکل اور تباین تو مخلوق میں یہ تفاوت اور مخلوق میں کیں نہیں ہو سکتا ؟!اس لیے مماثلت تو خالق واضح موجود ہے
اممکن
ب ب کہ ای ہی صفت ہے تو خالق مخلوق میں کیسے ممکن ہے ؟! ب
اممکن ہے۔اگر مماثلت مخلوق میں نہیں ہے ح
ب
رابی ہے کینکہ
ان لوگوں نے پہلے یہ سوچا ہے۔ اس لیے جو مماثلت کی ب ا تشبیہ کی ببات کرتے ہیں ان کی اپنی عقل میں ج
ہے کہ تشبیہ لزم آتی ہے۔
رق ہے
اور کیا ق ا ہے کہ نہیں وجہ کیا ہے
))وہ تشبیہ کا لفظ بیان کرتے ہیں آگے بیان کریں گے کہ تشبیہ کا لفظ بیان کرب
رین صفات ہیں((۔
تمثیل میں اور تشبیہ میں لیکن عام لفظ تشبیہ وہ استعمال کرتے ہیں جو من
ض تو تشبیہ ان کے دماغ میں جو بیماری ہے اس بیماری پر انہوں نے دیکھا ہے )اس کے پس منظر میں دیکھا ہے( کہ الغر
اور اس تشبیہ سے ڈرنے کی وجہ سے بچنے کے لیے ان کرتے ہیں
بای
ث
تشبیہ لزم آتی ہے اگر ہم اللہ تعالی کی صفات کو ب
ن اللہ(۔لوگوں نے کیا کیا ہے ؟ انکار کر دب ا ہے )سبحا
ا ہے
تو ممکن ہی نہیں ہے !کہتے ہیں یہ کیسے ہو سکتا ہے اگر ہم کہیں کہ اللہ تعالی س
لی ت
ث
تشبیہ تو میرے بھائی ہے نہیں مي
مخلوق بھی سنتی ہے تشبیہ تو آگئی !)سبحان اللہ(۔ اگر ہم کہیں کہ اللہ تعالی کا ہاتھ ہے مخلوق کا بھی ہاتھ ہے تو تشبیہ لزم آتی
ا ہے ! ہے
ا ہے پھر وہ لزم آب
ا ہے ، جگہ لزم آتی ہے، پھر یہ لزم آب
جسم لزم آب
جس میں اللہ تعالی کے ہاتھ کا ذکر ہے اور تمام اسماء و صفات کا ذکر
صحابہ نے سنی یہی آی
ب یہی آی
باللہ کے بندے ح
ب اللہ تعالی کے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کو ب
سنائی یہ ببات ان لوگوں نے کیں نہیں کی ب ا آپ ہے ح
Page 8 of 23
www.AshabulHadith.com
ا لوا سطي ة -15
شرح ا لعقيدة
کو ایسے ہی مان لیا بغیر
ب ا جو مل گیا بس ح چاپ کسی آی ؟! ب ا سمجھتے نہیں تھے وہ کیا لوگوں سے کم عربی جانتے تھے
ازل ہوا ، اگر
رآن ب
ان اسماء و سوچےسمجھے ممکن ہے کیا ؟!میرے بھائی وہ عربی ہم سے اچھی جانتے تھے ان ہی زببان پر ق
ا ان کو تو سب سے پہلے سوال کرتے وہ کہ ممکن کیسے ہے یہاں پر تشبیہ لزم آ رہی
شہ ہوب
ر بھی کوئی خ رابب ہ ببصفات میں ذر
ہے ؟!کینکہ تشبیہ لزم آتی ہی نہیں ہے اس لیے انہوں نے سوال ہی نہیں کیا ہے ۔
م بن صفوان اور اس کے مقلدین جو
جبہ
ب ان لوگوں نے عقل کو نقل سے آگے کرنے کی یہ غلط سوچ کب آئی ؟ ب
ہیں ح
اریخ میں
ب ا چاہا نصوص کو چھوڑ کر پس پشت ڈال کر تو پھر ایسی ٹھوکریں کھائیں کہ
را کچھ کام کرب
اور بہت ہی بب کوشش کی
مقام عبرت بن گئے سب کے لیے )سبحان اللہ(۔
ب مخلوق میں ب
، ح رماتے ہیں
ق اللہ ابن عثیمین رحمہ ا پھر شیخ
ہوب اولی بباب اور مخلوق میں من تو خالق یہ تباین موجود ہے
چاہیے۔
رماتے ہیں کہ فطرت کی دلیل بھی موجود ہے ،کینکہ دلئل تو دو کی ببات کی تھی شروع
اور پھر تیسری دلیل شیخ صاحب ق
تو پھر خالق اور مخلوق میں میں سمعی اور عقلی دلئل اور فطری دلیل جو ہے کہ فطرت کے اعتبار سے بھی اگر آپ دیکھیں
اممکن ہے کینکہ مخلوق جو ہے وہ اپنی فطرت سے جانتی ہے کہ جس کی وہ عبادت کرتی ہے جس کو وہ پکارتی ہے وہ
ب
لی ت
ث
مي
ا ہے ؟اللہ ہی
ان فطرت سے کس کو پکارب
ا ؟!(۔کینکہ ان
ا تو پھر کیں اسے پکارب
اس جیسا ہو ہی نہیں سکتا )اس کی مثل ہوب
ا ہے)سبحان اللہ(۔ کو پکار
ا ہے عبادت اللہ تعالی ہی کی کرب
ب
کا ماحول ملتا ہے
ا ہے ، یہودی
ا ہے پھر اس کو ماحول جو ہے جیسا ملتا ہے ویسا وہ ہو جاب
ر بچہ مسلمان پیدا ہوبم ہ ا
کینکہ فطرب
کا ملتا ہے
ا ہے ، مجوس
کا ماحول ملتا ہے تو نصرانی بن جاب
، نصران ا ہے
یہودی بن جاب
ث
ا ہے )جیسےحدی
تو مجوسی بن جاب
میں آب ا ہے( ۔ تو اصل بچہ جو پیدا ہو گا اگر اس کو چھوڑ دب ا جائے کوئی تعلیم نہ دیں آپ اس کو)بند کمرے میں بچہ پیدا ہو
ا کس کو ہے وہ ، سو
ا ہے پکارب
ا پینا دیں اور کچھ نہ کہیں اسے( اس کو دیکھیں کہ اس کا دل کس کے ساتھ جڑب
ال ہی اس کو کھاب
ا کہ اللہ تعالی کےسوا کسی کو پکارے وہ !کیں ؟ اپنی فطرت پر ابھی بھی وہ بچہ زندہ ہے اس کی فطرت ابھی
نہیں پیدا ہوب
بھی زندہ ہے اور اپنی فطرت پر قائم ہے وہ )سبحان اللہ(۔
Page 9 of 23
www.AshabulHadith.com
ا لوا سطي ة -15
شرح ا لعقيدة
ان ہے اس کو
ان کے مثل ان
ان جانتا ہے کہ جیسے ان
نہیں پکار سکتا تو دوسری ایسی وجہ کیا ہے ؟ کینکہ فطرت سے بھی ان
ان جیسی ہو ہی نہیں سکتی اور وہ اللہ تعالی ہے۔
ا ہے وہ ان
ذات ہے جسے وہ پکارب
اان تین دلئل
و عقلا وفطرب معااس جو ہے اس کی نفی ہوگئی ہے
لی ت
ث
ہوا کہ مي
بای
ث
، اس سے یہ ب رماتے ہیں
تو شیخ صاحب ق
سے ۔
ہیں جو اللہ تعالی کے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ پھر کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ ہے
ث
رماتے ہیں، بعض ایسی احادی
شیخ صاحب ق
ا ہے کہ اس میں تمثیل ہے ب ا نہیں
ہیں جن میں ہمیں کوئی اشکال پیدا ہو جاب
ث
رمائی ہیں جو صحیح احادی
وآلہ وسلم نے بیان ق
ہے ہم آپ کے سامنے رکھ دیتے ہیں ۔
اللہ تعا -1
ث
کو پہلی حدی
ب اپنے رب
) کہ بے شک تم عنقری رماتے ہیں
ق وآلہ وسلم اللہ علیہ لی کے پیارے پیغمبر صلی
ب )صحابہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ “ ليلة إلبدر دیکھو گے جیسا کہ” یعنی چودہویں کے چاند کو دیکھتے ہو )بے شک عنقری
کو ایسے دیکھو گے جیسے نہیں ہو گی وسلم مخاطب ہیں ( تم اپنے رب
کہ چودہویں کے چاند کو دیکھتے ہو( تمہیں دیکھنے کو دق
ون ف رؤيت ه ” “۔ لا تضام
ہے صحیح بخاری ، مسلم میں ((۔
ث
))یہ متفق علیہ حدی
ك كم ترون إلقمر ليلة ” “ جو ہے تشبیہ کے لیے ہےكما اور اس میں ” ون رب ك ست ن ۔ “ إلبدر إ
اور رماتے ہیں اگر کوئی شخص یہ اعتراض کرے
یہ تو اللہ تعالی کے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں شیخ صاحب ق
پر آپ کیا کہیں گے اس میں تو
ث
رماتے ہیں تو اس حدی
ارا ایمان ہے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قمقاعدہ یہ ہے کہ ہ
آرہی ہے سامنے ؟ تشبیہ
رماتے ہیں ، اس غلط فہمی کا ازالہ ب ا جواب دو طریقوں سے ہے ، ای اجمالی جواب ہے اور دوسرا تفصیلی جواب
شیخ صاحب ق
ہے۔
اگر آپ نوٹ کر لیں یہ جو علمی مسائل ہیں آپ اور سامعین سے ا ہوں حاضرین
))اور میں بھائیوں سے گزارش کرب
س )
ي یس
ببالکل آسان ہیں Common Senseہمیشہ کامن ب اد کرنے کی کوشش کریں تو ( تھوڑاستعمال کریں گے
Page 10 of 23
www.AshabulHadith.com
ا لوا سطي ة -15
شرح ا لعقيدة
اء اللہ آپ کبھی بھولیں گے Repeatای دو دفعہ رپیٹ )
ث
( ہو گا تو اگر آپ تھوڑے سا دھیان کے ساتھ سنیں تو ان ش
نہیں ((۔
مجمل دلیل ہے اور تفصیلی دلیل ہے مجمل سے مراد کیا ہے ؟
کے
ث
ر اس مسئلےکے لیے ہے جس میں یہ یعنی اس حدی
ماور ہ کے لیے
ث
ر حدی
م ذکر کے علاوہ جواب ہے جو اس جیسی ہ
اجمالی جواب ہو جائے گا اس مسئلے کے تعلق سے تمام جو بھی تشبیہ ب ا مماثلت کا کوئی شبہ ہو اگر آپ یہ جواب دے دیں تو
کے تعلق سے تفصیلی جواب ہے ہمیشہ غلط فہمیاں ہیں سب دور کرنے کے لیے اسے کہتے ہیں اجمالی جوا
ث
ب ۔ اسی حدی
ا ہے جو جنرل )
ب اجمالی ہوبب
فک)Generalب اد کھیں ۔ ح سیي یس
ا تو ا ہے ، تفصیلی ہے
اسی چیز کے Specific( ہوب )
ا ہے۔
لیے ہوب
، اللہ تعالی کا کلام اور اللہ تعالی کے رماتے ہیں
پیارے پیغمبر صلی دوسری ببات اب اجمالی جواب کیا ہے سنیں شیخ صاحب ق
اممکن ہے ۔
رمان میں کبھی بھی تعارض ہو ہی نہیں سکتا ب
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ق
﴿اجمالی جواب میں کیا ہے کینکہ یہاں پر کیا ہو رہا ہے ؟ ای طرف سے تو ء
ح له ش
حث
س كحي
نفی ہو رہی ہے ، ﴾ ل
میں
ث
ترون ”اور حدی کنٹراڈکشن ؟ کہ (Generalجنرل )تشبیہ ہو رہی ہے تو سب سے پہلے قاعدہ کیا ہے “ كم
(Contradiction بھی
ث
اور حدی ب اک کلام وحی ہے کا رآن اللہ تعالی
۔ ق ( ہو ہی نہیں سکتا کینکہ دونوں وحی ہیں
ى ﴿ وحی ہے اللہ تعالی کی طرف سے اپنے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر
وه
ح
ال
ع
طق
حني ا
م
Ǽو
حان
حح ي
ح ح
و
ال
و
بھی حق ہے( 4-3)النجم: ﴾ه
ث
رآن بھی حق ہے صحیح حدی
( واضح ہے کینکہ دونوں حق ہیں ) ق
اور حق میں کبھی تعارض ہو نہیں سکتا قاعدہ یہ ہے ۔
رماب ا ہے
﴿ اور اس لیے اللہ تعالی نے قن
ك
حو
لاو
حثي
ك ا
ف
تلاحاخ ه
حفي ا
حو
د
ج
و
ل
الل
حي
غ د
حعن
ح ﴾م
ا )اس میں 82)النساء:
ا تو اس میں اختلاف کثیر آپ کو ضرور نظر آ جاب
( )اگر اللہ تعالی کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوب
وہ جا کو کوئی گمان ہو جائے کوئی شبہ اگر کبھی بھی کسی اور ا((۔
ئے کہ بعض نصوص میں کوئی تعارض اختلاف کثیر ہوب
Page 11 of 23
www.AshabulHadith.com
ا لوا سطي ة -15
شرح ا لعقيدة
ا نہیں
لگتاہے کسی کو تو یہ چار چیزیں ب اد رکھ لیں )کینکہ اصل مسئلہ نصوص میں نہیں ہے وہ تو حق ہیں حق میں تعارض ہوب
ارے اندر ہے((: م ہے مسئلہ کس میں ہے ؟ جس کے اندر یہ شبہ پیدا ہو رہا ہے )ہ
ما لقلة إلعل سب سے پہلے ” -1 کی وجہ سے تعارض نظر آ رہا ہے(۔ )علم کی کمی “إ
ما لقصور إلفهمدوسرا ہے ” -2 )علم تو ہے لیکن سمجھنے میں خلل ہے(۔ “وإ
اور کیا ہے کم علمی کی وجہ سے گا ان کو تعارض نظر آئے
ان میں
))پہلا کیا ہے ؟علم کی نفی ہے علم نہیں ہے ،تو جہال
خلل ہے سمجھ کی کمی ہے((۔“۔ دوسرا علم تو ہے لیکن سمجھ میںلقلة إلعل”
وإلتدبر ” -3 إلبحث ف للتقصير ما ری دلئل اکٹھے کرنے میں کوئی کمی بیشی ہو گئی “وإ
ری اس کی جستجو میں لگ کر م
)م
(۔ ہے
ر میں اس میں غوروفکر کرنے میں کوئی کمی ہو گئی ہے تقصیر ہوا ہے اور اگر آپ اس میں اچھے طریق سے ان بحث اور تدبب
ا ۔ دل
اء اللہ یہ اشکال اور ابہام دور ہو جاب
ث
ئل کو اکٹھا کرتے اور ان کو ای دوسرے کے سامنے رکھ دیتے تو ان ش
ب بھی نہیں کوئی مانتا ” -4
وإلنية اور چوتھا ہے اگر یہ تمام چیزیں موجود ہوں ی إلقصد لسوء ما میں وإ
ب تو پھر ن
“ )ی
ر ہے اس کی(۔
ربب
خلل اور گ
میں
ر میں تعارض صرف آپ کو نظر آ اس کی نمرابی ہےکینکہ ان نصوص کو جمع بھی کر لیا ہے سمجھ بھی آ گیا ہے ظاہ
ج
ب ہم کہتے ہیں کہ علم بھی ہو ب
ہے ہی نہیں اور آپ ماننے کے لیے تیار بھی نہیں ہیں تو پھر کیا بچتا ہے ؟۔ح اا
قيحقیرہا ہے جو
اور جمع بھی کر لیے ہیں سارے نصوص پھر بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہتے ہیں " نہیں گیا ہے سمجھ بھی آ گئی ہے
میں
کا جا کر علاج کروائیں ۔تو ن اس اور کو دیکھیں بھئی اللہ کے لیے
ا ہے " کیا بچتا ہے ؟پھر اپنی ن
آب تعارض لزم
ہے اور نصو
درس
ا ہے کینکہ دو چیزیں ہیں کہ ب ا تو آپ کی ن
اممکن ہے تو خلل لزم آ جاب
ص میں تعارض ہے جو کہ ب
رمائے(۔
میں کھوٹ ہے )سبحان اللہ،اللہ تعالی ہم سب پر رحم ق
دوسری ببات کیا ہے ؟آپ کی ن
رماتے ہیں، پھر دوسرا جواب جو اجمالی جواب ہے جس سے متفرع ہے آگے کہ آب ات جو ہیں وہ دو قسم کے
شیخ صاحب ق
ب ب
بھی ہے ح
ث
امل ہے ( کہ متشابہ ہیں نصوص) اس میں حدی
ث
بھی اس میں من بباب اولی ش
ث
رآن کی تو حدی
ہے ق
آی
Page 12 of 23
www.AshabulHadith.com
ا لوا سطي ة -15
شرح ا لعقيدة
ا ہے اور اس کی دلیل
اب ا جاب
اور محکم ) محکم ہے پہلے پھر متشابہ ہے (۔ اور ہمیشہ قاعدہ کیا ہے ؟ کہ متشابہ کو محکم کی طرف لوب
نمبر
اد ہے 7سورۃ آل عمران آی
ث
﴿میں اللہ تعالی کا ارشو
ب ھ
كت
ح
ال
كحيل ع
ل حن
ا
ذي
)اس نے ہی آپ ﴾ال
رمائی ہے
ق ازل
ب اللہ تعالی نے کتاب رمائی ہے)یعنی
ق ازل
ب وسلم کتاب وآلہ اللہ علیہ اے میرے پیارے پیغمبر صلی پر
رآن مجید اپنے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر((
﴿ قه
حرآن مجید میں سے( ﴾من
﴿ )اسی ق
تي
ا
ت
كح ﴾ م
(
ي کتفر اعتبار سے ہیں((Perfect)آب ات محکمات ہیں)پر
مب ﴿ (آب ات ہیں محکم ہ
كت
ح
ال
ما ن
)وہ اصل ﴾ھ
ا ہے
جاب اب ا
لوب کی طرف اسے کہتے ہیں جس ام اور ﴿آب ات ہیں کتاب کی(۔ ة
اوي
ه
ه
م
اا: ﴾ف
سورۃ (9)القارعۃ جیسے
ائے جائیں گے
ا میں آب ا ہے لوب
جہنم کی طرف )نعوذ بباللہ(۔ القارعۃ
اد ہے
ث
﴿پھر اللہ تعالی کا ارش
تب
ش
ت
ر م
خ
ا)دوسری قسم کی آب ات متشابہ آب ات ہیں(۔اور متشابہ سے مراد یہ ہے ﴾ و
کہ دوسرے نصوص کی ضرورت پڑ جاتی ہے سمجھنے کے لیے، اگر آپ اکیلا دیکھتے ہیں تو ان میں آپ کو کچھ کمی بیشی نظر
ا ہے شبہ پڑ
ا پھر تعارض کا شک پڑ جاب
ا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے آتی ہے سمجھنے میں اس کا معنی مکمل آپ کو سمجھ نہیں آب
جاب
ب اسب
ا ہے۔ لیے ح
کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں جو محکم آب ات ہیں تو اشکال ابہام دور ہو جاب
ری سمجھ کر دوسری آی
آپ م
، اور کی ضرورت نہیں پڑے گی آپ کو ام الکتاب ہیں ان کو سمجھنے کے لیے کسی ببالکل واضح آب ات ہیں محکم کو سمجھنے کی
اکہ معاملہ جو ہے آسان ہو متشابہ آب ات
اور آب ات کا سہارا لینا پڑے گا دیکھنا پڑے گا ب وہ آب ات ہیں جن کو سمجھنے کے لیے
جائے اور سمجھنا بھی آسان ہو جائے ۔
اد ہے
ث
﴿اللہ تعالی کا ارش غ
حي
ز
حبم
حو
ل ق
حف
حذي
ال ا
م
امیں )وہ جن کے دلوں میں کوئی کجی ب ا ٹیڑھا پن ہے دل ﴾ف
رابی ہے بیماری ہے (۔ کیا کرتے ہیں ؟
﴿ کوئی جه
حمن
ه
اب
ش
ت ا
م
ن
حو
بع
ت
ي
))کس کی اتباع کرتے ہیں اور کن ﴾ ف
آب ات کو لے اور متشابہ رمان ہیں ( متشابہ کے پیچھے لگ جاتے ہیں
ب کہ دونوں آب ات ہیں دونوں اللہ تعالی کا قب
آب ات کی ح
﴿لیتے ہیں(۔ کیں؟ء
اتغ
حله اب
حوي
ح ت
ء
اتغ
حاب
و ة
ن
حفت
ح
)فتنہ چاہتے ہیں اصل میں اور اپنی مرضی سے ان کا ﴾ال
Page 13 of 23
www.AshabulHadith.com
ا لوا سطي ة -15
شرح ا لعقيدة
ا چاہتے ہیں(
اویل کر کے بناب
﴿معنی ب الل
ال
ه
لحوي
ح ت
م
لحعي ا
م
اویل معنی ﴾ و
)اور جو اصل معنی اورتفسیر ہے )ب
م ﴿( تفسیر بھی ہے( وہ تو اللہ تعالی بہتر جانتا ہےحعل
ح
ف الن
حو
الرس
))یہ تو تھے پہلی قسم کے کون لوگ تھے جو ﴾ و
ہیں جو لوگ کے قسم دوسری ) ہے بیماری کوئی میں دلوں کے جن ہیں؟ لگتے پیچھے کے ف ﴿ متشابہ ن
حو
الرس
م حعل
ح
قدم ہیں (۔ ان کا طریقہ کیا ہے ؟ ﴾ ال
بای
ث
﴿جو علم میں بن
حو
ل
حو
قبه ﴿ )کہتے ہیں( ﴾ي ا
ن
م
ارا ایمان ﴾ا
م)ہ
ا ﴿ہے ان تمام آب ات پر )متشابہ پر بھی ایمان ہے محکم پر بھی ایمان ہے(( ن ب
د ر
ح عن
ح
م
﴾ك
ارے رب
م)تمام ہ
رق کیا ہے !سبحان اللہ(
آخر إلآية( کی طرف سے ہے) ق لى آ (۔7)آل عمران: إ
رماتے ہیں ”
رماتے ہیں "ويحملون إلمتشابه على إلمحك شیخ صاحب ق
کا طریقہ "إلرإسخون فی إلعل“ )شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ ق
ا دیتے ہیں محکم کی طرف( ”
اکہ تمام نص محکم بباقی رہ جائیں “حتى يبقى إلنص كله محكماا کیا ہے ؟ کہ متشابہ کو لوب
(۔ )ب
یہ ہے اجمالی جواب واضح ہے اجمالی جواب؟ان میں تعارض نہیں ہو سکتا کینکہ دونوں وحی ہیں اور وحی میں تعارض کبھی
ا ہے ؟ )
( قلت الفہم ۲(قلت العلم ہے۔ )۱ہو نہیں سکتا ۔ اگر کسی کو یعنی وہ کون سی وجوہات ہیں جن میں تعارض نظر آب