By. Rev. Elwood Morris Wherry باجوکاسُارواخط · Letter and Reply Published in Nur-i-Afshan October 1873 By. Rev. Elwood Morris Wherry (1843–1927) باجوکاسُارواخط
This document is posted to help you gain knowledge. Please leave a comment to let me know what you think about it! Share it to your friends and learn new things together.
Transcript
Letter and Reply Published in Nur-i-Afshan October 1873
By. Rev. Elwood Morris Wherry (1843–1927)
خط اور اس کا جواب
ما مہتم وب دہ پ د ریرو وی و ح بجناب مخد
ر ہوں ۔ قبول ف
ح امریکن تسلیم عرض کرد
مطب
رفی جواب کی آپ سے بوجہ ئے ا
ی سوال کے ش
ذہے وعلمی کے امید قوذآپکی نہای
ر ہوں ذال
مائیگا یل میں عرض کرد
ں طبع ف می
ہو۔۔ معہ جواب کے اخبار نور افشاں
ب۔ ب دہ پ کور ر ایتی
رءسابق از مسیح علیہ السلاب کے مبعوث ہونیکا عالم اسباب میں علے العموب کیا نتیجہ حضرت آیب ۔سوال ۔۱
علیہ السلاب سے حضرت مسیح بان
ریعہ وحیی
ے کثرت فی الوحدت ی
عن
ی
د ر تثلیث
ذا کی وحدان
تثلیث بتلائی گئی۔ ب تابب سے بوتت اور س بی کی تابب کے بتلائی گئی۔ اور اگربکسی کو خ
اورمقلدونکے اس مسئلہ سے فائیدپ نہ اٹھانے کی وجہ اور اگر سوائے حضرت مسیح علیہ السلا
ب کے کسی بی نے د رتصریح سے بوتت ید ر جائے۔ اس بی کی ام
رگری ونکو یہ مسئلہ تثلیث بتلاد ر
انکے اپنے ش
رگر ب وپ وررت ما ینے اور قین کرنک
س ش مفصل اسباب۔ اور اگر وپ لوگ ا
ی ونکی نجات اور حیات ابدو د رنک
ا
و ربے علم رہے۔ اللهمسئلہ سے مطلق لاعلم رہے۔ ب آد ر من جای قصی
ا عقل د ر
سکا علم نہیں ید ر گیا ب الله۔ اور اگر وپ لوگ منجایبلاعلم رہے۔ اور کسی کو ا
نکے ا
بواسطے ا س خاص وررت میں مستحق نجات ہیںالله و رحم کے قائم رہنے کی اور نجات د رنیکی وررت کہ یراصل وپ ا
پ بدلا قو قویہ تبصر د رک کی عدال
مائیے۔ اور کسی آیمی سے شریعت کی تکمیل ممکن ہو د ر نہیں اور بعد وقوع شہایت مسیح علیہ السلاب کے جن لوگوں نے خو
ری ف
ت مسیح یہالسلسلاب کو حضرارش
کے لیے کفارپ حضرت مسیح کچھ مفید
رہونکا کفارپ قین کیا۔ انکے سوائے کسی اور بی کے مطیع الامر اور ایماندار ام
ر ہ ہے۔ اپنے گ
بد ر نہیں ۔ زد ریپ نیاز ۔ ود
براقم دہ پ احمد حسن محمد و ازمین پورو
ر و سابق از مسیح علیہ
السلاب کے پیدا ہونے کا عالم اسباب میں کیا نتیجہ۔سوال اول۔ ان
ذپ کے اور مخفی
ے ہیں آئ
معن
سکے ر بیوںں د رں د یھنےجواب۔ واضح ہو کہ لفظ بی عبرانی ہے۔ اور ا
ر وق
ذا نے و
کو اور بتلایواالا۔ زمانہ لف میں خ
کریں ۔ اور انکو ذا کی مرضی ظاہ
ر پر خ
رکہ وپ ان
بتلا ر رہے۔ روحانی تعلیم ییویں ۔ یہ لوگ خصوح یہوییوں میں پید بھیجا ۔ د
ا ہوئے اور اکثر انکو راپ را
نکی تعلیم کئی قسم کی تھی ۔ لیکن انکا خاص اور ضرورو کاب )جسکے لیے مبعوث ہوئی( خوخبرییں یہ اور نبوت کر ر رہے۔ اگرچہ ا
ھا کہ نجات کی د ری
رئیں۔ اور لوگو
ح پیداہو ۔۔ ں کو نجات کی خبریں بتلائیں مثلا نجات یہندپ آویگا۔ وپ کو ہو ۔۔ کس قوب سے پیدا ہو ۔۔ کب پیدا ہو ۔سططس
۔ ہاںں ہو ۔۔
ح جا ییگا۔ اور پھر جی اٹھے ۔ اور آسما پر عروج ططس
ر کے واسطے تکلیف اٹھا کر
کیا کیا کاب کریگا۔ اور ان
مائے ۔۔ فسلنے مسیح نے یہوییوں سے ہاں ۔ تم ا
ں تمہارے لیے ہمیشہ کی زندگی ہو اور یہ وہی ہیں جو مجھ پر گواہی ییتے می
ن
ذھتے ہو ۔ کیونکہ تم گما کر ر ہو کہ ا
ہیں یکھو یونا کی اجیل نوشتوں میں ڈھون
سی مضمو پر پطرس حوارو کا کلاب ہے۔ اسکا پہلا د رب ۹۳د رنچواں د رب اور ا
اول بیوںں نے تلاش اور تحقیق ۱۱۔۱۱۔ ۱۱آی
سی نجات کی د ری
ا
۔ آی
بکی۔
ن
ہونیکو تھی۔ وپ اسکے تحقیق میں تھے کہ مسیح کی رو جو ا س نعمت کی پیشین گوئی کی۔ جو تم پر ظاہ
مسیح کے یکھونکے اور جنھوں نے ا
ں تھی۔
می
ہوااسکے بعد جلال کے آگے گواہی ییتی تھی کسوق یہ ظاہ
ح کے زمانہ کا بیا کر ر تھے۔ سوانططس
کے لیے اور
ذم
ررو خ کہ یے نہ اپنے بلکہ ہ
بجا میں کہتے تھے جنکی خبر ہمکو انکی معرفت ملی۔
گواہی ییں۔ اور ہے کہ زمانہ لف میں جو بی ہوئے انکے پیدا ہونیکا یہ نتیجہ ھا ۔ کہ وپ مسیح ہ
آد رت سے حف ظاہ
کریں ۔ اور اب ا
سکا حال ظاہ
س بیا پر ر چالوگوں کو اسکے زریعہ سے نجات حاصل ہونیکی خبر ییں ۔ سمجھنے کے لیے ا
ذاوند سوعع مسیح کےگود ر ورر غور کرد
تھے۔ اسکی بہیے کہ یے خ
ں باریخ انہوں نے الہاب سے معلوب کر کے لکھی۔ بعض بیوںں کی تاببوں میں مسیح کی نسبت اسقدر پیشین می
ن
گوئی یرج ہے کہ وپ اجیل بی لاتے ر ہیں ۔ ا
ذپ کے ہے اور حواریو کا نسبت بہ واقعات گزشتہ لیکن مطلب
ق ہے کہ انکا بیا نسبت واقعات آئ
ب ی ای ہے۔ اور حواریوں میں صر ف اتنا ہی ف
ے ۔سوال۔۱
عن
ی
ر تثلیث
د
ذاکی وحدان
کسی کو خ
ریعہ وحی بتلا ئی گئی۔ د ر نہیں ۔ اور اگر نہیں کثرت فی الو حضرت آیب سے حضرت مسیح ی
حدت ی
ذا کی کیا کیفیت اور الوہیت بتلائی گئی۔ اور اگر تثلیث بتائی گئی ب تابب سے بوتت۔
ببتلائی گئی بخ
اور تثلیث کو ضد خیال
ذا کی وحدان
سمیں خطقدذر غلط فہمی ہوئی ہے۔ کیونکہ ا
سس سوال میں
ذا کو کیا جواب ۔ ا
ہے ۔ سائیئی خ
ر یر
گیاہے یہ د
ے د رپ بیٹا رو القدس یہ تینواحد مانتے ہیں۔ ا
عن
ی
ذا میں تین اقنوب ہیں ۔
ذا ای ہے۔ لیکن اس واحد خ
ے ور قین رکھتے ہیں کہ خ
عن
ی
ذا ہے۔
ے ای خکے اقنوب
ر
ذا کی زات جو واحد ہے اسمیں کثرت ہے۔ اور ایسا ہی برات اور ییگر ان
بخ
ذا کی وحدان
گ ہ صرف یو ء کی می میں ر ہے ہے ۔ خج کا ہت گہ بیا ہے ا
ی ارپ بی کیب۴آیتیں پیش کی جاتی ہیں ۔ یکھو ورسے کی د رنچویں تابب کے چٹھے د رب کی طعی
ذاوند ہے ۔ اور
ذا کیا خ
ررا خ ذاوند ہ
لے اے اسرا قو خ
س
۔آی
ذاوند ہوں اور کوئی نہیں ۴د رب کی ۴۴
کہ میں ہی خ
ہےآی
ری
د
ذا کی وحدان
آد رت سےخذاوند نہیں۔ا
ب۔ ۔ میرے سوا کوئی خ
ر ہے یکھو
ر کو اپنی ۱۲ تابب پیدا لا ب د رب اب اسکی زات واحد میں کثرت کے ورجوی ہونیکا بوتت ید ر جاد
ذا نے ہاں کہ ہم ان
خ
۔ ی
۔ آی
ر نیک و بد کی پہچا میں ہم میں سے ای کی مانند ہوگیا۔ گیا۱۱سیرت اور اپنی مانند بناویں۔ تیسرا د رب
ذاوند نے ہاں کہ یکھو ان
اور خ
رپ د رب ۔ آی
۷
یں اور انکی آی
ذاوند نے ہاں آؤ ہم ای
ی ارپ بی کیخطعی
رکہ یے ای یوسرے کی د رت سمجھیں
ں بی ۸د رب ۲ تابب بولی میں اختلاف ڈالیں د میج س
آی
ررو طرف سے کو جاویگا۔ و بھیجوں ۔ اور ہ
س س
۔جو بولا۔ کہ میں
ذاوند کی آواز سن
میں نے خ
سوقر ہے ۔ ا
ماد
بف
ل ہوا ہے ۔ جو جمع کے لیے بومع
طبم
میں ہم کا لفظ
آیتیونکے الفاظ اور انکے ضمائیرکی طرف بجہ کر یو پہلی آی
ا
ر ہے۔ اور یوسرو آی
لا جاد
ذا کی زات میں کثر
کے یہ الفاظ ۔ ہم میں سے ای کی مانند ہو گیا کس صفائی سے بیا کر ر ہیں خ
و شبہ کی اور کچھ شک ت ہےمیں بھی ۔ لیکن یوسرو آی
بگہ نہیں رہتی۔
سکے آؤ کے لفظ سے معلوبل ہوا ہے لیکن سواء ا
مع
طبم
میں بھی جمع کا لفظ
س آی
یں ا
میں ہے۔ آؤ ہم ای
ر ہے کہ وپ کسی کو اور تیسرو آی
ہود
س کی زات کا ضرور یوسرا اقنوب ہے۔ بخطاب کر رہا ہے۔ وپ ا
و بھیجوس س
میں ہے کہ میں
س میں سواضمائیر کے طرزکلاب سےں چوتھی آی
ررو طرف سے کو جاوے ۔ ا
ذا کی اور ہ
ر ہے کہ خ
فہومب ہود
ذا کی زات میں کثرت ہے۔
ہے کہ خ بزات میں کثرت فی الوحدت آد رت صدر سے بخوبی ظاہ
ر ہے کہ اسکی زات میں تثلیث ہی ہے۔ اور اسکی زات میں تین ہی اقنوب ہیں ۔ یہ بیا یوں ہے
د ع یق ک کی تاببوں پھراب اس امر کا بیا کیا جاد
ر ہے کہ مسیح جو نجات یہندپ ہوکے ینیا میں پیدا ہوگیااس میں الوہیت ہے یکھو
وی یو۱۱۱سے حف معلوب ہود میں یا
ذاوند نےزبور پہلی آی
ں ہتا ہے ۔ خ
ماد ر کہ ب میرےیہنیں ہاتھ بیٹھ۔
ذاوند کو ف
ذا ابد الا ۷۔۲زبور ۴۴میرے خ
۔ تیرا تخت اے خ
عصا ہے۔ ب ہے تیرو سلطنت کا عصا راستی کاد ری اآی
ذا نے تجھے خوشی کے تیل سے تیرے مصاحبو
ذا تیرے خ
س س خ اور شرارت کا یشمن ہے۔ ا
کا یو
ں سے زد ریپ مسح کیا ہے۔ ا یو آیتوں صداق
ر ہے کہ مسیح میں الوہیت تھی۔
س سے معلوب ہودو مسح کیا ۔ ا
ھ ج
ن
ذا نے
ذا تیرے خ
ذا امیں مسیح کی نسبت یوں لکھا ہے ۔ اے خ
آد رت میں خور واضح ہو کہ ا
جمہ ہے جو عبرانی لفظ ہے۔اور یہویاپ کا لفظ اور کسی پرسو
ذا کے استعمال نہیں کیا جالفظ یہویاپ کا ی
ر۔ ائے خ
بد
ی ار بی کی تابب نبوت طعی
ر اور ہمکو ای بیٹا بخشاگیا اور سلطنت اسکے کا ندھے ۲د رب ۳پھر یکھو
ررے لیے ای لڑکا بلد ہود ہ
۔ اور آی
پر ہوئ
رب سے
س د ہے کہ نجات یہندپ )جسکیوپ ا
ذا قایر اسی سے حف ظاہ
ر ہے۔ عجیب مشیر خ
ی ار نسبت نبوتلاتےدطعی
۱۴د رب ۷ہے( اسمیں الوہیت ہوگی۔
ررے ساتھ ۔ ذا ہ
ے خ
عن
ی
رب عمانو قو ہو۔
یکھو ای کنوارو حاملہ ہوگی۔ اور بیٹ جنے گی۔ اور اسکا د
بآی
ہے کہ نجات ینے والا جو پیدا ہو ۔۔ ا
س سے ظاہ
ذا ی یاہپ بی کی تابب وپ الوہیت رکہے ۔۔ کیونکہ وپ عمانو قو لاتےویگا
ر میں خ
ے ہیں ان
معن
یونوں میں یہویاپ نجات د رویگا اور ۲د رب ۱۹۔ جسکے
آی
رب رکھاجاویگا
سکا د کریگا۔ اور ا
جمہ ہے اسرا قو سلامتی سے سکوی
ذاوند )جو یہویاپ کا ی
لفظ خ
ررو صداق ذاوند ہ
ر ہے خ
ذا پر اسکا الاقق ہود
۔ اور صرف خ
ر ہے کہ اسمیں الوہیت تھی۔ مسیح کی
کرد گ ہ آد ر ۔ اور ظاہ
جببنسبت ا
ہے۔ کہ رو القدس میں بھی الوہیت ہے۔ ورسی کی پہلی یوسرا برات ر سے حف ظاہ
ذا ۱ب پہلا د رب تاب اور می ان
اور ابتدا میں خ
آی
ذا کی صفت ہے ( رو القدس کی نسبت بیا ہو و
۷زبور ۱۹۳کی رو د ریواں پر جنبش کرتی تھی ۔ یہاں ازلیت ) جو خ
تیرو رو سے میں کدھر آی
ھ جاؤں ب ب وہا
ں۔ اگر میں پتاجاؤں اور تیرو حضورو سے میں ہاںں بھاگوں ۔ اگر میں آسما کے اوپر چ
ل میں انا ستر چھاؤؤں ب یکھ ب وہاں بھی ہے۔ ا
ذا کی صفت ہے(
ر )جو صرف خ
گہ ورجوی ہود اسنے اپنی رو سے آسمانوں کو آرائیش ۱۹د رب ۱۲بیا ہوا ایوب کی تابب آد رت میں رو القدس کا ہ
آی
ر بیا کیا گیا ہے۔
گ ہ رو القدس کا خالق ہودج
ی اربی یو ہے۔ اطعی
یی آؤ۔ ۱۲د رب ۴۸
۔ تم میرے ی
ے شروع ہی سے پوشیدگی میںآی
ن کی کچھ اور سنو
ذاوند تیرا نجات ینے
ذاوند یہویاپ نے اور اسکی رو نے مجھے بھیجا ہے۔ خ
سے کہ وپ ھا ۔ میں وہیں ھا ۔ اور اب خ
الا اسرا قو کا قدوس ونہیں ہاں۔ جسوق
میں
س آی
ر ہے۔ ا
ماد
س کے اور یوں ف ہے۔ سوا ا
ری
ذا اوراس کی رو سے د
ررپ اور بیا آد رت بھیبی کا بھیجنا خ
بکثرت ہیں ۔ جن میں میں تثلیث کا اش
سی پر اکتفا کر ر ہیں۔ کیونکہ بوتت کے طور پر یہی کافی ہیں۔ ببہے۔ پر ہم ا
ہوا۔ اور اسکا بوتد ری رکھنا چاہیے کہ تثلیث کا پورا اور حف بیا مسیح کے آنے سے لو الہاب ت بکثرت اجیل سے ید ر جاتا ہے۔ گوں پر ظاہ
ر ہے پھر اس سے زد ریپ جوں جو
تھوڑا اور یھیماہود
رپش اور جلوپ صبح کیوق
ر ہے سورج ں نجات کی نسبت سورج کی روشنی کی مانند ہے۔ جسکی د
ھتا جاد
ی ی
کمالیت کو پہنچ جاتی ہے۔
ذا کیکی روشنی بھی تیز ہوتی جاتی ہے اور یوپہر ی
سی طر الہاب کا حال ہے۔ خرت اور نجات ینے والے کا احوال ب ا
زات اور
جیلر اھ
رء میں اس سے زد ریپ ہے۔ اور سے ی
تھوڑا ہے۔ رفتہ رفتہ می ان
ر ہے۔ میںرات میں نہای
رزو کا سورج لاتےد
براس
ذپ ۔ سوال۔۹ اور مقلدونکےاس مسئلہ سے فان
ب اٹھانے کی وجہ۔ نہس بی کی تابب میں تثلیث کا زکر ہے اسکی ام
ببیا ہے۔اور کثرت فی الوحدت کا جواب۔ پیشتر لکھا گیا کہ د ع یق ک کی تاببوں میں تثلیث ر ہے۔ ا
ں د رد ر جاد می
ن
ر ہے کہ زکر ا
س سے معلوب ہود
س مسئلہ کی خبر ہو گی۔کیونکہ کو ضرور ا
باور انکی تعلیم میں ھا ۔ س تابب پر وپ اعتقای رکھتے ہیں اس میں یہ امر مندرج ھا ۔ا کی ام
ررپ ہے۔ گو اسقدر صفائی سے نہیں جیسا کہ اجیل میں
س کا اشس کا س یہ اور نیز بعض بعض یہویو عالمو ں کی تاببوں میں جو ورجوی ہیں گہ گہ ا
ہے۔ اور ا
بکہ ا کو پورو صفائی سے خبر نہیں تھی۔ ھا
رگری وں کو کسی بی نے ۔سوال۔ ۴
ر ح اپنے ش
ض
لنرگریوں کی نجات اور ینے اور قین د ر ب یروررت ما یہ مسئلہ تثلیث بتلاد ر
کرنے کے ا کے ش
بحیات ابدو د رنے مفصل اسباب۔
ر ہے۔ پیشتریہ
طقدذر سمجھا گیا اسکا جواب لکھا جادج رہم
ر سا قو سمجھا نہیں گیا لیکن دمی
ل ض
بیا کر ید ر گیا بیوںں نے گہ سوال ۔ ہل ہی اچھی طر مافی ا
ر ہے۔ گہ تثلیث
رگریوں کہ خبر تھی ۔ اور واضح ہو کہ صرف تثلیثکا بیا کیا۔ اور اس سے یہ معلوب ہود
عتقایکرنے سے نجات ممکن پر اکہ انکے ش
ذا کی زات کا بیا ہے مسیح پر ایما نہیں
ررو نجات ممکن ہے اوراسکےب۔ بلکہ تثلیث ب صرف خ ررو لانے سے ہ
نجات ہے کفارپ پر قین کرنے سے ہ
کی تعلیم ہے کہ
رب کے اور کسی یوسرے سے نجات نہیں کیونکہ آسما کے تلے آیمیوں کو مائ
رب بخشا نہیں گیا۔ س سے سوائے مسیح کے د
کوئی یوسرا د
ق صرف اسقدر ہے کہ د ع ہم نجات د ر سکیں ۔ یہ اورل
یق ک میں جو لوگ ہوئے وپ نجات کا نہ صرف اجیل میں ہے بلکہ د ع یق ک میں بھی یہی ھا ۔ ف
ذ کے اس مسیح پر جو آچکا ذن ے ایما کےہے ۔ لیکن یو نو د ع آیواالے مسیح پر ایما رکھتے تھے۔ اور د ع خ
عن
ی
لوگونکے نجات کا طرق صرف ای ہی ہے ۔
ذاوند سوعع مسیح اور اسکے کفارپ ۔
بخ
س مسئلہ سے لاعلم رہے۔ ب اد رمن ۔سوال۔۴ ااگر وپ لوگ ا
االلهب جای
و ر عقل ۔ اگر من جای قصی
ر برہے ب انکی نجات کی وررت۔ اللهسے د
سکے جواب کی ضرورت نہیں کیونکہ پیشتر لکھاجاچکا۔ کہ بوپ لاعلم نہیں رہے۔ جواب۔ ا
یسے شریعت ۔سوال۔ کسی آیمی ۲
لہ
کی تکمیل ممکن ہے د ر نہیں۔ ا
کی تعلیم یہ ہے کہ شریعت کی مذجواب۔ سائیئی
ذا کے جا پورو تعمیل کسی آیمی سے نہیں ہوسکتیہ
ر خ
بجا اجیل میں بیا ہے کہ ل ان
نہیں ۔ے
ن
ی
یطم
س کلاب سے کوئی شخص ھگارر ہیں۔ ا
گبرپ سے خالی حضور
میں آکر صرف مسیح گ
رن
کوئی ۱۱د رب ۹ رہا ۔ یکھو رومیوں کا خط جامہ ان
آی
رز نہیں ۔ ای بھی نہیں ۔ کوئی سمجھنے
براس
ذا کا نہل نہیں۔ ہیاپ ہیں۔ کے
ے ہیں ۔ کوئی نیکوکار نہیں۔ ای بھی نہیں۔ والا نہیں۔ کوئی خم
سی مضمو پر لو ۴۹بزبور اور۱۴ا
ذا پر
ے ییندار اور خ
ے ی
ای زمانہ کے ی ر ہے چنانچہ ہ
)جنکی تماب گ زبورکی گواہی ہے۔ اور ایسا تجربہ سےد رد ر جاد
ارو ہیں کہ ہم گنہگار ہیں۔ یکھو زند
رزو میں بسر ہوئی( اف
ذا اپنی رحم یلی کے مطا۴۱گی د رکیزگی اور راس
ر ہے۔ اے خ
ماد
وی پیغمبر یوں فں یا میج س
بقزبور
ائی سے مجھے خوب یھو اور میرو خطا سے مجھےبمجھرپ مٹا یے۔ میرو ی
رہوں پرشفقت یو۔ اپنی رحمتونکی کثرت کے مطابق میرے گ
د رک کر۔ میں اپنے گ
رپ کیا ہے۔کو ما لیتا ہوں۔
میں وررت بدو کی ہے۔ یکھ میں نے ی ائی ا ہی سزااور تیر ے اور میرے خطا ہمیشہ میرے سامنےہیں۔ میں نے تیرا ہی گ
رپ کے ساتھ میرو ماں نے پیٹ میں لیا۔ یکھ ب اندر کی سچائی چاہتا ہے
بپکڑو اور گ
جم
رئی سکھلا۔ زوفہ سے مجھے د رک کر۔ سو د رطن میں
و یادھ
کہ میں حف
ائی مٹارپ سے چشم پوشی کر۔ اور میرو سارو ی
و یھو۔ کہ میں ی ف سے زد ریپ سفید ہوجاؤں ۔ میرے گھ جم
ذا میرے اندر ای د رک ڈ ہوجاؤں ۔
ال۔ اے خ
۔ ۔ زبور میں وپ یوں ہتا ہے کہ اپنی بھول چوکوں کو کو جا تا ہے۱۳پھر یل پیدا کر۔ اور ای مستقیم رو میرے د رطن میں نئے سر سی ڈال وغیرپ۔
ذا ب مجھ کو کناپ پنہانی سے
۔ منے شرارت کی۔ منے ہے کہ منے خطا کی۔ کہ منے بدکارو کید رب میں اپنی تابب کے یوں ہتا ۳د رک کر۔ اور یانیال بی اے خ
ذا کی آواز سے
ذاوند اپنے خ
گز خ ررے لیے ہے ہم ہ
ذاوند زریورو ہ
نواا بغاوت کی۔ کہ منے تیرے حکموں اور تیرو سنتوں سے عدول کیا۔ اے خ
ار بیوںں کی معرفتنہوئے۔
ذم
وغیرپ ۔ پوکہ اسکی شریعتوں پر جنھیں اسنے اپنے خ
ں ل ےی
کیا ۔ رز و اور نیکی میں شہورر ھا اپنی ظاہ
لوس رسول جو راس
ر اور میں اب کی د رت د ر لکل پسند کے لائق ہے کہ مسیح ینیا میں گنہگارونکے بچانے کو آد
میں زد ریپ گنہگار ہوں۔ بکہ ینیا نسبت یوں ہتا ہے ۔ کہ یہ ید ری
رہوں میں گرفتار ہیں(کیاکے ایسے د رکباز اور نیک
واسطے ہمکو آیمی اپنی نسبت یوں کہتے ہیں ب عاب لوگونکا )جو کہ علانیہ گ
س د رت کے یصلے کرنک ھکاننہ۔ ا
ذا کے کلا۱د ری رکھناچاہیے ۔ )
ذا نے پیدا کیا ھا اسمیں نہیں رہا خ
میں اسے خ
ے س حال
عن
ی
میں نہیں ہے
ر اپنی زاتی حال
ر ہے کہ ب سے(کہ ان
معلوب ہود
ے
عن
ی
ذا کی شکل پر بناد ر گیا ھا ۔
ر خ
رز د رکیزگی اور راستی سے معمور اور گنہ مترپ ہےان
ذا د رک اور راس
ر ھا لیکن تھوڑے عرصے بعد جیسا خ
۔ ویسا ہی پہلا ان
سےجوراستی اور
رپ کے پھندے میں پھنس گیا اور اپنی اصلی حال
میں آکر گ ی
سے ل خو شیطا کے یاب ف
تھی یور جا ڑاا۔ ی
شی کی حال
پ قائم ہوگئی
رپ کی گ
رنکےیلوں میں گ
ب۔ان
رپ کیا۔اور اسی کی سی طبیعت اور اسی کی سی زات رکھتےبکیونکہ اس
ےابتدا میں گ
سی
ج
ر کی اولای میں سے ہیں
وی پیغمبر انزبور ۴۸ ہیں ۔ اسی لیے یا
ر ہے ۔ اہل شرارت
ماد
ہے۔ وے وے پیدا ہو ر ہی بھٹک جا ر ہیں اور جھوٹ بولتےرحم سے بیگانہ ہو ر ہیں ۔ میں یوں ف کا سازہ
سای ہیں ۔انکا زہ
میں رہتا ب بے شک شریعت کی تکمیل
ر اپنی ابتدا ئی حال
رگ کی مانند ہیں جو اپنے کا کو دہ کر رکھتے ہیں اگر ان
میں اس بہر پ د
کر تا ۔ چونکہ اس حال
کر گیا ب اسکے لیے شریعت کی تکمیل نہیں
رپ ای
ذاوند رہا بلکہ زاتی اور طبعی ی ائی میں پھنس گیا۔ اور اس کی خلقت میں ہی گ
سی لیے مسیح خرممکن ہے اور ا
ر د
کرد
کو یکھ نہیں تا ۔ اگر آیمی د رنی
رہ
ذا کی د ریش
میں ا ہتا ہے کہ میں سچ ہتا ہوں اگر کوئی سرنوپیدا نہو ب وپ خ
رہ
ذا کی د ریش
ور رو سے پیدا نہووے ب خ
ر منا ہے یہ ہے کہ شریعت کے یو حصے ہیں ای لفظی یوسرے معنوو لفظی معنونکے مطا۱)یاخل نہیں ہو تا ۔
بق شریعت کی (د رت س پر غور کرد
ہیں ۔ مثلا
ر ہیں جو کر سکت
ر کے لیے محال نہیں ہے بلکہ ایسے ہت ان
ران
ر کی طرف مائل نہیں ا تعمیل کرد
یسے ہت اشخاص ہیں جو چورو نہیں کر ر زد
بہو ر قتل کا ارتکاب نہیں کر ر ۔ اور احکاسے
معن
نکے ا روحانی اکاردہ ہو ر ہیں لیکن اگر ا
سے ب شریعت پر ظاہ
ح ف خیال کیا جاوے ب کوئی شخص ا
ن ط
ذاو
ے الزاب چورو وغیرپ سے ی و نہیں رپ تا مسیح خ
عن
ی
چکے ہو کہ اگلوں سے ہاں گیا
ر ہے کہ تم س
ماد
ند ف
کر۔ اور جو کوئی خو کرئے وپ عدال
ب خو م
ب
غ میںمیں سزا کے لائق ہو۔۔ پر میں تمہیں ہتا ہوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر بےس
ر ص ہو عدال
ہو۔۔ تم ن چکے ہو اگلوں سے ہاںگیا۔زد سزا کے قال
کر۔ پر میں تمہیں
رکر چکا م
ر ہے کہ ہتا ہوں کہ جو کوئی شہوت سےکسی عورت پر نگاپ کرے۔ وپ اپنے یل میں اسکے ساتھ زد
س سے حف معلوب ہود۔ ا
سے بھی تعلق رکھتے ہیں واضح
ررے یل کی حال کر ر ہیں بلکہ ہ
و کاورں پر ای ررے ظاہ
ذا یل اور گریوں کا ہوشریعت کے احکاب نہ صرف ہ
کہ خ
رپ اور شرمندگیجانچنے وا
رپ کا مرتکب نہووے ب وپ ینیا کی نظر میں گ
ے گ
ھنم
اخلقت کے سا و سے ی و خیال کیا لا۔ اور عالم الغیب ہے اگر کوئی ظاہ