Top Banner
آﺗش ﭘﺎرے ﺳﻌﺎدت ﺣﺴﻦ ﻣﻨﭩﻮ
79

Atish Paray

Jul 23, 2015

Download

Documents

Alyas Gondal
Welcome message from author
This document is posted to help you gain knowledge. Please leave a comment to let me know what you think about it! Share it to your friends and learn new things together.
Transcript
Page 1: Atish Paray

آتش پارے

سعادت حسن منٹو

Page 2: Atish Paray

یہ افسانے دبی ہوئی چنگاریاں ہیں، ان کو شعلوں میں تبدیل کرنا پڑھنے والوں کا کام ہے۔

ء1936جنوری 5امرتسر

سعادت حسن منٹو

Page 3: Atish Paray

فہرست

1.............................................................................................آتش پارے4..........................................................................................تھوک یخون

13..........................................................................................انقالب پسند24......................................................................................صاحب ایآ یج

32.............................................................................................ریگ یماہ41..................................................................................................تماشا

49....................................................................................طاقت کا امتحان58.........................................................................................شاعر وانہید

68................................................................................................یچور

Page 4: Atish Paray

خونی تھوکگاڑی آنے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی۔

ادھر مسافروں کے گروہ کے گروہ پلیٹ فارم کے سنگین سینے کو روندتے ہوئےسے تیر پھل بیچنے والی گاڑیاں ربڑ ٹائر پہیوں پر خاموشیادھر گھوم رہے تھے۔

ایک رہی تھیں۔ بجلی کے سینکڑوں قمقمے اپنی نہ جھپکنے والی آنکھوں سےدوسرے کو ٹکٹکی لگائے دیکھ رہے تھے۔ برقی پنکھے سرد آہوں کی صورت میں

پہلو اپنی ہوا پلیٹ فارم کی گدلی فضا میں بکھیر رہے تھے۔ دور ریل کی پٹری کےمشاہدہ کر میں ایک لیمپ اپنی سرخ نگاہوں سے مسافروں کی آمد و رفت کا بغور

کے شور میں رہا تھا۔۔۔۔۔پلیٹ فارم کی فضا سگریٹ کے تند دھوئیں اور مسافروںلپٹی ہوئی تھی۔

پر بیٹھے اپنی پلیٹ فارم پر ہر ایک شخص اپنی اپنی دھن میں مست تھا۔ تین چار بنچمعلوم کن خیاالت کا تذکرہ کر رہے تھے۔ ایک گھڑی کے نیچے خداہونے والی سیر

ہوا جوڑا ہنس ہنس کر باتیں میں غرق زیر لب گنگنا رہا تھا۔ دور کونے میں نیا بیاہاکہہ رہا تھا۔ وہ شرما کر مسکرا کے لیے کر رہا تھا۔ خاوند اپنی بیوی کو کچھ کھانےنوجوان قلیوں کے ساتھ لڑکھڑا کر ایک دیتی تھی، پلیٹ فارم کے دوسرے سرے پر

اٹھائے ہوئے تھے۔ پانچ چھ فوجی گورے ہاتھ چل رہا تھا، جو اسکی بہن کا تابوتہوئے ریفرشمنٹ روم سے شراب پی کر نکل میں چھڑیاں لئے اور سیٹی بجاتے

وقت ٹالنے کی خاطر یونہی کتابوں کو الٹ رہے تھے۔ بک سٹال پر چند مسافر اپناسے قلی سرخ وردیاں پہنے گاڑی کی میں مشغول تھے۔ بہت پلٹ کر دیکھنے

رہے تھے۔۔۔۔۔۔ریفرشمنٹ روم کے اندر روشنی کا امید بھری نگاہوں سے انتظار کراں اڑا کر وقت کاٹنے کی وکا دھایک صاحب انگریزی لباس زیب تن کئے سگار

کوشش کر رہے تھے۔ "قلیوں کی زندگی گدھوں سے بھی بدتر ہے۔" "اں کیا کریں آخر پیٹ کہاں سے پالیں؟مگر می" "ا؟ہو گایک قلی دن بھر میں کتنا کما لیتا " "یہی آٹھ دس آنے۔۔۔۔۔۔۔۔"

Page 5: Atish Paray

کر ان کا منہ یعنی صرف جینے کا سہارا۔۔۔۔۔۔اور اگر بال بچے ہوں تو اپنا پیٹ کاٹ" میرے دماغ میں آبھریں۔ جب ان لوگوں کی تاریک زندگی کا خیال ایک دفعہ بھی

نام نہاد تہذیب پر بدنما ائے تو پہروں سوچتا رہتا ہوں کہ آیا ان کی مصیبت ہماریج "داغ نہیں ہے؟

دو دوست پلیٹ فارم پر ٹہلتے ہوئے آپس میں باتیں کر رہے تھے۔لگا۔ خالد اپنے دوست کی گفتگو سن کر قدرے متعجب ہوا اور مسکرا کر کہنے

ہے۔۔۔۔۔۔انسانیت کے ۔تہذیب کس بال کا نامکیوں میاں یہ لینن کب سے بنے تم؟۔۔۔۔۔"جانتے ہو میں پہلے ہی سرد لوہے پر جما ہؤا زنگ۔۔۔۔۔۔جانے دو ایسی باتوں کو،

"سے اپنے حواس کھوئے بیٹھا ہوں۔ہیں۔ دو روز خالد، سچ کہہ رہے ہو۔ یہ باتیں واقعی دماغ کو درہم برہم کر دیتی"

لگ جانے کی مزدور کارخانے میں آگ ہوئے اخبار میں ایک خبر پڑھی کہ پندرہتھا، مالک کو ئے۔ کارخانہ بیمہ شدہہو گوجہ سے جلے ہوئے کاغذ کے مانند راکھ

ہو کتنے بچے یتیم روپیہ مل گیا۔ مگر پندرہ عورتیں بیوہ بن گئیں اور خدا معلومکر گاڑی تلے آئے۔ کل تین نمبر پلیٹ فارم پر ایک خاکروب کام کرتے کرتےگ

ہے، طبیعت سخت کسی نے آنسو تک نہ بہایا۔۔۔۔۔۔جب سے یہ واقع دیکھا مرگیا۔جب دیکھو اس مغموم ہے۔ یقین جانو، حلق سے روٹی کا لقمہ نیچے نہیں اترتا،

گھور رہی خاکروب کی خون میں لتھڑی ہوئی الش آنکھیں باہر نکالے میری طرفکچھ ے بچوں کیہے۔۔۔۔۔۔مجھے اس کے گھر ضرور جانا چاہئے، شاید میں اس ک

"مدد کر سکوں۔جاؤ۔۔۔۔۔۔پندرہ مزدوروں کی "خالد مسکرایا اور اپنے دوست کا ہاتھ دبا کر کہنے لگا۔

مبارک جذبہ ہے مگر اس کے بیکس بیویوں کی بھی مدد کرو، یہ ایک نیک اورآباد ہیں، جنھیں ایک وقت ساتھ ہی شہر سے کچھ فاصلے پر چند ایسے لوگ بھی

گلیوں میں ایسے بچے بھی روٹی کا نصف ٹکڑا بھی میسر نہیں۔ سوکھیکے لیے سینکڑوں عورتیں موجود ہیں ہیں جن کے سروں پر کوئی پیار دینے واال نہیں، ایسی

ہے۔۔۔۔۔۔۔۔بتاؤ تم کس کس کی مدد کرو جن کا حسن غربت کے کیچڑ میں گل سڑ رہا۔۔۔۔۔۔۔۔ہزاروں کس کی مٹھی بھرو گے؟گے؟ ان پھیلے ہوئے ہاتھوں میں سے کس

"کرو گے؟ننگے جسموں میں سے کتنوں کی ستر پوشیکو کس آہ، درست کہتے ہو خالد۔۔۔۔درست کہتے ہو، مگر بتاؤ اس تاریک آندھی"

دیکھنا، طرح روکا جا سکتا ہے؟ اپنے ہم جنس افراد کو ذلت کی زندگی بسر کرتے

Page 6: Atish Paray

ا۔۔۔۔۔۔۔۔سخت بھیانک دیکھنننگے سینوں پر چمکتے ہوئے بوٹوں کی ٹھوکریں کھاتے "خواب ہے۔

طاقت کے باوجود واقعات کی رفتار کا نتیجہ دیکھنے کا انتظار کرو، یہ لوگ اپنی"سکھا دیا اس طوفان کو نہیں روکتے۔ خود اعتمادی نے انہیں برداشت کرنا

پیدا کرنا بہت ہے۔۔۔۔۔چنگاریوں کو شعلوں میں تبدیل کرنا آسان ہے مگر چنگاری کازندگی میں ہی مصائب ۔۔۔۔بہرحال تمھیں امید رکھنی چاہئے شاید تمھاریمشکل ہے۔

"ائیں۔ہو جکے یہ بادل دور اپنی زندگی کے بقایا سال نذر کرنے کو تیار کے لیے میں یہ سہانا وقت دیکھنے "

"ہوں۔گاڑی آج کچھ کاش یہی خیال باقی لوگوں کے دلوں میں بھی موجود ہوتا۔۔۔۔۔مگر یار"

نشان تک نظر نہیں تی معلوم ہوتی ہے۔ دیکھو نا پٹڑی پر روشنی کا نام ودیر سے آ "آتا۔

دوست کے ے اس نے اپنےاس لیخالد کا ساتھی کسی گہری فکر میں غوطہ زن تھا۔ لگا۔ کے کہنے آخری الفاظ بالکل نہ سنے۔ اور اگر سنے تو کچھ اور خیال کر

"۔۔۔۔واقعی یہ خیال پیدا کرنا چائیے اور اگر۔۔۔۔۔"خالد " چھوڑو میاں اب اس فلسفے کو۔۔۔۔۔کچھ پتا بھی ہے، گاڑی کب آنے والی ہے؟"

نے اپنے دوست کو بازو سے پکڑتے ہوئے کہا۔نو بج کر "اور پھر سامنے والی گھڑی کی طرف نگاہ اٹھا کر بوال۔" گاڑی۔۔۔۔۔۔"

دوست ئے گی۔۔۔۔۔یعنی دس منٹ کے بعد ہماراآ جاپچیس منٹ، بس دس منٹ تک گفتگو کی ا۔۔۔۔۔۔ذرا خیال تو کرو، میں وحید کی آمد کو اس دردناکہو گہمارے پاس

"وجہ سے بالکل بھول چکا تھا۔یہ کہتے ہوئے خالد کے دوست نے جیب سے سگریٹ نکال کر سلگانا شروع کیا۔

سے ادھر پلیٹ فارم پر لوگوں کا ہجوم تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ مسافر بڑی سرعتکے ھاگ رہے تھے۔ قلی اسباب کے ڈھیروں کے پاس خاموش کھڑے گاڑیادھر ب

سکیں۔ خوانچہ کر ایک آنہ حاصل کر منتظر تھے کہ جلد اپنے کام سے فارغ ہو والے دوسرے پلیٹ فارموں سے جمع ہو کر اپنی اپنی اپنی مخصوص صدا بلند کر

پ پھپ، خوانچہتھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضا، گاڑیوں کی گڑگڑاہٹ، مختلف انجنوں کی پھرہےوالوں کی صداؤں، مسافروں کی باہم گفتگو کے شور اور قلیوں کی بھدی آوازوں

سے معمور تھی۔۔۔۔۔۔برقی پنکھے بدستور سرد آہیں بھر رہے تھے۔

Page 7: Atish Paray

دانتوں میں ریفرشمنٹ روم کے اندر بیٹھے ہوئے مسافر نے جو ابھی تک سگار کوبڑی بے ی ہوئی گھڑی کی طرفدبائے کش کھینچ رہا تھا، اپنی کالئی پر بندھ

سہارا دیتے پروائی کے انداز میں دیکھا، اور بازو کو جھٹکا دے کر مرمریں میز پرہوئے بلند آواز میں بوال۔

"بوائے۔"ٹھوڑی دیر خادم کا انتظار کرنے کے بعد وہ پھر چیخا۔

"نمک حرام"اور پھر آہستہ بڑبڑاتے ہوئے۔ " بوائے۔۔۔۔۔۔بوائے۔"سپید دوسرے کمرے میں سے کسی کی آواز آئی، اور ساتھ ہی" حضور۔ جی آیا"

یا۔ہو گلباس پہنے ہوئے ایک خادم بھاگ کر اس مسافر کے قریب مودب کھڑا "حضور۔" "ہم نے تمھیں دو دفعہ آواز دی۔ سوئے رہتے ہو تم لوگ شاید۔" "حضور میں نے سنا نہیں، ورنہ کیا مجال ہے کہ غالم حاضر نہ ہوتا۔"

یا۔ہو گغالم کا لفظ سن کر مسافر کا غصہ فرو دیکھو درجہ اول کے مسافروں سے یہ بے رخی اچھی نہیں، ہم تمھارے بڑے "

"صاحب کے بھی کان کھینچ سکتا ہے، سمجھے؟ "جی ہاں۔"اور ہمارے ایجنٹ کے، وہ ہمارا دوست ہے۔۔۔۔۔۔خیر، دیکھو تم ویٹنگ روم میں جاؤ"

گاڑی آنے میں احب کا تمام اسباب پلیٹ فارم پر لے جائے۔قلی سے کہو کہ وہ ص "صرف پانچ منٹ باقی ہیں۔

"بہت اچھا حضور۔" "اور ہاں، ہمارا بل دوسرے آدمی کے ہاتھ بھجوا دو۔" "بہت اچھا صاحب" دیکھو، بل میں پانچسو پچپن نمبر سگریٹ کے ایک ڈبے کے دام بھی شامل کر"

"ر کا ڈبہ خیال رہے۔لینا۔۔۔۔۔۔پانچسو پچپن نمب "بل اور ڈبہ گاڑی میں لے کر حاضر ہو جاؤں گا، وقت تھوڑا ہے۔"جو مرضی میں آئے کرنا، مگر اب تم جاؤ اور جلدی ہمارے قلی کو اسباب نکالنے "

"کہہ دو۔کے لیے گالس میں مسافر نے یہ کہہ کر ایک انگڑائی لی اور میز پر پڑے ہوئے شراب کے

دیئے۔ گیلے ہونٹ ایک بے داغ یک ہی جرعے میں ختم کرسے آخری گھونٹ ا

Page 8: Atish Paray

کی طرف دروازےریشمی رومال سے صاف کرنے کے بعد وہ اٹھا اور آہستہ آہستہ بڑھا۔

صاحب کو دروازے کی طرف بڑھتے دیکھ کر ایک خادم نے جلدی سے دروازہیا۔گ ہوکھول دیا، مسافر بڑی رعونت سے ٹہلتا ٹہلتا پلیٹ فارم کی بھیڑ میں گم

رہا تھا آدور ریل کی آہنی پٹڑیوں کے درمیان خیرہ کن روشنی کا ایک دھبہ نظرجو آہستہ آہستہ آس پاس کی تاریکی کو چیرتا ہوا بڑھ رہا تھا۔

یا اور دفعتا ہو گٹھوڑی دیر کے بعد یہ دھبہ روشنی کی ایک النبی دھار میں تبدیلفارم کے قمقموں کو پلیٹکے لیے انجن کی چوندھیا دینے والی روشنی ایک لمحے

انجن کے آہنی پہیوں کی کے لیے اندھا بناتے ہوئے گل ہو گئی۔ ساتھ ہی کچھ عرصہ گیا۔۔۔ایک چیخ کے ساتھ گاڑی بھاری گڑگڑاہٹ تلے پلیٹ فارم کا شور دب کر رہ

ئی۔ہو گسٹیشن کے سنگین چبوترے کے پہلو میں کھڑیتازگی سے گڑگڑاہٹ سے آزاد ہو کر ایک نئی پلیٹ فارم کا دبا ہوا شور انجن کی

بھاگ دوڑ، بلند ہوا۔ مسافروں کی دوڑ دھوپ، بچوں کے رونے کی آواز، قلیوں کینٹ بلند صدائیں، شاسباب نکالنے کا شور، ٹھیلوں کی کھڑکھڑاہٹ، خوانچہ والوں کی

ی شاں، پلیٹ فارم ککرتے ہوئے انجن کی دلخراش چیخیں اور بھاپ نکلنے کی شاںتھیں۔آہنی چھت تلے فضا میں ایک دوسرے سے ٹکراتے ہوئے تیر رہی

"خالد۔۔۔۔۔۔وحید کو تم نے دیکھا کسی ڈبے میں۔" "نہیں تو" "خدا جانے اس گاڑی سے آیا بھی ہے یا نہیں۔" "میں تو اسی گاڑی کا ذکر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ارے، وہ ڈبے میں کون ہے۔۔۔۔وحید۔تار" "ہاں، ہاں، وحید۔"ونوں دوست بھاگتے ہوئے اس ڈبے کی طرف بڑھے جس میں سے وحید اپنا د

اسباب اتروا رہا تھا۔باہر منٹ کی طرف بڑھا۔رٹریفرشمنٹ روم واال مسافر تیزی سے فرسٹ کالس کمپا

کر دروازے کے ساتھ لگے ہوئے کاغذ کو ایک نظر دیکھنے کے بعد دروازہ کھولکا انتظار ی سالخ تھام کر قلی اور اپنے اسبابیا اور پیتل کہو گڈبے کے اندر داخل

کرنے لگا۔ا تھا۔ آ رہقلی اسباب سے لدا ہوا گاڑی کے ڈبوں کی طرف دیکھ دیکھ کر دوڑا چال

مسافر نے اسے جھال کر بلند آواز میں پکارا۔ "ابے اندھے، ادھر آ"

Page 9: Atish Paray

خود مسافر ںقلی نے مسافر کی آواز پہچان کر ادھر ادھر نگاہ دوڑائی مگر بھیڑ میاور آواز آئی۔کو نہ دیکھ سکا، وہ ابھی اسی پریشانی کی حالت میں ہی تھا کہ ایک

"رہا کیا؟ ادھر، ادھر۔۔۔۔۔ناک کی سیدھ۔ کیوں۔ نظر نہیں آ"یا۔ہو گقلی نے مسافر کو دیکھ لیا اور اسباب لیکر اسکے ڈبے کے پاس جا کر کھڑا

"دوں اندر رکھصاحب، ایک طرف ہٹ جائیے میں اسباب "مگر "دروازے کے ساتھ ایک گدے دار نشست پر بیٹھتے ہوئے بوال۔" ہاں رکھو"

صاحب کا اتنا عرصہ سوئے رہے تھے کیا؟ خانسامے نے تمھیں یہ نہیں کہا تھا کہ "سامان اٹھا کر گاڑی آتے ہی فورا ڈبے میں رکھ دینا؟

قلی نے ایک بھاری " مجھے معلوم نہیں تھا کہ آپ کس ڈبے میں سوار ہونگے"ٹرنک اٹھا کر باالئی نشست پر رکھتے ہوئے کہا۔

"یہ ڈبہ ہمارا ریزرو کرایا ہوا ہے، باہر چٹ پر نام بھی لکھا ہوا ہے۔"تین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آٹھ۔۔۔اور ۔۔۔۔۔ایک، دو،"آپ نے پہلے یہ کہا ہوتا تو ہرگز یہ دیر نہ ہوتی"

دیں۔ کرروعدس، قلی نے اسباب کی مختلف اشیا گننا شایک بار رکھی کے لیے سامان قرینے سے رکھنے کے بعد قلی نے اپنے اطمینان

ہوئی چیزوں پر نگاہ ڈالی اور ڈبے سے نیچے پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ "صاحب، اپنا سامان پورا کر لیجئے"

مسافر نے بڑی بے پروائی سے اپنی جیب سے ایک نفیس بٹوہ نکاال اور ابھی کھول وری ادا کرنے واال ہی تھا کہ اسے کچھ یاد آیا۔کر مزد

"ہماری چھڑی کہاں ہے؟" "چھڑی؟۔۔۔۔۔۔۔ چھڑی تو آپ کے پاس ہی تھی۔" "ا توہو گمیرے پاس، بکتا کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔وہیں چھوڑ آیا "چھڑی آپ کے پاس تھی۔۔۔۔۔مگر صاحب اس سخت کالمی سے پیش آنا درست نہیں، "

"نہیں کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب میں نے کوئی خطا ہی یا اور اپنی جگہ ہو گقلی کی زبان سے اس قسم کے الفاظ سن کر مسافر آگ بھبھوکا

کر دروازے کے پاس کھڑا ہو کر چالنے لگا۔ سے اٹھہے۔۔۔۔۔جتنے کی سخت کالمی سے پیش آنا درست نہیں۔۔۔۔۔۔۔کسی نواب کا صاحبزادہ"

ہے یا نہیں؟۔۔۔۔۔۔چور چھڑی لیکر آتاچھڑی ہے اتنی تو تیری قیمت بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ "کہیں کا۔

Page 10: Atish Paray

آئی کہ دیا، اسکے جی میں چور کے لفظ نے قلی کے دل میں ایک طوفان برپا کرمزا فوں کا اس مسافر کو ٹانگ سے پکڑ کر نیچے کھینچ لے اور اسے اس اکڑ

یا اور نرمی سے کہنے لگا۔ہو گچکھا دے۔ مگر طبیعت پر قابو پا کر خاموش ی، مجھے ہو گدی کو ضرور غلط فہمی ہوئی ہے، چھڑی آپ نے کہیں رکھآپ "

"بتائیے میں وہاں سے پتا لے آؤں۔گویا میں بیوقوف ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔میں کہہ رہا ہوں، چھڑی لیکر آؤ ورنہ ساری شیخی "

"دوں گا۔ کرکری کرنظر خانساماں قلی ابھی کچھ جواب دینے ہی لگا تھا کہ اسے چند قدم کے فاصلے پر

رہا تھا۔ آیا جو ہاتھ میں سگریٹ کا ڈبہ اور چھڑی پکڑے چال آ "رہا ہے اور آپ خواہ مخواہ مجھ پر برس رہے ہیں۔ چھڑی خانساماں لیکر آ" "بکو نہیں اب۔۔۔۔۔۔۔کتے کی طرح چالئے جا رہا ہے۔"

کر قلی غصے سے بھرا ہوا مسافر کی طرف بڑھا۔ مسافر نے پورے زور یہ سنڑھے ہوئے سینے میں نوکیلے بوٹ سے ٹھوکر لگائی۔ ٹھوکر کھاتے سے اسکے ب

یا۔ہو گقلی چکراتا ہوا سنگین فرش پر گر کر بیہوش ہیئیے۔ہو گقلی کو گرتے دیکھ کر بہت سے لوگ اسکے اردگرد جمع

"بیچارے کو بہت سخت چوٹ آئی ہے۔" "یہ لوگ بہانہ بھی کیا کرتے ہیں۔" "ل رہا ہے۔منہ سے شاید خون بھی نک" "معاملہ کیا ہے؟" "اس آدمی نے اسے بوٹ سے ٹھوکر لگائی ہے۔" "کہیں مر نہ جائے بیچارہ۔" "کوئی دوڑ کر پانی کا ایک گالس تو الئے۔" "بھئی ایک طرف ہٹ کر کھڑے رہو، ہوا تو آنے دو۔"

تھے۔ قلی کے گرد جمع ہوتے ہوئے لوگ آپس میں طرح طرح کی باتیں کر رہےی دیر کے بعد خالد اور اسکا دوست بھیڑ چیر کر گرے ہوئے مزدور کےتھوڑ

دینا قریب پہنچے۔ خالد نے اسکے سر کو اپنے گھٹنوں پر اٹھا لیا اور اخبار سے ہوا۔ پھر اپنے دوست سے مخاطب ہو کر بوال۔کر دیشروع

را ہاں ذمسعود، وحید سے کہہ دو کہ ہم اب اسے گھر پر ہی مل سکیں گے۔۔۔۔اور" "نہ جائے۔اس ظالم کو تو دیکھنا، کہاں ہے۔۔۔۔گاڑی چلنے والی ہے، کہیں وہ چال

Page 11: Atish Paray

ئے جو کھڑکی کے پاسہو گیہ سنتے ہی لوگ اس مسافر کے ڈبے کے پاس جمع بیٹھا کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اخبار پڑھنے کی بے سود کوشش کررہا تھا۔

طرف بڑھا اور کھڑکی مسعود اپنے دوست وحید سے رخصت لیکر اس مسافر کی کے قریب جا کر نہایت شائستگی سے کہا۔

"آپ یہاں اخبار بینی میں مصروف ہیں اور وہ بیچارہ بیہوش پڑا ہے۔" "پھر میں کیا کروں؟" "چلئے اور کم از کم اسکی حالت کو مالحظہ تو کیجیئے۔"سے اور پھر دروازے " ہے۔ کر دیاکمبخت نے میرے سفر کا تمام لطف غارت "

"چلئے صاحب۔۔۔۔۔۔یہ مصیبت بھی دیکھنا تھی۔"باہر نکلتے ہوئے۔ رہا تھا۔ لوگ جھکے خالد بیہوش قلی کا سر تھامے اسے پانی پالنے کی کوشش کر

ہوئے خالد اور قلی کے چہروں کی طرف بغور دیکھ رہے تھے۔مسعود نے مسافر کو آگے بڑھنے کو کہا۔" خالد، آپ تشریف لے آئے ہیں۔"اں، جناب۔۔۔۔۔یہ ہے آپ کے ظلم کا شکار۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی ڈاکٹر کو ہی بلوا لیا ہوتا آپ ہ"

مسعود نے مسافر سے کہا۔" نے؟مسافر، قلی کے زرد چہرہ اور لوگوں کا گروہ دیکھ کر بہت خوفزدہ ہوا اور

گھبراتے ہوئے جیب سے اپنا بٹوہ نکاال۔متحرک ہوا اور اس نے اپنی آنکھیں مسافر ابھی بٹوہ نکال رہا تھا کہ قلی کا جسم

کھول کر ہجوم کی طرف پریشان نگاہوں سے دیکھنا شروع کیا۔ہو وقت یہ نوٹ آپ اسے میری طرف سے دے دیجیئے گا۔۔۔۔۔میں چلتا ہوں گاڑی کا"ہوئے مسافر نے مسعود کے ہاتھ میں دس روپے کا ایک نوٹ پکڑاتے" یا ہے۔گ

ہم "ہوا۔ و ہوش میں آتے دیکھ کر اس سے مخاطبانگریزی میں کہا، اور پھر قلی ک "دی ہے۔ نے اس غلطی کی قیمت ادا کر

تڑپا، منہ سے خون کی ایک دھار بہہ نکلی، بڑی کوشش سے اس نے سن کرقلی یہ یہ چند الفاظ اپنی زخمی چھاتی پر زور دے کر نکالے۔

انسان کی جان کی یکمیں بھی انگریزی زبان جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دس روپے۔۔۔۔۔۔۔ا" "۔۔قیمت۔۔۔۔۔۔میرے پاس بھی کچھ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کی یہ حالت باقی الفاظ اسکے خون بھرے منہ میں بلبلے بن کر رہ گئے، مسافر قلیکہنے لگا۔دیکھ کر اسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور اسکا ہاتھ دبا کر

"میں زیادہ بھی دے سکتا ہوں۔"

Page 12: Atish Paray

نے بڑی تکلیف سے مسافر کی طرف رخ پھیرا اور منہ سے خون کے بلبلے قلی نکالتے ہوئے کہا۔

"میرے پاس۔۔۔۔۔۔۔۔بھی۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ لو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"کی آہنی یہ کہتے ہوئے اس نے مسافر کے منہ پر تھوک دیا، تڑپا اور پلیٹ فارم

ہو ی گود میں سردچھت کی طرف مظلوم نگاہوں سے دیکھتا ہوا خالد کیا۔۔۔۔۔۔مسافر کا منہ خونی تھوک سے رنگا ہوا تھا۔گ

کے مسافر کو پکڑ کر خالد اور مسعود نے الش دوسرے آدمیوں کے حوالہ کردیا۔ پولیس کے سپرد کر

مسافر کا مقدمہ دو مہینے تک متواتر عدالت میں چلتا رہا۔بعد بری ولی جرمانہ کرنے کےآخر فیصلہ سنا دیا گیا، فاضل جج نے ملزم کو معم

سے واقع دیا۔ فیصلے میں یہ لکھا تھا کہ قلی کی موت اچانک تلی پھٹ جانے کرہوئی ہے۔

فیصلہ سناتے وقت خالد اور مسعود بھی موجود تھے۔ ملزم انکی طرف دیکھ کر مسکرایا اور کمرے سے باہر چال گیا۔

"قانون کا قفل صرف طالئی چابی سے کھل سکتا ہے۔" "مگر ایسی چابی ٹوٹ بھی جایا کرتی ہے۔"

خالد اور اسکا دوست باہر برآمدے میں باہم گفتگو کر رہے تھے۔

"ساقی"اشاعت اولیں۔

Page 13: Atish Paray

انقالب پسندہم میری اور سلیم کی دوستی کو پانچ سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اس زمانے میں

داخل ، ایک ہی کالج میںنے ایک ہی سکول سے دسویں جماعت کا امتحان پاس کیاپرانا کر فیل ہوئے۔ پھر ہوئے اور ایک ہی ساتھ ایف اے کے امتحان میں شامل ہو

یا مگر ہو گکالج چھوڑ کر ایک نئے کالج میں داخل ہوئے۔۔۔۔۔اس سال میں تو پاسیا۔ہو گسلیم سوئے قسمت سے پھر فیل

آوارہ مزاج اور ں کہ وہسلیم کی دوبارہ ناکامیابی سے لوگ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیکی حیثیت سے میں یہ ناالئق ہے۔۔۔۔۔۔یہ بالکل افترا ہے۔ سلیم کا بغلی دوست ہونےاگر وہ پڑھائی کی طرف وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ سلیم کا دماغ بہت روشن ہے۔

بھر میں اول نہ رہتا۔ اب یہاں یہ ذرا بھی توجہ دیتا تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ صوبہطرف کیوں توجہ نہ دی؟یدا ہوتا ہے کہ اس نے پڑھائی کیسوال پ

معلوم ہوتے جہاں تک میرا ذہن کام دیتا ہے مجھے اسکی تمام تر وجہ وہ خیاالتتھے۔ہیں جو ایک عرصے سے اسکے دل و دماغ پر آہستہ آہستہ چھا رہے

سے الجھنوں دسویں جماعت اور کالج میں داخل ہوتے وقت سلیم کا دماغ ان تمامکر رکھا ہے۔ آزاد تھا جس نے اسے ان دنوں پاگل خانے کی چاردیواری میں مقید

کرتا تھا۔ سب لڑکوں ایام کالج میں وہ دیگر طلبہ کی طرح ہر کھیل کود میں حصہ لیانے اس کے متبسم میں ہردلعزیز تھا مگر یکایک اسکے والد کی ناگہانی موت

و فکر نے لے لی۔یل کود کی جگہ غورچہرے پر غم کی نقاب اوڑھا دی۔۔۔۔۔۔اب کھمعلوم وہ کیا خیاالت تھے، جو سلیم کے مضطرب دماغ میں پیدا ہوئے؟ یہ مجھے

خود اپنی دلی نہیں۔ سلیم کی نفسیات کا مطالعہ کرنا بہت اہم کام ہے۔ اسکے عالوہ وہے سیر کرتے ہوئنے کئی مرتبہ گفتگو کرتے وقت یا یونہی آواز سے ناآشنا تھا۔ اس

"کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عباس جی چاہتا ہے"اچانک میرا بازو پکڑ کر کہا ہے۔ کے پوچھا کرمیں نے اسکی طرف تمام توجہ مبذول" ہاں، ہاں، کیا جی چاہتا ہے"

اور گلے ہے۔ مگر میرے اس استفسار پر اس کے چہرے کی غیر معمولی تبدیلیکو خود ہ وہ اپنے دلی مدعامیں سانس کے تصادم نے صاف طور پر ظاہر کیا ہے ک

سکتا۔ نہ پہچانتے ہوئے الفاظ میں ظاہر نہیں کر

Page 14: Atish Paray

منتقل کے دوسرے ذہن پر وہ شخص جو اپنے احساسات کو کسی شکل میں پیش کراور وہ سکتا ہے وہ دراصل اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی قدرت کا مالک ہے۔ کر

پ اچھی طرح نہیںشخص جو محسوس کرتا ہے مگر اپنے احساس کو خود آسمجھتا اور پھر اس اضطراب کو بیان کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اس شخص کے

ھنسی ہوئی چیر کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہاٹہے جو اپنے حلق میں مترادفکی رہی ہو۔۔۔۔۔۔یہ ایک ذہنی عذاب ہے جس ہے مگر وہ گلے سے نیچے اترتی جا

تی۔آ سکتفصیل لفظوں میں نہیں جب اسکے م شروع ہی سے اپنی آواز سے نا آشنا رہا ہے اور ہوتا بھی کیونکرسلی

بھی ہوا ہے کہ سینے میں خیاالت کا ایک ہجوم چھایا رہتا تھا اور بعض اوقات ایسالمبے لمبے سانس بھرنے وہ بیٹھا بیٹھا اٹھ کھڑا ہوا ہے اور کمرے میں چکر لگا کر

کر ان خیاالت کو جو تنگ آونی انتشار سےدیے۔۔۔۔۔غالبا وہ اپنے اندر شروع کرسانسوں کے ذریعے باہر اسکے سینے میں بھاپ کے مانند چکر لگا رہے ہوتے،

نے اکثر دہ لمحات میں اسنکالنے کا کوشاں ہوا کرتا تھا۔ اضطراب کے انہی تکلیفکشتی کسی روز تند عباس، یہ خاکی"اوقات مجھ سے مخاطب ہو کر کہا ہے۔

جائے گی۔۔۔۔۔۔۔مجھے اب نہ ال کر چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہوموجوں کی ت "اندیشہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تا تھا۔کر سکوہ اپنے اندیشے کو پوری طرح بیان نہیں کہ وہ حادثہ سلیم کسی متوقع حادثے کا منتظر ضرور تھا مگر اسے یہ معلوم نہ تھا

عرصے سے نگاہیں ایک ا۔۔۔۔۔اسکیہو گکس شکل میں پردۀ ظہور پر نمودار طرف دھندلے خیاالت کی صورت میں ایک موہوم سایہ دیکھ رہی تھیں جو اسکی

پردے میں ا تھا، مگر وہ یہ نہیں بتا سکتا تھا کہ اس تاریک شکل کےآ رہبڑھتا چال کیا نہاں ہے۔

میں نے سلیم کی نفسیات سمجھنے کی بہت کوشش کی ہے، مگر مجھے اسکیسکا کہ وہ کن گہرائیوں میں وتے ہوئے کبھی معلوم نہیں ہومنقلب عادات کے ہ

کیا کرنا چاہتا ہےکے لیے غوطہ زن ہے۔ اور اس دنیا میں رہ کر اپنے مستقبل دیا گیا جبکہ اپنے والد کے انتقال کے بعد وہ ہر قسم کے سرمائے سے محروم کر

تھا۔بدن بدل عادات دنمیں ایک عرصے سے سلیم کو منقلب ہوتے دیکھ رہا تھا اسکی رہا تبدیل ہورہی تھیں۔۔۔۔۔کل کا کھلنڈرا لڑکا، میرا ہم جماعت ایک مفکر میں

تھا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تبدیلی میرے لئے سخت باعث حیرت تھی۔

Page 15: Atish Paray

جب کچھ عرصے سے سلیم کی طبعیت پر ایک غیر معمولی سکون چھا گیا تھا۔میں ری سر کو گھٹنوںدیکھو اپنے گھر میں خاموش بیٹھا ہوا ہے اور اپنے بھا

بھی تھامے کچھ سوچ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔وہ کیا سوچ رہا ہوتا، یہ میری طرح خود اسےدوات کا معلوم نہ تھا۔ ان لمحات میں میں نے اسے اکثر اوقات اپنی گرم آنکھوں پر

اس عمل سے آہنی ڈھکنا یا گالس کا بیرونی حصہ پھیرتے دیکھا ہے۔۔۔۔۔۔شاید وہرارت کم کرنا چاہتا تھا۔اپنی آنکھوں کی ح

کا مطالعہ سلیم نے کالج چھوڑتے ہی غیر ملکی مصنفوں کی بھاری بھر کم تصانیفآئی۔ پھر دیا تھا۔ شروع شروع میں مجھے اسکی میز پر ایک کتاب نظر شروع کر

دیگر کھیلیں آہستہ آہستہ اس الماری میں جس میں شطرنج، تاش اور اسی قسم کیوہ کئی کئی دنوں بیں ہی کتابیں نظر آنے لگیں۔۔۔۔۔اسکے عالوہرکھا کرتا تھا، کتا

تک گھر سے کہیں باہر چال جایا کرتا تھا۔کے جہاں تک میرا خیال ہے سلیم کی طبیعت کا غیر معمولی سکون ان کتابوں

رکھا نے بڑے قرینے سے الماری میں سجا انتھک مطالعہ کا نتیجہ تھا جنہیں استھا۔

غیر رین دوست ہونے کی حیثیت میں، میں اس کی طبیعت کےسلیم کا عزیز تمعمولی سکون سے سخت پریشان تھا۔ مجھے اندیشہ تھا کہ یہ سکون کسی وحشت

خیز طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ اسکے عالوہ مجھے سلیم کی صحت کا بھی بہت خیالاپنے ہتھا۔ وہ پہلے ہی بہت کمزور جثے کا واقع ہوا تھا، اس پر اس نے خواہ مخوا

بیس سال آپ کو خدا معلوم کن کن الجھنوں میں پھنسا لیا تھا۔ سلیم کی عمر بمشکلپڑ ی مگر اسکی آنکھوں کے نیچے شب بیداری کی وجہ سے سیاہ حلقےہو گکی

گئے تھے۔ پیشانی جو اس سے قبل بالکل ہموار تھی اب اس پر کئی شکن پڑےکرتے تھے۔ چہرہ جو کچھ عرصہرہتے تھے۔۔۔۔۔جو اسکی ذہنی پریشانی کو ظاہر

پڑ پہلے بہت شگفتہ ہوا کرتا تھا اب اس پر ناک اور لب کے درمیان گہری لکیریںمعمولی گئی تھیں جنہوں نے سلیم کو قبل از وقت معمر بنا دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس غیرجو مجھے تبدیلی کو میں نے اپنی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہوتے دیکھا ہے۔

کہ میری عمر سے کم معلوم نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔یہ کیا کم تعجب کی بات ہے ایک شعبدےکا لڑکا میری نظروں کے سامنے بوڑھا ہو جائے۔

ہو نہیں سلیم پاگل خانے میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر اسکے یہ معنیبھیجا گیا ہے کہ تے کہ وہ سڑی اور دیوانہ ہے۔ اسے غالبا اس بنا پر پاگل خانےسک

پکڑ پکڑ کر انہیں ہ بازاروں میں بلند بانگ تقریریں کرتا ہے۔ راہ گزروں کوو

Page 16: Atish Paray

کے حریر پوش زندگی کے مشکل مسائل بتا کر جواب طلب کرتا ہے اور امراءیہ حرکات ڈاکٹروں بچوں کا لباس اتار کر ننگے بچوں کو پہنا دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ممکن ہے

کہہ سکتا ہوں کہ سلیم قن کے ساتھکے نزدیک دیوانگی کی عالمتیں ہوں مگر میں تیواال تصور میں خلل ڈالنےپاگل نہیں ہے بلکہ وہ لوگ جنہوں نے اسے امن عامہ

کسی دیوانے حیوان سے دیا ہے کے پنجرے میں قید کر ںکرتے ہوئے آہنی سالخوکم نہیں ہیں۔

ا ہے تو پہنچانا چاہتاگر وہ اپنی غیر مربوط تقریر کے ذریعے لوگوں تک اپنا پیغامسنیں؟کیا انکا فرض نہیں ہے کہ وہ اسکے ہر لفظ کو غور سے

چاہتا ہے تو کیا اگر وہ راہ گزاروں کے ساتھ فلسفۂ حیات پر تبادلۂ خیاالت کرنانقصان دہ ہے؟ کے لیے اسکے معنی یہ لئے جائینگے کہ اسکا وجود مجلسی دائرہ

نہیں ہے؟کا فرض کیا زندگی کے حقیقی معانی سے باخبر ہونا ہر انسانکا تن ڈھانپتا اگر وہ متمول اشخاص کے بچوں کا لباس اتار کر غربا کے برہنہ بچوں

جو فلک بوس ہے تو کیا یہ عمل ان افراد کو انکے فرائض سے آگاہ نہیں کرتارہے ہیں؟ کیا عمارتوں میں دوسرے لوگوں کے بل بوتے پر آرام کی زندگی بسر کر

کیا جائے؟ا ایسا فعل ہے کہ اسے دیوانگی پر محمولننگوں کی ستر پوشی کرناسے بیخود م ہرگز پاگل نہیں ہے مگر مجھے یہ تسلیم ہے کہ اسکے افکار نےیلس

مگر دے نہیں سکتا۔ ضرور بنا رکھا ہے۔ دراصل وہ دنیا کو کچھ پیغام دینا چاہتا ہےکرنا چاہتا ہے احساسات بیانایک کم سن بچے کی طرح وہ تتال تتال کر اپنے قلبی

مگر الفاظ اسکی زبان پر آتے ہی بکھر جاتے ہیں۔ڈال دیا گیا ہے۔ وہ اس سے قبل ذہنی اذیت میں مبتال تھا مگر اب اسے اور اذیت میں

اب اسے زندان نما وہ پہلے ہی سے اپنے افکار کی الجھنوں میں گرفتار ہے اورے؟کوٹھڑی میں قید کر دیا گیا ہے۔ کیا یہ ظلم نہیں ہ

نتیجہ میں نے آج تک سلیم کی کوئی بھی ایسی حرکت نہیں دیکھی جس سے میں یہانقالبات نکال سکوں کہ وہ دیوانہ ہے ہاں البتہ کچھ عرصے سے میں اسکے ذہنی

کا مشاہدہ ضرور کرتا رہا ہوں۔جگہ شروع شروع میں جب میں نے اسکے کمرے کے تمام فرنیچر کو اپنی اپنی

میں نے تو میں نے اس تبدیلی کی طرف خاص توجہ نہ دی، دراصل سے ہٹا ہوا پایاں خیال وموزاس وقت خیال کیا کہ شاید سلیم نے فرنیچر کی موجودہ جگہ کو زیادہ

میزوں کو کئی کیا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ میری نظروں کو جو کرسیوں اور

Page 17: Atish Paray

بہت بھلی معلم سالوں سے ایک جگہ دیکھنے کی عادی تھیں وہ غیر متوقع تبدیلیہوئی۔

میں اس واقعے کے چند روز بعد جب میں کالج سے فارغ ہو کر سلیم کے کمرےسے داخل ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ فلمی ممثلوں کی دو تصاویر جو ایک عرصے

کے کمرے کی دیواروں پر آویزاں تھیں اور جنہیں میں نے اور سلیم نے بہت مشکلچوکھٹوں میں کری میں پھٹی پڑی ہیں اور انکی جگہ انہیبعد فراہم کیا تھا باہر ٹو

تصاویر کا اتنا مصنفوں کی تصویریں لٹک رہی ہیں۔۔۔۔۔۔چونکہ میں خود انمختلفچنانچہ ہم اس روز دیر لئے مجھے سلیم کا یہ انتخاب بہت پسند آیا مشاق نہ تھا اس

تک ان تصویروں کے متعلق گفتگو بھی کرتے رہے۔کوئی یاد ہے اس واقعہ کے بعد سلیم کے کمرے میں ایک ماہ تک جہاں تک مجھے

روز خاص قابل ذکر تبدیلی واقع نہیں ہوئی مگر اس عرصے کے بعد میں نے ایککتابیں چن اچانک کمرے میں بڑا سا تخت پڑا پایا جس پر سلیم نے کپڑا بچھا کر

لکھنے میں ھرکھی تھیں اور آپ قریب ہی زمین پر ایک تکیہ کا سہارا لیے کچہوتے ہی سلیم مصروف تھا۔ میں یہ دیکھ کر سخت متعجب ہوا اور کمرے میں داخل

سے یہ سوال کیا۔ کیوں میاں، اس تخت کے کیا معانی؟روزانہ کرسیوں پر"سلیم،جیسا کہ اسکی عادت تھی، مسکرایا اور کہنے لگا۔

"گا۔رہے بیٹھتے بیٹھتے طبیعت اکتا گئی ہے، اب یہ فرش واال سلسلہ ہیکرتے کرتے بات معقول تھی، میں چپ رہا۔ واقعی روزانہ ایک ہی چیز کا استعمال

میں نے وہ طبیعت ضرور اچاٹ ہو جایا کرتی ہے مگر جب پندرہ بیس روز کے بعداور مجھے تخت مع تکیئے کے غائب پایا تو میرے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی

یا ہے۔ہو گخبطی تو نہیں شبہ سا ہوا کہ کہیں میرا دوست واقعیاسے سلیم سخت گرم مزاج واقع ہوا ہے۔ اسکے عالوہ اسکے وزنی افکار نے

سواالت لئے میں عموما اس سے ایسے معمول سے زیادہ چڑچڑا بنا رکھا ہے۔ اسخواہ دیں یا جس سے وہ نہیں کیا کرتا جو اسکے دماغی توازن کو درہم برہم کر

ھج جائے۔کمخواہ جانا غائب ہوکی تبدیلی، تصویروں کا انقالب، تخت کی آمد اور پھر اسکافرنیچر

امور کی واقعی کسی حد تک تعجب خیز ضرور ہیں اور واجب تھا کہ میں نے انکام میں وجہ دریافت کرتا مگر چونکہ مجھے سلیم کو آزردہ خاطر کرنا اور اسکے

لیے میں خاموش رہا۔ دخل دینا منظور نہ تھا اس

Page 18: Atish Paray

کوئی ے عرصے کے بعد سلیم کے کمرے میں ہر دوسرے تیسرے دن کوئی نہٹھوڑہفتے کے یا۔۔۔۔اگر آج کمرے میں تخت موجود ہے توہو گتبدیلی دیکھنا میرا معمول

پہلے بعد وہاں سے اٹھا دیا گیا ہے۔ اسکے دو روز بعد وہ میز جو کچھ عرصہا کر دوسری طرفکمرے کے دائیں طرف پڑی تھی، رات رات میں وہاں سے اٹھ

رہے ہیں۔ رکھ دی گئی ہے۔ انگھیٹی پر رکھی ہوئی تصاویر کے زاویے بدلے جاکپڑے لٹکانے کی کھونٹیاں ایک جگہ سے اکھیڑ کر دوسری جگہ پر جڑ دی گئی

کرسیوں کے رخ تبدیل کئے گئے ہیں، گویا کمرے کی ہر شے سے ایک قسم ہیں۔کرائی جاتی تھی۔کی قواعد

مجھ سے یں نے کمرے کے تمام فرنیچر کو مخالف رخ میں پایا توایک روز جب معرصے سے اس سلیم میں ایک"رہا نہ گیا اور میں نے سلیم سے دریافت کر ہی لیا۔

یہ تمھارا کمرے کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دیکھ رہا ہوں، آخر بتاؤ تو سہی "کوئی نیا فلسفہ ہے؟

سلیم نے جواب دیا۔" ہوں۔تم جانتے نہیں ہو، میں انقالب پسند "معمول یہ سن کر میں اور بھی متعجب ہوا۔ اگر سلیم نے یہ الفاظ اپنی حسب

صرف مسکراہٹ کے ساتھ کہے ہوتے تو میں یقینی طور پر یہ خیال کرتا کہ وہوہ رہا ہے مگر یہ جواب دیتے وقت اسکا چہرہ اس امر کا شاہد تھا کہ مذاق کر

لیکن پھر بھی کا جواب وہ انہی الفاظ میں دینا چاہتا ہے۔ سنجیدہ ہے اور میرے سوال "کر رہے ہو یار؟مذاق"میں تذبذب کی حالت میں تھا، چنانچہ میں نے اس سے کہا۔

یہ کہتے ہوئے وہ کھل کھال کر ہنس پڑا۔" تمھاری قسم بہت بڑا انقالب پسند۔"دونوں مگر ہمنے ایسی گفتگو شروع کی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اسکے بعد اس

عادت ہے کسی اور موضوع پر اظہار خیاالت کرنے لگ گئے تھے۔۔۔۔۔یہ سلیم کیکہ وہ بہت سی باتوں کو دلچسپ گفتگو کے پردے میں چھپا لیا کرتا ہے۔

ہوتا ہے ان دنوں جب کبھی میں سلیم کے جواب پر غور کرتا ہوں تو مجھے معلوموہ کسی سلطنت ہے۔ اسکے یہ معنی نہیں کہکہ سلیم درحقیقت انقالب پسند واقع ہوا

چوراہوں میں بمب کا تختہ الٹنے کے درپے ہے یا دیگر انقالب پسندوں کی طرحنظریں اپنے کمرے میں پھینک کر دہشت پھیالنا چاہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکیممکن ہے میرا یہ قیافہ پڑی ہوئی اشیاء کو ایک ہی جگہ پر نہ دیکھ سکتی تھیں۔

کہ اسکی جستجو کسی حد تک غلط ہو، مگر میں یہ وثوق سے کہہ سکتا ہوںکسی کی روزانہ ایسے انقالب کی طرف رجوع کرتی ہے، جسکے آثار اسکے کمرے

تبدیلیوں سے ظاہر ہیں۔

Page 19: Atish Paray

دیوانگی کے بادی النظر میں کمرے کی اشیاء کو روز الٹ پلٹ کرتے رہنا نیمکیا جائے تو یہ ی حرکات کا عمیق مطالعہرادف ہے۔ لیکن اگر سلیم کی ان بے معنتم

رہی تھی جس سے امر روشن ہو جائیگا کہ ان کے پس پردہ ایک ایسی قوت کام کرنام دیتا ہوں، سلیم کے وہ خود ناآشنا تھا۔۔۔۔۔۔اسی قوت نے جسے میں ذہنی تعصب کا

نہ ال کر کہ وہ اس طوفان کی تابدیا۔ اور اسکا نتیجہ یہ ہوا دماغ میں تالطم بپا کردیا گیا۔ دیواری میں قید کریا، اور پاگل خانے کی چارہو گاز خود رفتہ

میں پاگل خانے جانے سے کچھ روز پہلے سلیم مجھے اچانک شہر کے ایک ہوٹل اسچائے پیتا ہوا مال۔ میں اور وہ دونوں ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ گئے۔

ھا۔ میں نے اپنے بازار کے چندلیے کہ میں اس سے کچھ گفتگو کرنا چاہتا تہے۔ دکانداروں سے سنا تھا کہ اب سلیم ہوٹلوں میں پاگلوں کی طرح تقریریں کرتا

منع میں یہ چاہتا تھا کہ اسے سے فورا مل کر اسے اس قسم کی حرکات کرنے سےہو نہ دوں۔ اسکے عالوہ یہ اندیشہ تھا کہ شاید وہ کہیں سچ مچ خبط الحواس ہی کرہوٹل ہی لیے میں نے چونکہ میں اس سے فورا ہی بات کرنا چاہتا تھا، اس یا ہو۔گ

میں گفتگو کرنا مناسب سمجھا۔وہ کرسی پر بیٹھتے وقت میں غور سے سلیم کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔

سلیم شاید میں"مجھے اسطرح گھورتے دیکھ کر سخت متعجب ہوا۔ وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔ "نہیں ہوں۔

معلوم ہو مگر ں کس قدر درد تھا۔ گو یہ جملہ آپ کی نظروں میں بالکل سادہآواز میسلیم نہیں شاید میں"ئیں۔ ہو گخدا گواہ ہے میری آنکھیں بے اختیار نمناک

بہترین دوست بھی ۔۔۔۔۔۔گویا وہ ہر وقت اس بات کا متوقع تھا کہ کسی روز اسکا"ہوں۔تبدیل ہو چکا ہے۔کہ وہ بہت حد تکاسے نہ پہچان سکے گا۔ شاید اسے معلوم تھا

میں نے ضبط سے کام لیا، اور اپنے آنسوؤں کو رومال میں چھپا کر اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

میں سلیم میں نے سنا ہے کہ تم نے میرے الہور جانے کے بعد یہاں بازاروں"پاگل کا بچہ بچہدی ہیں، جانتے بھی ہو، اب تمھیں شہر تقریریں کرنی شروع کر "کے نام سے پکارتا ہے۔

ہے۔۔۔۔۔۔پاگل۔۔۔۔۔۔۔ہاں عباس، پاگل، شہر کا بچہ بچہ مجھے پاگل کے نام سے پکارتا"۔۔۔۔۔۔۔خرد باختہ۔۔۔۔۔۔۔۔لوگ مجھے دیوانہ کہتے میں پاگل ہوں۔۔۔۔۔۔۔پاگل۔۔۔۔۔دیوانہ

"ہیں۔۔۔۔۔۔۔معلوم ہے کیوں؟

Page 20: Atish Paray

پا استفہام بن کر دیکھنے لگا۔ مگر میری یہاں تک کہہ کر وہ میری طرف سر تاطرف سے کوئی جواب نہ پا کر وہ دوبارہ گویا ہوا۔

ہوں کہ اس لئے کہ میں انہیں غریبوں کے ننگے بچے دکھال دکھال کر یہ پوچھتا"دے سکتا ہے؟ وہ مجھے کوئی جواب نہیں اس بڑھتی ہوئی غربت کا کیا عالج ہو

ر کرتے ہیں۔۔۔۔۔آہ اگر مجھے صرف یہ معلوملئے وہ مجھے پاگل تصو سکتے، اسسکتی ہو کہ ظلمت کے اس زمانے میں روشنی کی ایک شعاع کیونکر فراہم کی جا

"ہزاروں غریب بچوں کا تاریک مستقبل کیونکر منور بنایا جا سکتا ہے۔ہے۔مرہون وہ مجھے پاگل کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔وہ جن کی نبض حیات دوسروں کے خون کی"

کیا گیا وہ جن کا فردوس غرباء کے جہنم کی مستعار اینٹوں سے استوار منت ہے۔کی ہے، وہ جن کے ساز عشرت کے ہر تار کے ساتھ بیواؤں کی آہیں، یتیموں

زمانہ وارث بچوں کی صدائے گریہ لپٹی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کہیں، مگر ایک عریانی، الانگلیاں ڈبو ڈبو کہ لہو میںآنے واال ہے جب یہی پروردۀ غربت اپنے دلوں کے مشتروقت نزدیک ہے جب کر ان لوگوں کی پیشانیوں پر اپنی لعنتیں لکھیں گے۔۔۔۔وہ

"وا ہونگے۔کے لیے ارضی جنت کے دروازے ہر شخص تکلیف کی زندگی میں پوچھتا ہوں کہ اگر میں آرام میں ہوں تو کیا وجہ ہے کہ تم"

ہوتے ہوئے ہر شب کارخانے کا مالک بسر کرو؟۔۔۔۔۔۔کیا یہی انسانیت ہے کہ میںروپے قمار بازی ایک نئی رقاصہ کا ناچ دیکھتا ہوں، ہر روز کلب میں سینکڑوںدریغ روپیہ بہا کر اپنا کی نذر کر دیتا ہوں، اور اپنی نکمی سے نکمی خواہش پر بے

روٹی نصیب نہیں ہوتی۔ دل خوش کرتا ہوں، اور میرے مزدورں کو ایک وقت کیلطف یہ ہے کہ میں ترستے ہیں۔۔۔۔۔پھرکے لیے ے مٹی کے ایک کھلونے انکے بچ

پسینہ میرے لئے کا مہذب ہوں، میری ہر جگہ عزت کی جاتی ہے اور وہ لوگ جنجاتے ہیں۔ میں گوہر تیار کرتا ہے، مجلسی دائرے میں حقارت کی نظر سے دیکھے

ظالم و مظلوم اپنے فرائض سے نفرت کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔تم ہی بتاؤ، کیا یہ دونوں خود ان "سے ناآشنا ہیں؟

میں ان دونوں کو انکے فرائض سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں، مگر کسطرح " "کروں؟۔۔۔۔۔۔یہ مجھے معلوم نہیں۔

سلیم نے اس قدر کہہ کر ہانپتے ہوئے ٹھنڈی چائے کا ایک گھونٹ بھرا اور میری دیا۔ طرف دیکھے بغیر پھر بولنا شروع کر

جو اس چیز ل نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔۔مجھے ایک وکیل سمجھو، بغیر کسی امید کے،میں پاگ"ہوئی آواز کی وکالت کر رہا ہے، جو بالکل گم ہو چکی ہے۔۔۔۔۔۔میں ایک دبی

Page 21: Atish Paray

دوسروں تک پہنچانے ہوں۔۔۔۔۔انسانیت ایک منہ ہے اور میں ایک چیخ۔ میں اپنی آوازہوئی ہے۔۔۔۔۔میں بہت لے دبیکی کوشش کرتا ہوں مگر وہ میرے خیاالت کے بوجھ ت

مجھے بہت کچھ کہنا ہے، کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر اسی لئے کچھ کہہ نہیں سکتا کہنہیں۔ میں اپنی آواز کے میں اپنا پیغام کہاں سے شروع کروں، یہ مجھے معلوم

دھندلے غبار میں سے چند بکھرے ہوئے ٹکڑے فراہم کرتا ہوں۔ ذہنی اذیت کےاپنے احساسات کی عمیق طور پر پیش کرنے کی سعی کرتا ہوں۔خیاالت تمہید کے

سکوں اذہان پر منتقل کرگہرائیوں سے چند احساس سطح پر التا ہوں کہ دوسرےخیاالت پھر تاریکی میں مگر میری آواز کے ٹکڑے پھر منتشر ہو جاتے ہیں،

"ہ سکتا۔میں کچھ نہیں کہروپوش ہو جاتے ہیں۔ احساسات پھر غوطہ لگا جاتے ہیں،ہو رہے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ میرے خیاالت منتشر ہونے کے بعد پھر جمع"

مخاطب ہیں تو جہاں کہیں میری قوت گویائی کام دیتی ہے میں شہر کے رؤسا سے۔:ہو کر یہ کہنے لگ جاتا ہوں

مرمریں محالت کے مکینو، تم اس وسیع کائنات میں صرف سورج کی روشنی"نام گر یقین جانو اسکے سائے بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔تم مجھے سلیم کےدیکھتے ہو، م

جسم سے جانتے ہو، یہ غلطی ہے۔۔۔۔۔۔میں وہ کپکپی ہوں جو ایک کنواری لڑکی کےقدم پہلی دفعہ ایوان گناہ کی طرف آ کرپر طاری ہوتی ہے جب وہ غربت سے تنگ

"بڑھانے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔آؤ ہم سب کانپیں۔ہوں۔ ا، میں ایک غوطہ خورہو گ، مگر تمھیں مجھے ضرور سننا تم ہنستے ہو"

کر قدرت نے مجھے تاریک سمندر کی گہرائیوں میں ڈبو دیا کہ میں کچھ ڈھونڈنے الؤں۔۔۔۔۔۔میں ایک بے بہا موتی الیا ہوں، وہ سچائی ہے، اس تالش میں میںہوا ہوں۔غربت دیکھی ہے، گرسنگی برداشت کی ہے۔ لوگوں کی نفرت سے دوچار

جاڑے میں غریبوں کی رگوں میں خون کو منجمد ہوتے دیکھا ہے، نوجوان لڑکیوںے کہ وہ مجبور تھیں۔۔۔۔۔اب میںاس لیکو عشرت کدوں کی زینت بڑھاتے دیکھا ہے۔

تاریک ا چاہتا ہوں کہ تمھیں تصویر زندگی کاکر دینیہی کچھ تمھارے منہ پر قے "ئے۔آ جاپہلو نظر

ہے۔ اگر ک دل ہے، ہر شخص کے پہلو میں ایک ہی قسم کا دل موجودانسانیت ای"تم ں کے ننگے سینوں پر ٹھوکریں لگاتے ہیں، اگروتمھارے بوٹ غریب مزدور

دری اپنے شہوانی جذبات کی بھڑکتی ہوئی آگ کسی ہمسایہ نادار لڑکی کی عصمتمیں جہالت سے ٹھنڈی کرتے ہو، اگر تمھاری غفلت سے ہزار ہا یتیم بچے گہوارۀ

تو یہ پل کر جیلوں کو آباد کرتے ہیں، اگر تمھارا دل کاجل کے مانند سیاہ ہے،

Page 22: Atish Paray

ہے کہ تمھارا قصور نہیں۔ ایوان معاشرت ہی کچھ ایسے ڈھب پر استوار کیا گیا "کو۔اسکی ہر چھت اپنی ہمسایہ چھت کو دبائے ہوئے ہے، ہر اینٹ دوسری اینٹ

سینوں کو جہالت معنی ہیں؟ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہ لوگوں کےجانتے ہو موجودہ نظام کے کیا "بہا دے۔ جوان لڑکیوں کدہ بنائے، انسانی تعزز کی کشتی ہوا و ہوس کی موجوں میں

حسن فروشی پر مجبور کی عصمت چھین کر انہیں ایوان تجارت میں کھلے بندوںکی مٹی کے مانند قبر ۔ غریبوں کا خون چوس چوس کر انہیں جلی ہوئی راکھکر دے

ہو۔۔۔۔۔۔۔بھیانک قصابی، ۔۔۔۔۔۔کیا اسی کو تم تہذیب کا نام دیتےکر دےمیں یکساں "ت۔نتاریک شیط

سے لوگ آہ، اگر تم صرف وہ دیکھ سکو جسکا میں نے مشاہدہ کیا ہے۔ ایسے بہت"تمھاری ہیں جو قبر نما جھونپڑوں میں زندگی کے سانس پورے کر رہے ہیں۔

ہیں۔ فراد موجود ہیں جو موت کے منہ میں جی رہےنظروں کے سامنے ایسے ااور ایسی لڑکیاں ہیں جو بارہ سال کی عمر میں عصمت فروشی شروع کرتی ہیں

تم۔۔۔۔۔۔۔ہاں تم، جو بیس سال کی عمر میں قبر کی سردی سے لپٹ جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔مگربلکہ ہیں، یہ نہیں دیکھتےاپنے لباس کی تراش کے متعلق گھنٹوں غور کرتے رہتے

اضافہ کرتے ہو، مزدور سے لیکر الٹا غریبوں سے چھین کر امراء کی دولتوں میںکا لباس اتار کر حریر پوش کے ے ہو۔ گوڈری پہنے انسانکر دیتکاہل کے حوالے

"ے ہو۔کر دیتسپرد نہیں کہ اگر تم غرباء کے غیر مختتم مصائب پر ہنستے ہو۔ مگر تمھیں یہ معلوم"

حصے کے ہ الغر و مردہ ہو رہا ہے تو کسی روز وہ باالئیدرخت کا نچال حص "بوجھ کو برداشت نہ کرتے ہوئے گر پڑے گا۔

یا اور ٹھنڈی چائے کو آہستہ آہستہ پینے لگا۔ہو گیہاں تک بول کر سلیم خاموش تقریر کے دوران میں سحرزدہ آدمی کی طرح چپ چاپ بیٹھا اس کے منہ سے

ی طرح برس رہے تھے، بغور سنتا رہا۔ میں سختنکلے ہوئے الفاظ جو بارش کاتنی حیران تھا کہ وہ سلیم جو آج سے کچھ عرصہ پہلے بالکل خاموش ہوا کرتا تھا،ہیں طویل تقریر کیونکر جاری رکھ سکا ہے، اسکے خیاالت کس قدر حق پر مبنی

ھر بوال۔وہ پاور آواز میں کتنا اثر تھا۔ میں اسکی تقریر کے متعلق سوچ رہا تھا کہقوانین سے خاندان کے خاندان شہر کے یہ نہنگ نگل جاتے ہیں، عوام کے اخالق"

ٹیکسوں کے مسخ کئے جاتے ہیں۔ لوگوں کے زخم جرمانوں سے کریدے جاتے ہیں۔سیاہ بنا دیتی ذریعے دامن غربت کترا جاتا ہے۔ تباہ شدہ ذہنیت جہالت کی تاریکی

گناہ اور فریب ہے۔ لرزاں آوازیں، عریانی، ہے۔ ہر طرف حالت نزع کے سانس کی

Page 23: Atish Paray

ہیں۔۔۔۔۔کیا اس کے معنی یہ کر رہےیہ ہے کہ عوام امن کی زندگی بسر دعویمگر ہے۔ ہمارے کانوں سے پگھال جا رہینہیں ہیں کہ ہماری آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھی

جا مصائب کے کوڑے سے بے حس بنائے ہوا سیسہ اتارا جا رہا ہے۔ ہمارے جسمیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔انسان کر سکاور نہ محسوس رہے ہیں، کہ ہم نہ دیکھ سکیں، نہ سن سکیں

اسکے بال و پر نوچ کر اسے زمین پر رینگنے جنہیں بلندیوں پر پرواز کرنا تھا کیاں کے وجارہا؟۔۔۔۔۔۔کیا امراء کی نظر فریب عمارتیں مزدورمجبور نہیں کیاکے لیے

اتیں؟۔۔۔۔۔۔کیا عوام کے مکتوب حیات پر جرائم کی نہیں کی جگوشت پوست سے تیارجاتی؟ کیا مجلسی بدن کی رگوں میں بدی کا خون موجزن نہیں مہر ثبت نہیں کی

زندگی کشمکش پیہم، ان تھک محنت اور قوت برداشت کا مرکب ہے؟ کیا جمہور کی "بتاؤ، بتاتے کیوں نہیں؟نہیں ہے؟ بتاؤ،

ختیار نکل گیا۔میرے منہ سے بے ا" درست ہے۔"بتا سکتے کہ تو پھر اسکا عالج کرنا تمھارا فرض ہے۔۔۔۔۔۔کیا تم کوئی طریقہ نہیں"

معلوم نہیں، مجھے تا ہے۔۔۔۔۔۔مگر آہ، تمھیںجا سکاس انسانی تذلیل کو کیونکر روکا "خود معلوم نہیں۔

گا۔ لنہ لہجے میں یوں کہنےرادا ٹھوڑی دیر کے بعد وہ میرا ہاتھ پکڑ کر رازہیں، بعض اوقات جب کبھی میں کسی کر رہےعباس، عوام سخت تکلیف برداشت "

ہے سوختہ حال انسان کے سینے سے آہ بلند ہوتے دیکھتا ہوں تو مجھے اندیشہ ہوتا جا رہےکہ کہیں شہر نہ جل جائے۔۔۔۔۔۔۔اچھا اب میں جاتا ہوں، تم الہور واپس کب

"ہو؟ھال کر باہر چلنے لگا۔یہ کہہ کر وہ اٹھا اور ٹوپی سنب

اسے یک لخت کہیں " ٹھہرو میں بھی تمھارے ساتھ چلتا ہوں، کہاں جاؤ گے اب؟"تیار دیکھ کر میں نے اسے فورا ہی کہا۔کے لیے جانے

"مگر میں اکیال ہی جانا چاہتا ہوں، کسی باغ میں جاؤں گا۔"یا۔ اس ہو گں گمیا اور وہ ہوٹل سے نکل کر بازار کے ہجوم میہو گمیں خاموش

جانے کے گفتگو کے چوتھے روز مجھے الہور میں اطالع ملی کہ سلیم نے میرےاسے پاگل ےاس لیتھا۔ کر دیابعد بازاروں میں دیوانہ وار شور برپا کرنا شروع

خانے میں داخل کر دیا گیا ہے۔

ء1935مارچ 24 "نعلیگڑھ میگزی"۔ :اشاعت اولیں

Page 24: Atish Paray

ی آیا صاحبج

مانند چی خانے کی دھندلی فضا میں بجلی کا ایک اندھا قمقمہ چراغ گور کیرباودیووں کی اپنی سرخ روشنی پھیال رہا تھا۔ دھوئیں سے اٹی ہوئی دیواریں ہیبتناک

انگیٹھیوں میں طرح انگڑائیاں لیتی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں۔ چبوترے پر بنی ہوئیتھیں۔ ایک برقی ی موت کا ماتم کر رہیآگ کی آخری چنگاریاں ابھر ابھر کر اپن

خاموش ہنسی ہنس رہا چولھے پر رکھی ہوئی کیتلی کا پانی نہ معلوم کس چیز پرکا لڑکا بیٹھا برتن تھا۔ دور کونے میں، پانی کے نل کے پاس ایک چھوٹی عمر

نوکر تھا۔صاف کرنے میں مشغول تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ انسپکٹر صاحب کات یہ لڑکا کچھ گنگنا رہا تھا، یہ الفاظ ایسے تھے جو اسکی برتن صاف کرتے وق

زباں سے بغیر کوشش کے نکل رہے تھے۔ "اتے ہیں صاحب۔ہو ججی آیا صاحب، جی آیا صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس ابھی صاف "

قرینے سے ابھی برتنوں کو راکھ سے صاف کرنے کے بعد انہیں پانی سے دھو کرآنکھیں نیند سے بند ی سے نہ ہو سکتا تھا۔ لڑکے کیرکھنا بھی تھا، اور یہ کام جلد

کئے بغیر آرام، یہ کیونکر ہوئی جا رہی تھیں۔ سر سخت بھاری ہو رہا تھا مگر کامممکن تھا۔

برقی چولھا بدستور ایک شور کے ساتھ نیلے شعلوں کو اپنے حلق سے اگل رہا تھا۔ ھا۔کیتلی کا پانی اسی انداز میں کھل کھال کر ہنس رہا ت

اپنے جسم کو دفعتا لڑکے نے نیند کے ناقابل مغلوب حملے کو محسوس کرتے ہوئےکام میں مشغول گنگناتا ہوا پھر" جی آیا صاحب، جی آیا صاحب"ایک جنبش دی اور

یا۔ہو گلگائے دیکھ مختتم ٹکٹکی دیوار گیروں پر چنے ہوئے برتن اس لڑکے کو ایک غیر

صورت میں وزانہ ایک ہی واقعہ دیکھ قطروں کیرہے تھے۔ پانی کے نل سے ردیکھ رہا آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ بجلی کا قمقمہ حیرت سے اس لڑکے کی طرف

تھا۔ کمرے کی فضا سسکیاں بھرتی ہوئی معلوم ہو رہی تھی۔ "قاسم ۔۔۔۔۔۔۔ قاسم"

Page 25: Atish Paray

قا کے لڑکا جو انہی الفاظ کی گردان کر رہا تھا۔ بھاگا ہوا اپنے آ" جی آیا صاحب"پاس گیا۔

انسپکٹر صاحب نے کمبل سے منہ نکاال، اور لڑکے پر خفا ہوتے ہوئے کہا۔ "بیوقوف کے بچے، آج پھر یہاں صراحی اور گالس رکھنا بھول گیا ہے۔" "ابھی الیا صاحب ۔۔۔۔۔۔ ابھی الیا صاحب۔"

کے لیے کمرے میں صراحی اور گالس رکھنے کے بعد وہ ابھی برتن صاف کرنے ھا ہی تھا کہ پھر اسے کمرے سے آواز آئی۔بیٹ "قاسم ۔۔۔۔۔۔۔ قاسم"قاسم بھاگتا ہوا اپنے آقا کے پاس گیا۔" جی آیا صاحب"بمبئی کا پانی کس قدر خراب ہے۔ جاؤ پارسی کے ہوٹل سے سوڈا لیکر آؤ۔ بس "

"بھاگے ہوئے جاؤ، سخت پیاس لگ رہی ہے۔کے سے جو گھر سے قریبا نصف میل قاسم بھاگا ہوا گیا اور پارسی کے ہوٹل

کر دی۔فاصلے پر واقع تھا، سوڈے کی بوتل لے آیا اور اپنے آقا کو گالس میں ڈال "اب تم جاؤ، مگر اس وقت تک کیا کر رہے ہو، برتن صاف نہیں ہوئے کیا؟" "ابھی صاف ہو جاتے ہیں صاحب۔"ش کر دینا مگر دیکھنا اور ہاں، برتن صاف کرنے کے بعد میرے سیاہ بوٹ کو پال"

"احتیاط رہے، چمڑے پر کوئی خراش نہ آئے، ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔کہتے ہوئے "بہت اچھا صاحب"کے بعد کا جملہ بخوبی معلوم تھا۔ " ورنہ"قاسم کو

دیے۔وہ باورچی خانہ میں واپس چال گیا، اور برتن صاف کرنا شروع کررہی تھیں، پلکیں آپس میں ملی جا ی تھی۔آ رہاب نیند اسکی آنکھوں میں سمٹی چلی

بوٹ ابھی پالش یہ خیال کرتے ہوئے کہ صاحب کے ۔۔۔۔۔۔ سر میں سیسہ اتر رہا تھااالپنا شروع کرنے ہیں۔ قاسم نے اپنے سر کو زور سے جنبش دی، اور وہی راگ

۔کر دیا "اتے ہیں صاحب۔ہو ججی آیا صاحب، جی آیا صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بوٹ ابھی صاف "

ہونے لگا کہ ر نیند کا طوفان ہزار بند باندھنے پر بھی نہ رکا۔ اب اسے محسوسمگانہیں اپنی اپنی جگہ نیند ضرور غلبہ پا کر رہے گی۔ لیکن ابھی برتنوں کو دھو کر

بھاڑ میں جائیں "میں آیا۔ پر رکھنا باقی تھا۔ اس وقت ایک عجیب خیال اسکے دماغدیر اسی جگہ پر سو جاؤں، ۔کیوں نہ تھوڑیبرتن، اور چولھے میں جائیں بوٹ۔۔۔

"اور پھر چند لمحات آرام کرنے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Page 26: Atish Paray

اور برتنوں پر جلدی کر دیااس خیال کو باغیانہ تصور کرتے ہوئے قاسم نے ترک ۔کر دیجلدی راکھ ملنا شروع

پانی ابلتا ہوا تھوڑی دیر کے بعد جب نیند پھر غالب آئی تو اسکے جی میں آیا کہاسکے کام میں اپنے سر پر انڈیل لے اور اسطرح اس غیر مرئی طاقت سے جو

حارج ہو رہی تھی، نجات پائے، مگر اتنا حوصلہ نہ پڑا۔صاف برتنوں کو باآلخر اس نےبصد مشکل منہ پر پانی کے چھینٹے مار مار کر

سے سو راماطمینان کا سانس لیا۔ اب وہ آ اس نےکر ہی لیا۔ یہ کام کرنے کے بعد شدت سے اسکی آنکھیں اور دماغکے لیے سکتا تھا۔ اور نیند۔۔۔۔۔۔۔۔وہ نیند، جس

انتظار کر رہے تھے، اب بالکل نزدیک تھی۔اپنا بستر چی خانے کی روشنی گل کرنے کے بعد قاسم نے باہر برآمدے میںروبا

وؤں میں تھام بازبچھایا اور لیٹ گیا۔ اور اس سے پہلے کہ نیند اسے اپنے آرام دہکی آوازوں سے گونج اٹھے۔" بوٹ، بوٹ"لے، اسکے کان

بڑبڑاتا ہوا قاسم بستر سے اٹھا۔ جیسے " بہت اچھا صاحب، ابھی پالش کرتا ہوں"حکم دیا ہے۔کے لیے اسکے آقا نے ابھی بوٹ روغن کرنے

غلبے ابھی قاسم بوٹ کا ایک پیر بھی اچھی طرح پالش کرنے نہ پایا تھا کہ نیند کے نے اسے وہیں پر سال دیا۔

سورج کی خونیں کرنیں اس مکان کے شیشوں سے نمودار ہوئیں۔۔۔۔۔۔۔۔قاسم کی کتاب یا۔ہو گحیات میں ایک اور پر از مشقت باب کا اضافہ

سویا ہوا صبح جب انسپکٹر صاحب نے اپنا نوکر باہر برآمدے میں بوٹوں کے پاسبیہوش پڑا یہ سور کی طرح یہاں"ے ہوئے کہا۔ دیکھا تو اسے ٹھوکر مار کر جگات

ہے اور مجھے خیال تھا کہ اس نے بوٹ صاف کر لئے ہونگے۔۔۔۔۔۔۔نمک "حرام۔۔۔۔۔۔۔ابے قاسم۔

"جی آیا صاحب۔"کرنے کا اپنے ہاتھ میں بوٹ صاف اس نےقاسم کے منہ سے اتنا ہی نکال تھا کہ

آواز میں لرزتی ہوئی اس نےے برش دیکھا۔ فورا ہی اس معاملے کو سمجھتے ہوئکہا۔

"میں سو گیا تھا صاحب، مگر۔۔۔۔۔مگر بوٹ ابھی پالش ہو جاتے ہیں صاحب۔۔۔۔۔۔۔"۔کر دیایہ کہتے ہوئے اس نے جلدی جلدی بوٹ کو برش سے رگڑنا شروع

اپنا بستر تہہ کیا اور اسے اوپر کے کمرے میں اس نےبوٹ پالش کرنے کے بعد رکھنے چال گیا۔

Page 27: Atish Paray

"قاسم" "جی آیا صاحب"

قاسم بھاگا ہوا نیچے آیا اور اپنے آقا کے پاس کھڑا ہو گیا۔برتن اچھی باورچی خانے کے تماماس لئے دیکھو، آج ہمارے یہاں مہمان آئینگے۔ "

عالوہ تمھیں طرح صاف کر رکھنا۔۔۔۔۔۔فرش بھی دھال ہوا ہونا چاہیئے، اسکےہو ور کرسیوں کو بھی صاف کرنامالقاتی کمرے کی تصویروں، میزوں ا

ہے، اسے ا۔۔۔۔۔۔۔سمجھے، مگر خیال رہے میری میز پر ایک تیز دھار چاقو پڑا ہواگہو جانا مت چھیڑنا۔ میں اب دفتر جا رہا ہوں مگر یہ کام دو گھنٹے سے پہلے

"چاہیئے۔ "بہت بہتر صاحب"

یا۔ہو گں مشغول انسپکٹر صاحب دفتر چلے گئے۔ قاسم باورچی خانہ صاف کرنے میختم باورچی خانے کے تمام کام کو اس نےڈیڑھ گھنٹے کی انتھک محنت کے بعد

چال گیا۔۔ اور ہاتھ پاؤں صاف کرنے کے بعد جھاڑن لیکر مالقاتی کمرے میںکر دیادماغ میں وہ ابھی کرسیوں کو جھاڑن سے صاف کر رہا تھا کہ اسکے تھکے ہوئے

برتن پڑے دیکھتا ہے کہ اسکے گرد و پیش برتن ہی ایک تصویر سی کھچ گئی۔ کیاہے جس ہیں اور پاس ہی راکھ کا ایک ڈھیر لگ رہا ہے۔ ہوا زوروں پر چل رہی

ایک سے وہ راکھ اڑ اڑ کر فضا کو خاکستری بنا رہی ہے۔ یکا یک اس ظلمت میںکی کرنیں خون آشام برچھیوں کی طرح ہر برتن کے سرخ آفتاب نمودار ہوا جس

ئی۔۔۔۔۔۔۔فضا خوشی کے قہقہوں ہو گے میں گھس گئیں۔ زمین خون سے شرابور سینئی۔ہو گمعمور سے

جی "کر ناک خواب سے بیدار ہو قاسم یہ منظر دیکھ کر گھبرا گیا اور اس وحشتیا۔ہو گکہتا ہوا پھر اپنے کام میں مشغول " آیا صاحب، جی آیا صاحب

لگا۔ اب ے ایک اور منظر رقص کرنےتھوڑی دیر کے بعد اسکی آنکھوں کے سامندفعتا اسکے سامنے چھوٹے چھوٹے لڑکے آپس میں کوئی کھیل کھیل رہے تھے۔

نمودار ہوا، جو آندھی چلنا شروع ہوئی، جسکے ساتھ ہی ایک بدنما اور بھیانک دیواسکے آقا کے ہم شکل ان سب لڑکوں کو نگل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔قاسم نے خیال کیا کہ وہ دیو

اب اس دیو نے زور زور و قد و قامت کے لحاظ سے وہ اس سے کہیں بڑا تھا۔تھا۔ گسے ڈکارنا شروع کیا۔۔۔۔۔قاسم سر سے پیر تک لرز گیا۔

قاسم نے جلدی ابھی تمام کمرہ صاف کرنا تھا اور وقت بہت کم رہ گیا تھا۔ چنانچہتم کرنے کام خ۔ ابھی وہ کرسیوں کاکر دیاجلدی کرسیوں پر جھاڑن مارنا شروع

Page 28: Atish Paray

مہمان آ رہے آج"کے بعد میز صاف کرنے جا رہا تھا کہ اسے یکا یک خیال آیا۔ ستا رہی ہیں۔ خدا معلوم کتنے برتن صاف کرنے پڑیں گے اور یہ نیند کمبخت

"ہے۔۔۔۔۔۔۔مجھ سے تو کچھ بھی نہ ہو سکے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچانک اسے ہیہ سوچتے وقت وہ میز پر رکھی ہوئی چیزوں کو پونچھ رہا تھا ک

متعلق اسکے آقا نے قلمدان کے پاس ایک کھال ہوا چاقو نظر آیا۔۔۔۔۔وہی چاقو جسکےکہا تھا کہ بہت تیز ہے۔

چاقو۔۔۔۔۔۔تیز "ئے۔ ہو گچاقو کا دیکھنا تھا کہ اسکی زبان پر یہ لفظ خود بخود جاری "تا ہے۔کر سکدھار چاقو۔۔۔۔۔۔یہی تمھاری مصیبت کو ختم

لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب وہ بغیر قاسم نے تیز دھار چاقو اٹھا اپنی انگلی پر پھیر کچھ اور سوچےنیند۔۔۔۔۔۔۔پیاری، شام کے وقت برتن صاف کرنے کی زحمت سے بہت دور تھا۔ اور

تی تھی۔ہو سکپیاری نیند اب اسے بآسانی نصیب انگلی سے خون کی سرخ دھار بہہ رہی تھی۔۔۔۔۔سامنے والی دوات کی سرخ

ی سے کہیں چمکیلی۔ قاسم اس خون کی دھار کو مسرت بھری آنکھوں سے روشنائ "نیند، نیند۔۔۔۔۔۔پیاری نیند۔"رہا تھا اور منہ میں یہ گنگنا رہا تھا۔ دیکھ

زنان خانے میں تھوڑی دیر کے بعد وہ بھاگا ہوا اپنے آقا کی بیوی کے پاس گیا جوبی دیکھئے"لگا۔ ھا کر کہنےبیٹھی سالئی کر رہی تھی۔ اور اپنی زخمی انگلی دک

"بی جی۔۔۔۔۔۔ "ا تو نے۔ہو گارے قاسم یہ تو نے کیا کیا؟۔۔۔۔۔۔۔کمبخت صاحب کے چاقو کو چھیڑا "قاسم ہنس پڑا۔" بی بی جی۔۔۔۔۔بس میز صاف کر رہا تھا اور اس نے کاٹ کھایا۔"ا تو سہی، آج ابے سور اب ہنستا ہے، ادھر آ، میں اس پر کپڑا باندھ دوں۔ مگر اب بت"

"یہ برتن تیرا باپ صاف کرے گا؟قاسم اپنی فتح پر زیر لب مسکرا رہا تھا۔

انگلی پر پٹی بندھوا کر قاسم پھر کمرے میں آ گیا اور میز پر پڑے ہوئے خون کے ۔کر دیادھبے صاف کرنے کے بعد خوشی خوشی اپنا کام ختم

ے۔۔۔۔۔۔ضرور صاف کرنےاب اس نمک حرام باورچی کو برتن صاف کرنے ہونگ"قاسم نے انتہائی مسرت میں کھڑکی میں لٹکے ہوئے" ہونگے۔۔۔۔۔کیوں میاں مٹھو۔

طوطے سے دریافت کیا۔شام کے وقت مہمان آئے اور چلے گئے۔ باورچی خانے میں صاف کرنے والے

برتنوں کا ایک طومار سا لگ گیا۔ انسپکٹر صاحب قاسم کی زخمی انگلی دیکھ کراس ے۔ اور جی کھول کر گالیاں دیں، مگر اسے مجبور نہ کر سکے، شایدبہت برس

Page 29: Atish Paray

درد ئے کہ ایک بار انکی اپنی انگلی میں قلم تراش کی نوک چبھ جانے سے بہتلیمحسوس ہوا تھا۔

اپنے بستر میں آقا کی خفگی آنے والی مسرت نے بھال دی اور قاسم کودتا پھاندتا ہوارہا، مگر اسکے برتن صاف کرنے کی زحمت سے بچاجا لیٹا۔ تین چار روز تک وہ

ئی۔ہو گبعد انگلی کا زخم بھر آیا۔۔۔۔۔۔اب پھر وہی مصیبت نمودار "قاسم، صاحب کی جرابیں اور قمیص دھو ڈالو۔" "بہت اچھا بی بی جی۔"قاسم اس کمرے کا فرش کتنا بدنما ہو رہا ہے۔ پانی ال کر ابھی صاف کرو، دیکھنا "

"ھبہ باقی نہ رہے۔کوئی داغ د "بہت اچھا صاحب" "دو۔ قاسم شیشے کے گالس کتنے چکنے ہو رہے ہیں۔ انہیں نمک سے صاف کر" "جی اچھا صاحب" "قاسم طوطے کا پنجرہ کس قدر غلیظ ہو رہا ہے، اسے صاف کیوں نہیں کرتے۔" "ابھی کرتا ہوں بی بی جی" "نا، وہ سیڑھیوں کو دھو ڈالے گا۔قاسم ابھی خاکروب آتا ہے، تم پانی ڈالتے جا" "بہت اچھا صاحب" "قاسم ذرا بھاگ کر ایک آنے کا دہی تو لے آنا۔" "ابھی چال بی بی جی۔"

زیادتی اور آرام پانچ چھ روز اسی قسم کے احکام سننے میں گزر گئے۔ قاسم کام کیعلی اور پھر کے قحط سے تنگ آگیا۔ ہر روز اسے نصف شب تک کام کرنا پڑتا

کرنی پڑتی۔ یہ چائے تیارکے لیے الصباح چار بجے کے قریب بیدار ہو کر ناشتے بہت زیادہ تھا۔کے لیے کام قاسم کی عمر کے لڑکے

چاقو کی ایک روز انسپکٹر صاحب کی میز صاف کرتے وقت اسکے ہاتھ خود بخودطرف بڑھے، اور ایک لمحے کے بعد اسکی انگلی سے خون بہہ رہا

ہوئے۔ ۔انسپکٹر صاحب اور انکی بیوی قاسم کی یہ حرکت دیکھ کر بہت خفاتھا۔۔۔۔۔۔ہ کرد ایجادچنانچہ سزا کی صورت میں اسے شام کا کھانا نہ دیا گیا، مگر وہ اپنیمعمولی سا ترکیب کی خوشی میں مگن تھا۔۔۔۔۔۔۔ایک وقت روٹی نہ ملی۔ انگلی پر

سودا کچھ برا ات مل گئی۔۔۔۔۔۔یہزخم آگیا مگر برتنوں کا انبار صاف کرنے سے نجنہ تھا۔

Page 30: Atish Paray

بھر مار یا، اب پھر کام کی وہیہو گچند دنوں کے بعد اسکی انگلی کا زخم ٹھیک میں شروع تھی۔ پندرہ بیس روز گدھوں کی سی مشقت میں گزر گئے۔ اس عرصے

میز پر لے۔ مگر اب قاسم نے بارہا ارادہ کیا کہ چاقو سے پھر اپنی انگلی زخمی کرے وہ چاقو اٹھا لیا گیا اور باورچی خانے والی چھری کند تھی۔س

رہنا ایک روز باورچی بیمار پڑ گیا اب اسے ہر وقت باورچی خانے میں موجودغرض صبح پڑتا، کبھی مرچیں پیستا، کبھی آٹا گوندھتا، کبھی کوئلوں کو جال دیتا۔

کی " کربے قاسم وہابے قاسم یہ کر، ا"سے لیکر آدھی رات تک اسکے کانوں میں صدا گونجتی رہتی۔

باورچی دو روز تک نہ آیا۔۔۔۔۔۔قاسم کی ننھی جان اور ہمت جواب دے گئی، مگر سوائے کام کے اور چارہ ہی کیا تھا۔

ایک روز اسکے آقا نے اسے الماری صاف کرنے کو کہا۔ جس میں ادویات کیکرتے وقت اسے ڈاڑھیشیشیاں اور مختلف چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔ الماری صاف

لیا۔ دھار مونڈنے کا ایک بلیڈ نظر آیا۔ بلیڈ کو پکڑتے ہی اس نے اپنی انگلی پر پھیربڑا زخم بن تھی بہت تیز اور باریک، انگلی میں دور تک چلی گئی، جس سے بہت

گیا۔تھا، وہ نہ قاسم نے بہت کوشش کی کہ خون نکلنا بند ہو جائے مگر زخم کا منہ بڑا

رنگ کاغذ کی مانند ۔۔۔۔۔سیروں خون پانی کی طرح بہہ گیا۔ یہ دیکھ کر قاسم کاتھما۔۔سپید ہو گیا۔ بھاگا ہوا اپنے آقا کی بیوی کے پاس گیا۔

"بی بی جی میری انگلی میں صاحب کا استرا لگ گیا ہے۔"دیکھا، جب انسپکٹر صاحب کی بیوی نے قاسم کی انگلی کو تیسری مرتبہ زخمی

انگلی پر باندھ لے کو سمجھ گئی۔ چپ چاپ اٹھی اور کپڑا نکال کر اسکیفورا معام "قاسم، اب تم ہمارے گھر میں نہیں رہ سکتے۔"دیا اور کہا۔

"وہ کیوں بی بی جی" "یہ صاحب سے دریافت کرنا"

یا۔ہو گصاحب کا نام سنتے ہی قاسم کا رنگ اور بھی سپید ے گھر آئے اور اپنی بیوی سے قاسم چار بجے کے قریب انسپکٹر صاحب دفتر س

کر اسے فورا اپنے پاس بالیا۔ کی نئی حرکت سن "کیوں میاں، یہ انگلی کو ہر روز زخمی کرنے کے کیا معنی ہیں؟"

قاسم خاموش کھڑا رہا۔

Page 31: Atish Paray

دیا جا سکتا تم نوکر یہ سمجھتے ہو کہ ہم لوگ اندھے ہیں اور ہمیں بار بار دھوکہ"بھاگ جاؤ، ہمیں تمھارے وریا دبا کر ناک کی سیدھ میں یہاں سےہے۔۔۔۔۔۔۔اپنا بستر ب

"جیسے نوکروں کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔۔سمجھے۔ "مگر۔۔۔۔۔۔۔مگر صاحب"صاحب کا بچہ۔۔۔۔۔۔۔۔بھاگ جا یہاں سے، تیری بقایا تنخواہ کا ایک پیسہ بھی نہیں دیا "

"جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔اب میں اور کچھ نہیں سننا چاہتا۔سے وتا ہوا کمرے سے باہر چال گیا۔ طوطے کی طرف حسرت بھری نگاہوںقاسم ر

دیکھا۔ طوطے نے بھی خاموشی میں اس سے کچھ کہا اور اپنا بستر لیکر وہکی بیوی سیڑھیوں سے نیچے اتر گیا۔ مگر دفعتا کچھ خیال آیا اور بھاگا ہوا اپنے آقا

کے جی۔۔۔۔۔۔میں ہمیشہ الم بی بیس"کر ہ کے پاس گیا اور درد انگیز آواز میں اتنا کہیا۔ہو گوہاں سے رخصت " آپ سے رخصت ہو رہا ہوںلیے

خیراتی ہسپتال میں ایک نوخیز لڑکا درد کی شدت سے لوہے کے پلنگ پر کروٹیں بدل رہا ہے۔ پاس ہی دو ڈاکٹر بیٹھے ہیں۔

یار زخم خطرناک صورت اخت"ان میں سے ایک ڈاکٹر اپنے ساتھی سے مخاطب ہوا۔ "کر گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاتھ کاٹنا پڑے گا۔

"بہت بہتر۔"یہ کہتے ہوئے دوسرے ڈاکٹر نے اپنی نوٹ بک میں اس مریض کا نام درجذیل کیا۔۔۔۔۔۔۔۔ایک چوبی تختے پر جو چارپائی کے سرہانے لٹکا ہوا تھا، مندرجہ

الفاظ لکھے تھے۔)مرحوم(محمد قاسم ولد عبدالرحمن : نام

سال دس: عمر***

Page 32: Atish Paray

ماہی گیر

)فرانسیسی شاعر وکٹر ہیوگو کی ایک نظم کے تاثرات(

سمندر رو رہا تھا۔

کر رہی تھیں۔ مقید لہریں پتھریلے ساحل کے ساتھ ٹکرا ٹکرا کر آہ و زاریکمزور بادبانوں کے دور۔۔۔۔۔۔پانی کی رقصاں سطح پر چند کشتیاں اپنے دھندلے اور

آسمان کی نیلی قبا میں ٹھٹھری ہوئی کانپ رہی تھیں۔ سہارے بے پناہ سردی سےپورے جوبن میں لہلہا رہا چاند کھل کھال کر ہنس رہا تھا۔ ستاروں کا کھیت اپنے

بسی ہوئی تھی۔تھا۔۔۔۔۔۔فضا سمندر کے نمکین پانی کی تیز بو میں

ایک دوسرے ساحل سے کچھ فاصلے پر چند شکستہ جھونپڑیاں خاموش زبان میںسر چھپانے کی پنی خستہ حالی کا تذکرہ کر رہی تھیں۔۔۔۔۔۔۔یہ ماہی گیروں کےسے ا

جگہ تھی۔

شعاعیں زمین پر رینگ ایک جھونپڑی کا دروازہ کھال تھا جس میں چاند کی آوارہاس اندھی روشنی میں رینگ کر اسکی کاجل ایسی فضا کو نیم روشن کر رہی تھیں۔

تختے پر چند تھالیاں جھلمال ا تھا اور ایک چوبیہآ ردیوار پر ماہی گیر کا جال نظر رہی تھیں۔

میں ملبوس جھونپڑی کے کونے میں ایک ٹوٹی ہوئی چارپائی، تاریک چادروںپر پانچ بچے اندھیرے میں سر نکالے ہوئے تھی۔ اس کے پہلو میں پھٹے ہوئے ٹاٹ

ھر تھرا رہا تمحو خواب تھے۔۔۔۔۔۔۔ننھی روحوں کا ایک گھونسال جو خوابوں سےکے بل بیٹھی گنگنا تھا۔ پاس ہی انکی ماں نہ معلوم کن خیاالت میں مستغرق گھٹنوں

رہی تھی۔

Page 33: Atish Paray

آنیوالے خطرے سے چونکی۔۔۔۔بوڑھا سمندر کسی سن کریکایک وہ لہروں کا شور گال پھاڑ کر کےمخاطب آگاہ، سیاہ چٹانوں، تند ہواؤں اور نصف شب کی تاریکی کو

ہر ایک کی پیشانی پر اپنے تھا۔ وہ اٹھی اور بچوں کے پاس جا کر پھاڑ کر چال رہامیں بیٹھ کر دعا مانگنے لگی۔ سرد لبوں سے بوسہ دیا اور وہیں ٹاٹ کے ایک کونے

رہے تھے۔لہروں کے شور میں یہ الفاظ بخوبی سنائی دے

کفن سہارا، رات کااے خدا۔۔۔۔۔اے بیکسوں اور غریبوں کے خدا، ان بچوں کا واحد"کے عمیق گڑھے پر اوڑھے سمندر کی لہروں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔موت

ساتھ کشتی لڑتا پاؤں لٹکائے ہے۔۔۔۔۔۔صرف انکی خاطر وہ ہر روز اس دیو کےاگر یہ صرف نوجوان ہے۔۔۔۔۔۔۔اے خدا تو اسکی جان حفاظت میں رکھیو۔۔۔۔۔۔۔آہ،

"۔ہوتے، اگر یہ صرف اپنے والد کی مدد کر سکتے

کانپ گئی۔ اور ٹھنڈی آہ یہ کہکر خدا معلوم اسے کیا خیال آیا کہ وہ سر سے پیر تکا، ہو گکر انکا بھی یہی شغل بڑے ہو"بھر کر تھرتھراتی ہوئی آواز میں کہنے لگی۔

گا۔۔۔۔۔۔۔آہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ غربت، پھر مجھے چھ جانوں کا خدشہ الحق رہے"غربت۔

ئی۔ دفعتا ہو گغرق اپنی غربت اور تنگ دامانی کے خیاالت میں یہ کہتے ہوئے وہہوٹلوں کی دیو قامت وہ اس اندھیرے خواب سے بیدار ہوئی اور اسکے دماغ میں

ان عمارتوں کی عمارتیں اور امراء کے راحت کدوں کی تصویریں کھچ گئیں۔ل پر ایک اسکے ددلفریب راحتوں اور امراء کی تعیش پرستیوں کا خیال آتے ہیوہ کر کےمحسوس دھند سی چھا گئی۔ کلیجے پر کسی غیر مرئی ہاتھ کی گرفت

دیکھنا شروع کیا۔جلدی سے اٹھی اور دروازے سے تاریکی میں آوارہ نظروں سے

تھی کہ لوگ اسکی یہ حرکت خیاالت کی آمد کو نہ روک سکی۔ وہ سخت حیرانپیٹ سے پیدا یک ہی طرح ماں کےامیر اور غریب کیوں ہوتے ہیں جبکہ ہر انسان ا

مگر کوئی اس نے اپنے دماغ پر بہت زور دیاکے لیے ہوتا ہے۔ اس سوال کے حل وہ یہ تھی خاطر خواہ جواب نہ مل سکا۔ ایک اور چیز جو اسے پریشان کر رہی تھی

چھین کر التا کہ جب اسکا خاوند اپنی جان پر کھیل کر سمندر کی گود سے مچھلیاںسینکڑوں روپے وجہ ہے کہ مارکیٹ کا مالک بغیر محنت کئے ہر روزہے تو کیا

کہ محنت تو پیدا کر لیتا ہے۔ اسے یہ بات خاص طور پر عجیب سی معلوم ہوئی

Page 34: Atish Paray

خاوند اپنا خون کریں ماہی گیر اور نفع ہو مارکیٹ کے مالک کو۔ رات بھر اسکامیں چلی اور صبح کے وقت آدھی کمائی اسکی بڑی توند کر دےپسینہ ایک

بلند آواز میں جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان تمام سوالوں کا کچھ جواب نہ پا کر وہ ہنس پڑی اورکہنے لگی۔

"مجھ کم عقل کو بھال کیا معلوم۔ یہ سب کچھ خدا جانتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔۔"

اے خدا میں گنہگار ہوں، تو جو "اسکے بعد وہ کچھ کہنے والی تھی کہ کانپ اٹھی۔ "ا ہے۔۔۔۔۔ایسا خیال کرنا کفر ہے۔کرتا ہے، بہتر کرت

بیٹھ گئی اور انکے معصوم آ کریہ کہتی ہوئی وہ خاموشی سے اپنے بچوں کے پاس ۔کر دیاچہروں کی طرف دیکھکر بے اختیار رونا شروع

سیاہ بال پریشان کئے باہر آسمان پر کالے بادل مہیب ڈائنوں کی صورت میں اپنےچاند کے درخشاں رخسار گر کوئی بادل کا ٹکڑاچکر کاٹ رہے تھے۔ کبھی کبھی ا

جاتی۔ سمندر کی سیمیں لہریں پر اپنی سیاہی مل دیتا تو فضا پر قبر کی تاریکی چھامستولوں پر ٹمٹماتی ہوئی گہرے رنگ کی چادر اوڑھ لیتیں اور کشتیوں کے

جھپکنا شروع کر دیتیں۔روشنیاں اس اچانک تبدیلی کو دیکھ کر آنکھیں

دروازے کے یر کی بیوی نے اپنے میلے آنچل سے آنسو خشک کئے اورماہی گکیونکہ اس کا خاوند پاس کھڑی ہو کر دیکھنے لگی کہ آیا دن طلوع ہوا ہے یا نہیں۔

مگر صبح کا ایک سانس طلوع کی پہلی کرن کے ساتھ ہی گھر واپس آ جایا کرتا تھاکی ایک دھاری بھی نظر نہ یبھی بیدار نہ ہوا تھا۔ سمندر کی تاریک سطح پر روشن

تھی۔آ رہی تھی۔ بارش کاجل کی طرح تمام فضا پر برس رہی

مستغرق رہی۔ وہ بہت دیر تک دروازے کے پاس کھڑی اپنے خاوند کے خیال میںمعمولی جو اس بارش میں سمندر کی تند موجوں کے مقابلے میں لکڑی کے ایک

مانگ دعاکے لیے ی اسکی عافیت تختے اور کمزور بادبان سے مسلح تھا۔ وہ ابھرہی تھی کہ یکایک اس کی نگاہیں اندھیرے میں ایک شکستہ جھونپڑی کی طرف

اٹھیں، جو تاروں سے محروم آسمان کی طرف ہاتھ پھیالئے لرز رہی تھی۔

Page 35: Atish Paray

نا معلوم خوف کی اس جھونپڑی میں روشنی کا نام تک نہ تھا۔ کمزور دروازہ کسیہو رہی تھی۔کوں کی چھت ہوا کے دباؤ تلے دوہریوجہ سے کانپ رہا تھا۔ تن

روز سے بخار آ رہا آہ، خدا معلوم بیچاری بیوہ کا کیا حال ہے۔۔۔۔۔۔اسے کئی"خیال کرتے ہوئے کہ شاید ماہی گیر کی بیوی زیر لب بڑبڑائی اور یہ" ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جائے۔۔۔۔۔۔۔کانپ اٹھی۔کسی روز وہ بھی اپنے خاوند سے محروم ہو

سمیت روٹی کے ہ شکستہ جھونپڑی ایک بیوہ کی تھی جو اپنے دو کم سن بچوںودھوپ میں اس قحط میں موت کی گھڑیاں کاٹ رہی تھی۔ مصیبت کی چچلتی ہوئی

تھے جو ابھی مشکل پر کوئی سایہ کرنے واال نہ تھا۔ رہا سہا سہارا دو ننھے بچےسے چل پھر سکتے تھے۔

سر کے لیے بچاؤ ہمدردی کا جذبہ امڈا۔ بارش کےماہی گیر کی بیوی کے دل میں کے بعد وہ پر ٹاٹ کا ایک ٹکڑا رکھ کر اور ایک اندھی اللٹین روشن کرنے

جھونپڑی کے پاس پہنچی اور دھڑکتے ہوئے دل سے دروازے پر دستکدی۔۔۔۔۔۔لہروں کا شور اور تیز ہواؤں کی چیخ پکار اس دستک کا جواب تھے، وہ

یا کہ شاید اسکی اچھی ہمسائی گہری نیند سو رہی ہے۔کانپی اور خیال ک

خاموشی اس نے ایک بار پھر آواز دی، دروازہ کھٹکھٹایا مگر جواب پھرنہ ہوا۔ تھا۔۔۔۔۔۔کوئی صدا، کوئی جواب اس جھونپڑی کے بوسیدہ لبوں سے نمودار

ہوا یکایک دروازہ، جیسے اس بے جان چیز نے رحم کی لہر محسوس کی، متحرکر کھل گیا۔او

قبر کو اپنی اندھی ماہی گیر کی بیوی جھونپڑی کے اندر داخل ہوئی اور اس خاموشمکمل سکوت طاری اللٹین سے روشن کر دیا، جس میں لہروں کے شور کے سوا

سیاہ تھا۔ پتلی چھت سے بارش کے قطرے بڑے بڑے آنسوؤں کی صورت میںزمین کو تر کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔فضا میں ایک مہیب خوف سانس لے رہا تھا۔

میں سمٹا ہوا تھا سر ماہی گیر کی بیوی اس خوفناک سماں کو دیکھ کر جو جھونپڑیچھلکے اور بے اختیار اچھل تا پا ارتعاش بن کر رہ گئی۔ آنکھوں میں گرم گرم آنسو

Page 36: Atish Paray

گئے۔ اس نے ایک سرد آہ تھ ہم آغوش ہوکر بارش کے ٹپکے ہوئے قطروں کے سابھری اور دردناک آواز میں کہنے لگی۔

محبت، گیت، تبسم، آہ۔۔۔۔۔تو ان بوسوں کا جو جسم کو راحت بخشتے ہیں، ماں کی""قبر۔۔۔۔۔۔۔آہ میرے خدا۔ہنسی اور ناچ کا ایک ہی انجام ہے۔۔۔۔۔۔۔یعنی

اور اسکے اکڑی ہوئی تھیاسکے سامنے پھوس کے بستر پر بیوہ کی سرد الش کو رکی پہلو میں دو بچے محو خواب تھے۔ الش کے سینے میں ایک آہ کچھ کہنے

تاریک ہوئی تھی۔ اسکی پتھرائی ہوئی آنکھیں جھونپڑی کی خستہ چھت کو چیر کرہے۔آسمان کی طرف ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی تھیں، جیسے انہیں کچھ پیغام دینا

تھوڑی دیر دیوانہ شت خیز منظر کو دیکھ کر چال اٹھی۔ماہی گیر کی بیوی اس وحچمک پیدا ہوئی، اور وار ادھر ادھر گھومی۔ یکایک اسکی نمناک آنکھوں میں ایک

میں لپیٹ لی اور اس لپک کر الش کے پہلو سے کچھ چیز اٹھا کر اپنی چادر اس نےدار الخطر سے لڑکھڑاتی ہوئی اپنی جھونپڑی میں چلی آئی۔

جھولی کو میلے اپنی اس نےبدلے ہوئے رنگ اور لرزاں ہاتھوں سے چہرے کےتھوڑی دیر بیوہ سے بستر پر خالی کر دیا اور اس پر پھٹی ہوئی چادر ڈال دی۔

زمین پر بیٹھ گئی۔چھینی ہوئی چیز کی طرف دیکھ کر وہ اپنے بچوں کے پاسیں تاریکی کا تعاقب شعاعمطلع سمندر کے افق پر سپید ہو رہا تھا۔ سورج کی دھندلی

جرم کے شکستہ تار چھیڑ رہی کر رہی تھیں۔ ماہی گیر کی بیوی بیٹھی اپنے احساساپنی مغموم تانیں چھیڑ رہی تھی۔ ان غیر مربوط الفاظ کے ساتھ کن سری لہریں

تھیں۔

ہو شکایت نہ آہ میں نے بہت برا کیا۔ اب اگر وہ مجھے مارے تو مجھے کوئی"جیب ہے کہ میں اس سے خائف ہوں جس سے محبت کرتیی۔۔۔۔۔یہ بھی عگ

"۔کر دےہوں۔۔۔۔۔۔کیا واپس چھوڑ آؤں۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔شاید وہ مجھے معاف

Page 37: Atish Paray

ہوا کے زور سے وہ اسی قسم کے خیاالت میں غلطاں و پیچاں بیٹھی ہوئی تھی کہپا اور کسی کو نہکا کلیجہ دھک سے رہ گیا، وہ اٹھی ر اسک دروازہ ہال۔ یہ دیکھ

کر وہیں متفکر بیٹھ گئی۔

تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ کتنیکے لیے ابھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔بیچارہ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسے ان بچوں ""یہ شور کیا ہے؟اکیلے آدمی کو سات پیٹ پالنے پڑتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مگر

یہ آواز چیختی ہوئی ہوا کی تھی جو جھونپڑی کے ساتھ رگڑ کر گزر رہی تھی۔

وہ پھر اپنے اندرونی غم یہ کہہ کر" چاپ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ نہیں ہوا ہے۔ اسکے قدموں کی"ہو کا شور مفقود میں ڈوب گئی۔ اب اسکے کانوں میں ہواؤں اور لہروں

یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔سینے میں خیاالت کے تصادم کا کیا کم شور تھا۔گ

سنگریزے آبی جانور ساحل کے آس پاس چال رہے تھے۔ پانی میں گھسے ہوئےکی رے سے ٹکرا کر کھنکھنا رہے تھے۔ کشتی کے چپوؤں کی آواز صبحایک دوس

بے خاموش فضا کو مرتعش کر رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ماہی گیر کی بیوی کشتی کی آمد سےخبر اپنے خیاالت میں کھوئی ہوئی تھی۔

شعاعیں جھونپڑی میں دفعتا دروازہ ایک شور کے ساتھ کھال۔۔۔۔۔۔صبح کی دھندلیایک بڑا سا جال ڈالے دہلیز ہوئیں، ساتھ ہی ماہی گیر کاندھوں پر تیرتی ہوئی داخل

پر نمودار ہوا۔

ہو رہے تھے۔اسکے کپڑے رات کی بارش اور سمندر کے نمکین پانی سے شرابورسردی اور غیر ر کو دھنسی ہوئی تھیں۔ جسمآنکھیں شب بیداری کی وجہ سے اند

معمولی مشقت سے اکڑا ہوا تھا۔

ماہی گیر کی بیوی چونک اٹھی اور عاشقانہ بیتابی سے اپنے " ا، تم ہو۔نسیم کے اب"خاوند کو چھاتی سے لگا لیا۔

"ہاں میں ہوں پیاری"

Page 38: Atish Paray

ایک دھندلی یہ کہتے ہوئے ماہی گیر کے کشادہ مگر مغموم چہرے پر مسرت کیرات کی کلفت روشنی چھا گئی۔ وہ مسکرایا۔۔۔۔۔۔۔بیوی کی محبت نے اسکے دل سے

خیال محو کر دیا۔کا

بیوی نے محبت بھرے لہجے میں دریافت کیا۔" موسم کیسا تھا؟"

"تند"

"مچھلیاں ہاتھ آئیں؟"

"بہت کم۔۔۔۔۔آج رات تو سمندر قزاقوں کے گروہ کی مانند تھا۔"

کر اسکی بیوی کے چہرے پر مردنی چھا گئی۔ ماہی گیر نے اسے مغموم یہ سندیکھا اور مسکرا کر بوال۔

"تو میرے پہلو میں ہے۔۔۔۔۔۔میرا دل خوش ہے۔"

"ی؟ہو گہوا تو بہت تیز "

اپنے منحوس پر پھڑ پھڑا بہت تیز، معلوم ہو رہا تھا کہ دنیا کہ تمام شیطان مل کر"" منہ بھی ٹوٹتے ٹوٹتے بچا۔رہے ہیں۔ جال ٹوٹ گیا۔ رسیاں کٹ گئیں اور کشتی کا

"شب بھر کیا کرتی رہی ہو پیاری؟مگر تم"۔ پھر اس گفتگو کا رخ بدلتے ہوئے بوال

میں۔۔۔۔۔۔آہ "دیا۔ کانپی اور لرزاں آواز میں جواب کر کےبیوی کسی چیز کا خیال رہی۔۔۔۔۔۔۔لہریں بجلی کی کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔سیتی پروتی رہی، تمھاری راہ تکتی

"طرح کڑک رہی تھیں، مجھے سخت ڈر لگ رہا تھا۔

"ڈر کس بات کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈر۔۔۔۔۔۔ہم لوگوں کو"

Page 39: Atish Paray

بیوی نے اپنے خاوند کی بات کاٹتے " اور ہاں، ہماری ہمسایہ بیوہ مر گئی ہے۔"ہوئے کہا۔

ے کہ وہ اس لیشاید ماہی گیر نے یہ دردناک خبر سنی مگر اسے کچھ تعجب نہ ہوا۔آہ بھری اور اس نےہر گھڑی اس عورت کی موت کی خبر سننے کا متوقع تھا۔

"بیچاری سدھار گئی ہے۔"ا کہا۔ صرف اتن

"ہاں اور دو بچے چھوڑ گئی ہے جو الش کے پہلو میں لیٹے ہوئے ہیں۔"

ہو سنجیدہ و متفکر ماہی گیر کا جسم زور سے کانپا اور اسکی صورت سن کریہ تھی، پھینک کر سر ئی۔ ایک کونے میں اپنی اونی ٹوپی، جو پانی سے بھیگ رہیگ

خاموش رہنے کے بعد اپنے آپ سے بوال۔کھجالیا اور کچھ دیر

تند موسم میں ہمیں ئے ہیں۔۔۔۔۔۔اس سے پیشتر ہی اسہو گپانچ بچے تھے، اب سات "میرا قصور نہیں۔ اس قسم دو وقت کا کھانا نصیب نہیں ہوتا تھا۔ اب مگر خیر۔۔۔۔یہ

"کے حوادث بہت گہرے معانی رکھتے ہیں۔

رہا۔ اسے یہ سمجھ ھٹنوں میں دبائے سوچتاوہ کچھ عرصے تک اسی طرح اپنا سر گبھی نہیں ہیں، ماں نہ آتا تھا کہ خدا نے ان بچوں سے جو اسکی مٹھی کے برابر

سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کیوں چھین لی ہے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان بچوں سے جو نہ کام کرر سوالوں کا کوئی حل نہ پیش کچیز کی خواہش ہی کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔اسکا دماغ ان

سکا۔ وہ بڑبڑاتا ہوا اٹھا۔

پھر اپنی بیوی سے اور" شاید ایسی چیزوں کو ایک پڑھا لکھا ہی سمجھ سکتا ہے۔"قدر وحشت زدہ ہونگے پیاری جاؤ انہیں یہاں لے آؤ۔ وہ کس"مخاطب ہو کر بوال۔

ہوئے۔۔۔۔۔۔۔انکی ماں کی روح سخت اگر وہ صبح اپنی ماں کی الش کے پاس بیدار"ی، جاؤ انھیں ابھی لیکر آؤ۔گہو بے قرار

Page 40: Atish Paray

طرح پالے گا۔ وہ بڑے یہ کہہ کر وہ سوچنے لگا کہ وہ ان بچوں کو اپنی اوالد کیاجنبیوں کو جھونپڑی میں ہو کر اسکے گھٹنوں پر چڑھنا سیکھ جائینگے۔ خدا ان

عطا کرے گا۔ا اور انھیں زیادہ کھانے کوہو گدیکھ کر بہت خوش

اور " سے کام کروں گا۔چاہیئے پیاری۔۔۔۔۔۔۔میں زیادہ محنتتمھیں فکر نہیں کرنی "بلند آواز میں کہنے لگا۔ پھر اپنی بیوی کو چارپائی کی طرف روانہ ہوتے دیکھ کر

"نہیں چلنا چاہئے تمھیں۔مگر تم سوچ کیا رہی ہو۔۔۔۔۔۔۔اس دھیمی چال سے"

یا۔ماہی گیر کی بیوی نے چارپائی کے پاس پہنچ کر چادر کو الٹ د

"وہ تو یہ ہیں۔"

دو بچے صبح کی طرح مسکرا رہے تھے۔

ء1935یکم فروری ***

Page 41: Atish Paray

تماشا

فضا میں منڈال دو تین روز سے طیارے سیاہ عقابوں کی طرح پر پھیالئے خاموشوقتا فوقتا کسی رہے تھے جیسے وہ کسی شکار کی جستجو میں ہوں۔ سرخ آندھیاں

میں مسلح پولیس کی گشت م ال رہی تھیں۔ سنسان بازاروںآنیوالے خونی حادثہ کا پیغاصبح سے کچھ عرصہ ایک عجیب ہولناک سماں پیش کر رہی تھی۔ وہ بازار جو

خوف کی وجہ سے پہلے لوگوں کے ہجوم سے پر ہوا کرتے تھے اب کسی نہ معلوممسلط تھی۔ بھیانک سونے پڑے تھے۔۔۔۔۔۔۔شہر کی فضا پر ایک پر اسرار خاموشی

وف راج کر رہا تھا۔خ

خالد گھر کی خاموش و پر سکون فضا سے سہما ہوا اپنے والد کے قریب بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔

"ابا، آپ مجھے سکول کیوں نہیں جانے دیتے؟"

"بیٹا، آج سکول میں چھٹی ہے۔"

تھے کہ جو لڑکا آج ماسٹر صاحب نے تو ہمیں بتایا ہی نہیں۔ وہ تو کل کہہ رہے""سزا دی جائیگی۔کا کام ختم کر کے اپنی کاپی نہ دکھائے گا، اسے سخت سکول

"وہ اطالع دینی بھول گئے ہونگے۔"

"آپ کے دفتر میں بھی چھٹی ہے۔"

"ہاں ہمارا دفتر بھی آج بند ہے۔"

"چلو اچھا ہوا۔۔۔۔۔۔۔آج میں آپ سے کوئی اچھی سی کہانی سنوں گا۔"

Page 42: Atish Paray

پر سے گزر گئے۔ ار طیارے چیختے ہوئے انکے سریہ باتیں ہو رہی تھیں کہ تین چطیاروں کی پرواز کو خالد انکو دیکھ کر بہت خوفزدہ ہوا، وہ تین چار روز سے ان

وہ حیران تھا کہ یہ جہاز بغور دیکھ رہا تھا مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا تھا۔حرکت سے انکی روزانہ نقل و سارا دن دھوپ میں کیوں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ وہ

تنگ آ کر بوال۔

ابا، مجھے ان جہازوں سے سخت خوف معلوم ہو رہا ہے۔ آپ انکے چالنے والوں ""سے کہدیں کہ وہ ہمارے گھر پر سے نہ گزرا کریں۔

"خوف۔۔۔۔۔کہیں پاگل تو نہیں ہو گئے خالد۔"

کسی روز ہمارے گھر پرابا، یہ جہاز بہت خوفناک ہیں۔ آپ نہیں جانتے یہ کسی نہ"کہہ رہی تھی کہ ان جہاز گولہ پھینک دیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔کل صبح ماما امی جان سے

قسم کی کوئی شرارت کی تو والوں کے پاس بہت سے گولے ہیں۔ اگر انہوں نے اسجو آپ نے پچھلی عید پر مجھے یاد رکھیں میرے پاس بھی ایک بندوق ہے۔۔۔۔۔۔۔وہی

"دی تھی۔

تو پاگل ہے، میں ماما"مولی جسارت پر ہنسا۔ خالد کا باپ اپنے لڑکے کی غیر معکرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔اطمینان اس سے دریافت کرونگا کہ وہ گھر میں ایسی باتیں کیوں کیا

"رکھو، وہ ایسی بات ہر گز نہیں کرینگے۔

ہوائی بندوق نکال اپنے والد سے رخصت ہو کر خالد اپنے کمرے میں چال گیا اورجہاز والے گولے لگا تا کہ اس روز جب ہوائیکر نشانہ لگانے کی مشق کرنے

لے سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش پھینکیں تو اسکا نشانہ خطا نہ جائے اور وہ پوری طرح انتقامانتقام کا یہی ننھا جذبہ ہر شخص میں تقسیم ہو جائے۔

فکر میں ڈوبا ہوا طرح اسی عرصہ میں جبکہ ایک ننھا سا بچہ اپنے انتقام لینے کیخالد کا باپ اپنی ے باندھ رہا تھا، گھر کے دوسرے حصے میںطرح کے منصوب

آئندہ گھر میں اس قسم کی بیوی کے پاس بیٹھا ہوا ماما کو ہدایت کر رہا تھا کہ وہکوئی بات نہ کرے جس سے خالد کو دہشت ہو۔

Page 43: Atish Paray

دروازے سے باہر جا ماما اور بیوی کو اسی قسم کی مزید ہدایات دیکر وہ ابھی بڑےبادشاہ کے منع کرنے پر ہ خادم ایک دہشتناک خبر الیا کہ شہر کے لوگرہا تھا ک

توقع کی جاتی ہے کہ بھی شام کے قریب ایک عام جلسہ کرنے والے ہیں اور یہکوئی نہ کوئی واقع ضرور پیش آ کر رہے گا۔

گیا کہ فضا کا غیر بہت خوفزدہ ہوا، اب اسے یقین ہو سن کرخالد کا باپ یہ خبر کی گشت، لوگوں کے کون، طیاروں کی پرواز، بازاروں میں مسلح پولیسمعمولی س

خوفناک حادثہ کی پیش چہروں پر اداسی کا عالم اور خوفناک آندھیوں کی آمد کسیخیمہ تھے۔

کسی کو بھی معلوم نہ ا؟۔۔۔۔۔۔۔۔یہ خالد کے باپ کی طرحہو گوہ حادثہ کس نوعیت کا ہوا تھا۔لوم خوف میں لپٹاتھا مگر پھر بھی سارا شہر کسی نامع

تبدیل کرنے بھی نہ باہر جانے کے خیال کو ملتوی کر کے خالد کا باپ ابھی کپڑےایسا معلوم ہوا جیسے سینکڑوں پایا تھا کہ طیاروں کا شور بلند ہوا وہ سہم گیا۔ اسے

رہے ہیں۔انسان ہم آہنگ آواز میں درد کی شدت سے کراہ

ہوا کمرے سے باہر اپنی ہوائی بندوق سنبھالتا ن کرسخالد طیاروں کا شور و غل گولہ پھینکنے لگیں تو دوڑا آیا اور انہیں غور سے دیکھنے لگا تا کہ وہ جس وقت

چھ سال کے بچے کے وہ اپنی بندوق کی مدد سے انہیں نیچے گرا دے۔ اس وقتا کھلونا حقیقت بندوق کچہرے پر آہنی ارادہ و استقالل کے آثار نمایاں تھے جو کم

تھا۔ معلوم ہوتا تھ کہ وہ آج اس ہاتھ میں تھامے ایک جری سپاہی کو شرمندہ کر رہامٹانے پر تال ہوا ہے۔چیز کو جو اسے عرصے سے خوفزدہ کر رہی تھی،

چھوٹے خالد کے دیکھتے دیکھتے ایک جہاز سے کچھ چیز گری جو کاغذ کےاڑنے ا میں پتنگوں کی طرحچھوٹے ٹکڑوں کے مشابہ تھی۔ گرتے ہی یہ ٹکڑے ہو

لگے، ان میں سے چند خالد کے مکان کی باالئی چھت پر بھی گرے۔

خالد بھاگا ہوا اوپر گیا اور وہ کاغذ اٹھا الیا۔

ابا جی، ماما سچ مچ جھوٹ بک رہی تھی۔ جہاز والوں نے تو گولوں کی بجائے یہ ""کاغذ پھینکے ہیں۔

Page 44: Atish Paray

گیا، ہونیوالے شروع کیا تو رنگ زرد ہو خالد کے باپ نے وہ کاغذ لیکر پڑھنامیں صاف لکھا حادثے کی تصویر اب اسے عیاں طور پر نظر آنے لگی۔ اس اشتہار

اسکی مرضی کے تھا کہ بادشاہ کسی جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگری۔ہو گخالف کوئی جلسہ کیا گیا تو نتائج کی ذمہ دار خود رعایا

دیکھ کر خالد نے پڑھنے کے بعد اس قدر حیران و پریشان اپنے والد کو اشتہارہمارے گھر پر گولے اس کاغذ میں یہ تو نہیں لکھا کہ وہ"گھبراتے ہوئے کہا۔

"پھینکیں گے؟

"خالد اس وقت تم جاؤ، جاؤ اپنی بندوق کے ساتھ کھیلو۔"

"مگر اس پر لکھا کیا ہے۔"

خالد کے باپ نے گفتگو کو مزید طول " ا۔ہو گلکھا ہے کہ آج شام کو ایک تماشا "دینے کے خوف سے جھوٹ بولتے ہوئے کہا۔

"ا، پھر تو ہم بھی چلیں گے نا۔ہو گتماشا "

"کیا کہا۔"

"کیا اس تماشے میں آپ مجھے نہ لے چلیں گے؟"

"لے چلیں گے، اب جاؤ جا کر کھیلو۔"

کھیلتی نہیں، میرا ہم کہاں کھیلوں؟ بازار میں آپ جانے نہیں دیتے، ماما مجھ سے"کھیلوں تو کس سے جماعت طفیل بھی تو آج کل یہاں نہیں آتا، اب میں

"نا؟کھیلوں؟۔۔۔۔۔۔۔شام کے وقت تماشا دیکھنے تو ضرور چلیں گے

Page 45: Atish Paray

اور مختلف کمروں کسی جواب کا انتظار کئے بغیر خالد کمرے سے باہر چال گیاکی کھڑکیاں بازار کی میں پہنچا، جسگاہ میں آوارہ پھرتا ہوا اپنے والد کی نشست

طرف جھانکنے لگا۔طرف کھلتی تھیں۔ کھڑکی کے قریب بیٹھ کر وہ بازار کی

رفت جاری ہے۔ لوگ کیا دیکھتا ہے کہ بازار میں دکانیں تو بند ہیں مگر آمد وکہ دو تین روز جلسے میں شریک ہونے کے لئے جا رہے تھے۔ وہ سخت حیران تھا

اپنے ننھے دماغ ں بند رہتی ہیں، اس مسئلہ کے حل کے لئے اس نےسے دکانیں کیوپر بہتیرا زور دیا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔

تماشا دیکھنے بہت غور و فکر کرنے کے بعد اس نے یہ سوچا کہ لوگوں نے اسرکھی ہیں۔ اب اس کی خاطر، جس کے اشتہار جہاز بانٹ رہے تھے، دکانیں بند کر

لیئے تمام بازار بند ے کا جسہو گکیا کہ وہ کوئی نہایت ہی دلچسپ تماشا نے خیالاس وقت کا نہایت بیقراری ہیں۔ اس خیال نے خالد کو سخت بے چین کر دیا اور وہ

دکھالنے کو لے چلے۔سے انتظار کرنے لگا جب اس کا ابا اسے تماشا

وقت گزرتا گیا، وہ خونی گھڑی قریب تر آتی گئی۔

بیٹھے ایک دوسرے کا وقت تھا، خالد اسکا باپ اور والدہ صحن میں خاموش سہ پہرہوئی چل رہی کی طرف خاموش نگاہوں سے تک رہے تھے، ہوا سسکیاں بھرتی

تھی۔

تڑ۔ تڑ۔ تڑ۔ تڑ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ آواز سنتے ہی خالد کے باپ کے چہرے کا رنگ کاغذ کی طرح سفید ہو گیا، "۔۔۔۔۔۔گولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔"سکا۔ قدر کہہ زبان سے بمشکل اس

گولی کا نام خالد کی ماں فرط خوف سے ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکال سکی،رہی ہے۔سنتے ہی اسے ایسا معلوم ہوا جیسے خود اسکی چھاتی سے گولی اتر

Page 46: Atish Paray

ابا جی چلیں، "خالد اس آواز کو سنتے ہی اپنے والد کی انگلی پکڑ کر کہنے لگا۔ "گیا ہے۔تماشا تو شروع ہو

خالد کے باپ نے اپنے خوف کو چھپاتے ہوئے کہا۔" کونسا تماشا؟"

وہی تماشا جس کے اشتہار آج صبح بانٹ رہے تھے، کھیل شروع ہو گیا ہے، تبھی ""تو اتنے پٹاخوں کی آواز سنائی دے رہی ہے۔

اب جاؤ، ماما کے پاس جا کے لیئےابھی بہت وقت باقی ہے، تم شور مت کرو، خدا ""کر کھیلو۔

نہ پا کر اپنے والد خالد یہ سنتے ہی باورچی خانے کی طرف گیا مگر وہاں ماما کودیکھنے لگا۔گاہ میں چال گیا اور کھڑکی سے بازار کی طرف کی نشست

تھا، دور فاصلے بازار آمد و رفت بند ہو جانے کی وجہ سے سائیں سائیں کر رہابعد ان چیخوں ہی تھیں، چند لمحات کےسے کتوں کی دردناک چیخیں سنائی دے ر

میں انسان کی دردناک آواز بھی شامل ہو گئی۔

کے لیئےکی جستجو بہت حیران ہوا، ابھی وہ اس آواز سن کرخالد کسی کو کراہتے جو چیختا چالتا کوشش ہی کر رہا تھا کہ چوک میں اسے ایک لڑکا دکھائی دیا،

بھاگتا چال آ رہا تھا۔

ہی بیہوش ہو گیا، کے عین مقابل وہ لڑکا لڑکھڑا کر گرا اور گرتےخالد کے گھر رہا تھا۔اسکی پنڈلی پر ایک گہرا زخم تھا جس سے فواروں خون نکل

کے پاس آیا اور کہنے یہ سماں دیکھ کر خالد بہت خوفزدہ ہوا، بھاگ کر اپنے والدبہت خون نکل رہا ٹانگ سےابا، ابا، بازار میں ایک لڑکا گر پڑا ہے، اسکی"لگا۔ "ہے۔

Page 47: Atish Paray

یہ سنتے ہی خالد کا باپ کھڑکی کی طرف گیا اور دیکھا کہ واقعی ایک نوجوان لڑکا بازار میں اوندھے منہ پڑا ہے۔

پر سے اٹھا بادشاہ کے خوف سے اسے جرأت نہ ہوئی کہ وہ اس لڑکے کو سڑککے ھانے اٹکر سامنے والی دکان کے پٹڑے پر لٹا دے۔ بے ساز و برگ افراد کو

مگر اس حکومت کے ارباب حل و عقد نے آہنی گاڑیاں مہیا کر رکھی ہیں۔ لیئےجو انہی کے معصوم بچے کی نعش جو انہی کے تیغ ستم کا شکار تھی، وہ ننھا پودا

کردہ باد سموم ہاتھوں مسال گیا تھا، وہ کونپل جو کھلنے سے پہلے انہی کی عطااستبداد نے چھین راحت جو انہی کے جور وسے جھلس گئی تھی، کسی کے دل کی

بھیانک ہے مگر ظلم اس سے لی تھی، اب انہی کی تیار کردہ سڑک پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ۔ موتکہیں زیادہ خوفناک اور بھیانک ہے۔

"ابا اس لڑکے کو کسی نے پیٹا ہے؟"

خالد کا باپ اثبات میں سر ہالتا ہوا کمرے سے باہر چال گیا۔

اتنے بڑے زخم رے میں رہ گیا تو سوچنے لگا کہ اس لڑکے کوجب خالد اکیال کمچبھنے سے ی جبکہ ایک دفعہ اسے قلم تراش کی نوکہو گسے کتنی تکلیف ہوئی

سرہانے بیٹھے تمام رات نیند نہ آئی تھی اور اسکا باپ اور ماں تمام رات اسکےخود اسکی زخم رہے تھے۔ اس خیال کے آتے ہی اسے ایسا معلوم ہونے لگا کہ وہ

لگا۔پنڈلی میں ہے اور اس میں شدت کا درد ہے۔۔۔۔۔۔یکلخت وہ رونے

اسکی والدہ دوڑی دوڑی آئی اور اسے گود میں لے سن کراسکے رونے کی آواز "میرے بچے رو کیوں رہے ہو؟"کر پوچھنے لگی۔

"امی اس لڑکے کو کسی نے مارا ہے؟"

"ی اس نے۔ہو گشرارت کی "

اپنے خاوند کی زبانی زخمی لڑکے کی داستان سن چکی تھی۔خالد کی والدہ

Page 48: Atish Paray

مگر سکول میں تو شرارت کرنے پر چھڑی سے سزا دیتے ہیں، لہو تو نہیں "خالد نے روتے ہوئے اپنی والدہ سے کہا۔" نکالتے۔

"ی۔ہو گچھڑی زور سے لگ گئی "

ا جس نے ہو گخفا نہ تو پھر کیا اس لڑکے کا والد سکول میں جا کر اس استاد پر"میرے کان کھینچ اسکے لڑکے کو اس قدر مارا ہے۔ ایک روز ماسٹر صاحب نے"شکایت کی تھی نا۔کر سرخ کر دیئے تھے تو ابا جی نے ہیڈ ماسٹر کے پاس جا کر

"اس لڑکے کا ماسٹر بہت بڑا آدمی ہے۔"

"اهللا میاں سے بھی بڑا؟"

"نہیں ان سے چھوٹا ہے۔"

"اں کے پاس شکایت کرے گا۔تو پھر وہ اهللا می"

"خالد اب دیر ہو گئی ہے، چلو سوئیں۔"

لڑکے کو پیٹا ہے اهللا میاں میں دعا کرتا ہوں کہ تو اس ماسٹر کو جس نے اس"خون نکل آتا اچھی طرح سزا دے اور اس چھڑی کو چھین لے جسکے استعمال سے

کہ کہیں وہی ڈر ہےمجھے بھی اس لئے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے پہاڑے یاد نہیں کئے، باتیں نہ مانیں تو پھر چھڑی میرے استاد کے ہاتھ نہ آ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر تم نے میری

"میں بھی تم سے نہ بولوں گا۔

سوتے وقت خالد دل میں دعا مانگ رہا تھا۔***

Page 49: Atish Paray

طاقت کا امتحان

"کھیل خوب تھا، کاش تم بھی وہاں موجود ہوتے۔"

تھا مگر اس کھیل میں کونسی چیز ایسی قابل دید تھی مجھے کل کچھ ضروری کام""جسکی تم اتنی تعریف کر رہے ہو؟

"ایک صاحب نے چند جسمانی ورزشوں کے کرتب دکھالئے کہ ہوش گم ہو گیا۔"

"مثال۔"

"مثال کالئی پر ایک انچ موٹی آہنی سالخ کو خم دینا۔"

"یہ آجکل بچے بھی کر سکتے ہیں۔"

"ی کا پتھر رکھوا کر آہنی ہتھوڑوں سے پاش پاش کرانا۔چھاتی پر چک"

"میں نے ایسے بیسیوں شخص دیکھے ہیں۔"

مگر وہ وزن جو اس نے دو ہاتھوں سے اٹھا کر ایک تنکے کی طرح پرے پھینک ""دیا کسی اور شخص کی بات نہیں، یہ تمھیں بھی ماننا پڑے گا۔

"تھا آخر۔بھلے آدمی یہ کونسا اہم کام ہے، وزن کتنا "

"ا، کیوں؟ہو گکوئی چار من کے قریب "

"اتنا وزن تو شہر کا فاقہ زدہ مزدور گھنٹوں پشت پر اٹھائے رہتا ہے۔"

"بالکل غلط۔"

Page 50: Atish Paray

"وہ کیوں؟"

طاقت کے لئے غلیظ ٹکڑوں پر پلے ہوئے مزدور میں اتنی قوت نہیں ہو سکتی۔""رہے ہو۔یی باتیں کراچھی غذا کا ہونا الزم ہے۔ شہر کا مزدور۔۔۔۔۔۔۔کس

حقیقت ہے۔ یہاں ایسے غذا والے معاملے کے متعلق میں تم سے متفق ہوں مگر یہ"سے کچھ زیادہ وزن بہتیرے مزدور ہیں جو دو پیسے کی خاطر چار من بلکہ اس

ہیں۔۔۔۔۔۔۔کہو تو اسے ثابت اٹھا کر تمھارے گھر کی دوسری منزل پر چھوڑ آ سکتے"کر دوں؟

و نوجوان طلبہ میں ہو رہی تھی جو ایک پر تکلف کمرے کی گدی دار یہ گفتگو دکرسیوں پر بیٹھے سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے۔

طرح۔۔۔۔۔۔قاسم چوب فروش میں اسے ہر گز نہیں مان سکتا اور باور آئے بھی کس"اٹھائی نہیں جاتیں۔ کے مزدور ہی کو لو۔ کمبخت سے ایک من لکڑیاں بھی تو

"ایک ایسا طاقتور ہو تو اچنبھا نہیں ہے۔ہزاروں میں

چھوڑو یار اس قصے کو، بھاڑ میں جائیں یہ سب مزدور اور چولھے میں جائے ""انکی طاقت۔ سناؤ آج تاش کی بازی لگ رہی ہے؟

"تاش کی بازیاں تو لگتی ہیں رہیں گی، پہلے اس بحث کا فیصلہ ہونا چاہیئے۔"

یعنی گفتگوؤں سے تنگ ہر روز اسی قسم کی السامنے والی دیوار پر آویزاں کالک دھواں انکے منہ سے آزاد ہو آ کر برابر اپنی ٹک ٹک کئے جا رہا تھا۔ سگریٹ کاراستے باہر نکل رہا تھا۔ کر بڑی بے پروائی سے چکر لگاتا ہوا کھڑکی کے

و بے اعتنائی کی دیواروں پر لٹکی ہوئی تصاویر کے چہروں پر بے فکریہی جگہ پر جما ہوا آتی تھیں۔ کمرے کا فرنیچر سالہا سال سے ایک جھلکیاں نظر

کے طاق پر رکھا ہوا کسی تغیر سے نا امید ہو کر بے حس پڑا سوتا تھا۔ آتشدانان دو فرزندوں کی کسی یونانی مفکر کا مجسمہ اپنی سنگین نگاہوں سے آدم کے

۔۔۔کمرے کی فضا ان تھا۔۔۔۔تعجب سے اپنا سر کھجال رہا سن کربے معنی گفتگو بھدی اور فضول باتوں سے کثیف ہو رہی تھی۔

Page 51: Atish Paray

اصولوں اور روپیہ تھوڑی دیر تک دونوں دوست تاش کی مختلف کھیلوں، برج کےمیں وہ جسے مزدور کی جیتنے کے طریقوں پر اظہار خیاالت کرتے رہے۔ دفعتا ان

طاقت کے متعلق پورا یقین تھا اپنے دوست سے مخاطب ہوا۔

ہو اہر بازار میں لوہے کا جو گارڈر پڑا ہے وہ تمھارے خیال میں کتنا وزن رکھتا ب""ا۔گ

"پھر وہی بحث۔"

"تم بتاؤ تو سہی"

"ا۔ہو گپانچ چھ من کے قریب "

"یہ وزن تو تمھاری نظر میں کافی ہے نا؟"

وان یعنی تمھارا یہ مطلب ہے کہ لوہے کی یہ بھاری بھر کم الٹھ تمھارا مزدور پہل""ی اسکے ساتھ۔ہو گاٹھائے گا۔۔۔۔۔۔گدھے والی گاڑی ضرور

بوریاں اٹھانا تو یہاں کے مزدور بھی گدھوں سے کیا کم ہیں۔ گیہوں کی دو تین"سکتا ہے۔ کہو تو، تمھارے انکے نزدیک معمولی کام ہے۔۔۔۔۔۔۔مگر تمھیں کیا پتہ ہوں ایک نیا تماشا داموکل والے کھیل سے کہیں حیرت انگیز اور بہت سستے

"دکھاؤں۔

"اگر تمھارا مزدور لوہے کا وہ وزنی ٹکڑا اٹھائے گا تو میں تیار ہوں۔"

"تمھاری آنکھوں کے سامنے اور بغیر کسی چاالکی کے۔"

اٹھے اور باہر بازار دونوں دوست اپنے اپنے سگریٹ کی خاکدان میں گردن دبا کرکی تمام اشیاء کسی دیئے۔ کمرےکی طرف مزدور کی طاقت کا امتحان کرنے چل

حادثے کا خوف ہو، گہری فکر میں غرق ہو گئیں، جیسے انہیں کسی غیر معمولیکرنے لگا۔ دیواروں پر کالک اپنی انگلیوں پر کسی متعینہ وقت کی گھڑیاں شمار

Page 52: Atish Paray

لگیں۔۔۔۔۔۔۔کمرے کی فضا آویزاں تصویریں حیرت میں ایک دوسرے کا منہ تکنےلگ گئی۔خاموش آہیں بھرنے

وحشتناک خواب کی طرح لوہے کا وہ بھاری بھر کم ٹکڑا الش کا سا سرد اور کسیاکڑا ہوا تھا۔ دونوں دوست تاریک، بازار کے ایک کونے میں بھیانک دیو کی مانندکسی مزدور کا انتظار لوہے کے اس ٹکڑے کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور

کرنے لگے۔

جوتوں کے یں لت پت تھا، جو راہگزروں کےبازار بارش کی وجہ سے کیچڑ موہ اپنے ساتھ اچھل اچھل کر انکا مضحکہ اڑا رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا گویا

وہ اس روندنے والوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ اسی آب و گل کی تخلیق ہیں جسےکام وقت پاؤں سے گوندھ رہے ہیں۔ مگر وہ اس حقیقت سے غافل اپنے دنیاوی

جلد ن میں مصروف کیچڑ کے سینے کو مسلتے ہوئے ادھر ادھر جلددھندوں کی دھقدم اٹھاتے ہوئے جا رہے تھے۔

مصروف تھے اور کچھ دکاندار اپنے گاہکوں کے ساتھ سودا کرنے طے کرنے میںدکانداروں کی طرف کچھ سجی ہوئی دکانوں میں تکیہ لگائے اپنے حریف ہم پیشہ

کہ کوئی گاہک ور اس وقت کے منتظر تھےحاسدانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے افروخت کر دیں۔وہاں سے ہٹے اور وہ اسے کم قیمت کا جھانسا دیکر گھٹیا مال

گاہکوں کا انتظار ان منیاری کی دکانوں کے ساتھ ہی ایک دوا فروش اپنے مریضمیں مست تھے اور یہ دو کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بازار میں سب لوگ اپنے اپنے خیال

راہ دیکھ رہے تھے کسی دنیاوی فکر سے بے پروا ایک ایسے مزدور کی دوستجو انکی دلچسپی کا سامان مہیا کر سکے۔

اور پشت پر دور بازار کے آخری سرے پر ایک مزدور کمر کے گرد رسی لپیٹےسے دیکھتا ہوا ٹاٹ کا ایک موٹا سا ٹکڑا لٹکائے کیچڑ کی طرف معنی خیز نگاہوں

چال آ رہا تھا۔

دیگچیوں اور تنور سے نانبائی کی دکان کے قریب پہنچ کر وہ دفعتا ٹھٹکا، سالن کیکا کام کیا۔تازہ نکلی ہوئی روٹیوں نے اسکے پیٹ میں نوکدار خنجروں

Page 53: Atish Paray

دانتوں سے اپنے مزدور نے اپنی پھٹی ہوئی جیب کی طرف نگاہ کی اور گرسنہرفتار سے چلنا اور اسیخشک لبوں کو کاٹ کر خاموش رہ گیا، سرد آہ بھری

خوش کن شروع کر دیا۔ چلتے وقت اسکے کان بڑی بے صبری سے کسی کی دلکیا خیاالت کا انتظار کر رہے تھے مگر اس کے دل میں نہ معلوم کیا" مزدور"آواز

چکر لگا رہے تھے۔

ہیں مگر ایک دو تین دن سے روٹی بمشکل نصیب ہوئی ہے اب چار بجنے کو آئے"نصیب ہو ہیں ملی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش آج صرف ایک روٹی کے لئے ہی کچھکوڑی تک ن

"جائے۔۔۔۔۔۔۔۔بھیک؟۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔نہیں خدا کارساز ہے۔

ایک مزدور کی بھوک سے تنگ آ کر بھیک مانگنے کا خیال کیا مگر اسے اس نےسے مطمئن ہو کر شان کے خالف سمجھتے ہوئے خدا کا دامن تھام لیا اور اس خیال

دوسرے بازار میں ی اس بازار کو طے کرنے لگا، اس خیال سے کہ شایدجلدی جلداسے کچھ نصیب ہو جائے۔

دونوں دوستوں نے بیک وقت ایک مزدور کو تیزی سے اپنی طرف قدم بڑھاتے دیکھا، مزدور دبال پتال نہ تھا چنانچہ انہوں نے فورا آواز دی۔

"مزدور۔"

نوں میں پانی مل گیا، بھاگا ہوا آیا اور یہ سنتے ہی گویا مزدور کے سوکھے دھانہایت ادب سے پوچھنے لگا۔

"جی حضور۔"

"دیکھو، لوہے کا یہ ٹکڑا اٹھا کر ہمارے ساتھ چلو، کتنے پیسے لو گے؟"

Page 54: Atish Paray

اور دیکھتے مزدور نے جھک کر لوہے کے بھاری بھر کم ٹکڑے کی طرف دیکھاتھی، غائب ہو پیدا ہوئی کرسن کا لفظ " مزدور"ہی اسکی آنکھوں کی وہ چمک جو

گئی۔

وزن بال شک و شبہ زیادہ تھا مگر روٹی کے قحط اور پیٹ پوجا کے لئے سامان پیدا کرنے کا سوال اس سے کہیں وزنی تھا۔

مزدور نے ایک بار پھر اس آہنی الٹھ کی طرف دیکھا اور دل میں عزم کرنے کے بعد کہ وہ اسے ضرور اٹھائے گا، ان سے بوال۔

"و حضور فرمائیں۔ج"

مزدور کی اس نےان دو لڑکوں میں سے" یعنی تم یہ وزن اکیلے اٹھا لو گے؟"آیا تھا۔طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا جو کل شب جسمانی کرتب دیکھ کر

دوسرے نے بات کا رخ پلٹ " بولو کیا لو گے؟ یہ وزن بھال کہاں سے زیادہ ہوا؟"دیا۔

"۔ا حضورہو گکہاں تک جانا "

"بہت قریب، دوسرے بازار کے نکڑ تک۔"

"وزن زیادہ ہے، آپ تین آنے دیدیجئے۔"

"تین آنے۔"

"جی ہاں، تین آنے کچھ زیادہ تو نہیں ہیں۔"

"دو آنے مناسب ہے بھئی۔"

Page 55: Atish Paray

نوش، یہ سوچتے ہی دو آنے۔۔۔۔۔۔۔آٹھ پیسے، یعنی دو وقت کے لئے سامان خورد ولوہے کے ٹکڑے نی کمر سے رسی اتاری اور اسےاپ اس نےمزدور راضی ہو گیا۔

سالخ اسکی کمر کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا، دو تین جھٹکوں کے بعد وہ آہنیپر تھی۔

ملنے والی روٹی گو وزن واقعی ناقابل برداشت تھا مگر تھوڑے عرصے کے بعدھی، پیدا کر دی تنے مزدور کے جسم میں عارضی طور پر ایک غیر معمولی طاقت

سن کرروٹی کا نام اب ان کاندھوں میں جو بھوک کی وجہ سے مردہ ہو رہے تھے،طاقت عود کر آئی۔

گرسنہ انسان بڑی سے بڑی مشقت فراموش کر دیتا ہے، جب اسے اپنے پیٹ کے لئے کچھ سامان نظر آتا ہے۔

مزدور نے بڑی ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا۔" آئیے۔"

سرے کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور زیر لب مسکرا دونوں دوستوں نے ایک دودیئے، وہ بہت مسرور تھے۔

"چلو، مگر ذرا جلدی قدم بڑھاؤ، ہمیں کچھ اور بھی کام کرنا ہے۔"

مزدور ان دو لڑکوں کے پیچھے ہو لیا، وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ موت اسکے کاندھوں پر سوار ہے۔

"ل واال سینڈو؟کیوں میاں، کہاں ہے وہ تمھارا ک"

"ہے اس مزدور نے، واقعی سخت تعجب ہے۔ کر دیاکمال "

تعجب؟ اگر کہو تو اس لوہے کے ٹکڑے کو تمھارے گھر کی باالئی چھت پر ""رکھوا دوں۔

Page 56: Atish Paray

"مگر سوال ہے کہ ہم لوگ اچھی غذا ملنے پر بھی اتنے طاقتور نہیں ہیں۔"

نذر ہو جاتی ہے۔ انھیں اس قسم ہماری غذا تو کتابوں اور دیگر علمی چیزوں کی ""کی سر دردی سے کیا تعلق؟ بے فکری، کھانا اور سو جانا۔

"واقعی درست ہے۔"

لڑکے مزدور پر لدے ہوئے بوجھ اور اسکی خمیدہ کمر سے غافل آپس میں اپنے خیاالت کا اظہار کر رہے تھے۔

چھپی ہوئی میں وہاں سے سو قدم کے فاصلے پر مزدور کی قضا کیلے کے چھلکےپھونک کر قدم رکھ اپنے شکار کا انتظار کر رہی تھی۔ گو مزدور کیچڑ میں پھونک

اسکا قدم چھلکے پر رہا تھا مگر تقدیر کے آگے تدبیر کی ایک بھی پیش نہ چلی۔اسے کیچڑ میں پیوست پڑا، پھسال اور چشم زدن میں لوہے کی اس بھاری الٹھ نے

کر دیا۔

سے کیچڑ اور لوہے کے سرد ٹکڑے کی طرف دیکھا، مزدور نے مترحم نگاہوںبھوک کی گرفت سے آزاد ہو گیا۔ کے لیئےتڑپا اور ہمیشہ

مزدور کا سر آہنی دونوں لڑکوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، سن کردھماکے کی آواز معلوم کس سمت ٹکٹکی سالخ کے نیچے کچال ہوا تھا، آنکھیں باہر نکلی ہوئی نہ

ساتھ ہم آغوش ہو رہی ھیں۔ خون کی ایک موٹی سی تہہ کیچڑ کےلگائے دیکھ رہی تتھی۔

"چلو آؤ چلیں، ہمیں خواہ مخواہ اس حادثے کا گواہ بننا پڑے گا۔"

"میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ وزن اس سے نہیں اٹھایا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔اللچ۔"

ی بھیڑ کو یہ کہتے ہوئے دونوں لڑکے مزدور کی الش کے گرد جمع ہوتی ہوئکاٹتے ہوئے اپنے گھر روانہ ہو گئے۔

Page 57: Atish Paray

لئے غالبا چونگا ہاتھ میںسامنے والی دکان پر ایک بڑی توند واال شخص ٹیلیفون کاکو موت کا شکار ہوتے دیکھا اال تھا کہ اس نے مزدورے وگندم کا بھاؤ طے کرن

گفتگو ۂٹیلیفون کا سلسلاور اس حادثے کو منحوس خیال کرتے ہوئے بڑبڑا کرمنقطع کر لیا۔

کمبخت کو مرنا بھی تھا تو میری دکان کے سامنے۔۔۔۔۔۔۔۔بھال ان لوگوں کو اس قدر ""وزن اٹھانے پر کون مجبور کرتا ہے۔

تھوڑی دیر کے بعد اسپتال کی آہنی گاڑی آئی اور مزدور کی الش اٹھا کر عمل ڈاکٹروں کے سپرد کر دی۔ کے لیئےجراحی

میں ملتے ر ابر کے ایک ٹکڑے نے مزدور کے خون کو کیچڑدھندلے آسمان پسڑک کے ہوئے دیکھا، اسکی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے۔۔۔۔۔۔۔ان آنسوؤں نے

سینے پر اس خون کے دھبوں کو دھو دیا۔

کے خون کا آہنی الٹھ ابھی تک بازار کے ایک کنارے پڑی ہوئی ہے، مزدورچیز کا اپنی اتھ چمٹا ہوا نہ معلوم کسصرف ایک قطرہ باقی ہے جو دیوار کے س

خونیں آنکھوں سے انتظار کر رہا ہے۔

ء1935جنوری 5

"خلق"اشاعت اول۔ ہفتہ وار

"عالمگیر"اشاعت ثانی۔

***

Page 58: Atish Paray

دیوانہ شاعر

تو رحمت ہو اس اگر مقدس حق دنیا کی متجسس نگاہوں سے اوجھل کر دیا جائے()گورکیسنہرا خواب طاری کر دے۔ حکیمدیوانے پر جو انسانی دماغ پر

میں آہوں کا بیوپاری ہوںلہو کی شاعری میرا کام ہے

چمن کی ماندہ ہواؤاپنے دامن سمیٹ لو کہ

میرے آتشیں گیتدبے ہوئے سینوں میں ایک تالطم برپا کرنے والے ہیں

ر ڈوب لمحے تھرتھرا کیہ بیباک نغمہ درد کی طرح اٹھا اور باغ کی فضا میں چندبیان۔ میرے جسم پر کپکپی طاری گیا۔ آواز میں ایک قسم کی دیوانگی تھی۔۔۔۔۔۔ناقابلنگاہیں اٹھائیں۔ سامنے چبوترے ہو گئی، میں نے آواز کی جستجو میں ادھر ادھر

ماماؤں کے ساتھ کھیل کود میں محو کے قریب گھاس کے تختے پر چند بچے اپنیبائیں طرف نیم کے درختوں کے نیچے تھے۔ تھے، پاس ہی دو تین گنوار بیٹھے

ابھی اسی جستجو میں ہی تھا کہ وہی درد مالی زمین کھودنے میں مصروف تھا۔ میںمیں ڈوبی ہوئی آواز پھر بلند ہوئی۔

میں ان الشوں کا گیت گاتا ہوںجن کی سردی دسمبر مستعار لیتا ہے

میرے سینے سے نکلی ہوئی آہنے میں چلتی ہےوہ لو ہے جو جون کے مہی

میں آہوں کا بیوپاری ہوںلہو کی شاعری میرا کام ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Page 59: Atish Paray

ہو گئی، میں آواز کنوئیں کے عقب سے آ رہی تھی، مجھ پر ایک رقت سے طاریسے لپٹ رہی ایسا محسوس کرنے لگا کہ سرد اور گرم لہریں بیک وقت میرے جسم

کے قریب کر دیا کہ آواز اس کنوئیںہیں۔ اس خیال نے مجھے کسی قدر خوفزدہ لگا ہوا سے بلند ہو رہی ہے جس میں آج سے کچھ سال پہلے الشوں کا ایک انبار

حادثے کی ایک تھا۔ اس خیال کے ساتھ ہی میرے دماغ میں جلیانوالہ باغ کے خونیکی فضا تصویر کھچ گئی۔ تھوڑی دیر کے لئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ باغ

ہے۔ ناہٹ اور بھاگتے ہوئے لوگوں کی چیخ پکار سے گونج رہیگولیوں کی سنسخوف میں لرز گیا، اپنے کاندھوں کو زور سے جھٹکا دیکر اور اس عمل سے اپنے

کو دور کرتے ہوئے میں اٹھا اور کنوئیں کا رخ کیا۔

کے نیچے سارے باغ پر ایک پراسرا خاموشی چھائی ہوئی تھی، میرے قدموںرہی اہٹ سوکھی ہوئی ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آواز پیدا کرخشک پتوں کی سر سر

اس تھی۔ کوشش کے باوجود میں اپنے دل سے وہ نا معلوم خوف دور نہ کر سکا جوسبز بستر پر آواز نے پیدا کر دیا تھا۔ ہر قدم مجھے یہی معلوم ہوتا تھا کہ گھاس کے

نیچے ٹوٹ رہی ےبے شمار الشیں پڑی ہوئی ہیں جنکی بوسیدہ ہڈیاں میرے پاؤں کاس چبوترے پر ہیں۔ یکایک میں نے اپنے قدم تیز کئے اور دھڑکتے ہوئے دل سے

بیٹھ گیا جو کنوئیں کے ارد گرد بنا ہوا تھا۔

میرے دماغ میں بار بار یہ عجیب سا شعر گونج رہا تھا۔

میں آہوں کا بیوپاری ہوںلہو کی شاعری میرا کام ہے

پھاٹک کی ساتھ موجود نہ تھا۔ میرے سامنے چھوٹے کنوئیں کے قریب کوئی متنفسہوئی تھی۔ میں ان والی دیوار پر گولیوں کے نشان تھے جن پر چوکور جالی منڈھی

جو میری نگاہوں کے نشانوں کو بیسیوں مرتبہ دیکھ چکا تھا مگر اب وہ دو نشانہت دور کسی دور۔۔۔۔۔۔۔بعین بالمقابل تھے دو خونیں آنکھیں معلوم ہو رہے تھے، جو

ارادہ میری نگاہیں ان دو چشم غیر مرئی چیز کو ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی ہوں۔ بالمختلف خیاالت میں کھویا ہوا خدا نما سوراخوں پر جم کر رہ گئیں۔ میں انکی طرف

پاس والی روش پر کسی کے بھاری معلوم کتنے عرصے تک دیکھتا رہا کہ دفعتادیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا، سے بیدار کر قدموں کی چاپ نے مجھے اس خواب

Page 60: Atish Paray

میری طرف بڑھ رہا تھا، گالب کی جھاڑیوں سے ایک دراز قد آدمی سر جھکائےہوئے تھے، چلتے ہوئے اسکے دونوں ہاتھ اسکے بڑے کوٹ کی جیبوں میں ٹھنسے

کر وہ یکایک ٹھٹکا اور گردن وہ زیر لب کچھ گنگنا رہا تھا۔ کنوئیں کے قریب پہنچکر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔اٹھا

"میں پانی پیؤنگا۔"

میں فورا چبوترے پر سے اٹھا اور پمپ کا ہینڈل ہالتے ہوئے اس اجنبی سے کہا۔

"آئیے۔"

آستین سے منہ اچھی طرح پانی پی چکنے کے بعد اس نے اپنے کوٹ کی میلیدریافت کیا۔ےپونچھا اور واپس چلنے کو ہی تھا کہ میں نے دھڑکتے ہوئے دل س

"کیا ابھی ابھی آپ ہی گا رہے تھے؟"

اس نے اپنا سر پھر یہ کہتے ہوئے" ہاں۔۔۔۔۔۔۔۔مگر آپ کیوں دریافت کر رہے ہیں؟"نمایاں تھے، میری اٹھایا، اسکی آنکھیں جن میں سرخ ڈورے غیر معمولی طور پر

گیا۔گھبرا قلبی واردات کا جائزہ لیتی ہوئی معلوم ہو رہی تھیں۔ میں

"آپ ایسے گیت نہ گایا کریں۔۔۔۔۔۔۔یہ سخت خوفناک ہیں۔"

راگ کے ہر سر میں خوفناک۔۔۔۔۔۔۔نہیں، انہیں ہیبت ناک ہونا چاہیئے جبکہ میرے"ہے۔ معلوم ہوتا رستے ہوئے زخموں کی جلن اور رکی ہوئی آہوں کی تپش معمور

طرح چاٹ نہیں چھیہے کہ میرے شعلوں کی زبانیں آپ کی برفائی ہوئی روح کو اکہا۔ یہ الفاظ اس نے اپنی نوکیلی ٹھوڑی کو انگلیوں سے کھجالتے ہوئے" سکیں۔

گزارنے سے اس شور کے مشابہ تھے جو برف کے ڈھیلے میں تپتی ہوئی سالخپیدا ہوتا ہے۔

"آپ مجھے ڈرا رہے ہیں۔"

Page 61: Atish Paray

ہا، "وا۔ بلند ہمیرے یہ کہنے سے اس مرد عجیب کے حلق سے ایک قہقہہ نما شورکہ آپ اس وقت اس منڈیر پر ہا، ہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ ڈر رہے ہیں۔ کیا آپ کو یہ معلوم نہیں

انسانوں کے خون سے لتھڑی کھڑے ہیں جو آج سے کچھ عرصہ پہلے بے گناہ"ہے۔ہوئی تھی، یہ حقیقت میری گفتگو سے زیادہ وحشت خیز

یر پر کھڑا تھا۔ مجھے میرے قدم ڈگمگا گئے، میں واقعی خونیں منڈ سن کریہ خوفزدہ دیکھ کر وہ پھر بوال۔

خاک کے ذرے ذرے تھرائی ہوئی رگوں سے بہا ہوا لہو کبھی فنا نہیں ہوتا۔ اس""دیکھو۔میں مجھے سرخ بوندیں تڑپتی نظر آ رہی ہیں، آؤ تم بھی

کنوئیں پر سے نیچے اتر یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی نظریں زمین پر گاڑ دیں۔ میںرہا تھا، دفعتا اس نے اپنا ا اور اسکے پاس کھڑا ہو گیا۔ میرا دل دھک دھک کرآی

مگر تم اسے نہیں "میں کہا۔ ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا اور بڑے دھیمے لہجے"سمجھ سکو گے۔۔۔۔۔۔یہ بہت مشکل ہے۔

حادثے کی یاد دال میں اسکا مطلب بخوبی سمجھ رہا تھا، وہ غالبا مجھے اس خونیاس حادثے کے وقت تھا جو آج سے سولہ سال قبل اس باغ میں واقع ہوا تھا۔ رہا

اسکے بہت دھندلے میری عمر قریبا پانچ سال کی تھی اس لئے میرے دماغ میںمیں عوام کے ایک نقوش باقی تھے لیکن مجھے اتنا ضرور معلوم تھا کہ اس باغ

ہزار اموات تھیں۔ میرے دل دوجلسے پر گولیاں برسائی گئی تھیں جسکا نتیجہ قریبا مادر وطن اور جذبہ آزادی کی میں ان لوگوں کا بہت احترام تھا جنہوں نے اپنی

احترام کے عالوہ میرے دل میں اس خاطر اپنی جانیں قربان کر دی تھیں بس اسمگر آج اس مرد عجیب کی گفتگو حادثے کے متعلق اور کوئی خاص جذبہ نہ تھا

میں ایسا محسوس کرنے لگا کہ ں ایک ہیجان سا برپا کر دیا،نے میرے سینے میکے مارے ادھر ادھر بھاگتے گولیاں تڑ تڑ برس رہی ہیں اور بہت سے لوگ وحشت

تحت میں چال اٹھا۔ہوئے ایک دوسرے پر گر کر مر رہے ہیں۔ اس اثر کے

ے میں سمجھتا ہوں، میں سب کچھ سمجھتا ہوں۔ موت بھیانک ہے مگر ظلم اس س""کہیں خوفناک اور بھیانک ہے۔

Page 62: Atish Paray

ڈاال ہے اور میرا یہ کہتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے سب کچھ کہہگئی۔ غیر ارادی طور پر سینہ بالکل خالی رہ گیا ہے، مجھ پر ایک مردنی سی چھا

آواز میں کہا۔میں نے اس شخص کے کوٹ کو پکڑ لیا اور تھرائی ہوئی

"۔آپ کون ہیں؟آپ کون ہیں؟۔۔۔۔۔۔"

"آہوں کا بیوپاری۔۔۔۔۔۔۔ایک دیوانہ شاعر۔"

زیر لب گنگناتے ہوئے میں اس کے الفاظ" آہوں کا بیوپاری۔۔۔۔۔۔۔ایک دیوانہ شاعر۔"میں اس دیوانے شاعر کا گیت کنوئیں کے چبوترے پر بیٹھ گیا۔ اس وقت میرے دماغ

ہوا سر اٹھایا، سامنے سپیدے جھکا گونج رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے اپناانگڑائیاں لے رہے تھے، پاس ہی چنبیلی کے دو درخت ہیبت ناک دیووں کی طرحآہیں بکھیر رہی تھی۔ دیوانہ شاعر خاموش اور گالب کی خار دار جھاڑیوں میں ہوا

کھڑکی پر نگاہیں جمائے ہوئے تھا۔ شام کے کھڑا سامنے والی دیوار کی ایکسا معلوم ہو رہا تھا۔ کچھ دیر خاموش رہنے ں وہ ایک سایہخاکستری دھندلکے می

انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے گنگنایا۔کے بعد وہ اپنے خشک بالوں کو

آہ یہ سب کچھ خوفناک حقیقت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کسی صحرا میں جنگلی انسان کے پیروں ""کے نشانات کی طرح خوفناک۔

"کیا کہا۔"

نہ سکا تھا جو اس نے منہ ہی منہ میں ادا کئے میں ان الفاظ کو اچھی طرح سنتھے۔

یہ کہتے ہوئے وہ میرے پاس آ کر چبوترے پر بیٹھ گیا۔" کچھ بھی نہیں۔"

"آپ گنگنا رہے تھے۔"

Page 63: Atish Paray

ہاتھوں کو آپس میں اس پر اس نے اپنی آنکھیں ایک عجیب انداز میں سکیڑیں اورالفاظ باہر نکلنے کے ئےسینے میں قید کئے ہو"زور زور سے ملتے ہوئے کہا۔

گفتگو کرنا ہے جو لئے مضطرب ہوتے ہیں۔ اپنے آپ سے بولنا اس الوہیت سےگفتگو کا رخ بدلتے پھر ساتھ ہی" ہمارے دل کی پہنائیوں میں مستور ہوتی ہے۔

"کیا آپ نے اس کھڑکی کو دیکھا ہے؟"ہوئے کہا۔

پہلے ٹکٹکی لمحہ اس نے اپنی انگلی اس کھڑکی کی طرف اٹھائی جسے وہ چندتھی جو سامنے باندھے دیکھ رہا تھا۔ میں نے اس جانب دیکھا، چھوٹی سی کھڑکی

دیوار کی خستہ اینٹوں میں سوئی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔

میں نے اس سے کہا۔" یہ کھڑکی جسکا ایک ڈنڈا نیچے لٹک رہا ہے؟"

اس معصوم لڑکی کے ہاں، یہی جسکا ایک ڈنڈا نیچے لٹک رہا ہے۔ کیا تم اس پر"کیا گیا تھا کہ ہالکاس لئے خون کے چھینٹے نہیں دیکھ رہے ہو جس کو صرف

تھا۔۔۔۔۔۔۔میرے عزیز، ترکش استبداد کو اپنے تیروں کی قوت پرواز کا امتحان لیناکے زیر و بم میں اس گا۔ میرے گیتوںے ھاری اس بہن کا خون ضرور رنگ الئتم

سکون کے دامن کو کی دلدوز چیخیں ہیں، یہ اور اسکم سن روح کی پھڑپھڑاہٹ جائے گا۔ میری بے لگام گیتی شق ہوۂ ا، سینہو گتار تار کر دیں گے۔ ایک ہنگامہ

ا؟۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ہو گا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر کیا ہو گآواز بلند سے بلند تر ہوتی جائے گی۔۔۔۔۔۔پھر کیا"زبردست آگ سلگ رہی ہے۔سینے میں کتنی مجھے معلوم نہیں۔۔۔۔۔۔آؤ دیکھو اس

جا کر اپنے یہ کہتے ہوئے اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور اسے کوٹ کے اندر لےطور پر گرم سینے پر رکھ دیا۔ اسکے ہاتھوں کی طرح اسکا سینہ بھی غیر معمولی

اپنا ہاتھ ہٹا تھا۔ اس وقت اسکی آنکھوں کے ڈورے بہت ابھرے ہوئے تھے۔ میں نےی آواز میں کہا۔لیا اور کانپتی ہوئ

"آپ علیل ہیں، کیا میں آپ کو گھر چھوڑ آؤں؟"

Page 64: Atish Paray

یہ "کو ہالیا۔ اس نے زور سے اپنے سر" نہیں میرے عزیز میں علیل نہیں ہوں۔"ہوئی آگ کو اپنے انتقام ہے جو میرے اندر گرم سانس لے رہا ہے۔ میں اس دبی"ہو جائے۔گیتوں کے دامن سے ہوا دے رہا ہوں کہ یہ شعلوں میں تبدیل

یہ درست ہے مگر آپ کی طبیعت واقعتہ خراب ہے، آپ کے ہاتھ بہت گرم ہیں، اس ""سردی میں آپ کو زیادہ بخار ہو جانے کا اندیشہ ہے۔

اسکے ہاتھوں کی غیر معمولی گرمی اور آنکھوں میں ابھرے ہوئے سرخ ڈورے صاف طور پر ظاہر کر رہے تھے کہ اسے کافی بخار ہے۔

رے کہنے کی کوئی پروا نہ کی اور جیبوں میں ہاتھ ٹھونس کر میری اس نے میطرف بڑے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔

عزیز ان آنکھوں یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ لکڑی جلے اور دھواں نہ دے۔ میرے"چاہیئے تھا۔ کیا کہہ رہے تھے نے ایسا سماں دیکھا ہے کہ انہیں ابل کر باہر نکل آنا

ہا۔۔۔۔۔۔۔عاللت، کاش کہ سب لوگ میری طرح علیل ہوتے، وں۔۔۔۔۔۔ہا، ہا،کہ میں علیل ہ"مزاج میری آہوں کے خریدار نہیں ہو سکتے۔آپ ایسے نازک جائیے

"مگر۔۔۔۔۔۔۔۔"

انسانیت کے بازار میں "وہ دفعتہ جوش میں چالنے لگا۔" مگر وگر کچھ نہیں۔"پھیکے تبسموں کے اورصرف تم لوگ باقی رہ گئے ہو جو کھوکھلے قہقہوں

کی فلک شگاف خریدار ہو۔ ایک زمانے سے تمھارے مظلوم بھائیوں اور بہنوںمیں ارتعاش چیخیں تمھارے کانوں سے ٹکرا رہی ہیں مگر تمھاری خوابیدہ سماعت

"انہیں حساس بنا دے گی۔پیدا نہیں ہوا۔ آؤ اپنی روحوں کو میری آہوں کی آنچ دو، یہ

چاہتا کیا ہے اور غور سے سن رہا تھا، میں حیران تھا کہ وہمیں اسکی گفتگو کو اوقات میں نے خیال کیا اسکے خیاالت اس قدر پریشان و مضطرب کیوں ہیں۔ بیشتر

مگر لہجے میں ایک عجیب کہ شاید وہ پاگل ہے۔ اسکی گفتگو با معنی ضرور تھیی، ہو گ برس کے قریبقسم کی دیوانگی تھی۔ اسکی عمر یہی کوئی پچیس تیس

Page 65: Atish Paray

انداز میں اس ڈاڑھی کے بال جو ایک عرصے سے مونڈے نہ گئے تھے کچھ اسبہت سی کے چہرے پر اگے ہوئے تھے کہ معلوم ہوتا تھا کسی خشک روٹی پرطرف ابھرا چیونٹیاں چمٹی ہوئی ہیں۔ گال اندر کو پچکے ہوئے تھے، ماتھا باہر کی

اور خاک ی تھی، سر پر خشکہوا، ناک نوکیلی، آنکھیں بڑی جن سے وحشت ٹپکتمعلوم ہو رہا آلود بالوں کا ایک ہجوم۔ بڑے سے بھورے کوٹ میں وہ واقعی شاعر

کو متعارف کرایا تھا، ایک دیوانہ شاعر، جیسا کہ اس نے خود اس نام سے اپنے آپتھا۔

اس جماعت کے میں نے اکثر اوقات اخباروں میں ایک جماعت کا حال پڑھا تھا،میں نے خیال انے شاعر کے خیاالت سے بہت حد تک ملتے جلتے تھے،خیاالت دیو

کیا کہ شاید وہ بھی اسی جماعت کا رکن ہے۔

"آپ انقالبی معلوم ہوتے ہیں۔"

کیا ہے، میاں میں تو آپ نے یہ بہت بڑا انکشاف"اس پر وہ کھل کھال کر ہنس پڑا۔ بی ہوں، میں انقالبی ہوں، انقالکوٹھوں کی چھتوں پر چڑھ چڑھ کر پکارتا ہوں، میں

"بہت بڑا انکشاف کیا ہے۔مجھے روک لے جس سے بن پڑتا ہے، آپ نے واقعی

یا۔ہو گیہ کہہ کر ہنستے ہوئے وہ اچانک سنجیدہ

بھی نا آشنا سکول کے ایک طالب علم کی طرح انقالب کے حقیقی معانی سے تم"انقالبی وہ ہے جب چال اٹھے،ہو۔ انقالبی وہ ہے جو ہر نا انصافی اور ہر غلطی پر

مجسم گیت ہو۔ سب زمینوں سب آسمانوں سب زبانوں اور سب وقتوں کا ایکنہیں، وہ ایک انقالبی، سماج کے قصاب خانے کی ایک بیمار اور فاقوں مری بھیڑ

جنت کے مزدور ہے تنو مند جو اپنے آہنی ہتھوڑے کی ایک ضرب سے ہی ارضیزمانہ عزیز، یہ منطق، خوابوں اور نظریوں کادروازے وا کر سکتا ہے۔ میرے

بڑھ رہی نہیں، انقالب ایک ٹھوس حقیقت ہے۔ یہ یہاں پر موجود ہے، اسکی لہریں"سکیں گی۔ہیں، کون ہے جو اب اس کو روک سکتا ہے یہ بند باندھنے پر نہ رک

Page 66: Atish Paray

پڑ کر اسکی اسکا ہر لفظ ہتھوڑے کی اس ضرب کی مانند تھا جو سرخ لوہے پرمرئی چیز کو تبدیل کر رہا ہو۔ میں نے محسوس کیا کہ میری روح کسی غیر شکل

سجدہ کر رہی ہے۔

تھے، میرے سینے شام کی تاریکی بتدریج بڑھ رہی تھی، نیم کے درخت کپکپا رہےالفاظ اٹھے اور لبوں میں ایک نیا جہان آباد ہو رہا تھا۔ اچانک میرے دل سے کچھ

سے باہر نکل گئے۔

"الب یہی ہے تو میں بھی انقالبی ہوں۔اگر انق"

شاعر نے اپنا سر اٹھایا اور میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

ہمیں آزادی کے تو پھر اپنے خون کو کسی طشتری میں نکال کر رکھ چھوڑو کہ"وقت کس ی، آہ وہہو گکھیت کے لیے اس سرخ کھاد کی بہت ضرورت محسوس

"گی۔ری آہوں کی زردی تبسم کا رنگ اختیار کر لےا جب میہو گقدر خوشگوار

اپنے ہاتھ میں لیکر کہنے یہ کہہ کر وہ کنوئیں کی منڈیر سے اٹھا اور میرے ہاتھ کومطمئن ہیں اگر تمھیں اپنی اس دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو حال سے"لگا۔

سعی کرنا، دور رہنے کی روح کی بالیدگی منظور ہے تو ایسے لوگوں سے ہمیشہانکی نگاہوں سے ہمیشہ انکا احساس پتھرا گیا ہے۔ مستقبل کے جاں بخش مناظر

"اوجھل رہیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا اب میں چلتا ہوں۔

اس سے کوئی اور اس نے بڑے پیار سے میرا ہاتھ دبایا اور پیشتر اسکے کہ میںو گیا۔ہبات کرتا وہ لمبے قدم اٹھاتا ہوا جھاڑیوں کے جھنڈ میں غائب

معلوم کتنا عرصہ باغ کی فضا پر خاموشی طاری تھی، میں سر جھکائے ہوئے خداکی دلنواز ' کی رانیرات'اپنے خیاالت میں غرق رہا کہ اچانک اس شاعر کی آواز

دوسرے گوشے میں گا خوشبو میں گھلی ہوئی میرے کانوں تک پہنچی۔ وہ باغ کےرہا تھا۔

Page 67: Atish Paray

ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہےزمین ستاروں کی طرف للچائی اٹھو اور ان نگینوں کو اسکے ننگے سینے پر جڑ دو

ڈھاؤ، کھودو، چیرو، ماروؤں میں قوت نہیں ہے؟ونئی دنیا کے معمارو، کیا تمھارے باز

میں آہوں کا بیوپاری ہوںلہو کی شاعری میرا کام ہے

جھے قطعا یاد نہیں۔ مگیت ختم ہونے پر میں باغ میں کتنے عرصے تک بیٹھا رہا یہتھا۔والدہ کا بیان ہے کہ میں اس روز گھر بہت دیر سے آیا

***

Page 68: Atish Paray

چوری

کے تین چار لڑکے االؤ کے گرد حلقہ بنا کر سکول "بابا جی کوئی کہانی سنائیے۔"جو ٹاٹ پر بیٹھا اپنے استخوانی ہاتھ آگ تاپنے بیٹھ گئے اور اس بوڑھے آدمی سے

ہوئے تھا، کہنے لگے۔رف بڑھائےکی خاطر االؤ کی ط

مرد معمر نے جو غالبا کسی گہری سوچ میں غرق تھا، اپنا بھاری سر اٹھایا جو گردن کی الغری کی وجہ سے نیچے کو جھکا ہوا تھا۔

"کہانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں خود ایک کہانی ہوں، مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

شاید وہ اس جملہ ڑائے،اس کے بعد کے الفاظ اس نے اپنے پوپلے منہ میں ہی بڑبقابل نہ تھی کہ وہ اس کو لڑکوں کے سامنے ادا کرنا نہیں چاہتا تھا جنکی سمجھ اس

قسم کے فلسفیانہ نکات حل کر سکیں۔

کو پر کر لکڑی کے ٹکڑے ایک شور کے ساتھ جل جل کر االؤ کے آتشیں شکمجیبرہے تھے۔ شعلوں کی عنابی روشنی لڑکوں کے معصوم چہروں پر ایک ع

کر انداز میں رقص کر رہی تھی۔ ننھی ننھی چنگاریاں سپید راکھ کی نقاب الٹ الٹحیرت میں سر بلند شعلوں کا منہ تک رہی تھیں۔ درختوں کے خشک پتے بڑی

دلیری سے آگ کا مقابلہ کرتے ہوئے اس شعلہ افشاں قبر میں ہمیشہ کے لئے کودضا کا استقبال کرتے ہوئے رہے تھے۔ سرد ہوا کے جھونکے کوٹھڑی کی گرم ف

ساتھ بڑی گرمجوشی سے بغلگیر ہو رہے تھے، کونے میں مٹی کا ایک دیا اسکےکمزور روشنی پر آنسو بہا رہا تھا۔اپنی

بوڑھے آدمی نے االؤ کی روشنی میں سے " کہانی۔۔۔۔۔۔ہر روز کہانی، کل سناؤں گا۔"لڑکوں کی طرف نگاہیں اٹھا کر کہا۔

Page 69: Atish Paray

کے عالم میں وہ ہوئے چہروں پر افسردگی چھا گئی، نا امیدی لڑکوں کے تمتمائےکہہ رہے تھے، آج ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے گویا وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں

ا۔ہو گرات کہانی سنے بغیر سونا

یکایک ان میں سے ایک لڑکا جو دوسروں کی نسبت بہت ہوشیار اور ذہین معلوم ک کر بلند آواز میں بوال۔ہوتا تھا، االؤ کے قریب تر سر

ہے، کیا آپ کو کل مگر کل آپ نے وعدہ کیا تھا اور وعدہ خالفی کرنا درست نہیں""جاتا تھا۔والے حامد کا انجام یاد نہیں جو ہمیشہ اپنا کہا بھول

اپنا سر جھکا لیا بوڑھے آدمی نے یہ کہتے ہوئے" درست۔۔۔۔۔میں بھول گیا تھا۔"لڑکے کی جرأت کا نادم ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اس دلیر جیسے وہ اپنی بھول پرمعاف کر دو، مگر میرے بچے مجھ سے غلطی ہو گئی ہے"خیال کر کے مسکرایا۔

کہتے ہوئے وہ سر یہ" میں کونسی کہانی سناؤں، ٹھہرو مجھے یاد کر لینے دو۔جھکا کر گہری سوچ میں غرق ہو گیا۔

بچوں کی وہی نوں سے سخت نفرت تھی، وہاسے جن اور پریوں کی ال یعنی داستااسے بہت سے کہانیاں سنایا کرتا تھا جو انکے دل و دماغ کی اصالح کر سکیں۔

کتابوں سے فضول قصے یاد تھے جو اس نے اپنے ایام طفلی میں سنے تھے یاتھا کہ شاید پڑھے تھے مگر اس وقت وہ اپنے بربط پیری کے بوسیدہ تار چھیڑ رہا

ئی خوابیدہ راگ جاگ اٹھے۔ان میں کو

کر رہے تھے، غالبا لڑکے بابا جی کو خاموش دیکھ کر آپس میں آہستہ آہستہ گفتگوکی سزا ملی تھی۔ وہ کسی لڑکے کا ذکر کر رہے تھے جسے کتاب چرانے پر بید

باتوں باتوں میں ان میں سے کسی نے بلند آواز میں کہا۔

تاب چرا لی تھی مگر اسے سزا وزا نہ ماسٹر جی کے لڑکے نے بھی تو میری ک""ملی تھی۔

کئے گئے تھے، ان چار لفظوں نے جو پوری آواز میں ادا" کتاب چرا لی تھی۔"سپید سر اٹھایا اور بوڑھے کی خفتہ یاد میں ایک واقعے کو جگا دیا۔ اس نے اپنا

یا۔ ایک انگڑائیاں لیتے ہوئے پااپنی آنکھوں کے سامنے اس فراموش کردہ داستان کو

Page 70: Atish Paray

مگر ساتھ ہی وہیں غرق ہو اسکی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی کے لیئےلمحے کو جنبش دے کر االؤ کے گئی۔۔۔۔۔۔اضطراب کی حالت میں اس نے اپنے نحیف جسم

عیاں تھا کہ وہ کسی قریب کیا۔ اسکے چہرے کے تغیر و تبدل سے صاف طور پرر رہا ہے۔واقعے کو دوبارہ یاد کر کے بہت تکلیف محسوس ک

تھی۔۔۔۔۔دیا اسی طرح اپنے االؤ کی روشنی بدستور لڑکوں کے چہروں پر ناچ رہیسیاہ زلفیں بکھیرے روشنی کی جلے نصیبوں کو رو رہا تھا۔ کوٹھڑی کے باہر رات

تھی۔ لڑکے آپس میں سکول کی طرف اپنی تاریک آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہیمعصوم باتوں کو کان لگا کر ھک کر انکیباتیں کرنے میں مشغول تھے، چھت ج

سن رہی تھی۔

"بچو، آج میں اپنی کہانی سناؤں گا۔"دفعتا بوڑھے نے آخر ارادہ کرتے ہوئے کہا۔

چیختی ہوئی لکڑیاں لڑکے فورا اپنی گفتگو چھوڑ کر ہمہ تن گوش ہو گئے۔ االؤ کی کے لیئے۔ایک لمحے گئیں۔۔۔۔۔ایک شور کے ساتھ اپنی جگہ پر ابھر کر خاموش ہو

فضا پر مکمل سکوت طاری رہا۔

ایک لڑکے نے خوش ہو کر کہا۔ باقی سرک کر آگ کے " اپنی کہانی سنائیں گے؟"قریب خاموشی سے بیٹھ گئے۔

ہوئی گھنی بھوؤں میں یہ کہہ کر بوڑھے آدمی نے اپنی جھکی" ہاں، اپنی کہانی۔"دیر کے بعد وہ پھر یا۔ تھوڑیسے کوٹھڑی کے باہر تاریکی میں دیکھنا شروع ک

"داستان سناؤں گا۔میں آج تمھیں اپنی پہلی چوری کی"لڑکوں سے مخاطب ہوا۔

یہ وہم و گمان لڑکے حیرت سے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے، انہیں در اصلہیں۔ بابا جی جو ہر بھی نہ تھا کہ بابا جی کسی زمانے میں چوری بھی کرتے رہے

ہیں۔نصیحت کیا کرتے کے لیئےاموں سے بچنے وقت انہیں برے ک

مگر کیا آپ نے واقعی "لڑکا جو ان سب میں دلیر تھا اپنی حیرانی نہ چھپا سکا۔ "چوری کا ارتکاب کیا تھا؟

Page 71: Atish Paray

"واقعی"

"آپ اس وقت کونسی جماعت میں پڑھا کرتے تھے؟"

"نویں میں"

خیال آیا جو نویں ائی کالڑکے کی حیرت اور بھی بڑھ گئی، اسے اپنے بھ سن کریہ تھا۔ اسکی تعلیم اس سے جماعت میں تعلیم پا رہا تھا، وہ اس سے عمر میں دوگنا

تھا اور اسے ہر وقت نصیحتیں کہیں زیادہ تھی، وہ انگریزی کی کئی کتابیں پڑھا ہواعمر کا لڑکا اور اچھا پڑھا لکھا لڑکا کیا کرتا تھا۔ پھر یہ کیونکر ممکن تھا کہ اس

کو نہ حل کر سکی، چنانچہ اس نے پھر ی کرے؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسکی عقل اس معمےچورسوال کیا۔

"آپ نے چوری کیوں کی؟"

آخر وہ اسکا کیا بہت گھبرایا، کے لیئےیہ مشکل سوال دیکھ کر بوڑھا تھوڑی دیر جواب یہی ہو سکتا جواب دے سکتا تھا کہ فالں کام اس نے کیوں کیا؟ بظاہر اسکا

"یئے کہ اس وقت دماغ میں یہی خیال آیا۔اس ل"تھا

یہی بہتر خیال بوڑھے نے دل میں یہی جواب سوچا مگر اس سے مطمئن نہ ہو کربذات خود اس سوال کیا کہ تمام داستان من و عن بیان کر دی جائے، اس لیئے کہ وہ

کا سب سے آسان جواب ہے۔

"۔اسکا جواب میری کہانی ہے جو تمھیں سنانے واال ہوں"

"سنائیے۔"

جگہ پر جم کر اپنی اپنی کے لیئےلڑکے اس بوڑھے آدمی کی چوری کا حال سننے کنگھی کر رہا تھا بیٹھ گئے، جو االؤ کے سامنے اپنے سپید بالوں کو انگلیوں سے

اور جسے وہ ایک بہت بڑا آدمی خیال کرتے تھے۔

Page 72: Atish Paray

یرتا رہا پھر اس مرد معمر کچھ عرصے تک خاموش اپنے بالوں میں انگلیاں پھبھولے ہوئے واقعے کے تمام منتشر ٹکڑے فراہم کر کے بوال۔

کوئی ایسی حرکت ہر شخص خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا، اپنی زندگی میں کوئی نہ"میں سب سے برا ضرور کرتا ہے جس پر وہ تمام عمر نادم رہتا ہے۔ میری زندگی

"فعل ایک کتاب کی چوری ہے۔

ناقابل انداز میں چمکتی ہ رک گیا، اسکی آنکھیں جو ہمیشہ ایکیہاں تک پہنچ کر وسے صاف ظاہر تھا کہ وہ اس رہتی تھیں، دھندلی پڑ گئیں۔ اسکے چہرے کی تبدیلیسامنا کر رہا ہے۔ چند لمحات واقعے کو بیان کرتے ہوئے زبردست ذہنی تکلیف کا

کے توقف کے بعد وہ پھر گویا ہوا۔

کی دکان ب کی چوری ہے جو میں نے ایک کتب فروشسب سے مکروہ فعل کتا"رہا تھا۔ سے چرائی۔ یہ اس زمانے کا ذکر ہے جب میں نویں جماعت میں تعلیم پا

افسانے یا ناول قدرتی طور پر جیسا کہ اب تمھیں کہانی سننے کا شوق ہے، مجھےکر میں یا خود خرید پڑھنے کا شوق تھا۔۔۔۔۔۔۔۔نہیں خبط تھا۔ دوستوں سے مانگ کر

کتابیں عموما عشق و ہر ہفتے ایک نہ ایک کتاب ضرور مطالعہ کیا کرتا تھا۔ وہکرتے تھے۔محبت کی بے معنی داستانیں یا فضول جاسوسی قصے ہوا

والدین کو میری اس حرکت یہ کتابیں میں ہمیشہ چھپ چھپ کر پڑھا کرتا تھا، میرےمجھے ہر گز ایسا نہ کرنے دیتے، وہ کی کوئی خبر نہ تھی، اگر انہیں معلوم ہوتا تو

بہت نقصان دہ ہوتی ہیں۔ کے لیئےاس لیئے کہ اس قسم کی کتابیں سکول کے لڑکےمجھے اسکا نتیجہ بھگتنا پڑا۔۔۔۔۔۔۔میں میں انکے مہلک نقصان سے غافل تھا، چنانچہ

"نے چوری کی اور پکڑا گیا۔

ایک لڑکے نے حیرت زدہ ہو کر کہا۔" آپ پکڑے گئے؟"

بے خبر تھے۔ یہ عادت ہاں پکڑا گیا۔۔۔۔۔۔چونکہ میرے والدین اس واقعے سے بالکل"کتاب یعنی ناول کی پکتے پکتے میری طبیعت بن گئی۔ اب مجھے ہر روز ایک

Page 73: Atish Paray

جوڑ جوڑ کر ضرورت الحق ہونے لگی۔ گھر سے جتنے پیسے ملتے میں انہیںپڑھائی سے ۔ سکول کیبازار سے افسانوں کی کتابیں خریدنے میں صرف کر دیتا

سمایا رہتا رفتہ رفتہ مجھے نفرت ہونے لگی۔ پس ہر وقت میرے دل میں یہی خیالچاہیئے، یا کہ فالں کتاب جو فالں ناول نویس کی لکھی ہوئی ہے ضرور پڑھنی

نظر ضرور فالں کتب فروش کے پاس نئی ناولوں کا ایک ذخیرہ موجود ہے وہ ایکہے۔ اس حالت میں کی یہ انتہا دوسرے معنوں میں دیوانگی دیکھنا چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔شوق

کر رہا ہے۔ اس وقت وہ واال ہے یا کیاے و معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا کرنانسان ککرنے یا شوق پورا ایک بے عقل بچے کی مانند ہوتا ہے جو اپنی طبیعت خوش

ہیں ہوتا کہ وہ پتا نجلتی ہوئی آگ میں ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ اسے یہ کے لیئےکرنے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک یہی چمکنے والی شے جسے وہ پکڑ رہا ہے اسکا ہاتھ جال دے

ئے وہ بغیر اس لیہوتا ہے حالت میری تھی۔ فرق اتنا ہے کہ بچہ شعور سے محرومنے عقل کا مالک سمجھے بوجھے بری سے بری حرکت کر بیٹھتا ہے مگر میں

کی موجودگی میں رتکاب کیا۔ یہ آنکھوںہوتے ہوئے چوری ایسے مکروہ جرم کا ااگر میری عادت مجھے میرے اندھے ہونے کی دلیل ہے۔ میں ہر گز ایسا کام نہ کرتا

مجبور نہ کرتی۔

اسے برے سے برے ہر انسان کے دماغ میں شیطان موجود ہوتا ہے جو وقتا فوقتاجب کہ سوچنے آیاکام کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ شیطان مجھ پر اس وقت غالب

"بہت کم وقت تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر۔ کے لیئے

گاڑے اسکی لڑکے خاموشی سے بوڑھے کے ہلتے ہوئے لبوں کی طرف نگاہیںکہ اصل داستان کو سن رہے تھے۔ داستان کا تسلسل اس وقت ٹوٹتے دیکھ کر جب

انتظار کرنے مقصد بیان کیا جانے واال تھا وہ بڑی بیقراری سے بقایا تفصیل کالگے۔

بوڑھے نے " مسعود بیٹا، یہ سامنے واال دروازہ تو بند کر دینا، سرد ہوا آ رہی ہے۔"اپنا کمبل گھٹنوں پر ڈالتے ہوئے کہا۔

کہہ کر اٹھا اور کوٹھڑی کا دروازہ بند کرنے کے بعد اپنی " اچھا بابا جی"مسعود جگہ پر بیٹھ گیا۔

Page 74: Atish Paray

اپنی داستان سنانا بوڑھے نے" ہاں تو ایک دن جب کہ والد گھر سے باہر تھے۔"جو میں ان دنوں مجھے بھی کوئی خاص کام نہ تھا اور وہ کتاب"شروع کر دی۔

چلو فالں کتب ئے میرے جی میں آئی کہاس لیپڑھ رہا تھا قریب االختتام تھی، تھیں۔فروش تک ہو آئیں جسکے پاس بہت سی جاسوسی ناولیں پڑی ہوئی

ناول کے دام ادا یسے موجود تھے جو ایک معمولیمیری جیب میں اس وقت کچھ پفروش کی دکان پر کافی تھے چنانچہ میں گھر سے سیدھا اس کتب کے لیئےکرنے

موجود رہتی تھیں مگر اس گیا۔ یوں تو اس دکان پر ہر وقت بہت اچھی اچھی ناولیںان تختے پر رکھا ہوا تھا۔دن خاص طور پر بالکل نئی کتابوں کا ایک ڈھیر باہر

میں ایک ہیجان سا برپا ہو کتابوں کے رنگ برنگے سر ورق دیکھ کر میری طبیعتمیری ملکیت بن جائیں۔گیا۔ دل میں یہ خواہش گدگدانے لگی کہ وہ تمام

میں مشغول ہو گیا۔ ہر میں دکاندار سے اجازت لیکر ان کتابوں کو ایک نظر دیکھنےلکھی ہوئی تھی۔کوئی عبارتکتاب کے شوخ سر ورق پر اس قسم کی کوئی نہ

"یہ نا ممکن ہے کہ اس کا مطالعہ آپ پر سنسنی نہ طاری کر دے۔"

"مصور اسرار کا الثانی شاہکار۔"

"تمثیل، ہیجان، رومان۔۔۔۔۔۔۔۔۔سب یکجا"

نے کوئی خاص کافی تھیں مگر میں کے لیئےاس قسم کی عبارتیں اشتیاق بڑھانے تھے۔ گو نظروں سے اکثر ایسے الفاظ گزر چکےئے کہ میری اس لیتوجہ نہ دی

جاؤں۔ اسکے ساتھ ہی مجھے یہ خواہش ضرور تھی کہ میں ان کتابوں کا مالک بندل میں خیر میں تھوڑا عرصہ کتابوں کو الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ اس وقت میرے

قیمت کی ایک کم کے لیئےچوری کرنے کا خیال مطلقا نہ تھا بلکہ میں نے خریدنے ناول چن کر علیحدہ کر رکھی تھی۔

Page 75: Atish Paray

ان ناولوں کو تھوڑی دیر کے بعد دل میں یہ ارادہ کر کے کہ میں دوسرے ہفتےکتاب کا اٹھانا تھا کہ دوبارہ دیکھنے آؤنگا، میں نے اپنی انتخاب کردہ کتاب اٹھائی،

ایک کونے پر میرے محبوب میری نگاہیں ایک مجلد ناول پر گڑ گئیں۔ سر ورق کےذرا اوپر کتاب کا نام تھا۔لسٹ کا نام سرخ لفظوں میں چھپا ہوا تھا، اسکےناو

"منتقم شعاعیں۔۔۔۔۔۔۔کسطرح ایک دیوانے ڈاکٹر نے لندن کو تباہ کرنے کا ارادہ کیا۔"

گئی۔ کتاب کا وہی یہ سطور پڑھتے ہی میرے اشتیاق میں ایک قسم کی طغیانی آرکھی تھی۔ ناول ں کی نیند حرام کرمصنف، جس نے اس سے پیشتر مجھ پر راتو

گیا۔کو دیکھتے ہی میرے دماغ میں خیاالت کا ایک گروہ داخل ہو

ا۔ہو گمنتقم شعاعیں۔۔۔۔۔۔۔دیوانے ڈاکٹر کی ایجاد۔۔۔۔۔۔۔۔کیسا دلچسپ افسانہ "

لندن تباہ کرنے کا ارادہ۔۔۔۔۔۔۔یہ کسطرح ہو سکتا ہے؟

نی خیز لکھی ہیں۔اس مصنف نے فالں فالں کتابیں کتنی سنس

"ی۔ہو گیہ کتاب ضرور ان سے بہتر

بعد دیگرے میرے میں خاموش اس کتاب کی طرف دیکھ رہا تھا اور یہ خیاالت یکےدیکھا اور کھول کر کانوں میں شور برپا کر رہے تھے۔ میں نے اس کتاب کو اٹھایا

ر آئی۔ظتو پہلے ورق پر یہ عبارت ن

"ین تصنیف قرار دیتا ہے۔مصنف اس کتاب کو اپنی بہتر"

دفعتا میرے دماغ کے خدا ان الفاظ نے میرے اشتیاق کی آگ میں ایندھن کا کام دیا۔اس کتاب کو اپنے کوٹ میں معلوم کس گوشے سے ایک خیال کود پڑا وہ یہ کہ میں

کتب فروش کی طرف مڑیں جو چھپا کر لے جاؤں۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری آنکھیں بے اختیاردوسری طرف دو نوجوان چھ لکھنے میں مشغول تھا۔ دکان کیایک کاغذ پر ک

"پیر تک لرز گیا۔کھڑے میری طرح کتابیں دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔میں سر سے

Page 76: Atish Paray

یہ کہتے ہوئے بوڑھے کا نحیف جسم اس واقعے کی یاد سے کانپا، تھوڑی دیر خاموش رہ کر اس نے پھر اپنی داستان شروع کر دی۔

کرنا بہت برا کام دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ چوریایک لحظے کے لئے میرے "شعاعوں میں غرق ہو ہے مگر ضمیر کی یہ آواز سر ورق پر بنی ہوئی النبی النبی

کر رہا تھا۔ میں نے ادھر کی گردان' منتقم شعاعیں' 'منتقم شعاعیں'گئی۔ میرا دماغ ۔۔۔۔۔۔یہ کرتے میں دبا لیادھر جھانکا اور جھٹ سے وہ کتاب کوٹ کے اندر بغل

رہے تھے۔ہوئے میرے دونوں ہاتھ اور ٹانگیں بڑے زور سے کانپ

کتاب کے دام ادا کر اس حالت پر قابو پا کر میں کتب فروش کے قریب گیا اور اسروپے میں سے باقی دیئے جو میں نے پہلے منتخب کی تھی۔ قیمت لیتے وقت اور

عالوہ وہ میری لگا دی۔ اسکےپیسے واپس کرنے میں اس نے غیر معمولی تاخیر سخت طرف اس وقت عجیب نگاہوں سے دیکھ رہا تھا جس سے میری طبیعت

نکلوں۔پریشان ہو رہی تھی۔ جی یہی چاہتا تھا کہ سب کچھ چھوڑ کر وہاں سے بھاگ

ابھری ہوئی اس دوران میں میں نے کئی بار اس جگہ پر جو کتاب کی وجہ سےکی۔ میری ان د اسے چھپانے کی بے سود کوشش بھیتھی، نگاہ ڈالی۔۔۔۔۔۔اور شای

کچھ کہنے ئے کہ وہ بار باراس لیعجیب حرکتوں کو دیکھ کر اسے شک ضرور ہوا کی کوشش کر کے پھر خاموش ہو جاتا تھا۔

قدم کے فاصلے میں نے باقی پیسے جلدی سے پکڑے اور وہاں سے چل دیا۔ دو سوپاؤں چال آ رہا تھا کھا تو کتب فروش ننگےپر میں نے کسی کی آواز سنی، مڑ کر دی

نے اندھا دھند بھاگنا کہہ رہا تھا، یہ دیکھتے ہی میں کے لیئےاور مجھے ٹھہرنے شروع کر دیا۔

میں اپنے گھر کی مجھے معلوم نہ تھا کہ میں کدھر بھاگ رہا ہوں، اسکے عالوہرہا تھا جدھر جانب رخ کئے ہوئے نہ تھا بلکہ میں شروع ہی سے اس طرف بھاگ

دو تین آدمیوں نے بازار کا اختتام تھا، اس غلطی کا مجھے اس وقت احساس ہوا جب"مجھے پکڑ لیا۔

Page 77: Atish Paray

پر پھیرنے لگا، بوڑھا اتنا کہہ کر اضطراب کی حالت میں اپنی خشک زبان لبوںکا ایک گھونٹ تو مسعود، پانی"کچھ توقف کے بعد وہ ایک لڑکے سے مخاطب ہوا۔

"پلوانا۔

گھڑے سے مسعود خاموشی سے اٹھا اور کوٹھڑی کے ایک کونے میں پڑے ہوئےلگا لیا گالس میں پانی انڈیل کر لے آیا۔ بوڑھے نے گالس کو پکڑتے ہی منہ سے

بوڑھے " تھا؟ہاں میں کیا بیان کر رہا"اور ایک ہی گھونٹ میں سارا پانی پی لیا۔ نے خالی گالس کو زمین پر رکھتے ہوئے کہا۔

ایک لڑکے نے جواب دیا۔" پ بھاگے جا رہے تھے۔آ"

بھاگا چال آ رہا تھا، جب میرے پیچھے کتب فروش چور، چور کی آواز بلند کرتا ہوا"دیکھا تو میرے ہوش ٹھکانے نہ میں نے دو تین آدمیوں کو اپنے قریب پہنچتے ہوئےکے تصویریں ایک ایک کررہے۔ جیل کی آہنی سالخیں، پولیس اور عدالت کی

خیال آتے ہی میری میری آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگیں۔ بے عزتی کاچاہا تو ٹانگوں نے جواب پیشانی عرق آلود ہو گئی، میں لڑکھڑایا اور گر پڑا، اٹھناتند دھواں سا میرے سینے دے دیا۔ اس وقت میرے دماغ کی عجیب حالت تھی، ایک

رہی تھیں اور کانوں میں ایک ے ابلمیں کروٹیں لے رہا تھا۔ آنکھیں فرط خوف سچادروں کو ہتھوڑوں سے کوٹ زبردست شور برپا تھا جیسے بہت سے لوگ آہنی

رہا تھا کہ کتب فروش اور رہے ہیں، میں ابھی اٹھ کر بھاگنے کی کوشش کر ہیوقت میری کیا حالت تھی، اسکا اسکے ہمراہ دو تین آدمیوں نے مجھے پکڑ لیا، اس

پتھروں کی طرح میرے دماغ کے ساتھ دشوار ہے، سینکڑوں خیاالتبیان کرنا بہت کر رہے تھے۔ جب انہوں نے مجھے پکڑا ٹکرا ٹکرا کر مختلف قسم کی آوازیں پیدا

میرے دل کو پکڑ کر مسل ڈاال ہے، میں بالکل تو ایسا معلوم ہوا کہ آہنی پنجرے نےہے تھے۔طرف کشاں کشاں لے جا رخاموش تھا اور وہ مجھے دکان کی

یہ خیال کرتے ہوئے جیل خانے کی کوٹھڑی یا عدالت کا دروازہ دیکھنا یقینی تھا،اب جو ہونا تھا، میرے ضمیر نے مجھ پر لعنت مالمت کرنا شروع کر دی۔ چونکہ

کوئی الفاظ موجود کے لیئےہو چکا تھا اور میرے پاس اپنے ضمیر کو جواب دینے

Page 78: Atish Paray

اختیار رونا شروع و اتر آئے اور میں نے بےنہ تھے، میری گرم آنکھوں میں آنس"کر دیا۔

یہ کہتے ہوئے بوڑھے کی دھندلی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔

اور ٹھوڑی دیر کتب فروش نے مجھے پولیس کے حوالے نہ کیا، اپنی کتاب لے لی"خشک کرتے بوڑھے نے اپنے آنسو کمبل سے" نصیحت کرنے کے بعد چھوڑ دیا۔

بچ گیا کو جزائے خیر دے، میں عدالت کے دروازے سے تو خدا اس"ہوئے کہا۔ سخت ئی، والد مجھ پرہو گمگر اس واقعے کی والد اور سکول کے لڑکوں کو خبر

خفا ہوئے اور ہر ممکن طریقے سے مجھے اس مکروہ فعل پر شرم دالنے کے بعدمعاف کر دیا۔

میں نے دیکھا کہ بدو تین روز مجھے اس ندامت میں بخار آتا رہا، اسکے بعد جنہیں کہ میں لوگوں کے میرا دل کسی کروٹ آرام نہیں لیتا اور مجھ میں اتنی قوت

کے لیئےوہاں سے ہمیشہ سامنے اپنی نگاہیں اٹھا سکوں تو میں شہر چھوڑ کرشہروں کی خاک چھانی روپوش ہو گیا۔ اس وقت سے لیکر اب تک میں نے مختلف

کی چوری کی وجہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔صرف اس کتابہے، ہزاروں مصائب برداشت کئے سے، جو مجھے تا دم مرگ نادم و شرمسار رکھے گی۔

کیں، ڈاکے ڈالے اس آوارہ گردی کے دوران میں میں نے اور بھی بہت سی چوریاں"فخر ہے۔اور ہمیشہ پکڑا گیا، مگر میں ان پر نادم نہیں ہوں، مجھے

نمودار ہو گئی میں پھر پہلی سی چمکیہ کہتے ہوئے بوڑھے کی دھندلی آنکھوں دیا۔اور اس نے االؤ کے شعلوں کو ٹکٹکی لگا کر دیکھنا شروع کر

ٹھوڑے توقف کے بعد دوبارہ کہے۔ اس نےیہ الفاظ " ہاں، مجھے فخر ہے۔"

میں تھر تھرا کر پھر آگ کا ایک شعلہ نہ معلوم کیوں بلند ہوا اور ایک لمحہ فضادیکھی اور مسکرا دیا، گیا۔ بوڑھے نے شعلے کی جرأتاالؤ کی آغوش میں سو

پھر لڑکوں سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔

Page 79: Atish Paray

"کہانی ختم ہو گئی ہے، اب تم جاؤ، تمھارے والدین انتظار کرتے ہونگے۔"

مسعود نے سوال کیا۔" مگر آپ کو اپنی دوسری چوریوں پر فخر کیوں ہے؟"

نہیں تھیں، اپنی سرقہ کہ وہ چوریاںلئے اس "بوڑھا مسکرایا۔ " آہ، فخر کیوں ہے؟"بڑے ہو کر تمھیں شدہ چیزوں کو دوبارہ حاصل کرنا چوری نہیں میرے عزیز،

"اچھی طرح معلوم ہو جائے گا۔

"میں سمجھا نہیں۔"

اسے ہر ممکن ہر وہ چیز جو تم سے چرا لی گئی ہو، تمھیں حق حاصل ہے کہ"کامیاب ہونی د رہے تمھاری یہ کوششطریقے سے اپنے قبضے میں لے آؤ، مگر یا

"ہے۔چاہیئے ورنہ ایسا کرتے ہوئے پکڑے جانا اور اذیتیں اٹھانا عبث

دروازے سے باہر لڑکے اٹھے اور بابا جی کو شب بخیر کہتے ہوئے کوٹھڑی کےرہی تھیں، تھوڑی چلے گئے، بوڑھے کی نگاہیں انکو تاریکی میں گم ہوتے دیکھ

بند کرتے ہوئے بوال۔ے بعد وہ اٹھا اور کوٹھڑی کا دروازہدیر اسی طرح دیکھنے ک

"آہ، اگر بڑے ہو کر وہ صرف کھوئی ہوئی چیزیں واپس لے سکیں۔"

بوڑھے کو خدا معلوم ان لڑکوں سے کیا امید تھی۔

)’’ساقی"اشاعت اولیں (

***

محمد وارث: ٹائپنگ