This document is posted to help you gain knowledge. Please leave a comment to let me know what you think about it! Share it to your friends and learn new things together.
Transcript
1
عرب و عجم قبل از اسلام
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی روشنی میں
پروفیسر جامعہ احمدیہ کینیڈامربی سلسلہ ، آصف احمد خان :تحقیق و ترتیب
کی ورق گردانی کرتی ہوئی جب سر زمین کا ملک عرب سے اور بالخصوص مکہ سےظہور فرمانا بیشمار حکمتوں پر مبنی ہے۔ انسانی آنکھ تاریخ عالم صلى الله عليه وسلم آنحضور
ر الفسادفی البر والبحر کا اندوہناک نظارہ کرتی ہے۔ لیکن جب وہی آنکھ عرب کی ظہور اسلام کے بعدکایا پلٹتے دیکھتیھ
ظ
ہے تو دی ان ون و عرب پر آتی ہے تو
عقیدت سے بھر جاتا ہے اور زبانوں پر درودوسلام جاری ہوجا تا ہے۔
کا ملک صلى الله عليه وسلم سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریرات و فرمودات میں مختلف پہلووں سے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ آپ
عرب ہی سے ظہور فرماتے۔اسی طرح سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام عرب سے مبعوث ہونا حکمت سے خالی نہ تھا۔بلکہ ضرور تھا کہ آپ
نے عرب کی اسوقت کی سیاسی وتمدنی واخلاقی حالت پر بھی تبصرہ فرمایا ہے ۔
2
عرب سے ظہور کی حکمت
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایاہے۔
سے منقطع ہو کر حکمت الہی سے بیابان جو اسرائیل خالی حکمت سے نہ تھا۔ عرب وہ بنی اسماعیل کی قوم تھیاس آخری نور کا عرب سے ظاہر ہونا بھی ’’
ہیں دو فرار کرنے والےیعنی بھاگنے والے۔ پس جن کو خود حضرت ابراہیم نے بنی اسرائیل سےعلیحدہ کر فاران میں ڈای دی گئی تھی اور فاران کے معنی
کےساتھ حصہ کی شریعتدیا تھا ان کا توریت نہیں پائیں گے۔ پس تعلق والوں نےانہیں چھوڑ میں کچھ حصہ نہیں رہا تھا۔ جیسا کہ لکھا ہے کہ وہ اسحاق
لگتا ہے کہ کسی اور احکام کی پائی جاتی تھیں جنسے پتہ کسی دوسر سے ان کا تعلق اوررتہ نہ تھا۔ اور دوسر مامم لکوںں میں کچھ کچھ رسوم بادداتیاد
ان تعلیموں سے محض ناواقف تھا اور مامم جہان سے پیچھے رہا ہوا تھا۔ ہی ایک ایسا ملک تھا وقت ان کو نبیوں کی تعلیم پہنچی تھی۔ مگر صرف عرب کا ملک
اس کونکای د ۔ پس تھیآئی اور اس کی نبوت عام ٹھہری تا مام م لکوںں کو دوبارہ برکات کا حصہ دیو اور جو غلطی پڑ گئی اس لئے آخر میں اسکی نوبت
لے لیا اور پہلی کتابوں کی طرح صرف ایک قوم سے اصلاح کا اپنے ہاتھ میں نتظار کریں جس نے سارا کام انسانایسی کامل کتاب کے بعد کس کتاب کا ا
کو انسانیت کےآداب سکھائے۔ پھر انسانی تربیت کے مامم مراتب بیان فرمائے۔ وحشیوں مامم قوموں کی اصلاح چاہی اور انسانی واسطہ نہیں رکھا۔ بلکہ
(367صفحہ 10، جلداسلامی اصوی کی فلاسفیروحانی خزائن، ) ۔‘‘اخلاق فاضلہ کا سبق دیاصورت بنانے کے بعد
ابراہیم علیہ السلام اس مندرجہ بالا ارشاد میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جو امور بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت
نے جو وعد کئے تھے انکے پورا ہونے کے لئے ضروری تھا کہ انکے دونوں بیٹوں کی نسلوں کو نبوت و شریعت کیینعمت سے کی نسل کے متعلق خدا تعال
نے پے درپے انبیاء مبعوث فرمائے اور انکے بھائی حضرت اسماعیل علیہ نوازا جاتا ۔یالسلام حضرت اسحق علیہ السلام کی نسل یعنی بنی اسرائیل میں خدا تعال
وں میںی نے کی نسل جوعرب میں آ کر آباد ہوئی اس میں اب تک نبوت منقطع تھی اور ان کے پاس کوئی شریعت نہ تھی گو امی تھے ۔ انہی ام
یاللہ تعال
کو مبعوث فرمایا ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاوں اور ان سے کئے گئے صلى الله عليه وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کئے گئے وعدوں کے مطابق آنحضور
ات ۳۸۔ابراہیم ۳۰وعدوں کا ذکر قرآن میں )البقرہ
حضرت اسماعیل علیہ السلام کا حجاز ( موجود ہے ۔ ۴۷تا ۴۲( اور بائیبل میں )پیدائش ۱۰۲۔ الصاف
بھی ثابت شدہ حقیقت ہے۔کا نسل اسماعیل سے ہونا صلى الله عليه وسلم میں آکر آباد ہونا اور آنحضور
سیاسی حالات
فرمائے نسیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ظہور اسلا م کے وقت عرب کے اور اسکی ارد گرد کی سلطنتو ں کے سیاسی و مدنی حالات بھی بیا
ہیں جن سے اس دور سے متعلق مختلف پہلووں پر روشنی پڑتی ہے
3
کے ماتحت تھا اور گو پایۂ تخت ایران ا س جگہ اس بات کا جتلا دینا فائدہ سے خالی نہ ہوگا کہ خسرو پرویز کے وقت میں اکثر حصہ عرب کا ’’ایک جگہ فرمایا
وہ ملک اسی سلطنت کے ممالک محروسہ میں سے خراج حاصل نہیںایک ویرانہ سمجھ کر جس سے کچھ عرب کا ملک
ن
گفتب
ہوسکتا تھا چھوڑا گیا تھا مگر تاہم
حفاظت کے نیچے زندگی بسر کرتے تھے لیکن سلطنت کی سیاست مدنی کا عرب پر کوئی دباؤ نہ تھا اور نہ وہ اس سلطنت کے سیاسی قانون کی شمار کیا جاتا تھا
ایک جماعت دوسروں پر امن اور عدی اپنی قوم میں قائم رکھنے کے لئے حکومت کرتی تھی ور ایک جمہوری سلطنت کے رنگ میںبلکہ بالکل آزاد تھے ا
سمجھی جاتی میں سے بعض کی رائے کو سب سے زیادہ نفاذ احکام میں عزت دی جاتی تھی اور ان کی ایک رائے کسی جنقدر جماعت کی رائے کے ہم پل
ہوا کہ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنی رعایا میں سے ایک شخص سمجھا لیکن اس سے سرییی کو اس اتعالی کا یہ بھی باثتھی۔ سو بدقسمتی
م گئے اس وقت تک کہ وہ مامم ملک اسلا بعد جس کا ذکر متن میں کیا گیا ہے قطعی طور پر حکومت فارس کے تعلقات ملک عرب سے علیحدہ ہو معجزہ کے
سیدنا حضرت یہود جو انبیاء کی اولاد اور اھل کتاب کہلاتے تھے انکی حالت بھی بہت خراب تھی انکے بار بھی بڑی تفصیل کے ساتھ یہود کی حالت
اور خود کسی تاریخ دان اور واقف حقیقت کو اس سے بے خبری نہیں ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم’’ اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے
تھا۔ چنانچہ کے ظہور کے وقت تک ہریک قوم کی ضلالت اور گمراہی کمای کے درجہ تک پہنچ چکی تھی اور کسی ہااقت پر کامل طور پر ان کا قیام نہیں رہا
ہوگئے تھے اور انہوں اگر اوی یہودیوں ہی کے حای پر نظر کریں تو ظاہر ہوگا کہ ان کو خدائے تعالی کی ربوبیت تامہ میں بہت سے شک اور شبہات پیدا
ان میں نے ایک ذات رب العالمین پر کفایت نہ کرکے ہاہا ارباب متفرقہ اپنے لئے بنارکھے تھے یعنی مخلوق پرستی اور دیوتا پرستی کا بغایت درجہ
یعنی اتخذوا أحبارهم ورهبان هم أربابا من دون اللخه بازارگرم تھا۔ جیسا کہ خود اللہ تعالی نے ان کا یہ حای قرآن شریف میں بیان کرکے فرمایا ہے۔
درویشوں کو کہ جو مخلوق اور غیر خدا ہیں، اپنے رب اور قاضی الحاجات ٹھہرا رکھے ہیں۔ اور نیز اکثروں کا یہودیوں میں سے اور یہودیوں نے اپنے مولوی
ی ہہ تعینہ پر ل رہا ہےاور اس قانون میں ختاررانہ صرفف کرنے سے خدائے تعالی بعض نیچریوں کی طرح یہ اعتقاد ہوگیا تھا کہ
ب
نی انتظام دنیا کا قواین
سے کہ اس قاصر اور عاجز ہے۔گویا اس کے دونوں ہاتھ بندھے ہوئے ہیں نہ اس قاعدہ کے برخلاف کچھ ایجاد کرسکتا ہے اور نہ فنا کرسکتا ہے بلکہ جب
پالی ہے تب سے یہ کل اپنے ہی پرزوں کی صلاحیت کی وجہ سے خودبخود ل سے فراغت پیدائش ص طورپرشیرازہ باندھ کر اس کینے اس عالم کا ایک خا
رب العالمین کسی قسم کا صرفف اور دخل اس کل کے چلنے میں نہیں رکھتا۔ اور نہ اس کو اختیار ہے کہ اپنی مرضی کے موافق اور اپنی رہی ہے اور
شنودی کے رو سے اپنی ربوبیت کو بہ تفاوت مراتب ظاہر کر یا اپنے ارادۂ خاص سے کسی طور کا تغیر اور تبدی کر بلکہ یہودی لوگ خوشنودی ناخو
سی باتیں اور مجسم قرار د کر عالم جسمانی کی طرح اور اس کا ایک جز سمجھتے ہیں۔ اور ان کی نظر ناقص میں یہ سمایا ہوا ہے کہ بہت خدائے تعالی کو جسمانی
ی ہے خدائے کہ جو مخلوق پر جائز ہیں وہ خدا پر بھی جائز ہیں اور اس کو من کل الوجوہ منزہ خیای نہیں کرتے۔ اور ان کی توریت میں جو محرف اور مبد
مامم رات صبح تک کشتی لڑا گیا۔ باب میں لکھا ہے کہ خدائے تعالی یعقوب سے ۳۲تعالی کی نسبت کئی طورکی بے ادبیاں پائی جاتی ہیں۔ چنانچہ پیدائش کے
کھا اور اس پر غالب نہ ہوا سی طرح برخلاف اس اصوی کے کہ خدائےہریک مافی العالم کا رب ہے۔ بعض مردوں کو انہوں نے خدا کے بیٹے قرار د ر
میں یہ بھی فرما دیا ہے کہ تماور کسی جگہ ہے۔ ی
نے بھی تو یہ ہے کہ عیسائیوں سب خدا ہی ہو۔ اور چعورتوں کو خدا کی بیٹیاں لکھا گیا ہے اور کسی جگہ ب
ور خدا کی بیٹیاں انہیں تعلیموں سے مخلوق پرستی کا سبق سیکھا ہے کیونکہ جب عیسائیوں نے معلوم کیا کہ بائیبل کی تعلیم بہت سے لوگوں کو خدا کے بیٹے ا
اسی جہت سے یم کو انہیں میں داخل کریں تا وہ دوسر بیٹوں سے کم نہ رہ جائے۔ بلکہ خدا ہی بناتی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ آؤ ہم بھی اپنے ا و مر
شریف میں فرمایا ہے کہ عیسائیوں نے ا و مریم کوا و اللہ بناکر کوئی نئی بات نہیں نکالی بلکہ پہلے بے ان ونوں اور مشرکوں کے خدائے تعالی نے قرآن
بدرجہ غایت ان پرغالب آگئی ء صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہودیوں کی یہ حالت تھی کہ مخلوق پرستیحضرت خاتم الانبیا غرض ۔ قدم پر قدم مارا ہے
9
تھے۔ تھی اور عقائد حقہ سے بہت دور جاپڑی تھی یہاں تک کہ بعض ان کے ہندوؤں کی طرح تناسخ کے بھی قائل تھے اور بعض جزا سزا کے قطعا منکر
کو قدیم اور میں محصور سمجھتے تھے اور قیامت کے قائل نہ تھے۔ اور بعض یونانیوں کے نقش قدم پر ل کر مادہ اورروحوں دنیا اور بعض مجازات کو صرف
العالمین غیر مخلوق خیای کرتے تھے۔ اور بعض دہریوں کی طرح روح کو فانی سمجھتے تھے اوربعض کا فلسفیوں کی طرح یہ مذہب تھا کہ خدائے تعالی رب
خیالات ان کے فاسد ہوگئے تھے اور خدائے تعالی کی صفات کاملہ ربوبیت و رحمانیت و لارادہ نہیں ہے۔ غرض جذووم کے بدن کی طرح مامماور مدبر با
اور مالک یوم الدین ہونے پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے نہ ان صفتوں کو اس کی ذات سے مخصوص سمجھتے تھے اور نہ ان صفتوں کا کامل
یت ییمجیخدائے طور پر ر
یت کی تعلیم کو انہوں تعالی میں پایا جانا یقین رکھتے تھے بلکہ بہت سی بدگمانیاں اور بے ان ونیاں اور آلودگیاں ان کے اعتقادوں میں بھرگئی تھیں اور تور
جسمانی اور سم قرار دینے میں اور نے نہایت بدشکل چیز کی طرح بناکر شرک اور بدی کی بدبو کو پھیلانا شروع کررکھا تھا۔ پس وہ لوگ خدائے تعالی کو
وغیرہ صفات کے معطل جاننے میں اور ان صفتوں میں دوسری چیزوں کوشریک گرداننے میں اکثر مشرکین
یت ییمجیاس کی ربوبیت اور رحمانیت اور ر
یہود کی اخلاقی ابتری کا ذکر قرآن (11نمبرحاشیہ 466تا 463صفحہ 1)براہین احمدیہ ۔ روحانی خزائن جلد ۔‘‘کے پیشوا اور سابقین اولین میں سے ہیں
وإذ أخذنا ميثاق بن إسرائيل ل ت عبدون إلخ اللخه وبالوالدين إحسانا وذي القرب سورۃ البقرہ میں ہے کہ: مثلا اور بائبل میں صراحتا موجود ہے
ون كين وقولوا للنخاس حسنا وأقيموا الصخلة وآتوا الزخكاة ثخ ت ولخيتم إلخ قليل منكم وأ واليتامى والمسا اور جب ہم (84)بقرہ: ن تم معر
احسان کا سلوک کروگے اور قریبی رتہ داروں سے اور نے بنی اسرائیل کا میثاق )ان سے( لیا کہ اللہ کے سوا کسی کی باددت نہیں کرو گے اور والدین سے
کے سوا تم سب یتیموں سے اور مسکینوں سے بھی۔ اور لوگوں سے نیک بات کہا کرو اور نماز کو قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ اس کے باوجود تم میں سے چند
بكم بذنوبكم بل أن تم وقالت الي هود )اس عہد سے( پھر گئے۔ اور تم اعراض کرنے والے تھے والنخصارى نن أب ناء اللخه وأحبخاؤه قل فلم ي عذ
ن ماوات والرض وما ب ي ب من يشاء وللخه ملك السخ اور یہود اور (19:)المائدۃ صي هما وإليه الم بشر مخن خلق ي غفر لمن يشاء وي عذ
نہیں، بلکہ تم نصاریی نے کہا کہ ہم اللہ کی اولاد ہیں اور اس کے محبوب ہیں۔ تو کہہ د پھر وہ تمہیں تمہار گناہوں کی وجہ سے عذاب کیوں دیتا ہے؟
ہتا ہے عذاب دیتا ہے اور آسمانوں اور زمین کی بادشات ان میں سے جن کو اس نے پیدا کیا محض بشر ہو۔ وہ جسے چاہتا ہے معاف کر دیتا ہے اور جسے چا
وٹ کر جانا ہے۔اللہ ہی کی ہے اور اس کی بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے اور لعن الخذين كفروا من بن إسرائيل على لسان آخر اسی کی طرف ل
و کہہ د ا اہل کتاب! تم اپنے دین میں ناحق مبالغہ آمیزی سے کام (78)المائدہ وكانوا ي عتدون وا مري ذلك با عص داوود وعيسى ابن
ت
یہود کیراہ سے بھٹک گئے۔ نہ لو اور ایسی قوم کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو پہلے گمراہ ہو ےتھ ہیں اور انہوں نے اور بھی بہتوں کو گمراہ کیا اور وہ متوازن
ی نے بھی بارہا افسوس کا اظہار کیا ہے اناجیل اس قسم کے بیانات سے بھری پڑی ہے جن میں حضرت عیسی نے اس وقت ییس عت
کے یہودی حالت پرحضرت
ووں اور عالموں کو انکی بد کرداری ک وجہ سے برا بھلا کہا۔یہفقی
مشرکوں کے پیشوا تھے یہود
10
پس وہ لوگ خدائے تعالی کو جسمانی اور سم قرار ’’ نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے شرک کی ابتدا کرنے والے یہود ہی تھے ۔سید
وغیرہ صفات کے معطل جاننے میں اور ان صفتوں میں دوسری چیزوں کو شر
یت ییمجیگرداننے میں اکثر یکدینے میں اور اس کی ربوبیت اور رحمانیتاورر
نیا کی باقی د عیسائیوں کی حالت ( 11حاشیہ نمبر466صفحہ 1)براہین احمدیہ ۔ روحانی خزائن جلد ۔‘‘مشرکین کے پیشوا اور سابقین اولین میں سے ہیں
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود اقوام و مذاہب کی طرح عیسائیت جسے ابھی صرف پانچ سو سای ہی ہوئے تھے پر بھی اخلاقی انحطاط کا دور تھا ۔
ں میں اخلاقی زوای کی وجوہات کیا تھیں اور علیہ السلام نے اس بار میں بھی ثابت شدہ حقائق کی بنا پر کئی نئے پہلووں پر روشنی ڈالی ہے۔ مثلا عیسائیو
بداخلاقی کی کیا حالت تھی اور اس کے اثرات دنیا پر کیا مرتب ہوئے ۔
یہودیوں سے مذہب میں تحریف کا سبق لینا
پس وہ لوگ خدائے تعالی کو جسمانی اور سم قرار دینے میں اور اس کی ’’السلام نے یہود کے متعلق فرمایا ہےجیسا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ
وغیرہ صفات کے معطل جاننے میں اور ان صفتوں میں دوسری چیزوں کو شریک ربوبیت اور رحمانیت
یت ییمجیگرداننے میں اکثر مشرکین کے پیشوا اورر
(11حاشیہ نمبر466صفحہ 1)براہین احمدیہ ۔ روحانی خزائن جلد ۔‘‘ہیںاور سابقین اولین میں سے
جب عیسائیوں نے معلوم اور چ تو یہ ہے کہ عیسائیوں نے بھی انہیں تعلیموں سے مخلوق پرستی کا سبق سیکھا ہے کیونکہ’’اسی طرح ایک اور جگہ فرمایا کہ
اور خدا کی بیٹیاںب لکہ خدا ہی بناتی ہے۔ تو انہوں نے کہا کہ آؤ ہم بھی اپنے ا و مریم کو انہیں میں کیا کہ بائیبل کی تعلیم بہت سے لوگوں کو خدا کے بیٹے
دوسر بیٹوں سے کم نہ رہ جائے۔ اسی جہت سے خدائے تعالی نے قرآن شریف میں فرمایا ہےکہ عیسائیوں نے ا و مریم کو ا و اللہ داخل کریں تا وہ
( 11حاشیہ نمبر465صفحہ 1)براہین احمدیہ ۔ روحانی خزائن جلد ۔‘‘ بلکہ پہلے بے ان ونوں اورمشرکوں کے قدم پر قدم مارا ہےبناکر کوئی نئی بات نہیں نکالی
وہ در اصل اور جس قدر بد چلنی اور بد اعمالی عربوں میں آئی تھی ’’سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہےکفارہ کا عقیدہ بگاڑ کی اہم وجہ
جھوٹے منصوبہ کفارہ پر بھروسہ کر کے ہر کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک نہایت ناپاک اور بد چلن قوم ان میں آباد ہو گئی تھی اور ایک عربوں کی ذاتی فطرت
چلنی میں یہودی بڑھے ہوئے تھے یا عیسائی ؟بد (341۔ حاشیہ صفحہ 9۔ روحانی خزائن ۔ جلد ۱) نورالقرآن ۔‘‘ ایک گناہ کو شیر مادر کی طرح سمجھتی تھی
یووں میں مبتلا ہو ےتھ تھے ۔لیکن اگر یہ موازنہی
چلتکیا جائے کہ کون تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات تو معلوم ہوتی ہے کہ یہود اور عیسائی دونوں ہی بد
یووی
چلتں میں سب سے بڑھے ہوئے اوی نمبر پر تھا تو اس کے بار سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ عیسائی بد
۔مگر ذرہ بظاہر یہ فرق کرنا مشکل ہے کہ کیا اس زمانہ میں فسق و فجور اور ہر قسم کی بدچلنی میں یہودبڑھے ہوئے تھے یا عیسائی نمبر اوی پر تھے’’تھے فرمایا
۔ روحانی ۱) نورالقرآن ۔‘‘اور مشرکانہ عادات میں پیش دست تھے غور کرنے کے بعد معلوم ہوگا کہ درحقیقت عیسائی ہی ہر ایک بدکاری اور بد چلنی
(341۔ حاشیہ صفحہ 9خزائن ۔ جلد
11
اوی نمبر کے بدکار ہونے کا سبب
یااں بیان کی ’’سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ب
چلتہیں قرآن شریف نے جس قدر اپنے نزوی کے زمانہ میں ان عیسائیوں وغیرہ کی بد
یووں کے ی
چلتمرتکب ہو رہے جو اس وقت موجود تھے۔ ان مامم قوموں نے خود اپنے منہ سے اقرار کر لیا تھا بلکہ بار بار اقرار کرتے تھے کہ وہ ضرور ان بد
ا اپنے خاص ل و و ہیں اور عرب کی تاریخ دیکھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ بجز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلہ آباء و اجداد کے جن کو اللہ جل
ی ےہ
ت
شا
ہوکر انواع کرم سے شرک اور دوسری بلاؤں سے بچائے رکھا باقی مامم لوگ عیسائیوں کے بدنمونہ کو دیکھ کر اور ان کی چای و چلن کی بدتاثیر سے متاثر
یووں میں مبتلا ہوگئے تھے اور جس قدر بدچلنی اور بد اعمالی عربوی
چلتں میں آئی وہ درحقیقت عربوں کی ذاتی فطرت کا اقسام کے قابل شرم گناہوں اور بد
مادر کی طرح نتیجہ نہیں تھا بلکہ ایک نہایت ناپاک اور بدچلن قوم ان میں آباد ہوگئی جو ایک جھوٹے منصوبہ کفارہ پر بھروسہ کر کے ہریک گناہ کو شیر
ور کے ساتھ دنیا میں پھیلا رہی تھی اور اوی درجہ کی کذاب اور دغا باز سمجھتی تھی اور مخلوق پرستی اور شراب خواری اور ہریک قسم کی بدکاری کو بڑ ز
عیسائی نمبر اوی پر اور بد سرشت تھی۔ بظاہر یہ فرق کرنا مشکل ہے کہ کیا اس زمانہ میں فسق و فجور اور ہریک قسم کی بد چلنی میں یہودی بڑھے ہوئے تھے یا
میں پیش دست تھے۔ کیونکہ یہودی درحقیقت عیسائی ہی ہر ایک بدکاری اور بدچلنی اور مشرکانہ عادات کے بعد معلوم ہوگا کہ تھے۔ مگر ذرہ غور کرنے
سکتا ہے یا وہ لوگ متواتر ذلتوں اور کوفتوں سے کمزور ہوےتھ تھے اور وہ شرارتیں جو ایک سفلہ آدمی اپنی طاقت اور دولت اور عروج قومی کو دیکھ کر کر
یااں جو کثرت دولت اور ب
چلتروپیہ پر موقوف ہیں۔ ایسے نالائق کاموں کا یہودیوں کو کم موقعہ ملتا تھا مگر عیسائیوں کا ستارہ ترقی پر تھا اور نئی دولت اور نئی بد
ہیں۔ حکومت ہر وقت انگشت د رہی تھی کہ وہ مامم لوازمات ان میں پائے جائیں جو بدی کے مؤیدات پیدا ہونے سے قدرتی طور پر ہمیشہ پائی جاتی
ر واقع ہے پس یہی سبب ہے کہ اس زمانہ میں عیسائیوں کی بدچلنی اور ہریک قسم کی بدکاری سب سے زیادہ بڑھی ہوئی تھی اور یہ بات یہاں تک ایک مشہو
یووں کا میزان الحق ی
چلتمیں اس کو اقرار کرنا کہ پادری فنڈی باوجود اپنے سخت تعصب کے اس کو چھپا نہیں سکا اور مجبور ہوکر اس زمانہ کے عیسائیوں کی بد
یووں کا مفصل حای لکھا ہے چنانچہ ان میں سے ایک ڈیون پورٹ صاحب کی کتای
چلتب ہی پڑا۔ مگر دوسر انگریز مؤرخوں نے تو بڑی بسط سے ان کی بد
حکومت اور کفارہ کی زہر ناک ہے جو ترجمہ ہوکر اس ملک میں شائع ہوگئی ہے۔ غرض یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ اس زمانہ کے عیسائی اپنی نئی دولت اور
یووں میں سب سے زیادہ بڑھے ہوئے تھے۔ ہریک نے اپنی فطرت اور طبیعت کے موافق جدا جدا بے اعتدالی اور معصیت کی ی
چلتتحریک سے مامم بد
تھے اور ایک ھپے ہوئے دہریہ تھے راہیں اختیار کر رکھی تھیں اور ان کی دلیریوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کی سچائی سے بالکل نومید ہوےتھ
نہیں تھی۔ اور ان کی روحانیت کی اس وجہ سے بہت ہی بیخ کنی ہوئی کہ دنیا کے درواز ان پر کھولے گئے اور انجیل کی تعلیم میں شراب کی کوئی ممانعت
خود ایجاد کر میں دولت تھی ہاتھ میں حکومت تھی۔ شرابیںقمار بازی سے کوئی روک نہ تھی پس یہی مامم زہریں مل کر ان کا ستیاناس کر گئیں۔ صندوقوں
لیں۔ پھر کیا تھا۔ ام الخبائث کی تحریکوں سے سار بر کام کرنے پڑ ۔ یہ باتیں ہم نے اپنی فطرت سے نہیں کہیں۔ خود بڑ بڑ مؤرخ
س ٹیلر نے حای ہی کے زمانہ میں کس صفائی انگریزوں نے اس کی شہادتیں دی ہیں۔ اور اب بھی د رہے ہیں بزرگ پادری باس ورتھ اور
ی ستق
فاضل
12
یووں نے اس کو ہلاک کر دیا ہے ی
چلت ہیں اور کس زور سے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ عیسائی مذہب کی قدیم بد
ی
چنانچہ قوم سے انہیں باتوں پر لیکچر دیی
ئی قوم کے ساتھ تین تیں لا لازم وم وم ہو رہی ہیں جو اس کو ترقی سے کے فخر پادری باس ورتھ صاحب اپنے لیکچر میں بآواز بلند بیان کرتے ہیں کہ عیسا
میدانوں روکتی ہیں۔ وہ کیا ہیں۔ زناکاری۔ شراب خواری۔ قمار بازی۔ غرض اس زمانہ میں سب سے زیادہ یہ عیسائیوں کا ہی حق تھا کہ وہ بدکاریوں کے
یہ کہ کثر ت مای جو ( ۲یہ کہ خدا تعالی کا خوف ہو )( ۱ سے گناہ سے رک سکتا ہے )میں سب سے پہلے رہیں۔ کیونکہ دنیا میں انسان صرف تین وجہ
یہ کہ ضعیف اور عاجز ہو کر زندگی بسر کر حکومت کا زور پیدا نہ ہو۔ مگر عیسائیوں کو ان تینوں روکوں ( ۳بدمعاشیوں کا ذریعہ ہے اس کی بلا سے بچے )
گناہ پر دلیر کر دیا تھا اور دولت اور حکومت ظلم کرنے کے لئے معین ہوگئے تھے۔ پس چونکہ دنیا کی سے فراغت ہوچکی تھی اورکفارہ کے مسئلہ نے
قر و راحتیں اور نعمتیں اور دولتیں ان پر بہت وسیع ہوگئی تھیں اور ایک زبردست سلطنت کے وہ مالک بھی ہوگئے تھے اور پہلے اس سے ایک مدت تک
رہ ےتھ تھے اس لئے دولت اور حکومت کو پاکر عجیب طوفان فسق و فجور ان میں ظاہر ہوا اور جس طرح پر زور سیلاب آنے فاقہ اور تکالیف شاقہ میں مبتلا
جب کے وقت بند ٹوٹ جاتا ہے اور پھر بند ٹوٹنے سے مامم اردگرد کھیتوں اور آبادی کی شامت آجاتی ہے اسی طرح ان دنوں میں وقوع میں آیا کہ
سے اوی نمبر پر ہوگئے۔ تو جیسے ایک سباب شہوت رانی کے میسر آگئے۔ اور دولت اور قوت اور بادشات میں مامم دنیا کے طاقتوروںعیسائیوں کو مامم ا
ظالموں کی سفلہ آدمی قر و فاقہ کا مارا ہو ا دولت اور حکومت پاکر اپنے لچھن دکھلاتا ہے وہ سار لچھن ان لوگوں نے دکھلائے اوی وحشیوں اور سخت
بے رحمیاں دکھلائیں جن سے بدن کانپ اٹھتا ہے اور پھر امن اور آزادی ح وہ خونریزیاں یں اور ناحق بے موجب کئی لاکھ انسانوں کو قتل کیا اور وہطر
کاریوں پر دلیر کر دیا تھا پاکر دن رات شراب خواری، زنا کاری، قمار بازی میں شغل رکھنے لگے۔ چونکہ ان کی بدبختی سے کفارہ کی تعلیم نے پہلے ہی ان کو بد
ایک زور دار اور صرف ستر بی بی از بے چادری کا مصداق تھی۔ اب جو لچھمی بھی ان کے گھر میں آگئی تو پھر کیا تھا ہریک بدکاری پر ایسے ٹوٹ پڑ جیسے
فل اور نادان عرب بھی انہیں کے بداثر سے پیسے گئے وہ تو امی اور سیلاب اپنے چلنے کی ایک کھلی کھلی راہ پاکر زور سے چلتا ہے اور ملک پر ایسا بداثر ڈالا کہ غا
ہے کہ ناخواندہ تھے۔ جب انہوں نے اپنے اردگرد عیسائیوں کی بداعمالیوں کا طوفان پایا تو اس سے متاثر ہوگئے۔ یہ بات بڑی تحقیق سے ثابت ہوئی
انہ سے آئی تھی اطل عیسائی جو اس زمانہ میں ایک بڑا شاعر ذررا ہے۔ جس کا دیوان عربوں میں قمار بازی اور شراب خواری اور بدکاری عیسائیوں کے خز
ئع کیا ہے بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور حای میں بیروت میں ایک عیسائی گروہ نے بڑ اہتمام اور خوبصورتی سے وہ دیوان چھاپ کر جابجا شا
عیسائیوں کی اندرونی حالت کا نقشہ ظاہر کر کئی ایک شعر اس کی یادگار ہیں۔ جو اس کی اور اس وقت کے چنانچہ اس ملک میں بھی آگیا ہے اس دیوان میں
اب و رہے ہیں۔ منجملہ ان کے ایک یہ ہےبان
ش
ہ ربما ال
بھت علل
ص
یعنی جوانی مجھ سے جدا ہوگئی اور میں نے اس کے روکنے کے بالغانیات وبالشراب الا
اب اس شعر سے صاف ظاہر ہے کہ یہ مرتبہ اور بہت دفعہ یہ حیلہ کیا ہے کہ خوبصورت عورتوں اور سرخ شراب کے ساتھ اپنا شغل رکھا ہے۔ لئے کئی
یہ کہ شرم بات شخص باوجود پیرانہ سالی اور عیسائیوں کا ایک بزرگ فاضل کہلانے کے پھر بھی زنا کاری کی ایک خراب حالت میں مبتلا رہا اور زیادہ قابل
طلاع رکھنے والے بڈھا ہوکر بھی بدکاری سے باز نہ آیا اور نہ صرف اسی پر بس کرتا تھا بلکہ شراب پینے کا بھی نہایت درجہ عادی تھا۔ اطل کی لائف پر ا
13
صرف ایک ہی تھا اور اس کی اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ وہ اس زمانہ کی عیسائی قوم میں بہت ہی معزز اور علم اور فضیلت کی رو سے گویا ان میں
کا بھی منصب رکھتا تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اس خیای کو جو کفارہ کے مسئلہ سے اس کو ملا تھا شاعرانہ لباس میں ادا کرتا بلکہ وہ پادریوں
پیشرو پادری کی حیثیت سے بلا ناغہ جاتا تھا اور سب لوگ تھا۔ اور جن گرجاؤں کا اس نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔ یقین کیا جاتا ہے کہ وہ ان میں ایک
ئیوں اور پادریوں اسی کے نقش قدم پر چلتے تھے کیا اس زمانہ کے مامم عیسائیوں میں سے اس کے یگانہ روزگار ہونے میں یہ کافی دلیل نہیں کہ کروڑہا عیسا
ی ہے جو میں سے صرف وہی اس زمانہ کا ایک آدمی ہے جس کی یادگار تیرہ سو
ہلہ
ج
برس میں اس زمانہ میں پائی گئی غرض عیسائیوں میں سے صرف ایک ا
ئیوں کا یہی پرانے عیسائیوں کے چای چلن کا نمونہ بطور یادگار چھوڑ گیا۔ اور نہ صرف اپنا ہی نمونہ بلکہ اس نے گواہی د دی کہ اس وقت کے مامم عیسا
مل کے اب تک یورپ میں چلا آتا ہے عیسائی مذہب کا پایہ تخت ملک کنعان تھا اور یورپ میں اسی ملک حای تھا اور درحقیقت وہی چای چلن بطور سلسلہ تعا
ہلکاا دیوان نہایت قدر کے لائق ہے جس نے اس وقت کے عیسائی چا
ی چلن کا سے یہ مذہب پہنچا اور ساتھ ہی ان مامم خرابیوں کا تحفہ بھی ملا۔ غرض اج
نہیں د کتی کہ اس زمانہ کے عیسائیوں میں سے کوئی اور بھی ایسا ہے جس کی کوئی تالیف عیسائیوں کے ہاتھ میں ہو۔ مامم پردہ کھوی دیا اور تاریخ پتہ
ی سوانح پر نظر ڈالنے کے بعد ماننا پڑتا ہے کہ وہ انجیل سے بھی خوب واقف تھا
ہلک
ج
کیونکہ اس نے اس وقت کے مامم عیسائیوں اور پادریوں سے ہمیں ا
ہ تھ وہ لمیت اور قالیت دکھلائی کہ اس وقت کے عیسائیوں اور پادریوں میں سے کوئی بھی دکھلا نہ سکا۔ ہرححای ہمیں ماننا ہی پڑا کہ وخصوصیت کے سا
عمدہ اور اس وقت کے عیسائیوں کا ایک منتخب نمونہ ہے۔ مگر ابھی آپ سن ےتھ ہیں کہ وہ اس بات کا اپنے منہ سے اقراری ہے کہ میں خوبصورت عورتوں
ظ سے ادا کرتے شراب کے ساتھ پیرانہ سالی کے ملای کو دفع کرتا ہوں۔ اور اس وقت کے شعراء کا بھی یہی محاورہ تھا کہ وہ اپنی بدکاریوں کو انہیں الفا
ھینچ کر دکھلا دتے تھے اور وہ لوگ حای کے نادان شاعروں کی طرح صرف فرضی خیالات کی بندش نہیں کرتے تھے بلکہ اپنی زندگی کے واقعات کا نقشہ
زمانہ کے رسوم اور تھے اسی وجہ سے ان کے دیوان محققوں کی نظر میں نکمے نہیں سمجھے گئے۔ بلکہ تارخی کتب کا ان کو پورا مرتبہ دیا گیا ہے اور وہ پرانے
ہیں ان کے قصائد اور دیوانوں کو ضائع نہیں کیا تا عادات اور جذبات اور خیالات کو کامل طور پر ظاہر کرتے ہیں اسی واسطے اہل اسلام نے جو علم دوست
رت سے ان کو کہ ہر زمانہ کے لوگ بچشم خود معلوم کرسکیں کہ اسلام سے پہلے عرب کا کیا حای تھا اور پھر اسلام کے بعد قادر خدا نے کس تقویی اور طہا
(مندرجہ بالا ارشادات میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام 344تا341۔ حاشیہ صفحہ 9۔ روحانی خزائن ۔ جلد ۱) نورالقرآن ۔‘‘رنگین کر دیا
ہے کہ اسلام کے ظہور سے قبل عیسائی برائیوں میں مامم اقوام سے آگے بڑھے ہوئے تھے
ی
بلکہ مامم دنیا نے یہ تارخی حقائق کی بنا پر یہ بات بیان فرمایی
نے یہ بیان فرمائی ہے کہ چونکہ وہ عیسائیوں کی ترقی اور عروج کا زمانہ تھا اور ہر قسم میں برائیوں کی اشاعت کرنے والے بھی عیسائی ہی تھے اسکی وجہ آپ
عیسائیوں جیسا پادری کینن نے بھی لکھا ہے۔ کی برائی تک انکی رسائی ممکن تھی ۔جبکہ باقی اقوام کو لغویات میں میں مبتلا ہونے کی ایسی کھلی مہلت نہ تھی ۔
یاا کا زمانہ تیسری کے عروج بیسکلت(جغرافیائی لحاظ سے 14باب 168 ازپادری کینن صفحہ ۶۰۰ تا ۳۳ہای عیسوی سے شروع ہوتا ہے )تاریخ مسیحی
۔عرب سے شام کی تجارت ایک مشہور واقعہ ہے ۔ ان دیرینہ عربو ں کے ہمسایہ ہونے کے ناطے عیسائیوں اور عربوں کے تجارتی تعلقات قائم تھے
14
بھی ہو گئے تھے تجارتی تعلقات کا نتیجہ تھا کہ شام وغیرہ سے عیسائیوں کا کلچر بھی عرب میں سرایت کرنے لگا ۔ نیز بہت سے عیسائی عرب میں آکر آباد
مورخین بیان کرتے ہیں کہ اسلام سے چار ہایاں پہلے عرب میں عیسائی غسان ۔مثلا غسان اور نجران کے علاقے تو خاص عیسائیوں کے مرکز تھے ۔
کے راستے اثر ڈالنا شروع کر ےتھ تھے ۔
لکھتا ہے Philip K Hittiمشہور مورخ
Such an influence as the Nestorians of al-Hirah had on the Arabs of the Persian border was exerted
by the Monophysites of Ghassanland upon the people of Hijaz for four centuries prior to Islam these
Syrianized Arabs had been bringing the Arab world into touch not only with Syria but also with
Byzantium. Such personals names as Dawud (David), Sulayman ( Solomon), Isa (Jesus) were not
uncommon among the pre Islamic Arabians
(HISTORY OF THE ARABS BY PHILIP K HITTI ,PAGE 106)
عربستان کے مغربی گوشہ شام کی حضور مسیح کے آسمان پر صعود فرمانے کے تھوڑی مدت بعد ’’اسی طرح ایک عیسائی پادری سلطان محمد پای لکھتا ہے
ہب عرب میں داخل ہوا یونانی اور سریانی مورخین اور ان کے بعد مسلمان مورخین کی شہادت سے ثابت ہے کہ مسیحی مذہب اوی طرف سے مسیحی مذ
عربستان میں مسیحیت از پادری سلطان محمد پای ۔ )عربستان میں مسیحیت از پادری سلطان محمد پای ‘‘ اوی حوران کے پایہ تخت ئینی بصریی میں داخل ہوا
، انار کلی ،لاہور ،مطبع اتحاد پریس لاہور پاکستانپر
ی
ی
ی
سوسائس ب
ی ج تیلیی ب
(عیسائی مورخین کی 39۔صفحہ وفیسر کرسچن کالج لاہور، شائع کردہ پنجاب ر
ات مبعوث ہوئے اس سے عرصہ قبل ہی عرب میں عیسائیت نے اثرصلى الله عليه وسلم مذکورہ بالا تحریرات سے سے یہ تو ثابت ہوگیا کہ جس زمانہ میں آنحضور
ہی ہوگا اور اگر مرتب کرنے شروع کر دئے ہوئے تھے ۔ اب یہ دیکھتے ہیں کہ اسوقت کے عیسائیوں کی حالت کیا تھی اگر تو وہ نیک تھے تو انکا اثر بھی نیک
ا ہ تکہ عیسائی اپنے اپنے عروج کے وہ بد کرداری میں بڑھ ےتھ تھے تو انہوں نے عرب میں بھی وہ ہی اثرات مرتب کرنے تھے ۔ اورتاریخ ہمیں یہ بتا تی
عود علیہ السلام نے تھوڑا عرصہ بعد ہی کئی قسم کی برائیوں میں مبتلا ہو گئے تھے ۔ اس بات کا اقرار کئی عیسائیوں نے کیا ہے ۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح مو
ذیل میں چند حوالے پیش ہیں جن میں خود عیسائیوں نے اس حقیقت کا اعتراف کیا مائے ہیں ۔ بھی انہی عیسائیوں کے چند حوا لے نمونہ کے طور پر پیش فر
ہمارا خداوند یسوع مسیح اس لئے دنیا میں آیا کہ تاریک ممالک کو منور کر ۔ ’’ ہے۔ پادری ڈبلیو کینن پی ہیرس اپنی کتاب تواریخ مسیحی کلیسا لکھتا ہے ۔
خدا کی جلالی انجیل پور طور پر سمجھی اور مانی جو اقوام اندھیر میں پڑی ہیں ان کو نور
ی
میں لائے ۔توہمات اور بد رسومات سے چھڑائے ۔جہاں ک
یاا دنیا مزاج بیسکلتکی ہو گئی وہیں گئی وہیں لوگ ایسی بیہودگیوں سے آزاد ہو گئے۔ لیکن جہاں کہیں انسانی روایات نے انجیل کی روایات پر پردہ ڈالا اور
15
یاا مامم بد رسومات اور ہر طرح کے توہمات سے پاک تھی اس لئے توہمات بڑھتے گئے بیسکلتاور انسان اپنے ہی وہموں کے غلام و گئے پہلی ہایوں مین
یاا میں گھس گئے اور خادمان دین کا سادہ طرز رہائش جاتارہا بیسکلت اور سلطنت سےانجیل پور سادہ ان ون سے مانی گئی لین جب کہ بہت سے نالائق ا شخاص
یاا میں بیسکلت ازم تعلق پیدا ہو گیا دنیا داری اور خودی بڑھ گئی تو انجیل کی سچائی کا اثر بہت کم ہو گیا توہمات بڑھ گئے اور مختلف رسومات
ی
داخل ہوئیں ۔ موٹ
یاا کی روحانی زندگی کا معیار بھی بہت بیسکلت( کا یہ خیای تھا کہ Cyprianسیپرین )۔‘‘کم ہو گیا ہی ،نودیش ازم اور درویشی فرقے اس لئے ہیدا ہوگئے کہ
یاا کی روحانی حالت بہت بگڑ گئی تھی ۔ ایسی کہ بیان ۳۰( کی عالمگیر ایزا رسانی اس واسطے ہوئی کہ تیس Danishڈینش ) بیسکلت)تیس( سای کے آرام سے
کا کام بھی شروع کر دیا ۔ رومی دیوتاوں کی قربانیوں میں کرتے شرم آتی ہے ۔ مسیحی بتخانوں میں جاکر نمازیں کرانے لگ گئے ۔ دیوتاوں کے کئے پریسٹ
وں اور خادمان دین نے تجارت شروع کردی ان
ش
بھی شریک ہونے لگ گئے ۔ مسیحی عورتوں نے پجاریو ں سے شادیاں یں ، ناپاکی بہت بڑھ گئی ب
یاا میں بد بیسکلتایسی رسومات اور توہمات کا آغاز یوں ہوا کہ دوسری ہای میں ہوں رسومات اور توہمات گھس آئے حالات کو دیکھ کر کوئی تعجب نہیں کہ
لگی مسیحی شہدا کی عزت حد سے زیادہ ہونے لگی ۔ ایسے مقدسوں کی عزت و حرمت تو واجب ہے لیکن یہ عزت اس درجہ تک جا پہنچی کہ پرش ک ہونے
تین ہونے لگیں ، جہاں وہ شہید ہوئے وہیں گرجے و گئے رفتہ رفتہ شہدا کو وہی درجہ گویا خدا کا حق شہیدوں کو ملنے لگ گیا ، شہدا کے مزاروں پر بادد
ر ہونا ،شہدا کے ملنے لگا جو بت پرستوں میں دیوتاوں اور قوم کے بہادروں کو ملتا ہے ، ان سے دعائیں مانگنا ، خدا اکے حضور ان کی سفارشوں کے خواستگا
ٹکڑ بطور تعویز استعمای ہونے لگے ۔ گ ایسے تبرکات کی قدر ہونے لگی تو جعلی تبرکات بننے شروع ہو تبرکات جیسے ہڈی کے ٹکڑ بای کپڑوں کے
ا کی گئے ۔ درویشوں خادمان دین نے ایسی چیزوں کی تجارت شرو ع کر دی ۔ اور یہ بھی شہرت ہونے لگی کہ ان سے معجزات بھی سرزد ہوتے ہیں شہد
رت گاہیں و گئیں۔۔۔چوتھی ہای میں مقدسہ مریم کی پرش ک شروع ہو گئی ،پانچویں ہای میں یوٹیکن اور جائے ہیدائش اور رہائش وغیرہ زیا
یم اور اس کی نسٹورین مباحثوں میں یہ پرش ک اور بھی عروج پاگئی ۔پہلی تین ہایوں میں اس کا کہیں ذکر تک نہیں پایا جاتا ۔ چھٹی ہای میں مقدسہ مر
یں گرجوں میں گنی شروع ہو گئیں ۔ شرو ع میں نیت تو اھی تھی کہ ایسی صاوویر سے جاہل تعلیم حاصل کریں مگر رفتہ رفتہ ان گود میں میں بچے کی تصویر
یاا کی نماز کی کتاب مین درج کیا ۔ بیسکلتاس وقت سے اس تصویروں کے آگے سجدہ ہونے لگا۔ پہلے پہل پیٹر انطاکیہ کے پیٹر یارک نے مقدسہ مریم کا نام
ر مقدسہ ت کی قدرو منزلت یہاں تک بڑھ گئی کہ ساتویں ہای میں محمد صاحب نے سمجھا کہ ثالوث مقدس نکی پرش ک مسیحی کرتے ہیں وہ باپ یٹا اوبا
مریم ہیں ۔ کنواری مریم کی پرش ک کے ساتھ ساتھ مقدسوں اور فرشتوں کی پرش ک بھی شروع ہو گئی ۔ جن سے خدا کے حضور سفارش کی درخواست
نا اور ان کا بوسہ کی جاتی تھی کہ طرہات سے محفوظ رکھیں ۔پانچویں ہای میں ان کی صاوویر گرجاوں میں لگائی گئیں ۔انکے سامنے بتیاں جلانا ، بخور جلا
یاا کے اکثر بزرگوں نے اایسی رسومات اور توہمات کی مخالفت کی ۔ چنانچہ سیپرین بیسکلت( نے اس بات پر Cyprian)دینا ،آخر کار پرش ک ہونے لگ گئی۔
یہ کے گریگوری) زور دیا کہ شہیدان کارتھج کی عزت حد سے زیادہ نہ کرنی چاہئے ۔ بیست
بGregory of Nyssa(اورجیروم)Jerome نے تیرتھ)
)گاہوں کی بڑی مخا
نیت
ی
ب
یلت ب
( نے HELVIDIUS(نے مقدس مرحوموں کی پرش ک ناجائز قرار دی ۔ ہیلویڈیس )valentinianلفت کی ۔ و
16
ر کی مقدس مریم کی پرش ک کی سخت مخالفت کی ان کے علاوہ اوروں نے بھی ان توہمات کے بار بہت کچھ کہا سنا ۔لیکن کسی نے بھی ان کے حای پکا
چوتھی ہای خادمان بھی ہوئی کسی قدر اس کی صفائی پروا نہ کی ۔ مشرقی کلیساوں میں بت پرستی بہت بڑھ گئی چنانچہ ساتویں ہای میں محمدی حملوں سے
راہب خانوں اور درویشوں کا میلان اس طرف زیادہ ہوگیا ۔۔۔مشرق میں تو اس کی بہت دین کے تجرد کا خیای پیدا ہوا کہ ان کی شادی نہیں کرنی چاہئے
ی ہای میں پریسٹ کے سامنے گناہوں پابندی نہ ہوئی مگر مغرب میں اس کا قانون و گیا ۔ اس قاعد سے بہت سی خرابیاں پیدا ہوئیں ۔۔۔تیسر
( ایک
ن
ش
یسفت
ی
کے اقرار کی رسم جاری ہوئی ۔۔۔رفتہ رفتہ یہ اقرار) کو
ی
قانون و گیا ۔ اورخیای ہونے لگا کہ ایسے اقراروں کے بغیر گناہوں کی معافی ن
۔‘‘ہوتی ایسے اقرارات سے کئی قسم کی خرابیاں پیدیاں ہونے لگیں یسکلتیاا )تاریخ مسیحی تا 267عیسوی ۔ از پادری کینن ڈبلیو پی ہیرس صفحہ 600تا 33ب
انار کلی لاہور ۔ایڈیشن 301
ی
ی
ی
(1939۔ 2۔ کرسچین نالج سوسائ
میں گاتھ قوم حکمران تھی ۔ ان کا مذہب عیسائیت تھا اور رو؎می حکومت کا ہی ایک حصہ سمجھی جاتی تھی Spain چوتھی اور پانچویں ہای عیسویں میں
اپنی کتاب نےEdward Gibb اس قوم کے سرداروں اور پادریوں کی عیاشیوں اور بدکرداریوں اور مظالم کا ذکر متعدد کتب میں مذکور ہے ،مثلا
The Decline and Fall of RomanEmpire سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ۔میں بڑی تفصیل سے کیا ہے 18کے باب
اردو دائرہ جس شخص اطل عیسائی کا ذکر کیا ہے اس کے متعلق بڑی تفصیل سے مختلف کتب میں بیان کیا گیا ہے ۔ دلچسپی رکھنے والے اس کا مکمل تعارف
دیکھ سکتے ہیں 183تا 181صفحہ 1معارف اسلامی ۔ زیر لفظ اطل ۔ جلد
عرب کے اہل کتاب میں بعض نیک راہب بھی تھے جن میں سے کچھ الہام اور کشوف میں سے بھی حصہ پاتے تھے ۔سیدنا حضرت نیک راہب.
جیسا کہ آنحضرت ’’ ایک جگہ فرمایا۔اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تاریخ میں مذکور ان نیک راہبوں کا بھی ذکر اپنی تحریرات میں فرمایا ہے جیسا کہ
جب صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت ہزاروں راہب ملہم اور اہل کشف تھے اور نبی آخر الزمان کے قرب ظہور کی بشارت سنایا کرتے تھے لیکن
ی ٹوٹ تو خدا کے غضب کے صاعقہ نے ان کو ہلانہ کیاانہوں نے امام الزمان کو جو خاتم الانبیاء تھے قبوی نہ
ی کل
ک کر دیا اور ان کے تعلقات خداتعالی سے
یا گئے اور جو کچھ ان کے بار میں قرآن شریف میں لکھا گیا اس کے بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ وہی ہیں جن کے حق میں قرآن شریف میں فرما
ا ہیں کہ یہ لوگ خدا كانوا من ق بل يست فتحون گیا
نعی
تعالی سے نصرت دین کیلئے مدد مانگا کرتے تھے اور ان کو الہام اور کشف ہوتا اس آیت کے یہی
مخلوق پرستی کے تھا اگرچہ وہ یہودی جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السلام کی نافرمانی کی تھی خداتعالی کی نظر سے گرگئے تھے لیکن جب عیسائی مذہب بوجہ
اس وقت کے یہود اس گناہ سے بری ہوگئے کہ وہ عیسائی کیوں نہیں ہوتے تب ان میں دوبارہ نورانیت مرگیا اور اس میں حقیقت اور نورانیت نہ رہی تو
اس پیدا ہوئی اور اکثر ان میں سے صاحب الہام اور صاحب کشف پیدا ہونے لگے اور ان کے راہبوں میں اچھے اچھے حالات کے لوگ تھے اور وہ ہمیشہ
17
زمان اور امام دوران جلد پیدا ہوگا اور اسی وجہ سے بعض ربانی علماء خداتعالی سے الہام پاکر ملک عرب میں آ رہے تھے بات کا الہام پاتے تھے کہ نبی آخر
ا اس آیت کے ہیں کہ
نعی
ناءهم ي عرفونه كما ي عرفون أب اور ان کے بچہ بچہ کو خبر تھی کہ عنقریب آسمان سے ایک نیا سلسلہ قائم کیا جائے گا۔ یہی
بینی اور تعصب نے یعنی اس نبی کو وہ ایسی صفائی سے پہچانتے ہیں جیسا کہ اپنے بچوں کو۔ مگر جب کہ وہ نبی موعود اس پر خدا کا سلام ظاہر ہوگیا۔ تب خود
ا پس یہ ڈرنے کا مقام ہے اور سخت اکثر راہبوں کو ہلاک کر دیا اور ان کے دی سیہ ہوگئے۔ مگر بعض سعادتمند مسلمان ہوگئے اور ان کا اسلام اچھا ہو
دور رکھ۔ ڈرنے کا مقام ہے خداتعالی کسی مومن کی بلعم کی طرح بدعاقبت نہ کر ۔ الہی تو اس امت کو فتنوں سے بچا اور یہودیوں کی نظریں ان سے
کتب تاریخ و سیرت سے یہ بات بالبدات (قرآن کریم اور احادیث نیز476، 475صفحہ 13)ضرورت الامام ۔روحانی خزائن ،جلد ۔‘‘آمین ثم آمین
م ثابت شدہ ہے کہ اسلام کے ظہور کے زمانہ تک اہل کتاب میں بعض نیک راہب موجود تھے ان میں سے کچھ صاحب الہام بھی تھے اور کچھ نے اسلا
۔ میں اس قسم کے نیک راہبوں کا ذکر موجود 84,83،المائدہ آیت 76،آی عمران آیت 147بھی قبوی کیا۔ مثلا قرآن کریم میں سورۃ البقرہ آیت
کے بچپن کے میں شام کی طرف ایک سفر میں بحیرا نامی عیسائی راہب سے ملاقات اور اس کے کشوف کا بھی ذکر ملتا ہے صلى الله عليه وسلم ہے۔اسی طرح آنحضور
ں میں شمار ہو تاہے۔ جس کا ذکر تاریخ اسلام کی مامم (ورقہ و نوفل بھی اسی قسم کے راہبوسفرہ الی الشامزیر عنوان ۱)الطبقات الکبریی لا و سعد جلد
نے دنیا کیاس کتب میں موجود ہے۔اختتام سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کےایک نہایت پر معارف ارشاد سے کرتا ہوں جس میں آپ
کا ایسی عام گمراہی کے وقت میں مبعوث ہونا کہ جب تپس آنحضر’’ترگکی ہااقت کی ایک بین دلیل قرار دیا ہے ۔فرمایاصلى الله عليه وسلم حالت کوآنحضور
کو توید اور خود حالت موجودہ زمانہ کی ایک بزرگ معالج اور مصلح کو چاہتی تھی اور ہدایت ربانی کی کمای ضرورت تھی۔ اور پھر ظہور فرما کر ایک عالم
اور اعمای صالحہ سے منور کرنا اور شرک اور مخلوق پرستی کا جو ام الشر ور ہے قلع قمع فرمانا اس بات پر صاف دلیل ہے کہ آنحضرت خدا کے سچے رسوی
سنت سب رسولوں سے ال و تھے۔ سچا ہونا ان کا تو اس سے ثابت ہے کہ اس عام ضلالت کے زمانہ میں قانون قدرت ایک سچے ہادی کا متقاضی تھا اور
حضرت رب العالمین کا یہی ہے کہ جب دنیا میں کسی نوع کی شدت اور صعوبت اپنے اتہا کو پہنچ الہیہ ایک رہبر صادق کی مقتضی تھی۔ کیونکہ قانون قدیم
لگتا ہے تو جاتی ہے تو رحمت الہی اس کے دور کرنے کی طرف متوجہ ہوتی ہے جیسے جب امساک باران سے غایت درجہ کا قحط پڑ کر خلقت کا کام مامم ہونے
اور جب وبا سے لاکھوں آدمی مرنے لگتے ہیں تو کوئی صورت اصلاح ہوا کی نکل آتی ہے یا کوئی دوا ہی پیدا ہوجاتی ہے اور آخر خداوند کریم بارش کردیتا ہے
بھوی جاتے ہیں اور جب کسی ظالم کے پنجہ میں کوئی قوم گراب ر ہوتی ہے تو آخر کوئی عادی اور فریاد رس پیدا ہوجاتا ہے۔ پس ایسا ہی جب لوگ خدا کا راستہ
سے مشرف کرکے بنی ید اور حق پرستی کو چھوڑ دتے ہیں۔ تو خداوند تعالی اپنی طرف سے کسی بندہ کو بصیرت کامل عطا فرما کر اور اپنے کلام اور الہامتو
عالم کا ہے اور بقا اور آدم کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے کہ تا جس قدر بگاڑ ہوگیا ہے اس کی اصلاح کر اس میں اصل حقیقت یہ ہے کہ پروردگار جو قیوم
بلکہ وجود عالم کا اسی کے سہار اور آسر سے ہے کسی اپنی فیضان رسانی کی صفت کو خلقت سے دریغ نہیں کرتا اور نہ بیکار اور معطل چھوڑتا ہے
واجب ہوا کہ ہریک آت کا لبہ ہریک صفت اس کی اپنے موقعہ پر فی الفور ظہور پذیر ہوجاتی ہے۔ پس جبکہ از روئے تجویز عقلی کے اس بات پر قطع
18
خاص فرقان توڑنے کے لئے خداتعالی کی وہ صفت جو اس کے مقابلہ پر پڑی ہے ظہور کرتی ہے اور یہ بات تواریخ سے اور خود مخالفین کے اقرار سے اور
غالب ہورہی تھی کہ دنیا کی مامم قوموں نے مجید کے بیان واضح سے ثابت ہوچکی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت میں یہ آت
والے اور ایک عالم سیدھا راستہ توید اور اخلاص اور حق پرستی کا چھوڑ دیا تھا اور نیز یہ بات بھی ہر یک کو معلوم ہے کہ اس فساد موجودہ کے اصلاح کرنے
ت ہی ہیں کوئی دوسرا نہیں۔ تو ان سب مقدمات سے نتیجہ یہ لا کو ظلمات شرک اور مخلوق پرستی سے نکای کر توید پر قائم کرنے والے صرف آنحضر
تالله لقد کہ آنحضرت خدا کی طرف سے سچے ہادی ہیں چنانچہ اس دلیل کی طرف اللہ تعالی نے اپنے پاک کلام میں آپ ارشاد فرمایا ہے اور وہ یہ ہے۔هم الي وم ولهم عذاب أليم أرسلنا إلى أمم من ق بلك ف زين لهم وما أن زلنا عليك الكتاب إل لتب ين لهم الشيطان أعمالهم ف هو ولي
فأحيا به الرض ب عد موتها إن في ذلك لية لقوم السماء ماء والله أن زلمن الذي اخت لفوا فيه وهدى ورحمة لقوم ي ؤمنون
ہم کو اپنی ذات الوہیت کی قسم ہے جو مبدء فیضان ہدایت اور پرورش اور جامع مامم صفات کاملہ ہے جو ہم نے تجھ یعنی (66تا 64سورۃ النحل (يسمعون
پیغمبر بھیجے۔ پس وہ لوگ شیطان کے دھوکا دینے سے بگڑ گئے۔ سو وہی شیطان آج ان سب کا رفیق ہے۔ اور سے پہلے دنیا کے کئی فرقوں اور قوموں میں
کہ زمین ساری کی یہ کتاب اس لئے نازی کی گئی کہ تا ان لوگوں کا رفع اختلافات کیا جائے اور جو امر حق ہے وہ کھوی کر سنایا جائے اور حقیقت حای یہ ہے
آسمان سے پانی اتارا اور نئے سر اس مردہ زمین کو زندہ کیا۔ یہ ایک نشان ہااقت اس کتاب کا ہے۔ پر ان لوگوں کے ا نے ساری مر گئی تھی۔ خد
(115تا 113صفحہ 10۔براہین احمدیہ بقیہ حاشیہ نمبر 1روحانی خزائن جلد )۔‘‘ لئے جو سنتے ہیں یعنے طالب حق ہیں