Top Banner
ن و ادبردو زبایم ہند سے قبل ا تقس قلم کیِ ں عسکری اہل کے فروغ میقی مطالعہ کا تحقی خدمات) ردوُ چ ڈی ا ایلہ برائے پیمقا) گران نمتیازحمد ا ڈاکٹر م ایٹوسی ایس پروفی سر مقالہ نگار عطا رسولSU-16-02-136- 002 شعبہ اردونفارئنس اینڈ اف سآ ورسٹی اونی سرحد ی میشنجی۔پشاور ٹیکنالوNO.SUIT/BOASAR/2016/838, Dated 07-12- 2016 ر نامہ اقرا
373

تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

May 11, 2023

Download

Documents

Khang Minh
Welcome message from author
This document is posted to help you gain knowledge. Please leave a comment to let me know what you think about it! Share it to your friends and learn new things together.
Transcript
Page 1: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب

کے فروغ میں عسکری اہل قلم کی

خدمات کا تحقیقی مطالعہ (مقالہ برائے پی ایچ ڈی اردو(

نگران

ڈاکٹر محمد امتیازسرپروفی ایسوسی ایٹ

مقالہ نگار

رسولعطا SU-16-02-136-

002

شعبہ اردومیشن سرحد یونیورسٹی اف سائنس اینڈ انفار

ٹیکنالوجی۔پشاورNO.SUIT/BOASAR/2016/838, Dated 07-12-

2016

اقرار نامہ

Page 2: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

2

اس بات SU-16-02-136-002میں عطا رسول )شاکر کنڈان( رجسٹریشن نمبر

’’ کیا جانے واال مواد بعنوان کا اقرار کر تا ہوں کہ زیر نظر مقالہ میں پیش

تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہل قلم کی خدمات

میری ذاتی کاوش ہے او ریہ کام پاکستان یا پاکستان سے ‘‘ کا تحقیقی مطالعہ

باہر کسی بھی تحقیقی یا تعلیمی ادارے کی طرف سے ماقبل ازیں شائع یا پیش

نہیں کیا گیا۔

تاریخ مقالہ نگار

ء2018دسمبر 4 عطا رسول )شاکر کنڈان(

Page 3: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

3

پشاور ، ٹیکنالوجی انفارمیشن اینڈ سائنس آف یونیورسٹی سرحد اردو شعبۂ

DEPARTMENT OF URDU

SARHAD UNIVERSITY OF SCIENCE &

INFORMATION TECHNOLOGY, PESHAWAR

Ph No. 091-5230931

No.SUIT/Urdu/ Dated: 14/12/2018

تصدیق نامہ

-SU-16-02-136تصدیق کی جاتی ہے کے عطا رسول رجسٹریشن نمبر:

اپنا تحقیقی مقالہ بعنوان:002

و ادب کے فروغ میں عسکری اہل قلم کی خدمات "تقسیم ہند سے قبل اردو زبان

کا تحقیقی مطالعہ''

برائے پی ایچ ڈی )اردو( میری نگرانی میں مکمل کر لیا ہے۔ یہ مقالہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے مقرر کردہ قواعدو ضوابط کے مطابق تحریر کیا

ے کے لیے گیا ہے۔ میں اس کے معیار سے مطمئن ہوں اور اس کو اگلے مرحل

پیش کرنے کی سفارش کرتا ہوں۔

ڈاکٹر محمد امتیاز

)شعبۂ اردو( سرحد یونیورسٹی آف سائنس اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی، پشاور

Page 4: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

4

حیم بسم ہللا الر حمن الر

فہرست

صفحہ نمبر عنوانات

13تا 6 پیش لفظ

اردو زبان کے آغاز کا تعین اور ارتقاء :باب اول

24تا 14

یورپی تسلط سے قبل کے عسکری اہل قلم :باب دوم

184تا 25

Page 5: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

5

بیرونی اقوام کے عسکری اہل قلم :باب سوم

241تا185

برطانوی عہد میں برصغیر کے مقامی عسکری اہل قلم :باب چہارم

343تا242

و امکانات محاکات :باب پنجم

357تا 344

کتابیات

395تا 358

پیش لفظ

!الحمد ہلل

مقالہ تکمیل پذیر ہوا ۔منزل کچھ ہی فاصلے پر دکھائی دے رہی ہے ۔ جب آدمی کو منزل نظر آنے لگے تو راستے کی تمام مشکالت بھول کر خوشیوں کے

سجدہ ریز ہوکر شکر گزار احساس سے مہک اٹھتا ہے اور ہللا تعالی کے حضور

ہوتا ہے ۔ آج میں اسی کیفیت سے دو چار ہوں کہ ایک ایسا کام اس ذات با برکات نے مجھ سے کروایا کہ جس کے بار ے میں سوچا کرتا تھا لیکن ہر کام کے لیے

ایک وقت متعین ہے اور اس کام کے لیے شاید یہی وقت مقرر کیا گیا تھا ۔

کی خد مت کے حوالے سے بہت کم بلکہ نہ ہونے کے اردو زبان و ادب میں فوجبرابر کام ہوا ہے ۔مملکت عزیز اسالمی جمہوریہ پاکستان کی گولڈن جوبلی کے

اردو ادب اور ’’موقع پر راقم الحروف نے پہلی بار اس موضوع پر قلم اٹھایا اور

ء کو دو ۱۹۹۷؍اگست ۱۴کے عنوان سے کام شروع کیا جو ‘‘عساکر پاکستان کے ‘‘ اردو نعت اور عساکر پاکستان’’دوں میں شائع ہوا۔ اس کے ساتھ ہی جل

عنوان سے ایک مجموعہ بھی اسی موقع پر راقم الحروف کا ترتیب دیا ہوا منظر

اردو ادب اور عساکر پاکستان ’’ عام پر آیا۔ راقم کی اسی سلسلے کی ایک اور جلد

Page 6: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

6

مصروفیات کے باعث یہ کام ء میں شائع ہوئی لیکن دیگر۲۰۰۰کے نام سے ہی ‘‘

تعطل کا شکار ہو گیا۔ جب پی ایچ ڈی کے لیے سرحد یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو اپنے رہنما ڈاکٹر محمد امتیا زسے مشورے کے بعد تقسیم ہند سے پہلے کے

عسکری اہل قلم کی خدمات پر کام کرنے کا بیڑا اٹھایا۔

ہوتا۔ اس میں کمی بیشی اور اصالح تحقیق میں کوئی کام مکمل یا حرف آخر نہیں لیکن جب آغا ز ہو یںشروعات مشکل ہوتی ہکا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ کام کی

رہتا ہے۔ تبدیلیاں بھی ہوتی ہیں جائے تو آنے والے لمحوں میں بھی ان پر کام ہوتا

پہلے والے کام پر تنقید بھی ہوتی ہے اورتحقیق کے نئے زاویے بھی سامنے ، تقسیم ہند سے قبل اردو زبا ن و ادب کے فروغ میں ’’مجھے امید ہے کہ آتے ہیں۔

کے عنوان سے جس کام کی ابتدا ‘‘ عسکری اہل قلم کی خدمات کا تحقیقی مطالعہ

راقم نے کی ہے اس پر تحقیق کا سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ اس سلسلے میں نات کی صورت میں کچھ ناقص سے نکات مقالہ کے آخر ی باب محاکات و امکا

بھی پیش کیے گئے ہیں۔ جو شاید کسی مقام پر معاون ثابت ہوں۔ یہ بات بھی اس

کی ‘‘اردو ادب اور عساکر پاکستان ’’ لیے ایک دعوے کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہاشاعت سے پہلے عسکری اہل قلم پر صرف دو چار شخصیات کے عالوہ کوئی

ے عالوہ کچھ بھی نہیں لکھا گیا ۔راقم کی کام نہیں ہوا تھا۔ یا ایک آدھ مضمون ک

ارباب ’’اس کتاب کے بعد بریگیڈئیر ریٹائرڈ عنایت الرحمن صدیقی کی کتاب منظر عام پر آگئی لیکن اس میں بہت ایسی شخصیات کو شامل کیا ‘‘ سیف و قلم

گیا جن کا عمال عسکری کردار نہیں تھا۔ پھر اسلم کھوکھر نے ایم فل کا مقالہ لکھا

جو ناپختہ بھی ہے اور ناموزوں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ مقالہ نگار نے اسے چھپوانے کے بجائے چھپا دیا۔ اس مقالے کی تکمیل میں راقم کی کتب اور

عساکر پاکستان اور اردو شاعری ’’مشوروں کا بہت عمل دخل ہے ۔بعد ازاں ام میری کتاب کے نام سے محمد رفیق بلوچ کا تحقیقی کام جو سامنے آیا ۔یہ ک‘‘

جلد اول حصہ اول کا پچھتر فیصد سے زائد ‘‘ اردو ادب اور عساکر پاکستان ’’

چربہ ہے۔ صرف موضوعات کے عنوان دے دئیے گئے ہیں اور بار بار انھیں چیزوں کو دہرایا گیا ہے۔ حوالے بہت کم اور غلط دئیے گئے ہیں۔ موصوف نے یہ

ادانستہ میں نے اپنی کتاب میں کی تھیں ان نہیں کیا کہ جو غلطیاں دانستہ یا بھی ن

کی ہی درستی کر لیتا بلکہ انھیں بھی ویسے کا ویسا ہی رہنے دیا۔ مثال میں نے رحمن کیانی کا رینک ونگ کمانڈر لکھا تھا اور یہ رینک ہفت روزہ ہالل سے نقل

کیا تھا۔ بعد میں درست رینک کا علم ہونے پر دوسری جلد میں اصلی رینک

ت کے ساتھ درست کر دیا تھا لیکن محمد رفیق بلوچ نے اسے ونگ کمانڈر معذرعساکر پاکستان کی ادبی ’’ہی لکھا۔ ڈاکٹر طاہرہ سرور کا پی ایچ ڈی کا مقالہ

اس سلسلے میں ایک اچھی کاوش ہے یہ الگ بات کہ موصوفہ کا فوج ‘‘ خدمات

ا پر کچھ خامیاں رہ سے عمال تعلق نہ ہونے اور مبادیات سے ال علم ہونے کی بنگئیں۔ بہر حال تحقیق میں انھوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ لیفٹننٹ کرنل خالد

Page 7: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

7

ایک الگ سا اور اچھا کام ‘‘وفیات اہل قلم عساکر پاکستان ’’مصطفی کی کتاب

: ہے ۔ اس میں انھوں نے فراخدلی سے یہ اعتراف کیا ہےکٹرمحمد منیر سلیچ کا کام پاکستان میں وفیات نگاری کے حوالے سے ڈا’’

اور نام بہت مستند ہے میں نے اکثر تواریخ وفیات ان کی کتب سے لی ہیں۔ کیپٹن

شاکر کنڈان نے اردو ادب اور عساکر پاکستان کے نا م سے عساکر پاکستان کے اہل قلم کے کوائف کئی جلدوں میں جمع کر کے شائع کیے۔ میں نے ان کی کتب

‘‘ ۔سے بھی استفادہ کیا ہے

محوال باال سارا تحقیقی کام قیام پاکستان سے بعد کے عسکری اہل قلم کے حوالے سے تھا جس کے بعد یونیورسٹیوں نے بھی اس جانب اپنی سوچ کو موڑا اور اب

میرے علم کے مطابق تقریبا چار مقالے مختلف یونیورسٹیوں میں جزو ا جزوا اس

ہند سے پہلے کے عسکری اہل قلم بد حوالے سے لکھے جا رہے ہیں لیکن تقسیم ستور نظر انداز ہیں۔

میں نے جب تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہل قلم

کی خدمات پر کام کرنے کا ارادہ کیا تو بہت سی مشکالت سے واسطہ پڑا لیکن میل ہللا رب میرا ایمان ہے کہ کام کی ابتدا انسان کرتا ہے اور اس کی نیت ہو تو تک

العزت کرتا ہے۔ نیز عسکری زندگی نے مجھے کم از کم اتنا ضرور سکھایا ہے

کہ دنیا میں کوئی کام نا ممکن نہیں ہے۔میرے مقالے میں وہ لوگ جن کی خدمات اردو زبان و ادب میں تھیں بشرطیکہ انھوں نے فوج کی وردی پہنی ہو یا میدان

گروہ کے تحت نہ کہ باغیانہ روش میں شامل جنگ میں ہتھیار اٹھایا ہو کسی منظم

تھے۔اس کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ کتب کی دستیاب کا تھا کہ کہاں سے

ملیں۔صحائف اور مذہبی کتب راقم نے پڑھ بھی رکھی تھیں اور پاس موجود بھی تھیں۔ نیز بہت سی معاون کتب بھی میری ذاتی الئبریری میں موجود ہیں لیکن

ہلے کی دیگر کتب یا تو بھارت میں کہیں محفوظ ہیں یا انڈین آفس تقسیم ہند سے پ

الئبریری برطانیہ میں مخطوطات اور مطبوعات کی صورت میں موجود ہیں۔ مزید یہ کہ برصغیر سے باہر کے عسکری اہل قلم کی تحریروں کی دستیابی کا

لم سے مسئلہ تھا۔ اس سلسلے میں جب دنیا کے مختلف خطوں میں موجود اہل ق

ی ی صورت میررابطہ کیا تو یہ جان کر بہت خوش ہوئی کہ وہ کسی نہ کسنگارش کے حوالے سے مجھے جانتے ہیں جس بنا پر خاطر خواہ پذیرائی کے

بعد سترھویں صدی سے حال تک شائع ہونے والی بہت سی کتب فوٹو اسٹیٹ کی

ان تمام صورت میں یا ای میل کے ذریعے احباب نے عنایت کیں ۔ جس لیے احباب کا نہایت شکر گزار ہوں۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس کا م کی کیا ضرورت ہے۔جواب

دینے واال تو یہ جواب بھی دے سکتا ہے کہ باقی جو تحقیقی کام کیے جا رہے ہیں ان کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن اس سے بات نہیں بنتی اور نہ ہی معقولیت کا

ہے تحقیق ماضی حال او رمستقبل سے آگاہی دیتی ہیں ماضی احساس اجاگر ہوتا

Page 8: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

8

مختلف صورتوں میں ہمارے سامنے بکھرا پڑا ہے۔ حال میں سے ہم گزر رہے

ہوتے ہیں مستقبل کو ہم دیکھنا چاہتے ہیں سو گزرے وقت کی تحقیق سے جہاں ہم تاریخ اور ماضی سے آگاہ ہوتے ہیں وہیں اس سے معاونت کے بعد مستقبل کو

بہتر کر سکتے ہیں۔ ادب مسرت کا باعث ہوتا ہے اور زندگی کو اس کی رعنائیوں

سے آگاہ کرتا ہے۔ اگر ایسی بات نہ ہوتی تو ڈراون جیسا شخص اپنی بے ذوق زندگی کا اعتراف کرتے ہوئے دوبارہ زندگی ملنے پر ادب کو وقت دینے کی بات

برتا ہے چونکہ زیادہ تر نہ کرتا۔مقالے میں شک سے فائدہ اٹھانے سے اجتناب

مواد تذکروں سے حاصل کیا ہے او ر تذکروں میں بہت سے شکیہ فقرات بھی شامل ہوتے ہیں۔ لہذا کوشش کی گئی ہے کہ ان شکوک سے بچ کے چال جائے۔

ہماری بد قسمتی کہ عسکری اہل قلم پر کوئی ایسا کام نہیں ہوا جو مددگار

نے کسی عسکری اہل قلم کا عہدہ رتبہ لکھنے ثابت ہوتا ۔تذکرہ نگاروں یا مورخینکی زحمت نہیں کی۔ بہت سی شخصیات کو یوں متعارف کرایا گیا سپاہی پیشہ تھا۔

جو ان محمد شاہی بود، پیشہ سپہ گری تھا، فوج میں شامل تھا، دستے کا کماندار

تھا امیر تھا منصب دار تھا وغیرہ وغیرہ دستے کی تعداد کیا تھی، دس سے پنجہزاری تک کے عہدے دار کسی دو ر میں امیر اور کسی دور میں منصب دار

کہالتے تھے لہذاکتنی سپاہ کا امیر یا منصب دار تھا اس صورت میں اندازہ لگایا

جا تا ہے ۔ایسے حاالت میں بہت احتیاط کی اور تحقیق کے اصولوں پر توجہ کی سپاہی پیشہ بود سے فوج کا سکا اسے رد کرنا پڑا۔ہو گئی اور جہاں شک دور نہ

سپاہی بھی ہو سکتا تھا اور پولیس کا سپاہی بھی۔ میرے مقالے کی ضرورت فوج

کا سپاہی ہے پولیس کا نہیں ۔داروغہ فوج میں بھی ہوتے تھے اور پولیس میں بھی۔ میر ساماں فوج کا بھی عہد ہ تھا اور دیگراداروں میں بھی۔ متصدی پیشہ

یانہ ،ماہر تیر انداز، مصاحب، راجہ ،مہاراجہ امیر وغیرہ ،منشی ،میر منشی ،سپاہکے لیے بہت زیادہ احتیاط کرنا پڑی اور گوڑھی تحقیق سے کام لینا پڑا۔ سو جہاں

شک دور نہ ہوا وہاں سے پہلو تہی پر اکتفا کیا۔ اسی طرح شہزادوں کے لیے

کسی مختلف عہدے یعنی پنج ہزاری اور سات ہزاری مختص تھے لیکن جب تک شہزادے کے بارے میں اس کی عسکری زندگی سے متعلق تحقیق نہیں کر لی۔

انھیں شامل مقالہ نہیں کیا۔ یوں بہت سے شہزادے شامل ہونے سے رہ گئے ایسے

اہل قلم جو بادشاہ یا ساالر کے ساتھ مصاحب یا درباری ہونے کی حیثیت سے میر کی طرح ان کا میدان جنگ میں تو گئے لیکن فردوسی کی طرح یا میر تقی

کردار رہا وہ بھی خارج از بحث ہیں۔

عہدوں میں ایک مسئلہ یہ رہا کہ بہت سے لوگ فوجی ہونے یا اپنا عہدہ بتانے سے کتراتے تھے۔ تذکرہ نگاروں نے جب تحقیق کی تو لوگوں نے اپنا

عسکری بتانا یا تو توہین سمجھا، اہمیت نہیں دی یا کسی مصلحت کا شکار رہے

احساس کمتری نے ایسا کرنا گوار نہ کیا جس سے حقائق کو اجاگر کرنے اورمیں دقت پیش آئی اور ناکامی بھی رہی ۔لہذا راقم نے بعض مقامات پر یا تو رینک

Page 9: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

9

لکھا نہیں یا لکھا بھی تو ذہن میں یہ سوچ رہی کہ سپاہی سے جرنیل تک ہر

کر دیا۔ شخص بنیادی طورپر تو سپاہی ہوتا ہے لہذا سپاہی نقلجب کوئی کام کیا جاتا ہے تو اس پر بہت سے اعتراض بھی اٹھتے ہیں۔

اس مقالہ پر بھی بے شمار اعتراضا ت اور سوال اٹھائے جا سکتے ہیں جن میں

سے چند ایک کا جواب اعتراضات اٹھانے سے پہلے ہی دے دینا ضرور ی سمجھتا ہے۔

؟۔ مقالہ میں تنقیدی عنصر بہت کم ہے۱

عنوان پر غور کیا جائے تو میرے مقالہ کا عنوان تقسیم ہند سے قبل اگر اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہل قلم کی خدمات کا تحقیقی مطالعہ ہے

سو میں نے زیادہ توجہ تحقیق پر دی۔

ماضی کی تحقیق میں چونکہ کتب کے حوالے دینا الزمی ہیں اور پھر ور کتابیات پر ہی زیادہ بحث ہے حوالوں مذکورہ موضوع جس میں شخصیات ا

الے تحقیق میں حقائق کے بیان کے لیے حو میت مزید بڑھ جاتی ہے۔اس لیےکی اہ

سچ بات بھی جھوٹ یا مفروضے کے زمرے میں بہت ضروری ہوتے ہیں وگرنہ آجاتی ہے۔ لہذا امید ہے کہ اہمیت اور ضرورت کے منظر نامے کو سامنے رکھ

لیا جائے گا اور حوالوں کے زیادہ ہونے پر تنقید کی وہ چھری کر مقالے کا جائزہ

نہیں رکھی جائے گی جوتنقیدی موضوعات کے لیے ہوتی ہے۔ ؟رادب پر الگ الگ بحث نہیں کی گئی۔ اردو زبان و ادب یا اردو زبان او ۲

کیا زبان اور ادب کو ہم الگ کر سکتے ہیں؟پنجابی کے مطابق ناخن سے

کسی دانشور نے درست ادب کی حد مقر کی ہے کیاہیں۔ ماس جدا کر سکتے ؟ڈاکٹر سلیم اختر نے اردو زبان کی مختصر ترین تاریخ اور اردو ادب کی

مختصر ترین تاریخ دو کتابیں لکھ کر اپنی دانست میں اردو ادب اور اردو زبان کو الگ الگ بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن مطالعہ سے قاری اس فرق کو

نہیں کر سکتا۔ کیونکہ ایک ہی تسلسل کی تکرار نے فرق رہنے ہی نہیں محسوس

دیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ اردو زبان کی مختصر ترین تاریخ کو انھوں نے پھر ی اپنے پیشروؤں کو پیش نظر سے شائع کروانا اپنی توہین سمجھا۔ پس میں نے بھ

کوئی فیصلہ کر ایساتکرار اور چربہ کی کوشش نہیں کی۔ اگر میں رکھتے ہوئے

ایک پنڈ و رہ بکس تو کھلتا ہی مقالہ میرے ہاتھ سے نکل جاتا کالیتا تو سواالت لہذا بہتر سمجھا کہ زبان و ادب کو الگ نہ کیا جائے۔

۔ عسکری اہل قلم میں ایسے افراد شامل کرنا کہاں کی دانشمندی ہے ۳

؟کی مالزمت کے بعد اسے ترک کر دیاجنھوں نے دو چار سال میرا مقصد ایسے اہل قلم کی تالش تھا جنھوں نے اپنے اپنے عہدکے رواج

کای کئی یا ضرور یات کے مطابق تلوار اٹھائی یا وردی پہنی ۔ تذکروں میں ہم

ایک سال گزارتا ہے تو کسی شہر میں شخص کوئی کہ ے ہیں مقامات پر پڑھت وہاں کے تذکرہ نگار اسے اپنا حصہ سمجھ لیتے ہیں۔

Page 10: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

10

ی موضوع ہے جس کے اردگرد پورا مرکزعسکری اہل قلم کی خدمات

مقالہ گردش کرتا ہے گویا یہ تکون کا وہ کونہ ہے جس کے ساتھ باقی خط آکر دمت کی ہو ملتے ہیں۔ اس سے مراد ہر وہ فوجی جس نے اردو زبان و ادب کی خ

فوج سے ہی عرصے کے لیے قلم اور اہو تو خواہ کتنے لیاور اپنے قلم سے کام

وابستہ رہا ہو۔ختصر ہی ۔ کہا جا سکتا ہے کہ اردو زبان کی ابتدا کے نظریات کو م۴

؟سہی شامل کرنا چاہیے تھا

دو یا ظ ار اوروید کے مرکب لفاردو زبان کی ا بتدا کے حوالے سے رگ سے لے کر اطالوی لفظ ہورڈ تک نیز زمانی حوالے سے آسٹر urth یاurd لفظ

سے لے کر ماگدھی اور بھوجپوری تک کتنے ہی نظریات اس زبان وال ئیڈ اقوام

نظریے کو ے میدان تحقیق میں ہیں۔لہذا کسکی ہیئت کو بنانے اور بگاڑنے کے لیسو میں نے اپنی الگ راہ بنائی اور ، صحیح مانتے ہوئے کام کو آگے بڑھاتا

حامل ہے۔ اس الگ مقالے کا موضوع استدالل سے سفر کا آغاز کیا۔ ویسے بھی یہ

موضوع پر کوشش بسیار کے باوجود پروفیسر ایوب صابر بھی مکمل روشنی ڈالنے اور مکمل وضاحت میں ناکام رہے ہیں انھوں نے بھی اردو کی ابتدا کے

بارے میں محققین کے نظریا ت پر ہی بحث کی ہے۔

بہر حال ا س طرح کے کئی اعتراض اور سوال اس ضمن میں کیے جا اس میں ایک تو میرے سامنے ادبی تاریخ نویسی کا تاریخی سکتے ہیں۔

تسلسل ہے جس پر صد فیصد تو عمل پیرا نہیں ہو سکا اس کی وجہ سے

شخصیات کی تاریخ پیدائش ،پیشروؤں کا انداز تحقیق ہے میں نے تاریخ اور تاریخ وفات کو کھنگالنے اور صحیح ڈھونڈنکالنے میں بڑی حد تک

عد کے باعث درست فیصلہ میں اسقام رہ گئے ۔ ب کوشش کی لیکن زمانیوفیات نگاری نے آج کے زمانے میں جس طرح فن کی صورت اختیار کر

لی ہے اس طرح کوئی سلسلہ عہد قدیم میں نہیں تھا بہت سے ابہام ایسے

بھی میر ی نظروں سے گزرے کہ بہت کچھ منفی سوچنے پر مجبور ہو ا ہوا۔ تعلیم حاصل کی اور دوسری ء میں پید۱۹۳۲گیا جیسے ایک آدمی

جنگ عظیم میں حصہ لیا۔ مختلف ممالک کی سیر کی اور سات سال کی

مدت کے بعد فوج سے ریٹائر منٹ لے لی ۔ ایک کم فہم آدمی بھی یہ اندازہ ء میں جنگ ہوتی ۱۹۳۹ء سے سات سال کے بعد ۱۹۳۲لگا سکتا ہے کہ

سال کی عمر درکار ہے۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کرنے کے لیے سولہ

ء میں پیدا ہوا۔ اور ۱۸۵۰ہے۔ تو یہ سب کیسے ہو گیا؟ یا فالں شخص ء کی جنگ آزادی میں صرف سات سال کا وقفہ اور لڑتے ہوئے ۱۸۵۷

ء میں ۱۹۳۶ء میں پیدا ہوتا ہے۔ ۱۹۲۶شہادت پانا۔ اسی طرح ایک شخص

اور ء میں چکوال میں پیدا ہوا ۱۸۸۷میٹرک کر لیتا ہے یا ایک شخض ء میں ہانگ کانگ میں جا کر فوج میں بھرتی ہو گیا اب ایسی تحقیق ۱۹۴۰

پر کون ہے جو اعتبار کر ے گا۔ لیکن ایسے بہت سے فضول تحقیقی پہلو

Page 11: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

11

عسکریبہت سی دوران مطالعہ میرے سامنے آئے۔ دوسرا یہ کہ

ایک شخص آجمزید یہ کہ نہیں مال۔ کا کہیں بھی رینک لکھا ہوا شخصیاتشاہ سالمت کی مہربانی سے سہ ہزاری ہے تو کل اس کے غضب کا باد

ت میں سینارٹی کی ترتیب شکار ہو کر عام سوار ہے،لہذا ایسے حاال

۔ تھیناممکن ابجد کا طریق کار انسائیکلو پیڈیا یا تذکرے کے لیے تو قابل قبول ہے

یب یا مقالے کو اس طرز پر نہیں لکھا جاتا۔ اصناف کی ترتیب میں ایک اد

کا کارقلمیک اف ادب میں طبع آزمائی کرتا ہے یوں اشاعر کئی کئی اصنہے۔ مثال حاجی لق لق نے افسانہ لکھا تاذکر کئی اصناف کے ذیل میں آ

مزاح وغیرہ تو اتنی باراس کا ،کالم لکھا ،شعر کہا ،شعر میں غزل ،نظم ،

تکرار ذکر ایک قاری کس طرح قبول کر سکتا ہے۔ مقالہ نگار نے تو پیٹ بھر لیا۔ یہی سوچ کر میں نے اصناف میں ابواب اپنے مقالہ کا سے

بندی کو غیر ضروری سمجھا ۔ نظم اور نثر میں بھی تکرار کی شکایت

آتے ہیں۔ دوسرا جن تھی اور رجحانات یا موضوعات بھی اس زمرے میں ادوار کی بات مقالہ میں کی گئی ہے تب تک یہ بحثیں ادب کا حصہ بھی

نہیں تھیں۔ سوہر اہل قلم کو میں نے ایک ہی بار تاریخ کے دھارے میں

شامل کرتے ہوئے تسلسل کے حوالے سے تحریر کر دیا ہے۔کے بارے میں مقالہ کی طوالت نے شخصیات کے مختصر تعارف دئیے جا

ے بچنے کو میں ڈھال بناؤں گا کیونکہ اہل قلم کے کام کے مد نظر مختصر س

نویسی کو اپنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں ابتدائی حاالت ،فوج اور ادب سے تعلق اور مطبوعات کا ذکر اہمیت رکھتے ہیں۔ اس ضمن میں مستقبل کے

کہ باب تراض یں۔ ایک اعمحققین سے بہت سی امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہکے بعد شائع ہوئیں۔لیکن تقسیم ہند چہارم میں کئی شخصیات کی کتابیں یا تحریریں

ان اہل قلم نے فوج کی مالزمت قیام پاکستان و بھارت سے پہلے کی ۔مزید یہ کہ

فوج میں شامل ہوتے وقت یا مالزمت کے دوران وہ کسی نہ کسی طرح اد ب سے والے اعتراض کا جواب بھی دے دوں کہ تقسیم منسلک رہے یہاں ایک اور ہونے

ہند کے بعد فوج میں رہ جانے والے کسی اہل قلم کو شامل نہیں کیا گیا۔ نا دانستہ

،عدم واقفیت ،یا ال علمی کی بنا پر اگر کوئی شامل ہو گیا ہو تو بہر حال یہ تحقیقی خامی ہے جسے میں تسلیم کرتا ہوں۔

یہ اعتراف بھی ضروری سمجھتا ہوں عتراضات کے جوابات کے ساتھا

۔کہ کچھ شخصیات ایسی شامل مقالہ کی گئی ہیں جن کا تعلق اپنے دور کے یونیفارم اہل قلم میں نہیں ہوتا۔ جیسے سید اسماعیل شہید یا موالنا عنایت علی جو

سکھوں کے خالف عمال جہاد میں شامل رہے اور شہید ہوئے۔ بہر حال اسے آپ

تحقیق کے اصولوں کے منافی ہے۔ ں جوبھی معمول کر سکتے ہی ت پرمیری عقید اقتباسات خاص طورپر اشعار زیادہ دیے گئے ہیں یہ کم ہونے چاہئیں تھے۔

اس کا جواب اتنا ہے کہ بہت سے محققین نے بغیر تحقیق کے کسی شاعر کے

Page 12: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

12

اشعار اس کے ہم نام شاعر کے کھاتے میں ڈال دیے۔ ایک یادو شعروں سے شاعر

مزاج کا بھی پتہ نہیں چلتا ۔ اس لیے اشعار کی تعداد کچھ زیادہ ہے تاکہ کےتحقیق کی شفافیت کی پڑتال کی جا سکے اور اہل قلم کے اسلوب یا طرز نگارش

اندازہ لگایا جا سکے۔ کا بھی ضمنا

اس میں بھی حوالے بہت زیادہ دیے گئے ہیں یہ بھی نکتہ اعتراض ہو سکتا ہے۔لو سامنے رکھا گیا ہے تاکہ دروغ برگردن راوی کے مستزاد خود کو شفاقیت کا پہ

بہتر محقق ثابت کیا جائے۔مقالہ میں نثر کے نمونے کم اور شاعری کے زیادہ

ہونے پر بھی اعتراض کیا جا سکتا ہے ۔مقالے کی تکمیل میں تذکرے اور تاریخ کی کتب چونکہ معاونت میں رہیں

نثرنگاروں کے کم اور شعراء کے زیادہ لکھے گئے اور تذکرے ہماری تاریخ میں

دوسری وجہ یہ کہ ناثر عام طورپر ناظم سے کم تعداد میں ہوتے ہیں۔ گویا نثر نگاروں کی کمی کے یہی اسباب ہیں۔ایک اعتراض ان وضاحتوں کے حوالے سے

بھی ہو سکتا ہے جو پیش لفظ میں کی جارہی ہیں اور وہ یہ کہ ان وضاحتوں کا

گ باب بنایا جا سکتا تھا۔ایک التنا کہنا کافی ہو گا کہ یہ وہ وضاحتیں ہیں جن کا تعلق مقالہ کے متن اتو

سے نہیں اگر الگ باب بنایا جاتا تو مقالہ کی اصلیت پر بھی حرف آتا اور عنوان

کے حوالے سے ماہیت بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔ ایک سکالر کی حیثیت سے ان کے تراضات کے ساتھ ساتھ کچھ اعتراض میرے ذاتی بھی ہیں۔ اٹھائے جانے والے اع

لیکن انھیں میں کسی او روقت کے لیے محفوظ رکھتا ہوں۔

تحقیق حقائق او ر سچائی کی تالش اور درستی کا نام ہے سواس لحاظ سے میرا مقالہ اگرچہ نا مکمل ہے اور اس کا مجھے اعتراف بھی ہے لیکن جو کچھ

ے بھرپور کوشش کی ہے کیونکہ یہ مقالہ میں نے بھی ہے اس کے لیے میں نڈگری کے حصول کی غرض سے نہیں بلکہ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے لکھا

ہے یہ الگ بات ہے کہ میں مقالہ کی پابندیوں کے حصار سے باہرنہیں نکل سکتا

تھا۔ اس میں خامیوں کا ہونا بعید نہیں جب کام ہو گا توا س میں خامیاں بھی ہوں۔ نہ ہونے کی صورت میں البتہ خامیاں نہیں ہوتیں۔ کچھ غلطیاں کمپوزنگ میں بھی رہ

گئی ہیں جن سے بچنا محال ہوتا ہے۔ البتہ مجھے اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ

کمپوزر فہد ابرا ر نے نہایت دل جمعی اور محنت سے کام کیا ہے جس کے لیے کہیں کہیں دھوکا کھا گئی میں ان کا ممنون ہوں ۔ میری دانست تحقیق کے مراحل

سو وہاں بھی غلطی کا امکان موجود ہے یورپین مصنفین کی تحریروں میں بھی

غلطی کی توقع ہے کیونکہ کچھ تحریریں مجھے اردو زبان میں ملیں اور ذہن اس بات پر بضد ہے کہ وہ تحریر یں ترجمہ ہیں۔ اگرچہ اکثر یوریپن مصنفین کی

یکن چند ایک حوالے اردو کی دیگر مصنفین کی کتب کتابیں میں نے دیکھی ہیں ل

سے اخذ کیے۔آخر میں حسب روایت لیکن دل کی گہرائیوں سے میں اپنے اساتذہ ڈاکٹر

محمد احسان الحق ،ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان اور ڈاکٹر محمد امتیاز کا بہت ممنون

Page 13: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

13

زاشت نہیں ہوں کہ انھوں نے مجھے سہولیات بہم پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگ

کیا۔ جب کہ میرے نگران ڈاکٹر محمد امتیاز نے ہرقدم پر میری معاونت اور ہنمائی فرمائی۔

میں اپنی شریک حیات آفتاب، اپنی بیٹی شائستہ عطا ،اپنے بیٹوں عبدہللا

نعیم رسول ، عبدہللا فہیم شاکر اور عبدہللا وسیم کنڈان کا بھی از حد شکر گزار ہوں مقالہ مکمل کرنے کا مکمل موقع دیا اور خدمات میں کوئی کہ انھوں نے مجھے

کسر نہیں رہنے دی۔ انھوں نے میرے آرام کا خیال اپنا اولین فرض سمجھ کررکھا۔

ہللا تعالی سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ اور کامرانیوں سے ہم کنار فرمائے۔

عطار سول

(پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر) شعبۂ اردو

یونیورسٹی آف سائنس اینڈ سرحد

انفارمیشن ٹیکنالوجی 22/11/2018مورخہ:

Page 14: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

14

باب اول

اردو زبان کے آغاز کا تعین اور

ارتقاء

باب اول

اردو زبان کے آغاز کا تعین اور ارتقاء

:موضوع کا پس منظری مطالعہزبان بولی اردو لفظ لغوی اور اصطالحی معنوں میں لشکر )عساکر( اور

جانے والی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لشکر )عساکر(کے معنوں پر تو تمام

محققین اور ماہر ین متفق ہیں اور بطور زبان بھی کسی کو اختالف کی گنجائش

Page 15: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

15

نہیں لیکن جب اس کے پس منظر کو بیان کرتے ہیں تو بہت سی تفریفات سے

ئی مفروضے بیان کیے واسطہ پڑتا ہے۔ اس زبان کی ابتدا کے حوالے سے ک جاتے ہیں۔اس لفظ کی اصل پر کئی انگلیاں اٹھتی ہیں۔

زبان کے حوالے سے قدیم نظریہ دراوڑوں سے اس زبان کے آغا زکا ہے

جب کہ معروف نظریات میں عربوں کی آمد سے ،سلطان محمود غزنوی کے حملوں سے ہونے والے اختالط سے یا مغلوں کے عہد سے اس زبان کا جاری

ہونا ہے۔ ان میں سے ہر نظر یہ اپنی جگہ سچائی کاعلم بردار ہے۔ کیونکہ کوئی

زبان بھی اختالط کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ لیکن جب دوسری زبان آکر اس عالقے کی زبان سے ملتی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ پہلے والی زبان کی ابتدا

رف چلتے چلتے کسی بھی اسی طرز پر ہوتی ہے۔ اور یہ سلسلہ پیچھے کی ط

نقطہ آغاز پر جارکتا ہے۔ گویا کہا جا سکتا ہے کہ زبان کا تعلق دھرتی سے جنم لینے والے الفاظ سے ہے۔ بہر حال اردو زبان میں ہم ماضی قریب پر نظر ڈالیں

میں ‘‘ تزک بابری’’تو اردو لفظ ہمارے ہاں پہلی بار بابر نے اپنی خود نوشت

کے معنوں میں استعمال کیاگیا ہے۔ اور شاہجہان کے استعمال کیا ہے جو لشکرعہد میں یہ لفظ پہلی بار زبان کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یہی وہ ادوار ہیں

جب اردو لغوی اور اصطالحی معنوں کے حوالے سے برصغیر کے لوگوں میں

ان معروف ہوئی ۔ اگرچہ بابر کے ہاں اردو یعنی برصغیر میں بولی جانے والی زبکے کئی الفاظ ملتے ہیں۔ لیکن اس سے بہت پہلے ہندی یا ہندوی کے نام سے جب

یہ وجود میں آئی تو مسعود سعد سلیمان کو بغیر اس کی کسی مثال کو دئیے

محققین اولیت دیتے ہیں۔ بہر حال امیر خسروجو ایک عسکری تھے نے اپنی بہت م میں پسندیدہ نگاہ سے سی تحریریں ہندی )اردو (میں چھوڑیں جو آج بھی عوا

دیکھی جاتی ہیں۔ لہذا عسکری زبان کا اس عسکری شخصیت کی اولیت سے کسی بھی اردو زبان و ادب کی تاریخ کے مورخ نے انکار نہیں کیا۔بعدازاں مغلوں نے

آکر اس کو مہمیز لگائی اور یہ زبان آہستہ آہستہ ارتقائی منازل طے کرنے لگی۔

میسو پو ٹیمیا میں سومیریوں نے کی تھی۔ یورپ عساکر کی ابتداء اگرچہ میں اس کا سلسلہ یونان اور میڈون سے جا ملتا ہے۔ جسے پروفیشنل فوج کہا جاتا

ہے کیونکہ سپاہیوں کو باقاعدہ معاوضہ دیا جاتا تھا۔ اسالم میں فوج کی باقاعدہ

دہ بنیاد دوسرے خلیفۃ المسلمین حضرت عمر فاروق نے رکھی جنھوں نے باقاع ضابطے اور اصول بنائے۔

جب ہم جدید عساکر کی بات کرتے ہیں تو یورپ میں عثمانیہ حکمران ،

سلطان مرات )مراد( نے اس کو نئے سانچوں میں ڈھاال ۔ برصغیر میں عساکر کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ جدید عساکر کی ا بتدا مغلیہ دور میں ہوئی۔ جنھوں نے اسے

یم کیا۔ یہ تین حصے رسالہ ، پیدل فوج اور ہاتھیوں تین بڑے بڑے حصوں میں تقس

کے دستے تھے۔ کیولری یعنی رسالہ اس کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ۱اور اس میں غزنوی ،غوری اور سلجوقیوں کی روایت کی تقلید کی گئی ہے۔

لیکن اس بات سے بھی انکار نا ممکن ہے کہ بلبن نے منگولوں کے حملوں کو

Page 16: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

16

کے لیے نئی حکمت عملی بنائی تھی اور عسکر کو بھی نئے ڈھانچے روکنے

میں ڈھالنے کی کوشش کی تھی مغلوں نے چونکہ ہندوستان میں آنے کے بعد یہاں ہی ڈیرے جمانے تھے اور ان کے استحکام کا دارومدار فوج پر ہی تھا لہذا انھوں

ا۔نے عساکر کو مضبوط کیا اور نئے اصولوں کے مطابق ترتیب دی

چونکہ مغلوں کے دور کو ہی اردو زبان کے ارتقاء کا دور گردانا جاتا ہے۔ کو یہاں ‘ زبان’ اور‘ لشکر’اور ان کا پورا حکومتی ڈھانچہ بھی عسکری تھا سو

ہی سے ایک ساتھ چالنا ضروری بھی ہے اور مجبوری بھی ۔بابر سے پہلے

رسی الفاظ کا استعمال ہو ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں میں عربی اور فارہا تھا۔ بابر کے ہمراہی جو نسال ترک تھے اور ترکی بولتے تھے۔ ان کے آنے

سے ترکی زبان کے الفاظ بھی یہاں کی بولی جانے والی زبانوں میں شامل

ہوگئے۔ بابر چونکہ خود ایک شاعر اور ادیب تھا۔ جس کی دلیل اس کا مختصر بری آج بھی موجود ہیں۔ اب بابر اور اس کے دیوان او رسوانح عمری تزک با

لشکریوں نے ہندوستان کی فضا کو موافق پاتے ہوئے یہاں کی تہذیب کو دل و

جان سے اپنایا۔ یہاں کی زبان سیکھی اور اس زبان میں ترکی کے الفاظ شامل کر کے اسے ایک نئے راستے پرلگادیا۔ ترکی کے بہت سے الفاظ آج بھی ہمارے

صہ ہیں مثال بہادر ،نوکر، باورچی ،جرگہ ،چاقو، خنجر ،قابو، بابا ، روزمرہ کا ح

حتی کہ خود لفظ اردو وغیرہ۔۲خصم ، خاتون، خان ، پالؤ، یخنی بابر نے اردو)ہندی( کی طرف بھرپور توجہ دی۔ اسے خود بھی سیکھنے

کے جتن کیے اور اپنے ساتھیوں کو بھی اپنے عمل سے ترغیب دی۔ بابر

ن پر تسلط کے بعد صرف چار سال زندہ رہا۔ حکومت ابھی اتنی مضبوط ہندوستانہیں ہوئی تھی کہ یہ بوجھ ہمایوں کے کندھوں پر آپڑا۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ

ہمایوں کا گھر کے بھیدی شیر شاہ سوری سے واسطہ پڑا ۔ جس نے دس سال کے ہ اگرچہ ادبی ذوق عرصہ میں لنکا ڈھا دی اور ہمایوں کو ہندوستان چھوڑنا پڑا۔ و

رکھتا تھا لیکن اسے وقت نے مہلت نہ دی کہ اس جانب متوجہ ہوتا۔ یہاں تک کہ

اکبر کی پیدائش بھی پسپائی کے دوران راستے میں ہوئی۔ شیر شاہ سوری دو سال تک ہمایوں کے پیچھے رہا اور ابھی سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ عدم سے بالوا

کہ اس کے ہمراہی عسکریوں کو کئی مقامات پر قیام کا آگیا۔ لیکن اتنا ضرور ہوا

موقع مال۔ جس سے ان عالقوں کے کچھ الفاظ اس کی فوج میں شامل ہو گئے۔ وہاں شیر شاہ سوری کی فوج نے اپنے کچھ الفاظ بھی چھوڑے جس سے تبدیلی کا

تسلسل آگے بڑھا۔ شیر شاہ سوری کے دور حکومت میں شیخ عیسی مشوانی کے

شعار روپ بدلتی زبان میں ملتے ہیں۔ وہ شیر شاہ سوری کے عہد کا سپاہی کچھ ا تھا۔

جو تو کرسی ہللا یقین

؎۳کامل ہوسی تیرا دین

Page 17: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

17

ء میں واپس آیا اور حکومت کے نظم و نسق میں ۱۵۵۰نصیر الدین ہمایوں

مصروف ہو گیا۔ لیکن زندگی نے ساتھ نہ دیا۔ اور اکبر مسند حکومت پر کم سنی براجمان ہوا۔ اکبر مکتبی تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہا لیکن زمانے میں ہی

کے مشاہدے اور باطنی مطالعہ نے اسے بہت کچھ سکھا اور پڑھا دیا۔ اس نے

دربا ر میں عالم اور فاضل لوگ شامل کیے۔ محفلیں اور مجلسیں جمتیں ۔ہر میں محفوظ موضوع پر گفتگو ہو تی۔ اکبر کے نورتن آج بھی لوگوں کے ذہنوں

ہیں۔ حکمت و ادب کی بات ہوتی۔ فارسی اور ہندی کی کتابیں پڑھی جاتیں مہا

اور ہر ی بنس کے قصے بھارت اوررامائن کی کتھا کہی جاتی اور امیر حمزہ نے سنگاسن بتیسی ،کلیلہ و دمنہ ،لیلی و مجنوں ،شیریں چھڑتے۔ سید فصیح ہللا

ل میں پڑھے اور سنے جانے کا ذکر خسرو،نل دمن اور اتھر ویدوغیرہ کے محف

۴کیا ہے۔اکبر نے ایسے ماحول میں اتنا کچھ حاصل کر لیا کہ راستے سے بھٹک گیا

وہ ہندوستان کا پیدائشی باشندہ تھا۔ ہندوستان میں بولی جانے والی زبان اس کی

مادری زبان تھی۔ جب کہ باپ کی طرف سے ترکی اور فارسی اسے ورثہ میں ذا دھرتی کی زبان اورا س کے ساتھ باہر سے آنے والی زبانوں کے ملی تھیں۔ لہ

اختالط نیز ہندو عورتوں سے اس کے فوجیوں کی شادی اور ہندو معاشرے کے

ساتھ مال پ نے بھی اردو )ہندی (کی صالحیتوں میں اضافہ کیا۔ اس سے اکبر کے یں ڈھلنے خون میں شعر و ادب سے تعلق جو گردش کررہا تھا۔ وہ بھی لفظوں م

لگا اور وہ اکبر ساہی کے نام سے خود بھی شعر کہنے لگا۔جا کر جس ہے جگت میں ،جگت سرا ہے

جاہی

؎5 تاکو جنم سپھل ہے کہتا ہے اکبر ساہی

اکبر کے دربار سے راجہ مان سنگھ اور بیر بر جیسے چٹکلے باز بھی رتے وہاں منسلک تھے جو نئے نئے چٹکلوں سے جہاں درباریوں کو مخطوظ ک

اردو زبان میں نئے نئے الفاظ شامل کرنے کا باعث بھی بنتے۔ اکبر کے تمام

درباریوں کا تعلق عساکر سے تھا اور وہ کئی کئی جنگوں میں قیادت کر چکے تھے یا حصہ لے چکے تھے۔ ان میں عبدالرحیم خان خاناں ،فتح ہللا شیرازی ،شیخ

شیخ سلطان ،نقیب خان ،حاجی ابراہیم مبارک ، شیخ ابو الفضل ، شیخ عبدالقادر،

جیسے اہل سیف و قلم شامل تھے۔ اگرچہ دربار کی زبان فارسی ۶اور مکمل خانتھی اور بہت سے درباری بھی فارسی زبان بولنے والے تھے کیونکہ ہمایوں کے

ساتھ جو فوج ایران سے آئی تھی وہ سب فارسی دان تھے۔ لیکن مقامی عہدے

ں میں داخلہ سے درباری زبان اور ہندی گڈ مڈ ہو گئی تھیں۔ داروں کے دربارواس عہد میں سرکاری زبان میں بہت سے ہندی کے الفاظ شامل ہوئے۔ جن میں

سے چند ایک درج ذیل ہیں جو آج بھی ہمارے استعمال میں ہے۔

Page 18: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

18

جھروکہ ، درشن، پھول، کٹار، تلوار، ہاتھی ، گھوڑا، پالکی، جھالر ،کہار،

پٹواری ، رائے ،راجہ ،مہاراجہ ، چودھری ،پہر ،دوپہر ،گھڑی ڈاک، چوکی ، ۷،گھڑیال ، ڈالی ،گھاٹ،بیوپاری وغیرہ۔

اسی دور میں شمالی مغربی عالقہ میں اکبر کے دین اکبر ی کے خالف پیر

روشان )روخان(کی قیادت میں مسلمانوں نے آواز اٹھائی۔ یہ لوگ اگرچہ کسی ے۔ لیکن اسالم کے مجاہدین بن کر ابھرے اور مملکت کی فوج کا حصہ نہیں تھ

اکبر کی فوج کو میدان جنگ میں دن میں تارے دکھا دیے۔ پیر روشان کی اہم

تصنیف خیر البیان ہے جس میں چار زبانوں میں ،عربی، فارسی، پشتو اور اردومعانی و مطالب بیان کیے گئے ہیں۔ گویا سولہویں صدی میں بھی اردو زبان

ے دو دراز عالقوں میں بولی، پڑھی ،لکھی اور سمجھی جاتی تھی۔ پیر ہندوستان ک

:روشان کی تحریر کا نمونہ مالحظہ ہولکھ میرے فرمان سہن ،جیوں اکھرقرآن کے پھن کے پھن۔ لکھ اوپر ’’

تکنا کے جزم اور نشان ،جیو اکھر پچھائن آدمیاں ، لکھ کوئی اکھر چار

۸‘‘اں۔چار عیاں درحال سکھنے جے پڑھن آدمی

اکبر کی عسکری قوت میں بہرام سقہ بخاری اور عشقی خان عشقی جیسے

بہت سے لوگ ایسے تھے جنھوں نے جہاں میدان جنگ میں اپنا خون پیش کیا

وہیں اردو زبان و ادب کے آغاز میں سیاہی سے ایک نئی تاریخ رقم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

اکبر نے اپنی فوج کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا تھا۔ یہ اس کی ترتیب نو تھی

جس سے فوج کے نظم کا سلسلہ آگے بڑھا۔ یہ پانچ اقسام منصب داری فوج ،احدی ج تھیں۔ منصب ۱فو۱فوج ،داخلی فوج، مستقل فوج، اور باجگزار راجاؤں کی

ٹا منصب درجے مقرر کیے تھے۔ سب سے چھو ۳۳داری میں اکبر نے

سپاہیوں پر کمان اور سب سے بڑا منصب سات ہزا رسے اوپر کا تھا جس کے ۱۰ لیے عام طورپر شہزاد ے مخصوص تھے۔

احدی فوج بادشاہ کے ذاتی محافظ ہوتے تھے۔ داخلی فوج میں سرکار کی

طرف سے سپاہی بھرتی کیے جاتے جنھیں شاہی خزانے سے تنخواہ دی جاتی۔ عبے تھے۔ پیدل فوج ، توپ خانہ ، گھوڑ سوار، بحری جہاز مستقل فوج میں پانچ ش

آہستہ آہستہ فوج بھی نئے اور جدید راستوں پرچل رہی تھی ۹اور جنگی ہاتھی۔

اور اردو زبان بھی جدت اختیار کر رہی تھی اکبر اور جہانگیر کی فوج کے ایک ک جرنیل اور جہانگیرکی پہلی بیوی مان بائی کے بھائی مان سنگھ کے ای

روزنامچے کی جے پور کے کتب خانے میں موجود گی کے بارے میں بینی پر

۱۰شاد نے اطالع دی ہے۔جہانگیر کے عہد میں اردو )ہندی( نے زیادہ فروغ پا یا کیونکہ اکبر نے

جو معاشرتی اختالط کے پودے لگائے تھے وہ جوان ہونے لگے۔ تزک جہانگیری

کا ثبوت ہیں مزید یہ شعر اس سے منسوب میں شامل بہت سے عالقائی الفاظ اس ہونا

Page 19: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

19

چچ ہزاراں کنکاں بھلیاں ، دھنی کھوب

گائیں

سور سیکرتی گھوڑ بھلے اور ہشت نگر

؎۱۱کے دھائیں

نیز دلی سے کشمیر کی طرف سے سفر کرتے ہوئے ایک سکہ بنوا کر اس

پر اردو لفظ کندہ کرانا بھی اس کی اردو دوستی کا ثبوت ہے۔ ں تا کہ بود مہر و ماہباد روا

سکۂ اردوئے جہانگیر شاہ

نور الدین محمد جہانگیر کے بعد شہزادہ خرم شہاب الدین محمد شاہ جہاں

کے تخت حکومت سنبھالنے کے بعد اس نے علم و ادب ،آرٹ اور موسیقی کی سر پرستی کی۔ اس کے دور میں بہت سی کتابوں کے تراجم ہوئے۔ تاریخ کی کئی

ہوئیں۔ نیز اس کے فنون لطیفہ سے محبت کی شاہکار اس کی تعمیر کتب تصنیف

کردہ عمارتیں اور باغات آج کئی سو سال گزرنے کے باوجود زمین کی چھاتی پرپر شکوہ انداز میں سر اٹھا کر کھڑے نظر آتے ہیں۔ شاہ جہان کو زبان اردو پر

کرتا ہے۔ شاہ وہی حق دعوی ہے جو کسی بھی کاریگر کو اپنی صنعت پر ہوا

جہان آباد کی آبادکاری اور شاہی محالت کی وہاں موجودگی کے باعث فوج کا بھی عمل دخل بڑھ گیا ہے او رفوج چونکہ زیادہ تر مقامی تھی سو ان کی اپنی

بولیوں نیز حکمرانوں کی زبان کے اختالط سے ایک نیا رنگ سامنے آیا ۔ جسے

میں صرف اردو رہ گیا۔ اور تب سے اس زبان اردو ئے معلی کا نام دیا گیا جو بعدکے لیے جو قبل اس سے کئی دیگر ناموں سے پکاری جاتی رہی یا جا رہی تھی

یہ نام رائج ہو گیا لیکن اس زبان اور نام کو رواج دینے میں عساکر کے عالوہ وہاں کی آبادیوں کا بھی اتنا ہی حق ہے۔ کیونکہ شاہ جہان آباد کے وجود میں آنے

ر دار الحکومت بننے کے بعد بہت سے لوگ تجارت یا مالزمتوں وغیرہ کی او

غرض سے دیگر عالقوں سے بھی اٹھ کر یہاں آباد ہوئے تھے لہذا یہ رنگ ان شاہجہان آباد کے آباد ۔مولوی عبدالغفور نساخ کے اختالط سے ہی وجود میں آیا

ہیں : ہونے کو اردو کا نقطہءآغاز ہونا قرار دیتے ہیں۔وہ لکھتے

اطراف وجوانب عالم سے ہر قسم کے ذی علم اور صاحب استعداد او رقابل جب’’لوگ آکر مجتمع ہو ئے۔ قدیم ہندی متروک ہونے لگی، محاورے میں فرق ہونے

۱۲‘‘۔ویج شروع ہوئی تھا۔ زبان اردو کی تر

نساخ نے اگرچہ دکھنی کے بہت سے الفاظ کا شاہ جہاں آباد یادلی میں آنے ا حوالہ تو دے دیا لیکن دکھنی زبان کے اس لہجے یا اس مقام تک پہنچنے والے ک

عوامل کو نظر انداز کر دیا ۔ اگرہم دکھنی زبان کا جائزہ لیں تو اس میں پنجابی

زبان کے الفاظ سب سے زیادہ ملیں گے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سالطین دہلی یونکہ زیادہ تر حملے شمال مغرب کی فوج میں بھی پنجابی سپاہی زیادہ تھے۔ ک

یعنی اسی راستے سے ہوئے۔ سبکتگین اور محمد بن قاسم کو اگر الگ کر دیا

Page 20: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

20

جائے اور سلطان محمود غزنوی کے حملوں سے مطالعہ کریں تو افغانستان کی

سرحدوں سے آگے پنجاب ہی ان کی راہ میں پڑتا تھا۔ پہلی حکومتیں بھی پنجاب دہ تر لوگ فوج میں بھرتی ہوئے اور وہی فوج جب دلی میں بنیں ۔ یہاں کے زیا

اور دلی سے دکھن کی طرف گئی تو پنجابی زبان کے اثرات وہاں منتقل ہوئے۔

کے تحت ان الفاظ میں 'The name 'Urdu ےو گرا ہم بیلے ناردو نام کی بحث ک سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔

"An Important question is the word urdu came to the

applied to a language .We have seen that the soldiers in

Delhi at a very early date gave up the use of prsian among

themselves and began to speak a modified form of

vernacular in Delhi . ." ۱۳

شاہ جہان کے دور میں ہی شمال مغربی سرحدی عالقے میں خوشحال

ن خٹک کا نام سلطنت مغلیہ کے لیے ایک دہشت بن کر گونجا۔ خا

ء( صاحب سیف و ۱۶۸۹ھ/۱۱۰۰ء۔۱۶۱۳ھ/۱۰۲۲خوشحال خان خٹک)قلم تھا۔ وہ ایک عالم ، فاضل، اور جملہ علوم متداول کا ماہر معلوم ہوتا

ہے۔ اس کی ساری زندگی میدان جنگ میں گزری ،اوائل عمری میں وہ

ہا او ران کی فوج کا ایک حصہ رہا اور جب مغلوں مغلوں کے لیے لڑتا رسے تعلقات خراب ہو گئے تو ان کے خالف میدان کارزار میں اترااور

نبرد آزما رہا۔ خوشحال خان خٹک اگرچہ پشتو کے شاعر کے طورپر

پہچانا جاتا ہے۔ لیکن اس کی شاعری کا اگر بغور مطالعہ کریں تو اس دو زبان کے ملتے ہیں جیسے۔کے دیوان میں بہت سے الفاظ ار

دل نوازہ ، سر فرازہ ، عشوہ سازہ ، لعبت بازہ

؎۱۴خود پسندہ ، سر بلندہ ، شکر خندہ، لب شکر

:یا پھر ریختہ میں لکھے گئے ان کے درج ذیل دو اشعار مالحظہ ہوں پہ سینہ کبن م اودہ مینہ پھر جاگی

زماستا محبت کورہ کیسے الگی

د یادہ شوہ کہ حہ شودد رقیب دنیا

؎۱۵سپینۂ خولۂ پہ خندہ راکڑہ پھر بھاگی

سندھ میں ان دنوں اردو زبان کس مرحلے میں تھی اس سلسلے میں

مورخین اور محققین نے کوئی اطالع نہیں دی تاہم عبدالحکیم اور میر فاضل کا ذکر اس ضمن میں تو آتا ہے لیکن وہ عسکری نہیں تھے۔ جمیل جالبی نے عہد

اکبری کے ایک منصب دار سید محمد میر عدل کا ذکر کیا ہے۔ جس کے تین بیٹے

ابوالفضل، ابوا لقاسم اور ابو المعانی فوج سے وابستہ تھے او راردو زبان سے بھی ان کا تعلق تھا لیکن ان کی کوئی تحریر سامنے نہیں آسکی۔ ڈاکٹر شاہدہ بیگم

۱۶ظم کیا ہے۔ کے مطابق کسی شاعر نے ان کے کارناموں کو ن

Page 21: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

21

اگست ۲۹ء۔ ۱۶۱۵مارچ ۲۰شاہ جہان اپنے بڑے بیٹے داراشکوہ )

ء( کو ہندوستان کے تخت پر بٹھانا چاہتا تھا لیکن اس میں سیاست اور ۱۶۵۹جرنیل کی خصوصیات کی کمی تھی۔ شاہ جہان کے دوسرے بیٹے شجاع ،اورنگ

ی دوسرے کو زیب اور مراد اپنے اپنے صوبوں پر قابض تھے لیکن کوئی بھ

تسلیم کرنے پر تیار نہ تھا آپس کی باہمی جنگوں میں اورنگ زیب کو فتح ہوئی۔ داراشکوہ تلوار کی جنگ توہا رگیا لیکن قلم کی جنگ میں سب پر بازی لے گیا۔

وہ ایک بلند پایہ عالم اور صوفی تھا۔ تصوف اور معرفت کا ذوق بچپن سے اس

ر میں اس نے سفینتہ االولیا اور تین سال سال کی عم۲۵کی فطرت میں شامل تھا۔ بعد سکینتہ االولیا جیسی معرکتہ آالراکتب تصنیف کیں۔ ان کے عالوہ سراالسرا

رسوال وجواب دارا شاہ با لعل داس ،نامۂ عرفانی ،طریقتہ الحقیقت آپ کی

دوہا ’تصانیف ہیں ان کتب کے عالوہ دوہندی کتب کا ذکر بھی ملتا ہے۔ جو ء کے آس پاس سمجھنا ۱۶۵۳ہیں۔ جن کا عہد تصنیف ‘ ساسنگرہ’ راو‘ ستونگرہ

اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ دارا شکوہ جہاں ایک ساال ر ۱۷چاہیے۔

تھا اور جنگوں میں شامل رہا وہاں وہ ایک ادیب کے طور پر بھی پہچان بنانے سامنے آئیں۔ ان میں کامیاب رہا اسی طرح ہندی )اردو( میں بھی اس کی تحریریں

کی فارسی تصانیف کا مطالعہ کریں توان میں بھی بہت سے الفاظ عالقائی مروجہ

زبان کے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ بہر حال اس کے ہندی سے فارسی اور فارسی سے ہندی میں کیے جانے والے تراجم بھی اس کے اردو قلم کار ہونے کی گواہی

الے سے تو بھرپور رہا لیکن قلمی دیتے ہیں۔ اورنگ زیب کا عہد عسکری حو

آہستہ روی کا سلسلہ بھی جاری رہا ۔ اس کا خط نسخ اور خط نستعلیق بہت اچھا تھا۔ اس نے اپنے ہاتھ سے دو قرآن مجید لکھ کر مکہ المکرمہ اورمدینتہ المنورہ

روانہ کیے تھے۔ اس کے دربار میں علماء اور فضال موجود رہتے تھے ۔جن سے ی عالمگیری مرتب کروایا۔ عالمگیر نے خود کو صرف عمدہ سپہ اس نے فتاو

ساالر ہی ثابت نہیں کیا۔ قلم سے رشتہ بھی بحال رکھا۔ اس ضمن میں اس کی قلمی

کاوش رقعات عالمگیری اور کلمات طیبات ادب میں وقیع اضافہ ہیں۔ رقعات طیبات میں بھی عالمگیری میں اردو کے اکثر الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ کلمات

یہی صورت ہے۔ اپنے فرزند محمد اعظم کو لکھتے ہیں: کہ مزہ کھچڑی بریانی

اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں گرائمر کی پہلی ۱۸سمادر مستان یادمی آیدبھی لکھی گئی یہ کتاب عالمگیر کی فرمائش پر لکھی گئی تھی ‘ تحفتہ الہند’ کتاب

سکی۔ البتہ اس کے قلمی نسخوں کی موجودگی لیکن زیور طبع سے آراستہ نہ ہو

کے بارے میں مورخین نے آگاہی دی ہے۔ اس کتاب کے مصنف کا نام بعض نسخوں پر اعظم شاہ اور بعض پر معز الدین جہاندارلکھا ہوا بتایا جاتا ہے۔

مورخین نے یہ آگہی بھی دی ہے کہ مصنف نے خود اس کا دیباچہ تحریر کیا ہے

بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ یہ کتاب شہنشاہ اورنگ زیب کے ۔ دیباچہ سے یہ کہنے پر اس کے شہزادوں کو اردو زبان کے قواعد سکھانے کے لیے لکھی گئی

۱۹تھی۔

Page 22: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

22

مغلیہ عہد میں اردو اور عساکر پر بات کرتے ہوئے جنوبی ہند پس منظر

یہ زبان ابھر میں چال گیا حاالنکہ جنوبی ہند میں ہی اردو زبان کو ارتقا مال اور کر سامنے آئی او رظاہر ہے کہ وہاں کے حکمران بھی عسکری سپہ ساالر تھے

انھوں نے فوجوں کی کمان بھی کی او ر اردو زبان کے فروغ میں اہم کردار بھی

نبھایا ۔جنوبی ہند میں مغلوں سے پہلے اس زبان نے اپنا تشکیلی سفر شروع کر دیا ء( نے ملیبارتک کے ۱۳۱۶۔ ۱۲۹۵کومت تھا۔ جب عالؤ الدین خلجی )عہد ح

عالقے اپنے زیر نگیں کر لیے تو پنجاب اور نواح دہلی پر مشتمل اس کے

عسکری وہاں اردو زبان کی شروعات کا باعث بنے۔ محمد تغلق نے جب دیو گڑھ کو دولت آباد کے نام سے دارالخالفہ بنایا تو بے شمار عسکریوں نے وہاں

ں دولت آباد بلکہ پورے دکن میں ان لوگوں کے رسوخ سکونت اختیار کر لی۔ یو

کے ساتھ ان کی زبان نے بھی شدت سے دکن کی زبان کو متاثر کیا۔ تغلقوں کے بعد آنے والے حکمرانوں کا تعلق بھی بنیادی طورپر دہلی سے تھا لہذا بہمنی

سلطنت کے عہد میں دکھنی زبان رائج ہوگئی اور اسے سرکاری زبان کا درجہ

۔ دکھنی زبان اردو کی بنیادی شکل تھی۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہ مالمعلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں سب سے پہلے گجرات اور دکن میں یہ صور ت

حال دیکھنے میں آئی کہ وہاں کے حکمرانوں نے جب ہندی/ اردو کو اپنایا تو

و خوش آمدیدکہا گیا یہاں پورے ملک میں اور پھر ملحقہ ریاستوں میں اس زبان کتک کہ ملحقہ ریاستوں سے نکل کر گردوپیش میں بھی اس کے اثرات نمایاں

ہونے لگے۔ سید ہاشمی فریدآبادی ایک تعجب کے ساتھ رقم طراز ہیں کہ فارسی

پر اس کا غلبہ قابل تعجب ہے کیونکہ ان دنوں شمالی ہند سے زیادہ ممالک دکن ہوئے تھے۔علمائے عراق و عجم کے قدم اور ایران ایرانی اثرات کا مہبط بنے

کے عقائد و شعائر دکنی درباروں پر چھا گئے۔ شاید صوفی بزرگوں کی کرامت ۲۰تھی کہ وہاں کے بادشاہوں تک کو ہندی کا مرید کر دیا ۔

جنوبی ہند میں اردو کو حکمرانوں کی پشت پناہی حاصل رہی اور

پھولنے کا موقع مال یہاں تک کہ اورنگ عسکریوں کے درمیان اسے خوب پھلنے زیب کے عہد میں یہ عالقے دوبارہ شمالی ہند کے زیر نگیں آگئے۔

شمالی ہند اور جنوبی ہند کی دھرتی کے عالوہ ایک تیسرا عنصر بھی

اردو زبان کی تشکیل او ر ترقی کا سبب بنا۔ اور یہ عنصر یورپین عساکر کی ،ولندیزی انگریز اور فرانسیسی یکے بعد دیگرے ہندوستان میں آمد تھی ۔پر تگالی

ہندوستان میں وارد ہوئے۔ جن میں انگریز دیگر قوموں پر سبقت لے گئے اور

ہندوستان پر حکومت کرنے لگے۔ ان اقوام نے اپنے اپنے دور میں اپنے سپاہیوں کو یہاں کی مقامی زبان کی طرف یعنی اردو کی طرف راغب کیا۔ انگریزوں تو

عسکریوں کے لیے اردو کا جاننا ضروری قرار دیا۔ اس کے بعد اسے اپنے

دفتری زبا ن قرار دے کر اس کو اس کا جائز مقام دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔اورنگ زیب کے بعد مغل کمزور ہونے لگے۔ ہندوستان میں کئی چھوٹی

لگیں۔ چھوٹی ریاستیں راجوں، مہاراجوں اور سرداروں کے تحت وجود میں آنے

Page 23: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

23

جس سے انگریزوں نے فائدہ اٹھایا اور تمام حکمرانوں کو شکست دے کر اپنے

تسلط میں کر لیا۔ جب ٹیپو سلطان پر فتح حاصل کی تو اطمینان کا سانس لیا اور ء میں فورٹ ولیم کالج کا افتتاح کرنے کے بعد اردو زبان کے فروغ میں ۱۸۰۰

زبان پورے قد کے ساتھ کھڑی تمام کوششیں صرف کردیں ۔ جس کے بعد اردو

ہونے کے قابل ہو گئی۔

Page 24: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

24

ماخذات Bosworth , C.E and others (editors) The Encyclopedia of Islam (New ۱۔

Edition) Vol-v, E. J.Brill Laiden (Netherlands) 1986, P-685

عنایت ہللا ، ڈاکٹر شیخ ،اردو زبان کا ترکی عنصر، سہ ماہی ، صحیفہ،الہور ،شمارہ ۔۲

۱۸ء ،ص ۱۹۷۳،جنوری ۶۲

خاطر غزنوی، سرحد میں اردو شاعری کا ارتقا ء ،مشمولہ ، پاکستان میں اردو ، جلد ۔۳

، مرتبہ:پروفیسر فتح محمد ملک و دیگر ،مقتدرہ قومی زبان پاکستان ، اسالم آباد،۳

۱۱۲ء ،ص ۲۰۰۶

فصیح ہللا، فصیح الملک سید، اردوئے فصیح ،مطبع نیشنل پریس الہ آباد، دوسرا ایڈیشن ۔ ۴

۳۲ء ،ص ۱۹۲۲،

عین الحق فرید کوٹی ، مغل شہنشاہوں کی ہندوی شاعری ،مشمولہ :ماہنامہ ، ماہ نو، الہور ۔ ۵

۱۷ء ،ص ۱۹۸۰،فروری ۲،شمارہ : ۳۳:جلد نمبر

رور،سید ،سوجھ بوجھ کے ڈھائی انچھر ،مشمولہ ،ماہنامہ ساقی ، دہلی ، ابوا لقاسم مس ۔۶

۱۲ء ،ص ۱۹۳۹، ستمبر ۳،شمارہ ۲۰جلد

عبدالحئی ،موالنا حکیم سید ، تذکرہ شعرائے اردو، موسوم بہ گل رعنا، مطبع معارف ۔ ۷

۹ھ، ص ۱۳۵۳اعظم گڑھ، دوم

مجلس ترقی ادب الہور، سوم ،دسمبر جمیل جالبی ، ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو، جلد اول، ۔ ۸

۵۸ء ،ص ۱۹۸۷،

۲۸۰انوار ہاشمی ، تاریخ پاک و ہند، کراچی بک سنٹر، کراچی ، س ن ،ص ۔۹

بینی پرشاد ، تاریخ جہانگیر ، مترجم :رحم علی الہاشمی ، قومی کونسل برائے فروغ ۔ ۱۰

۳۴۱ء ،ص ۲۰۱۰اردو زبان نئی دہلی ،چہارم ،

ال ، ادیب الملک نواب سید، مغل اور اردو ،ادارہ اشاعت اردو نصیر حسین خان خی ۔۱۱

۱۶ء ،ص ۱۹۳۳حیدر آباد دکن ،

۴ء ،ص ۱۸۷۴عبدالغفور نساخ ،مولوی ، زبان ریختہ ، منشی نول کشور ،لکھنؤ ، ۔۱۲

۱۳۔ Grahame Bailey, A History of Urdu Literature, Al Biruni Lahore

1977, P-10

و رضا ہمدانی ، خوشحال خان خٹک، لوک ورثہ اشاعت گھر اسالم آباد فارغ بخاری ۔۱۴

۱۱۴ء ،ص ۱۹۸۷،دوم ،

۳فارغ بخاری، سرحد میں اردو، مشمولہ: پاکستان میں اردو، تیسری جلد، ایضاص ۔۱۵

۸۵ء ،ص ۱۹۸۰شاہدہ بیگم ،ڈاکٹر ، سندھ میں اردو ، اردو اکیڈمی سندھ، کراچی ، ۔ ۱۶

ڈاکٹر، ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ ، مکتبہ اسلوب کراچی سہیل بخاری ، ۔ ۱۷

۱۰۰ء ،ص ۱۹۸۵،

عنایت الرحمن صدیقی، بریگیڈئر )ر( ، ارباب سیف و قلم ،نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم ۔۱۸

۲۴۳ء،ص ۱۹۹۷آباد،

۲۷،شیخ غالم علی الہور، س ن ،ص ( ۱اے حمید، اردو نثر کی داستان ، ) ۔۱۹

ہاشمی فرید آبادی ، سید، اردو کی حقیقت تاریخ سے ، مشمولہ ، سہ ماہی اردو، جلد ۔۲۰

۱۳ء ،ص ۱۹۵۳جنوری و اپریل ، ۲۔۱شمارہ ، ۳۲

Page 25: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

25

دومباب

یورپی تسلط سے قبل کے عسکری

قلم اہل

دومباب

یورپی تسلط سے قبل کے عسکری اہل قلم

،دنوں میں یا چند سالوں میں تشکیل کسی بھی زبان کا وجود لمحوں میں

نہیں پاتا بلکہ اس کے پیچھے صدیوں کی کہانی ہوتی ہے۔ جیسا کہ قبل ازیں بیان

کیا جا چکا ہے کہ زبان کی اصل دھرتی ہوتی ہے ۔حاالت، واقعات اور ماحول و معاشرہ اسے آگے بڑھاتا ہے۔ پھر زبان میں سے دوسری زبان جنم لیتی ہے۔ لیکن

Page 26: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

26

جگہ موجود رہتی ہے۔ اردو زبان آج جس صورت میں ہمارے درمیان اصل اپنی

ہے۔ اس صورت کو پانے میں اسے کئی ہزار سال لگے اور نہ جانے کتنے ہزاروں سال بعد اس میں سے پھر کوئی نئی زبان ابھر کر سامنے آئے ۔کیونکہ

رہتے ہیں تبدیلی کا عمل ابھی ختم نہیں ہوا۔ آئے دن اس میں نئے الفاظ داخل ہوتے

اور کچھ الفاظ خارج ہو جاتے ہیں۔ بہت سے الفاظ اپنے معانی بدل لیتے ہیں اور کچھ عرصہ پہلے وہ جن معانی کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ آج وہ ان معانی میں

استعمال نہیں ہو رہے۔ بلکہ کسی اور معانی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس ساری تبدیلی

ے وہ جب کسی سفر پر ،کسی جنگ میں یا میں عساکر کا ایک خاص حصہ رہا ہکسی دوسرے عالقے میں خدمات کی ادائیگی کے لیے جاتے ہیں ۔تو وہاں اپنی

زبان خواہ مادری ہو ،عالقائی ہو یا قومی ہو یا کہیں حضرکے دوران سیکھی

ہوئی زبان کے کچھ الفاظ وہاں کے اہل زبان کو تحفتا دے آتے ہیں۔ اور وہاں سے کچھ الفاظ اپنے ساتھ لے آتے ہیں ان عسکریوں میں جو اہل قلم ہوتے لوٹتے ہوےء

ہیں وہ اپنی تحریر کو خوبصورت ،جدیدیا نیا رنگ دینے کے لیے ان نئے

سیکھے ہوئے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں جو کچھ عرصہ بعد زبان کا حصہ بن اٹھانے کی جاتے ہیں۔ اردو جب گھٹنوں چل رہی تھی تو عسکری اہل قلم نے اسے

کوشش کی اور اسے طاقت بخشی ،جن میں اجتماعیت کے عالوہ کچھ اہل قلم کی

انفرادی کوششیں بھی کارفرما تھیں اور ان میں جو نام سب سے پہلے ہمارے سامنے آتا ہے وہ ہیں امیر خسرو ،جنھیں بعض مورخین ادب اردو کا نقش اولین

قرار دیتے ہیں۔

تاریخ ۳ء کے ماہ مارچ کی ۱۲۵۳طابق ھ بم ۶۵۱حضرت امیر خسرو: آپ کا نام جمیل الدین کنیت ابو ۱کو پٹیالی ضلع ایٹہ )یوپی (میں پیدا ہوئے ۔

الحسن ،لقب یمین الدولہ ،عرف خسرو اور خطاب ملک الشعراء تھا جب کہ امیر فوج میں آپ کا عہدہ تھا۔ جو آپ کے والد امیر سیف الدین کو سلطان شمس الدین

ی طرف سے دیا گیا ہے۔ امیر سیف الدین سلطان محمد کے دربار میں التمش ک

بھی ایک بڑے عہدے پر مامور رہے۔ اور ایک مہم میں دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ان کی شہادت کے بعد بھی امیر کا رتبہ آپ کو دیاگیا۔ امیر خسرو نے

بطور اپنے بچپن کے زمانے کے بزرگ عز الدین کے کہنے پر سلطانی بھی

تخلص استعمال کیا۔ آپ کو اپنی مادری زبان فارسی کے عالوہ عربی ، ترکی اور سنسکرت پر بھی عبور حاصل تھا۔ چونکہ امیر خسرو محمد بن غیاث الدین بلن

کے دربار سے منسلک تھے اس لیے آپ جنگ و امن میں اس کے ہمراہ رہتے

تے ہوئے ہندوستان کی تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب چنگیزی ہر طرف تباہی پھیالطرف بڑھے۔ ایک لڑائی میں سلطان محمد مارا گیا۔ تو چنگیزیوں نے سلطان

امیر خسرو بھی اس معرکے ’’محمد کے بچے کھچے لشکریوں کو گرفتار کر لیا۔

میں گرفتار ہوئے لیکن آپ جس سپاہی کی قید میں تھے اس نے رستے میں ایک باعث اتنا پانی پیا کہ مر گیا اور دریا کے کنارے پیاس سے نڈھال ہونے کے

آپ نے واپس آنے کے بعد بھی کئی جنگوں میں حصہ ۲‘‘ خسرو آزاد ہو گئے۔

Page 27: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

27

لیا۔ امیر خسرو کی التمش سے غیاث الدین تغلق کے دور تک تمام درباروں سے

کسی نہ کسی صورت وابستگی رہی ۔تعلق تھا۔ حضرت نظام الدین اولیا سے آپ کا عقیدت اور ارادت کا گوڑھا

آپ حضرت نظام الدین کے مرید تھے جب غیاث الدین تغلق بنگال کی مہم سر

آپ ابھی بنگال میں ہی تھے کہ ’’ کرنے گیا تو آپ بھی اس فوج میں شامل تھے۔ء ۱۳۲۵اپریل ۳ھ بروز چہار شنبہ بعد طلوع آفتاب بمطابق ۷۲۵ربیع االول ۱۸

ل ہوا۔ آپ جب واپس آئے تو دنیا ہی کو حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء کا وصا

ء کو ۱۳۲۵ستمبر ۲۷ھ / ۷۲۵شوال ۱۸لٹ چکی تھی۔ اس کے چھ ماہ بعد یعنی امیر خسرو فن شعر ۳‘‘آپ نے بھی اپنی جان جان آفریں کے سپر دکر دی۔

وموسیقی میں اعلی مقام رکھتے تھے۔ آپ اگر ریختہ کے بانی نہیں تو بانیوں میں

ی میں ان کی طبیعت ایک بین تھی کہ بن بجائے پڑی بجتی موسیق’’سے تھے۔ تھی۔ اس لیے دھرپت کی جگہ قول و قلیانہ بنا کر بہت سے راگ ایجاد کیے کہ ان

۴‘‘میں سے اکثر گیت آج بھی ہندوستان کے زن و مرد کی زبان پر ہیں۔

امیرخسرو نے موسیقی میں اپنی ذہانت اور جدت پسند طبیعت سے بہت سی نئی زیں داخل کیں۔ انھوں نے ایرانی راگوں اور ہندوستانی راگوں کے میل جول چی

سے چند راگ ایجاد کیے۔ ستار جو ہندوستان وپاکستان کا ایک مقبول ترین ساز

ہے۔ امیر خسرو ہی نے بنایا تھا ۔کہتے ہیں کہ طبلہ بھی امیر خسرو کی ایجاد ہے۔ ۵

ئی جاتی ہیں۔ جن کے لگ بھگ بتا ۹۹حضرت امیر خسرو کی تصانیف

:میں سے چند ایک کے نام درج ذیل ہیںتحفتہ الصغیر)دیوان( ،شط الحیواۃ )دیوان(،عزۃ الکمال )دیوان( ،بقیہ نقیہ)دیوان( ’’

،ہشت بہشت )مثنوی(،سکندر نامہ یا آئینہ سکندری)مثنوی( ، اعجاز خسروی)نثر( ن ،نہ سپہر، نہایت ،مثنوی لیلی مجنوں، مطلع االنوار )مثنوی( ،قران السعدی

الکمال)دیوان ( ،شیریں خسرو،تاج الفتوح ، دول رانی و خضر خان، افضل الفوائد،

تغلق نامہ، خزائن الفتوح ، مناقب ہند)تاریخ دہلی(ان کے اشعار کی تعداد چار پانچ ۶‘‘ الکھ بیان کی جاتی ہے۔

تفرق حضرت امیر خسرو نے فارسی کے عالوہ ہندی )اردو (میں بھی اپنا م

کالم چھوڑا۔ فارسی الفاظ او رہندی الفاظ کی آمیزش اور پیوند کاری سے تیارکی گئی صنف ریختہ میں بھی ان کا کالم موجود ہے۔ جو اردو زبان کے ارتقاء کا

واضح سبب بنا۔ آپ کی ایسی ہی ایک غزل ہے۔

دو چشم جادو بصد فریبم یکایک ازدل ببرد تسکیں

کسے پڑی ہے جو جاسناوے پیارے

پی کو ں ہماری بتیاںبحق روز وصال دلبر کہ داد مارا

فریب خسرو

Page 28: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

28

سپیت من کے ورائے الکھوں جو

۷جائے پاؤں پیا کے کھیتاں ریختہ کے عالوہ ہندی میں بھی حافظ محمود شیرانی نے پروفیسر سراج الدین آذر

جس کا پہال شعر ہےکہ بیاض میں سے ایک غزل نقل کی ہے۔کی مملو

جب یار دیکھا نین بھر دل کی گئی چنتا اتر

کوئی عجب ایسا نہیں

۸سمجھائے کرراکھےاسےحضرت امیر خسرو نے ریختہ او ر ہندی غزل سے ہٹ کر ہندی اردو میں

ور کئی اصناف سے اردو زبان و ادب کے شائقین او اور بھی اختراعات کیں ا

رقارئین کو روشناس کرایا۔ جہاں ریختہ میں ایک مصرع فارسی اور ایک مصرع ہندی یا نصف مصرع فارسی اور نصف مصرع ہندی کا ملتا ہے۔ وہاں ایسا ریختہ

بھی موجود ہے۔ جس میں صر ف ایک دوہندی الفاظ پورے فارسی بند کے آخری

:موجود ہیں۔مثال مصرع میں گفتم صنما چیست بہائے مویت

۹فریاد برآورد کہ در در موئے

حضرت امیر خسر و کی کئی انملیاں ،پہلیاں ،مکرنیاں ،دو ہے ،دوسخنے د حسین آزاد نے نقل کیے ہیں۔اور گیت وغیرہ بھی موالنا محم

دوسخنے

گوشت کیوں نہ کھایا ،ڈول کیوں نہ گایا؟

گال نہ تھا

جوتا کیوں نہ پہنا ،سنبوسہ کیوں نہ کھایا؟

تال نہ تھا

ر کیوں نہ چکھا ،وزیر کیوں نہ رکھا؟انا

۱۱دانا نہ تھا

اس کا مکھڑا بہت ہی ایک بہت مشہور گیت جو آج بھی اہل ذوق میں گایا جاتا ہے

خوبصورت ہے۔

لڑکی!اماں میرے باوا کو بھیجو جی کہ

ساون آیا

ماں: بیٹی تیرا باوا تو بڈھا ری کہ ساون

۱۲‘‘آیا

بھی کافی معروف ہوئے دوہےاسی طرح ان کے

ےچکوا چکوی دوجنے ان مت مارے کوئ

۱۳یہ مارے کرتار کے رین بچھونا ہوئے

نجم الدین امیر حسن عالء سنجری بدایونی: آپ میر حسن سنجری کے نام

امیر نجم الدین حسن کی والدت ’’سے پہچانے جاتے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق وبروایت دیگر بدایوں اتر پردیش میں ہوئی ۱۴ء میں دہلی میں ۱۲۵۵ھ/۶۵۳

Page 29: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

29

ؤ الدین معروف بہ عالئی سنجری سیستان سے ہجرت کر آپ کے والد عال۱۵۔

کے ہندوستان میں آئے تھے۔ امیر حسن سنجری اور امیر خسرو دنوں سلطان محمد کی فوج کا حصہ تھے اور پانچ سال ملتان میں گزارے۔ دونوں اکٹھے

گرفتار ہوئے۔ دونوں خواجہ نظام الدین اولیا کے مرید ہوئے۔ دونوں دکن بھی

وں فارسی کے عمدہ شاعر تھے۔ امیرسنجری کو شعر گوئی میں کمال گئے۔ دونحاصل تھا۔ جس بنا پر سعدئ ہندوستانی کہے جاتے تھے۔ امیر خسرو مختلف

درباروں میں مختلف عہدوں پر رہے لیکن امیر سنجری لشکر ہی میں رہے۔ آپ

ام نے عربی اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہے۔ فارسی اور ہندی کے انضمسے بھی اشعار کہے ۔ آپ نے اپنے مرشد حضرت نظام الدین اولیاء کے ملفوظات

قواعد ’’رکھا۔ عربی میں آپ نے ‘‘فوائد الفواد’’کو جمع کیا۔ اور مجموعہ کا نام

کے عنوان سے ایک کتاب لکھی اور مثنوی خواجہ نظام الدین بھی آپ کی ‘‘النحو ستیاب نہیں لیکن ریختہ کی صورت تصنیف ہے۔ ہندی میں آ پ کا اگرچہ کالم د

موجود ہے۔میں

ہر لحظہ آید در دلم دیکھوں اسے ٹک جائے کر

کایت ہجر خود بآں صنم جیو گویم ح

۱۶ الئےبس حیلہ کردم اے حسن بے جاں شدم

ازدم بدم

کیسے رہوں تجھ جیؤ بن تم لے گئے ۱۷سنگ الئے کر

نہ مہر نہ نہ صبر نہ طاقت تجھے

عادت ہے تجھےگوید حسن یہ ریختہ سنسار دیکھوں

۱۸کیوں جلے

امیر حسن سنجری نے سلطان محمد تغلق کے ہمراہ دولت آباد کا سفر کیا۔ ء میں دولت آباد میں ہی ۱۳۳۷ھ / ۷۳۸ء میں وہاں رہائش پذیر ہوئے اور ۱۳۲۶

لکھا ۲۰ء ۱۳۳۵ھ / ۷۳۶ ڈاکٹر روبینہ ترین نے سن وفات ۱۹وفات پائی۔ ہے۔ جب کہ نظامی بدیوانی نے تذکرہ مراۃ الخیال کے حوالے سے سن وفات

تحریر کیا ہے۔ جو کسی صورت بھی درست قرار نہیں دیا ۲۱ھ ۷۰۷ء /۱۳۰۷

ء میں، اور آ پ کے مرشد خواجہ نظام ۱۳۲۵جاسکتا ۔ کیونکہ امیر خسرو نے ر حسن سنجری دل برداشتہ ہو ء میں جب وفات پائی تو امی ۱۳۲۵الدین نے بھی

ء میں دولت آباد) دکن( گئے۔۱۳۲۶کر

فیروز شاہ بہمنی: سلطان تاج الدین فیروز شاہ سالطین بہمینہ کا آٹھواں سلطان داؤد کا بیٹا تھا۔ سلطان شمس الدین کو معزول اور قید کر ’’ حکمران تھا۔ وہ

Page 30: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

30

سلطان فیروز شاہ ھ میں تخت نشین ہوا۔ اور ۸۰۰ء مطابق ۱۳۹۷نومبر ۱۵کے

جامع اردو انسائیکلو پیڈیا کے مقالہ نگار نے ۲۲‘‘روز افزوں کا لقب اختیار کیا۔ فیروز شاہ بہمنی کو احمد خان کا بیٹا اور عالؤ الدین حسن گنگو کا پوتا لکھا ہے۔

لیکن نظامی بدایونی نے احمد خان کو فیروز شاہ کا بھائی لکھا ہے جسے ۲۳

جب کہ پہلے وہ امیر اال ۲۴بعد خانخاناں کا خطاب دیا۔ تخت نشین ہونے کےمرا تھا۔ فیروز شاہ نے کئی زبانیں سیکھیں۔ گلبرگہ سے بیس میل دور فیروز نامی

شہر آباد کیا۔ اور اپنی حکومت میں رائج ہر زبان سے تعلق رکھنے والی ا یک

ور اس زبان ایک خاتون سے شادی کی۔ ان کے لیے علیحدہ علیحدہ محل بنوائے اکی جاننے والی خادمائیں مقر ر کیں۔اپنی ہر بیگم سے اس کی زبان میں گفتگو

فیروز شاہ عربی ،فارسی ،ترکی اور دکھنی )اردو( زبانوں میں ۲۵‘‘کرتا تھا۔

شعر کہتا تھا۔ فارسی میں صاحب دیوان تھا۔ ابتدا میں وہ عروجی تخلص کرتا تھا ے بعد اس نے اپنا تخلص فیروزی رکھ لیا۔ لیکن تخت شاہی پر متمکن ہونے ک

دکھنی اردو میں بہت کم کالم دستیاب ہوا ہے۔ سیدہ جعفر نے اس کی ایک رباعی

:نقل کی ہےتجہ مکھ چندا جوت، دسے سارا

جیوں

تج کان پر موتی، جھمکے تارا جیوںفیروزئ عشق کوں ٹک یک چاکن

دے

پارا تج شوخ ادھر لب رہے شکر؎۲۶جیوں

فیروزی نے غزل بھی کہی اور اس کی غزل کی شیرینی ،رنگینی و دلکشی ال

جواب ہے۔ نئی تشبیہات اور انوکھے استعارات کی مدد سے اس نے اپنی دلی کیفیت کو پر اثر انداز میں پیش کیا ہے۔

ں چنچل رت چال سوں مٹکی چلنت می ہنس کو ہٹکی

کہ مکھ پر لٹ یوں لٹکی جو دھن پر ناگ چل بولتا

سہ منج انک دل بدل سر سے سو

شعلے آگ کے برسےبھوت فیروز ی اب ترسے سوکاہے

۲۷میکہ نہیں بھولتا

بابر کے بعد ہمایوں کا دور آتا ہے۔ ہمایوں کو بھی اگرچہ علم و ادب ورثے میں مال تھا۔ اور اس کے فارسی اشعار کتب میں موجود ہیں۔ او رخوش معرکہ

Page 31: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

31

زیبا کی جلد دوم میں سعادت خان ناصر نے اردو کے چند اشعار بھی نقل کیے

اس نہیں ہوتا بلکہ یوں ہیں۔ لیکن انھیں پڑھ کر ہمایوں کے عہد کی اردو کا احسلگتا ہے کہ یہ اشعار انیسویں صدی کے کسی ہمایوں نامی شاعر کے ہیں۔ اس لیے

انھیں مقالے کا حصہ بنانے میں ہچکچاہٹ کے باعث شامل نہیں کر رہا۔ اسی

طرح اکبر کو روایت میں شامل کرنے کا عمل میں بھی اس لیے کیا کہ اکبر کی جا سکتا۔ اس سے منسوب اشعار بھی کچھ اسی خدمات کو تو فراموش نہیں کیا

تذبذب کی بھینٹ چڑھانے پڑے ۔ حاالنکہ ان اشعار کا لب ولہجہ عہد اکبری کا ہی

ہے۔ یہاں اکبر اعظم کا اس حوالے سے بھی ذکرضروری ہے کہ اس نے فوج کی تشکیل نو کی۔ اکبر سے پہلے بڑے بڑے فوجی سردار اپنے دستوں کو لے کر اس

پہنچ جاتے تھے ۔بادشا ہ انھیں بڑی بڑی جاگیریں دیتا تھا۔ جن کی آمدنی کے پاس

سے وہ اپنے فوجیوں کو تنخواہ دیتے تھے۔ سرداروں اور جاگیر داروں کے اس نظام میں تعصب جیسی بہت سی خامیاں موجو د تھیں۔ اکبر نے اس نظام کو بدل

درجے ۳۳ین کے کر نظام منصب داری کو رائج کیا۔ اکبر نے سرکاری مالزم

مقرر کیے۔ ہر درجے کے لیے اصول مرتب کیے۔ چھوٹے سے چھوٹا منصب دس کا اور بڑے سے بڑا دس ہزار کا ہوتا تھا۔ ہر سول افسر سے بھی فوجی

اور جب ضرورت محسو س ہوتی تو انھیں ۲۸خدمات کی امید رکھی جاتی تھی۔

وتے لیکن وہ صرف دس بھی میدان جنگ میں بھیجاجاتا۔ یوں وہ منصب دار ہی ہسے چار سو تک کا درجہ رکھنے کے اہل ہوتے ۔پانچ سو سے اڑھائی ہزار تک

کا درجہ حاصل کرنے والے امیر اور تین ہزار سے اوپر کا درجہ پانے والے

امیر االمراء کہالتے تھے۔ یہ مناسب بادشاہ خود دیتا تھا ۔بادشاہ نے نقائص کو دور داغ جیسے طریقے اختیار کیے۔ منصب داروں کرنے کے لیے معائنہ چیرااور

کے عالوہ احدی،داخلی ،مستقل اور راجاؤں کی فوج کی تقسیم تھی۔ مستقل فوج

میں پیدل ،توپ خانہ، بحری اور جنگی ہاتھی ہوتے تھے۔اکبر اعظیم کے اس عسکری نظم نو کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو

ے۔اور خاص طورپر اس کے درباری تو فوج کا دائرہ بہت وسیع دکھائی دیتا ہ

کسی صورت دائرہ فوج سے خارج نہیں سمجھے جا سکتے تھے۔ ایک تو یہ کہ وہ سفر ،حصر میں اکبر کے ہمراہ ہوتے تھے۔ میدان جنگ میں داد شجاعت بھی

دیتے تھے اور انھیں الگ کمان دے کر مہمات پر بھی روانہ کیا جاتا تھا۔ اس افراد عسکری خدمات ادا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ زمرے میں اگرچہ بہت سے

اور ان میں اہل قلم کی تعداد بھی کافی ہوگی۔ لیکن نہ تو ان سب کا احاطہ محققین

اور مورخین نے کیا ہے۔ او رنہ ہی اب ان کا شمار ممکن ہے۔عشق خان عشقی: اکبر کے دور کا ایک شاعر جو میر بخشی کے عہد ے

پر فائز تھا۔ میر بخشی اگرچہ ایک ایسا عہدہ تھا جو فوج میں تنخواہ تقسیم کرنے

کا ذمہ دار تھا۔ لیکن میدان جنگ میں یا عسکری ضروریات کے تحت وہ اس کا حاسب کے ساتھ بھی پابند تھا کہ جنگ کے دوران دستوں کی کمان کرے۔ وہ م

Page 32: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

32

ساتھ ایک عسکری منصب دار بھی ہوتا تھا۔ عشق کی تاریخ پیدائش کے بارے میں

اور مقام پیدائش کے بارے میں تاریخ خاموش ہے۔ انداز ے سے لکھا جاتا ہے کہ درج کی گئی ہے۔ آپ کے ۲۹ء ۱۵۸۲ھ/۹۹۰دہلی میں پیدا ہوا۔ البتہ تاریخ وفات

سردو گرم ’’ا ہوا ہے۔ البتہ فارسی کا ایک قصیدہ حاالت زندگی پر بھی پردہ پڑ

آپ سے منسوب ہے۔ اس قصیدہ میں فارسی کے عالوہ اردو )ہندی( اور ‘‘ زمانہترکی زبان میں بھی کچھ اشعار شامل ہیں۔ ترکی کے ان اشعار سے یہ اندازہ لگا

ہ کر یا جا سکتا ہے کہ آپ بابر کے ساتھ آئے ہوں گے اور ہندی اردو زبان یہاں ر

سیکھی ہو گی۔اس قصیدے میں وہ ایک پتے کی بات کرتا ہے کہ جس شخص کی جاگیر بحال ہے اور اس کے پاس دولت موجود ہے۔ ہر شخص اس کے آگے

پیچھے پھرتا ہے۔ اور جس کے پاس دولت یا جاگیر نہیں ہے تو ہر شخص اس

بیوی وستانیسے آنکھیں چراتا ہے۔ اس کی مثال اس نے ترکی ، تاجک اور ہندخوشحال آدمی جب اپنے گھر جاتا ہے تو ۔اس کا کہنا ہے کے حوالے سے دی ہے

بیویاں آنکھیں بچھاتی ہیں اوردیدہ و دل فرش راہ کرتی ہے۔ ترکی بیوی اسے

ترکی میں دعائیں دیتی ہیں۔تاجک بیوی فارسی میں کلمات خیر کہتی ہیں ا ور جب : ہ کہتی ہے کہہندوستانی بیوی سے آمنا سامنا ہوتا ہے توو

بھی کرتی ہوں : میں ہو کرتے پیار کو مجھ جو تم

تمہارہ پیاراوس اوپر لیت جیوں پاؤں : اپنے کوٹھے پہ میں بچھاؤں پلنگ

پسار

لیکن بد حال مرد جب گھر آتا ہے تو ہر بیوی پھٹ پھٹ کرتی ہے اور اس کی : یسے شخص سے ہندوستانی بیوی کہتی ہے کہزندگی عذاب کر دیتی ہے۔ ا

زن ہندی زیک طرف گوید

تیری ماں کولی تیرا باپ چمار

جھوٹھ تجھ تھیں بہت سنا مت بول

سچ ترا ہوں کہوں مرا مت مار

کے منہ سے کہلوائے گئے ہیں۔ اس زمانے کی ‘‘ زن ہندی’’یہ اشعار جو

زمرہ کی بات چیت کو سامنے التے ہیں اور یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ رو اس سے ہمیں ۳۰عورتیں گھروں میں ایسی ہی زبان میں بات چیت کرتی تھی

اندازہ ہوتا ہے کہ تب تک زبان کس قدر صاف ہو چکی تھی۔

راجہ ٹوڈر مل: ذات کا کھتری تھا اس کے وطن کی بابت مؤرخین میں اختالف بعض موضع الہر عالقہ اود ھ کا ہتے ہیں کہ الہور کا سکونتی تھا۔ہے۔ بعض ک

ء میں چونیاں ضلع قصور کے مشرقی ۱۹۷۲ راقم نے ۳۱رہنے واال بتاتے ہیں۔

جانب ایک اکیال نہایت ہی خستہ حالت میں دو منزلہ مکان دیکھا تھا جو ایک کھنڈر بن چکا تھا۔ اس کے بارے میں روایت تھی کہ راجہ ٹوڈر کا محل ہے۔ اس

ٹوڈر ’’کی تصدیق ڈاکٹر محمد ریاض انجم کی اس تحریر سے بھی ہوتی ہے کہ

Page 33: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

33

دے تاریخی قصبے چونیاں دے سنیک سن۔ایسے قصبے مل راجہ ہوریں قصور

۳۲دے بٹیاں دے نشان اج وی شہروں باہر چڑھدے پاسے کھلرے ہوئے نیں۔ شہنشاہ اکبرکے ۳۳ء کو بھگوتی داس کے ہاں پیدا ہوا۔ ۱۵۲۳ھ/۹۲۹ٹوڈرمل

منشیوں میں داخل ہوا تو تھوڑے ہی عرصہ بعد اکبر نے اسے بھانپ لیا۔ اور خیال

صدی گری کے عالوہ یہ سپاہ گری اور سرداری کی اہمیت بھی رکھتا کیاکہ متہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹوڈر مل کو بادشاہ اکبر نے مہمات پربھیجا۔ جہاں سے وہ

ء ۱۵۸۵ھ/۹۹۳ء میں اسے سند وزارت ملی اور ۱۵۷۲ھ/۹۷۹کامیاب واپس لوٹا۔

اور میں اسے چار ہزاری منصب دیا گیا ۔ راجہ ٹوڈر مل نے وقت، مشاہدےاس نے زمین کی پیمائش کا باضابطہ نظام رائج ’’مطالعے سے بہت کچھ سیکھا۔

ھ میں فوج کی تنخواہ کے چند آئین باندھے اور اس میں ۹۸۸ اس نے ۳۴۔ ‘‘کیا

حساب کتاب دفتر کے قواعد لکھے۔ اس نے حساب میں ایک رسالہ بھی لکھا۔ ھ مطابق ۹۹۸محرم ۱۱ اس کی کتاب خازن اسرار بھی کافی مشہور ہے۔ ۳۵

ء کو ایک کھتری نے اس عداوت سے کہ اس کو کسی بد ۱۵۸۹فروری ۱۰

اعمالی کی راجہ نے سزا دی تھی رات کے وقت تلوار سے اس کا کام تمام کر دیا راجہ ایک بہترین منتظم ،ایک بہادر سپاہی اور فارسی و ہندی کا ادیب ۳۶تھا۔

بھی اس کی مثبت سوچ کی گھالوٹ اور شاعر تھا۔ اس کی شاعری میں سے

محسوس کی جا سکتی ہے۔ گن بن جیون کمان گن بن جیسے گیان

مان بن دان جیسے جل بن سر ہے

تاربن تنتر جیسے سیانے بن منتر جیسے

۳۷پتی بن ناری جیسے پتر بن گھر ہے

سے بعض برہمن بیر یر یا بیربل: اصل نام مہیش داس تھا۔ قوم کی نسبت اور بعض بھاٹ بتالتے ہیں۔ کالپی کا رہنے واال تھا۔ ابتدا میں مثل دیگر بھاٹوں یا

والد کا نام ۳۸منگتا برہمنوں کے کبت پڑھ پڑھ کے بھیک مانگتا پھرتا تھا۔

ء میں اکبر بادشاہ کے دربار پہنچا ۱۵۶۲سوبیر تھا ایک خدمت گار کے ذریعے الشعراء ( اور بیر یر کے خطابات سے نوازا گیا۔ اور عزت پائی۔ کب رائے)ملک

بعد ازاں منصب دو ہزاری ۳۹گھوڑوں کا منصب دیا گیا۔ ۲۰۰شروع میں اسے تک پہنچا۔ صاحب سیف و القلم بھی خطاب میں شامل تھا۔ اکبر کی طرف سے

سفارت کے فرائض بھی انجام دئیے۔ اور مہمات میں سپہ ساالر کے فرائض بھی۔

ء میں مہم سواد و با جوڑ پرزین خان کو کہ سپہ ساالر بنا کر ۱۵۸۴ھ /۹۹۳بھیجے گئے۔ انھوں نے وہاں سے امداد کے واسطے لکھا۔ دربار میں تجویز در

چنانچہ یوسف زئی ۴۰پیش تھی۔ بیربل فور آبول اٹھا کہ غالم کو بھیج دیا جائے۔

روانہ کر دیا گیا قبیلے کی سرکوبی کے لیے اس کو زین خان کی امداد کے لیےمگر رہنمائی نہ ہونے کے باعث تنگ راستوں میں گھر گیا۔ اور مارا گیا۔ یہ واقعہ

بیر بر چونکہ ایک بھنڈ بھاٹ تھا۔ جو اپنی ۴۱ء کو پیش آیا۔ ۱۵۸۶فروری ۱۷

Page 34: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

34

پہیلیوں ،کبت ، لطائف اور بے تکی باتوں سے اکبر کو خوش رکھتا تھا۔ لہذاا س

مال ’’اثاثہ چھوڑا وہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ایک پہیلی نے اردو زبان میں جو :مالحظہ ہو‘‘ پوا

گھی میں غرق سودا میں میٹھا

بن بیلن وہ بیال ہے

کہیں بیر برسنیں اکبر

۴۲یہ بھی ایک پہیال ہے

مولوی علی محمد اور رام دتہ مل نے بیر بر کے حاالت زندگی لکھتے ہوئے اس

ھ کالم کو بھی شامل کر دیا ہے۔ بیربر کا شاعرانہ مذا ق ،کے حوالے سے کے کچ

:انھوں نے دو ہے نقل کیے ہیں گور گپت ،سمر پرشاد روسیس نوائے

پن بندو گروپد کمل اور راج سیس

چڑھائے

سو جہم ودیا بدہ لکھ ساگر کیو بچار

43رگھبر پار گنگھائے ہیں اپنے اور نہار

ایک دفعہ اکبر بادشاہ نے بیر بر سے کہا کہ میں نے ایک مصرع کہا ہے تم اس کے ساتھ دوسرا مصرعہ لگا دو ۔ نہیں تو بری طرح پیش آؤں گا۔ بیربر نے

عرض کی:جہاں پناہ ! مصرع ارشاد فرمائیے،بادشاہ نے پڑھا۔ درد پیدا ہو گیا یاں ہاتھ میں واں پاؤں میں

بیر بر نے عرض کی ،حضور جیسا شعر آپ کو چاہیے ویسا ہی تیار ہو گیا ہے ۔ بادشاہ نے کہا ، اچھا سناؤ ،بیر بر نے کہا ذرا غور سے سنیے اور

انصاف سے داد دیجیے۔ کیا برجستہ مصرع موزوں ہو کر شعر بن گیا ہے۔ رات بھر طبلہ بجایا تم نے وہ ناچا کیے

یدا ہو گیا یاں ہاتھ میں واں پاؤں میں درد پ

۴۴

اس شعر کی روانی او رلفاظی سے نیز برجستگی کو دیکھ کر اسے اکبر

کے دور کا شعر کہنا کچھ عجیب سا ہو گا لیکن عین ممکن ہے کہ اتنی روانی اور ی ہو۔ سالست پائی جات

ایک دن اکبر بادشاہ نے بیربر سے فرمایا:کس کا رن یہ ناچے گدھا۔بیر بر نے عرض کی ، آگے ناتھ نہ پیچھے

پگا

۴۵اس کا رن یہ ناچے گدھا

اس طرح کی تک بندی ،دوہے ،کبت اور منظوم واقعات کی کئی مثالیں مؤرخین نے نقل کی ہیں۔

مرزا عبدالرحیم خان خاناں: ہندی اردو شاعری کی شروعات میں اکبر اعظم کے

خان کے الئق فرزند مرزا عبدالرحیم کانام بڑے احترام سے لیا سپہ ساالر بیرمجاتا ہے۔ آپ کی تاریخ پیدائش میں مؤرخین کے درمیان اختالف پایا جاتا ہے۔ لیکن

Page 35: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

35

بڑے اعتماد سے ۴۶ء ۱۵۵۶دسمبر ۷ھ مطابق ۹۶۴صفر ۱ ۴یوسف متاال نے

صاحب ۴۷ء شخصیات عالم کا انسائیکلوپیڈیا کے مؤلف ۱۰۰۱نقل کی ہے۔ اور دربار اکبری ۴۹ مقالہ نگار جامع اردو انسائیکلو پیڈیا۴۸قاموس المشاہیر

کے مصنف بھی اس سے متفق ہیں۔ جب کہ ڈاکٹر سہیل بخاری نے تاریخ ۵۰

تحریر کی ہے۔ اور ڈاکٹر صمدی نے بھی اس کی تائید کی ۵۱ء ۱۵۵۳والدت یں ہوئی۔ تیسرا قول یہ ہے کہ ء م۱۶۱۰ہے ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ان کی پیدائش

۲۱ھ بمقام الہور ہوئی۔ قوم کے ترکمان تھے ۔ ۹۶۴صفر ۱۴ان کی پیدائش

سال ۷۲ء اس دنیائے ناپائیدار سے ۱۶۳۶ھ /۱۰۳۶جلوس جہانگیری میں مطابق اگر صمدی کی تاریخ پیدائش کو درست ۵۲کی عمر میں راہی ملک بقا ہوئے۔

ء تاریخ پیدائش بنتی ۱۵۶۴منہا کرنے سے ۷۲ء سے ۱۶۳۶سمجھ لیا جائے تو

منہا کیا جائے تو ۷۲ھ سے ۱۰۳۶ہے جو کسی صورت درست نہیں اور اگر میں سن عیسوی ہے۔ اب ۵۳ ۱۵۵۶نکلتا ہے جو تقویم تاریخی کے مطابق ۹۶۴

ھ سن عیسوی کیا تھا؟ توعبدالقدوس ہاشمی کی ترتیب ۱۰۳۶یہ دیکھنا ہے کہ آیا

ء بنتی ہے۔ ۱۶۲۷ے مطابق عبدالرحیم خان خاناں کی وفات اپریل ،تقویم تاریخ کھ یا ۱۰۳۶ ڈاکٹرسہیل بخاری کے عالوہ دیگر ناقدین کسی نہ کسی صورت ۵۴

۵۵ء)دہلی( ۱۶۲۵ء پر متفق ہیں۔ ڈاکٹر سہیل بخاری نے تاریخ وفات ۱۶۲۷

لکھی ہے۔شہید عبدالرحیم خان خاناں صرف چار سال کے تھے جب ان کے والد کو

کیا گیا۔ خانخاناں کی تربیت خود بادشاہ نے کی ۔سن تمیز کو پہنچے تو مرزا خان

کے خطاب سے سرفرازہوئے۔ اکیسویں سال جلوس اکبر ی میں گجرات کے صوبہ دار، پچیسویں سال میں میر عرض اور اٹھائیسویں سال میں شاہزادہ سلیم

انھوں نے کئی معرکے سر کئے فوجی قابلیت کی بنا پر ’’ کے اتالیق مقرر ہوئے۔

اور شاندار فوجی خدمات کے صلے میں بڑے بڑے صوبے اور قلعے جاگیر میں ۵۶پائے۔ یہاں تک کہ اکبر کے سپہ ساالر اعظم اور وزیر اور نورتن ہو گئے۔

شہنشاہ اکبر ،خان خاناں کی بہت عزت کرتا تھا۔ اور ہفت ہزار ی منصب سے بھی

شہزادوں کے لیے مختص تھا لیکن اکبر کے بعد جہانگیر نوازا تھا جو عام طورپرنے ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ خان خاناں کے بارے میں مؤرخین متفق ہیں

کہ وہ شریف النفس ،نیکو کار ،رحم دل اور سیدھے سادھے انسان تھے۔ انھوں حضرت مجد دا لف ثانی اور شیخ عبدالحق ’’نے زندگی بھر غصہ نہیں کیا۔

حدث دہلوی سے بھی آپ کی خط و کتاب رہی ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ م

ان کی سخاوت بہت بڑھی ۵۷‘‘ امارت کے باوجود آپ کا دینی شعور بیدار تھا۔ہوئی تھی لیکن اس میں نام و نمود کا کوئی لوث نہیں تھا۔ سال بھر کے بعد ایک

۵۸‘‘ مقررہ دن پر تمام دولت خیرات کر دیتے تھے۔

خاناں اوائل عمری سے ہی علما کے قدردان تھے وہ اہل تصنیف اور خان شعراء کو بھی عزیز رکھتے تھے ۔خودبھی ترکی، فارسی اور ہندی )اردو (کے

Page 36: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

36

زبان عربی سے واقف تھے اور بے تکلف بولتے تھے۔ زبان ترکی ’’ شاعر تھے۔

ر جواب، اور فارسی جو ان کے باپ دادا کی میراث تھی اسے جانے نہ دیا۔ حاضلطیفہ گو، بذلہ سنج، بلبل ہزار داستان تھے۔ سنسکرت میں بھی اچھی لیاقت حاصل

یوں تو ہر زبان میں شعر کہنے کی قدرت تھی لیکن انھوں نے ہندی ۵۹‘‘ تھی۔

اور فارسی کے عالوہ کسی اور طرف خاص توجہ نہیں دی۔۔۔ ان کا شمار ہندی نے احمد آباد میں ایک عظیم آپ۶۰کے صف اول کے شعراء میں ہوتا ہے۔

کتب خانہ قائم کیا۔ اس میں ہر صنف کی نادر کتابیں دسیتاب تھیں۔ اس کتب خانے

کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس عہد کے اکثر مشہور شعراء کے قلمی دو اوین خود انھیں کے ہاتھ کے لکھے ہوئے موجود تھے۔ او ران کی دیکھ بھال کے

خان خاناں رحیم ۶۱شاعروں کو مامور کیا گیا تھا۔لیے معروف اور مشہور

،رحیمن ا ور رحمن تخلص کرتے تھے۔ فارسی میں عام طورپر رحیم اور ہندی )اردو (میں رحیمن یار حمن تخلص کو فوقیت دیتے ۔ آپ کی تقریبا گیارہ تصانیف

دستیاب ہوئی ہیں۔ دوہے میں انھیں خاص مہارت تھی۔ اخالقیات کے حوالے سے

ھے ہوئے ان کے بے شمار دوہے ضرب المثل بن چکے ہیں۔ ان کی تصانیف لکمیں رحیم دوہالی یا، ست سٹی ،بروے ناٹکا بھید، شرنگار سورٹھ، مد ناشٹک

،راس پنچ ادھیائی ،نگر شوبھا، پھٹکر بروے ،پھٹکر کبت ، سویتے ،رحیم کا ویہ

شامل ہیں۔ ‘جاکتم کھٹیا کوتک’ اور سنسکری فارسی اور ہندی میں مال جال کالمء ( اور رحیم ۱۹۲۸ان کے عالوہ دو کتابیں جو انتخاب ہیں۔ رحیم اتنا ولی )

ء( میں شائع ہوئیں۔آپ کی تحریروں کا ایک انتخاب رحیمن آشٹک ۱۹۴۸والس)

ء میں بھی شائع ہوا۔ اپنے اس تخلیقی کام کے عالوہ جس نے ۱۸۳۱کے نام سے ی کافارسی ترجمہ ہے۔ اور جسے آپ نے آپ کو ادب میں زندہ رکھا وہ تزک بابر

ھ میں ترجمہ کر کے پیش کیا ۔آ پ نے گیتا کا فارسی ۹۹۷اکبر کے حکم سے

:ترجمہ بھی کیاآخری عمر میں جب جہانگیر نے اپنی کسی مصلحت کی بنا پر رحیم کو قید کر دیا

اور مال و متاع ضبط کر لیا ۔رحیم کو جیل خانے کے اندر بڑی بڑی مصیبتیں

یلنا پڑیں۔جب وہ وہاں سے چھوٹے تو چتر کوٹ چلے گئے مگر لوگ پھر بھی جھپیچھے پیچھے لگے رہتے تھے۔ آخر کار انھوں نے ایک بھکاری سے تو اک بار

صاف صاف کہہ دیا۔ یہ رحیم دردر پھریں مانگی مدھکر کھائیں

یارو یارو چھوڑ دو دے رحیم اب ناہیں

۶۲

ان سے کی۔ الرحیم خان خاناں نے ہندی )اردو( کی خدمت دل و جمرزا عبد :بطور نمونہ مالحظہ ہوں دوہے،دوان کے کالم میں سے

رحمن دانی در در ہو ے تو جانچے جوگ

جیوں سر تن سوکھا پرے کنواں کھداوت

Page 37: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

37

لوگ

کھیر، کھون، کھانسی، کھسی، بیر، پریت،

مدھومان

دبے جانت شکل جہان رحمن دابے نہ

سلطان محمد قلی قطب شاہ: گولکنڈہ کا پانچواں تاجدار، سپہ ساالر افواج

گولکنڈہ ابو المظہر سلطان محمد قلی قطب شاہ اردو ادب کا پہال صاحب دیوان

،مرتب مصور ۶۴ مرتب صر یر خامہ ۶۳ء میں پیدا ہوا۔ ۱۵۶۵ھ /۹۷۳شاعر نے بھی اس کی تائید کی ۶۶ائف نمبر مرتب فن اور شخصیت کو۶۵تذکرے

تحریر کیا ۶۷ء ۱۵۶۵ہے۔ جامع اردو انسائیکلو پیڈیا کے مقالہ نگار نے اپریل

ھ آتا ہے۔ لیکن اس ۹۷۳ میں بمطابق ۶۸ء ۱۵۶۶ہے۔ جب کہ اپریل کا مہینہ نے ۷۰ اور اردو شاعری کا البم کے مؤلف ۶۹کے برعکس زبیر رضوی

ء سن پیدائش لکھا ہے۔ آپ اپنے والد محمد ابراہیم قطب شاہ کی ۱۵۶۳ھ /۹۷۱

۷۱ء۱۶۱۱ھ /۱۰۲۰ھ میں تخت نشین ہوئے اور ۹۸۸ء /۱۵۸۰جون ۵وفات پر یعنی اپنی وفات تک متمکن رہے۔ آپ کا دور حکومت ترقی علم و فن کے لحاظ

جس میں’’ سے خاص طورپر مشہور ہے۔ سلطان کو فن تعمیر کا بھی شوق تھا۔

اس نے غیر معمولی دلچسپی دکھائی۔ چار مینار، دولت خانۂ عالی، خداداد محل، محل کوہ طور، سجن محل، اعلی محل، حیدر محل، حنا محل اور جامع مسجد

۷۲۔ ‘‘جیسی عمارات اس کی یادگار ہیں

سلطان محمد قلی قطب شاہ پرگواور قادر الکالم شاعر تھا۔ اس نے اپنی :استعمال کیے جو حسب ذیل ہیںپہچان کے کئی تخلص

محمد ،محمد شاہ ، محمد قلی ، محمد قطب ، قطب ، قطبا ، قطب زمان ،

قطب شاہ ، قطب شہ ، محمد قطب شہ ،محمدقطب شہ غازی، محمد قطب شہ راجہ، محمد قطب شاہ سلطان، قطب شاہ نواب، معانی ، قطب معنی ، قطب معنا،

کے معروف تخلص ہیں۔ اس کے دربار میں بڑے اس۷۳قطب معانی ،ترکمان

بڑے مشہور شعراء اور ادباء جمع رہتے تھے۔ وہ خوددکھنی )اردو(تلنگی اور فارسی زبان میں شعر کہتا تھا۔ لیکن دکھنی اردو کو اس نے فوقیت دی۔ اس کے

بجز زبان کے تغیر و شستگی ’’دور میں دکھنی نے بہت ترقی کی۔ اس کا کالم رے شاعر سے کم نہیں ۔ عشق سر مستی اور تصوف سے کالم کے کسی دوس

معمور ہے ۔۔۔۔وہ نہ صرف اردو شاعر ہیں۔ جنھوں نے اردو میں غزل ،مثنوی ،

قصیدہ اور مرثیہ لکھا بلکہ اس محدود دائرے سے نکل کر آزاد روی او رجدت کا نی انھوں نے اپنے مشاہدات کو کام میں ال کر انسا۷۴‘‘مسلک اختیار کیا۔

معاشرت او رمناظر قدرت پر بھی نظر ڈالی۔ ان کی مثنویوں میں جہاں پھولوں ،

میووں، سبزیوں ، ترکاری اور شکاری پرندوں کا بیان ہے۔ وہاں شاہی محلوں، شادی بیاہ، سالگرہ کی تقاریب،شب برات، عید، ہولی، دیوالی ، کھیل ،موسم اور

محمد قلی قطب شاہ نے ۷۵ود ہے۔ لوازمات شاہی نیز تیوہاروں کا ذکر بھی موج

Page 38: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

38

اپنی پیاریوں کے جو دلکش اور جاذب نظر مرقعے پیش کیے ہیں۔ انھیں اردو

لین نقش کہا جا سکتا ہے۔ اس کی پیاریوں کی تعداد شاعری میں سراپا نگاری کا اوبھی اس کے کلیات سے پتہ چلتی ہے۔ اور ان کے نام بھی جیسے ننھی، ساؤنلی

گوری، چھبیلی ، الال،اللن ،موہن ،حیدر محل، محبوب، مشتری ، ،کونلی، پیاری،

ان بارہ پیاریوں پر نظمیں ملتی ہیں۔ دوسری پیاریوں کے نام ہیں۔ بلقیس زمانی، حاتم ،بہمنی ہندو، ہندی چھوری ،پدمنی، سندر ،سجن ،رنگیلی ان کے عالوہ کچھ

کسبن، نازنین حسیناؤں کا ذکر ذیل کی نظموں میں ملتا ہے۔ نور کی مورت،

،چنچل نین، ماہ ابرو، کعبہ رخ، سرو خوش قد، فتنۂ دکھن، ایک تلنگن سے دکن ۷۶کی پتلی۔

محمد قلی قطب شاہ نے غزل کے عالوہ مثنوی، قصیدہ، رباعی ،نظم و

موضوعاتی نظم،ترجیع بند حتی کہ کئی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ۔ اگر کالم آج کی زبان اور لفظوں میں ہوتا تو اسے جدیدیت کا مقام دیا جاتا۔ معانی کا

معانی کی غزل میں ایک اور انفرادیت جو دیکھنے میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس

کی غزل کے مقطع میں بزرگان دین کے نام اور خاص طورپر حضور نبی کریم یدت ملتاہے۔محمد قلی کا اسم گرامی اور حضرت علی کا نام نامی کا اظہار عقملسو هيلع هللا ىلص

قطب شاہ اس بات کاا ظہار بھی بڑے احترام اور ارادت سے کرتا ہے کہ دوسرے

ملسو هيلع هللا ىلص بادشاہ اپنی سلطنت اور مال و دولت پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن میں صرف محمدکے نام اور ان کے غالم ہونے پر فخر کرتا ہوں کیونکہ محض اسی وجہ سے

ہوں۔ہ ک اقبال مند بادشامیں بچپن سے کامیاب ہوں۔ اور آج ایکیا ڈر مجھے فرعون کا ہور سامری

افسون کا

موسی عصا زیتون کا ہے تیغ ربانی

۷۷مجھے

اردو زبان و ادب کے فروغ میں سلطان محمد علی قلی قطب شاہ کی

اولیت کو تب تک بحیثیت حکمران اور بحیثیت فرد خدمات کو بھالنا ور اس کی نہیں ان کی نہ ماننا جب تک کوئی نیا نام او ردیوان سامنے نہیں آتا ، ممکن

:کا نمونہ کالمشاعری صدقے قطب کن میں بچن کہہ جاتی کے منکرملسو هيلع هللا ىلص نبی

۷۸ سکیاں سب گواہی ہیں تو بات کرتی دیکھی حالی میں

ہے وہ محمد قلی قطب شاہ نے پیاریوں کے باب میں جو سراپا نگاری کی کے بارے میں اس کے ‘‘ ہندی چھوری’’بھی اپنی جگہ منفرد ہے۔ ایک پیاری

اسلوب سے باقی پیاریوں کے بارے خیاالت کو سمجھنے میں بھی سہولت ہو گی۔ لٹکنا بجلی نمنے اس سہارے

وہندہ چھوری بہو چھند شہ پری ہے

نبی صدقے ریجھائے قطب شہ کوں

Page 39: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

39

یں توں جیسی شہ پری ہے تو سکیاں م

۷۹؎

ابراہیم عادل شاہ ثانی: گولکنڈہ کے حکمران محمد قلی قطب شاہ کا ہم

عصر تھا اور یہی عہد جالل الدین اکبر کا ہے۔ گویا یہ برصغیر میں اردو زبان و ادب کے پھلنے پھولنے کا درخشندہ عہد تھا۔

امن میں ء کے لگ بھگ دولت کے د ۱۵۷۱سلطان ابراہیم عادل شاہ نے

آنکھ کھولی۔ وہ ابراہیم طہما سب کا بیٹا اور علی عادل شاہ اول کا بھتیجا تھا چونکہ علی عادل کی اوالد نہیں تھی۔ اس لیے ابراہیم عادل شاہ کو نوسال چند ماہ

اور نائب سلطنت کا عہدہ قائم کر کے مختلف ۸۰کی عمر میں تخت نشین کیا گیا۔

ن ، اخالص خان اور دالور خان کو یکے بعد دیگر اوقات میں کامل خان، کشور خا گویا جو ۸۱ے نائب بنایا گیا۔ سلطان ابراہیم کا ابتدائی دور جنگوں میں گزرا۔

زمانہ اس کے کھیل کود کا تھا ۔وہ اس نے میدان جنگ میں گزارا اور عساکر کی

ر کمان کی،نیز جووقت دارالحکومت میں میسر آتا وہ سلطنت کے نظم و نسق اودربار میں موجود علماء ، فضالء ،شعرا اورا دباء کی مصاحبت میں گزارتا۔ جس

کا اثر یہ ہوا کہ وہ خود ایک عالم اور شاعر کے طورپر بھی سامنے آیا اور

‘‘ جگت گرو’’موسیقی سے دلچسپی بھی اجاگر ہوئی۔ ان مشاغل کی بنا پر اسے کہا جانے لگا۔

ء(کے بعد عادل شاہ ۱۵۵۷ء۔۱۵۳۸ھ /۹۶۵۰ھ۹۴۵ابراہیم عادل شاہ اول)

ء( نے فارسی کو پھر دفتری زبان بنا دیا لیکن ۱۸۰ء ۱۵۵۷ھ/ ۹۸۸ھ۔ ۹۶۵اول )ادب و شعری کی سر پرستی بدستور قائم رکھی۔ جب ابراہیم عادل شاہ ثانی

ء( تخت نشین ہوا۔ تو ۱۶۲۷ء ۔۱۵۸۰ھ/۱۰۳۷ھ ۔۹۸۸‘‘ )جگت گرو’’المعروف بہ

ارہ رائج کر دیا ۔ اور اس کے بعد عادل شاہی اس نے دفتروں میں اردوکودوب ۸۲حکومت کے زوال تک اردو زبان ہی حکومت کے دفتروں کی زبان رہی۔

ء ۱۶۲۷ھ/۱۰۳۷سال کی طویل حکمرانی کے بعد ) ۴۹ابراہیم عادل شاہ ثانی نے

(وفات پائی اور بیجاپور میں دفن ہوئے۔ے خاص شہرت سلطان ابراہیم علوم و فنون کی سر پرستی کی وجہ س

رکھتے ہیں۔ فارسی اور دکھنی )اردو( میں شعر کہتے تھے۔ موسیقی سے رغبت

ہے۔ سلطان کو لفظ نورس سے بھی بڑا انس تھا۔ ‘‘نورس ’’کا ثبوت ان کی کتاب ھ میں نورس ۱۰۱۲ء ھ میں نورس کے نام سے ایک قلعہ بنوایا۔ ۱۰۰۵’’چنانچہ

ر پر لفظ نورس کندہ تھا۔ سکے پر پور کے نام سے ایک شہر آباد کیا۔ شاہی مہ

نورس مضروب تھا۔ درباری شاعر عبدالقادر کو نورسی تخلص عطا کیا تھا۔ ہر سال ایک جشن نورس کے نام سے منایا جاتا تھا۔ اسی مناسبت سے سلطان نے

۸۳‘‘اپنی تصنیف کا نام نورس رکھا۔

نورس راگت راگنیوں پر مشتمل گیتوں کی کتاب ہے اسے موسیقی کے حوالے سے اردو کی اولین اور اہم دستاویز سمجھا جاتا ہے۔ اس کتاب سے سلطان

Page 40: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

40

کے اعلی تخیل اور فطری شاعر ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ نیز پتہ چلتا ہے کہ

ا۔ نو رس کے نورس کا مصنف اپنی عالقائی روایات میں کس قدر دلچسپی لیتا تھگیتوں کے عالوہ سلطان ابراہیم عادل شاہ ثانی کی غزلیں ،قصائد، مثنوی اور

دیگر اصناف شعری میں لکھا گیا کالم بھی موجود ہے۔ نورس سے سیدہ جعفر

نے درج ذیل انتخاب نقل کیا ہے۔کےکالم میں سے چند اشعار مالحظہ ہوں۔ جگت تر گرو گسائیںملسو هيلع هللا ىلص حضرت محمد

رسا من و میر چمک گہ در تو ۸۴؎

’’ سلطان محمد قطب شاہ: سلطان محمد قطب شاہ کا بھتیجا اور داماد تھا۔ء کو تخت ۱۶۱۲ھ مطابق جنوری ۱۰۲۰ذی قعدہ ۱۷اپنے چچا کی وفات کے بعد

ذیل میں کے ۸۶ لیکن محمد انصار ہللا نے ظل ہللا ۸۵دکن پر جلوہ افروز ہوا۔

محمد قلی قطب شاہ کے حاالت تحریر کر دیے ہیں جو غلط ہیں۔ جامع انسائیکلو ء لکھا ہے اور والد ۱۶۲۶ء سے ۱۶۱۱پیڈیا نے مقالہ نگار نے زمانۂ حکومت

لیکن سہ ماہی فن اور شخصیت کے کوائف نمبر ۸۷کانا م محمد امین لکھا ہے

شرش بہ علی ابن ابی طالب ح’’ درج ہے۔ تاریخ وفات ۸۸ء ۱۹۲۵میں وفات ھ درج ۱۰۳۵ء نکلتی ہے۔ دکن میں ارد و میں سن وفات ۱۹۲۵سے ‘‘ باد

۸۹ہے۔

سلطان محمد قطب شاہ اپنے پیشروؤں کی طرح علم و فن اور شعر وسخن سے خاص دلچسپی رکھتا تھا۔ خود بھی شاعر تھا اور ظل ہللا بھی تخلص کرتا تھا۔

بادشاہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ جسے لہو و اسے ایک دیندار او رمذہب پرست

ء میں اپنے چچا محمد قلی قطب ۱۶۰۶لعب سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے شاہ کا دیوان مرتب کرکے اس پر جو منظوم دیباچہ لکھا وہی اس کے کالم کا

لیکن بقول محی الدین قادری زور یہ منظوم طویل دیباچہ ۹۰واحد نمونہ ہے۔

بنتا ہے۔ ۱۶۱۶ میں لکھا گیا جو ۹۱ھ ۱۰۲۵اگرچہ فن اور شخصیت کوائف نمبر کے مقالہ نگار نے تحریر کیا ہے کہ

اردو نظم و نثر میں خوب دستگاہ تھی ۔ فارسی کالم میں ظل ہللا اور اردو کالم ’’

میں قطب شاہ تخلص کرتے تھے۔ ان کے دو دیوان فارسی اور دکنی اردو میں لیکن ۹۲‘‘ د ہیں۔حیدر آباد میں نواب سر ساالر جنگ کے کتب خانے میں موجو

نصیر الدین ہاشمی اور دیگر مورخین نے کالم کی عدم دستیابی کا ذکر کیا ہے۔

آپ کی شاعری کا نمونہ درج ذیل ہے۔ کتا ہوں سنو اب کتک بین میں

کہ تاہوئے روشن کہ یو سب کے تئیس

محبت شہنشاہ کا دل میں آن

۹۳رتن کا آپس جیو تھے کھول کھان

Page 41: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

سلطان عبدہللا قطب شاہ: اپنے والد محمد قطب شاہ کی وفات کے بعد سریر

تمام مورخین نے تخت سنبھالنے کا سن ھ ۱۰۳۵آرائے سلطنت ہوا۔ تقریباء تحریر کیا ہے۔ لیکن مولوی ابوتراب محمد عبدالجبار نے جامع اردو ۱۶۲۵/

‘‘ سہ ماہی فن اور شخصیت۔کوائف نمبر‘‘ میں اردودکن ’’انسائیکلو پیڈیا جلد اول

وغیرہ سے اختالف کرتے ہوئے لکھا ہے ۹۴‘‘ماہنامہ زینت ۔شخصیات نمبر ’’،ھ میں تخت ۱۰۳۶ھ میں فوت ہوئے۔ اور عبدہللا قطب شاہ ۱۰۳۵کہ ان کے والد

اسی طرح عبدہللا قطب شاہ کی پیدائش کے حوالے بھی بہت کم ۹۵نشین ہوا۔

اور سیدہ جعفر نے ۹۶ھ ۱۰۲۳ں ۔ نصیر الدین ہاشمی نے البتہ ملتے ہیء ۱۶۱۴ھ/۱۰۲۳شوال ۲۸ کاسن لکھا ہے۔ نظامی بدایونی ۹۷ء ۱۶۱۸ھ/۱۰۲۸

جب کہ اس پر مولوی عبدالجبار نے تفصیل سے بات کی ہے۔ انھوں نے ۹۸

کی والدت با سعادت بتاریخ بست آپخ کے مؤلف کے حوالے سے قطب شاہی تاریسلطان محمد اور ولدیتھ میں بروز شنبہ حیدر آباد دکن ۱۰۲۳تم ذیعقدہ و ہش

بھی لکھے ہیں ۔ایک شعر تحریر کیا ہے نیز شعراء کے تہنیتی اشعار شاہب قط

اس طرح ہے۔ بباغ مجد و معالی گل نشاط شگفت

۹۹نہال دولت دیں را برے پدید آمد

ے میں بھی اختالف موجود ہے۔ مورخین نے بعینہ دور حکومت کے عرص

سال کا عرصہ لکھا ہے۔ آپ نے ربیع ۴۷،۴۸،۴۹،۵۰اپنی رائے کے مطابق

کو وفات پائی۔۱۰۱ھ ۱۰۸۳محرم ۳ و بر وایتے دیگر۱۰۰ھ ۱۰۸۳االول سلطان عبدہللا قطب شاہ ایک عرصے تک بادشاہ دہلی کا باجگزار رہا۔ لیکن میر

جملہ کے بیٹے کی گرفتاری پر دونوں میں ناراضی پیدا ہو گئی۔ اس پر شاہ جہان

ء میں دکن پر ۱۶۵۵ھ مطابق ۱۰۶۶نے اپنے پوتے سلطان محمد کی ماتحتی میں ئط پر صلح ہو گئی۔ سلطان فو ج کشی کی اورنگ زیب بھی پہنچ گیا اور کچھ شرا

عبدہللا نے مہمات سے وقت نکال کر اپنے فن تعمیر کے شوق کو بھی پورا کیا۔

اس نے کئی عمارات کی تعمیرکی ۔ باوجود ان مصروفیات کے وہ شاعری او رموسیقی کا بھی قدر دان تھا اور علم دوست تھا۔ اس کے دربار میں عرب و عجم

جیسی مشہور لغت اس کے ‘‘ برہان قاطع’’ے۔ کے علماء و فضالجمع رہتے تھ

عہد میں تالیف ہوئی۔ وہ خود بھی فارسی اور اردو میں شعر کہتا تھا۔ او ردونوں زبانوں کے دیوان مرتب کیے تھے۔ نواب ساالر جنگ کے قطب خانہ میں اس کے

آپ نے تقریبا ہر صنف سخن میں طبع ۱۰۲کلیات کا ایک محظوظہ محفوظ ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ زبان میں جو تبدیلی آرہی تھی اس کے ۱۰۳کی۔ آزمائیاثرات آپ کی شاعری میں بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ آپ کی زبان سلطان محمد

:قلی قطب شاہ کے عہد سے زیادہ صاف ہے۔ نمونہ کالم

عبدہللا شہ کوں ہے مدد ہللا نبی صدقے ؎۱۰۴کا ملسو هيلع هللا ىلصپنج تن ہیں گواہ باہلل دن دین محمد

Page 42: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

ترے ہونٹوں کے کنج میں

تل دیسا منج

مگر سر خسک نے پکڑی

۱۰۵پھول ماال

کے حاالت جہاں بہت کم دستیاب ہوئے ہیں وہاں ان کی تاریخ ک سید مبار

یری نےانہیں عہد عالم گ پڑا ہوا ہے۔ افسر صدیقی امروہویپیدائش پر بھی پردہ

: میں بخارا کا باشندہ لکھا ہے جچ نےقلعہ رام کیسر ،قلعہ اسیر اور قلعہ سلطان پورمیں یکے بعد دیگرے ’’

خدمات شاہی انجام دینے کے بعد محامد خان کی جگہ دولت آباد کے سر

ھ میں مرتضی خان خطاب اور سہ ہزاری منصب ۱۰۹۷براہ ہوئے۔

۱۰۶‘‘ ۔پائیھ میں وفات ۱۱۱۲حاصل کیا۔

پریم پرکاش کے عنوان سے ایک انجمن ترقی اردو کے ذخیرہ محظوظات میںلکھا ہے ۔اس میں سے افسر ھ1100مخطوطہ موجود ہے جس کا سن تصنیف

امروہوی نے کچھ اشعار مختلف حوالوں سے نقل کئے ہیں۔ سو دن آت رمضان کے پاپ دکھ سب جات

قدر کی راتپیہم الک نہجیں یہی لسل

:اسی نوع کا ایک بیت آخر میں ہے پیہم سو نعت کہی برباب

؎107بپر ختم کتاملسو هيلع هللا ىلص ختم نبی

چونکہ سید مبارک کا زمانہ اردو )ہندی( کی شروعات تھیں۔ تشکیل او تبدیلی سے رتبدیلی کا عمل جاری تھا۔ دہلی شہر سے باہر لوگ ابھی تک اس

مکمل آگاہی نہیں کر پائے تھے۔ جو دکن میں رو پذیر تھی ۔ لہذا یہ لہجہ اور زبان

بہر حال اردو کے ارتقا میں ایک کردار ادا کر رہے تھے۔ سید مبارک اور آپ جیسے بے شمار لوگ اس سلسلہ میں قدم بہ قدم آگے بڑھ رہے تھے۔ اور نئی

ی تھی۔زبان ان لوگوں کے توسط سے وجود پارہ

سلطان علی عادل شاہ ثانی شاہی : ریاست بیجا پور کے عادل شاہی ھ ۱۰۳۷حکمران خاندان کا چشم و چراغ اور آٹھواں فرمانروا،محمد عادل شاہ )

اگست ۲۷ھ ۱۰۴۸ربیع الثانی ۱۶ء( کا نور نظر ۱۶۵۷ھ/۱۰۶۷ء ۔۱۶۲۷/

ن پیدائش پیدا ہوا۔ لیکن جمیل جالبی کے مطابق س۱۰۸ء جمعہ کے روز ۱۶۳۸ ہے۔ معجز نامی شاعرنے جو قطعۂ تاریخ والدت لکھا وہ ۱۰۹ء ۱۶۳۷ھ /۱۰۴۷

ھ ہے۔۱۰۴۸بھی سن ہاتفے از نہ فلک از سر ذوق نشاط

‘‘ کوکب شوکت رسید’’مولد شہزادہ گفت ،

۱۱۰

۔ آپ کے والد محمد عادل شاہ کو علمی قدر دانی تو وراثتا عطا ہوئی تھی وہ علم و فن کا حامی اور علماء کا مربی تھا۔ اس نے ہر مضمون اور ہر تعلیم کے

Page 43: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

43

لیے کالج قائم کیے اور طلباء کے روزینے مقرر کیے۔ وہ ہر روز کئی گھنٹے تک

علماء اور شعراء کی مجلس بھی منعقد کرتا تھا لیکن اس نے اپنی تحریریں یاد گار داز نہیں کیا جا سکتا کہ اس نے اردو کے نہیں چھوڑی البتہ اس حقیقت کو نظران

فروغ اوراس کو ترقی دینے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ علی عادل شاہ کی

تربیت اور پرورش اپنی سوتیلی ماں خدیجہ سلطان شہر بانو عرف حاجی بڑی صاحبہ کی زیر نگرانی ہوئی۔ جو علم و ادب ورثہ میں اپنے والد محمدقطب شاہ

سے الئی تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ جہیز میں ۱۱۱ قطب شاہ اور بھائی عبدہللا

غالم بھی وہ الئی تھی جسے ادبی دنیا میں ملک خوشنود کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

ھ ۱۰۶۷محرم ۲۶سلطان علی عادل شاہ ثانی شاہی اپنے والد کی وفات

ہاں اختالف فہمیدہ بیگم سے ی۱۱۲ء پر بیجا پور کے تخت پر بیٹھا۱۶۵۷مطابق ۱۱۳ء ۱۶۵۶ھ کی تاریخ نومبر ۱۰۶۷محرم ۲۶کیا جا سکتا ہے کہ کیونکہ

میں آتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دیگر محققین نے سن عیسوی میں فہمیدہ بیگم

ء کا سن لکھا ہے۔ اگرچہ محمد عادل شاہ کو بھی ۱۶۵۶سے اختالف کرتے ہوئے ا کیونکہ تاریخ اس امر کی گواہ سرحدوں کی حفاظت کے لیے برسر پیکار رہنا پڑ

۱۱۴ہے کہ مرہٹے اور مغل ریاست بیجا پور کو لگاتا ر پریشان کرتے رہے۔

لیکن علی عادل شاہ ثانی کے تخت نشین ہونے پر شاہجہان نے اسے جائز وارث تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ غالبا اس کی ماں کا رتبہ شاہی بیگمات کے برابر

شاہ کی شہ پا کرشیو اجی نے بھی بیجا پور کو لوٹنا شروع کر دیا۔ نہ تھا۔ مغل باد

اس کے ۱۱۵س طرح علی عادل شاہ کو کبھی آرام سے بیٹھنا نصیب نہ ہوا۔باوجود سلطان نے تعمیر و تخلیق کے کئی حیرت انگیز کارنامے انجام دئیے۔ اگر

اپنی ایک طرف اس نے عالی شان عمارتیں تعمیر کروائیں تو دوسری طرف

شاعری کا کلیات یادگار چھوڑا۔ اس نے مہمات میں اپنی فوج کی خود کمان کی۔ اسے فنون سپہ گری میں کمال حاصل تھا۔اور دس سال تک مرہٹوں اور مغلوں

سے نبرد آزما رہا۔ جس میں شکست پر شکست سے بہترین عالقہ بھی ہاتھ سے

کو وفات پائی ۔ تو ۱۱۶ء ۱۶۷۲ھ ۱۰۸۳سال کی عمر میں ۳۵نکل گیا او رجب سال تھی اور اسے مصائب میں گھری ۵اس کے وارث سکندر عادل شاہ کی عمر

ہوئی ایک سلطنت ورثے میں ملی۔سلطان علی عادل شاہ ثانی نہ صرف دکھنی اردو شعر و سخن کا دلدادہ تھا۔بلکہ

خود بھی ایک اچھا شاعر تھا۔ وہ علماء اور شعراء کا سر پرست ،مصور اور

بھی تھا۔ اپنے دادا کی طرح اسے موسیقی پر بھی دسترس تھی۔ اسے خطاط تصوف کا ذوق بھی تھا۔ اس کے دور کا ایک عظیم شاعر نصرتی جیسا ملک

الشعراء اپنے آپ کو اس کا شاگرد سمجھتا تھا۔ ہر طرف شعر و سخن کے تذکرے

اعری اور مشاعرے کی مجلسیں ہوتیں۔ شاہی نے فارسی اور دکھنی )اردو ( میں شکی۔ اس نے ایک کلیات یادگار چھوڑا جس میں چھ قصیدے ،تین مثنویاں ،انیس

Page 44: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

غزلیں ،ایک مخمس ،ایک مثمن ،ایک مرثیہ ،بیس راگ،ایک رباعی، چھے فرد،

ور ایک پہیلی شامل ہے۔ چار گیت، دو تاریخیں بزبان فارسی ،چار دوہرے ا شعر مالحظہ ہو۔عت،ریختہ،غزل اور مرثیہ کا ایک ایک ن

میں جگ تر کرتار کیا پیدا نہیں ساد محم

۱۱۷اسی کے عشق میں سونسار ترجگ کا بھرایا ہے دیدم نظر بھر روپ جو اس شوخ چک مستانہ را

؎118گفتم بیا مندر منے روشن بکن کاشانہ را

کی تو اتا سوں مجھ لگا دل تے اول ہیں پھراتے

ہیں ہمارے سک بھرے جیوں کوں تمے کی دک میں بھاتے

119؎بہت افسوس ہو غم تے لکھیا جو مرثیہ

شاہی

ادھر یک بول کے اوپر جگت سب تلمالنا

۱۲۰ہے

سترھویں صدی عیسوی آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔ اردو زبان میں سالست اور بہتری آتی جار ہی تھی دکن میں اگرچہ اس کا رواج عام تھا لیکن

دہلی میں ابھی تک لوگ فارسی کے زیر اثر تھے۔ اوررہنا پسند بھی کرتے تھے۔

تھا۔ لیکن عساکر کی گویا شعرو نثر کو زیادہ تر فارسی زبان میں ہی لکھا جا رہازبان چونکہ اس سے تھوڑا مختلف تھی لہذا وہاں لوگ اردو بولنے کے ساتھ ساتھ

لکھنے کی طرف بھی متوجہ تھے۔ فوجی حضرات اپنے گھروں کو جو خط

لکھتے وہ اسی عام بول چال میں لکھتے جس سے ان لوگوں کے ہاں اردو دو کو عوام کی اور فوج کی تحریری طورپر رائج تھی۔ خاص طورپر عہدیدار ار

مشترکہ زبان سمجھ کر استعمال کرتے تھے۔ ایسے ہی اصحاب میں میرزا معز

میں فارس ۱۲۱ء ۱۶۴۰ھ/ ۱۰۵۰فطرت موسوی خان کا ذکر ملتا ہے۔ آپ نے میں ہندوستان آئے اور عالم گیر کی ۱۲۲ء ۱۶۷۱۔۷۲ھ /۱۰۸۲میں پیدا ہوئے۔

ی منصب پر فائز کیا گیا اور عظیم آباد کے مالزمت اختیار کی۔ آپ کو سہ ہزارو اگرچہ ۱۲۳ء میں دکن میں وفات پائی۔ ۱۶۹۱ھ :۱۱۰۱دیوان مقرر ہوئے۔ آپ

آپ فارسی کے شاعر تھے۔ لیکن آپ اردو میں بھی شعر کہنے کی صالحیت

:رکھتے تھے اور کہتے تھے لہذا درج ذیل شعر آپ ہی سے منسوب ہے سیاہ تو بدل دوم پری ہے از زلف

۱۲۴در گلشن آئینہ گتا جوم پری ہے

اردو زبان کے وہ شعرا جو مرکز سے ہٹے ہوئے تھے۔ او رجو کسی ایک آدھ تذکرے میں اپنا نام شامل کروانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کے حوالے سے اس

یت یا المیہ کا اظہارکیا جا سکتا ہے کہ ان کی تحریریں عدم دلچسپی، غیر معروف

Page 45: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

45

کسی بھی بنا پر ضائع ہو گئیں۔ یا زمانہ ان کے تعارف یا کالم کو محفوظ رکھنے

میں ناکام رہا۔ ان میں موسوی خان جرأت کانام بھی آتا ہے۔ آپ کا اصل نام میر ء ۱۶۷۷۔۷۸ھ/۱۰۸۸محمد ہاشم اور باپ کا نام میر محمد شفیع تھا۔ ان کی والدت

رہہ کی ریاست دھارور کے قلعہ دار ہے۔ میں اورنگ آباد میں ہوئی۔ سادات با

آصف جاہ کے زمانہ میں ڈھائی ہزار منصب اور منشی گری جبکہ نظام الدولہ ۶کے دور میں چار ہزار منصب اور معزالدولہ کے خطاب سے فخر حاصل کیا۔

ء میں اورنگ آباد میں ہی وفات پائی۔ محققین آپ کے ۱۷۶۲ھ/ جون ۱۱۶۵شعبان

کو تو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کا کالم بطور نمونہ پیش اردو میں شعر کہنے کرنے سے قاصر رہے۔ نثر نویسی میں بھی آپ کے کمال کو تسلیم کیا گیا

اسی تسلسل میں شیخ احمد بن ابو سعید معروف بہ مال جیون کا نام بھی ۱۲۵ہے۔

کچھ مورخین نے عسکری اور ادبی خدمات کے ضمن میں لیا ہے۔ عبدالمنان : لکھتے ہیں کہ طرزی

ھ میں در بھنگہ ۱۱۱۲عہد عالمگیری میں در بھنگہ کے فوجدار تھے۔ ’’

تشریف الئے ۔۔۔ مال جیون کے در بھنگے کے قیام کی مدت صرف چھ

سال ہے۔ ان کا مزار میٹھی میں ہے۔ آپ ایک بڑے عالم تھے۔ ۔۔۔امام

۔ یہ البرکات کی تصنیف مینا ر االنوار کی شرح نور االنوار لکھی ہے

التفسیرات اال حمدیہ فی ’حنفی فقہ کی اصول فقہ ہے۔ دوسری اہم تصنیف

۱۲۶‘‘ ہے۔‘ بیان آیات القرآنیہ معروف بہ تفسیر احمد

تانا شاہ کے نام سے مشہور ہوئے۔ اپنے خسر عبدہللا :ابو الحسن قطب شاہ

ء میں تخت نشین ہوئے اور آخری ۱۶۷۲ھ /۱۰۸۳قطب شاہ کی وفات کے بعد

اہ ثابت ہوئے۔ مغلیہ حکمران جو جنوبی ہند پر اپنی اجارہ داری کے خواہاں بادشتھے۔ گولکنڈہ کی حکومت کے خاتمے کا سبب بھی بنے۔ اورنگ زیب عالمگیر

۲۴ء مطابق ۱۶۸۷ستمبر ۱۲نے گولکنڈہ کو سات ماہ کے محاصرے کے بعد

د کے قلعے ھ کو مسخر کیا اور ابو الحسن کو قید کر کے دولت آبا۱۰۹۸ذیقعدہمیں عمر بھر کے لیے نظر بند کر دیا یوں گولکنڈہ ملک ہندوستان کا ایک صوبہ

سال کی عمر پائی جسے چار حصوں میں تقسیم کیا ۵۶ اس نے ۱۲۷بن گیا۔

سال اپنے پیرو مرشد سید شاہ راجو کی ۱۴سال بچپن میں گزرے ۱۴جاتا ہے۔ سال نظر بندی میں بسر ہوئے۔ ۱۴سال تخت پر براجمان رہا اور ۱۴خدمت کی ،

ء میں وفات پائی۔ اس لحاظ سے آپ ۱۷۰۰ھ مطابق۱۱۱۲ربیع الثانی ۱۲آپ نے

کا ہندسہ آپ کی زندگی میں شامل تھا۔ ۵۶بنتا ہے۔ گویا ۱۰۵۶کا سن پیدائش سالہ دور حکومت میں سیاسی او رعسکری محاذوں ۱۴ابو الحسن تانا شاہ اپنے

غلوں سے کئی جنگوں میں اپنی فوج کی کمان کی لیکن اس کے پر نبرد آزما رہا۔ م

باوجود اپنے اسالف کی طرح عمارات کی تعمیر کا شوق پورا کیا۔ ۔ اس کے پر آشوب زمانہ میں متعدد اردو مثنویاں لکھی گئیں۔ اور شعرا نے غزلیں اور مرثیے

طاری نے خلیل ہللا ش’’ بھی لکھے۔ وہ خودبھی شاعر تھا جس کا ذکر پہلی بار

Page 46: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

46

وہ نظم اور ۱۲۸‘‘میں تفصیلی کیا اور اس کے اشعار نقل کیے۔ ‘بحر محیط ’

غزل دونوں اصناف سخن میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اس کے کالم میں اس کے عہد کی اردو زبان کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو سادگی و پرکاری اور دلکشی

:پائی جاتی ہے۔ نمونۂ کالم ملنا تمن کوں غیر سوں

کوئی جھوٹ کوئی سچ مچ کتے

کس کس کا منہ موندوں سخن

۱۲۹کوئی کچہ کتے کوئی کچہ کتے

میرزا عبدالقادر بیدل: فارسی زبان کے ایک بہت بڑے شاعر تھے۔ جن کی

ہے اور مرزا اسد ہللا خان غالب جیسا شاعر نہ حیثیت غالب کے استاد معنوی کی صرف ان کا تتبع کرتا تھا بلکہ اس بات پر بھی فخرکیا کرتا تھا ۔

ء( میں اکبر نگر واقع بنگالہ میں پیدا ہوئے۔ عہد ۱۶۴۴ھ /۱۰۵۴میرزا بیدل )’’

طفلی میں ہی پٹنہ عظیم آباد آگئے۔ پرور ش یہیں ہوئی۔ اس لیے عظیم آبادی ء میں دہلی چلے گئے۔ جب جوان ہوئے تو اعظم شاہ ابن ۱۶۶۴ھ/۱۰۷۵کہالئے۔

خلیق انجم نے بھی ڈاکٹراسد ۱۳۰‘‘ اورنگ زیب کی فوج میں بھرتی ہو گئے۔

اس کی تصدیق ان ۱۳۱ہللا حبیب کے حوالے سے انھیں سپاہی پیشہ لکھا ہے۔ نے ایک دن اعظم شاہ کے مقربوں میں سے کسی’’ الفاظ سے بھی ہوتی ہے کہ

انھیں بیدل کے اشعار سنائے۔ اعظم شاہ نے پوچھا اشعار کس کے ہیں۔ عرض کی

کہا ہماری فوج میں تمام لوگ دل والے مرزا بیدل شاہ کے۔ اعظم شاہ نے مزاحاہیں اور اس میں بیدل کا کیا کام۔ مرزا تک جب یہ بات پہنچی تو انھیں پسند نہ آئی۔

لیکن نظامی بدایونی ۱۳۲روانہ ہو گئے۔ اور وہ اعظم شاہ کو چھوڑ کر سفر پر

نے مالزمت ترک کر نے کا سبب کسی اورواقعہ کو قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ایک شہزادہ نے اپنی تعریف میں قصیدہ لکھنے کی فرمائش کی اس بات پر ’’ کہ

۱۳۳‘‘ مالزمت سے استعفی دے دیا۔ اور پھر کبھی کسی کی مالزمت نہیں کی۔

قادری نے بھی استعفی دینے کی وجہ قصیدہ لکھنے سے انکار کو بتایا حامد حسن آپ جب اعظم شاہ کی فوج میں تھے تو پانصدی منصب اور داروغگی ۱۳۴ہے۔

شہزادہ کی مالزمت چھوڑ کر آپ پہلے ۱۳۵اور لنگر خانہ کی خدمت کی۔ ر گوشہ ستھرا پھر نار نول اورپھر آگرہ سے ہوتے ہوئے دوبارہ دلی میں پہنچ ک

نومبر ۲۴نشین ہو گئے۔ اور اسی حالت میں ان کا انتقال محمد شاہ کے عہد میں

۱۳۶ھ کو ہوا۔ ۱۱۳۴ء مطابق صفر ۱۷۲۰مرزا عبدالقادر بیدل نے علم و فضل میں بہت بڑا مقام پایا۔ وہ اپنے وقت کے

ہے کہصوفی اور جید عالم تھے۔ جامع اردو انسائیکلوپیڈیا کے مقالہ نگار کا کہنا

: مثنوی رومی اور فصوص الحکم کے مسائل نہایت شرح و بست سے ’’

سمجھاتا تھا۔ الہیات، ریاضیات ،طبیعات ،طب، نجوم ، رمل ،جفر ،تاریخ

دانی اورموسیقی سے خوب واقف تھا ۔ مہا بھارت ازبر تھی۔ فن انشا میں

Page 47: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

47

اس کا کوئی نظیر نہیں تھا۔ چہار عنصر اور رقعات اس کا ثبوت ہیں

۔کلیات میں ننانوے ہزار اشعار تھے۔ ان میں گیارہ ہزار اشعار نسخۂ عرفان

۔ ایک ہزار اشعار کا ترجیع بند کے ہیں۔ جو حدیقہ سنائی کے بحر میں ہے

عراقی کے جواب میں ہے۔ چار ہزار رباعیاں ہیں۔ اس نے انیس نئی

۱۳۷‘‘ بحریں ایجاد کیں۔

زبان و ادب کی بہت خدمت کی لیکن اردو بال شبہ مرزا عبدالقادر بیدل نے فارسی

زبان سے بھی آپ نے پہلو تہی نہیں کی یہ الگ بات کہ ان کا اردو کالم محفوظ

کرنے والوں سے کوتاہی ہوئی لیکن یہ کہنا غلط ہو گا کہ آ پ نے اردو زبان کو استعمال نہیں کیا۔

مت پوچھ دل کی باتیں وہ دل کہاں ہے ہم

میں

اس تخم بے نشاں کا حاصل کہاں ہے ہم

میں

جب دل کے آستاں پر عشق آن کر پکارا

پردے سے یار بوال ،بیدل کہاں ہے ہم میں

۱۳۸؎

فارسی شعر کا ترجمہ مرزا عبدالقادر بیدل کے ذیل ایککے متن میں ہندگلشن میں دیا گیا ہے۔

کب عوض دنیا کے سرکوں،جاسے

ڑوں ٹھاؤں کوچھو

باندھی ہے مہندی قناعت کی میں اپنے

۱۳۹پاؤں کو

عبدالرحمن: اورنگ زیب عالمگیر کے بیٹے معظم شاہ جس نے قطب الدین

شاہ عالم بہادر شاہ کے نام سے والد کی وفات کے بعد حکومت سنبھالی ، کے عہد

راہ تھا۔ جس نے معظم شاہ کے ہم۱۴۰میں اس کی فوج کا ایک منصب دار اعظم شاہ کے خالف جنگ میں حصہ لیا۔ او رکئی دیگر عسکری مہمات میں بھی

:معظم شاہ کے ساتھ رہا۔ عبدالرحمن ہندی )اردو (کا شاعر تھا

دو ہے ہیں۔ دوہوں میں ۱۰۷اس نے یمک شتک نامی ایک کتاب لکھی جس میں ’’ن کی مختلف صنعتیں برتی گئی ہیں یہ کسی ترتیب سے جمع نہیں کیے گئے۔ ا

زبان شکل ہے۔ اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ زبان کے ماہر تھے اور ۱۴۱ء ۱۷۰۶سنسکرت سے بھی واقف تھے۔ چونکہ بہادر شاہ کا عہد حکومت

ء تک رہا ہے۔ اس لیے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اسی زمانے میں یہ ۱۷۱۱سے

:کہ کتاب لکھی گئی ہو گئی۔ انھوں نے اپنا تعارف یوں کرایا ہے معظم چھتر پتی سپتی دلی پت جوپر بین

چکتا عالمگیر ست قطب الدین پد لین

تاکہ منصب دار جگت کوی عبدالرحمن

۱۴۲

Page 48: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

عبدالرحمن کا دوہوں کے عالوہ کوئی کالم دستیاب نہیں ممکن ہے طبع آزمائی

ہوں لیکن اس دور کی ہوا ور دیگر تحریریں مردو زمانہ کے ہاتھوں ضائع ہو گئیکا مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ دوہا ہی لکھا جارہا تھا ۔باقی اصناف کی طرف

:شعراء کی توجہ بہت کم تھی۔ نمونہ کالم بانی بانی دیت شبھ جس بانی تس ریت

رہے مان تا کوتبے رہے مان چت پریت

چنی چنی پہری سرنگ چنی سوت دل کین

سوں سر مس تنی تنی کچ پین بنی بنی رس

۱۴۳

؎اس نے بادشاہ تانا شاہ کے ۱۴از متوطان بھاگ نگر بود شاہ قلی خان شاہی

دربار میں عزت اور منصب پایا تھا ۔مرثیہ کی طرف طبیعت کا رجحان ۱۴۵‘‘۔تھا

‘‘ شاہی لشکر میں مالزمت’’منصب کے حوالے سے شمس ہللا قادری نے

تصدیق پیمانۂ غزل جلد اول اور جامع اردو انسائیکلو لکھا ہے۔ جس کی ۱۴۶پیڈیا جلد اول نیز دیگر کئی محققین نے بھی کی۔اے حمید نے شاہی کا تذکرہ دیگر

: تذکرہ نگاروں کی نسبت قدرے تفصیل سے کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ

معمولی سپاہی تھا لیکن شاہ قلی خان شاہی ابوالحسن تانا شاہ کی فوج میں ایک ’’ترقی کرتے کرتے بڑے عہدے پر پہنچ گیا۔ وہ بڑا پر گو شاعر بھی تھا۔ ان ہی

خداداد صالحیتوں کی وجہ سے وہ بادشاہ کے مقربین کے رتبے تک جا پہنچا۔ابو

الحسن شاہ اس سے بہت پیار کرتا تھا۔ وہ اکثر بادشاہ کی مزروعہ زمینوں میں ۱۴۷غزلیں کہا کرتا تھا

شاہ قلی خان شاہی کا کالم حیدر آباد پر اورنگ زیب کے حملے کے دوران ضائع

ہو گیا۔ لیکن فوج کے سپاہیوں کو اس کا اکثر کالم زبانی یاد تھا ۔شاہی اپنے عہد کا ایک مشہور مرثیہ گو بھی تھا۔ اس کے مرثیوں نے حیدر آباد میں بڑی شہرت

س کے مرثیے اورنگ زیب عالمگیر کی پائی۔ یہ گولکنڈہ کا واحد شاعر تھا۔ ج

فوج کو زبانی یاد تھے اوران کی وساطت سے یہ مرثیے شمالی ہند میں پہنچے۔ ۱۴۸

عجیب بات یہ ہے کہ قطب شاہی دور کے حوالے سے کام کرنے والے تذکرہ

نگاروں نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ او ردوسرے تذکرہ نگاروں نے صرف ایک شعر اکتفا کیا ہے۔ جب کہ اے حمید نے اس کے مرثیوں کا نمونہ کے ذکر یا حوالے پر

:نقل کیا ہے ہو اللہ زار سر یو سارے شہید کے

دستے میں لہو سوں الل چمن کربال منے

سنبہ کا دیپک لگا کر جو شاہی نے دہوند

کر

۱۴۹پایا ہے پی بہایو رتن کربال منے

Page 49: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

وشگو کا ذکربھی ملتا ہے۔ وہ بنارس کا باشندہ تھا۔ اسی صدی میں بندرابن داس خ

کے تکمیلی مراحل میں ‘‘ تذکرہ سفینۂ خوشگو’’نادر شاہ کے حملے کے وقت وہ تھا کہ فوج کودہلی سے نکلنا پڑا۔ خوشگو بھی فوجی ہونے کی حیثیت سے کوٹ

ھ میں واپس آکر تذکرہ مکمل کیا ۔وہ ۱۱۵۵کانگڑا کی طرف باہر نکال اور پھر

ایک خوش فکر شاعرکی حیثیت سے بھی پہچانا جاتا تھا۔ریلین : سید غالم نبی ولد سید محمد باقر اتر پردیش ہردوئی ضلع کے

ء میں پیدا ہوئے۔ ریلین تخلص تھا لیکن سہیل ۱۶۸۹مشہور قصبہ بلگرام میں

انگ ’’بخاری نے رس لین لکھا ہے اور سندیہ دی ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب ء( میں اپنا پورا نام سید غالم نبی رس لین ولد سید باقر حسین ۱۷۳۷) ‘‘درپن

جب کہ جامع انسائیکلو پیڈ یا کے مقالہ نگار کے ۱۵۰واسطی بلگرامی لکھا ہے۔

ہے جسے کاشی ۱۵۱‘‘ریلین گرنتھا ولی’’پاس سنداس کے دوہوں کا مجموعہ جنگ کی فوج میں ناگری پرچارنی سبھانے مرتب کر کے شائع کیا۔ ریلین صفدر

)صفدرر جنگ ۱۵۲افسر تھے اور ایک اچھے تیر انداز اور شاہ سوار تھے۔

نواب شجاع الدولہ کے والد تھے۔( وہ شاعر بھی بہت اچھے تھے۔ انھوں نے دوہا اور بارہ ماسہ لکھا۔ وہ عربی اور فارسی کے بھی قادر الکالم شاعر تھے

ء ( ۱۷۴۱دوہے اور رس پر بودھ )‘رپنانگ د’’اردو)ہندی (میں ان کی دو کتابیں

ء میں وفات پائی۔۱۷۵۰ہیں۔ ریلین نے دوہے ہیں جن میں محبوبہ کا سراپا بیان کیا گیا ہے۔ ۱۷۷انگ درپن میں ’’

اس میں صنائع و بدائع سے مکمل اجتناب برتا گیا ہے۔ کتاب رس، جذبہ ،

مشتمل محبوب کی اقسام ، چھ موسم ،بارہ ماسا وغیرہ کے مضامین پر

نے خود کہا ہے کہ اس کی کتاب کو پڑھ لینے کے یا ریلین ہے۔ رس لین

بعد رس کے موضوع پر کسی اور کتاب کی ضرورت باقی نہیں رہے

۲۵۳‘‘گی۔

سہیل بخاری نے ریلین یارس لین کی زبان کو خالص برج بھاشا زبان کہا ہے ۔ ردو کی ابتدائی اشکال اور برج بھاشا چونکہ موالنا محمد حسین آزاد کے مطابق ا

میں سے ہے۔ اس لیے اسے قدیم اردو بھی کہا گیا ہے۔ ریلین یا رس لین کے

دوہوں کا نمونہ نقل ہے

مکت جڑی بر آرسی تا میں مکھ کی

چھانہہ

یوں الگت مانو سی اڑگن منڈی مانہہ

تیا سیسو جوبن ملے بھید نہ جانیو جات

ے دود بھاؤ در پرات کے نس ووس ک

۱۵۴سات

اختراعی: محمد محترم خان نام اور اختراعی تخلص تھا۔ آپ ایلو ر کے

باشندے تھے اور عالمگیر کے امراء میں سے اور منصب دار تھے ۔اورنگ زیب

Page 50: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

50

عالمگیر کی وفات کے بعد اعظم شاہ اور بہادر شاہ کی جنگ میں شامل تھے۔ اور

ھ میں ۱۱۰۰ یہ جنگ تاریخ النوائط کے مطابق ۱۸۰اسی جنگ میں مارے گئے۔ لیکن یہاں مصنف تاریخ النوائط کو غلط فہمی ہوئی کیونکہ ۱۵۵لڑی گئی تھی۔

ء میں وفات ۱۷۰۷ء بنتا ہے۔ جب کہ عالمگیر نے ۱۶۸۹ھ کا سن عیسوی ۱۱۰۰

اس ۱۵۶ھ میں ہوئی۔ ۱۱۱۸پائی۔ اور اعظم شاہ و بہادر شاہ کے درمیان جنگ بھی کام آئے اور معظم شاہ عرف بہادر شاہ عظم شاہ اور اس کا بیٹا یں اجنگ م

نے فاتح ہونے کے بعد مغلیہ سلطنت کی دکن میں اور پھر ہندوستان میں باگ دوڑ

سنبھالی۔اختراعی اردو اور فارسی ہر دو زبانوں کے شاعر تھے۔ آپ کا ذکر عام

کے کالم کا نمونہ اس کے مراثی ۔ اختراعیوں یا تاریخ ادب میں نہیں ملتاتذکر

میں سے چند اشعار کی صورت پیش ہے۔جب تھے ہوا ہے غوغا ماتم کا

میں۱۵۷تربھون

رو رو کے رات مجھ دن پھولے پڑے ہیں

رن میں

رو رو کے سوز تھی تن گالیا ہے اختراعی

تو شمع سا ہے روشن دو جگ کی انجمن

۱۵۸میں

ی: محمد جعفر نام اور جعفر زٹلی پہچان رکھتے تھے۔ زٹلی الحقہ جعفرزٹل سے دو وجوہات ذہن میں آتی ہیں کہ یا تو آپ بے تکی ہانکا کرتے تھے۔ اور جو

جی میں الٹا سیدھا آتا کہہ دیتے۔ اس بنا پر آپ کو زٹلی کہتے تھے یعنی زٹل باز

ک تعلق ہو گا۔ لیکن وغیرہ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ زٹل نامی گاؤں سے آپ کا ایان دو وجوہات سے کسی مورخ یا تذکرہ نویس نے متفقہ تحریر نہیں چھوڑی البتہ

:محمد انصار ہللا رقم طراز ہیں ایک رو زایک شعر فارسی میں کہا گیا ہے مارا اگر بہ دیدن در یتیم نیست

نظارہ سوئے دانۂ شبنم غنیمت است

سے کہا زٹل ہے اس نے کہا زٹل ہے تو میں زٹل ہی کہوں ہم عصروں نے رشک

۱۵۹گاتذکرہ نویسوں کی اکثریت نے ان کی پیدائش نارنول کی لکھی ہے۔ لیکن صاحب

تذکرہ خندہ گل نے لکھا ہے کہ اس میں اختالف ہے کہ دہلی کے باشندے تھے

گر تذکرہ نگاروں سے اتفاق نے دی؎۱۶۱حمد جمیل احمد ؎م۱۶۰یانارنول کے۔ء سن پیدائش اور سن وفات لکھا ۱۷۱۳ھ /۱۱۲۵ء ۔۱۶۵۹ھ /۱۰۶۹کرتے ہوئے

میر زٹل نارنول کے ایک :’’ہے۔ صاحب تذکرہ شعرائے ہریانہ لکھتے ہیں

دکاندار سید عباس کے فرزند تھے۔ خوش مزاج اور کامیاب مزاح نگار تھے۔ تعلیم ہو گئے۔ اور اورنگ زیب بادشاہ سے حاصل کرنے کے بعد فوج میں بھرتی

لیات جعفر زٹلی میں زر جعفری نامی کتاب کے حوالے ؎ک۱۶۲‘‘ رابطہ قائم کیا۔

Page 51: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

51

اورنگ زیب کی تخت نشینی اور میر جعفر کی والدت ایک ’’ سے تحریر ہے کہ

۱۶۳‘‘ ہی سال کے واقعے ہیں۔جعفر بچپن ہی میر جعفر نے ابتدائی تعلیم ابو اسحاق اطعمہ سے حاصل کی۔ میر

سے موزوں طبیعت کے مالک تھے۔

ایک دفعہ استاد نے لڑکوں کی پٹائی کی تو لڑکوں نے میر جعفر سے کہا کہ آج ’’تو ضرور مولوی صاحب کی شان میں کچھ ہونا چاہیے۔ لہذا میر صاحب نے قلم

کاغذ لیا اور مولوی صاحب کی شان میں مخمس لکھ ڈاال۔

:ایک بند مالحظہ ہو ورد پڑھ ناد علی راکش و پتال کو باندھ

ورد پڑھ ناد علی جن و گرو الل کو باندھ

ورد پڑھ ناد علی بھیروں و گھڑیال کو

باندھ

ورد پڑھ ناد علی پھولوں کے سریال کو

باندھ

ورد پڑھ ناد علی لے خرد جال کو باندھ

سے نکال دیا جس پر انھوں نے مولوی صاحب نے میر جعفر کو مدرسے کچھوے نامہ مخمس پر مولوی صاحب کی شان میں ’’مکتب چھوڑ دیا۔ اور ا یک

لکھا جس کا پہال بند ہے۔ کہتا ہوں کچھوے نامہ کو نادر سخن ستی

سن مرحبا کہو گے مجھے اس بچن ستی

مشہور ہے یہ بات کفوے زمن ستی

دغا دی تھی فن کچھوے کو شیخ جی نے

ستی

لنکا کروں بیان سنو جان وتن ستی

میر جعفر کا کچھوے نامہ ایسا مشہور ہوا کہ ان کی زندگی اور شہرت کو چار

چاند لگ گئے۔ شہزادہ کام بخش نے میر صاحب کو طلب کیا اور مورچھل کی

۱۶۴خدمت پر مالزمت میں رکھ لیا۔ادہ کام بخش کی ے بیٹے شاہزاورنگ زیب ک زٹل نامہ میں نے خان نرشید حس

۔۔۔ کام بخش راکت کو تسلیم کیا ہےدکن کے معرکوں میں ش اور تفوج میں مالزم

کر ‘ دکن بدر’ کےکی نہایت فحش ہجو کہی تھی جس کی پاداش میں الگ کر ۱۶۵‘‘دئیے گئے تھے البتہ شہزاد ے نے کوئی مزید سزا نہیں دی تھی۔

ہ کہنے والے شاعر تھے اس کے ساتھ ہی جعفر زٹلی پر گو اور فی البدیہ

بے باک ،حق گو اور بہت جذباتی بھی تھے جو محسوس کرتے اور ذہن میں آتا کہہ دیتے ۔ اپنی اپنی خصوصیات کے باعث انھیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا

ء( جب تخت نشین ہوا تو اس نے اپنا ایک سکہ ۱۷۱۹ء۔۱۷۱۳فرخ سیر ) پڑے۔

: جاری کیا جس پر لکھا تھا

Page 52: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

52

سکہ زد برگندم و موٹھ و مٹر

۱۶۶بادشاہ تسمہ کش فرخ شیر

ا۔یہ شعر سن کر بادشاہ نہایت برافروختہ ہوا اور اس نے جعفر کو قتل کروا دی

جعفر زٹلی کو ابتدائی اردو کے حوالے سے ایک اہم شاعر گردانا جاتا ہے اس کا اور فحش کالمی کا اپنا مقام لیکن اس کی پھکڑ پن اپنی جگہ ، ہجو،تحریف، طنز

لسانی ،تہذیبی اور تاریخی ’’سنجیدہ شاعری کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

اعتبار سے ان کا کالم بہت اہمیت رکھتا ہے۔ انھوں نے اپنے خیاالت کے اظہار کے لیے غزل کے بجائے نظم اور مثنوی جیسی اصناف کو منتخب کیا۔ میر جعفر

اس ۱۶۷‘‘ اپنے دور کے نمائندہ اور تہذیب و معاشرت کے ترجمان ہیں۔ زٹلی

کے کالم کو پڑھ کر ہم اگر چاہیں تو ایک الگ جعفر سے بھی مل سکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ ذہن سے فحش نگا اور یا وہ گو جعفر زٹلی کو نکال کر پڑھنا ہو

:اشعار مالحظہ ہوںگا۔ جعفر کی نظم کلر نامہ سے کلر لگا دیوار کو ، کہ جعفر اب کیا کیجیے

خطرہ ہو آثار کو،کہ جعفر اب کیا کیجیے

جوبن چال ہے روس کر ،گھر بار سارا

موس کر

نہیں سنگھار کو ،کہ جعفر اب کیا شوبھا

۱۶۸کیجیے

میں آخرت کی تیاری اور ڈھلتی عمر کے ساتھ موت کے احساس کو جس کلر نامہ

طرح بیان کیا گیا ہے۔ یہ قابل ستائش ہے۔ اسی طرح قناعت ،توکل او راستغنا پر

جعفر کی فکرکی رسائی کہاں تک ہے اور اس کی خود داری کا عالم کیا ہے۔ :مالحظہ ہو

دال در مفلسی سب سے اکڑ رہ

بہ عالم بے کسی سب سے اکڑ رہ

اگر یہ بھی میسر جو نہ ہووے

۱۶۹یال جوں الف سب سے اکڑ رہ اک

میر جعفر صرف شاعر ہی نہیں اپنے عہد کے ایک منفر دنثر نگار بھی تھے۔

ایک ایسا قصہ ہے۔ جسے ڈاکٹرفرزانہ بیگم نے دکنی ‘‘انشا جعفر زٹلی ’’

نے قصے میں مسخرا ہ ڈاکٹر گیان چند داستانوں میں شامل نہیں کیا۔ اس کی وج پن لکھا ہے۔

حرب کے نام دیکھیے۔ کدو کی توپاں ،سڑاکو بندوقیں ، موتی مثال آالت

چور کے لڈو کے گولے ، نقل کی گولیاں ،افیون کا کوڑا، جلیبی کی دین

،مالئی کا پاکھڑ ۔۔۔۔کیلے کی تلوار ،پاپڑ کی ڈھال ۔۔۔۔اشخاص کے نام

مختلف ترکاریوں ،پھلوں ، فرقوں اور قوموں سے لیے ہیں ۔مثال انگور

ر خان، تربوز خان، پھاگن سنگھ ، دیوالی سنگھ،دسہرہ سنگھ، خان ، انب

Page 53: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

53

ہولی سنگھ، موسیو موز)فرنچ نام( تمباکو بیگم ، بادامی بیگم وغیرہ

۱۷۰‘‘۔

ڈاکٹر گیان چند نے مسخرہ پن کا حوالہ تو دے دیا لیکن یہ بھی وجہ شامل نہ

جنوبی ہند کرنے کی ہو سکتی ہے کہ جعفر زٹلی کا تعلق شمالی ہند سے تھا دکنمیں واقع ہے۔ ڈاکٹر فرزانہ بیگم نے اپنی کتاب میں صرف دکنی داستانوں کو جمع

جعفر زٹلی کا عرصہ قیام دکن میں کچھ زیادہ نہیں۔ بہر حال یہ پہلو کیا ہو گا او ر

بھی قابل غور ہے۔انجمن ترقی اردو پاکستان میں موجود مخطوطوں کی فہرست میں جعفر زٹلی کا

کا نام درج ہے۔ ‘‘ جنگنا مہ پوستی خان و بھنگی خان’’ ایک نسخہ

کیفیت :جعفر زٹلی کے مخصوص انداز بیان کا شاہکار ہے۔ جس میں فارسی ہندی کی دآلویز آمیزش کے ساتھ ساتھ ناموں کی عجیب و غریب تراش خراش دیکھنے

کے قابل ہے۔ کاتب نے یہ رسالہ قدرت علی عرف بادشا ہ علی کی فرمائش پر نقل

۱۷۱کیا ہے۔ ان کی خدمات انجام دیں وہ فارسی اور میر جعفر زٹلی نے جس عہد میں اردو زب

اردو زبان کے ملغوبہ کا دور تھا لیکن جعفر نے جو کچھ دیا وہ بھول جانے کے

ہے۔ میر جعفر زٹلی ۱۷۲قابل نہیں ہے۔ وہ واقعی نادرۂ زماں و عجوبۂ دوراں نے چونکہ اپنے عہد کو صرف دیکھا ہی نہیں اس کا مشاہدہ بھی کیا اس لیے اس

ر افرا تفری کے حاالت نیز اور نگ زیب کے بعد بدلتے بگڑتے حاالت انتشار او

کو اور معاشرہ کی بگڑتی روایات کو اپنے لفظوں ، لہجے اور اسلوب میں بیان کیا ہے۔ جن میں اکثر کہاوتیں اور ہندی ضرب اال مثال کا استعمال کیا ہے۔ او

اوتیں واقعی جعفر زٹلی اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ یہ ضرب اال مثال اور کہ’’ر

کی ہیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ جعفر زٹلی نے کہاوتوں کے ذریعے صرف نثر کو وسعت ہی نہیں دی بلکہ اس کو روانی ،برجستگی اور بے تکلفی بھی عطا کی

۱۷۳‘‘ ہے۔

آصف جاہ اول شیخ شہاب ’’آصف جاہ اول نظام الملک فتح خان آصف: یں سے تھے۔ قمر الدین نام تھا اور دادا کانام خواجہ الدین سہروردی کی اوالد م

عابد خان تھا۔ سمر قند سے شاہجہان کے زمانے میں ہندوستان آئے اورنگ زیب

۔محکمہ صدارت کے صدر نشین کے زمانے میں جب وہ مکے سے واپس آئےھ میں ۱۱۶۱جمادی الثانی ۱۷۴۸/۴مئی ۲۲۔ محمد شاہ کی وفات کے بعد ہوئے

۱۷۴‘‘ ۔انتقال کیا

محمد انصار ہللا نے آصف جاہ اول کے حاالت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے لکھا : ہے کہ

آصف جاہ نظام الملک ،فتح جنگ، سپہ ساالر، آصف تخلص ،ابن غازی ’’

الدین بہادر، فیروز جنگ ،سپہ ساالر عہد عالمگیر میں اپنے باپ سے الگ

خطاب اور بیجا پور کی ہو ا ۔چار ہزاروی منصب، چین قلیچ خان بہادر

Page 54: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

54

صوبے داری پائی۔ بہادر شاہ کے عہد میں منصب سے مستعفی ہوا ۔ فرخ

سیر کے زمانے میں ہفت ہزاری ، ہفت ہزار سوار، خطاب نظام الملک اور

۱۷۵‘‘صوبہ داری دکن سے امتیاز پایا۔

۴’’محمد انصار ہللا نے تاریخ وفات سے قدرے اختالف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ

جب کہ ۱۷۶‘‘ ھ بروز یک شنبہ بعد نماز عصر رحلت کی۔۱۱۶۱بیع اآلخر ر

ء لکھا ہے حاالنکہ تقویم تاریخی کے مطابق آصف جاہ ۱۷۴۷حاشیہ میں اپریل ہے۔ سال والدت اکثر مورخین ۱۷۷ء ۱۷۴۸ھ /۱۱۶۱کی وفات جمادی الثانی

نے لکھنے سے اجتناب کیا ہے لیکن محمدانصار ہللا نے سال والدت نیک بخت

ء بنتا ہے۔۱۶۷۱۔۷۲ھ سے نکاال ہے اور جو ۱۰۸۲آصف جاہ فارسی کے بہت اچھے شاعر تھے اور اردو زبان میں بھی طبع آزمائی

بیدل سے اصالح سخن کرتے تھے۔ آصف اور شاکر آپ کا تخلص تھا ۔ عبدالقادر

اکثر تذکرہ نگاروں نے آپ کا صرف ایک شعر نقل کیا ہے۔ شاید ۱۷۸لی ہے۔اس میں عدم دستیابی کا عمل کا احتیاط کا پہلو بھی ہو کیونکہ آصف تخلص اور

:آصف جاہ خطاب کے اور بھی شعراء ہوئے۔ بہر حال وہ شعر درج یل ہیں ی میرے دلبر کو حسد سےگالی نہ کہو کوئ

مجھ دل کے گئے میں یہ دعائے یمنی ہے

معین الدین نہیںل ہیں جمیں ان کے کئی اشعار نق‘‘ دکن میں اردو’’لیکن صاحب :نقل کیے ہیںں بھی رہبر فاروقی نے اپنے مضمون می

شمیم کا کل مشکیں سے جب میں اونگ گیا

سانپ سونگ تو آئے کہنے لگے اس کو

گیا

اس گلبدن کے غم میں رونا ہے عین

حکمت

کرتی ہیں ضعف دل پر آنکھیں گالب پاشی

۱۷۹

شیخ شرف الدین مضمون : آپ کی تاریخ پیدائش کے بارے مورخین ادب ء سے ۱۶۸۹’’ اور محققین خاموش ہیں البتہ صابردت نے اپنے مجلہ میں

تصل اکبر آباد( میں پیدا ہوئے۔ فرید قصبہ جاج مؤ )م’’ لکھی ہے۔ آپ۱۸۰‘‘قبل اصل پیشہ سپہ گری تھا۔ تباہی سلطنت ۱۸۱‘‘ الدین گنج شکر کی اوالد سے تھے

۱۸۲سے ہتھیار کھول کر مضمون باندھنے پر قناعت کی۔ او رزینت المساجد

آپ کی تاریخ وفات کے بارے میں بھی ۱۸۳میں ایسے بیٹھے کہ مر کر اٹھے ۔ تحریر کی ۱۸۴ء ۱۷۳۴۔۳۵ھ /۱۱۴۷ا ہے۔ جمیل جالبی نے اختالف پایاجا ت

لکھا ہے۔ نظامی بدایونی کے ۱۸۶ء ۱۷۴۷ اے حمید نے سن وفات ۱۸۵ہے

ھ ۱۱۵۰ء مطابق ۱۷۴۵مطابق مظہر جان جاناں اور خان آرزو کے شاگر د تھے۔ نے بھی نظامی بدایونی کی تائید ۱۸۸ عظیم الحق جنید ی ۱۸۷میں فوت ہوئے۔

Page 55: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

55

کو درست قرار دیا ہے۔ جب کہ بشارت ۱۸۹ء ۱۷۳۵۔ صابردت نے کی ہے

نے جمیل جالبی کی تائید کی ہے۔۱۹۰فروغشیخ شرف الدین مضمون شاعری میں ایہام گوئی کی بنیاد رکھنے والوں میں

شامل تھے۔ انھوں نے خود اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ جگ میں مضموں شہرہ تیراہوا ہے

طرح ایہام کی جب سیں نکالی

مضمون کا دیوان نایا ب ہے۔ مختلف تذکروں میں جو اشعار ملتے ہیں۔ انھیں پڑھ کر ہی یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ وہ بنیادی طورپر ایہام گوتھے۔ وہ کچھ زود گو

۔ ان بھی نہیں تھے۔ صر ف اس وقت شعر کہتے جب کوئی نیا مضمون سوجھتا

شعر ریختہ رابہ تالش ’’کے کالم سے متعلق قائم چاند پوری کی رائے ہے کہ ۱۹۱‘‘ الفاظ و معنی تازہ می گفت

محبوب کیا ہجر میںہم نے کیا کیا نہ ترے

صبر ایوب گیا گریۂ یعقوب کیا

نظر آتا نہیں وہ ماہ رو اب

۱۹۲گزرتا ہے مجھے یہ چاند خالی

فتاب رسوارائے دلی کے جوہریوں کے خاندان سے تعلق تھا ۔معمولی آ

قابلیت کا آدمی تھا۔ جو ان ہونے پر فوج میں مالزم ہو گیا اور بادشاہ کے توپ

خانے سے منسلک ہوا۔ آفتاب رسوا رائے کے بارے مختلف تذکرہ نگاروں نے لگایا اس کے عشق کی بے ترتیب سی روداد تحریر کی ہے۔ جس سے یہ اندازہ

جا سکتا ہے کہ مکتب میں پڑھتا تھا کہ ایک لڑکے پر عاشق ہو گیا۔ فوج میں

جانے کے بعد ایک ہندو لڑکے پر عاشق ہوا لیکن وہ لڑکا جب مر گیا تو مالزمت ترک کر دی اور ایک منو نامی کمبوہ لڑکے سے دل لگا لیا۔ اس معاشقے میں وہ

ایک بارصوبہ سندھ کا ’’ب رسوا نے اس حد تک گیا کہ اسالم قبول کر لیا۔ آفتا

سفر بھی کیا۔ جہاں اس وقت کے نامور شعراء مال محمد باقر، قاضی عبدالقادراور شیخ محمد کریم کے ساتھ کئی بزم سخنوراں میں بھی شرکت کی انھیں اپنا کالم

وا پر بعد میں جنون کی سی کیفیت ؎ رس۱۹‘‘ سنایا اور خوب داد وصول کی۔

شراب بہت زیادہ پینے اور عریاں رہنے لگا۔ منہ پر توے کی طاری ہو گئی۔ سیاہی ملے ،ڈولی میں بیٹھ کر کبھی کبھی کوچہ و بازار میں بھی پھرتا دکھائی

دیتا۔

اسی شوریدہ سری میں ایک بار قصبہ امروہہ بھی گیا اورسادات میں سے ایک میزبان نے کے ہاں ٹھہرا۔ صاحب خانہ کے بہت اچھی طرح مہمانداری کی۔۔۔

ایک لڑکے کے شراب النے محلہ احمد نگر بھیجا جو بیرون شہر واقع تھا۔ دیر

لگی ،اس نے کہا جب تک شراب آئے باغ کی سیر کرلیں ۔ رسوا نے فی البدیہہ :کہا

Page 56: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

56

لڑکا گیا شراب کو کاہے کی سیر ہو

ہم گزرے اس شراب سے لڑکے کی خیر

۱۹۴ہو

: میں دلی میں وفات پائی ۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ء۱۷۴۷رسوا نے

جس جوہری بچہ پر یہ عاشق ہوا تھا اور دیوانہ ہو گیا تھا۔ ایک دن مجمع میں ’’

اسے دیکھا تو بے باکی سے اس کا بوسہ لے لیا۔ اس نے پیٹ میں چاقو ایسا مارا رنے کے کہ پیٹھ سے پار ہو گیا۔ لوگ قاتل کو مقتول کے قصاص میں گرفتار ک

لیے دوڑے رسوا نے منع کیا۔ دوستو ں نے عالج کے لیے جراح کو بالنا چاہا۔

:رسوا نے کہا گو زخم دل مرے کو نہ سیوے مرا میاں

میں مر گیا تو کیا ہوا جیوے مرا میاں

۱۹۵

کہا جاتا ہے کہ مرتے وقت مشربوں کو وصیت کی کہ مجھے مرنے کے بعد

رسوا کم تعلیم یافتہ ہونے کے ۱۹۶غسل دینا۔ چنانچہ ایسا ہی کیاگیا۔ شراب سے

باوجود ایک اچھا شاعر اور عمدہ ذوق کا مالک تھا۔ اس نے کسی استاد سے شرف تلمذ حاصل نہیں کیا لیکن طبع موزوں تھی جو کچھ دل میں آتا وہ دوستوں سے

ت اور کیفیت کی طرح در کہہ دیتا اور موزوں ہوتا۔ اس کا کالم بھی اس کی فطر

بدر ہو گیا لیکن جو کالم موجود ہے۔ اس سے اردو زبان پر اس کی گرفت اور بدلتے ہوئے رنگ و روپ میں اس کی پختگی کو دیکھ کر اور پڑھ کر داد دینا

:پڑتی ہے۔ چند اشعار مالحظہ ہوں رسوا اگرچہ کرنا تھا عالم میں یوں مجھے

نگاہ ناز سے دیکھا تھا کیوں مجھےایسی

رہتا ہوں روز و شب میں اسی فکر میں

ملول

کس کا کہا میں مانوں اور کس کا کروں

۱۹۷عدول

ولی ویلوری: میر ولی فیاض نام اور ولی تخلص تھا۔ تاریخ پیدائش کے

بارے میں مؤرخین نے ال علمی کا اظہار کیا ہے۔ ویلوروی الحقے سے یلور طرف نگاہ جاتی ہے کہ وہاں جنم لیا ہو گا۔ جو سات گڑھ کے قلعدار قصبے کی

: کی ملک میں شامل تھا۔ علیم صبا نویدی کے مطابقابتدا ہی میں فوج میں مالزم ہو گئے۔ مگر بعض حاالت و حادثات کی بنا ’’

پر ان کو سات گڑھ ترک کر کے کڑپہ کی طرف کوچ کرنا پڑا۔ کڑپہ کے

ں ان کو مالزمت پر مامور کیا۔ آخر زمانہ میں قلعہ سدھوٹ مینےصوبہ

مالزمت سے سبکدوش ہو کر اپنی جاگیر چٹ پیٹھ میں اقامت کر لی او

۱۹۸‘‘روہیں انتقال ہوا۔

ولی ویلوروی کی تاریخ وفات میں اختالف پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ

روضتہ العقبی ’’ھ لکھا ہے ۔لیکن جب ولی کی مثنوی ۱۱۵۰نے ولی کاسن وفات

Page 57: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

57

ھ کو درست مانتے ہیں تو گوپی چند نارنگ کا محررہ ۱۱۶۲کا سن تصنیف ‘‘

ھ ۱۱۶۲سن مفروضہ ثابت ہوتا ہے اور یہ ماننا پڑتا ہے کہ ولی کی وفات ء( کے بعد ہوئی۔۱۷۴۹)

وں نے کئی مثنویاں لکھیں۔ پہلی مثنوی ولی ویلوروی ایک پر گو شاعر تھے انھ

رتن پدم قلعہ سندھوٹ میں عسکری مالزمت کے دوران لکھی۔ یہ مثنوی ملک محمد جائسی کی تصنیف پدماوت سے ماخوذ ہے اور چار ہزاراشعار پر مشتمل

ہے۔ ولی ویلوروی کی دوسری تصنیف روضتہ الشہداء ہے۔ بقول مولوی نصیر

مال حسین واعظ الکاشفی کی فارسی کتاب سے لیا گیا الدین ہاشمی اس کا موضوع ہے۔ بلکہ اس کتاب کا پورا لفظی ترجمہ ہے۔ اس کے سن تصنیف میں بھی محققین

متفق نہیں۔ موالنا نصیر الدین ہاشمی ا ور ڈاکٹر محی الدین زور نے اس کا سن

ید لکھا ہے۔ موالنا س۱۹۹ھ ۱۱۱۹ھ جب کہ رام بابو سکسینہ نے ۱۱۳۷تصنیف شمس الدین قادری نے ولی دکھنی کے ذیل میں سید محمد فیاض نام کے حاالت

؎200ھ تحریر کیا ہے۔ ۱۱۱۹نقل کرتے ہوئے

اس کے برعکس کتب خانہ ساالر جنگ میں موجود قلمی نسخے کے موجب اس ۲۰۱ھ قرار پاتا ہے۔ ۱۱۴۱کا سن تصنیف

۱۱۱۷معقول کو نکال کر تاریخ نکالی جائے تو اگر آخری مصرع سے ولی اور

ھ تاریخ نکلتی ہے۔ ۱۱۵۵بنتی ہے۔ اور اگر ولی کو بھی شامل کر لیا جائے تو ھ ہے۔ آپ کی ایک مثنوی ۱۱۶۲بہر حال ولی ریلوروی کی تیسری تصنیف

ہے جو دعاؤں پر مشتمل ہے۔ آپ کے مراثی بھی مرثیت اور ‘ ‘ دعائے فاطمہ’’

ساتھ کافی مشہور رہے۔ آپ کے کالم میں سادگی ، فطری و بین کے وصف کے معنوی حسن اور دلکشی پائی جاتی ہے لیکن شاعری کو اس کے اپنے دور کے

:تناظر میں مطالعہ کرنا ضروری ہے یا الہی از طفیل ابنیاء و اولیا

غوث اور اقطاب جتنے ہیں جہاں کے

اصفیا

میں ہے ولی کی التجاآبرو رکھ دو جہاں

ہے او بندہ کمتریں منجھ حال پر احسان کر

۲۰۲

سراج الدین علی خان آرزو کے والد کا نام حسام الدین تھا۔ جو گوالیار کے

۲۰۴ ،ھ۱۱۰۰ء ( ۱۶۸۹۔۹۰ )۲۰۳ ،ھ۱۱۰۱رہنے والے تھے۔ اسی شہر میں یعنی مختلف (۲۰۶)ء میں ۷ ۱۶۸ (۲۰۵)ء اکبر آبادمیں۱۶۸۷۔۸۸ء( ۱۶۸۹)

الرائے حوالوں لیکن اکثریت اول الذکرحوالے سے اتفاق رائے کا اظہار کرتے

ہوئے پیدائش کی جگہ او رسال کو درست قرار دیتے ہیں۔خان آرزو فرخ سیر کے عہد میں گوالیار سے دہلی آئے اور شاہ عالم ثانی کے عہد میں لکھنؤ چلے گئے۔

منصب داروں میں تھے۔ ہنگامہ نیکو سیر آپ سپاہی پیشہ اور عالمگیر کے شاہی

Page 58: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

58

کو رفع کرنے کے لیے جو لشکر گوالیار گیا یہ اس کے ساتھ تھے۔ آپ نے تیس

صابردت نے اپنے مجلہ ۲۰۷ھ میں لکھنؤ میں وفات پائی۔ ۱۱۶۹ربیع اآلخر نقل کی ہے۔ یہ تاریخ اس حوالے سے صحیح گردانی جا ۲۰۸جنوری ۲۷میں

ھ تحریر کیا ہے۔ اور سن ۱۱۶۹قین نے سن وفات صرف سکتی ہے ۔ کہ جن محق

ھ ۱۱۶۹ء لکھا ہے وہ ایک غلط فہمی کا شکار ہو گئے۔ کیونکہ ۱۷۵۵عیسوی ء کے سال پڑتے ہیں جب کہ ربیع الثانی کا مہینہ جنوری ۱۷۵۶ء اور ۱۷۵۵میں

میں آتا ہے۔۲۰۹

دفن کیا گیا کیونکہ آپ نے دہل ی میں تدفین کی خان آروز کو لکھنو میں امانتاوصیت کی تھی۔ جسے بعد میں پورا کیا گیا۔ خان آروز نہ صرف عمدہ شاعر تھے

بلکہ وہ اپنے عہد کے ایک نقاد ،عالم ،ماہر لسانیات، محقق اور لغت نویس بھی

تھے۔ اردو اور سنسکرت کے عالوء کئی عالقائی زبانوں مثال پنجابی ،برج بھاشا، بھی واقف تھے۔ موسیقی، فن تاریخ گوئی اور علم ہریانی اور اودھی وغیرہ سے

آ پ نے نظم اور نثر میں ۲۱۰عروض میں بھی استادی کا درجہ رکھتے تھے۔

کئی کتابیں تصنیف کیں ۔ اب خواب میں ہم اس کی صورت کو ہیں

ترستے

اے آرزو ہوا کیا بختوں کی یاوری کو

۲۱۱

اس زلف سیاہ فام کی کیا دھوم پڑی ہے

آئینہ کے گلشن میں گھٹا جھوم رہی ہے

دریا غرق میں ڈوبا تجھ سیم تن کے آگے

موتی نے کان پکڑا تیرے سخن کے آگے

۲۱۲

قزلباش خان امید : مرزا محمد رضا نام ،قزلباش خان خطاب اور امید

اید اس وجہ سے تاریخ تخلص تھا۔ آپ کی والدت چونکہ ہمدان ایران کی ہے۔ شوالدت کے بارے میں کسی محقق نے بات نہیں کی ۔ جوانی میں آپ اصفہان آگئے

اور پھر عالمگیر کے عہد میں ہندوستان آئے۔ جہاں آپ بہادر شاہ کے عہد میں

منصب ہزاری پر مع خطاب قزلباش خان ممتاز ہوئے۔ منصب ہزاری کو ایک شعر :میں اس طرح موزوں کیا ہے

مثل بلبل کے ہوں سدا ناالں

۲۱۳یہ مرا منصب ہزاری ہے

بعدہ کسی خدمت پر مامور ہو کر برہان چلے گئے۔ وہاں سے معزولی کے

ھ میں مبارز خان ۱۱۳۷بعد امیر اال مرافیروز جنگ نے کرناٹک کا حاکم بنا دیا۔ و قزلباش خان بھی میدان جنگ ناظم حیدر آباد اور آصف جاہ اول میں لڑائی ہوئی ت

چند دنوں کے ۲۱۴میں مبارز خان کے ساتھ تھے۔ شکست ہوئی اور قید ہوئے۔

بعد رہائی ہوئی۔ جاگیر بھی بحال ہوئی اور آصف جا ہ نے قلعداری بھی عنایت

Page 59: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

59

کی۔ اب امید آصف جاہ کی ہمراہی میں رہنے لگے۔ آصف جاہ جب شاہجہان کے

کے ہمراہ تھے۔ آصف جاہ جب دکن کو لوٹے تو قزلباش ہاں آئے تو امید بھی ان خان امید نوکری چھوڑکر شاہجہان آباد کے ہورہے اور باآلخر یہیں

قائم چاند پوری ۲۱۵ء(میں سکتے کی حالت میں وفات پائی۔ ۱۷۴۶ھ)۱۱۵۹

:لکھتے ہیں کہتمام عمر در عیاشی و عاشق پیشگی بسربردہ ۔۔۔۔غرض زندگی دوروزہ ’’

بسر بردہ کہ رشک عمر نوح میتوان گفت و دیوانش در فارسی را بنوعی

۲۱۶‘‘ ضخیم است ۔

۲۱۷بتائی ہے۔ ۱۲جمیل جالبی نے تذکروں میں نقل اشعار کی تعداد لیکن نور الحسن ہاشمی نے زیادہ تعداد میں اشعار نقل کیے ہیں۔ فارسی آپ کی

ہزار اشعار پر مشتمل ۸مادری زبان تھی جس میں آپ شعر کہتے تھے اور تقریبا

ایک دیوان بھی چھوڑا لیکن ہندوستان میں آنے کے بعد آپ نے اردو زبان کو اہمیت دینا شروع کی یہاں تک کہ اس میں شعر کہنے لگے۔ اردو زبان میں آپ

نے اگرچہ بہت کم اشعار کہے لیکن تذکرہ نگاران اشعار کی خوبی اور سادگی کے باعث انھیں بھال نہ سکے۔

‘‘جانم فدائے تست’’رفتم بہ پیش و گفتم

غصہ کیا و گالی دیا اور دگر لڑی

الزم ہے۲۱۸دہر میں نقش وفا

شیشہ و سنگ یہ سب صحبت ہے

دست اغیار ہے زیر سر یار

صحبت ہے۲۱۹آج امید کڈھب

یار گھر جاتا ہے یارو کیا کروں

۲۲۰ ھائے گھر جاتا ہے یارو کیا کروں

راجا مہاتما ناگری داس: کشن گڑھ )راجپوتانہ (کے راجا تھے۔ جس کا وہاں اپنا نظام اور اپناانتظام تھا۔ تمام ادارے خود مختار تھے۔ کشن گڑھ کی اپنی

فوج تھی۔ جس کے سپہ ساالر مہاتما ناگری داس تھے۔ جنگ و جدل کے میدان

چیلے او رکرشن جی سے ہٹ کر آپ بلبھی فرقے کے گوسوامی چھور داس کےء میں جنم لیا او ۱۶۹۹کے بھگت بھی تھے۔ آپ نے اپنی ریاست میں ہی

ء میں برج میں وفات پائی۔۔۔۔ آپ سنسکرت ،فارسی ،ہندی او رڈنگل کے ۱۷۶۴ر

آپ ۲۲۱عالم تھے۔ گجراتی ،پنجابی اور گڑھوالی زبانوں سے بھی واقف تھے۔ ھی کہتے تھے۔اپنے عہد کی مروجہ اردو) ہندی (میں شعر ب

آیا عشق لپیٹ میں کھائی چشم چپیٹ

سوہی آیا خلق میں اور بھریں سب پیٹ

۲۲۲

شیخ ظہور الدین حاتم: محمد حاتم خاندانی نام ظہور الدین تاریخی اور حاتم

ء آپ کا سن ۱۶۹۹ھ مطابق ۱۱۱۱ہیں گویا ۱۱۱۱تخلص ہے۔ ظہور کے اعداد

Page 60: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

60

شیخ ظہور الدین حاتم کہ شاہ حاتم گفتہ می ’’ی رقم طراز ہیں ۔پیدائش ہے۔ مصحف

شد ،مولدش شاہجہان آباد است ۔ تاریخ تولدش بقولے از حرف ظہور برمی آید۔۔۔۔ بعد میں آنے والے تذکرہ ۲۲۳مرد سپاہی پیشہ از ہندوستان زایان قدیم بود۔

استفادہ کیا نویسوں نے اس کی تقلید کی اور مصحفی نے اپنے پیشروں سے بھی

شاہ حاتم کے والد کا نام شیخ فتح الدین تھا جو سپاہی پیشہ تھے ۔۔۔۔شاہ حاتم ‘‘ ہے ۔ کا یہی موروثی پیشہ ان کے لیے بھی روزی کا ذریعہ تھا۔

اے قدر داں کمال حاتم دیکھ

۲۲۴عاشق و شاعر و سپاہی ہے

ھ میں ۱۱۴۸ء /۱۷۳۵میں گزارا۔ شیخ حاتم نے ابتدائی زمانہ تنگ دستی

نواب عمدۃ الملک امیر خان انجام کے مصاحب خاص بنے اور داروغہ مطبح کے فرائض انجام دیے ۔ جب وہ الہ آباد کی صوبیداری پر چلے گئے تو ایک دوسرے

روایت یہ بھی ہے کہ آپ امیر ۲۲۵امیر نور الدین خان کے خان ساماں ہوئے۔

آباد میں بھی امارت مطبخ پر فائز رہے اور انجام کے قتل خان انجام کے ساتھ الہ ہو جانے کے بعد دہلی آگئے۔

شاہ حاتم کی وفات کے بارے میں تذکرہ نویسوں کے ہاں اختالفات موجود

ہیں۔ اختالفات کی ابتدا تو پیدائش کے سن عیسوی میں بھی سامنے آگئی تھی ہے۔ جب کہ یہ سن عیسوی ء لکھا ۱۶۹۸ھ کو ۱۱۱۱کیونکہ اکثر محققین نے

ھ میں آتا ہے۔ مصحفی کے مطابق شاہ حاتم کی تاریخ وفات ۱۱۰۹ھ اور ۱۱۱۰

ء دہلی ۱۷۹۱ء( کریم الدین نے درمیان ۱۷۸۳ )۲۲۶ھ ۱۱۹۷رمضان المبارک سال ۹۶ حسرت موہانی نے ۲۲۸ء ۱۷۹۲ء یا ۱۷۹۱ رام بابو سکسینہ نے ۲۲۷

لکھی ہے یہ اختالف ڈاکٹر ۲۲۹دہلیھ بمقام ۱۲۰۷کی عمر اور ماہ رمضان

سن وفات رقم ۲۳۰ء ۱۷۷۳رؤف پاریکھ کے ہاں مزید بڑھ جاتا ہے۔ جنھوں نے کیا ہے۔ بہر حال تذکرہ نگاروں اور مورخین کے درمیان یہ اختالفات موجود ہیں۔

لیکن اگر تحقیق کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہو تو راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ

ء( کی تاریخ وفات درست ہوسکتی ہے۔۱۷۹۳ھ)۱۲۰۷شیخ حاتم ایک پر گو شاعر تھے۔ عالوہ ازیں ایک موزوں نثر نگار تھے۔

آپ کے تالمذہ کا ایک وسیع حلقہ تھا۔ شاعری میں ابتدا آپ نے رمزی تخلص کیا۔

آخرعمر میں انتخاب لیکن بعد میں حاتم کر لیا۔ آ پ کا کلیات بھی بڑا ضخیم ہے۔ ۲۳۱ک چھوٹا سا دیوان مرتب کیا اور اس کا نام دیوان زادہ رکھا۔ کرکے ای

حاتم ابتدا میں ایہام گوئی کی طرف مائل تھے او رشمالی ہند میں ایہام گوئی

ھ میں ایک غزل کے مقطع میں ۱۱۷۱کی بنیاد رکھنے والوں میں سے تھے۔ لیکن حاتم نے ایہام گوئی کے رجحان کے خاتمے کے کا اعالن کیا۔ان دنوں سب کو ہوا ہے صاف گوئی کا

تالش

نام کو چرچا نہیں حاتم کہیں ایہام کا

Page 61: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

ھ میں ۱۱۶۸ھ کے لگ بھگ مرتب ہوا۔ لیکن ۱۱۴۴حاتم کا ابتدائی دیوان

نئی شعری لسانیات کے سانچے میں ڈھال کر نیا دیوان مرتب کرنے کا آغا زکیا ۲۳۲ھ میں مکمل ہوا۔ ۱۱۶۹جو

حاتم کو زندگی میں زندگی کو کئی رنگوں میں دیکھنے کا موقع مال جب

فوج میں تھے اور دراوغہ کے عہدے پر کام کر رہے تھے تو یہ بے فکری کا زمانہ تھا تب آپ مذہب کی طرف بھی زیادہ مائل نہیں تھے۔ لیکن انجام کے بعد

قدیمی اور خدمت آپ نے تعلقات ظاہری سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔نیز منصب

عسکریہ سے مستغفی ہو کر درویشی اختیار کرلی۔درویشوں کی صحبت اور اہل ہللا کے فیض نے ان کے مزاج میں انقالب برپا کر دیا۔ ان کا زیادہ وقت بادل علی

شاہ کے تکیے میں گزرنے لگا اور باآلخر حاتم ان کے سچے دل سے معتقد اور

پرستار بن گئے۔ حاتم کے ترک دنیا کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ وہ اپنے عہد

کے سیاسی انتشار ، معاشی خلفشار اور اخالقی تنزل سے دل برداشتہ ہو گئے

اپنے دور کی سیاسی اور سماجی صورت حال پر انھوں نے ایک ۲۳۳تھے۔ ے محض دو بندوں میں ہی اشرافیہ شہر آشوب لکھا تھا ۔ اس طویل شہر آشوب ک

کا المیہ ، مغلیہ دور کا جاگیر داری نظام ،امراء اور منصب داروں کی شکست و

ریخت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جو تھے اب حالل خور ہوئے رحرام خو

جو چور تھے سو ہوئے شاہ، شاہ چور

ہوئے

زور جو زیر دست تھے سو ان دنوں وہ

ہوئے

جنھوں کو زور تھا سو اب مثال مور ہوئے

جو خاک چھانتے پھرتے تھے سو ہوئے

۲۳۴زردار

ڈاکٹر امیر عارفی نے حاتم کے شہر آشوب پر بڑی تفصیل سے بحث کی

ہے۔ نیز مذکورہ باال نظم کے عالوہ اس نے حاتم کی ایک اور نظم کو بھی شہر بنیادی موضوع بھی سماجی انقالب ہے آشوب تصور کیا ہے کیونکہ اس نظم کا

حاتم کے کا درج ذیل شعرحملے سے وجود میں آیا۔ شہر آشوب جو نادر شاہ کے خیاالت کی عکاسی میں ثابت ہوں گے۔

تو کھول چشم دل اور دیکھ قدرت حق یار

کہ جنے ارض و سما اور کیا ہے لیل و

نہار

ہرکے دو وار نوا کے سیس لگا رہ سدا تو

نہ کھو تو عمر کو غفلت میں ٹک تو ہو

ہشیار

کہ دور بارہ صدی کا ہے سخت نا ہنجار

Page 62: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

62

جہاں کے باغ میں یکساں ہے اب خزاں و

۲۳۵بہار

متوجہ بھی شاہ حاتم آخری عمر میں اردو زبان کی درستی کی طرف

ہوئے۔ اور بہت سے غیر مانوس اور غیر فصیح الفاظ ترک کردیے۔ حاتم خموش لطف سخن کچھ نہیں رہا

یکتا عبث پھرے ہے کوئی نکتہ داں نہیں

۲۳۶

خوش حال ان کا جن کو ہوئی رخصت

چمن

ہم جھانک جھانک رخنۂ دیوار رہ گئے

۲۳۷

کے شیخ ظہور الدین حاتم کا نثر میں بھی اپنا اسلوب تھا۔ اردو نثر میں ان

مزاج کوڈاکٹر نجم االسالم نے سراہتے ہوئے لکھا ہے کہ حاتم کی اس مزاحیہ نثر سے قبل اردو میں مزاحیہ نثر کی کوئی مثال موجود نہیں۔ لہذا حاتم کی یہ تحریر

۲۳۸اردو میں مزاحیہ نثر کا قدیم ترین نمونہ ہے۔

نسخہ ’’ ڈاکٹر نجم االسالم نے جس نثر کا ذکر کیا ہے۔ یہ شاہ حاتم کانسخہ ’’ہے۔ جو محض تفنن طبع کے لیے ہے۔ اس نسخے کا عنوان ‘‘ظریفانہ

ہے۔ چند سطور نقل ہیں۔‘‘ مفرح الضحک معتدل من طب الظرافتچاندنی کاروپ ،دوپہر کی دھوپ، چوڑیل کی چوٹی ، بھتنے کی لنگوٹی ’’

، پریوں کی نظر گزر، جوگی کی بھرکی، کبوتر کی غٹ کوں، مرغے کی

ں ،چیل کی چل چل ، کیڑوں کی کل کل ،جوگالی شتر، بکرے کی ککڑو

میں ، کوے کی ٹیں، آٹھ آٹھ رتی۔

مچھر کا بھیجا ، ڈائن کا کلیجہ ، دریا کی موجوں کا بل، غول بیابانی کی

چہل، جچا کی پیر ،چڑیوں کی بھیر ،کینچوے کی انگڑائی، کچوؤں کی

جمائی۔ بار بارہ ماسہ۔

اسی نوے پیزاروں سے زیادہ نہ کھائے۔ حاتم جب خوب بھوک لگے تو

کہے ایک روگ سے ستہتر روگ کو پیدا کرے جس کا ہزار نام ایک ہللا

۲۳۹‘‘۔

صمصام شیرازی نے شیخ محمد باقر کا ذکر کیا ہے۔ جو شیخ محمد علی

کے فرزند اور اویس ثانی کے پوتے تھے۔ دیگر کسی بھی تذکرہ نگار نے اس نام

نے وزیر بیجا پورشاہ ازی کا ذکر نہیں کیا۔ صمصام شیر کے کسی منصب دارہونے اور مصطفی خان کی بد سلوکی سے تنگ آ کر سلطنت مغلیہ میں حاضر

بوجہ پیرانہ سالی آپ نے منصب و خلعت پانے کے حاالت کے بعد لکھا ہے۔

نوکری سے دستبردار ہو کر اورنگ آباد میں سکونت اختیار کی او ر وہیں میں انتقال فرمایا۔ آپ علوم معقول و منقول میں فاضل ، جید اور ۲۴۰ ،ھ۱۱۲۸

عالم متجر تھے ۔تلخیص المرام فی علم الکالم ،روضتہ اال نوار اور ذبدۃ اال فکار

۲۴۱‘‘آپ کی مشہور تالیفات ہیں۔

Page 63: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

63

غالم مصطفی خان یکرنگ: آپ کے نام میں تھورا سا اختالف مختلف

گاروں کے ہاں پایا جاتا ہے۔ ڈاکٹر نو رالحسن ہاشمی نے غالم مصطفی تذکرہ ن ،میر ۲۴۳ سعادت علی خان ناصر نے مصطفی خان ۲۴۲خان نامل لکھا ہے۔

تحریر کیا ہے۔جس کی تائید اگرچہ ،تاریخ ۲۴۴حسن نے مصطفی قلی خان

گار نے دیوان میں کی گئی ہے۔ لیکن مقالہ ن۲۴۵ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند زادہ کے دیباچہ میں لکھا نام غالم مصطفی بھی نقل کیا ہے۔ ششماہی فن اور

نے مصطفی خان نام اور دیوان زادہ کی بھی تائید کی ہے۔ لیکن ۲۴۶شخصیت

مصطفی خان ’’درست میر،گردیزی ، قائم اور شفیق کے تذکروں میں لکھے گئے۔ شعر میں مصطفی خان کو باندھا کو قرارد یا ہے۔ خودیکرنگ نے اپنے ایک‘‘

ہے۔ :اس کو مت بوجھوں اوروں کی طرح

۲۴۷مصطفی خان آشنا یک رنگ ہے

یک رنگ محمد شاہی فوج میں منصب دار تھے۔ ان کے منصب پر تاحال ایک پردہ پڑا ہے۔ جس طرح اس کی تاریخ پیدائش کے بارے میں کوئی حوالہ

یہیں تک معلومات ہیں کہ آبرو اور مضمون کے ہم عصر تھے۔ نہیں ملتا۔ بس

شاعروں میں ابتدا آبرو سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ لیکن بعد کو مرزا جان جاناں مظہر کو بھی باوجود سن رسیدہ ہونے کے کالم دکھانے لگے۔ آدمی یار باش

سپر نگرکی نظر سے۲۴۸تھے۔ اور زمانے میں کافی معروف و مشہور تھے۔

یکرنگ کے دو دیوان گزرے تھے۔اور اس کے حوالے سے بعد میں آنے والے ابیات دیوانش ہمگی و ’’تذکرہ نگاروں نے بات کی ہے۔ البتہ قائم کے مطابق

اور مبتال کی نظر سے ایک ہزار ابیات ۲۴۹تمامی قریب پانصد شعر خواہد بود

تھے وہ ایہام گوئی یکرنگ جس عہد میں شعر کہہ رہے۲۵۰کا دیوان گزرا تھا۔ کا تھا لیکن اس کے ہاں ایہا م کی وہ شدید صورت نہیں ملتی جو آبرو اور ناجی

وغیرہ کے ہاں تھی۔ یک رنگ کی وفات کے سن پر بھی اختالف پایا جاتا ہے۔ اور

ء ۱۷۵۱۔۵۲ ،۲۵۳ء سے قبل ۱۷۵۲ ، ۲۵۲ء ۲۵۱،۱۷۴۹ء ۱۷۳۷وہ ہے یح تاریخ ان سنین میں سے کوئی یہ سب مفروضے ہیں۔ او رصح۲۵۴سے قبل

ایک یا آس پاس ہو گی۔ شاید اسی وجہ سے بہت سے مؤرخین اور متذکرین نے

تاریخ پیدائش اور وفات کی نقل سے اجتناب برتا ہے۔ اردو زبان و ادب کی خدمت کے حوالے سے ان کے دونوں مجموعوں کے اشعار اور ان اشعار میں سالست

:لکل واضح ہے۔نمونۂ کالماور صفائی کا غالب رنگ ،با کہتے ہیں ہم پکار سنو کان دھر سجن

گر غیر سے ملو گے تو دیکھو کہ ہم نہیں

۲۵۵

سترھویں اور اٹھارویں صدی کے عسکری شعرا ء میں ایک نام مرزا

سنگی بیگ گرفتار کا بھی آتا ہے۔ آپ شاہ حاتم کے شاگرد تھے۔ اس دور کی

Page 64: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

64

ا جاسکتا ہے کہ آپ کا تعلق بھی ایہام گوئی کی تحریک سے ہو گا۔ نسبت سے کہ

لیکن یہ ضروری بھی نہیں کیونکہ آپ کا ایک ہی شعر دستیاب ہوا ہے اور وہ اس تحریک سے بہت دور ہے۔

خانہ خراب عشق کا ہو ، اور کیا کہوں

خواب عدم سے سو توں کو ناحق جگا

۲۵۶دیا

اس عہد میں میر ناصر ساماں فارسی اور ریختہ کے سپاہی شاعر ہوئے۔

سامان تخلص می کر دو با کمال بے ’’انھوں نے میرزا مظہر سے تربیت پائی۔

سرو سامانی بی زیست۔ متوطن جو نپورا ست ۔در ابتدائی سلطنت محمد شاہ بہ دارا پور کے سادات میں سے تھے۔ میرزا مظہر آپ جون۲۵۷‘‘ لخالفت اقامت داشت

آپ اپنے وطن میں بخشی گری اور واقعہ نگاری پر مامور ہوئے۔ ’’ کے ہاں سے

ء( میں نواح کے حاکم سے لڑائی میں شہید ۱۷۳۴۔۳۵ھ )۱۱۴۷عین شباب ۲۵۸ہوئے۔

حافظ محمود شیرانی نے ایک شخصیت شیخ محمد فاضل بٹالوی کا ذکر کیا ں شمولیت کے لیے نکلے لیکن جب بٹالہ پہنچے تو کچھ ہے جو شاہی لشکر می

ایسے واقعات پیش آئے کہ آگے جانے کا ارادہ ترک کر کے تصوف کی راہ پر

چل پڑے۔ آپ سے چالس و بروایتے دیگر ایک سو سے زائد تصانیف منسوب ہیں۔ ء( میں بہتر برس کی عمر میں وفات پائی۔ ۱۷۳۹ھ)مارچ ۱۱۵۱ذی الحجہ ۷

.ء( بنتا ہے۱۶۶۸۔۹ھ)۱۰۷۹ظ سے آپ کی والدت کا سن اس لحا۲۵۹

از خوش نویسان خط نستعلیق و از منسلکان ’’مرزا امان بیگ رنگین مرد یست سپاہی ’’ ۲۶۰‘‘سرکار نواب افتخار الدولہ مرزا علی خان بہادر بود

پیشہ خوش اوقات و خوش ذات ۔۔۔۔از یاران میاں غریب و ضع قدیم دارد،ایہام

اس سے زائد کسی تذکرہ نگار نے کچھ نہیں لکھا۔ چونکہ طبعش ۲۶۱‘‘ت بنداسمائل بہ ایہام تھی اس لیے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عہد ایہام گوئی میں ہوئے

ہوں گے ایک مو زلف کا رنگیں کو نشان بھیجا ہے

۲۶۲بعد مدت کے کیا یاد صنم نے بارے

محرم: محمد ماہ نام ،محرم تخلص اور محمد معظم خان خطاب محمد ماہ

آپ شجاعت خان صوبہ دار صوبہ برار کے فرزند اور نواب صاحب ۲۶۳تھا ۔حضرت شاہ نظام الدین نگرامی کے نواسہ تھے۔ شاہ صاحب مشاہیر مشائخ دکن

نواب شجاعت خان نواب آصف الدولہ کے منصبدار پنج ہزاری ۲۶۴سے تھے۔

اور رگھو غنیم کے ساتھ جنگ میں شہید ہوئے۔ محمد ماہ محرم خود بھی تھے بھی منصبدار تھے۔اور اسی عہدہ پر فائز تھے۔ ڈاکٹر محی الدین زور لکھتے ہیں۔

شعر و سخن کے دلدادہ تھے۔ ناصر جنگ شہید نے ان کی قدر افزائی ’’

در کی۔ ان کی حیات میں اورنگ آباد کے شعراء میں ممتاز رہے بعد کو حی

۲۶۵‘‘ ئی ۔ ء میں وفات پا۱۷۵۲آباد چلے گئے۔ اور وہیں

Page 65: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

65

بہار آؤے تو بلبل کو قفس میں قید مت کرنا

تو ایسا ظلم اس بے کس سے صیاد مت

۲۶۶کرنا

اسد للاہ انسان کامکمل نام اسد ہللا اسد یار خان تھا۔ جب کہ انسان تخلص

مشہور بنام پیر جگنو ۔۔۔۔مولد ’’م لطف ہللا خان تھا۔ کرتے تھے۔ آپ کے والد کا نا

۲۶۷‘‘ اس کا آگرہ تھا۔ مگر بعضے جائے اس کو دہلوی سے کہتے ہیں۔محمدشاہ کے عہد میں اس کو منصب ہفت ہزاری حاصل تھا۔ جس سے اندازہ لگایا

جا سکتا ہے کہ وہ دربار شاہی میں ایک اعلی مرتبے پر فائز تھا۔ کیونکہ ہفت

زاری شہزادوں کی صف میں اور کبھی شہزادوں کے بعد دوسری صف میں ہھ میں فوت ہوا۔ اس ۱۱۵۸ء مطابق ربیع االول ۱۷۴۵اپریل ’’شمار ہوتے تھے۔

۲۶۸‘‘ کی الش آگرہ الئی گئی اور وہاں اپنے موروثی قبرستان میں دفن ہوا۔

تضائے باو صف کثرت مشاغل دینوی با ق’’تذکرہ ریختہ گویاں کے مطابق ۲۶۹‘‘ موزونی طبیعت شعر بزبان ریختہ می گفت

نہ کر واعظ کے کہنے پر نظر اے ابو

الہوس ہرگز

بہشت آخر مکاں ہے دوزخ اک اشرع درکا

۲۷۰ہے

زمین و آسمان اور مہر ومہ سب تجھ میں

ہیں انسان

نظر بھر دیکھ مشت خاک میں کیا کیا

۲۷۱جھمکڑا ہے

مرد سپاہی پیشہ دارد، گوہر اصلش از بدخشاں ’’محتشم علی خان حشمت:

آپ شاہ جہاں آباد میں پیدا ’’ ۲۷۲‘‘است و لعل رنگیں خیالش نہایت رخشاں

تذکرہ شعراء ہندی میں ۲۷۳‘‘ ہوئے۔آپ کے والد کانام میر باقی بدخشانی تھا۔ : لکھا ہے کہزرگ ہمت، سید صحیح و نسب بود ،سپاہی پیشہ شاعر بلند فطرت، ب’’

،عمدہ روزگار ، شاعر فارسی و ریختہ ،فہمیدہ و سنجیدہ می گفت، خوش

معاش ویار باش باہمہ کس معجز و انکسار پیش می آمد۔ دردل ہمہ کس

جائے او خالی است۔ برادر خورد میر والیت ہللا خان درآخرروزگار ترک

۲۷۴‘‘وت شد۔کردہ خانہ نشین بود، ناگاہ ف

۲۷۵ھ تحریر کیا ہے۔ ۱۱۶۳نور الحسن ہاشمی نے سن وفات پھر وہی ہم ہیں وہی تم ہو وہی باتیں ہیں

پھر وہی عیش وہی دن ہیں وہی راتیں

۲۷۶ہیں

شاعری کے میدان کے پہلو ان اور ملک معانی ’’محمد علی خان حشمت:

ہسوار غنی بیگ قبول کے شاگرد تھے۔ ان کی تربیت سے کمال حاصل کیا کے ش

آپ کشمیر ی النسل تھے۔ شاہ جہاں آباد کے ۲۷۷‘‘اور شاعری پروان چڑھی ۔

Page 66: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

66

خوشحال لوگوں میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ جری ، بہادر، اور قوی ہیکل شخص

میں طاق تھے۔ صفدر جنگ کی فوج میں کسی عہدے پر تھے اور فنون سپہ گری صفدر جنگ نے جب نواب علی محمد خان کے انتقال کے ’’ سمجھے جاتے تھے۔

بعد قطب الدین علی خان کو روہیلوں کے خالف مراد آباد کی جانب بھجوایا تو

آپ نے نواب محمد علی خان کے لڑکوں ۲۷۸‘‘حشمت بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ھ میں 1161ے وئکے خالف ہونے والی اس جنگ میں بڑی دلیری سے لڑتے ہ

جان

جب کہ ھمزہ اس میں الف کی آواز کے ساتھ شامل ہے جو پورے ۲۷۹۔ دیلڑائی کا سن لکھا ہے جو غلط ۲۸۰ ،ھ۱۱۸۸ھ بنتا ہے۔ اللہ سریرام نے ۱۱۶۲

سے نقل کیا ہے۔ ۲۸۱ہے اللہ نے غالبا کریم الدین سے

کہتے تھے۔ جناب حشمت فضیلت علمی کے ساتھ ساتھ شعر بھی خوبمگر اس فن میں اپنی شہرت کے طالب نہیں تھے۔ سپاہگری میں آپ کو جو کمال

تھا اس پر مان کرتے تھے۔ بہر حال اردو زبان و ادب میں آپ کا نام لکھا جا تا

رہے گا۔ خط نے ترا حسن سب اڑایا

۲۸۲یہ سبز قدم کہاں سے آیا

اں تلک کہ ابغم نے لیا ہے گھیر مجھے ی

دیتا ہے ساتھ دینے سے مجھ کو جواب دل

۲۸۳

جب آخزاں چمن میں ہوئی آشنائے گل

تب عندلیب روکے پکاری کہ ہائے گل

۲۸۴

نگہت گل نے ستایا کسے ز نخدان کے بیچ

پھیر زنجیر کی جھنکار پڑی کان کے بیچ

۲۸۵

وثی قانون راجہ نول رائے وفا: راجہ نول رام کے باپ دادا اٹاوہ کے مور

گو تھے۔ آپ کا ابتدائی زمانہ راجہ رتن چند کے پاس گزرا جو ذات کے بنئے اور سید عبدہللا خان صوبیدار الہ آباد کے دیوان تھے۔ ذاتی قابلیت اور کارکردگی کی

جو ہر دیو بندی نے آپ کا نام اللہ نول ۲۸۶‘‘ بدولت نول رائے بھی راجہ ہوئے۔

ہ اللہ نول رام ایک الگ شخصیت ہے اور راجہ لکھا ہے جب ک۲۸۷رام وفا نول رائے وفا ایک الگ شخصیت۔۔۔۔راجہ نول رائے جہاں ایک اچھے سپہ ساالر

تھے وہیں ایک اچھے شاعر کی حیثیت سے بھی دنیائے ادب میں مشہور تھے۔

۲۸۸ راجہ نول رائے نے محمد شاہ کا زمانہ پایا تھا۔نواب صفدر جنگ منصور

۹فرخ آباد کے پٹھانوں سے جنگ کرتے ہوئے ’’وان تھے اور علی خان کے دی

‘‘ ھ کی شب عین لڑائی میں ایک پٹھان کی گولی کا نشانہ بنے۔۱۱۶۳رمضان

Page 67: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

67

لکھا ہے۔ مؤ لف کو ایک ۲۹۰ تذکرہ گلشن ہندی میں نام اللہ نون رائے ۲۸۹

کتابت کی نام میں غلطی ہو گئی اللہ اور راجہ کی پہچان نہ ہوئی۔ دوسرا نون شاید‘‘ مہین براد ر راجہ گالب رائے دیوان نجیب الدولہ نجیب خان’’ غلطی ہو۔ مزید

تحریر کیا ہے۔ قائم نے بھی نام اللہ اور راجہ کو ایک سمجھا لیکن مہین ۲۹۱

لکھا ہے۔ جب کہ مہین برادرش اور مہین برادر ۲۹۲برادرش راجہ گالب رائے بڑا ہو جاتا ہے۔ سے رشتہ بڑے سے چھوٹا اور چھوٹے سے

رمضان ۱۰تاریخ وفات میں بھی اختالف موجود ہے۔ مالک رام نے جمعہ

رمضان المبارک اس ۱۰اور ۹ تحریر کی ہے۔ ۲۹۳ء ۱۷۵۰۔اگست ۲ھ /۱۱۶۳رمضان کے دن کے بعد کی شب ہو اور یہ ۹لیے قابل قبول ہے ممکن ہے کہ

کا ۹کی شب گنی جاتی ہے۔ عام حاالت میں چونکہ ۱۰شب قمری حوالے سے

اگست اس لیے متنازع ۲کی شب تصور ہوتی ہے۔ ۹دن گزرا ہوتا ہے اس لیے اگست بنتی ہے۔ یہاں بھی کتابت کی غلطی کا ۱۲رمضان المبارک کو ۹ہے کہ

کا ایک لکھنے میں رہ گیا ہو ۔ سید رفیق مارہروی نے ۱۲امکان ہو سکتا ہے کہ

تحریر کیا ہے۔ جب کہ جوہر دیو بند ی ۲۹۴‘‘ ء میں جنگ میں کام آئے۱۷۶۲’’ء میں روہیلوں نے آپ پر لشکر کشی کی۔ شجاعت سے لڑ ۱۷۷۲نے لکھا ہے کہ

ء کی تاریخ اس لیے ۱۷۵۰ھ /۱۱۶ ۲۹۵کر ولی نعمت کی بندگی میں کام آئے۔

درست خیال کی جا سکتی ہے کہ صفدر جنگ احمد شاہ )عہد حکومت ء( کے عہد میں بھی وزیر تھا اور اسی دوران احمدشاہ ابدالی نے ۱۷۵۴ء۔۱۷۴۸

بھی حملہ کیا تھا۔ بہر حال راجہ نول وفا اردو اور فارسی کا عمدہ شاعر تھا۔ اور

دونوں زبانوں میں صاحب دیوان تھا۔ ایسے مزاج بھی کہیں دیکھے ہیں اے وفا

ہ بیزار ہو گیا کیا بات تھی جو رات و

۲۹۶

میر محمد باقر حزیں کا وطن اکبر آباد)آگرہ( تھا۔آپ کے والد فخر ہللا خان

بھی سپاہی پیشہ تھے اور کسی جنگ میں شہید ہوئے۔ آپ نے شاہ جہان آباد میں

شاعر ریختہ ’’پرورش پائی ۔ اسی نسبت سے شاہ جہاں آبادی یاد دہلوی کہالئے۔ جاناں۔۔۔۔ سپاہی پیشہ ،از سخنش معلوم می شود کہ از شاگردان مرزا مظہر جان

جب تک کہ دہلی میں رہے مالزمت کے حوالے ۲۹۷‘‘بسیار مربوط گوست ۔

سے معاش کی طرف کوئی فکر نہ تھی۔ جب حاالت خراب ہوئے تو پٹنہ چلے گئے اور نواب سعید احمد صولت جنگ کی رفاقت میں فراغت کے ساتھ زندگی

لیکن یہ عرصہ بہت مختصر تھا۔ آپ کے سن وصال کے ۲۹۸بسر کرنے لگے۔

ھ ۱۱۶۵بارے میں اگرچہ خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ لیکن جمیل جالبی نے تحریر کی ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ مزیدار رقم ۲۹۹ء ۱۷۵۲/

ء میں میر ۱۷۴۹ھ /۱۱۶۲آخر میں نواب صولت جنگ کے ہمراہ ’’طراز ہیں۔

ا سے ہیہاں دو تین سال رہ کر دنیا و مافپورنیہ آگئے۔ یمحمد وحید کی خدمت میں

Page 68: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

68

توبہ کر لی اور احمد شاہ کے زمانۂ سلطنت میں وفات پائی۔ اور قطب اال قطاب

لیکن میر ۳۰۰‘‘ حضرت شاہ مصطفی جمال الحق کے روضے میں دفن ہوئے۔ میر ۳۰۱‘‘ خداش سالمت دارد’’حسن کے یہ الفاظ مغالطے میں ڈال دیتے ہیں۔

حسن دہلوی کی یہ دعا بعد کی ہے آپ سے ایک دیوان مع قصائد یادگار موجود

ہے۔کیوں نہ ہووے شاد ہم سے حضرت مجنوں

کی روح

عشق کے صحرا کو رکھتے ہیں حزیں آباد

۳۰۲ہم

اور ۳۰۳نواب امیر خان انجام: عمدۃ الملک خطاب، محمد اسحاق نام صاحب گلشن ہند نے یہ تحریر کر کے الجھن سی پید اکر دی ہے انجام تخلص تھا۔

نواب امیر خان نام والد ماجد ان کے عمدۃ الملک نواب امیر خان ہیں کہ جو ’’کہ

۳۰۴عالمگیر خالمکاں کے عہد سلطنت میں زینت بخش مسند امارت کے تھے۔ ی کے صاحبزادے یہ امیر خان عالمگیر شاہ’’ تعلیقات مرقع دہلی میں مرقوم ہے۔

گویا امیر خان یا تو والد کی نسبت سے یا پھر امارت کے حوالے ۳۰۵‘‘تھے

سے کہا جاتا ہو گا یہ ایک خطاب بھی ہو سکتا ہے آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ذہانت ،معاملہ فہمی ،لطیفہ گوئی ،سخن فہمی اور بدیہہ گوئی ،حاضر جوابی

ادر بیدل کے شاگرد تھے۔ اورادا فہمی میں کوئی ان کا نظیر نہیں تھا۔ مرزا عبدالق

محمد شاہ کے ۳۰۶اردو ،فارسی ا ور ہندی تینوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ ۳۰۷زمانے میں ہفت ہزاروی منصب پر فائز تھے۔

نواب امیر خان ، شاہ نعمت ہللا ولی کرمانی کی اوالد میں سے تھے۔ محمد

نھیں الہ آباد ھ میں ا۱۱۵۲ء /۱۷۳۹شاہ رنگیال کے مخصوصین میں سے تھے۔ ھ میں دربار میں واپس بال لیے گئے ۱۱۵۶ء /۱۷۴۳کا صوبہ دار مقرر کیا گیا ۔

مگر یہ شاہی ۳۰۸کیونکہ بادشاہ کو ان کا دربار سے جدا رہنا پسند نہ تھا۔

عنایات کے بھروسے پر نہایت گستاخ ہو گیا کہ آخر بادشاہ نے ناراض ہو کر ایک آپ ۳۰۹ء کو اسے قتل کر دیا۔ ۱۷۴۷دسمبر ۱۵ امیر کو اشارہ کیا اور اس نے

کو دہلی سرائے روح ہللا خان مین دفن کیا گیا۔ بروایتے دیگر اعتماد الدولہ وزیر کے کہنے پر دلی آئے ۔تین برس نہ گزرے تھے کہ ایک شخص نے عین صحن

دولت خانہ میں ایک کٹار مار کر انھیں ہال ک کر دیا۔ حاالنکہ وہ شخص بھی وہیں

بروایت ثالثہ ،بدست غالم نمک حرام در ۳۱۰ھ ۱۱۵۹الک کر دیا گیا۔ وفات ہ امیر خان ۳۱۱عین جالی دروازۂ قلعہ بادشاہ برای رخصت روح او فرستار۔

انجام کی وفات کے بارے میں کئی روایات ہیں جن میں سے کچھ اوپر درج کر

لتذکرہ نے تفصیل دی گئی ہیں۔ سن وفات کے دیگر اختالفات پر صاحب جامع اھ لیکن حاشیہ میں ایک ۱۰۶۰سے تحریر کیا ہے کہ شفیق کے حوالے سے

ھ لکھا ہے۔ایک روایت میں کسی نے شہادت کی تاریخ ۱۰۵۹تخرجہ کے بعد

Page 69: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

69

ھ بنتا ہے۔ اس میں ایک حوالہ ۱۱۵۹سے نکالی ہے۔ جس سے ‘‘غم عمدہ ’’

دسمبر ۲۶وفات محمد شمس الحق نے تاریخ ۳۱۲ء درج ہے۔۱۷۵۵۔۶ھ /۱۱۶۹ تحریر کی ہے۔ غالبا موخر الذکر حوالہ سب سے زیادہ معتبر ہے۔۳۱۳ء ۱۷۴۶

عمدۃ الملک نواب امیر خان انجام جب استاد کی دیکھا دیکھی خود بھی

اردو میں شعر کہنے کی طرف متوجہ ہوئے تو اہل دربار کو بھی اردو کے فروغ جس میں وقت کے فضال اور زبان میں شامل کرنے کے لیے ایک انجمن قائم کی۔

الفاظ و محاورات پر بحث ہوتی اور بڑے رگڑے جھگڑوں ’’دان شریک ہوتے ۔

،چھان بین کے بعد انجمن کے دفتر میں وہ تحقیق شدہ الفاظ و محاورات درج ہوتے۔ اور پھرسارے ہند میں اس کی نقل بھیج دی جاتی او ردیگر امراء اس امیر

: نمونۂ کالم۳۱۴‘‘کی تقلید کو فخر جانتے۔نعش میری دیکھ کر مقتل میں یوں کہنے

لگا

کچھ تو یہ صورت نظر آتی ہے پہچانی

ہوئی

ساتھ اپنے سر کے تھا انجام پاس تمکنت

شکر ہے تڑپے نہ زیر خنجر فوالد ہم

۳۱۵

محمد شاکر ناجی دلی کے رہنے والے تھے۔ ڈاکٹر فضل الحق نے ناجی کا

دیوان مرتب کر کے شائع کر دیا ہے۔ اس کے مختصر سے مقدمے میں انھوں نے ۳۱۶ھ۱۱۰۵ء /۱۶۹۲ناجی کا سن پیدائش قاضی عبدالودود کے حوالے سے

ےکی وجہ س یتناجی کے صحیح سن پیدائش سے نا واقف لیکنتحریر کیا ہے۔

۳۱۷‘‘یا جا رہا ہے۔ لقیاس آرائیوں سے کام کے ۳۱۸ء ۱۷۰۶ء اور ۱۷۰۰ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے سن والدت

۳۱۹درمیان لکھا ہے۔ محمد شاکر ناجی پیشے کے اعتبار سے سپاہی تھے۔

ناجی اس زوال یافتہ تہذیب کا ایک نمائندہ ہے۔ جسے ذہنی پسماندگی یا اخالقی پس دور کہا جاتا ہے۔ یہ وہ دور ہے جب ایہام گوئی زوروں پر تھی۔ او ماندگی کا

رناجی بھی اس کا ایک حصہ تھا۔ شاکر ناجی کے سن وفات کے بارے میں بھی

۳۲۰‘‘ء۱۷۵۴’’ تذکرہ نگار اور مورخین متفق نہیں۔ جیسےء ۱۷۳۹’’ء(۱۷۵۴۔۵۵ )۳۲۲‘‘ ھ۱۱۶۸’’ ۳۲۱‘‘ ھ۱۱۵۳۔۱۷۴۰/۵۴۔۴۱’

و غیرہ ۔ لیکن اکثر مورخین اس بات پر متفق ۳۲۳‘‘ نء کے درمیا۱۷۴۵اور

میں وفات پائی یا میدان جنگ میں شجاعت سے لڑتے ۳۳۴ء ۱۷۴۷ہیں کہ ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کی۔اس حقیقت تک پہنچنے کے لیے ہمیں تاریخ

فصیلی کا سہارا لینا پڑے گا۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس حقیقت کی تالش میں بڑی ت

بحث کی ہے۔ اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انجام کی وفات کے وقت ناجی : زندہ تھے لیکن

Page 70: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

70

ء میں جیسا کہ نکات الشعرا سے معلوم ہوتا ہے وہ زندہ ۱۷۵۲ھ/۱۱۶۵’’

ھ ۱۱۶۵ء کے بعد اور ۱۷۴۶ھ/۱۱۵۹نہیں تھے۔ اس طرح ناجی کا انتقال

ھ ۱۱۶۵گر یہ واقعہ ء سے بہت پہلے ہوا۔ بہت پہلے اس لیے کہ ا۱۷۵۲/

ھ کا ہوتا تو میر یہ لکھتے کہ حال ہی کا یہ چند سال ۱۱۶۳ھ یا ۱۱۶۴یا

ھ ۱۱۶۰پہلے کا واقعہ ہے۔ اس لیے ناجی کا سال وفات کم و بیش

۳۲۵‘‘ ء میں قیاس کیا جا سکتا ہے۔ ۱۷۴۷/

جب بات محمد شاکر ناجی کی شاعر ی او ر اردو کی خدمات کی ہوتی ہے

دور کی خصوصیات کو نظر میں رکھنا پڑے گا۔ تو محمد شاہینظر کر اپنی قامت اور مرے اشک رواں

اوپر

تماشا دیکھتا کیا ہے تو سرو جوئباری کا

۳۲۶

مرزا علی نقی ا یجاد کا نام میرزا علی تقی خان بھی آیا ہے۔ ایجاد آپ کا

علی خان ان کا خطا ب تھا۔ اور تخلص تھا۔ صاحب دکن میں اردو کے مطالق نقد لیکن ایک سطر بعد ہی وہ لکھتے ہیں کہ آصف ۳۲۷خاندان قاچار سے تھے۔

جاہ واول کے زمانہ میں ان کے باپ کے نقد علی خان دیوانی بادشاہی میں مالزم

لچھمی نرائن شفیق نے بھی لقب نقد علی خان لکھا ہے لیکن والد کا ۳۲۸تھے۔ شفیق نے تو آپ کا ذکر نقد علی خان ۳۲۹نام احمد علی خان تحریر کیا ہے۔

ایجاد کے ذیل میں کیا ہے۔ صاحب جامع التذکرہ نے نام تو چمنستان شعراء سے

نقد علی خان کا بیٹا لکھا نقل کیا ہے۔ لیکن ولدیت میں اس سے اتفاق نہیں کیا اور خان ایجاد آصف جاہ کے قرب و مصاحبت اور لشکر کی کوتوالی سے ’’ہے ۔ نیز

سرفراز تھا۔ نظام الدولہ فتح جنگ کے زمانے میں صاحبزادہ انتظام الدولہ نصرت

جنگ کی اتالیقی سے مشرف تھا۔ اس زمانے میں حیدر آباد میں اپنے گھر میں س کی زبان نہیں۔ دقیقہ شناس طبیعت کے زور سے کچھ رہتا تھا۔ ریختہ اگرچہ ا

۳۳۰کہتا ہے۔

بشارت فروغ ،ایجاد دکنی کے ذیل میں علی نقی خان بن نقد علی خان والدت لکھتے ہیں۔ لچھمی نرائن شفیق نے تاریخ وفات ۳۳۱ء ۱۷۷۱ء وفات ۱۶۹۹

ء ۱۷۷۵ تحریر کی ہے۔ مذکورہ سن ہجری محرم سے ذیقعد تک ۲۳۲ھ ۱۱۸۹

میں آتا ہے۔ ۳۳۳ء ۱۷۷۶ں اور ذی الحجہ میایجاد کی زبان فارسی تھی لیکن اردو زبان میں بھی اس نے اپنا حصہ ڈاال۔

بقول شفیق اس کے کالم میں رنگینی ہے۔ آج کل گردش زمانہ سے نواب نظام

:نمونۂ کالم ۳۳۴الدولہ بہادر کے لشکر میں زندگی گزار رہے ہیں۔ گلگشت کی خبر جب تیرے چمن میں پاتی

باد صبا خوشی سے پھولوں میں نہیں

۳۳۵سماتی

Page 71: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

ء میں ۱۶۹۹مہاراجہ جے پور جس کا نام جے سنگھ سوائی بتایا جاتا ہے۔

ء میں وفات پائی ۔جے پور کی بنیاد اسی مہاراجہ نے اپنے نام ۱۷۴۳پیدا ہوا اور جو بعد میں صرف جے پور کے نام ۳۳۶نام سے رکھی پرسوائی جے پور کے

سے ریاست مشہور ہوئی۔ جے سنگھ سوائی خود بھی شاعر تھا اور شعرا کی سر

پر ستی بھی کرتا تھا۔ اس کے بارے میں مزید معلومات معلوم نہیں ہو سکیں۔عاشق علی خان ایما خوشحال خان قاقشال کے نواسے تھے جو بادشاہی

ں تھے۔ نانا کی وفات کے بعد منصب و خطاب خانی سے سر منصب داروں می

وزارت خان ابن دیانت ، ی خانمیر یحیی مخاطب بہ عاشق عل ؎ ۳۲۷فراز ہوئے۔ خان کی دستگیری سے پانچ صدی منصب و خطاب خانی سے سر فراز ہوئے۔

نظام الملک آصف جاہ کے روشناسوں میں سے تھے۔ آخر دالور خان پسر دالور

ت کے ساتھ جو قلعداری ،فوجداری اور دیوانی سے ممتاز تھا گئے اور خان نصر ۳۳۸استاد تھے مر گئے۔ فنون علم ہند ی کے

ء( میں وفات پائی۔ شعر گوئی اور تاریخ گوئی ۱۷۵۸۔۵۹ھ )۱۱۷۲آپ نے

لچھمی نرائن کے مطابق میر یحیی المخاطب بہ ۳۳۹کا بڑا ملکہ حاصل تھا۔ ر کے رہنے والے تھے۔ ایہام گوئی کا مرتبہ بلند کیا۔ اسی عاشق علی خان برہان پو

۳۴۰وسیلہ سے خواص و عام میں مشہور ہوئے۔ کیوں نہ گھبراوے وہ کمان ابرو

واسطے جس کے کھینچتے ہیں چلے

۳۴۱

محمد شاہ بادشاہ اورنگ زیب کے جانشینوں میں سے تھا۔ جو کٹھ پتلی حکمران رہے۔ لیکن اس سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کہ فوجیں ان کے ماتحت

ء میں سید ۱۷۱۹ستمبر ’’تھیں اور کسی نہ کسی جنگ میں وہ شریک بھی ہوئے۔

ر بٹھایا۔ اس برادران نے شہزادہ روشن اختر کو محمد شاہ کے لقب سے تخت پء( لیکن عیش و عشرت میں ۱۷۲۳نے سید برادران سے تو نجات حاصل کر لی۔ )

ڈوب گیا۔ اور محمد شاہ رنگیال کے نام سے مشہور ہوا۔۔۔۔ صوبے ایک کے بعد

ء میں نادر شاہ نے بھی بڑی تباہی ۱۷۳۹ایک خود مختاری کا اعالن کرنے لگے۔ ۳۴۲مچائی۔

مغلیہ سلطنت کو اپنی ہوشیاری سے قائم محمد شاہ نے کسی نہ کسی طرح

ء میں وفات پائی تو اس بادشاہت کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ ۱۷۴۸رکھا۔ جب اپریل محمد شاہ خود بھی شاعر تھا اور شعراء کی سر پرستی بھی کیا کرتا تھا۔ اس کے

ن و ادب کافی فروغ پا چکے تھے ۔ عہد تک اردو زبایں دل کی چکری جڑ کے بھیجا ہوں نین م

تری خاطر

اگر پہنچے تمہارے ہاتھ لکھ بھیجو کہ

۳۴۳پہنچی ہے

Page 72: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

اللہ جے کشن بے جان کے بارے میں اگرچہ کسی منصب یا فوج کی

’’ مالزمت کا انکشاف نہیں ہوا لیکن محمد سردار علی حیدر آبادی نے لکھا ہے کہے مجھ سے فرمایا تھا کہ بے جان لچھمی نرائن شفیق لکھتے ہیں کہ شاہ سراج ن

نواب صالبت جنگ بہادر کے لشکر کے ساتھ جانے کے لیے تیار ہو کر میرے

پاس آئے اور ایک شعر تازہ جو کہا تھا پڑھا اور اس پر اصالح کی خواہش ظاہر :کی وہ شعر ہے

تری یاد کمر سے یوں عدم میں مل گیا بے

جاں

ہ پاوے گر کوئی اس کا کفن کہ قالب بھی ن

۳۴۴کھولے

اس سے ثابت ہوا کہ آپ سراج اورنگ آبادی کے شاگر دتھے۔ اور یہ ان

سے آخری مالقات اور آخری شعر ہو سکتا ہے کیونکہ صاحب جامع التذکرہ نے

بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ اس کے بعد ان کا کچھ پتہ نہیں چال۔ نظامی روں سے اتفاق کرتے ہوئے دارا النشاء میں مالزمت بدایونی نے دیگر تذکرہ نگا

کا حوالہ دیا ہے اور خوش نویسی کی تعریف کی ہے۔ جب کہ شفیق نے ہی لکھا

نواب صالبت جنگ کے لشکر میں شامل تھے اورنگ آباد کی جنگ کے ’’ ہے کہبے جان شریں زبان اور خوش گفتار تھے ۳۴۵‘‘لیے گئے پھر پتہ نہ چال۔

ی فکر رسا سے معنی آفرینی کرتے تھے۔ آپ سراج اورنگ آبادی سے جب کہ اپن

ن پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ عمر میں بڑے تھے۔ لیکن والدت ووفات کے سنیصمصام الدولہ خان دوراں شہید بہادر منصور جنگ کا منصور خطاب

اسم کے بیٹے تھے۔ امیر اال مراء بھی تھا۔ آپ کا تخلص عاصم تھا۔ آپ خواجہ ق

آپ جہاں دار شاہ کی جنگ واقع اکبر آباد میں ’’اور آپ کا وطن اکبر آباد تھاشریک رہے۔ خان دوراں خان بہادر کے خطاب سے نوازے گئے۔ بخشی گیری

اس کے بعد میر آتشی ہو گئے۔ صمصام الدولہ خطاب مال۔ جب محمد شاہ تخت

ے مقابلہ پر بھیجے گئے۔ وہیں نشین ہوئے تو پھر طلب کیے گئے۔ نادر شاہ ک ۳۴۶‘‘ جنگ میں زخمی ہو کر فوت ہوئے۔

فروری ۱۷نواب امیر االمراء صمصام الدولہ خان دوراں عاصم نے ھ( کو وفات پائی۔ اور دہلی میں آپ کی تدفین ہوئی۔ آپ ۱۱۵۱ )۳۴۷ء ۱۷۳۹

کبھی کبھی فارسی اور ریختہ )اردو( میں شعر کہا کرتے تھے۔ نزیک ہے خزاں کا ہووے گزر چمن میں

اب شور کر لے بلبل آوے جو تیرے من

۳۴۸میں

شکر لب نے بس گرم جوشی سے آج

۳۴۹میرے دل کو تل میں مرندا کیا

میرزا محمد رفیع سودا کے معاصرین میں حمید اورنگ آبادی ،میر تقی

علی حسینی گردیزی ،قائم چاند پوری اور میر حسن دہلوی وہ اہل قلم میر، سید فتح

Page 73: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

73

ہیں۔ جنھوں نے تذکرہ نویسی کی ابتداء کی اور اپنے عہد کے اردو زبان کے

شعراء کو زندگی سے ہمکنار کیا۔ حمید اورنگ آبادی نے منصبدار ۳۵۰میر تقی میر نے سودا کو نوکر پیشہ

اور میر ۳۵۳ قائم نے مصاحب پیشگی ۳۵۲ گردیزی نے سپاہی پیشہ ۳۵۱

لکھا ہے اس کی تفصیل میں ابو اللیث صدیقی کا ۳۵۴حسن نے نوکری پیشہ ا س زمانہ عام رواج یہ تھا کہ لوگ کسی نہ کسی طرح سلطنت کے ’’کہنا ہے کہ

امورمیں دخل پانے کی کوشش کرتے تھے اور اس کے لیے ایک ذریعہ فوجی

ہ امراء اور وزراء کا تقرب تھا۔۔۔۔ بہادر شاہ کے عہد مالزمت اور دوسرا ذریع ۳۵۶‘‘ میں سودا نے پہال ذریعہ اختیار کیا۔ ۳۵۵ھ( ۱۱۲۴ھ تا ۱۱۱۹)

ڈاکٹر جمیل جالبی کا کہنا ہے کہ ابتدا میں سودا سپاہی پیشہ رہے اور پھر

سودا نے اپنے سپاہی ۳۵۷اسے ترک کر کے مصاحبت کا پیشہ اختیار کر لیا۔ :ہونے کا اظہار اپنے ایک قصیدے میں بھی کیا ہےپیشہ

ال بٹھایا مجھے گھر بار چھڑا لشکر میں

پال بے چوب تلے اپنے بغیر از پرتل

۳۵۸

کے مطالعہ سے بھی اس کے ‘‘تضحیک روزگار ’’سودا کا قصیدہ

:عسکری ہونے کا اظہار ہوتا ہے۔ جب وہ لکھتے ہیں کہ گھوڑا لے اگر نوکری کرتے ہیں کسو کی

تنخواہ کا پھر عالم باال پہ نشاں ہے

گزرے ہے سدا یوں الف و دانہ کی خاطر

شمشیر جو گھر میں تو سپر بنیے کے ہاں

ہے

یوں بھی نہ مال کچھ تو ہر اک پالکی آگے

اس سچ سے رسالے کا رسالہ ہی رواں ہے

۳۵۹

ر کی فوج پر مختصر کہوں گا کہ ایک سپاہی وہ ہوتے تھے یہاں اس دو

جوا پنا گھوڑا لے کر آتے تھے۔ اور ایک سپاہی وہ جسے سرکاری گھوڑا ملتا تھا۔ فوج کی حالت ان دنوں بہت خراب تھی۔ یہاں تک کہ تنخواہیں بھی نہیں ملتی

۔ لکھا ہے۳۶۰تھیں۔جدید تذکرہ نگاروں میں سے کئی ایک نے انھیں فوجی

مقالے میں سودا کے فوجی ہونے کے حوالے سے یہ ساری بحث اس لیے کرنا پڑی کہ اس وقت کے عسکری مرزا ابو طالب کی ڈائری کے حوالے سے ابو

در لشکر بہادر شاہ سابقہ ’’طالب کے ذیل میں قائم چاند پوری نے ایک فقرہ

ہے حاالنکہ یہ لکھا ۳۶۱‘‘آشنائی باعم بزرگوار میرزا رفیع صاحب بہم رساند۔تذکرہ میرزا رفیع کے چچا سے آشنائی کا ہے۔ کیا یہ مرزا رفیع سودا ہی ہے۔

مرزا ا بو طالب بلنڈہ قصبہ کے رہنے والے تھے جو اورنگ آباد کے نزدیک ہے۔

وہ سودا بنے بھی نہیں تھے۔ اور جب سودا دہلی کے رہنے والے تھے۔ تب غالبا

Page 74: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

74

طالب ہللا کو پیارے ہو چکے ہوں گے کیونکہ اس سودا کانام ہوا تب تک میرزا ابو

ھ میں ان کی عمر ستر سال تھی۔ سودا کے ذیل میں قائم نے ایسا ۱۱۲۲وقت یعنی کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس حوالے کو لے کر کئی ا یک تذکرہ نگاروں نے سوداکی

جو بعید ۳۶۲تاریخ والد ت اور اس کے عسکری ہونے پر سوال اٹھا دیے ہیں۔

یاس ہیں۔از قبعینہ مرزا محمد رفیع سودا کے سن والدت میں بھی اختالف پائے جاتے

۳۶۳ھ ۱۱۲۵ہیں۔ چونکہ قطعیت کے ساتھ سال پیدائش کا ذکر نہیں ہوا ۔اس لیے

۳۶۵ھ ۱۱۰۰ء(، ۱۶۹۴۔۹۵ )۳۶۴ھ سے قبل ۱۱۰۵ء (، ۱۷۱۳)ھ اور ۱۱۱۸ ، ۳۶۷ء ۱۷۰۶۔۷ھ /۱۱۱۸سے ، ۳۶۶ھ ۱۱۲۸ء( ۱۶۸۸۔۸۹)

وغیرہ وغیرہ۔ اب سودا کے سن والدت کا تعین اس ۳۶۸ھ کے درمیان ۱۱۲۰

حوالے سے کیا جا سکتا ہے کہ اگر انھوں نے قطعی بہادر شاہ کے لشکر کے ۱۸ساتھ دکن کے معرکے میں شرکت کی تھی تو اس وقت اس کی عمر کم از کم

سال ہو گی۔ کیونکہ اس کے ساتھ ہی اس امر کو بھی مؤرخین ادب نے ۲۰سے

لکھا ہے کہ سودا نے والد مرزا محمد شفیع کی وفات کے بعد تجارت سے کمائی ہوئی ان کی جمع پونجی بے اعتدالیوں میں ضائع کردی اور مجبورا فوج میں

ا اتنی جلدی سال سے کم عمر لڑک ۲۰یا ۱۸بھرتی ہونا پڑا۔ تو گویا وہ دولت

ضائع نہیں کر سکتا۔ بہر حال اٹھارہ سال بھی عمر ہو تو ابو اللیث صدیقی کی مقرر ہ حد یا سن درست قرار دیا جا سکتا ہے۔

اسی طرح تذکرہ نگاروں نے سودا کے سن وفات میں بھی اختالف کی

جون ۲۶کوشش کی ہے لیکن اس میں زیادہ فرق نہیں اور زیادہ تذکرہ نگار کو درست قرار دیتے ہیں اور اس بات ۳۷۰ء ۱۷۸۱جون ۲۶ یا ۳۶۹ ء۱۷۸۰

پر بھی تمام تذکرہ نگار اور مورخین کا اتفاق ہے کہ آپ نے لکھنؤ میں وفات

پائی۔اردو زبان و ادب کے فروغ میں میرزا رفیع سودا کی خدمات قابل تحسین اور ثیت اس جن جیسی ہے سودا کی حی ناقابل فراموش ہیں۔ تبسم کاشمیری کے مطابق

جس نے ایک پوشیدہ طاقت سے قصیدے ،غزل، ہجو، شہرآشوب ،قطعات اور

۳۷۱ مراثی میں کماالت کے شعبدے دکھائے۔مندرجہ باال اصناف سخن کے عالوہ ترجیع بند ،مخمس ،شہر

آشوب،رباعیات ،مثنویاں ،مستزاد ،تاریخیں ،پہلیاں اور واسوخت وغیرہ بھی سودا عبرت الغافلین)بزبان ( ۱ں موجود ہیں۔ سودا کی تصانیف )کی شاعری می

تضمین برکال م میر ( ۵دیوان اردو)( ۴دیوان فارسی)( ۳کلیات سودا)( ۲فارسی()

قصائد امرائے دہلی و لکھنوء ( ۶اور دو خط بنام میر ایک نظم میں ایک نثر میں )تقی میر کی مثنوی میر ( ۹قصائد آئمہ معصومین)( ۸سالم اور مرثیہ)( ۷وغیرہ )

۳۷۲تذکرہ شعرائے اردو )نایاب ہے( ( ۱۰شعلۂ عشق کا ترجمہ )نثر میں( )

م نمونہ کال

Page 75: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

75

دال ہے اس گفتگو اوپر‘‘ من رآنی’’حدیث

کہ دیکھا جس نے اس کو اس نے دیکھی

۳۷۳شکل یزدانی

کٹی رات سودا تری فریاد سے آنکھوں میں

آئی ہے سحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر

۳۷۴بھی

کا اسلوب دیکھیےایک شہر آشو ب

جہاں بہار میں ہنستے تھے بیٹھ کر ہنڈول

خراب ہیں وہ عمارات کیا کہوں تجھ پاس

بجائے گل چمنوں میں کمر کمر ہے گھاس

کہیں ستون پڑا ہے کہیں پڑے مرغول

۳۷۵

سودا کو چونکہ ایک نثر نگار کی حیثیت سے بھی تسلیم کیا جاتا میرزا

ہے۔ اس سے نثر میں تین چیزیں منسوب ہیں ایک مثنوی شعلۂ عشق کا نثری ترجمہ جس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ دوسرا دیباچہ سبیل ہدایت اور تیسرا خط۔

کی سبیل ہدایت میر محمد تقی کی مثنوی ہے۔ اس دیباچہ کی ا ہمیت زبان

تراش خراش کی وجہ ہے جب کہ زبان نا پختگی اور نا ہمواریوں کی مشکلوں :سے دو چار تھی۔ سودا کے اس دیباچہ کا نمونۂ مالحظہ ہو

ضمیر منیر پر آئینہ داران معنی مبرہن ہو کہ محض عنایت حق تعالی کی ’’

ہے جو طوطئ ناطقہ شیریں سخن ہو۔ پس یہ چند مصرع کہ از قبیل ریختہ

یختہ خامہ دو زبان اپنے صفحہ کاغذ پر تحریرپائے الزم ہے کہ در ر

ہمیشہ مورد طویل سخن سنجان روزگار کروں تازبانی ان اشخاص کی

۳۷۶‘‘ ۔تحسین وآفریں رہوں

نواب درگاہ قلی خان کا لقب ذوالقدر۔ خطاب ساالر جنگ ،موتمن الدولہ ا

پانچویں پشت میں ایک نواب کی۳۷۷لملک ،خان دوراں اور درگاہ تخلص تھا۔

بزرگ خاندان قلی خان قندھار سے شاہ جہان کے دربار میں آئے تھے۔ اور یہاں مراتب پائے۔ پروفیسر انصار ہللا نے بغیر کسی وضاحت کے خاندان قلی خان کو

درگاہ قلی خان کا والد تحریر کیا ہے۔ اور جد امجد اعلی کا نام جو ہجرت کر کے

لکھا ہے۔ حاالنکہ درگاہ قلی خان کے والد کانام ۳۷۸خان آئے تھے۔ خاندان علیخاندان قلی خان ثانی تھا۔ جنھیں اورنگ آباد میں منصب داروں میں شامل کیا گیا

تھا۔ یہیں درگاہ قلی خان )مصنف مرقع دہلی( کی پیدائش بقول حکیم سید مظفر

کو ہوئی۔ ء۱۷۱۰ستمبر ۲ء اور بقول محمد عبدالجبار ۱۷۱۰ستمبر ۱۲حسین ڈاکٹر جب کہ (۳۸۰ )ھ۱۱۱۲رجب ۲۹ محمد انصار ہللا نے تاریخ والدت ۳۷۹

تحریر کی ہے۔ ۳۸۲ء ۱۷۱۰اور ڈاکٹر جمیل جالبی نے ؎۳۸۱امیر عارفی

یا ۹ھ کو سن عیسوی کے مطابق۱۱۱۲رجب ۲۹عبدالقدوس ہاشمی کے مطابق ۔(ہے۳۸۳ )ء۱۷۰۱جنوری ۱۰

Page 76: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

76

شمالی ہندوستان میں مرہٹوں کی شورشوں کے خالف جنگ کے لیے "

محمد شاہ نے دکن کے حاکم میر قمر الدین ۔۔۔آصف کو اصرار کر کے

ء میں دلی پہنچ گئے۔ نواب ذوالقدر )بھی حاکم ۱۷۳۸بالیا۔ آصف جاہ جون

ء کو نواب آصف الدولہ کے ساتھ ۱۷۴۱جوالئی ۲۳دکن کے ساتھ تھے(

۳۸۴‘‘دکن واپس لوٹے۔

آصف جاہ کے چوتھے لڑکے میر نظام علی خان آصف ثانی نے مسند پر

قبضہ کرنے کے بعد منصب ہفت ہزاری۔۔۔۔ اورنگ آباد کی صوبہ داری۔۔۔۔ اور

ء میں نہ جانے کیوں سرکاری ۱۷۶۵خان دوراں کے خطاب سے نوازا۔۔۔۔دسمبر خدمات سے معزول کر دیے گئے۔ نواب صاحب اپنی جاگیر نظام آباد آگئے۔ جہاں

۳۸۵‘‘ ء کو وفات پائی۔۱۷۶۶اکتوبر ۲۲سر سام کے مرض میں۔۔۔۔

نواب درگاہ قلی خان فارسی اور اردو میں شعر کہتے تھے۔ فارسی نثر میں وقت کے حاالت اور شخصیات کے دہلی کے اس‘‘ مرقع دہلی’’آپ کی کتاب

حوالے سے ایک اہم کتاب ہے۔ اردو میں آپ کا مرثیہ اور قصیدہ موجود ہے۔

:قصیدہ میں ہی شہر آشوب شامل ہیںغرض کہ سخت مصیبت میں ہے وضیع

وشریف

غنی ، فقر ، سبھی ،احتیاج سیں

؎386مضطر

تش دل یاقوت ہے اس دکھ میں آ

خموش

لہو مرجاں لہو و لعل بدخشاں لہو

۳۸۷

حسن علی شوق: وطن شاہجہان آباد، سپاہی پیشہ ،ریختہ کا شاعر ، خان

اور نور الحسن ۳۸۹ میر حسن دہلوی ۳۸۸آرزو کا شاگرد ،صاحب دیوان وغیرہ بھی حسن علی شوق کے سپاہی ہونے پر متفق ہیں۔ تذکرہ ۳۹۰ہاشمی

طبعش مائل ایہام بسیار است ، سالمت باشد، از شاگردان ’’شعراء ہندی میں ہے کہ

محمد شاکر ناجی است ۔مدتے درسرکار نواب عمادالملک غازی الدین خان بوسیلۂ سپاہ گری ،سربردہ ،اصلش از قوم افغانست ،الحال معلوم نیست کہ کجاست شعرش

۳۹۱‘‘یداست ۔بسیار بانداز است و مشاقی نیز از کالمش ہو

میرزا علی لطف نے آپ کا نام فہرست میں حسین حسن علی شوق لیکن متن میں حسین علی شوق لکھا ہے۔

کیا کیا ستم نہ تھے کہ کیے چشم یار نے

جو سختیاں تھیں مجھ کو زمانہ دکھا چکا

۳۹۳

ا محمد فخر الدین موال نا محمد فخر الدین دہلوی:فخر الملت والدین موالن

ء میں اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ ۱۷۱۴ھ مطابق ۱۱۲۶دہلوی رحمت ہللا علیہ دیا ہے جو غلط ہے ۳۹۵ء ۱۷۱۷ خلیق احمد نظامی نے سن عیسوی ۳۹۴

Page 77: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

77

ء آتا ہے۔ آپ کے والد شاہ نظام الدین اورنگ آبادی شاہ ۱۷۱۴ھ میں ۱۱۲۶کیونکہ

النا نے اپنے عہد کے مروجہ علوم حاصل کلیم ہللا کے مرید اور خلیفہ تھے۔ موکیے۔ تعلیم سے فارغ ہو کر اپنے والد کے سجاد ے پر بیٹھنے کی بجائے انھوں

نے فوج میں مالزمت اختیار کر لی۔ کچھ عرصہ مالزمت کر کے اپنے والد کے

آپ جب فوج میں تھے تو نظام الدولہ ناصر جنگ اور ۳۹۶سجادہ نشین ہو گئے۔ ے ساتھ رہتے تھے۔آپ فوج کسی اور شمشیر زنی کے وقت ہمت یار خان ک

۱۷ھ مطابق ۱۱۹۹جمادی الثانی ۲۷روزے کی حالت میں ہوتے تھے ۔ آپ نے

ء کو وفات پائی اور درگا ہ حضرت قطب الدین کاکی میں مدفون ۱۸۷۵اپریل ۳۹۷ہوئے۔

ھ کو ۱۱۹۹جمادی الثانی ۲۷یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ

ء کا سن بنتا ہے اور یہ غلطی آثار الصنادید کی دونوں ۱۷۸۵تاریخ اور ۸مئی کی جلدوں میں موجود ہے ۔ آپ نے تین کتابیں تصنیف فرمائیں ۔

نظام العقائد میں سماع کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے آپ اس کاایک

:فائدہ یہ بھی بیان کرتے ہیں مالحظہ فرمائیےر کرتا ہے۔ صوفیاکرام میں سے بعض سماع آتش کوبھڑکانے میں بڑا اث’’

ایسے بھی گزرے ہیں جن کو دوران سماعت مکاشفات ہوتے ہیں اور اس

میں ان کو وہ لطف حاصل ہوتا ہے جو سماع کے سوا نصیب نہیں ہو سکتا

اور وہ لطیف احوال جو ان پر سماع کے دوران وارد ہوتے ہیں انہیں وجد

۳۹۸‘‘ کہتے ہیں ۔

وری: میر مدن آپ کانام تھا اور بے تاب تخلص شاہ بے تاب شاہ جہان پجہاں آباد وطن تھا۔ مرشد آباد میں نواب سراج الدولہ اور بہادر منصور الملک کی

سرکار میں بخشی گری کے عہدے پر فائز تھے۔ پالسی کی لڑائی میں ایک فوجی

ے دستے کے کماندار تھے۔۔۔۔ پالسی کی لڑائی میں بہادر ی سے لڑتے ہوئے مار میر مدن کبھی کبھی اردو میں شعر کہہ لیا کرتے تھے۔ بہت کم ۳۹۹گئے۔

تذکروں میں آپ کا ذکر ہے۔ بہت ہے یار سے ملنے کی آرزو بے تاب

۴۰۰یہ مدعا کو ہمارے خدا شتاب کرے

میر مرتضی مہدی اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ سراج اورنگ آباد ی کے یں سے تھے۔ سید عبدالولی عزلت کے شاگردوں میں سے تھے۔ جب معاصرین م

مولوی عبدالجبار خان آپ کے ۴۰۱جوان ہوئے تو فوج میں داخل ہو گئے۔

:حاالت میں رقم طراز ہیںسید صحیح النسب ہے ۔۔۔۔حیدر آباد میں نشوونما پایا۔ ابتدائے جوانی میں بقدر ’’

کر لی۔ اور شعر گوئی بھی شروع کی۔ ضرورت فارسی و عربی میں استعداد پیدا

میں مرہٹہ کی ۴۰۲ھ۔۱۱۷۴۔۔۔سرکار بندگان عالی کے منصب داروں میں تھامہندی شہید شد ’لڑائی میں مار ا گیا۔ لچھمی نرائن شفیق نے تاریخ وفات لکھی

Page 78: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

78

مضامین تازہ کو خوب تالش کرتا تھا ۔نقاش فکر کی سعی و کوشش سے نوادر ‘

رتا تھا۔ صورتیں پیدا ککدہر جاوے گا وہ تیر نگہہ سینے ستی اس

کے

پہر آیا ہے اگرچہ جوہروں سے جوش آئینہ

۴۰۳

مہاراجہ رام نرائن موزوں دیوان رنگ الل کے بیٹے اور قوم کے کایستھ ڈاکٹر وفا راشدی کے مطابق بنگال کے شہر مرشد آباد ۴۰۴سری باستو تھے۔

پیدا ہوئے۔ نیز انھوں نے اٹھارویں صدی کے وسط میں اور بریکٹ میں۴۰۵

ء تحریر کیا ہے۔ اور یہ سب حوالے غلط ہیں۔ کیونکہ موزوں ۱۷۶۳ھ /۱۱۷۷میں نیز بریکٹ میں ۴۰۶ضلع سہسرام کے موضع کشن پور میں پیدا ہوئے تھے۔

خ کے حوالے دیا گیا سن ان کی وفات کا ہے پیدائش کا نہیں۔آپ کی پیدائش کی تاری

سے تمام تذکرہ نگار اور مورخ خاموش ہیں ۔ وفا راشد ی نے اپنی معلومات کی کو ۴۰۷بنیاد ساہتیہ سنگ کے نامور ان بنگالہ پر مشتمل ایک انسائیکلو پیڈیا

بنایا ہے۔ موزوں اپنی زندگی میں مختلف عہدوں پر فائز رہنے کے بعد صوبہ بہار

۔ لچھمی نرائن شفیق موزوں کے حوالے کے نائب ناظم کے عہدے تک پہنچےء رہی ۔ ۱۷۶۳ء ۔۱۷۵۳ھ مطابق ۱۱۶۶ان کی صوبہ داری : سے لکھتے ہیں کہ

ء ( کے پروردہ تھے۔۔۔۔ جب سراج الدولہ نے ۱۷۳۰۔۴۰رام نرائن مہابت جنگ )

والئی پورنیہ شوکت جنگ کے خالف چڑھائی کی تو راجہ رام نرائن الل نے نواب کی مدد کی۔ اس معرکے میں بھی کامیابی عظیم آباد کی فوج کے ساتھ

۴۰۸‘‘ ہوئی۔

جب شاہ عالم بادشاہ نے عظیم آباد پر حملہ کیا تو مہاراجہ رام نرائن نے میر جعفر اور الرڈ کالیو سے مدد طلب کی۔ میر جعفر کے بعد جب اس کا بیٹا

م آباد کی میر قاسم نے ناظم بنگالہ کی مسند سنبھالی ۔ توا س نے موزوں سے عظی

دیوانی اور رہتاس کی قلعداری بھی لے لی۔ پہلے اسے قید میں رکھا پھر اس کے ھ ۱۱۷۷گلے میں ریت سے بھرا گھڑا باندھ کر گنگا میں ڈبو دیا۔ یہ واقعہ

۴۰۹ء میں گزرا۔ ۱۷۶۳/راجہ رام نرائن موزوں فارسی کے بڑے عمدہ شاعر تھے ۔ آپ شیخ علی حزیں

میں ان کا دیوان طبع ہو چکا ہے۔ موزوں نثر بھی بہت کے شاگرد تھے۔ فارسی

آپ کبھی کبھی اردو میں بھی شعر ۴۱۰ہی پر تکلف اوررنگین لکھتے تھے۔ کہتے تھے۔ آپ کی زبان میں صفائی اور سالسست پائی جاتی ہے۔ نواب سراج

الدولہ کی وفات پر آپ نے بہت عمدہ شعر کہا تھا۔تم تو واصف ہو کہو مجنوں کے غزاالں

مرنے کے

دوانا مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری

Page 79: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

آپ نے چند دوسرے اشعار جو تذکروں میں ملتا ہے۔ چند ایک الفاظ کی

تبدیلی بھی ان میں پائی جاتی ہے۔ بھولی نہیں ہے مجھ کو بتوں کی ادا ہنوز

ا ہنوزدل کے نگیں پہ نقش ہے نام خد

بلبل بے درد کو مطلب ہے کیا پروانے

سے

وصل میں مر جائے یہ وہ ہجر میں جیتی

۴۱۱رہے

عارف الدین خان عاجز عرف میرزائی کے آباؤ اجداد کا تعلق بلخ سے تھا۔ آپ کے والد اورنگ زیب عالم گیر کے عہدمیں ہندوستان آئے اور نواب فیروز

اطت سے بادشاہ کے دربار میں بہ عہدہ منصب دار فائز ہوئے۔ جنگ کی وس

بہت چھوٹی عمر میں باپ کا سایہ سر ۴۱۲عاجز اورنگ آباد میں پیدا ہوئے۔ سے اٹھ گیا۔ نواب لشکر خاندان رکن الدولہ نصیر جنگ کے سایۂ عاطفت میں

تربیت پائی اور نواب صاحب موصو ف کی سفارش سے آصف جاہ کی سرکار

منصب و خطاب سے سر فراز ہوئے۔ نواب صاحب نے رسالہ کی بخشی میں تاریخ مسلمانان پاکستان و ہند کے ۴۱۳گری کو منصب کا ضمیمہ کر دیا تھا۔

میں ہوئی ۔جامع انسائیکلو پیڈیا کے مطابق والدت شمالی ۴۱۴مطابق والدت دکن

۴۱۶نگ آباد اے حمید نے بڑی تفصیل سے عاجز کی اور ۴۱۵ہند میں ہوئی۔ میں والدت پر بحث کی ہے۔ البتہ عاجز کے سن والدت پر تواریخ ادب اور

ھ میں عاجز بیمار ۱۱۷۵ء /۱۷۶۱بقول اسد علی خان تمنا تذکرے خاموش ہیں

پڑے۔ زندگی کے اللے پڑ گئے۔ اس عالم میں تاریخ وفات کی فکر کی تو اپنے نام اد نکالے۔ کہا کہ دوسال کی ء( اعد۱۷۶۳ھ )۱۱۷۷اور تخلص کے مادے سے

مہلت مل جائے تو یہی وفات کی تاریخ نکل آئے۔ خدا کی قدرت کہ اس کے بعد وہ

۴۱۷‘‘ ء کے آغاز میں وفات پائی۔ ۱۷۶۳ھ /۱۱۷۷رو بصحت ہو گئے۔ اور (ء۱۷۶۴ھ )۱۱۷۸جب کہ مقالہ نگار اپنی رائے دیتے ہوئے مادہ تاریخ

جو راقم کی جمع تفریق کے لحاظ سے درست تاریخ وفات لکھتا ہے۔ ؎ ۴۱۸

ہی نکلتے ہیں۔ گوپی ۱۱۷۷غلط ہے۔ کیونکہ عارف الدین خان عاجز کے اعداد پروفیسر سید یونس شاہ ۴۲۰مولوی محمد سردار علی ۴۱۹چند نارنگ

اور کئی دیگر تذکرہ نگاروں نے بغیر اعداد نکالے یا چیک کیے لکیر ۴۲۱

دیا۔ بہر حال آپ کی وفات نانڈیر میں ہوئی اور وہیں دفن کے فقیر ہونے کا ثبوت ہوئے۔

عاجز فارسی اور اردو میں شعر کہتے تھے۔ لیکن اپنے مسودے محفوظ نہ

بدیہہ گوئی ،ذو معنی گوئی اور تاریخ گوئی میں عدیم المثال ’’رکھ سکے۔ آپ ۔۔ تھے۔ مشکل پسندی ، نازک خیالی اور معنی آفرینی کے لیے مشہور تھے۔۔

سو اشعار پر مشتمل ایک اردو مثنوی لعل ۵فارسی اور اردو غزلیات کے عالوہ

Page 80: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

80

اس کے سن تصنیف میں بھی اختالفات موجود ہیں۔ ۴۲۲‘‘ و گوہر تصنیف کی۔

ھ سے ۱۱۲۹مثنوی لعل وگوہر کواردو میں ’’لیکن گوپی چند نارنگ کا یہ فقرہ قابل اعتراض ۴۲۳‘‘ ۔قبل ایک دکنی شاعر عارف الدین خان عاجز نے لکھا

ھ میں وفات پانے والے ایک شخص کی عمر اس وقت کیا ہو ۱۱۷۷ہے کیونکہ

ء کے بعد کے کسی سن میں تصور کی جاسکتی ہے ۱۷۰۷گی۔ جس کی پیدائش ء سے چند سال پہلے ہوئی ہو۔ جو قیاس کیا جا ۱۷۱۷ھ /۱۱۲۹بلکہ ممکن ہے کہ

خدمات کو بھولنا ممکن نہیں ۔فارسی اور سکتا ہے۔ آپ کی اردو زبان و ادب کی

وعہ ہیں۔ اردو کے دونوں دیوان اور مثنوی لعل و گوہر غیر مطب یتیمی کے صدف کا پاک گوہر

۴۲۴شفیع المذبنیں بر حق پیمبر

اس حنائی ہاتھ کی تعریف خون دل سے

لکھ

گاں کروں ریشۂ نخل قلم کو پنجۂ مثر

۴۲۵

مرزا مومن بیگ جعفر نواب عمدۃ الملک امیر خان انجام کے متوسلین میں تھے۔ رفتہ رفتہ شاہی تقرب حاصل کیا اور محمد شاہ کے دربار میں منصب پایا

اورمنصب سہ ہزاری پر فائز ہوئے۔ نہایت ذکی الطبع اور ذہین تھے۔ طبیعت میں

کہتے تھے تب بھی وہ مذاق پر متین سے ظرافت کا جوہر خداداد تھا۔ دانستہ نہ متین شعر سے بھی آشکار ا ہو جاتا تھا

یوں نہ ہر اک بات میں موتی وہ پرودے ک

یستیچھ

صفا دانتوں کی روشن ہے شب مسی میں

۴۲۶بتیسی

مغل نواب محمد جعفر علی خان ذکی دہلوی مرزا مومن بیگ جعفر قوم

،جوان محمد شاہی از متوسالن نواب عمدۃ الملک امیر خان ، بادشاہ عالی جاہ بہ

نواب محمد جعفر ذکی کی بادشاہ ۴۲۷منصب پنج ہزاری اور اسرافراز نمودہ۔ء ۱۷۶۰شاہ عالم اور شجاع الدولہ صوبہ اودھ کے ہمراہ بہار اور بنگال کی مہم

ھ ۱۱۷۸کے امیدوار تھے۔ آخر ناکام میں شریک تھے۔ اور نظامت مرشد آباد

ریختہ میں فکر رسا رکھتے تھے۔ ۴۲۸ء( میں راہی ملک بقا ہوئے۔ ۱۷۶۵)اور کالم قدما کے طرز پر ہوتا تھا۔ ان کی مثنوی جس میں رعایت ایہام ہے بہت

یہ مثنوی بھی عجیب داستان ہے۔ ۴۲۹مشہور ہے۔ ع اس کو پایااسی سے جان ارف

۴۳۰کہ سب پیغمبروں سے بعد آیا

سن کے احوال مرا ناصح مشفق نے ذکی

ہاتھ سے ہاتھ ملے حیف سے سینہ کوٹا

۴۳۱

Page 81: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

چمکتے دانت دیکھے یار کی مسی جمانے

میں

جڑے ہیں قیمتی الماس کے نیلم کے خانے

۴۳۲میں

شاہ سراج الدین سراج اورنگ آبادی از ابتدادر ’’آبادی سراج اورنگ

مسلک سپاہیاں نوکری می کرد۔ الحال ترک روزگار کردہ ۔ از چند سال لباس

درویشی پوشیدہ است ۔در فکر ریختہ ہندی موزونے دارد۔ دیوان ریختہ ہندی ترتیب سراج اورنگ آباد کے ۴۳۳‘‘دادہ گاہے در فکر اشعار فارسی می گراید۔

عسکری زندگی کے بارے بہت کم لوگوں نے بات کی ہے۔ دراصل بارہ سے

اٹھارہ سال کی عمر تک وہ مجذوبی کی حالت میں رہے۔ اس کے بعد تذکرہ ۴۳۴ھ ۱۱۲۸سراج کی والدت ’’ نگاروں نے انہیں درویشی کا چوال پہنا دیا۔

کی عمر تک تمام میں ہوئی۔ اورنگ آباد میں تعلیم و تربیت کا اہتمام ہوا۔ بارہ سال

ھ سے ۱۱۴۱مشہور اساتذۂ فارسی کا کالم پڑھ لیا تھا۔ جذب و مستی کا زمانہ ۴۳۵‘‘ ھ یوم جمعہ کو انتقال کیا۔۱۱۷۷شوال ۴ھ تک رہا۔ انھوں نے ۱۱۴۸

:آپ کا نمونۂ کالم مالحظہ ہو میں کہا رحم پتنگوں پہ کر اے جان سراج

تار ہوں ،کن کا ان کا تب کہا ، شمع شب

۴۳۶

درکار نہیں کہ تجھ گلی میں جاؤں

۴۳۷آناں، ترا یہی ہے جاناں میرا

سراج نے اردو ادب میں کچھ تجربات کیے جو کامیاب رہے۔ جیسے

مستزاد ،جوا گر چہ ولی کے ہاں بھی ہے لیکن سراج کے ہاں زیادہ جوبن پر ہے۔ ھی ان کا کامیاب تجربہ ہے۔اس طرح بازگشت ب

مستحب ہے عشق کے مذہب میں ترک

ماسوا

ماسوا سے باز آنا ہے سراج اب مستجب

۴۳۸

ہمشیرہ زادہ نواب عمدۃ الملک ،جوان محمد شاہی بودہ ’’کرم للاہ خان درد

جوا نے بود سپاہی پیشہ، بسیار خوش فکر صاحب حوصلہ و نیک آئین ، ۴۳۹

یر کرم ہللا خان کے ۴۴۰متالشی مضامین نوورنگیں ،سخن اوخالی ازدرد نیست حاالت کہیں بھی اس کی تفصیل سے نہیں ملتے۔ کہ ان کے بارے میں آگاہی ہو

دیگر تذکرہ نگارو ں سکے۔ گردیزی ،میر ، قائم ،حسن ،ابراہیم ،قدرت، شفیق اور

نے بھی ایک یا دو فقروں میں تمام حاالت کو سمیٹ دیا۔ البتہ اس بات پر سب متفق دکھائی دیتے ہیں کہ سپاہی پیشہ تھا اور مرہٹہ گردی کے دوران میر علی اصغر

‘‘ کبری کی عزت بچانے میں ان کے ساتھ داد شجاعت دے کر روانۂ جنت ہوئے۔

Page 82: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

82

ء ( میں رو ۱۷۵۴ء۔۱۷۴۸واقعہ احمد شاہ کے عہد ) مرہٹہ گردی کا یہ ۴۴۱

پذیر ہوا۔میر کرم ہللا خان درد خوش فکر اور بااور با مذاق شاعر تھے۔ خواجہ میر

درد کے ہر مہینے ہونے والی محفل میں بھی حاضری دیتے تھے۔ بدیہہ گو اور

سلیس نویس تھے۔ د سے دل تڑپتا دیکھ بسمل کو کہا یوں در

نے

ادب کے حق ادا کرنے کے یہ آداب کیا

۴۴۲جانے

میرے سینے میں ہر اک سانس ہو کر

پھانس کھٹکے ہے

خلش دل کی نکل جاوے تو کیا آرام ہو

۴۴۳جاوے

مرزا مرتضی قلی خان فراق دلی کے قدیم اساتذہ میں سے تھے۔ تذکرہ

ل ہندوستان میں جنوبی گلشن و گلزار کے مطابق ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ دراصہند یعنی دکن کو اس عہد میں شامل نہیں کرتے تھے۔ جوانی میں فوج میں چلے

: گئے۔ قائم چاند پوری لکھتے ہیں کہ

عہد ’’ یہ ۴۴۴میرزا مرتضی قلی فراق از مال زمان توپ خانہ پادشاہی است یکن آپ نے ء تک پھیال ہوا ہے۔ ل۱۷۴۸ء ے ۱۷۱۹تھا جو ۴۴۵‘‘ محمد شاہی

اس دوران شاہی مالزمت کو خیر باد کہا اور نواب محمد علی ور دی خان مہابت

ء کے لگ بھگ ہو ۱۷۵۰جنگ کے زمانے میں مرشد آباد چلے گئے۔ یہ عہد آخر زر سرکار کی باقی ’’سکتا ہے۔ آپ مرشد آباد میں عہدہ مالی پر ممتاز ہوئے۔

اور قید کے دوران ہی ۴۴۶‘‘پڑا۔کی وجہ سے مہاراجہ شتاب رائے کی قید میں

آپ سودا ا ور قائم کے معاصر تھے۔ ۴۴۷ء میں وفات پائی ۔ ۱۷۶۸تقریبابنیادی طورپر فارسی کے شاعر تھے۔ لیکن کبھی کبھی ریختہ یعنی اردو میں بھی

طبع آزمائی کر لیتے تھے۔اسیروں کی قسم تجھ کو صبا سچ کہہ کہ

لشن میںگ

کوئی ان ہم نواؤں سے ہمیں بھی یاد کرتا

۴۴۸ہے

: قائم چاند پوری نے پہلے شعر کے دوسرا مصرع کو یوں لکھا ہے

کہ یاں تک لب تبسم غنچے کو برباد کرتا

۴۴۹ہے

:اور یہی درست اور بامعنی ہے

یمانہگو درد سر اے ناصح ہے گردش پ

پر ہم کو تو صندل ہے خاک در مے خانہ

۴۵۰

Page 83: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

گدا علی بیگ بسمل: سپاہی پیشہ جوانے است ،ابلہ رو ، نیک خو، در فیض

صاحب جامع التذکرہ اور صاحب ارباب سیف و قلم نے ۴۵۱آباد استقامت دارد بھی بہت مختصر احوال دیے ہیں جس سے اس کی حیات ،اس کے عہد اور اس

ے کوئی آگہی نہیں ملتی۔ تذکرہ شعرائے ہندی نسخۂ حیدری میں میر کے حاالت س

حسن دہلوی مزید اس قدر لکھتے ہیں کہ نوکر قلیل دارد ، بہر نوع گزراں می نماید، اشعارش نشیندہ ام سوائے دینونک نامہ کہ یک روز پیش مرزا رفیع آمدہ

ک نامہ ازومشہور خواندہ من ہم نشتہ بودم، مرزا تعریف نمودند ، ہمہ یک دینون

اس سے گدا علی بیگ بسمل کے عہد کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور ۴۵۲‘‘ است۔ تصنیف کا بھی اور کالم کا بھی ۔

بہائے دل اگر دونوں جہاں دیتا نہ دیتا میں

پر اب یو ہیں لیے جاتا ہے تو اے مفت بر

؎453 لے جا

ب کی تمام تواریخ میں اور تذکروں میں خواجہ میر درد کے بارے اردو اد

مختصرا اور تفصیال لکھا ہوا ملتا ہے۔ دیوان درد کو کئی محققین نے مرتب کیا اور آپ کے تفصیلی احوال لکھے۔ عطاء الرحمن قاسمی حضرت خواجہ میر درد

ذیقعدہ ۱۹والدت : سے کوائف نقل کیے ہیں جس میں سن کی مرقد پر لگے کتبے

ھ ۱۱۳۳ذی قعدہ ۱۹(، 454)درج ہے ھ۱۱۹۹صفر ۲۴وفات : سن ھ اور ۱۱۳۳ہے۔ تانب ۴۵۵ء ستمبر کا مہینہ ۱۷۲۱کو تقویم تاریخی کے مطابق سن عیسوی

ء لکھی گئی ہیں سا قط ۱۷۲۰ء اور ۱۷۱۹اس لحاظ سے وہ تمام تاریخیں جو

اور ؎456،ء۱۷۲۱ٹھہرتی ہیں۔ سوائے ڈاکٹر نسیم احمد جنھوں نے یکم اپریل لکھا ہے۔ ؎457،ء ۱۷۲۱۔اگست ۳۱صاحب مصور تذکرے ،کے جنھوں نے

ء اور ۱۷۲۰ھ کا سال ۱۱۳۳ء کی غلط فہمی تو اس بنا پر ہو سکتی ہے کہ ۱۷۲۰

ء تاریخ پیدائش لکھنے والوں پر بہر حال سوالیہ ۱۷۱۹ء میں آتا ہے۔ لیکن ۱۷۲۱الطرفین حسینی نشان ہے۔ خواجہ محمد میر المتخلص درد دہلی کے معزز نجیب

سید گھرانے میں پیدا ہوئے۔ درد کے والد بزرگوار خواجہ محمد ناصر ایک

صوفی منش تھے۔ انھوں نے اپنا تخلص عندلیب رکھا خواجہ نے اپنے والد کی کے مطابق ابتدائی تعلیم محمد اسحق بھٹی ۴۵۸نسبت سے اپناتخلص درد رکھا۔

خواجہ میر ن آرزو سے حاصل کی ۔نیزاپنے والد سے ،فارسی کی تعلیم سراج الدی

تمام علوم شرعیہ میں ماہر کامل تھے۔ اور قرآن ،علم قرآن ،تفسیر ،حدیث ، فقہ ،اصول اور تصوف و طریقت میں ید طولی رکھتے تھے۔ فن موسیقی میں بھی

۴۵۹‘‘یگانۂ روزگار تھے۔

ام جوانی درای’’حصول علم کے بعد میر درد نے عملی زندگی کو ترجیح دی۔ تبسم ۴۶۰‘‘ سپاہی ہمیشہ یود ازاں باز کہ پابر بوریائے درویشی گزاشتہ

:کاشمیری آپ کی سپاہیانہ زندگی کے بارے میں لکھتے ہیں

Page 84: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

84

تھا کہ وہ اپنے فوجی گھوڑے درد کی عمر عزیز کا انتیسواں برسمیر ’’

سے نیچے اترے۔ تلوار، ڈھال اور خنجر اٹھا کر ایک طرف رکھے۔ اپنا

پاہیانہ لباس اتار کر پھینکا اور اس کی جگہ لباس درویشی زیب تن کر لیا س

اور اس کے ساتھ ہی ان کا عسکری کروفر بھی ہمیشہ کے لیے رخصت

ہوگیا۔ اس کے بعد انھوں نے نہ کبھی تلوار اٹھائی اور نہ ہی میدان کا رخ

۴۶۱‘‘ کیا۔

ہے ۔پندرہ سال کی عمر ی آپ کی تصانیف کی تعداد بارہ کے لگ بھگ بتائی جات

پہلی کتاب شائع ہوئی۔میں مانند حباب آنکھ تو اے درد رکھی تھی

کھینچا نہ پر اس بحر میں عرصہ کوئی دم

۲۶۲کا

تسکین شہود حق سے ہوتی ہے نصیب

اٹھ جائے نظر سے خلق تب بیٹھ

۴۶۳سکے

میں سر تاپا۔ ہے جوں آئینہ حیراں ہوں

عشق گواہ

آتا ہے نظر حسن میں جلوہ کیا کیا ۔ہللا ہللا

۴۶۴

میر سوز دہلوی درفن سپہگری کا مل ویکتا بود و خط شفیعا خوب می نوشت یہ دونوں صفات میر سوز میں موجود تھیں۔ لیکن فن سپہگری سے ۴۶۵

انتخاب ۴۶۶ا دور عسکری ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ لہذا ا س کے لیے میر و سودا ک

کی طرف ۴۶۹ اور تاریخ ادب اردو ۴۶۸ تاریخ ادب اردو ۴۶۷کالم میر سوزرجوع کیا۔ تو حقیقت آشکار ا ہوئی کہ تحصیل علم کے بعد شاہی تو پ خانے میں

مالزم ہوئے جب احمد شاہ کو تخت سے ہٹا کر اندھا کر دیا گیا تو یہ مالزمت ختم

ہو گئی او رسوز فرخ آباد پہنچ کر نواب مہربان خان رند)دیوان(کے مالزم ہو مؤرخین ادب اردو اور تذکرہ نگاروں کا اتفا میر سوز کے بارے تمام ۴۷۰گئے۔

ق ہے کہ تیر اندازی اورگھڑ سواری میں مہارت حاصل تھی۔ موالنا محمد حسین

میرموصوف سواری میں شہسوار اور فنون سپاہ ’’آزاد نے تو یہاں تک لکھا کہ تیراندازی میں قدر انداز تھے۔ ورزش کرتے تھے اور گری میں ماہر، خصوصا

داد اد بھی اس قدر تھی کہ ہر ایک شخص ان کی کمان کو چڑھا نہ سکتا طاقت خ ۴۷۱‘‘تھا۔ خود حسین تھے اور حسینوں کے دیکھنے والے تھے۔

میر سوز کا نام سید محمد میر تھا آپ کے والد کا نام میر ضیاء الدین تھا۔ چند

اہ میر تذکرہ نگاروں نے نام کی لفظی ترتیب کو بدل دیا۔ اور یوں سید میر، ش سید محمد میر نے پہلے تخلص ۴۷۲محمد، میر سید محمد اور میر محمدی لکھا۔

میر رکھا مگر جب میر تقی میر کانام ہندوستان کے فلک شاعری پر چھا گیا تو

۴۷۳انھوں نے اپنا تخلص میر سے بدل کر سوز کر لیا۔

Page 85: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

85

اور بہت کم سوز کے سن والدت میں بھی مورخین کے ہاں اختالف پایا جاتا ہے۔

تذکرہ نگاروں کے ہاں وفات میں بھی اختالف ہے۔ تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان ء اور فائق رامپوری کے حوالے سے سن پیدائش ۱۷۲۱ھ /۱۱۳۱و ہند نے

ء عیسوی ۱۷۲۱ء اور ۱۷۲۰ھ کا سن ۱۱۳۱ ۴۷۴ء لکھا ہے۔ ۱۷۳۳ھ /۱۱۳۶

یں ہے۔ عیسوی م ۱۷۲۴ء اور ۱۷۲۳ھ کا سال،۱۱۳۶میں جب کہ ۴۷۶ ،غزل انسائیکلو پیڈیا ۴۷۵ھ پر نقوش غزل نمبر ۱۷۲۰۔۲۱ھ/۱۱۳۳

وغیرہ متفق ہیں۔ میر سوز پر پی ۴۷۸ ،پروفیسر آفاق صدیقی ۴۷۷،گراہم بیلی

: ایچ ڈی کی ڈگری لینے والے سردار احمد خان لکھتے ہیں کہن کے سن کسی تذکرہ نگار نے سوز کا سن والدت نہیں لکھا ہے بہر حال ا’’

والدت کا تعین شاہ کمال کی روایت کی روشنی میں کیا جا سکتا ہے شاہ کمال

کہتے ہیں کہ میر سوز نے کئی دفعہ ان سے کہا کہ وہ سودا سے ایک سال بڑے ہیں۔ اگرچہ سودا کے سال والدت میں بھی اختالف ہے لیکن آزاد نے ان کاسن

ر سے میر سوز کا سن والدت ء لکھا ہے۔ اس اعتبا۱۷۱۳ھ مطابق ۱۱۲۵والدت

۴۷۹ء ہے۔ ۱۷۱۲ھ مطابق ۱۱۲۴ ( ۴۸۱)ھ ۱۱۴۳ھ یا ۱۱۳۳ڈاکٹر ارتضی کریم (۴۸۰)ھ۱۱۴۳ظہیر صدیقی نے

بشارت فروغ نے ( ۴۸۳ )ء۱۷۲۳۔۲۴زاہد منیر عامر ( ۴۸۲) ء۱۷۲۸سیدہ جعفر

تحریر کیا ہے۔(۴۸۴ )ء۱۷۳۰دراصل یہ اختالف مستند سن والدت کا علم نہ ہونے اور عمر ستر سال یا اسی

ء پر متفق ۱۷۹۸سال ہونے سے پیدا ہوا۔ بہر حال سن وفات پر اکثریت ۸۶سال یا

یر کیا ہے۔؎ تحر485 ےہھ کے لگ بھگ دہلی کو چھوڑا اور فرخ آباد چلے گئے۔ وہاں ۱۱۷۰میر سوز نے

ات پائی میر سوز کی شاعری میں زبان کی چاشنی سے لکھنؤگئے اور وہیں وف

سیدھی سادی باتیں بہت زیادہ ہے۔ مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی اور بڑی کیں۔

ہائے بے منت اجل آئی تھی سوز

۴۸۶بچ گیا کیا ہوئے پھر انجام کار

بک ہندوستان زاد، سپاہی پیشہ ،درابتدا مرزامحمد یاربیگ سائل قوم از

شاگرد شاہ حاتم و بعدازاں رجوع بہ مرزا محمد رفیع سودا کردہ ۔ شخص کہنہ :مشق است وایں شعر اودلیل برصدق ایں مقولۂ اوست

وہ حمائل ہو گیا دست شکستہ کی طرح

۴۸۷آہ جس کو میں نے اپنا قوت باز کیا

ن عمر کے آباؤ اجداد شمالی ہند سے تھے جو دکن میں جا کر آباد ہوئے۔ معتبر خا

معتبر خان اورنگ آباد میں ہی پیدا ہوئے۔ آپ جب بڑے ہوئے تو فوج میں شامل ہو گئے۔ اور آپ کو مغلیہ سلطنت کی طرف سے منصب عطا ہوا۔ شعر و سخن کا

۔میں وفات پائی ( ۴۸۸)ھ۱۱۸۷ذوق تھا

Page 86: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

86

اپنی آنکھوں اوپر نگاہ کرو

۴۸۹آج مخمور ہیں پیا کیا ہے

باغ میں صرصر سے ہوئی ہے خزاں آخر

کو دیکھ

عاقبت عاشق کی آہ اے گلبدن برباد نہیں

۴۹۰

ایک رسوا بہت ہے شہرت کو

۴۹۱جمع کر کیا اچار ڈالو گے

میر ماشاء ہللا مصدر نجفی االصل تھے۔ دہلی کے رہنے والے تھے لیکن بعد ازاں مرشد آباد چلے گئے۔ اور نواب علی وردی خان مہابت جنگ کی سرکار

وہاں سے کچھ عرصہ بعد آپ فیض ۴۹۲میں رسالدار کے عہدے پر فائز ہوئے۔

آباد چلے گئے گا تیرے نقش قدم کو الئے

؎۴۹۳اپنا کعبہ خدا بنائے گا

راجہ کلیان سنگھ عاشق مہاراجہ شتاب رائے کے بیٹے تھے۔ باپ کے

میں دہلی میں پیدا ہوئے ۴۹۴ھ ۱۱۶۵مرنے کے بعد ان کا منصب بھی پایا تھا۔

والد کی وفات کے بعد عظیم آباد کی نظامت سنبھالی ۔ ایک عرصے تک ہی۔ انگریزوں کے عمل دخل کے بعد کلیان مہاراجگی اور مدارا لمہامی قائم ر

سنگھ برائے نام نائب ناظم صوبہ بہار رہ گئے۔ لہذا عظیم آباد چھوڑ کر کلکتہ

اھ میں کلکتہ سے عظیم آباد پہنچے۔ لیکن سب کچھ کھو چکا تھا۔ ۲۲۶۔ چلے گئے‘‘ ء کوکلکتہ میں انتقال ہوا ۔۱۸۲۱ھ/۱۲۳۷شوال ۲۶سا ل کی عمر میں ۷۳آخر

۴۹۵ مچایا ہے جگر نے حشر کا ساشور پہلو

میں

مگر دیکھا ہے یہ حال دل رنجور پہلو میں

۴۹۶

کی سب سے بڑی شان ہےملسو هيلع هللا ىلص محمد

۴۹۷کا چاکر سلیمان ہے ملسو هيلع هللا ىلص محمد

عشق دہلوی کا نام شیخ رکن الدین ،عشق تخلص ،مرزا گھسیٹا کے نام سے

ء کو ۱۷۲۴۔۲۵ھ /۱۱۳۷مشہور اور شیخ محمد کریم فاروقی کے بیٹے تھے۔ آپ نادر شاہ کے حملوں کے بعد عالم شباب میں مرشد آباد ۴۹۸دہلی میں پیدا ہوئے۔

ان کی رفاقت میں چلے گئے اور خواجہ محمد خان رسالہ دار میر قاسم علی خ

مالزمت چھوڑ کر ۴۹۹ہزار سوار کی افسری کے منصب پر فائز ہوئے۔ میں وفات پائی۔ء۱۷۸۹عظیم آباد پہنچے اور لباس درویشی کی حالت میں یہیں

۵۰۰

غزلیات، تین مثنویاں ۹۸۰عشق کا ایک ضخیم کلیات موجود ہے جس میں ’’رباعیات او ردس قطعات شامل ہیں۔ ۸۱،ایک واسوخت، پانچ تضمینیں ،ایک نظم

Page 87: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

87

‘‘ کلیات کے عالوہ عشق نے صوفیانہ موضوعات پر کئی رسالے بھی لکھے۔

۵۰۱ نے درد دل ہے باقی نے آہ و نے فغاں ہے

اے سوز عشق سچ کہہ تو ان دنوں کہاں

۵۰۲ہے

۵۰۳ی اور محمد قائم آیا ہے۔ کا نام محمد قیام الدین ،قیام الدین عل قائم چاند پوری اور گردیزی نے ۵۰۴لیکن اکثریت محمد قیام الدین پر متفق ہے۔میر تقی میر

اس لیے چند ایک نے اس کی پیروی کی ہے ۵۰۵چونکہ محمد قائم لکھا ہے۔

قائم کے ۵۰۶قیام الدین علی کی نقل مصحفی کے تذکرہ ہندی سے آگے چلی ۔ھ ۱۱۳۵۔ تاریخ والدت میں بھی اختالف پایا جاتا ہے۔ مثال والد کا نام محمد ہاشم تھا

۵۰۸ء ۱۷۲۵ھ/۱۱۳۸ ) ۵۰۷ (ء ( کے درمیان۱۷۲۶ء ۔۱۷۲۳ھ )۱۱۳۸اور

اگرچہ یہ اتنا بڑا اختالف نہیں لیکن حیرانی اس وقت ہوتی ہے جب بہت سے تذکرہ نگاراور مؤرخین قیام الدین کے سن والدت سے ال علمی کا اظہار کرتے

ہیں۔او ر اپنی تحریر بھی تذکرہ مخزن نکات اور کلیات قائم پر مبنی قرار دیتے ہیں۔ جب کہ ان دونوں کے مقدمہ میں یہ سنین تحریر کیے گئے ہیں۔ قائم اپنے

:حاالت کو مختصرا لکھتے ہیں کہ ہر چند از ۵۰۹آلودۂ انواع جرائم ،فقیر مؤلف قیام الدین علی)؟( قائم ’’

احوال سخنوران متقدم و حال بقید قلم در …صبۂ چاندپور است باشندگان ق

۵۱۰‘‘آوردہ در حالت جدائی انیس تنہائی سازد۔

مالزمت کے سلسلے میں انھوں نے دہلی کا رخ کیا اور شاہ عالم بادشاہ دہلی کے

لیکن عمارالملک کے برسر ۵۱۱عہدمیں شاہی توپ خانہ کے داروغہ ہو گئے۔ ء( کے بعد جب بد نظمی ۱۷۵۴ھ /۱۱۶۷احمد شاہ کی معزولی )اقتدار آنے اور

اور مرہٹہ گردی کا دور دورہ ہوا تو وہ ان حاالت سے دل برداشتہ ہو کر ترک

مالزمت پر مجبور ہو گئے۔ اور کچھ عرصہ بعد اپنے وطن چاند پور چلے گئے۔ زاں امروہہ قائم کی مالزمت کا یہ سلسلہ تقریبا بیس سال پر محیط ہے۔ بعد ا۵۱۲

کے قاضی بنا دیے گئے۔ کچھ عرصہ سنبھل مراد آباد میں قیام رہا۔ سکھر تال کے

معرکہ کے بعد ٹانڈہ جا پہنچے اور درویشی اختیار کر لی۔ ٹانڈہ کی مجلس درہم اور یہیں کئی روایات کے مطابق ۵۱۳برہم ہوئی تو رامپور پہنچ گئے۔

ھ مطابق ۱۲۰۸پائی لیکن اکثریت نے میں وفات ۵۱۴ء ۱۷۹۵ھ/۱۲۱۰

کو درست قرار دیا ہے۔۵۱۵ ،ء۱۷۹۳۔۹۴

جو ایسے وقت میں تو ہی نہ دستگیر ہو تو

امید کس سے رکھے یاوری کی پھر یہ

۵۱۶غالم

Page 88: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند

ام رہ کچھ دور اپنے ہاتھ سے جب ب

۵۱۷گیا

دن رات ترے بغیر کیوں کر بہلے

۵۱۸اپنے تو اجاڑ گھر کی بستی تو ہے

تضمین بر غزل عراقی میں سے دو بند

ہے بجا جو کھائے حرماں مرے بخت بد

کی سوگند

کہ نہیں ہے کم سعادت کوئی جگ میں

مرے مانند

میں پھرا جو شب بہ خجلت در دیر دیکھ

ر بندک

بہ طواف کعبہ رفتم بہ حرم رھم نہ دادند

کہ برون درچہ کر دی کہ درون خانہ آئی

۵۱۹

بانی روہیلکھنڈ ۵۲۰نواب محمد یار خان امیر ابن محمد علی خان روحیلہ

: ؎۵۲۲ بصفات حمیدہ موصوف بود ۵۲۱تلمذ مصحفی ،قائم چاند پوری کیا اور وہ بڑے بھائی کے متاثرانہیں شکست نے میںسکھر تال کے معرکہ

ساتھ رامپور چلے گئے۔ جہاں حافظ رحمت خان کی شکست کے کچھ روز

۵۲۳‘‘ ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔۱۷۷۴ھ/ ۱۱۸۸بعد

کیا کہوں ولولۂ شوق کو تیرے میں امیر

گھر میں جاتے ہیں پرائے تو خبرداری

۵۳۴سے

مجھ کو ساقیکیا تو نے دیا تھا

۵۲۵شیشہ میں تو واہ کچھ نہ نکال

جوان خوش روے بود، ’’آپ دہلی کے رہنے والے تھے۔شاہ حمزہ رند

مدتے علی نقی خان انتظار تخلص ومحمد تقی خان پسران علی اکبر خان ، شاہ حمزہ نے عہد شباب ۵۲۶‘‘مینکباشی مرحوم درزمرۂ سپاہیاں معاش کردہ

مختلف رنگوں میں گزارا۔ آخر فوج کی نوکری کو خیر باد کہا اور باطنی جذبے

ھ میں ۱۱۹۴سے متاثر ہو کر ظاہری کو ترک کر کے درویشی اختیار کی۔ پھر کبھی ۵۲۷عظیم آباد چلے گئے۔ وہاں شاہ ارزاں کی درگاہ میں رہتے تھے۔

:ی درویشانہ رنگ میں اشعار کہتےکبھی عاشقانہ اور کبھی کبھ تنہا وہ شوخ رات کو آوے گا تو سہی

پر ہم سے گھر میں چاند چھپایا نہ جائے گا

۵۲۸

میر یحیی عاشق برہانپوری کا نام میر یحیی ،عاشق علی خان خطاب اور

انشاء اورآپ فارسی میں استعداد رکھتے برہان پور آپ کی جنم بھومی ہے۔ پردازی میں یگانہ تھا۔ بندگان عالی نواب آصف جاہ کی خدمت میں منصب داروں

Page 89: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

89

کے زمرہ میں مالزم تھا۔ لشکر ظفر پیکر میں زندگی بسر کرتا تھا۔ آپ نے

۵۲۹‘‘ء ( میں وفات پائی۔۱۷۷۳ھ )۱۱۸۷ سلو نے سجن تیرے کوچے منے

۵۳۰شب و روز عشاق کا زور ہے

وقت بد میں کیا کسی سے ہے رفاقت کی

امید

بھاگتا ہے جب زوال آتا ہے سائے سا رفیق

۵۳۱

آنکھ کیوں تو نے بھال ہم سے مالئی پیارے

بجھ گئی تھی سو پھر اب آگ لگائی پیارے

۵۳۲

ضمیر دہلوی نواب سید ہدایت علی خان نام ،ضمیر تخلص ، مخاطب بہ

نگ بہادر از دہلی بہ عظیم آباد آمدہ سکنی اختیار نصیر الدولہ بخشی الملک اسد جچندے بہ صوبے داری عظیم آباد بہ روف ۔کرد۔ بصفاف شجاعت و سخاوت ومع

شاہ عالم کے عہد کے شروع میں دوبارہ عظیم آباد ۵۳۳نیک نامی گزرانیدہ ۔

عہد شاہ عالم میں انتقال ہوا۔ ’’پہنچے اور مستقل سکونت اختیار کر لی۔اوس مسی زیب کے میں لب کا ہوں بیمار

طبیب

۵۳۴نہ چھپا تو عرق نیلوفری شیشہ میں

اور ابہ احمد شاہ بادشاہ نسبت رضاعت بود ’’اشرف علی خان فغاں: و خطاب کو کہ خان اختصاص ۵۳۵،درزمان سلطنتش بہ منصب پنج ہزاری

بھی آپ کا خطاب تھا۔ ا س کے عالوہ کو کلتاش ۵۳۶داشت

احمد شاہ کے رضاعی بھائی تھے۔ اس لیے اس کے سن والدت سے ان کی آپ ھ ۱۱۴۱پیدائش کی تاریخ بھی متعین کی جا سکتی ہے۔ احمد شاہ کا سن پیدائش

ہے۔ رضاعی بھائی ہونے کی حیثیت سے اشرف علی خان ایک یا زیادہ سے زیادہ

ھ تک کے کسی سال میں ان ۱۱۴۱ور ھ ا۱۱۳۹دو سال بڑ ے ہوں گے۔ اس لیے ۵۳۷‘‘کی پیدائش ہوئی ہو گی۔

کی تاریخ ۵۳۸ء ۱۷۲۵ڈاکٹر محمود الرحمان نے نجانے کس حوالے سے پیدائش لکھی ہے۔ کیونکہ رضاعت کے لیے چند ماہ کا یاایک یا آدھ سال کا فر ق

ء بنتا ۱۷۲۹ء اور ۱۷۲۸ھ ۱۱۴۱ہو سکتا ہے تین یا چار سال کا فرق نا ممکن ہے

کے لگ بھگ زیادہ قرین ۵۳۹ ،ء۱۷۲۹ہے۔ البتہ ثناء الحق کی محررہ تاریخ مرشد آباد اپنے چچا آپ قیاس ہے ۔ آپ کے والد کا نام مرزا علی خان نکتہ تھا۔

کے پاس چلے گئے۔ چند دن کے قیام کے بعد آپ دوبارہ شاہ جہاں آباد آئے اور

آباد پہنچے جہاں نواب شجاع الدولہ کئی برس گزارے لیکن آرام نہ آیا تو فیض نے احترام سے نوازا۔کچھ عرصہ بعد کسی بات سے ناراض ہو کر عظیم آباد میں

۵۴۰ھ ۱۱۱۸۶راجہ شتاب رائے کے دربار سے منسلک ہو گئے۔ جہاں آپ نے

Page 90: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

90

۵۴۲ء(۱۱۸۲ء۱۷۸۲ )۵۴۱ ،ھ۱۱۹۶ء( بروایت دیگراں ۱۷۷۲)

رست قرار دیتے ہوئے سند دی ء( کو د۱۷۷۲ھ )۱۱۸۶ء( ،آزردہ نے ۱۷۶۸۔۶۹)ہے کہ ان کی قبر دھول پورہ پٹنہ سٹی میں ہے۔ اور سنگ مزار پر مفتوں )حکیم

ابو الحسن (کا لکھا ہوا قطعہ تاریخ منقوش ہے۔ کو کہ خان آں بہار باغ سخن

سوئے خلد بریں زدینا رفت

کرد مفتوں چو فکر تاریخش

۵۴۳دلہا رفت سرود ’’گفت ہاتف

نمونہء کالم:

آخر فغاں وہی ہے اسے کیوں بھال دیا

وہ کیا ہوئے تپاک وہ الفت کدھر گئی

۵۴۴

از سر آغاز و آگہی بقافیہ سنجی مشغول است پیش ازیں ’’عبدالرسول نثار:

درد ہلی بہ سپاہی پیشگی می گزراند ۔ درا یں ایام بہ سابقہ آشنائی سادات آنجا بہ

۵۴۶ آبایش از منصبداران فرخ سیر بادشاہ بودند ۵۴۵‘‘ طرف امروہہ رفتہہ دیدہ بود ۔۔۔۔عمرش تخمینا قریب اصلش از اکبر آباداست ۔ فقیر اور ادرقصبہ امرو

اور گردیزی ۵۴۸ ۔ میر حسن نے یاران میر تقی است ۵۴۷شصت خواہد بود

کوئی صدی آپ کے پاس تحریر کیا ہے۔ ۵۴۹نے درسخن محمد تقی میر استاد لکھ کر واضح ۵۵۰یا ہزاری عہدہ ہو گا۔ اور یہی بات نساخ نے منصبدار شاہی

کی ہے۔ میں وہ ہوں جس کے رشک سے گل نیں

کیا سحر

ٹکڑے جگر ہزار و لیکن نہ اس قدر

۵۵۱

دنیا کو جائے عیش سن آئے تھے اے نثار

سو اپنے جیتے تک تو غم آباد ہی رہی

۵۵۲

شاہ عالم ثانی آفتاب کا اصل نام مرزا عبدہللا اور عرف الل میاں تھا۔ قلعہ

شہزادہ گوہر کے نام سے موسوم تھے۔ وہ عزیز الدین )عالمگیر ثانی ( معلی میں کے فرزند تھے۔ جنھیں فرخ سیر نے قید کر دیا تھا۔ شہزادہ عالی گوہر نے حاالت

کی نزاکت کا اندازہ کرتے ہوئے دہلی کی سکونت تر ک کر دی اور عالمگیر ثانی

ادشاہت کا اعالن کر دیا کی موت کے بعد شاہ عالم ثانی کا لقب اختیار کر کے ب شاہ عالم ثانی کی پیدائش کے حوالے سے بھی مختلف آراء ہیں۔ جب ۵۵۳ہے۔

۱۵ھ /۱۱۴۰ذیقعدہ ۱۷کہ سن وفات میں بھی قدرے اختالف موجود ہے۔جیسے

۵۵۴ء( ،۱۸۰۶نومبر ۱۹ھ )۱۲۲۱رمضان ۷ء اور وفات :دلی ۱۷۲۸جون ء ۱۷۱۹ ،۵۵۶ ،ء۱۸۰۶ومبر ن ۸ء وفات ۱۷۲۸جون ۴ والدت ۵۵۵ ،ء۱۷۱۸

۵۶۰ ،ھ۱۱۳ ،ا۵۵۹ء ۱۷۲۸جون ۱۴ ،۵۵۸ء ۱۷۲۷ ،۵۵۷

Page 91: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

91

شاہ عالم ثانی آفتاب فارسی اور اردو نظم اور نثر ہر دور میں تحریر کے

گر جانتا تھا۔ اور قلم کا استعمال کرتا تھا۔ اس نے اپنے پیچھے چاراردو دیوان ایک فارسی دیوان، ایک مثنوی )منظوم اقدس( ،نادارت شاہی )اردو ہندی ۵۶۱

کالم کا مجموعہ( اور ایک نثری تصنیف ،عجائب القصص ،یادگار چھوڑے

،شاعری میں غزل ،مثنوی کے عالوہ سیٹھنے ،استتی ،پیران ،ہوری، کبت شامل ہیں۔ ،دوہرے، گیت، نائکہ بھید اور ترانے منسوب ہیں جو نادرات شاہی میں

۵۶۲ بعد مجنوں کیوں نہ ہوں میں کار فرمائے

جنوں

عشق کی سرکار سے ملبوس رسوائی مال

۵۶۳

:عجائب القصص اختتامی سطور مالحظہ ہوں

اے نفس ڈر ہللا سے کہ لوگ گمان کرتے ہیں تجھ سے جو چیز کہ نہیں بیچ ک کہ روایت کیا ہے کہ امام اعظم تیرے نہ سوئے بعد اس کے کسی رات یہاں ت

نے نماز فجر پڑھی ہے ساتھ وضو عشاء کے چالیس برس تک مغرب میں ہے کہ

اسی ہجری /میں ہوئی۔ اور سراجیہ میں ہے ۵۶۴ء ۱۰۸۰والدت ابو حنیفہ کی وفات پائی ابو حنیفہ نے کہ عمران کی ستر برس کی تھی۔ ایک سو پچاس ہجری

۵۶۵‘‘میں۔ملسو هيلع هللا ىلص النبوی

مرثیہ و منقبت و میاں نذر علی خان گمان : جوا نے است ، سپاہی پیشہ ، آپ شاہ جہاں آباد کے باسی ۵۶۶غزل ہمہ می گوید ،بزبان ریختہ ماہر است،

نساخ ۵۶۷تھے۔ گلشن ہند میں لکھا ہے کہ شیندہ شد کہ در فیض آباد بسرمی برد

گ شاہ جہاں آباد میں ء کے لگ بھ۱۷۲۸ کہ آپ ۵۶۸نے بھی اس تائید کی ہے پیدا ہوئے۔ قیاس یہی ہے کہ جب تک شاہ جہاں آباد میں رہے فوج کی مالزمت پر

زندگی بسر کی۔ بعد ازاں فیض آباد چلے گئے۔ محمد انصار ہللا مختلف حوالوں

مرثیہ، منقبت اور غزل سب کچھ کہتا ہے فکر اچھی ہے۔ زمانے ’’سے لکھتے ہیںم اثر سے خالی نہیں۔ مختصر دیوان ، رطب و یابس کے مطابق روزگار ہے ۔۔۔۔کال

۵۶۹سے بھرا ہواہے ۔کون ہووے گا وہ دن جو ہم قفس سے

چھوٹ کر

جا کے دیکھیں گے الہی پھر وہ دیوار چمن

۵۷۰

ھی نے ب۵۷۲ آزرادہ ۵۷۱مرزا عظیم بیگ عظیم: مرد سپاہی پیشہ است حاتم کے شاگردوں میں دہلی میں پیدا ہوا ۔ شاہ ۔ی ہےاسی کی تقلید یا تصدیق ک

شاعری کا بہت غرور تھا اگرچہ اچھے شاعروں میں سے نہ تھا۔ اسےسے ہے۔

۵۷۳‘‘ پرانے آدمیوں کی بول چال اور محاورات کو استعمال بہت کرتا ہے۔

Page 92: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

92

ء ( لکھا ہے۔ کریم الدین کے تقریبا بیس ۱۸۰۶۔۷ )۵۷۴ھ ۱۲۲۱نساخ نے

ء اخذ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن آزردہ نے ۱۸۲۷ سے ۵۷۵سال گزرنے سے ء میں جادرہ میں ۱۸۶۵حاشیے میں ذرا مختلف روایت بیان کی ہے کہ عظیم کا

۵۷۶انتقال ہوا ۔ غنیمت ہے عظیم اس جا جو نفریں سن نہ

تو اٹھے

ے تحسین چولھے بھاڑ میں اور آفریں پڑ

۵۷۷ڈوبے

میر عبدالحی خان صارم: میر عبدالحی خان نام صارم تخلص صمصام

آپ نواب صمصام الدولہ شاہنواز خان شہید کے خلف الصدق ’’الملک خطاب ہے۔ سال کی ۲۲ ۵۷۸‘‘ ھ میں شہر اورنگ آباد میں ہوئی۔۱۱۴۲ہیں۔ آپ کی والدت

ھ میں خطاب خانی و منصب ۱۱۶۲ے فراغت حاصل کی۔ عمر میں تحصیل علم س

سے سرفرازی پائی۔ نواب نظام الدولہ ناصر جنگ نے ان کو صوبہ براء کا دیوان مقر ر کیا۔ پھر نواب امیر الممالک آصف الدولہ صالبت جنگ کے عہد میں شش

ہزاری منصب و نوبت اور شمس الدولہ دالور جنگ خطاب سے ممتاز ہوئے۔ اور

بنیاد اورنگ آباد کی نظامت اور دولت آباد کی قلعداری آپ کے نام پر خجستہ والد کی شہادت کے بعد فرانسیسی فوج نے آپ کو بھی ۵۷۹مقرر ہوئی۔

ء میں آپ کو دوبارہ بحال کر دیا۔ آپ ۱۷۵۹ھ /۱۱۷۲گولکنڈہ میں قید کر دیا۔ لیکن

فات پائی۔ء کو و۱۷۸۲ یکم اپریل ۵۸۰ھ ۱۱۹۶جمادی االول ۱۵نے اسیروں کی قفس کے کس تئیں پروا ہے

مرنے کی

ہماری کس طرح فریاد اب صیاد کون

۵۸۱پہنچے

بھورے خان آشفتہ: عظیم الدین خان نام ،بھورے خان عرف ،قوم افغان بھورے ۵۸۲شاگرد میر محمدی مائل ، جوان صالحیت شعار و سپاہی پیشہ است

پیدا ہوئے۔ زندگی کا کافی حصہ یہیں گزارا۔ دہلی کے سیاسی حاالت خان دہلی میں

جب خراب ہوئے اور لوگوں نے ہجرت کرنا شروع کی تو آپ بھی لکھنؤ پہنچے ۔ آپ کے لکھنؤ جانے پر بھی آپ کی پیدائش کے سن کی طرح پردہ پڑا ہوا ہے۔

تدا فارسی لکھنؤ میں تھے۔ آپ نے شعر کہنے کی اب۵۸۳ء میں ۱۷۹۳البتہ آپ زبان سے کی اور تب فرزند علی مضمون سے اصالح لی بعد ازاں اردو میں بھی

آخر کو بسبب ا کتساب باطن مائل بخدا ہوا۔ اور توبہ شعر ’’کہنے لگے۔ لیکن

کہنے سے کی۔ وجہ تجارت سے ایام بسر کرتا تھا اور ہر غزل کے مقطع میں دلی لوٹ آئے اور لکھنؤ سے واپس۵۸۴مضمون زلف باندھتا تھا۔

میں وفات پائی۔۵۸۵ء(دلی ۱۷۹۷۔۹۸ھ)۱۲۱۲جوگ لیا آشفتہ ہم نے دیکھ لٹک اس زلفوں

کی

Page 93: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

93

گلیوں گلیوں حال پریشاں بال بکھیرے

۵۸۶پھرتے ہیں

نبی کو خاطر اصحاب کیوں نہو منظور

کہ زیب و زینت مجلس ہے چار یاروں

۵۸۷سے

ء ۱۷۳۳’’ محسن دہلوی: محمد محسن نام،محسن تخلص اور دہلی وطن ہے۔

میں پیدا ہوئے۔ میر تقی میر کے سوتیلے بھائی حافظ محمد حسن کے صاحبزادے

تھے۔ سراج الدین خان آرزو کی نگرانی میں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی تھی اس ت کے ہاتھوں حاال۵۸۸‘‘ لیے عربی فارسی کی قابلیت اعلی پائے کی تھی۔

مجبور ہو کر نواب ساالر جنگ کے سواروں میں بھرتی ہو کر میدان شاعری سے

فوج میں جانے کے بعد اگرچہ آپ مالی ۵۸۹ہمیشہ کے لیے پسپا ہو گئے۔ پریشانیوں سے کسی حد تک نجات پا گئے اور پھر ماموں کے ترکے سے بھی

احول میں نہ ال سکے۔ آپ آپ کو کچھ مال لیکن اس سے آپ خود کو واپس ادبی م

محسن دہلوی کے کالم میں میر تقی ۵۹۰ء کے لگ بھگ وفات پائی۔ ۱۸۰۶نے میر کے اسلوب کی ایک جھلک دکھائی پڑتی ہے۔ اور ان کی زبان میں اپنے عہد

کار چاؤ ہے۔ جب تخم محبت اپنے دل میں بویا

ے ہاتھ ہم نے دھویادین و دنیا س

اس عشق کا ہووے خانہ ویراں یارب

۵۹۱دونوں عالم سے ان نے ہم کو کھویا

غنچۂ گلستان سخن میرا بو الحسن صاحب ہمت ’’میر ابو الحسن وحشت:

المتخلص بہ وحشت مردے بوداز سلک متوسطین نبیرۂ تیرا نداز خان مرحوم، یرزا محمد رفیع سودا سے مشورۂ م۵۹۲سپاہی پیشہ بعالقہ نوکری بسرمی برد۔

سخن کیا کرتے تھے۔ دلی کے رہنے والے تھے اوراسی شہر میں جنم لیا۔ میر

حسن دہلوی کے مطابق شاہ جہاں آباد میں آرزو کے گھر جو مشاعرہ منعقد ہوتا تھا اس میں آیا کرتے تھے۔ قائم نے چند سال پہلے وفات پا نے کا ذکر کیا ہے۔

ے کچھ عرصہ پہلے وفات پائی۔ تذکروں میں آپ کا ذکر ء س۱۷۵۵ھ/۱۱۶۸گویا

بہت کم اور بہت معمولی ملتا ہے۔ لیکن جن تذکروں میں ذکر آیا ہے وہ آپ کے سپاہی پیشہ ہونے پر متفق ہیں۔

کہیں یہ جھوٹ دیکھا ہے تجھے جب میں

بالتا ہوں

تو چال جاہے مجھے ، کہتا ہے آتا صریحا

۵۹۳ہوں

فدوی دہلوی: مرزا محمد علی نام ،فدوی تخلص ،عرف عام میں مرزا بھچو

ھ کے لگ بھگ شاہجہان آباد میں پیدا ۱۱۵۰ ۵۹۴کے نام سے موسوم تھے۔

آرزدہ نے اسے سپاہی پیشہ اور شاہ رکن الدین عشق کا مرید لکھا ۵۹۵ہوئے۔

Page 94: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

94

ر فیض آباد اور ہے۔ ابدالی کے حملے کے بعد ترک وطن کر کے پہلے لکھنؤ پھ

ھ کے درمیان ۱۲۱۵ھ اور ۱۲۰۳آخر میں عظیم آباد چلے گئے۔ آرزدہ کے مطابق فوت ہوئے اور اپنے استاد شیخ حضرت رکن الدین عشق کے تکیہ واقع عظیم آباد

۵۹۷ء ۱۷۹۶ ششماہی فن اور شخصیت میں سال وفات ۵۹۶میں دفن ہوئے۔

لکھا ۵۹۸ء ۱۷۹۵۔۶ھ/۱۲۱۰ھ( درج ہے۔ مالک رام نے بھی ۱۲۱۱۔۱۲۱۰)ہے۔ فدوی سے ایک دیوان یادگار ہے۔ جو دیوان فدوی کے نام سے شائع ہو چکا

ہے۔ جس میں غزلیات ،رباعیات، مخمسات، واسوخت، ترجیع بند، ترکیب بند،

مثل او رمحاورہ باندھنے میں یگانہ ، مقبول ’’قطعات اور متفرق اشعار شامل ہیں۔ ۔نظم ریختہ میں استاد ،ہندی موسیقی کے علم سے بہت انام اور شیریں کالم ۔۔

۵۹۹‘‘ مناسبت تھی۔کیا تجوں شمع سر سے گو کہ بال رات ٹل

گئی

دیوانے ذکر آج کا کر ،کل کی کل گئی

۶۰۰

تج سے ہوتے ہیں درد مند جدا

۶۰۱گو کرے کوئی بند بند جدا

کیا یاد ہم کریں گے مالقات رات کی

۶۰۲آیا، پھرا ، چال نہ وہ بیٹھا نہ بات کی

میر حیدر علی حیران : تقریبا تمام تذکرہ نگاروں نے میر حیدر علی حیراں

کو سپاہی پیشہ اور سپاہگری سے منسلک لکھا ہے۔اللہ سریرام نے اس پرشوق

آصف الدولہ کی سرکار کے واصل باقی ’’ کے حوالہ سے یہ اضافہ کیا ہے کہالل سے توسل رکھتے تھے۔ رائے مذکورہ کی وفات کے بعد۔۔۔۔ آصف نویس میگو

روپیہ مشاہرہ کر دیا ۔ او ۱۰۰کے ۳۰الدولہ ان پر مہربان ہوئے کہ بجائے

ازچندے درسرکار ’’ مصحفی نے ۶۰۳‘‘ رسوسوار ان کے تخت میں کر دئیے۔ سے ان کی عسکری۶۰۴‘‘ راجہ ٹیکسٹ رائے در سواران عزو امتیاز دارد

زندگی کا تعارف کروایا ہے۔اللہ سریرام نے نکبت رائے اس راجہ کا نام لکھا ہے۔

جس کی سرکار میں آپ مالزم تھے۔جس کی تائید کئی دیگر تذکرہ نگاوں کی جائے پیدائش شاہ جہان آباد ہے۔ لیکن قیام ’’تحریر سے بھی ہوتی ہے۔ حیران کی

والے سے تذکرہ نگار او رادبی آپ کے سن پیدائش کے ح۶۰۵‘‘لکھنو میں رہا ۔ضلع بہار ’’مؤرخ خاموش ہیں۔ آپ منشی سروپ سنگھ دیوانہ کے شاگرد تھے۔

میں ایک شخص نے ان پر حملہ کر کے قتل کر دیا مگر مرنے سے پہلے انھوں

نے بھی نہایت جواں مردی سے اپنے قاتل پر تلوار سے ایسا بھرپور وار کیا کہ پ کی تاریخ وفات کے بارے میں یہ روایت ملتی ہے۔ کہ آ۶۰۶‘‘وہ ٹھنڈا ہو گیا۔

ھ ۱۲۱۲ء /۱۷۹۷’’ میں زندہ تھے۔ لیکن یہ بھی مذکور ہے کہ ۶۰۷ھ ۱۲۱۵

۶۰۸‘‘ کے بعد ان کے زندہ رہنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔

Page 95: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

95

ہوا ہے اب تو نئے دوستوں سے ربط و لے

پاس تمہیں اب آنے کی فرصت ہمارے

۶۰۹کہاں

مشہور بنام ہیبت قلی خان نواب ’’میر محمد حیات خان حسرت دہلوی

شوکت جنگ یسر صولت جنگ جو کہ صوبہ دار پورنیہ کا بنگال میں تھا اور

اسی بنا پر ۶۱۰‘‘ نواب سراج الدولہ صوبہ بنگال کی خدمت میں بھی وہ رہا تھا۔ بلکہ ۶۱۱عبدالشکور شیدا نے انھیں عظیم آباد ی لیکن مظہر کا شاگرد لکھا ہے۔

ء میں مرشدآباد میں وفات ۱۷۹۶ء میں عظیم آباد ہی میں پیدا ہوئے۔ اور ۱۷۲۷آپ

اگرچہ اوائل عمری اور جوانی میں ۶۱۲پائی۔ باقر حزیں کے شاگرد تھے۔ ساز گار ہوئے تو نواب سراج الدولہ کی نوکری نہیں کی لیکن جب حاالت نا

سرکار میں داروغگی کی خدمت پر مامور ہوئے۔ جنگ پالسی میں ان کے ساتھ

ھ میں نواب مبارک ۱۱۹۵میدان جنگ میں تھے۔نواب مذکورہ کی شہادت کے بعد الدولہ میر مبارک علی خان بہادرخلف میر جعفر صوبہ دار بنگالہ کی رفاقت میں

۶۱۳ر پریشانی کے ساتھ بسر کی۔ نہایت غربت او اتنا بھی عشق میں رسوا ہونا

۶۱۴کہہ تو حسرت اسے کیا کہتے ہیں

اول ہمرنگ تخلص ۶۱۵سپاہی پیشہ ،ظریف و ذہین ’’دالور خان بیرنگ آپ میاں یکرنگ کے شاگرد رتھے۔قائم ۶۱۶می کردبعدہ بے رنگ قرار یافت

گ کے ذیل میں ہی شامل کیا ہے اور یکرنگ کا حقیقی بھائی لکھا نے آپ کو ہمرن

نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ ۶۱۸صاحب خم خانۂ جاوید ۶۱۷ہے۔ تذکرہ نگاروں نے آپ کے حاالت نیز آپ کی والدت و وفات پر روشنی نہیں ڈالی۔

آپ کا کالم بس اتنا لکھا ہے کہ سودا کے ہم عصر تھے اور دہلی میں وفات پائی۔

بھی اسی طرح کم کم ملتا ہے۔ لیکن اس میں ایک پختگی ہے۔ میں تو لکھا تھا اس کو خط ہم رنگ

۶۱۹اس تغافل شعار نے نہ پڑھا

فرہاد کو محنت کی تلخی نہ کبھی ہوتی

شیریں کا جو اک بوسہ ملتا شکر آلودہ

۶۲۰

سدا بیدار رہ غفلت سے اے دل

۶۲۱مثل مشہور ہے سویا سو چوکا

از ساکنان مؤ شمس آباد است پسر خواندۂ میر سوز ’’میر فتح علی شیدا ،جوا نے بکمال ، اخالق متواضع، مؤدب از شاگردان مرزا رفیع سودا ،سپاہی پیشہ

صاحب تذکرہ تالمذہ شاہ حاتم دہلوی نے اگرچہ انہی الفاظ کو دہرایا ۶۲۲‘‘ است

میں کمپوزنگ کی شاید غلطی ہو گئی ہے جو کہ میر شیخ علی ہے۔ لیکن نام لکھا گیا ہے۔میر سوز کے اس درد مند او رعالی فکر شاعر کے حاالت ۶۲۳شیدا

بہت کم تحریر ہوئے ہیں۔ کالم میں تغزل اور تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ میرزاعلی

Page 96: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

96

وہ فدوی آپ نے غزل کے عال۶۲۴لطف نے اسے میر سوز کا متبنی لکھا ہے ۔

الہوری کی ہجو میں ایک قصہ بوم و بقال بھی لکھا ہے۔ وہ صورتیں الہی کس دیس بستیاں ہیں

اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں

ہیں

آئے تھے کیوں عدم سے کیا کر چلے جہاں

میں

یہ مرگ و زیست دونوں آپس میں ہنستیاں

۶۲۵ہیں

غان قوم سے تعلق تھا۔ عظیم آباد میں سکونت رکھتے اصالت خان ثابت اف

تھے۔ پیشہ سپہ گری تھا لیکن چونکہ طبع موزوں رکھتے تھے۔ اور شعر وشاعری سے دلچسپی تھی اس لیے مرزا فدوی کی شاگر دی اختیار کی۔ آپ نے

ء میں ۱۷۹۳۔۹۴ھ/۱۲۰۸ مالک رام کے مطابق ۶۲۶ء میں وفات پائی۔ ۱۷۹۱

۶۲۷وفات پائی

نقاب کووہ ماہ رو جو منھ سے اٹھاوے

۶۲۸قدرت خدا کی آوے نظر آفتاب کو

مصرع کبھی جو آہ کا موزوں کروں ہوں

میں

سکان نہ سپہر کا دل خوں کروں ہوں میں

۶۲۹

ر کبھی ٹھوکر کا صدمہ ہے کبھی صر ص

کی زحمت ہے

ہماری خاک یوں اڑتی پھرے اے ابر

۶۳۰رحمت ہے

عبدہللا خان مشتاق ولد ابو الحسن خان حسن ، افغان یوسف زئی قبیلے سے

بہ منصب ’’تعلق تھا۔ مشتاق آپ کا تخلص بھی تھا اور خطاب بھی۔ آپ کا خاندان آپ کے دادا کے ۶۳۱پانصدی ذات و جاگیر ممتاز است

،رمل اور مہند سی سے دور سے دربار سے منسلک تھا۔ آ پ کو علم جفر

رغبت تھی۔ آپ خط نستعلیق ،ثلث اور شفیعا لکھنے میں یگانہ روزگار تھے۔ اردو شاعری میں آپ ابتدا میں شاہ محمد علیم حیرت الہ آبادی کے

شاگرد ہوئے۔ شاہجہان آباد میں میر تقی میر سے استفادہ کیا۔ سعادت خان

ممکن ہے کہ ابو الحسن ۶۳۲ے ناصر نے انھیں سیف الدولہ کا بیٹا لکھا ہکنیت ہو اور نام سیف الدولہ ہو یا سیف الدولہ ان کا خطاب بھی ہو سکتا

تحریر کیا ۶۳۳ہے۔ کریم الدین نے ابوا لحسن کے باپ کا نام سیف ہللا

ہے۔ تذکرہ نگاروں کی تحریروں سے مشتاق کے عہد اور حاالت سے ت کے حوالے سے کوئی ذکر آگہی تو ہوتی ہے لیکن اس کے جنم اور وفا

Page 97: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

97

نہیں ملتا۔ سوائے امداد صابری کے۔ جس نے تذکرہ سرو کے حوالے سے

کالمش بسیار شستہ و رفتہ، والحق کہ شعر عاشقانہ و درد ’’ لکھا ہے کہ ۶۳۴‘‘ آلودمی گفت قریب ہفت سال شدہ کہ بہ جوار رحمت حق پیوست

:آپ کے کالم کا نمونہ حاضر ہے

کر تماشا میں تبسم دان دن آلودہ مسی ۶۳۵نہ دیکھا ہو چمکتے گر شب یلدا میں اختر کو

ء میں ۱۷۴۵ھ بمطابق ۱۱۵۸رجب المرجب ۱۷شاہ محمد کاظم قلندر: آپ

آپ نے اوائل کتب درسیہ مال ۶۳۶محمد شاہ بادشاہ دہلی کے عہد میں پیدا ہوئے۔ عبدالعزیز کا کوروی، مال حمید الدین کاکوروی سے اواسطی واواخر مال غالم

تمام علوم آپ کے وہبی یحیی بہار ی و مال۔حمد ہللا سندیلی سے پڑھیں ۔ حقیقتا

حضرت شاہ کاظم قلندر کی طبیعت معرفت کی طرف مائل تھی لیکن ۶۳۷تھے۔ کاشف قلندر کی خواہش کے مطابق فوج میں بحیثیت سپاہی اپنے والد شاہ محمد

بھرتی ہو گئے۔ بکسر کی فیصلہ کن جنگ کے بعد آپ نے عالئق دنیوی کے

اور خانقاہ ۶۳۸بندھن ہمیشہ کے لیے توڑ ڈالے او رفوج سے بھی الگ ہو گئے۔ بق کاظمیہ کی بنیاد رکھ کر وہیں اپنے مرشدشاہ باسط علی قلندر کے حکم کے مطا

ھ میں مطابق ۱۲۲۱ربیع اآلخر ۲۰طلب حق میں مصروف ہو گئے۔ جہاں

ربیع اآلخر کوکاکوری میں ۲۱سال وفات پائی اور ۶۳ء کی شب بعمر ۱۸۰۶ حضرت شاہ کاظم قلندر عربی ،فارسی ۶۳۹والدین کے پائیں مدفون ہوئے۔

ھے۔ ،اردو ہندی کے عالم تھے او ران زبانوں میں طبع آزمائی بھی کرتے ت کیا جب کرم حق نے کاظم کے دل پر

۶۴۰اسی سے اسے دم بدم دیکھتے ہیں

نواب بدر الدین خان بہادر نام ،امیر جنگ امیر الدولہ خطاب اور الئق تخلص تھا۔ آپ شہامت جنگ امیر الدولہ کے بیٹے تھے۔ اپنے والد کے بعد نواب

سر فراز ہوئے۔ جاگیریں پائیں منصب پنچ سکندر جاہ بہادر کی مصاحبت سے

ہزاری ،تین ہزار سوار ،علم ،نقارہ، نوبت، پالکی ،جھالر دار سے سر فراز تھے۔ آپ کے سن والد ت اور وفات سے آگاہی نہیں ہو سکی۔ آپ نواب سکندر ۶۴۱

ء( میں زندہ تھے۔ تمکین کاظمی کے ۱۸۲۹ء سے ۱۸۰۳جاہ بہادر کے عہد)

یہ میں آپ کے دوقلمی دواوین موجود ہیں زبان صاف اور مطابق کتب خانہ آصف شستہ ہے۔

کیا کہا کس نے کہا تیرے سے الئق شب

کو

تجھ کو ٹوھو کی قسم کہہ دیے نہ شرماری

۶۴۲دوا

۶۴۳میر بہادر علی وحشت: نجیب الطرفین سید زادہ اورسپاہی پیشہ تھے

ہ کی سرکار سے تعلق تھا۔ آپ کی تعیناتی اکثر وزیر الممالک نواب شجاع الدول

Page 98: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

98

ھ( کے وقت ۱۱۸۸گورکھپور کی طرف رہی۔ تذکرہ شعراء ہندی کی تصنیف )

سے واضح ۶۴۴زندہ تھے۔ جو میر حسن کے آخری کلمہ خدایش سالمت دارد ہے۔ آپ سے کوئی تصنیف منسوب نہیں اور ذکر بھی بہت کم کیا گیا ہے۔ آپ شیخ

تالمذہ میں سے تھے۔ قلندر بخش جرات کے دل کو لے کر خبر بھی دل کی نہ لی

۶۴۵پھر کہو گے کہ دل ستاں ہیں ہم

ء( کو بلگرام ۱۷۴۶ھ )۱۱۵۹شعبان ۱۹سید محمد خورشید علی بلگرامی کے مقام پر پیدا ہوئے۔ اور اسی نسبت سے بلگرامی بطور الحقہ استعمال کیا۔ آپ

عالمہ عبدالجلیل بلگرامی سے تعلیم حاصل کی۔ جب شعر کہنے نے سید محمد ابن

یخ محمد کا شوق ہوا تو ابتدا فارسی سے کی پہلے شیخ صانع بلگرامی اور پھر شآخر سرکار انگلشیہ نے بلیاکی تحصیل ان کے صدیق سخنور سے اصالح لی۔

صفر ۱۲سپرد کر دی۔ کچھ عرصہ بعد آپ مرض لقوہ میں مبتال ہوگئے اور

ء( کوبلیا میں وفات پائی۔ آپ فارسی کے عالوہ کبھی کبھی طرز ۱۷۸۶ھ)۱۲۰۱ زمانہ کے موافق اردو میں بھی فکر سخن کرتے تھے۔

یارب خفا نہ ہووے کسی سے کسی کا

دوست

کرتا دعا ہوں ساری خدائی کے واسطے

۶۴۶

ازی پورمیں پیدا شیخ احمد وارث المتخلص احمدی قصبہ زمانیہ نزد غ

ہوئے۔ قاضی شمس الدین ہردی کے قرابت داروں میں سے تھے علی لطف لکھتے

از اسالف خود بہ شیوۂ مالگزاری پر گنہ زمانیہ و رسالہ داری اتصاف ’’ ہیں کہھ میں بعہد فضل علی خان نواب ۱۱۹۶’’ اللہ سریرام کے مطابق ۶۴۷‘‘داشتہ

آپ نے ۶۴۸‘‘دے پر فائزتھے۔ غازی پور زمانیہ میں بخشی گری کے عہ

موزوں طبیعت پائی تھی اور شعر خوب کہتے تھے۔سچ کہیے تو شب گھر میں تھے کس کے

کہ سحر تک

۶۴۹مایوس ہی باہر رہے جوں حلقۂ درہم

مردم ترے جمال پہ جب چشم وا کریں

آنکھیں اٹھا کے پنجۂ مثرگاں دعا کریں

۶۵۰

غالم محمد دوست: شیخ غالم محمد نام اور دوست تخلص جب کہ بہاری کا اور علی لطف ۶۵۱الحقہ بہار کی نسبت سے لکھتے تھے۔ سید یوسف حسن

کے مطابق بہار کے رہنے والے تھے۔ لیکن اللہ سریرام نے ان کا وطن ۶۵۲

میں بھی لکھا ہے۔ غالم محمد وست کچھ دنوں مرشد آباد ۶۵۳عظیم آباد پٹنہ رہے۔ اور وہیں ابراہیم خان خلیل سے اس کی مالقات ہوئی تھی۔ آپ سر کار

Page 99: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

99

صوبہ بہار میں فوج میں مالز م رہے۔ شورش نے انھیں سپاہی پیشہ جب کہ نام

غالم احمد لکھا ہے۔ اردو میں گاہ گاہ شعر کہتے تھے۔خدا حافظ ترا اے دوست تو اس طرح روتا

ہے

ہوتا ہے جگر فوالد کا بھی دیکھ کر کہ

۶۵۳پانی

آصف الدولہ مرزا یحیی خان آصف :عرف مرزا امانی لکھنؤ کے نواب ھ )نومبر ۱۱۶۱آواخر ’’تھے اودھ کے وزیر رہے اور پھر فرمانروائی کی۔ آپ

ستمبر ۲۱ھ )۱۲۱۲ربیع االول ۲۹ء( فیض آباد میں پیدا ہوئے اور ۱۷۴۸

وفات پائی۔ اور امام باڑہ آصف الدولہ میں جو انہی کا ء( کو لکھنو میں۱۷۹۷ آپ نواب شجاع الدولہ کے فرزند رشید اور ۶۵۴رتعمیر کرایا ہوا تھا دفن ہوئے۔

ء میں ۱۷۷۴ھ /۱۱۸۸جانشین تھے۔ ستائیس برس کی عمر میں بمقام فیض آباد

یا اور مرکز حکومت فیض آباد سے لکھنؤ منتقل کر د۶۵۵مسند نشین ہوئے۔ جس کے بعد لکھنو کی تہذیبی اور ادبی اہمیت بڑھنا شروع ہوئی۔آپ شاعری اور

دیگر علوم و فنون کے بڑے قدردان ،محسن اور مربی تھے۔ آپ خود بھی شعر

کہتے اور میر سوز کو اپنا کالم دکھاتے تھے۔ آپ کے دو ر میں دہلی کے بہت ئے۔ آپ نے اپنا دیوان سے نامور شعرا لکھنؤ آکر آپ کے دربار سے وابستہ ہو

بھی مرتب کیا۔ جو دیوان آصف الدولہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس میں غزلیں

۶۵۶،رباعیاں ،مخمس او رایک سو صفحات پر مشتمل ایک مثنوی موجود ہے۔ خانماں اپنا ڈبویا جان کے

جس کسی نے تجھ سے ظالم چاہ کی

۶۵۷

ء میں آنولہ ضلع ۱۷۴۸’’ن سلطان ولد عبدہللا خان عاصی نواب نصر ہللا خا

ء کو رامپور میں ۱۸۱۰نومبر ۲۴سال کی عمر میں ۶۴بریلی میں پیدا ہوئے اور

آپ کے چچا نواب فیض ہللا خان نے ریاست رام پور کی بنیاد ۶۵۸۔‘‘وفات پائی :رکھی۔ عتیق جیالنی سالک امیر مینائی کے حوالے سے لکھتے ہیں

عہد نواب فیض ہللا خان سے نواب نصر ہللا خان کے اخراجات کے لیے ’’

چالیس ہزار روپے ساالنہ مقرر ہوئے تھےجب معاملہ برہم ہو اا ور نواب آصف سالہ بیٹے احمد علی خان کو مسند نشین کیا ۹الدولہ نے نواب محمد علی خان کے

۶۵۹‘‘ ا۔ ۔تو انھوں نے نصرہللا خان کو ان کی نیابت کا کام سپردکی جو کیا جورو جفا تم نے بتاں سلطان پر

۶۶۰اس قدر تو وہ ستم دیدہ گنگار نہ تھا

شہزادہ جواں بخت جہاں دار شاہ خانوادہ تیموری سے تھے آپ شاہ عالم

ثانی کے بیٹے اور ولی عہد تھے۔ اس تیموری شاہزادے کی قسمت مغلیہ سلطنت ساتھ وابستہ رہی۔ چند سال تک دہلی کی حکومت کا نظم و کے عہد زوال کے

نسق سنبھاال۔ لیکن الہ آباد سے اپنے والد کی واپسی پر سیاست سے الگ ہوگئے۔

Page 100: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

100

جواں بخت کی تاریخ والدت کا صحیح طورپر علم نہیں۔ تذکرہ نگاروں نے

لن قیاس پر مبنی الگ الگ تاریخیں لکھیں ہیں وحید قریشی لکھتے ہیں کہ فرینکء ۱۷۵۲ اس کے عالوہ ۶۶۱ھ( کے لگ بھگ قرار دی ہے۔ ۱۱۵۳ء )۱۷۴۰نے

ڈاکٹر وحید قریشی نے تاریخ والدت کے حوالے سے ۶۶۳ء ، ۱۷۴۸ ۶۶۲

مقدمہ دیوان جہاندار میں تفصیلی بحث لکھی ہے۔ شہزادے کی ابتدائی تعلیم عربی نؤ اور بنارس ، فارسی اور اردو میں ہوئی۔ سیاست سے الگ ہونے کے بعد لکھ

میں اردو کے اپنے عہد کے مشاہیر سے ملنے کے مواقع ملے۔ بنارس میں ہی

ء کو سینے میں درد اٹھا اور اگلے روز ۱۷۸۸مئی ۳۱حاالت دگر گوں ہو گئے۔ ۶۶۴ء کو وفات پا گئے۔ ۱۷۸۸ھ/یکم جون ۱۲۰۲شعبان ۲۵

ساجہان دل اے جہاں دار ایک دن نہ ب

۶۶۵جفائے شاہ تغافل شعار کے مارے

میر امجد علی گریاں کے والد کا نام میر علی اکبر تھا۔ آپ شاہ جہان آباد)دہلی(

کے رہنے والے تھے۔ جب کہ کریم الدین نے میر محمد علی اور میر محمد امجد ے۔ میر حسن نے جب اور لکھنؤ کا باشندہ بتایا ہ۶۶۶علی دونوں نام لکھے ہیں

ھ (مرتب کیا تو اسے جوان بتایا ہے۔ ممکن ہے دہلی ان کا وطن ہو ۱۱۸۸تذکرہ)

آپ سپاہی پیشہ تھے۔ ابتدا قدرت اور بعد میں ’’اور بعد ازاں لکھنؤ چلے گئے ہوں کہا جاتا ہے کہ آپ کو سیر و سیاحت کا بہت ۶۶۷‘‘میاں ضیاء سے اصالح لی۔

۶۶۸آباد اورعظیم آباد میں بھی رہے۔ شوق تھا۔ اور مدتوں مرشد

سبک روحی پہ پروانے کی جی کو داغ کرتے ہیں ۶۶۹ا کہ دوش شمع پر رکھتا نہیں بار کفن میر

نواب علی ابراہیم خان خلیل شرف الدولہ ،منتظم الملک ،امین الدولہ ،عزیز

آپ کو نوازا گیا۔ الملک ،خان بہادر ،مستقیم جنگ، نصیر جنگ کے خطابات سےآپ خواجہ عبدالحکیم لکھنوی کے ہاں پیدا ہوئے۔ لیکن آپ کے نام کے ساتھ عظیم

آبادی کا الحقہ لگایا جاتا ہے۔ آپ شاعری میں نواب عاشور علی خان کے شاگر د

اور بقول اختر اورینوی ۶۷۰آپ محمد علی شاہ بادشاہ کے وزیر ’’تھے۔ نواب میر قاسم علی خان عالی جاہ کے وزیر کچھ دنوں تک عظیم آباد کے ’’،

صوبہ دار اور نائب ناظم بھی رہے۔ مگر عالی جاہ کی بربادی کے بعد وہ نواب

شجاع الدولہ سے علیحدہ ہوئے۔ اور مرشد آباد کا رخ کیا۔ الرڈ ہسٹنگز نے انھیں اعلی مقرر کر دیا اور الرڈ کا ر نوالس کے عہد میں انھیں عدالت دیوانی کا حاکم

آپ کی تاریخ والدت کے بارے میں معلومات ۶۷۱‘‘ وہاں کی گورنری بھی ملی۔

ء( پر اتفاق رائے ہے۔۱۷۹۳۔۹۴ھ)۱۲۰۸تشنہ ہیں لیکن وفات لہو رونے سے میرے تر ہوا جیب و کنار

آخر

اتھوں ہو گیا گلزار پہلو خلیل آنکھوں کے ہ

۶۷۲میں

Page 101: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

101

ایسے وعدے بھی وفا ہوتے ہیں

۶۷۳ہاں بجا سچ ہے ضرور آئیے گا

افسر رامپوری: احمد یار خان نام ،افسر تخلص ، نواب محمد یار خان امیر

ء ۱۷۵۴کے فرزند اور بانی روہیل کھنڈ نواب علی محمد خان کے پوتے تھے۔ ء ۱۷۶۳ھ/۱۱۷۷عصیم نے آپ کی والدت عبدالرشید ۶۷۴میں پیدا ہوئے۔

تحریر ۶۷۵ھ ۱۲۶۲جمادی االول ۲۸ء مطابق ۱۸۴۶مئی ۲۴)تقریبا( اور وفات

کی ہے۔ عصیم نے تقریباسے تاریخ والدت کو مشکوک بنا دیا ہے۔ عتیق جیالنی ء ۱۷۱۵ کی عمر میں وفات پائی۔ اس لحاظ سے ۶۷۶سال ۹۳سالک کے مطابق

ر پاتا ہے۔ شفقت رضوی نے تذکرہ الشعراء کی ترتیب کے آپ کا سن پیدائش قرا

برس کی ۹۵دوران ایک اور غلط فہمی پید اکر دی ہے کہ سریرام نے لکھا ہے ۔۔۔۔۔ھ کو ۱۲۶۲ جب کہ یہ غلط فہمی ۶۷۷‘‘ھ میں انتقال فرمایا ۱۲۹۲عمر میں

ء پڑھنے سے ہوئی۔۱۲۹۲

ثے میں مال تھا۔ سپہ گری میں مہارت کے عالوہ شاعری کا ذوق بھی ور ان کے اشعار میں ۶۷۸۔ براتی طالب سے تلمذ رہاقائم چاند پوری اور حافظ ش

خیال کی تازگی ظاہر پائی جاتی ہے۔ اڑا دید مثل حباب اس جہاں کا

۶۷۹کہ یہ زندگی کوئی دم ہے غنیمت

ہدایت، آپ۶۸۰غفور بیگ افسوس کاوطن توران اورسپاہی پیشہ تھے۔

غفور بیگ افسوس کے حاالت پر کسی ۶۸۱قاسم اور فراق کے شاگرد تھے۔ تذکرہ نویس نے روشنی نہیں ڈالی۔ اس کے عہد کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا

ء اور حکیم ثناء ہللا فراق دہلوی ۱۸۳۰ء قاسم کا ۱۸۰۰ہے کہ ہدایت کا سن وصال

ء ہے۔ ۱۸۳۰کا سن وفات بھی کف پا سے جو ظالم مل رہا ہے

۶۸۲کسی کا خون ہے یہ یا حنا ہے

میر جیون قربان سپاہی پیشہ تھے۔ چھوٹی عمر میں ہی شعر کہنے کا شوق

: پیدا ہو گیا اور سودا کی شاگردی اختیار کی میر حسن دہلوی لکھتے ہیں کہمیر فت ایں نشانۂ تیر فضا روزے در فیض آباد فوج فرنگی صف کشیدہ ’’

۔بایکے از رفقاناگاہ درمیانش افتاد۔آں سگاں بعادت خود غوغا نمودہ ناسز

اگفتند ہر چند ایں گرفتاران بالئے نا گہانی بعجزو انکسار پیش آمدہ عذر

خواستند کہ نادانستہ بدام افتادہ ایم راہ بدہید۔غرض مغروراں ہیچ پرواہ

بعد از ردو بدل بسیار مقتضائے غیر ت ناچار نکردہ زبان بدشنام کشا دند

تن بقضادادہ دست بقبضہ شدند ۔ آخر یکے زخمی شدوایں جوان از طعن

۶۸۳‘‘سنگین کا فران سنگدل شہید گردید۔

ء کے درمیان ہونی ۱۷۵۸ء اور ۱۷۵۴میر جیون قربان کی تاریخ پیدائش

چاہیے۔ لیکن عبدالرشید صمیم نے نجانے کس حوالے سے وال ء ۱۸۳۷دت تقریبا

۶۸۴‘‘۔کی ہے ء نقل۱۷۵۸اور شہادت

Page 102: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

102

انشاء للاہ خان انشا حکیم میر انشا ہللا خان ابن مخیر الدولہ حکیم الحکماء

ر ماشاء ہللا خان مصدر می ھ میں ہوئی ۱۱۷۰ھ، ۱۱۶۹کی والدت تقریبا ۶۸۵تھی۔

ی سپاہ میں نجف خان ک آپمیر انشاء کی والدت مرشد آباد میں ہوئی تھی

۔ یہاں سے والد کے ساتھ دلی گئے اور محمد بیگ ہمدانی کے ساتھ ئےشامل ہو ء ۱۷۷۲ جبمحمد بیگ ہمدانی ’’ رہے۔بڑے اعزاز کے ساتھ اس کے لشکر میں

ء تک آگرہ اور راجپوتانہ کی مہموں میں سر گرم تھے۔ انشاء نے خود ۱۷۸۸سے

توپ و تفنگ و تیر و تبر کی زد پر بھی ان کی لڑائیوں میں حصہ لیا تھا۔ چند بار ۶۸۶ گی باقی تھی جو سالمت واپس آئے۔چڑھ گئے تھے۔ زند

کوئی لفظ نہیں آنے پایا۔ انشاء کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ و ہ

پہال شاعر ہے جس نے انگریزی الفاظ غزل اور قصیدہ میں استعمال کیے ہیں۔ یں آنے پایا تمام الفاظ جو استعمال کیے ہیں وہ بے دیوان بے نقط میں کوئی نقطہ نہ

نقط ہیں۔

مثال کے ۔ہے بھی صنعت غیر منقوطہ میں لکھی گئی‘‘سلک گوہر ’’ : طورپر قصے کی ابتدا کے دو جملے درج کیے جاتے ہیں

در عالم علو حوصلہ کہ سالہا سال ہم کو سودا سا مطالعۂ احوال ملوک عالم

۶۸۷لکہ گوہر آرا کا حال اس طرح معلوم ہوا۔رہا۔ ملک رو س اور م

یہ کہہ دینا آسان ہے کہ قصہ میں بے لطفی ہے روزمرہ نہیں۔ داستان کا

پڑھنا محال ہے۔ لیکن صرف پندرہ حروف سے کسی زبان میں ایک قصہ لکھنا انشاء میں سے غیر منقوط کتنا مشکل عمل ہے توجہ طلب یہ مشکل ہے۔کلیات

:مالحظہ فرمائیں شعر کم ہو کا دلدر اور دکہہ کا عالم

کرور درود کا مسلم ہر دم

رکہہ آس سدا کہا کر انشاء ہللا

۶۸۸اللہم ارحم ارحم ارحم ارحم

:کا نمونہغزل ایک ڈھب کے جو قوافی ہیں ہم ان میں

انشاء

غزل اور بھی چاہیں تو سنا سکتے ہیں اک

۶۸۹

کا کام بھی شروع کیا تھا او ‘‘ قرآن کریم کی تفسیر’’سید انشاء ہللا خان نے

راس میں جدت یہ پیدا کی تھی کہ وہ بے نقط تھی کم و بیش چار پاروں کا ترجمہ اور تفسیر وہ مکمل کر چکے تھے۔ لیکن باقی کام کی تکمیل نہ ہو سکی۔ بہر حال

۶۹۰قرآن پاک سے رغبت بھی ان کے دینی جذبے کا اظہار ہے۔

Page 103: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

103

فارسی زبان میں لکھی گئی ہے لیکن اس میں اردو ‘‘دریائے لطافت’’

)ہندی (کے جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں اور آپ ان کی وضاحت کرنا چاہتے تھے۔ ان کے اوپر لکیر کھینچ کر ظاہر کیا گیا ہے۔ جیسے

م کہ بہ پرانا شہر مشہوراست۔ ادھر راکہ بمعنی ایں وصاحبان شہر قدی’’

طرف مشہور است۔ ایدھر وکدھر راکیدھر و ادھر را اودھر باعالن

واؤگویندو دھیرا برروزن مینا بمعنی متوقف و پرو تھا۔ بضمہ با فارسی و

فتحہ را بجائے پراٹھا کہ قسمی است از نان در ہندو اور باواؤ مجہول

۶۹۱‘‘بجائے بھچک بمعنی حیران۔ بمعنی طرف و بھیچک

رانی کیتکی کی خاصیت کی طرف اوپراشارہ کر دیا گیا ہے ۔اسے ذہن میں

:رکھتے ہوئے نمونۂ تحریر مالحظہ ہومہا کٹھن ہم بپتا ماروں کو پڑی ہے۔راجہ سورج بھان کو اب یہاں تک ’’

بھاو بھک نے لیا ہے۔ جوا نھوں نے ہم سے مہاراجوں سے ناتے کا ڈول

یا ہے۔ کیالس پہاڑاکڈال چاندی کا ہے۔ اس پر راجہ جگت پرکاس کا گرو ک

۶۹۲‘‘ جس کو اندر لوک کے لوگ سب مہندر گر کہتے تھے۔

ء( میں سر ہند میں پیدا ہوا۔لیکن ۱۷۵۷ھ )۱۱۷۰سعادت یار خان رنگین

۶۹۳تربیت دلی میں ہوئی۔ والد کا نام ذاکر سے بدل کر طہماس رکھ دیا گیا تھا۔ھ لکھا ہے۔ جوشاید غلطی سے ہو گیا ۱۲۱۱شجاعت سندیلوی نے سال والدت

ء ہے اسی طرح رنگین کے والد کا نام طہماسپ ۱۷۵۷ہے۔ کیونکہ سن عیسوی

۶۹۴بیگ لکھا ہے۔ رنگین چند سال مرشد آباد و ڈھاکہ وغیرہ میں گزارکر گوالیار کے ’’

کا خطاب اور فوجی پلٹن کی خاندھو جی سندھیا کے مالزم ہو گئے۔ نواب

۶۹۵‘‘ کمان ان کے سپرد ہوئی۔

سعادت علی خان رنگین چونکہ سپاہی پیشہ تھے جنگ میں عملی حصہ لیا فرس نامہ میں ان معلومات کا ذخیرہ موجود ہے۔ ڈاکٹر نو رالحسن ہاشمی انھیں

تھی ترکی ان کی مادری زبان حیدر آباد کی فوج میں افسر توپ خانہ لکھتے ہیں

اس میں ایک لغت بھی لکھ ڈالی اس کے عالوہ فارسی ،عربی ، پنجابی، پشتو انھیں عالمہ ۶۹۶‘‘ ،مرہٹی ،ہندی اور برج پر عالمانہ قدرت رکھتے تھے۔

کہلوانے کا بھی شوق تھا اور کثیر اللسان ہونے کے باعث فخر کرتے تھے اور اس دعوی کے ثبوت میں تین دلیلیں پیش کرتے تھے۔

شکلوں میں کسی دوسرے شاعر نے ۲۷ایک تو یہ کہ اصناف سخن کی ’’

بہ افراط شعر گوئی نہیں کی۔ دوسرے یہ کہ امیر خسرو کے عالوہ کسی شاعر نے پانچ یا چھ زبانوں میں شعر نہیں کہے لیکن مجموعۂ رنگین میں سترہ زبانوں

نے سات بحروں میں شعر ملتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ سوائے موالنا جامی کے کسی

میں مثنوی نہیں کہی۔ رنگین نے گیارہ بحروں میں مثنویاں لکھی ہیں۔ ان تین وجوہ ۶۹۷‘‘کی بنا پر رنگین کو ان کے بقول تمام شعراء پر فوقیت حاصل ہے۔

Page 104: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

104

رنگین کی طبیعت میں چونکہ جدت کا مادہ تھا۔ اس کا اظہار انھوں نے

میں کیا۔ آپ کی تصانیف میں سے اکثر تصانیف ۳۲اپنی اکیاسی سالہ زندگی میں ا آفس کے کتب خانے میں کتابیں ان کے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی لندن میں انڈی

۶۹۸۔ موجود ہیں

گیا ہ کیاشش ماہی فن او رشخصیت کے کوائف نمبر میں تین کتابیں مزید اضافگین رن۔تصانیف بن جاتی پینتیسجنھیں شامل کرنے کے بعد ہے۔ ۶۹۹ ہے۔

۷۰۰‘‘ء میں لکھنؤ میں وفات پائی ۔۱۸۳۵ھ/۱۲۵۱نے اس ستم گر سے ہمارے جو کسی نے

پوچھا

کوئی رنگین ترے کوچے میں میاں رہتا

۷۰۱ہے

اٹھتے ہی صبح کو اڑ جاتی ہے رنگین کے

پاس

کہیو سب حال مرا میں ترے واری انا

۷۰۲

گورگانی: میرزا ظہیر الدین علی بخت عرف میرزا ئے کالں اظفری

ء( میں قلعہ ۱۷۶۰ء یا ۱۷۵۸۔۹ )۷۰۴،ھ۱۱۷۴ یا ۷۰۳ ،ھ۱۱۷۲اظفری

مبارک دہلی میں سلطان محمد ولی کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ نے عربی ،فارسی ،اردو، ترکی زبانوں میں مہارت حاصل کی۔ جب کہ انگریزی میں بھی شد بد پائی

ونکہ مغلیہ شہزادے تھے۔ اسی نسبت سے منصب سات ہزاری آپ کو ۔ آپ چ

حاصل تھا۔ آخر کار مدارس پہنچے اور مستقل سکونت اختیار کی۔ جہاں ء میں وفات پائی۔ آپ کی تصانیف تمام سیکھی ہوئی زبانوں ۱۸۱۸۔۱۹ھ/۱۲۳۴

۷۰۵جن کی تعداد پندرہ بتائی گئی۔ میں ملتی ہیں ۔ غمی ترک عالئق ہی سنا اظفریا بے

جس کو دنیا سے عالقہ نہیں غمناک نہیں

۷۰۶

میر علی نقی جو کافر تخلص کرتا تھا وہ بھی چند ایک تذکروں میں سامنے آتا ہے۔ میر تقی میر نے اسے سید اور سپاہی پیشہ لکھا ہے وہ مزید لکھتے ہیں کہ

ٹپکہ کا نام دیتا ہے۔ چنانچہ اکثر جس شعر میں تخلص آجاتا ہے اس کو کافر ’’

نوں ایک کافر ڑھتا ہے تو کہتا ہے کہ صاحب ان داوقات مجلس شعر میں جب پ : میر حسن لکھتے ہیں کہ ۷۰۷ٹپکہ موزوں ہو گیا ہے۔

اول فارسی مے گفت تسکین تخلص می کرد، باز براں ہم تسکین نیافت ’’

جہ سرا نوکر شد ریختہ جنوں تخلص کرد، چوں در خدمت جاوید خان خوا

۷۰۸‘‘ گفتن آغاز کرد۔

حسرت سے ان بتوں کے دل پر کدورتیں

ہیں

مٹی کی مورتیں ہیں کافر یہ صورتیں ہیں

Page 105: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

105

۷۰۹

بتوں کے تئیں اس قدر مانتا ہے

۷۱۰یہ کافر مرا جی خدا جانتا ہے

مسی لگا کے الل کیا منہ کو کوسیں

۷۱۱م کیا کافراں سیں ظالم نے قتل عا

شیخ طالب علی طلب سامانہ کے رہنے والے تھے۔ نواب ذوالفقار الدولہ

نجف خان کے عہدے میں میرٹھ آئے اور لشکر میں شامل ہو گئے۔ آپ فوج میں

سواروں ۔)رسالہ (کے محکمہ میں مالزم تھے۔ اور جمعدار تھے۔ آپ ہندی )اردو( ۷۱۲ی سے اصالح لیتے تھے۔ میں شعر کہتے تھے اور عشق میرٹھ

اس سے شیخ طالب کے عہد کا پتہ چلتا ہے کہ عشق و مبتال میرٹھی کے دور میں

اس سے طلب کے دور ۷۱۳ء میں وفات پائی۔ ۱۸۲۶ہوئے۔ عشق نے اپریل سی اور اردو میں شعر حیات کو پرکھا جا سکتا ہے۔ شیخ طالب علی طلب فار

کہتے تھے۔ ایک ابرو کے اشارے میں ہو سو کشتوں

کا ڈھیر

جس گھڑی تیغہ کو اپنی یار تو بنکا کرے

۷۱۴

میر صادق علی صادق شاہ عالم بہادر کے دور میں ہوئے۔ شاہ کے فوجدار خان کا

تھا۔ اور مرزامحمد سلیمان شکوہ کے خو د بھی نہایت سعادت مند ۷۱۵بیٹا تھا۔ یوں کی فوجداری آپ کے ذمہ تھی۔ جو ایک فوجی اعلی عہدہ تھا۔ کبھی کبھی ہاتھ

ریختہ اردو میں شعر کہتا تھا اور میر انشاء ہللا خان انشاء سے شرف تلمذ تھا۔

صادق اے جگر مرا جو دیکھے کوئی ۷۱۶تیری بیداد کے ہے صاف سری کا نقشہ

کے سب (K.P.K)کوہاٹ بلکہ صوبہ سرحد قاسم خان آفریدی نہ صرف

نے آپ کاسن ۷۱۷فارغ بخاری۔سے پہلے مسلم الثبوت صاحب دیوان شاعر ہیں نے اس پر صاد کہا ہے۔ تاج ۷۱۸ء جب کہ محبت خان بنگش ۱۷۶۳والدت

ء( تحریر کیا ۱۷۶۹ھ )۱۱۸۳ نے تاریخ والدت ۷۲۰ اور احمد پراچہ۷۱۹سعید

درج ذیل ہیں۔ تصانیفہے )۔ خواب نامہ)پشتو۲۔ دیوان آفریدی)پشتو( ۱

)۔ آفریدی نامہ)لغت۴ (۔ دیوان آفریدی)اردو۳

۷۲۱۔ رسالہ آفریدی )فارسی (۶ (۔ شفاعت آفریدی)اردو۵اس میں لکھا ہے کہ لکھا ہے۔ ۷۲۲آخر الذکر خیال بخاری نے رسالہ آفرینی

ان ، آفریدی قبیلے کی بہر حال قاسم علی خ۷۲۳ھ ہے ۱۱۸۳آفریدی کی پیدائش

آدم خیل شاخ کا فرد تھا۔ اس کے والد برہان خان درہ کوہاٹ)غیر عالقہ( کے آخور گاؤں کے مالک تھے۔ لیکن عمر کا بیشتر حصہ شاہ جہاں آباد دہلی میں گزارا۔

Page 106: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

106

خیال بخاری نے والد کے بجائے دادا الف خان کا ذکر عالقہ چھوڑنے کے ۷۲۴

۷۲۵حوالے سے کیا۔ م وادب کے ساتھ ساتھ علی نے اپنے آباؤ اجداد کی طرح سپاہیانہ فنون عل

میں بھی مہارت حاصل کی اور بعد میں اپنی روزی کمانے کے لیے ایک

سپاہی کی زندگی اختیار کی۔ اور اسے اپنا شہر چھوڑ کر دوسرے شہروں

۷۲۶‘‘خصوصا دکن میں جا کر اپنی تلوار کے جوہر دکھانے پڑے۔

ی خان آفریدی ،پشتو، عربی ، فارسی ،ترکی اور اردو کے عالوہ قاسم عل ۔ نے میں تامل ہوتا ہےانگریزی بھی جانتے تھے۔ انھیں اردو کا پہال شاعر مان

۷۲۷ آفریدی کو میسر جو ہوئی وصلت یار

کھینچ کر اوسکو بغل میں وہ بہت سا رویا

۷۲۸

پشتو اور ہند کو کی مشہورو مقبول صنف سخن، چا قاسم علی خان آفریدی نے

اردو زبان میں ربیتہ کی تکنیک پر اردو چار بیتے بھی کہے ہیں اور یہ غالبا کہے گئے ابتدائی چار بیتے ہیں۔ ان کا یہ چار بیتہ مالحظہ فرمائیے۔

روٹھا ہے یار تجھ سے اے دل اسے منالےشاید تری خطا ہے الئق تجھے وفا ہے تجھ سے اگر خفا ہے

جا کر گلے لگا لے

اس کی گلی میں جانا کہنا یہی فسانہ میں تجھ پہ ہوں دوانہ مرتا ہوں جلد آلے

دل دے چکا ہوں پیارے آجا تو گھر ہمارے عاشق ہیں ہم

تمہارے چاہے ہنسا، راللےقاسم علی فدا ہے تجھ حسن کا گدا ہے اس کی یہی صدا ہے

۷۲۹ھے بال لےمل جا، مج

( 730)ھ۱۱۷۷اللہ چندوالل شاداں: آپ نرائن داس کے فرزند تھے۔ ء( وغیرہ میں برہان پور میں پیدا ہوئے۔ ۱۷۶۵ )۷۳۳ھ۱۱۸۹( 731)ھ۱۱۷۵

ھ میں بعہمد ۱۲۳۵آصف جاہ ثالث کے دور میں آپ مدار المہام بنا ئے گئے۔

ہزاری منصب و ہفت ھ میں ہفت ۱۲۳۷سکندر جاہ مہاراجہ بہادر کا خطاب اور ھ میں ۱۲۴۵ہزار سوارو پیادہ ونوبت اور کئی دیگر اعزازات سے نوازے گئے۔

ناصر الدولہ کے عہد میں راجایان مہاراجہ راجہ چند و لعل بہادر کے خطاب سے

سال تک مدار المہامی ۱۴ آپ مختلف خدمات کے بعد ۷۳۴سر فرا ز ہوئے۔ ار المہامی سے مستعفی ہوئے۔ اور ھ میں مد۱۲۶۰حیدر آباد پر فائز رہے۔

۷۳۵ء( میں آنجہانی ہو گئے۔۱۸۴۵ھ )۱۲۶۱ نور تھا یا شعلہ تھا یا برق یا خورشید تھا

کچھ تو اے موسی کہو کیا تھا وہ جلوہ طور

۷۳۶کا

Page 107: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

107

مثل خورشید کے چھایا تھا اسی کا جلوہ

کوئی جا ایسی نہیں تھی کہ وہ مشہور نہ

۷۳۷ا تھ

مرزا جان طپش کااصل نام مرزا محمد اسماعیل عرف مرزا جان اور طپش

تخلص ہے۔ آپ کے آباؤ اجدادبخارے کے رہنے والے تھے۔ آپ کے والد مرزا

یوسف بیگ سپاہی پیشہ تھے اور بخارا سے آکر برصغیر میں آباد ہوئے۔ تذکرہ ۷۳۸ر یر کی ہے۔ ء ( دہلی مقام تح۱۷۶۷ھ)۱۱۸۲نگاروں نے طپش کی پیدائش

اگرچہ زیادہ تر تذکرہ نگار اس بات پر متفق ہیں لیکن پروفیسر یوسف تقی نے

ء کو قرین قیاس قرار دیا ہے۔ اورا سی ۱۷۴۳۔۴عبیدہ بیگم کی مدلل تحقیق یعنی طرح وفات کے بارے میں بھی اپنا نظریہ یوں پیش کیا ہے۔

ء بتا یا ہے۔ اسپرنگر نے ۱۸۱۷قاضی عبدالودود نے ان کی وفات کا سال "

ء کو زیادہ قرین قیاس بتایا ہے ۱۸۱۶ء لکھا ہے۔ عبیدہ بیگم نے ۱۸۱۶

ء میں طپش کا کلکتے سے عظیم آباد جانا اور وہاں سے ۱۸۱۳۔۱۴کیونکہ

۷۳۹‘‘ بنارس جانے کے شواہد بھی ملے ہیں۔

ج میں طپش کا آبائی پیشہ سپہ گری تھا چنانچہ وہ بھی مرزا جہاندار شاہ کی فو

ء میں بنارس پہنچے ۱۷۸۳مالزم ہو گئے۔ اس کے ساتھ دہلی سے لکھنؤ اور پھر ۔ اس کی وفات پر یہ مالزمت ترک کر دی اور بنگال جب کہ بعد ازاں مرشد آباد

۷۴۰پہنچ کر نواب شمس الدولہ کی سرکار میں مالزم ہو گئے۔

تذکرہ نگا ر طپش جب فوج میں تھے تو آپ کس عہدے پر تھے اس کا ذکر کسی کے ہاں نہیں ملتا۔ ایک ،آدھ تذکرہ نگار نے سہ ہزاری ا ور پنصدی لکھا ہے یا

غزلیات طپش کے مرتب نے افسری کی مالزمت نقل کیا ہے۔ جب کہ اس وقت

طپش کی وفات کے ۷۴۱سال کی عمر لکھ کر شک پید اکر دیا ہے۔ ۱۶/۱۷ے عالوہ کئی اور حوالے حوالے سے قاضی عبدالودود کے مندرجہ باال حوالے ک

:بھی ملتے ہیں۔ ڈاکٹر کلثوم ابو البشر رقم طراز ہیںطپش کے سرپر ست شمس الدولہ کو جب انگریزوں نے قید کیا تو ان ’’

کی رفاقت میں انھیں بھی کلکتے کے فورٹ ولیم کالج میں اسیر کیا گیا ۔

ھ میں رہائی ملی۔ مگر ڈھاکہ آنے کے۱۲۲۱ء /۱۸۰۶وہاں سے ان کو

شعبان بجائے انھوں نے زندگی کے باقی ایام کلکتے میں گزارے ۔غالبا

۷۴۲‘‘ ء ( کے کچھ عرصے بعد وہیں ان کا انتقال ہوا۔۱۸۱۳) ۱۲۲۹

ڈاکٹر ۷۴۳ء میں کلکتہ میں وفات پائی۔ ۱۸۲۰ڈاکٹر وفا راشد ی کے مطابق

ن و ء تحریر کیا ہے۔ طپش نے اردو زبا۱۸۱۴محمود الرحمان نے وفات کا سن ادب کے حوالے سے مصطلحات کا جو کام کیا ہے۔ اپنی مثال آپ ہی نہیں بلکہ

مشرقی بنگال )ڈھاکہ( میں اردو زبان کی پہلی کتاب اسے گردانا گیا ہے۔ مشرقی

بنگال میں اردو کے مصنف نے اردو محاورات اور روزمرہ پر اپنی قسم کی پہلی نے مضمون آفرینی و نازک ریختہ اردو غزل میں طپش ۷۴۵کتاب لکھا ہے۔

بیان کو فوقیت دی ہے۔ خیالی پر فصاحت

Page 108: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

108

للہ الحمد اٹھ گئے پردے تعین کے طپش

دیدۂ بینا میں جو کثرت تھی وحدت ہو گئی

۷۴۶

پردازی عنبر شاہ خان آشفتہ قوم افغان ساکن رام پور ،علم فارسی خصوصا انشاء

فارسی میں عنبر اور اردو میں آشفتہ میں مہارت ،فارسی اور اردو کے شاعر ،

تخلص کرتے تھے۔ آپ کے والد کا نام عزت خان معروف بہ صورت خان تھا۔آپ کے دادا پشاور سے شاہ آباد میں آکر اقامت پذیر ہوئے تھے۔ عنبر شاہ کی والدت

عتیق جیالنی سالک نے امیر کے ہوئی۔ ؎ ۷۴۷ ء( میں ۱۷۶۷۔۶۸ھ )۱۱۸۳آنولہ

ء( وفات کاسن اور مقام مراد آباد نقل کیا ہے۔ ۱۸۲۱۔۲۲ھ )۱۲۳۷حوالے سے جب مخلص الدولہ ناصر الملک بچپن محنت مزدوری میں گزارا آپ نے۷۴۸

حاجی نواب غالم محمد خان بہادر کا دور آیا۔ اور نواب نے کثرت سے نئی فوج

ی ہو گئے اور جمعدار عہدہ پایا۔ جنگ کے بعد آپ بھرتی کی تو آشفتہ بھی بھرت نے وقائع نگاری اختیار کر لی۔

آشفتہ اس کی تندئی خو سے شب وصال

۷۴۹ رہا مدعا مرا میں جی ناگفتہ اپنے حسن علی عزت کے بارے صرف اتنا علم ہو سکا کہ آپ ٹیپو سلطان کی

دوران نہ صرف عملی بلکہ مشاہداتی حصہ بھی فوج کا حصہ تھے اور جنگ کے

اضراب ’’لیا۔ آپ نے نظم میں ٹیپو سلطان کی تاریخ لکھی۔ اس مثنوی کا نام تھا۔ جس میں نظام علی خان اور مرہٹہ وغیرہ سے لڑائی کے مناظر کو ‘‘ سلطانی

نظم کیا گیا ہے پٹن بیچ پہنچی ہے جب یہ خبر

اندھے ہیں رانداں کمرکہ لڑنے کو ب

دیکھے اس کا احوال سب مشرکاں

۴۵۰پکارے ہو بے تاب سب االماں

۷۵۱شیخ حفیظ الدین حفیظ کا قصبہ ادہونی جو حیدر آبا دکے مضافات

ایک بات مجھے سمجھ نہیں آئی کہ حاشیہ میں افسر امروہوی نے خوش میں ہے ھا ہے کہ سعادت ناصر کا حوالہ دیتے ہوئے لک ۵۳۳معرکہ زیبا کے صفحہ

جب کہ سعادت خان ۷۵۳ نے باشندہ رائے بریلی تحریر کی ہے۔ ۷۵۲خانناصر کے تذکرہ خوش معرکہ زیبا میں حفیظ کا ذکر کہیں بھی موجود نہیں چہ

اور پھر اسی حوالے سے عالمہ ڈاکٹر سیدضمیر اختر ۵۳۳جائے کہ صفحہ نمبر

کیا ۔ لیکن اصل تحریر کو دیکھنے کی میں استفادہ۷۵۴نقوی نے دبستان ناسخ زحمت نہیں کی۔ افسر نے شیخ حفیظ کا ابتدا میں عسکری مالزمت کا لکھا ہے۔

دکن جانے کے بعد حفیظ مہاراجہ چند والل شاداں کے ساتھ منسلک ہو گئے اور

اس سے پہلے اورنگ آباد میں راجہ مہپت رام کے ساتھ کچھ عرصہ رہے۔ حفیظ

Page 109: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

109

حفیظ نے مرثیہ میں اپنا نام ۷۵۵ء( میں وفات پائی۔۱۸۳۱۔۳۲ھ )۱۲۴۷نے

کمایا۔ لیکن غزل میں بھی خود کو پیچھے نہیں رہنے دیا ناوک غیر خطا ہے نظر تیز اس کی

۷۵۶ہدف تیر قضا ہو گیا جس کو تاکا

نظر آتے ہیں الکھ پر بھاری

۷۵۷جب تلک اتفاق ہے دس میں

میر کرم علی خان المتخلص کرم میر صوبیدار خان شہید کے فرزند تھے۔ لیکن ۷۵۸ھ تحریر کیا ہے۔ ۱۱۸۷ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے سن والدت

سوالیہ نشان دے کر اسے مشکوک بنادیا جب کہ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ

۱۹گویا ھ میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے عالوہ کالم پاک بھی حفظ کیا۔ ۱۲۰۶ء( ۱۸۱۲ھ)۱۲۲۷سال کی عمر میں تعلیم کے حصول سے فارغ ہو گئے جب کہ

سرکار عظمت مدار ’’میں اپنے بڑے بھائی میر غالم علی خان کی وفات پر

ڈاکٹر بنی بخش بلوچ لکھتے ہیں ۷۵۹کے لقب سے سندھ کے حکمران بنے۔ ‘‘ : کہ

ھ فوت شدو مدفن او باغ ۱۲۴۴جمادی الثانی ۲بعد حکمرانی ہفدہ سال بتاریخ ’’

ارم ،وبادا بہتش بارگاہ ،شاعر قادر الکالم سخن سنج و سخنور بود ۔۔۔۔نسخہ دیوان ھ در کتب خانہ عالیہ تالپور امیران حیدر آباد محفوظ است۔ ۱۲۴۵کرم تاریخ کتابت

میر کرم علی خان ،بیاض جنگ اشعار، مجمواعہ دلکشا را مرتب کرد کہ دارای

د ،غزلیات، مفردات، رباعیات، مقطعات و ساقی نا مجات انتخاب قصائ ۷۶۰‘‘است۔

میر کرم خان شعرا اور اہل علم و فضل کا قدر دان تھا۔ اس کے دربار سے بہت

سے شعرا اہل علم و فضل وابستہ تھے۔ اس کی علمی و ادبی سر پرستی کی وجہ ان کے کالم ۷۶۱سے اس کے دور میں شعر و ادب ، علم و فضل کو فروغ مال۔

کا انتخاب ،انتخاب ال جواب کے نام سے آخوند محمد بچل انور نے مرتب کیا۔سرو کو باغ میں دیکھا جو کہیں ہم نے

کرم

۷۶۲یاد مجھ کو وہیں وہ سرو خراماں آیا

میر مراد علی خان مراد میر صوبیدار خان شہید کے سب سے چھوٹے ء ۱۸۲۸ھ/۱۲۴۴و اپنے بھائی میر کرم علی خان کی وفات کے بعد بیٹے تھے ج

آپ ۷۶۳کے لقب سے سندھ کے حکمران ہوئے۔ ‘سرکار جہاں مدار ’ میں

ء( میں پیدا ہوئے۔ آپ کی تعلیم و تربیت شاہانہ ماحول میں ہوئی۔ ۱۷۷۴ھ )۱۱۸۸ دربار میں علماو فضالء کی قدردانی سے آپ نے بہت کچھ سیکھا اور خود بھی

شعر و ادب کی طرف مائل ہوئے۔ آپ نے علی اور مراد تخلص کیے۔ وہ نہایت

سخن سنج ،سخن شناس اور صاحب علم و فضل انسان تھے۔ علماء ،دانشوروں اور جمادی الثانی ۶ آپ نے ۷۶۴ادیبوں کی نہایت قدر افزائی کرتے تھے۔

Page 110: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

110

محک ’ ’اور‘‘دیوان علی ’’ آپ نے ۷۶۵ء( میں وفات پائی۔ ۱۸۳۳ھ)۱۲۴۹

نیز فارسی میں ہی طب مراد نگارشات یادگار چھوڑیں۔‘‘خسروی ہے عرض علی کا تری سرکار میں مولی

۷۶۶دکھالؤ مجھے جلد ہی دیدار صنم کا

دین درویش آپ کا تعلق گجرات کی ریاست پالن پور کے کسی گاؤں سے

ہار تھے۔ انگریزی فوج میں بھرتی تھا۔ آپ مسلمان اور پیشے کے لحاظ سے لو

ہوئے تو آپ کو ٹریڈ بھی مستریوں واال دیا گیا ۔کسی لڑائی میں دشمن کے گولے سے ان کا ایک ہاتھ کٹ گیا۔ جس کے باعث مالزمت سے بر طرف کر دیے گئے

نامی ایک کتاب کنڈلیا چھند میں تصنیف کی تھی۔ جب بوڑھے ہو ‘‘دین پرکاش ’’

ء کے قریب گزرے ہیں۔۱۸۱۸ے گئے تو کاشی چلے گئ

:کنڈلیا بندہ جانے میں کروں کرن ہار کرتار

تیرا کہا نہ ہوئے گا ہو گا ہوون ہار

ہو گا ہوون ہار بوجھ نریوں ہی اٹھاویں

جیوں بدھ لکھیو رالٹ پرتکھ پھل تیسا

پاویں

کہے دین درویش حکم سے پان ہلندہ

۷۶۷کرن ہار کرتار کیا تو کر ہے بندہ

بہادر شاہ ظفر: ابو ظفر سراج الدین محمد بہادر شاہ ثانی ولد اکبر شاہ ثانی

ء کی جنگ ۱۸۵۷اگرچہ عام حاالت میں وظیفہ خوار ہی دکھائی دیتے ہیں لیکن

آزادی میں وہ سپریم کمانڈر کی حیثیت سے اپنے محل سے ہی خطوط کے ذریعے رتے رہے اور ہدایات دیتے رہے۔ آپ کے وہ خطوط بعد میں احکام جاری ک

پکڑے گئے۔ اور آپ کے خالف ثبوت میں پیش کیے گئے۔ جس بنا پر آپ کو سزا

ء کو مرزا مغل کو خط لکھا جس پر کمانڈنگ چیف کی ۱۸۵۷اگست ۲۹ملی مثال : حیثیت سے مہر لگائی۔ لکھتے ہیں کہ

دیسی پیدل۔ ۳۶بنام افسران )والنیٹر( اور بلمٹیر رجمنٹ نمبر ’’

معلوم کرنا چاہیے کہ میں نے سب سے حتی کہ خود اپنی زندگی سے بھی

بیزار ہونے کے باوجود حتی المقدور سپاہیوں کی دلجوئی کو مد نظر رکھا

ہے۔ میں انھیں اپنے بچوں کی طرح سمجھتا ہوں اور اسی لیے میں نے ان

ام ضدوں اور خواہشوں کو پورا کیا ہے۔۔۔۔ اگر دشمن انھیں بہکاتے کی تم

ہوں تو کہو کہ ان کے فریب میں نہ آنا۔۔۔۔ اللھم ارحم ،موجودہ نازک حالت

۷۶۸‘‘اور بے چینی بتائید یزدانی فی الفور ختم ہو جائے گی۔

اس طرح کے اور کئی خطو ط جو میدان کے ساالروں ،مرزا مغل یا

کھے گئے آپ کے کمانڈر انچیف ہونے کا حوالہ ہیں۔ بہادر شاہ ظفر نوابوں کو ل

ء(بروز شنبہ قلعہ دہلی میں پیدا ہوئے۔ والد کی وفات ۱۷۷۵ھ )۱۱۸۹شعبان ۲۸ ۲۰ء کو سر پر تاج رکھا۔ ۱۸۳۷ستمبر ۳۰ھ/۱۲۵۲جمادی الثانی ۲۹کے بعد

گئے ء کو معزول کیے گئے اور دہلی سے برما جال وطن کر دیے۱۸۵۷ستمبر

Page 111: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

111

ھ بروز جمعہ ۱۲۷۹جمادی االول ۱۴ء مطابق ۱۸۶۲نومبر ۷جہاں رنگوں میں

۷۶۹وفات پائی۔ ء کی جہاد آزادی کی داستان میں بہادر شاہ ظفر کی حیثیت ایک ۱۸۵۷

ری نام لیوا خمیرٹھ کی باغی فوج نے مغلوں کے آمرکزی کردار کی ہو گئی تھی

کے سر پر برائے نام بادشاہت کا وہ اور دہلی کے برائے نام اور بوڑھے بادشاہ ۷۷۰تاج رکھ دیا جو کبھی اس کے آباؤ اجداد کے فرق کی زینت ہوا کرتا تھا۔

شعر گوئی میں بہت دخل تھا چنانچہ اس کے اکثر اشعار ہندوستان میں ’’

ہر ایک آدمی کی زبان پر جاری ہیں۔ محفل رقص و سرور میں اس کی

ں اور محل و جد صوفیا میں اس کے شعر پر غزلیں اکثر گائی جاتی ہی

رقت آتی ہے۔ چنانچہ چھ دیوان اس کے مشہورو معروف ہیں۔ اس بادشاہ

کی تمام عمر کتب تصوف کے مطالعہ اور اشعار گوئی میں صرف

۷۷۱‘‘ہوئی۔

ستم کرتا ہے بے مہری سے کیا کیا آسماں

پیہم

اور چشم دل اس کے ہاتھ سے پردرد ہے

ہے پر نم

کروں گا پر نہ شکوہ گرچہ ہوں گے الکھ

غم پر غم

کہے جاؤں گا میں ہردم یہی جب تک ہے

۷۷۲دم میں دم

کرم خان رامپوری:کرم خان نام اور کرم ہی تخلص تھا۔ مہاراجہ ہلکر کی

ان کی پلٹن کے ایک افسر میجر شیخ نہال سے ان کی ان بن میں سپاہی تھے۔ فوج رہتی تھی۔ جب مجبور ہوئے تو ہجو کہہ کر دل کا غبار نکاال۔

کرم خان کی تعینانی ایک مقام کوٹہ میں کر دی جاتی ہے۔ وہاں کا پانی

آیاتو اس حوالے سے ایک نظم لکھ دی۔ اسے راس نہیںی کے اثرات ضیق النفس کی شکل میں نمودار ہوئے تو کوٹے کے پان

مالزمت ترک کر کے رام پور واپس آگئے اور دو سال بیمارہ رکر

ء( کو وفات پا گئے۔ آپ نے اردو اور فارسی ہر دو زبانوں میں ۱۸۳۷ھ)۱۲۵۳ لکھا۔

آنکھیں ذرا اٹھائیو ایدھر کو اے کرم

ا میں وہاں نہ شب جس جگہ کو آپ تھے کی

۷۷۳تھا

موالنا محمد اسماعیل شہید: مجھے آپ کو جیش الہی یا جیش محمد ی کا

پر اعتراض کر سکتے سپاہی کہنے یا جنرل کہنے میں کوئی عار نہیں ۔ناقدین اس

سکھوں کے خالف جس طرح جنگوں میں حصہ لیا اس بنا پر میں ےہیں لیکن آپ نآپ سپاہی نہیں تھے ۔آپ شاہ عبدالغنی کے یہ کہنے کی ہمت نہیں کر سکتا کہ

ء( کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ تعلیم ۱۷۷۹ھ)۱۱۹۳ربیع الثانی ۱۲بیٹے تھے ۔ آپ

Page 112: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

112

کے حصول کے بعد سپاہیانہ عظمت کا اظہار اس سے ہوا کہ انیسویں صدی کی

تحریک جہاد میں جو سید احمد شہید کی قیادت میں شروع ہوئی تھی اس کے روح طائفہ قدسیہ نے برصغیر پاک و ہند میں احیائے اسالم کے لیے رواں تھے۔ اس

ذی ۲۴ء /۱۸۳۱مئی ۶تیغ اور قلم کے دونوں محاذوں پر جہاد کیا یہاں تک کہ

ھ کو یہ عظیم جرنیل رنجیت سنگھ کی فوجوں سے جہاد کرتے ہوئے ۱۲۴۶قعد فارسی اور باالکوٹ کے مقام پر شہادت سے ہم کنار ہوا۔شاہ اسماعیل شہید اردو،

عربی کے مصنف اور ادیب تھے۔ بلکہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ آپ ایک عمدہ

شاعرہ بھی تھے

الہی ہزاروں درود اور سالم

تو بھیج ان پر اور ان کی امت پہ عام

۷۷۴

سو سب کی خبر اس کو ہر آن ہے

۷۷۵غرض یارو اس کی بڑی شان ہے

ید نے اردو زبان میں چونکہ نثر بھی تحریر کی ہے۔ اور سید اسماعیل شہ :یہ اس زبان کی بہت بڑی خدمت ہے لہذا نثر میں آپ کا اسلوب مالحظہ ہو

جیسا تو نے اپنے فضل سے ہم کو شرک و توحید کے معنی خوب "

سمجھائے اور ال الہ اال ہللا کا مضمون خوب تعلیم کیا اور مشرک لوگوں

ک مسلمان بنایا اسی طرح اپنے فضل سے بدعت و سے نکال کر موحد پا

کا مضمون خوب تعلیم ملسو هيلع هللا ىلص سنت کے معنی خوب سمجھا اور محمدالرسول

کراور بدعتی بد مذہبیوں میں سے نکال کر سنی پاک متبع سنت کا کر۔آمین

۷۷۶۔یا رب العالمین۔

موالنا عنایت علی صادق پوری عظیم آبادیبھی اسالم کے انہی مجاہدین میں ل تھے۔ جو سکھوں کے خالف جہاد کا حصہ رہے او ر عمال میدان میں داد شام

شجاعت دی۔

موالناعنایت علی عرف منجھے صاحب نے حضرت سید احمد بریلوی کی بیعت کی تھی اور آپ سے خالفت بھی حاصل کی تھی۔ آپ نے سید احمد شہید کے

موالنا عنایت علی ار ۷۷۷۔ د میں حصہ لیا۔ آپ نہایت جری تھےہمراہ عمال جہا ۔دو نظم او رنثر میں طبع آزمائی کرتے تھے

ایک سال ایسا ہوا کہ محرم کا عشرہ اور ہندوؤں کا رتھ جاترا یک ہی دن ’’

پڑا۔ جب بازار میں ڈھپ ڈھپ بجتا اور لوگوں کی بھیڑ چلی آتی دیکھی تو مسلمان ہوئے اور اونچا تعزیہ پرستوں نے سمجھا کہ تعزیہ آتا ہے۔ اسی وقت اٹھ کھڑے

سا لکڑی کا بنا ہوا اورا س پر چنور ہوتا دیکھ دست بستہ ہو کر ادب سے سالم بجا

الئے نزدیک پہنچے تو معلوم ہوا ارتھ جاترا ہے۔ توبہ توبہ کر کے دکان میں غیرت سے گھس آئے۔ اس واسطے کہ جو تعزیہ نہیں پوجتے ٹھٹھا کریں گے اور

کی آواز سن کر ہندوؤں کو دھوکا ہوا وہ سمجھے کبھی ایسا ہوا کہ یہ ڈھپ ڈھپ

Page 113: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

113

کہ ہمارا ٹھاکر چال آتا ہے۔ جب بہت قریب پہنچے تب معلوم ہوا کہ تعزیہ

۷۷۸ہے: "موالنا عنایت علی کی شاعری کا نمونہ

نکالو کھود کے ہندو کی طرح پتھر کا

۷۷۹یہ پائدار نہیں ہوتے کام لکڑی کے

کا نام میر ببر علی تھا۔ ولد مرزاستم علی بیگ سمر قندی یقاصر دہلو

جوان ہونے کے بعد فوج میں ۷۸۰مصحفی و فراق ہللا ثناء ،شاگرد ۂدہلیباشندکے ۱۱۹۵بھرتی ہوگئے۔ اس لیے زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکے۔ آپ کی پیدائش

۷۸۱لگ بھک ہوئی۔

وی کے کالم میں شیخ امام بخش ناسخ کے شاگرد بھی رہے۔ قاصر دہل جاذبیت ہے۔

میں وہ مے کش ہوں مغاں چاہیے چالیس

قدم

ساتھ الشے کے مرے خانۂ خمار چلے

۷۸۲

میر حسن کلیم کے یا ۷۸۳ن کلیم یمحمد میر حس،میاں حاجی تجلی

آپ میر تقی میر کے بھانجے اور شادگر د تھے۔ دہلی آپ کا تھے ۸۷۴بیٹے

چالیس م سکن تھا۔ مصحفی کے تذکرے کی ترتیب کے وقت آپ کی عمر تقریباسال تھی۔ سپاہی گری میں تمام عمر بسرکی بقول ذکاء تجلی کے بعد انھوں نے

ھ میں اختتام پذیر ہوا۔ ۱۲۳۶ مصحفی کا تذکرہ ہندی ۷۸۵حاجی تخلص کیا تھا۔

۷۸۶ ء فرض کیا جا ۱۷۸۲ھ/۱۱۹۶اس لحاظ سے میر حسن تجلی کا سن والدت

: سکتا ہے ۔ جب کہ مصحفی رقم طراز ہیں کہ جو انے است درفن ۷۸۷عرف میاں حاجی ولد میر محمد حسین کلیم ’’

ریختہ بے نظیر و ہمشیر زادہ میر تقی میر، دیوان ضخیم ترتیب دادہ و

عمرش قریب بہ چہل خواہش وں را نیز بنائے خوبی نہادہ ۔ مثنوی لیلی مجن

۷۸۸‘‘وزگار فرقۂ سپاہگری با امتیاز تمام کردہ۔بود ،ر

ہم طرز جنون جب کبھی ایجاد کریں گے

پھر قیس کی محنت کو بھی برباد کریں گے

۷۸۹

فقیر محمد گویا کے بارے میں جوش لکھتے ہیں کہ تہور جنگ حسام الدولہ

آفریدیوں کے ایک قبیلے اور فقیر محمد خان بہادر گویا کے والد محمد بلند خان

ھ ۱۲۳۴اپنے دونوں بیٹوں محمد عوض خان اور فقیر محمد خان کو ساتھ لے کر ۷۹۰میں ہندوستان چلے آئے اور قائم گنج ضلع فرخ آباد میں سکونت اختیار کی۔

اس سے ثابت ہوا کہ فقیر محمد خان کی والدت درہ خیبر کے آفریدی قبائل میں

Page 114: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

114

یا ملیح آباد کو جنم بھومی لکھنے والے غلط ۷۹۱ویا لکھنؤ کہیں ہوئی تھی۔ گ

۷۹۲ء میں پیدا ہوئے۔ ۱۷۸۴لکھتے ہیں۔ آپ فقیر محمد خان گویا کے والد نواب غازی الدین کے دربار تک پہنچے۔

جہاں آپ کو رسالدار کا عہدہ فوج میں دیا گیا۔ او رلکھنوء میں رہائش اختیار کی ۔

ریاست اندور چلے گئے۔ اور مہارا جہ ہلکر کی فوج میں لیکن محمد عوض خانرسالدار ہو گئے۔ انھوں نے بھائی کو بھی بلوا لیا۔ اور اسے بھی رسالدار کا عہدہ

دلوا دیا۔ لیکن کچھ مدت بعد بڑے اعزاز سے لکھنؤ آئے اور غازی الدین حیدر نے

۷۹۳انھیں پچیس ہزار سواروں کا رسالدار بنا دیا گیاقیر محمد گویا کی مادری زبان پشتو تھی۔ لیکن آپ کو فارسی اور اردو زبانوں پر ف

مکمل گرفت تھی۔ آپ کا شعری مجموعہ دیوان گویا اور ترجمہ بستان حکمت نے

۷۹۴ء ( میں وفات پائی۔ ۱۸۵۰ھ)۱۲۶۶کافی شہرت پائی۔ آپ نے بعد ازاں آپ کی ابتدا شاعری سے ہوئی اور ناسخ کی شاگردی اختیار کی۔

وزیر سے اصالح لینے لگے۔ جمع ہوتے ہیں مری تربت پہ آکر شمع رو

اس طرح سے کرتے ہیں گویا چراغاں ہر

۷۹۵برس

رسالہ دار فقیر محمد خان گویا نے بستان حکمت کے نام سے مشہور فارسی کتاب انوارسہیلی کا ترجمہ کیا ہے۔

حمد سپاس اس حکیم ) حاکم( کو زیبا ہے کہ ارادہ ازلیہ سے کارخانہ "

جہاں کو بوسیلہ ذات پاک مظہر کل موجودات مصدر فیض ال ہوتی جمع

مرتب کیا اور سارے ملسو هيلع هللا ىلص صفات جبروتی یعنی فخر جملۂ نسل آدم محمد

ذرات کو عالم اسی آفتاب عالم تاب کے جمال جہاں آرا سے نور

۷۹۶‘‘دیا۔

برق لکھنوی کا نام مرزا محمد رضا اور والد کا نام مرزا کاظم علی صالح ۔ بھگ لکھنؤ میں ہوئی ء کے لگ۱۷۹۰ھ مطابق ۱۲۰۵مجتہد تھا۔ آپ کی پیدائش

امجد علی شاہ کے عہد میں فوج کے بخشی ہوئے۔ واجد علی شاہ کے عہد میں

رسالہ میمنہ شاہی میں پانچ سو سپاہیوں کی رسالہ داری اور تما م فوج کی ۷۹۷آراستگی وغیرہ کی ذمہ داری آپ کے سپرد ہوئی۔

فتح الدولہ بخشی الملک فتح جنگ مرزا محمد رضا برق نے ضعیفی کے علی شاہ کے ساتھ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور پھر باوجود واجد

ء کو انتقال ۱۸۵۷۔اکتوبر ۱۷ھ مطابق ۱۲۷۴صفر ۲۸بیماری کی حالت میں شنبہ

۔ کر گئے۔ اور کلکتہ کے امام باڑۂ مرزا احمد سودا گر میں دفن ہوئے جال کے خاک کیا برق آتش غم نے

ی ڈھیری مزار کے بدلے پڑی ہے راکھ ک

۷۹۸

Page 115: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

اشرف علی خان نام اور خان ہی تخلص تھا آپ کے والد نواب محمدعلی

افغان قوم سے اور وزیر دہلی تھے۔ آباؤاجداد پہلے شاہ جہان آباد اور پھر لکھنؤ سخن ۷۹۹میں سکونت پذیر ہوئے۔ اشر ف علی خان لکھنؤ میں ہی پیدا ہوئے۔

سے تعارف کروایا گیا ہے۔ اشرف علی ۸۰۰لکھنؤ شعراء میں باشندہ دہلی مقیم

خان کے سن پیدائش پر کسی تذکرہ نگار نے بات نہیں کی۔ محمد شمس الحق نے بقول پر اکتفاکیا ہے۔ ۸۰۱اوائل تیرھویں صدی ہجری اور پیشہ سپہ گری ہے

در فن سپہ گری بہ سواری ودر نیزہ بازی مکتبہ روزگار ۔۔۔۔در مشق مصحفی "

)شعر(چہار پنچ سالہ از ہمسران خود گوئے سبقت بردہ۔ حق تعالی زندہ دار دیقین ۸۰۲کہ بے مثل خواہد بود ،عمرش بست و پنج سالہ است

آخر ی عمر میں جرار الدولہ ضیغم الملک نواب ہادی علی خان آشفتہ قائم

ان پر اشر ف علی خان کا کالم دو دیو۸۰۳جنگ کی سرکار سے وابستہ رہے۔ مشتمل ہے۔ دیوان خان اور دفتر گلزار ۔ خان نے غزل ،قصیدہ ،قطعات اور

ھ میں مکمل ہوا۔ گویا ۱۲۵۱رباعیات پر طبع آزمائی کی۔ نسخۂ اولی صفر

ء میں اشرف علی خان زندہ تھے۔ ان کی وفات بعد میں ہوئی۔ عبدالغفور ۱۸۳۵ ۸۰۴ نےانہیں مرحوم لکھا ہے۔ نساخ

زلفوں کی لہر میں جا کے دریا دیکھا

اور چاہ ذقن میں دل کو ڈوبا دیکھا

آفت تھی بال تھی یا شب غم تھی یہ

؎ 805اتھا تماشا دیکھ کہ نہ دیکھا کچھ جو

ء( کے لگ ۱۷۹۹ھ )۱۲۱۴غالم شاہ لغاری بن نواب غالم ہللا خان لغاری

کے ناظم مقرر ہوئے۔ ‘‘جاتی ’’والد کی وفات کے بعد عالقہ دا ہوئے۔ پی بھگ

ء میں میر شہداد خان ۱۸۴۳ء میں انگریزوں کے خالف میدان میں اترے ۱۸۳۸نے انہیں سرچارلیس نیپئیر کے پاس سکھر میں سفیر بنا کر بھیجا۔ تو وہ اس سے

متاثر ہوا۔ لہذا سندھ پر قبضے کے بعد اسے بدستور کا ردار مقرر کیا۔ نواب غالم

ھ کو وفات پائی۔۱۲۷۸ء /۱۸۶۱اپریل ۱۹شاہ نے رنیل ،منتظم ، حکیم ،ادیب ،شاعر اور صوفی نواب غالم شاہ لغاری ایک ج

تھےنواب غالم شاہ سندھی ، پنجابی )سرائیکی (فارسی اور اردو کے شاعر تھے

عشقے ذات دیوانہ ہے، بر ہے ذات مستانہ ہے حسن بن

آوے اگن لگاوے

لوگ ہمن سوں مت مت ملیے، ہم خفتی خفقانہ ہے کرتا

۸۰۶ یاد یگانہ ہے

میر گوہر علی آصف مخاطب بہ مبارز الدولہ بہادر ولد سکندر جاہ مغفور ء ( میں پیدا ہوئے۔ شاہانہ انداز میں تربیت ۱۷۹۹۔۱۸۰۰ھ )۱۲۱۴والئ حیدر آباد

حاصل کی۔ علم و فضل اور سپہ گری میں مہارت کے بعد نوجوانی میں ہی آپ کو

Page 116: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

116

آپ نے اسی دوران ا دیا گیا۔ایک ہزار سواروں کے دستے کا کماندار بن

جنگ میں شکست دی۔ آپ سید احمد بریلوی سے عقیدت میدان انگریزوں کو ۱۹رکھتے تھے اور ان کی تحریک آزادئ وطن کے سر گرم پیرو کار تھے۔

ء ( میں آپ نے وفات پائی اور درگاہ برہنہ شاہ ۱۸۵۴ھ )۱۲۷۰رمضان المبارک

:ھے ۔فارسی میں بھی شغف تھا آپ اردو میں شعر کہتے ت۸۰۷میں دفن ہوئے۔ کنی ہیرے کی کھائی دان کس نے انتظاری

میں

وہ یاں بیٹھا ہوا الماس کا زیور بدلتا ہے

۸۰۸

افصال سے قہار کے ، شمشیر کے بل سے

اس آسی کو مدت سے ہے ارمان ریاست

۸۰۹

ء کی ۱۸۵۷یں جو ء کے بعد پیدا ہونے والے زیادہ تر اہل قلم وہ ہ۱۸۰۰

جنگ کا حصہ بنے۔ انگریزوں کی خدمت یا ان سے نفرت کا پہلو لے کر سامنے آئے۔ نوابوں کی فوج کا حصہ رہے۔ اور جس طرف نواب انھیں لے کر چلے وہ

ادھر ہی چپ راست کرتے ہوئے نکل پڑے لیکن اپنے قلم کی سیاسی اس کے بیگ خاکی سپاہی پیشہ باوجود خشک نہیں ہونے دی۔ ایسے لوگوں میں حیدر

رکھنے والے اہل قلم تھے جو بدخشانی االصل تھے۔ لیکن ان کے بزرگ

عالمگیری دور میں وارد ہند ہوئے۔ اور یہاں آنے کے بعد مغلیہ لشکر میں مالزمت شروع کی۔ خاکی کی والدت برصغیر )ہند (میں ہوئی۔ ضرورت کے

تعداد بھی شامل ہے۔ اور مطابق تعلیم حاصل کی جس میں عربی و فارسی کی اس

: پھر شعر گوئی کا شوق پیداہو گیا۔ صوفی ملکا پوری لکھتے ہیں کہسپاہی پیشہ تھے ہند سے نواب نظام علی خان آصف جاہ ثانی کے زمانہ میں ’’

دکن میں وارد ہوئے۔ محمد وفادار خان دراوغۂ باورچی خانہ کے طفیل سرکار

خدمت میں مالزم ہوئے۔ داروغہ صاحب فیض آباد ،آثار بخشی بیگم صاحبہ کی کے فرمانے سے ملکہ علیم النساء ،بادشاہ زادی مصر کا قصہ جو فارسی میں تھا

۸۱۰‘‘اس کو اردو زبان میں نظم کیا ۔

م النساء سے ھ میں وفات پائی۔ قصہ علی۱۲۵۷حیدر بیگ خاکی نے دوشعر:

تری ذات عالی ہے حیی و قدیم

تیری کرے یاد ہے مستقیمجو

نبی صاحب تخت و تاجملسو هيلع هللا ىلص محمد

۸۱۱رکھا ان کے سر پر شفاعت کا تاج

مرمت خان مرمت ایک ایسے سپاہی تھے جو اپنی ادبی کاوشوں کے

حوالے سے گم نامی کی زندگی گزار گئے۔ حاالنکہ آپ کا زیادہ کالم اردو غزلوں

Page 117: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

117

سید احمد شہید کے کے عالوہ ہندوی انداز کے اردو گیتوں پر مشتمل ہے۔ آپ

ہیں : ۔سید احمد کے ساتھ والہانہ شیفتگی کا اظہار کرتےعقیدت مند تھے سید احمد کے بل بل جاؤں

۸۱۲جن میرا کرگہ پار اتاری

منشی کیول رام ہوشیار قوم کا یستھ سکیسنہ ،سکنہ دہلی اور بیگم شمر و

کی فوج میں بخشی افواج تھے۔ آپ کے والد کا نام سلطان سنگھ تھا۔ ہوشیار نے

رس حاصل کر لی تھی۔ اور اپنے تعلیم کے دوران عربی و فارسی پر بھی دستوقت کے استاد شمار ہوتے تھے۔ فوج کی نوکری آپ نے چھوڑ کر معلمی پیشہ

اختیار کر لیا تھا۔ اس خدمت میں مختلف مقامات پر اور مختلف مراتب پر رہے۔ ان

کے لگ بھگ ۸۰کی علمی استعداد ان کی تصانیف سے ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ آپ شعر بھی کہتے تھے۔ لیکن نثر میں آپ کا کام ہے۔تا ان کی تصانیف کا ذکر مل

زیادہ ہے جو ہر علم اور ہر فن ،مثل طب ،حساب، ہندسہ ، ہیئت ،ماہیت ،عروض

، قافیہ، بدیع، بیان ،معانی ،قواعد، انشاء وغیرہ پر مشتمل ہے۔ او ریہ فارسی اور اردودونوں زبانوں میں ہیں۔

د و عارض نے تیری کر دیا خط و زلف و ق

عاشق

سمن کو سرو کو سنبل کو ریحاں کو مطرا

۸۱۳کو

بانی میر فتح علی خان ٹالپور تھا۔اور اس ھرانے کی حکومت کاٹالپور گ

ء کو ۱۸۰۲ھ/۲۱۷محرم کی درمیانی رات ۱۰اور ۹کا بیٹا میر صوبیدار خان

پیدا ہوا۔ جس کا نام اس والد کی وفات سے دوگھنٹے پہلے حیدر آباد کے قلعہ میںآپ نے جب ہوش ۸۱۴نے اپنے والد کے نام پر میر صوبیدار خان رکھا۔

سنبھاال تو اپنے چچاؤں کو حکومت چالتے ہوئے پایا۔ جس پر ایک دن میر

میر صوبیدار خان کو جس پرصوبیدار خان نے اپنے حصے کا مطالبہ کر دیا ھ حکومت میں شامل کیا۔ لیکن آپکے لقب سے اپنے سات‘‘ حشمت مداررسرکا’’

انگریزی فوج نے قلعہ حیدر ’’انگریزوں کی خوشنودی میں لگ گئے۔ اور جب

ھ ۱۲۶۲رجب ۱۴آباد پر قبضہ کیا تو انھیں بھی گرفتار کر لیا۔ اسی حالت میں میں کلکتہ میں انتقال کیا اور خدا آباد)نزدیک ہالہ حیدر آباد ( کے آبائی قبرستان

۸۱۵‘‘ ے۔میں دفن ہوئ

میر صوبیدار خان کو شعر و ادب سے بہت دلچسپی تھی۔ انھوں نے فارسی تصانیف میں مثنوی فتح نامہ سندھ ،مثنوی سیف الملوک، مثنوی خسرو شیریں ،

مثنوی قصہ ماہ و مشتری ، مثنوی جدائی نامہ، مثنوی وامق و عذرا، مثنوی لیلی

عدد قلعہ میں لوٹ مار کے دوران عدد موجود ہیں۔ جب کہ تین ۲مجنون، دو اویں ۸۱۶لکھی۔ ‘‘ خالصۃ النداوی’گم ہو گئے۔آپ نے علم طب پر بھی ایک کتاب

۔ہتے تھے آپ سندھی اور اردو میں بھی شعر ک

Page 118: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

118

دعوائے محبت سے ہے کانٹوں میں الجھنا

۸۱۷کیوں مدعی بنتا ہے گراں بار محبت

لیمان جاہ نصیر الدین حیدربادشاہ اپنے والد نواب غازی الدین حیدر کے س

ء کو اودھ کے بادشاہ ۱۸۲۸اکتوبر ۱۳ھ/۱۲۴۳ربیع االول ۲۸انتقال پر ء کو لکھنؤ میں پیدا ۱۸۰۳ستمبر ۹ آپ کا نام مرزا علی حیدر تھا۔ آپ ۸۱۸بنے۔

ہو گئے اور سلطنت ہاتھ آتے ہی آ پ عیش و عشرت کی طرف مائل۸۱۹ہوئے۔

۔ فل ہو گئےرفتہ رفتہ جملہ کاروبار ریاست سے غامزاج میں البالی پن تھا۔ تلون مزاجی اور غصہ کا یہ عالم تھا کہ وزرا ’’

اور ہم جلیسوں کی جان ہتھیلی پر رہتی تھی۔ مے نوشی حد اعتدال سے متجاوز ہو

قوت اشتہا زائل کر بالئے جان ہو گئی تھی۔ رفتہ رفتہ قوائے جسمان کمزور اور ء دھنیا مہری نے ۱۸۳۷ھ مطابق ۱۲۵۳ربیع اآلخر ۳ہونے لگی۔ اسی اثنا میں

جو مقرب خاص و ہمراز تھی طمع دنیوی سے بادشاہ کو زہر دے کر کام تمام کر

سال کی عمر پائی ۔ اپنی کربال میں جوگومتی کے اس پار بنائی تھی دفن ۳۵دیا۔ ۸۲۰‘‘ کئے گئے۔

محمد شمس الحق نے بھی اس پر اتفاق کیا ء بنتی ۱۲۵۳ ربیع اآلخر ۳

نصیر الدین حیدر شاعر بھی تھے۔ آپ جاں نثار ، علی حیدر اور ۸۲۱ہے۔ایک کلیات )کلیات نصیر الدین ’’کبھی کبھی بادشہ تخلص استعمال کیا کرتے تھے۔

‘‘ حیدر( بھی آپ سے منسوب ہے)قلمی نسخہ( جو فضولیات سے بھر پڑا ہے۔

۸۲۲ جلوے تمہارے حسن کے نت ہیں ، پہ ہم

کہاں

۸۲۳تو تو سجن ہمیشہ ہو افسوس ہم نہیں

علی حیدر اے شاہ رکھتا ہے یہ عرض

۸۲۴ملے جام کوثر مجھے اس جہاں میں

راجہ نواب علی خان سحر ، وہیب: مقیم الدولہ، قائم جنگ اور جنگ خطاب باد نسال نواب مصاحب علی خان کو منتقل ہوئی چونکہ ان تھے۔ ریاست محمود آ

کی اوالد نہیں تھی سو انہوں نے علی خان کو گود لے لیا۔ جو ان کی وفات کے

بعد ان کی بیوی کی طرف سے ولی عہد قرار پائے اور پھر اپنی محسنہ کی وفات کے بعد ریاست محمود آباد کے راجہ بنے۔

یک دن مورچے میں دشمن کے خالف جنگ امیں ء کی جنگ آزادی ۱۸۵۷

کر رہے تھے کہ شدید زخمی ہوگئے اور اپنی ریاست کے ایک دیہات سال تھی۔ ماہ ۵۴میں جاکر جاں بحق ہوئے۔ اس وقت آپ کی عمر ‘‘ چھتونی’’

ء کو یہ سانحہ پیش آیا۔ آپ ۱۸۵۷اپریل ۲۲ھ مطابق ۱۲۷۴تاریخ ۹رمضان کی

۸۲۵‘‘ ن کیا گیا۔ کو محمود آباد کی کربال میں دف

Page 119: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

119

راجہ نواب علی خان سحر ابتدا میں ناسخ کے شاگرد ہوئے۔ پھر کچھ دنوں

۔ سے الگ ہے ا رنگ دونوں اساتذہتک مرزا فرخ سے مشورہ کیا لیکن آپ ک۸۲۶

میر نصیر خان جعفری: سندھ کی آزاد حکومت کے آخری فرمانروا میر

و ۸۲۷ھ ۲۱۹محرم الحرام ۱۴محمد نصیر الدین خان جعفری سرکار فیض آثار کو قلعہ ۸۲۸ء ۱۸۰۴مئی ۱۷ھ مطابق ۱۲۱۷محرم الحرام ۱۷بروایتے دیگر

د محمد بچل حیدر آباد میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم کے لیے ایرانی عالم اخون

متعلوی کو مقرر کیا گیا ۔ والد کی وفات کے بعد اپنے بڑے بھائی میر نور محمد ء کو میانی کے میدان ۱۸۴۳فروری ۱۷خان کے ساتھ سندھ کے حکمران ہوئے۔

میں میر صاحب نے انگریزوں سے شکست کھائی۔چارلس نیپیئر نے میر صاحبان

۔ ایک سال کے بعد میر نصیر خان کو بمبئی میں مقدمہ کے سلسلے میں قید رکھاء کو ۱۸۴۵اپریل ۱۴ھ / ۱۲۶۱ربیع الثانی ۶کو کلکتہ منتقل کر دیا گیا۔ جہاں

آپ کو امانتا کلکتہ میں دفن کیا گیا ایک سال بعد میت بمبئی کے ۸۲۹وفات پائی۔

واري ریستي کان الش کربالژ ی موکلی ’’راستے کراچی اور پھر کراچی سے نگریزن الش کي کربال ژی موکلٹن بدران پونی دفنائی چذیو ،جتان پرا‘‘ سگھبجي

ء میں میر صاحب الش کی ۱۸۵۵گورنر جنرل الرڈ کا دلہاوڑی جی حکیم سان

۸۳۰پونی مان کٹی حیدر آباد آٹی رات و رات میرن جی قبن کی دفنایودیو۔ پڑا ہوں بستر غم پر نہیں گر پوچھنے واال

ترا دیدار چارہ ہے دل بیمار ہجراں

۸۳۱کا

غدر ’’جمعیت علی ثریا جھجھر کے ضلع رہتک کے رہنے والے تھے۔

سے پہلے زندہ تھے۔ مرد خو ش وضع ، سپاہی پیشہ تھے۔ جس زمان میں جان

صاحب کے کالم کا شہرہ اکناف ہند میں پھیال اسی زمانہ میں ان کو شعر گوئی کا رفتہ طبیعت کا میالن ریختی کی طرف ہو گیا اور چند ہی روز شوق پیدا ہوا۔ رفتہ

آپ کے باقی تمام حاالت گوشہ گم نامی میں ہیں۔ ۸۳۲‘‘ میں بہت کچھ کہہ ڈاال۔

اور ابھی وہ امید بھی نہیں کہ ان پر سے گرد ہٹائی جائے گی اسی طرح آپ کا ۸۳۳کالم بھی نایاب ہے۔

ہے منہ پھیر کے مردوں کی شام سے سور

طرح

آئے تو گھر میں کئی رات کے جاگے آئے

۸۳۴

ء تک کا پچا س سالہ دور عبدہللا خان ۱۸۶۰ء سے ۱۸۱۰ بخت خان جنرل

کے بیٹے نے کبھی شاہ اودھ کی فوج میں کبھی انگریزوں کی فوج میں

گزارا ۔افغانستان کی پہلی جنگ میں تو یخانہ کے افسر کی حیثیت سے ء کو جب بریلی میں جنگ آزادی کا اعالن ہوا۔ ۱۸۵۷مئی ۳۱حصہ لیا اور

جوالئی کو ۲’’ اور پھر ۸۳۵کیا گیا۔ تو انھیں روہیل کھنڈ کا حاکم مقرر

Page 120: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

120

دہلی میں داخل ہوئے۔ جنرل بخت خان تین رجمنٹیں سواروں کی لے کر

بادشاہ نے اس کو فرزند کا خطاب دیا اور تمام فوجوں کا کمانڈر انچیف مقرر کیا تمام شہر میں منادی کرادی کی پلٹنوں کے تمام افسران کو اب

۸۳۶‘‘۔نرل خان سے ہدایت لینا چاہئیںج

ء کی جنگ آزادی کے دوران احمد بیگ قزلباش کا نام بھی ایک ۱۸۵۷سپاہی اور شاعر کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ شیفتہ نے اسے قزلباشی

گروہ سے متعلق اور خوبصورت جوان کے ساتھ فن سپہ گری سے بخوبی

۸۳۷واقف اور مرزا ولی عہد کی سرکار میں رسالدار لکھا ہے۔ نہیں وہ شے کہ جو کافر بنے اور ٹوٹ جائے

ہم نہ مانیں گے خدا کا گھر بنے اور

۸۳۸ٹوٹ جائے اس دور میں دہلی سے لکھنؤ کی طرف یا اودھ کی طرف منہ پھیرتے ہیں

تو راجاالفت رائے الفت کا نام بھی سامنے آتا ہے۔ آپ واجد علی شاہ کے عہد میں

اپنے والد اللہ الل جی کی ۸۳۹منشی تھے۔ اودھ کی شاہی فوجوں کے میر ۸۴۰وفات کے بعد آپ کو بخشی کا عہدہ ،راجگی اور بہادری کا خطاب مال۔

ھ میں ہوئی۔ مولوی احسان ہللا ممتاز ۱۲۳۵راجا الفت رائے کی والدت

اور سے تعلیم حاصل کی۔ کچھ عرصہ اپنے والد کے ساتھ مرزا پور میں گزاراشوال ۷والد کی وفات کے تھوڑا ہی عرصہ بعد لکھنؤ گئے۔انھیں کے ساتھ

ء( کی رات کو راجا الفت رائے کا اچانک انتقال ہو گیا۔ ۱۸۵۴ھ )جوالئی ۱۲۷۰

۸۴۱ الفت فارسی اور اردو کے قادر الکالم شاعر تھے۔ فارسی نثر میں انشا

یہ گوئی سے ہوتا ہے۔ آپ مرث‘‘انشائے الفت ’’پردازی پر ان کی قدرت کا اندازہ

آپ سے کلیات مراثی و کلیات سالم و دیوان ’’میں ایک خاص مقام رکھتے ہیں۔ ۸۴۲۔ ‘‘غزلیات یاد گار ہیں

خاک اور خون میں بھرا تھا رخ زیبائے

حسیں

ہر طرف سے یہی آتی تھی صدا ہائے

۸۴۳حسین

ے استاد موالنا کوثر کے تجویز کردہ نام بندو خان پارسا : جوا پن

عبدالرحمن سے بھی پہچانے گئے۔ جے پور کے رہنے والے تھے۔ سپہ گری آپ کا آبائی پیشہ تھا ۔آپ کی تعیناتی کوٹ قاسم کے پرگنہ میں مقیم شاہی فوج میں تھی

اور وہاں سے جب جے پور آئے تو یہیں کے ہور ہے ۔فوج سے فراغت کے بعد

شاعری کے شوق کے ہ سازی کرتے رہے۔ پڑھے لکھے نہیں تھے ابتدا نگین سے اصالح لیتے تھے۔موالنا کوثرباعث

Page 121: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

121

مقام ایسا بھی راہ الفت میں اک تھا گیا آ

۸۴۴ڈھونڈتا پھرتا رہا منزل کو میں منزل مجھے پنڈت دیا شنکر کول نسیم ولد پنڈت گنگا پرشاد کول ایک معزز کشمیری

ء میں لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ اور ۱۸۱۱آپ ’’ان سے تعلق رکھتے تھے۔ خاند

۸۴۵۔‘‘ھ( میں بتیس سال کی عمر میں بعارضۂ ہیضہ وفات پائی۱۲۵۹ء )۱۸۴۳دیا شنکر نسیم نے اردو اور فارسی کی اچھی تعلیم پائی ۔ فوج میں آپ کے مرتبے

بعہد امجد علی شاہ فوج کی ’’ کے حوالے سے چند اختالف سامنے آئے مثال

امجد علی شاہ حکمران اودھ کی فوج ۸۴۶‘‘ تنخواہ تقسیم کرنے پر مامور تھے۔ہ شاہی فوج میں ایک و۸۴۷‘‘ میں بخشی گری کے عہد ے پر فائز تھے۔

شاہی فوج میں مالزم تھے۔ ۸۴۸معمولی وکیل کی حیثیت سے مالزم تھے

۸۴۹

اعمال نسیم اپنے برے ہیں کہ بھلے ہیں

لیکن ہے بھروسہ ہمیں محبوب خدا کا

۸۵۰

اے مرغ دل تو شاخ نشیمن سے گر پڑا

۸۵۲بلند ہے پرواز پست ہےحیف آشیاں

میرزا فتح الملک بہادر غالم فخر الدین مرزا فخر و دہلوی خاندان تیموری میں سے چوتھے نمبر پر ۱۶کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کے بیٹے تھے۔ آپ

ء کو مرزا دارا ۱۸۴۹جنوری ۱۱ھ میں پیدا ہوئے۔ جب ۱۲۳۳ء/۱۸۱۲تھے۔

چونکہ آپ کی ولی ۸۵۳پ ولی عہد مقرر ہوئے۔ بخت ولی عہد کا انتقال ہوا تو آعہدی کئی اقارب کو کھٹکتی تھی اور خاص طورپر آپ کی سوتیلی والدہ زینت

بخت کو۔ جو اپنے بیٹے جواں بخت کو اس کانٹوں بھرے تخت پر بٹھانا چاہتی تھی

۱۰لہذا کہا جاتا ہے کہ اس نے زہر دے کر مروا دیا لیکن مشہور یہی ہے کہ لیکن مرزا بشارت علی نے ایام ۸۵۴ء کو ہیضہ سے وفات پائی۔۱۸۵۶ئی جوال

مئی کو میرٹھ میں ۱۰جنگ آزادی کے ذیل میں بڑی عجیب بات لکھی ہے کہ

مقیم ہندوستانی فوج نے انگریزوں کے خالف بغاوت شروع کر دی اور دہلی پہنچ قرر ہوئے۔ مرزا گئی ۔۔۔۔تو مرزا ظہیر الدین عرف مرزا مغل سپہ ساالر افواج م

ابو بکر اور مرزا فخرو کو فوج میں کرنیلی دی گئی۔ مرزاجواں بخت وزیر اعظم

۸۵۵مقرر ہوئے۔ نہ حرم میں جگہ، نہ دہر میں جائے

۸۵۶ہم گنے جائیں اے خدا کس میں

مردے سپاہی پیشہ ، از سکنہ دہلی ست، نسبت ’’مرزا غالم رسول شوق :

آپ فوج چھوڑنے کے بعد کابلی دروازہ کی مسجد ۸۵۷تلمذبہ محمد نصیر دارد،

۸۵۸ء میں وفات پائی ۔۱۸۵۵۔۵۶ھ/۱۲۷۲کے امام مقرر ہوئے ۔ آپ نے

Page 122: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

122

آپ کے باندھے ہوئے محاورات میں نہ قیاس نحوی کو دخل ہو سکتا ہے۔

نہ ضمیر متکلم و غائب کی جستجو کا کام آسکتی ہے کیونکہ عام نظر

ان کی تصیح مخل فصاحت ہو جائے گی۔ بعض الفاظ میں جمع ہیں سے

۸۵۹‘‘مگر محاورہ میں مفرد ہیں۔

کرنل اسکنرکے دستہ ’’میر امانت علی امانت خلف کرامت علی ناگوری

میں مالزم تھے لیکن اس دستہ کی برخواستگی کے بعد بتالش معاش جے پور

صابر دہلوی نے اسے سکندر صاحب کے ۸۶۰‘‘ آئے اور یہیں وفات پائی۔ سواران رسالہ میں لکھا ہے

ہم مرتے ہیں تشنگی سے ساقی کب سے

۸۶۱ظالم لب جام کو بھڑا دے لب سے

سید محمد علی فدا بھی ایک سپاہی پیشہ تھے۔ آپ کا عرف فدا شاہ تھا اسی

ہزل گوئی پر مائل ہو گئے۔عرفیت سے آپ معروف بھی تھے۔ آخری عمر میں جس نے کھایا ہے تیر مثرگاں کا

۸۶۲اس کے نزدیک پھانس ہے بھاال

محمد ہللا یار خان سحاب کے والد کا نام ہارون خان تھا۔ آپ خیر آباد کے باشندے تھے۔ مرزا محمد رضا برق کے شاگرد تھے اور فوج میں رسالدار کے

تھے۔ آپ کے ایک دیوان کی موجودگی کی بھی اطالع دی ہے۔عہدے پر فائز شعلے نقش پائے جاناں سے نکلتے ہیں

سحاب

اس تماشا گاہ میں اس کا تماشا پاؤں ہے

۸۶۳

میر والیت علی حیران بہادر شاہ ظفر کے عہد میں فوج میں خدمات انجام

نے بھی آپ ۸۶۵ عبدالغفور نساخ ۸۶۴دیں اورکپتان کا عہدہ رکھتے تھے۔ کے فوج میں کپتانی کے عہدے کی تصدیق کی ہے۔

شکل تصویر جو حیرت میں ہے تو اے

حیراں

اس کی تصویر کسی نے تجھے دکھالئی

۸۶۶کیا

احمد خان شیفتہ کے بارے میں کاظم علی خان نے یہ جانکاری دی ہے کہ

اور گلزار علی امیر کے شاگرد تھے۔ اکبر آباد کے باشندے لطف ہللا کے فرزند ی نے شہابی اکبر آباد۸۶۷اور سپاہی پیشہ تھے۔ بعد کو گوالیار میں رہنے لگے۔

سےتفصیالان کے خوش کالم ہونے ،ان کے ذرائع خزاں کے حوالے گلستان بے

۸۶۸بسر اوقات اور ان کے تیز طبع ہونے پر بات کی ہے۔ الد سلطان خان نے آگرہ میں رہائش اختیار کی ان کے آباؤ شیفتہ کے و

اجداد افغانستان کے رہنے والے اور یوسف زئی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔

فوج میں سپاہگری سے وابستہ کی جنگ آزادی کے دنوں میں شیفتہ حیدر آباد :آپ کی شاعری کا نمونہ مالحظہ ہو ۸۶۹ھ میں انتقال ہوا ۔۱۳۰۹تھے۔

Page 123: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

123

جلوۂ طور کی اے شیفتہ حاجت کیا ہے

سنگ ریزے مرے صحرا کے شرر دیتے

۸۷۰ہیں

سید فدا حسین: میرٹھ کی انگریزی افواج میں جمعدار کے عہدے پر فائز

ء میں انگریزوں نے کابل پر چڑھائی کے لیے جو مہم روانہ ۱۸۳۹تھے نومبر

سید فدا حسین کا وطن شاہ جہان آباد ۸۷۱۔ کی فدا حسین اس مہم میں شامل تھےتھا۔ عرف بخشی بخاری حیدراور انگریزی رسالہ ترک سوار کے جمعدار تھے۔

فدا حسین نے اس ’’۸۷۲آپ نے افغانستان کی تاریخ لکھی جو اردو میں تھی۔

سفر میں فوجی مقاصد کے عالوہ گردو پیش کے مناظر اورواقعات پر بھی نظر فر روزنامچے کی شکل سے غزنی کی آمدو رفت کی روداد سرکھی اور میرٹھ

کرنے کی کوشش کی ہے۔ تعلیمی استعداد کم ہونے کے باعث زبان و میں تحریر

بیان پر اسے بہت زیادہ قابو نہیں رہتا۔ لیکن اس کا سفر نامہ قاری کی معلومات ۸۷۳‘‘میں اضافہ ضرور کرتا ہے۔

ء میں ۱۸۵۲پہال سفر نامہ ہے۔ جو یہ سفر اندرون ملک اردو کا باقاعدہتحریر کیا گیا ۔کیونکہ عجائبات فرنگ کو جو اولیت ہے وہ دوسرے ملک یعنی

انگلستان کا سفر نامہ ہونے کے باعث ہے۔ تواریخ کے داخلی شواہد یعنی سنین

کے مطابق اردو کا پہال سفر نامہ نگار سید فدا حسین عرف بنی بخش ہی قرار پاتا ۸۷۴ہے۔

حامد بیگ نے تاریخ افغانستان میں سے حوالہ تحریر بھی نقل کیا مرزا

ہے۔ جس سے سید فدا حسین کے اسلوب کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ھ کو شاہ جہان ۱۲۵۵شعبان ۲۵ء مطابق ۱۸۳۹ماہ نومبر ۳تاریخ

آبادسے دو تین منزل آگے گئی تھی کہ قضائے الہی سے بیماری ہیضہ وبا

ہزار ۷ئی۔دس ہزار فوج لڑائی پر گئی سب ماری گئی ۔کی فوج میں پڑ گ

۸۷۵‘‘ آدمی وہاں سے بچ کر آگئے اور باقی مدفون ہوئے۔

قاضی نور الدین لکھتے ہیں کہ سید حسین فدا از ساکنان قصبہ برودہ ۔سید : سپاہ پیشہ است،مشورۂ سخن باخواجہ سعید شیدا میکرد ،ازوست

سی سائل کو جھڑکایا نہ کیجیےک : زکواۃ حسن دو بوسہ فدا کو

۸۷۶ ھ( کو ۱۲۳۱ربیع الثانی ۵ء )۱۸۱۶مارچ ۵نواب یوسف علی خان ناظم

ن رامپور کے آپ کے والد نواب محمد سعید خا۸۷۷پیر کے دن پیدا ہوئے۔

کی سرداری جنگ آزادی ریاست ، نے اپنی زندگی میں ہی انہوں فرمانروا تھے۔خان کو سونپ دی ۔ نواب صاحب نے جنگ سے دو سال پہلے نواب یوسف علی

آزادی میں غداری کی اور مسلمان مجاہدین کو گرفتار کرانے میں مدد دی۔ وہ خود

بھی اپنے زیر کمان دستوں کو مجاہدین کی گرفتاری کا حکم دے اور گرفتار کر نواب صاحب کی اس مجاہدین بلکہ تحریک آزادی کی دشمنی ۸۷۸رہے تھے۔

کے اہم مقامات، رام پور،بریلی اور مراد آباد کے قصبوں وغیرہ سے روہیل کھنڈ

Page 124: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

124

کو کافی نقصان پہنچا بلکہ بلند شہر جہاں مجاہدین انگریزوں پر غلبہ پا رہے تھے۔

: وہاں بھی اس نے غداری کی جس کے صلے میںء کو انگریزی حکومت کے گورنر جنرل ہند الرڈ کیننگ ۱۸۶۰جون ۲۳’’

یمت ایک الکھ اٹھائیس ہزار پانچ سو روپے مواضعات جن کی ق ۱۱۶نے

چار آنے ہے نواب یوسف علی خان کو دیے اور سند جاگیرداری بھی عطا

ء کو الہ آباد میں الرڈ کیننگ نے مہاراجہ سندھیا ۱۸۶۱جوالئی ۲۰کی۔۔۔۔

،مہاراجہ پٹیالہ ،بیگم بھوپال او رنواب رام پور کو تمغہ ،سٹار آف انڈیا

ء کو ۱۸۶۵اپریل ۲۱ھ مطابق ۱۲۸۱ذیقعد ۲۴خان ،دیا نواب یوسف علی

سرطان کے مرض سے انتقال کر گئے انھیں امام باڑے کے بیرونی داالن

۸۷۹میں دفن کیا گیا۔

نواب یوسف علی خان کو شاعری کا شوق بھی تھا اور ناظم تخلص کرتے

ان کا تھے۔ پہلے حکیم مومن خان مومن اور بعدۂ مرزا غالب کو اپنا کالم دکھایا۔ھ میں پہلی بار شائع ہوا۔ آپ کے کالم میں لطافت اور فصاحت پائی ۱۲۷۸دیوان

جاتی ہے۔ لطیف استعارے اور رنگین تشبیہں آپ کی شاعری کی جان ہیں۔۸۸۰کیوں یہ کہا کہ دعوی الفت مگر غلط

نے میر حسن تسکین ، لیکن ۸۸۱تسکین دہلویکانام مرزا فرحت ہللا بیگ نے میر حسین لکھا ہے ۔ آپ شاہ جہاں ۸۸۳ اور اللہ سریرام ۸۸۲کریم الدین

آباد کے رہنے والے تھے۔ والد کا نام میر حسن عرف میرن تھا ان کی والدت

ھ میں ہوئی۔ فارسی کی تکمیل مولوی امام بخش صہبائی سے کی۔ تالش ۱۲۱۸ر میرٹھ بھی رہے۔ رامپورپہنچ کر کسی معقول خدمت معاش کی فکر میں لکھنؤ او

لیکن مرزا فرحت ہللا بیگ نے جہاں انھیں دہلی کے ۸۸۴پر مقرر ہو گئے۔

مشاعرے میں موجود لکھا ہے۔ وہیں سپاہی پیشہ بھی لکھا ہے۔ شاعری کا شوق ابتدا سے تھا۔ پہلے شاہ نصیر کے شاگرد ہوئے بعد کو مومن سے اصالح لینے

ھ میں ۱۲۶۸کٹر نور الحسن ہاشمی نے بھی سریرام کی نقل کی ہے۔ اور لگے۔ ڈا

رامپورمیں ان کی وفات لکھی ہے۔ ان کا کالم لطف اور دلکشی اور مزے سے ۸۸۵خالی نہیں۔

دیکھتے ہی شوق نے ایسا کیا بے اختیار

حال دل کہنے لگے ہم یار کی تصویر سے

۸۸۶

ان عظیم ہستیوں میں سے ہیں۔ جنھوں نے ہللا مہاجر مکیحاجی امداد

برصغیر پاک و ہند میں ایک طرف تو دین و مذہب اور شریعت و طریقت کی شمع روشن فرمائی تو دوسری طرف جہاد بالسیف کے لیے عمال میدان جنگ کا حصہ

ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے خالف شاملی ضلع ۱۸۵۷ھ/۱۲۷۴بنے۔ اور

ر نگر کے محاذ پر جہاد کر کے اسالم کا علم بلند فرمایا۔ محمد رضی عثمانی مظف آپ کا تعارف یوں کرواتے ہیں۔

Page 125: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

125

ء ( بروز شنبہ بمقام قصبہ ۱۸۱۷ھ )۱۲۳۳صفر ۲۲آپ کی والدت ’’

نانوتہ ضلع سہارنپور یوپی میں ہوئی۔ لیکن آپ کا آبائی وطن تھا نہ بھون

اد حسین اور تاریخی نام مظفر ضلع مظفر نگر ہے۔ آپ کے والد نے امد

احمد رکھا۔ اور شاہ محمد اسحاق صاحب محدث دہلوی نواسہ حضرت شاہ

عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی نے آپ کو امداد ہللا کا لقب عطا کیا ہے۔

‘‘۸۸۷

ء( میں مکہ معظمہ کی طرف ۱۸۵۹ھ)۱۲۷۶حاجی امداد ہللا مہاجر مکی

ء( ۱۸۹۹ھ)۱۳۱۷جمادی اآلخر ۱۳یا ۱۲سال کی عمر میں ۸۴ہجرت کی۔ جہاں

بروز بدھ اپنے مالک حقیقی سے جا ملے اور جنت المعلی میں موالنا رحمت ہللا ؎۸۸۸کیرانوی کے پہلو میں دفن ہوئے۔

حاجی امداد ہللا کی تصانیف میں سب سے عظیم کار نامہ مثنوی موالنا روم پر

تصانیف کا مجموعہ ۱۰فارسی زبان میں حواشی لکھنے کا ہے۔ اس کے عالوہ :کلیات امدادیہ ہے یہ کلیات شاعری میں ہے۔ نمونۂ کالم

خجل ہو کے خورشید کا رنگ فق ہو

اگر منھ سے پردہ اٹھائے محمد

نہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا یقین ہے

۸۸۹ہوا ہے یہ سب کچھ برائے محمد

ہ نظیر الدولہ ملقب بہ خطاب نواب نواب جہانگیر محمد خان دولہ معروف ب

والی ریاست بھوپال ’’دولہ شمشیر جنگ ولد میاں امیر محمد خان ،

ھ کو صدر نشین ریاست بھوپال ہوئے۔۔۔ ۱۲۵۳ء ( کو پیدا ہوئے۔ ۔۔۔۱۸۱۹ھ)۱۲۳۴ حکومت ۸۹۰‘‘ھ کو رحلت فرمائی۔۱۲۶۰اور تاریخ بست و ہشتم ماہ ذیقعد

سنبھالنے کے بعد عزیزوں اور اہلکاروں کی سازشوں نے آپ کو آرام سے نہیں

بیٹھنے دیا۔ جس بنا پر آ پ کو کبھی سیاسی جنگ لڑنا پڑی اور کبھی میدان میں اترنا پڑا۔ آخر جوانی کے عالم میں راہی ملک عدم ہوئے۔ آپ نے کم عمری میں

ھ میں ۱۲۸۸ٹی شاہجہان بیگم نے شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔ جسے آپ کی بی

اپنے دیوان کے ہمراہ چھپوا کر مشتہر کیا۔آنکھ پھر جاتے ہی اس کے ہو گیا خاموش

میں

گردش چشم بتاں ہے ساغر صہبا مجھے

۸۹۱

نظام رامپوریکا ایک نام ذکریا شاہ اور دوسرا نام نظام شاہ رکھا گیا ۔ جب ام سید احمد شاہ تھا۔ آپ کے سن والدت میں اختالف پایا جاتا کہ آپ کے والد کا ن

یا بقول ۸۹۴ء ۱۸۲۲ ،۸۹۳ھ، ۱۲۳۰ء/۱۸۲۳ ،۸۹۲ء ،۱۸۱۹ہے۔ جیسے

ء میں پیدا ہوئے۔ تو اس وقت ۱۸۳۵عتیق جیالنی سالک کہ کلب علی خان نواب ء ہوا۔ ۱۸۲۱ گویا نظام کی پیدائش کا سال ۸۹۵سال کے ہو چکے تھے۔ ۱۴نظام

یہ سب اندازے ہیں۔درست سن پیدائش کے لیے ان کو بریکٹ کرنا پڑے گا۔یا پھر

Page 126: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

126

ء لکھا ہے۔ اس لیے ان کے اتفاق سے اتفاق کرنا پڑے ۱۸۲۳زیادہ تر ناقدین نے

۲۸گا۔ آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ رامپورمیں ہی گزار اور اسی شہر میں ۸۹۶ء کو وفات پائی۔ ۱۸۷۲اکتوبر

ابتدائی تعلیم رامپور کے ہی مدرسہ عالیہ سے حاصل کی۔ نظام رامپوری نے

لیکن ۸۹۷ء میں رام پور کی فوج کے رسالہ سواروں میں مالزم ہو گئے۔ ۱۸۴۷فوج میں بھرتی ہونے کے لیے عمر کی قید ’’ کلب علی خان فائق کا کہنا ہے کہ

نظام نے نہ تھی۔ پندرہ سولہ سال کا ہونا مالزمت کے لیے کافی سمجھا جاتا تھا۔

ء کے لگ بھگ سواروں میں مالزمت اختیار کر لی ابھی زیادہ سے ۱۹۳۵بھی زیادہ دفعدار یا جمعدار ہوں گے کہ نواب یوسف علی خان تک رسائی ہوئی اور

۸۹۸‘‘ انھیں سنبھاال مال۔

نظام نے پندرہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کر دیا تھا اور علی بخش کی تھی۔ آپ صاحب دیوان تھے۔ بیمار کی شاگردی اختیار

ہم اور عبادت کو سمجھتے نہیں زاہد

وہ کوچہ ہو اور نقش قدم ہو یہ جبیں ہو

۸۹۹

شیخ امیر ہللا تسلیم کا خاندانی نام احمد حسین تھا لیکن اپنے عرف امیر ہللا

ہوئی جس کے نام سے مشہور ہوئے۔ آپ کی والدت والدہ کے مطابق اس سال آپ کے ۹۰۰سال غازی الدین حیدر نواب وزیر کو انگریزوں نے بادشاہ بنایا۔

والد مولوی عبدالصمد شاہ اور اودھ کے مالزم تھے ۔یعنی دھنی خان پلٹن میں

ممتاز تھے۔آپ بھی اسی پلٹن میں سپاہی بھرتی ہو گئے۔ ۹۰۱بعہدہ اولشداری حمد علی شاہ والی اودھ نے انھیں والد والد صاحب کی پیرانہ سالی کے باعث م

موافق سوال ’’کے عہد ے پر خدمت کے لیے مامور کر دیا۔ اب آپ اولشدار تھے ۔

یعنی آ پ کے والد نے اپنی جگہ پر اسے مقرر کر نے ۹۰۲‘‘سایل بعمل آرندکی درخواست کی تھی۔ جب ریزیڈنٹ سلیمن نے پوری پلٹن نا شناسی فرض کی

کر دی۔۔۔۔ تو بخشی فوج ال لہ پیتا میرداس ۔۔۔نے انھیں اپنے پاداش میں موقو ف

گھربلوا کر حبیب خاص سے وہی تنخواہ مقرر کر دی تھی جو دربار بادشاہی سے کلب علی خان کے عہد میں تسلیم ۹۰۳ملتی تھی۔ تین سال یہ پلٹن موقوف رہی۔

رامپور چلے گئے اور وہاں ڈپٹی انسپکٹر مدارس ہو گئے۔ ان کی وفات کے بعد

منگرول میں قیام کیا مگر نواب حامد علی خان نے پھر رامپو ر بال کر چالیس آخری عمر میں آپ کی بینائی جاتی رہی ۹۰۴روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا۔

ر ض سے لکھنو تشریف لے گئے جہاں آپریشن کے دوران تو آپ عالج کی غ

ھ کو پانچ بجے ۱۹۱۱/۱۳۲۹مئی ۲۸گہرا نشتر لگنے سے تکلیف بڑھ گئی۔ اور زباں کا خاتمہ ’’سال وفات پائی۔ کسی نے تاریخ وفات لکھی ہے ۹۶شام بعمر

ء ۔مرزا محمد حسین محوی لکھنوی نے بھی تاریخ کہی۔ ۱۹۱۱۔ ‘تسلیم پر ہوا

۹۰۵

Page 127: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

127

سلیم الفاظ کی رنگینی اور مضمون کی دآلویز ی میں اپنے تمام معاصرین ت

سے بازی لے گئے ہیں۔

دیا پیوند اعجاز قدم سے

۹۰۶سواد کفر کو شام عدم سے

کیا کریں تسلیم ہم دعوائے شعر و شاعری

یہ وہ فن ہے آدمی کو عمر بھر آتا نہیں

۹۰۷

کا ہر قاری اور طالب سید امتیاز علی تاج کو اردو ادب :سید احمد شفیع آپ دہلی کے رہنے والے تھےسید احمد ؎908کے نانا تھے۔ ان آپ جانتا ہے ۔

شفیع نے اپنی مالزمت کا آغاز انگریزی پلٹن کے ایک رسالے سے کیا تھا۔ لیکن

انھیں فوجی مالزمت علم و ادب اور درس و تدریس میں خاص شغف کے باعث آباد کا ہیڈ ماسٹر بنا دیا ء میں گورنمنٹ ہائی سکول وزیر ۱۸۶۴سے آزاد کر کے

۹۰۹گیا۔

سید احمد شفیع نے اسی مالزمت کے دوران اپنی تصنیفی زندگی کا آغاز کیا۔ آپ نے اپنی تصنیفی مصروفیات میں بڑے اہم کام کیے اور اردو زبان و ادب

ان میں سائنس، فلسفہ ،نفسیات اور تعلیم کے بارے کتابیں کوکئی اہم تصانیف دیں

آپ لکھتے ہیں:شامل ہیں۔نے ہندوستان میں قدم رکھتے ہی ملک کو اپنی طرف پایا۔ مغلیہ انگریزوں

سلطنت کی حالت اس وقت جان کندنی کی حالت تھی۔ ہر قطعہ اور ہر گوشہ میں

رے سے دوسرے سرے تک طوائف الملوکی کا زور تھا ۔سول وار کی آگ ایک سبھڑکی ہوئی تھی۔ بد نظمیوں کی آندھیاں چل رہی تھیں۔ جان و مال رعایا کا خطرہ

میں تھا۔ لوٹ مارکا ہلڑ ہر طرف مچا ہوا تھا۔ عدل و انصاف اور امن و امان کی

صورت دیکھنے کو لوگ ترس رہے تھے۔ وہ دعا مانگتے تھے کہ کوئی ایسا ۹۱۰‘‘مٹا دے۔زبردست آوے جو ملک کی ہل چل

اس ایک صفحے میں قاری کو بہت سی چیزوں سے آگہی ملتی ہے۔

ہندوستان کی حالت، تاریخ، اصول، سید احمد شفیع کی اپنی سوچ، ہندوستانیوں کی سوچ کا ایک عام سا تاثر، انگریزوں کی حکمت عملی،غرض یہ کہ بہت سی

سچائیاں ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔

کے آباؤ اجداد کا تعلق افغانستان سے تھا۔ آپ کے افغانیہغالم محمد ر بزرگ ہجرت کر کے ہندوستان میں آئے اور بھرت پور کی فوج کا حصہ بنے

یہاں تک کہ آپ کے دادا بھی بھرت پور کی فوج میں ایک عہدہ جلیلہ پر ممتاز

تھے۔ آپ نے بھی بزرگو ں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ریاست کی انھی خدمات کرۂ بزم سخن کے مطابق آپ لیے چنا۔ آپ کا وطن اکبر آباد تھا۔ تذکو اپنے

غالم محمد رہا نے مولوی محمد کامل ۹۱۱علی اسیر کے شاگردتھے۔ گلزار

Page 128: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

128

سے عربی علوم کی ،جو نجوم ،ہیئت و ہندسہ میں بھی امتیاز رکھتے تھے

ں۔ آگرہ میں فارسی کے پروفیسر بھی رہے۔ صاحب دیوان ہیآپ تحصیل کی۔ ۹۱۳ء کے بعد انتقال کیا۔ ۱۹۰۰شہابی اکبر آبادی کے مطابق رہا نے ۹۱۲

۹۱۴جب کہ شاہد احمد جمالی کے مطابق غدر کے قریبی زمانہ میں انتقال کیا ۔ پیکاں جو ٹوٹ کر مرے سینے میں رہ گیا

۹۱۵کہنے لگے کہ مفت گیا تیر ہاتھ سے

امل تخلص کرتے ہیں۔ ایک سپاہی پیشہ آدمی ہیں ۔ ک’’بیگمرزا کامل ۹۱۶ ں بھی سپاہیانہ رنگ کی جھلک ہے۔مضمون می

امراؤ مرزا شمیم سپاہ پیشہ ،شاگرد میر صبا، جوان خوش رو، نیک

مرزا امدا د علی کے فرزند اور لکھنؤ کے باشندے تھے عباس مرزا ۹۱۷خوسے قبل مرتب ہو چکا تھا عباس مرزا شمیم کاذکر ء ۱۸۵۲شمیم کا دیوان اواخر

عراء اور خوش معرکہ زیبا نیز خم خانہ جاوید جلد ش سخن سخن، سراپا ۂنادر،تذکر

۹۱۸پنجم میں موجود ہے۔ جان دے اس پہ کہ جو مہرو وفا رکھتا ہو

اے شمیم ایسے ستم گار پہ مرتا کیا ہے

۹۱۹

تر اودھ کا آخری حکمران جو ایک اچھا حکمران یا سپہ واجد علی شاہ اخساالر تو نہ بن سکا لیکن ہللا تعالی نے اسے غیر معمولی دل و دماغ سے نوازا

تھا۔ وہ بیک وقت صاحب تخت و تاج بھی تھے اور اقلیم سخن کے شہریار بھی۔وہ

ر بذلہ آرٹسٹ اور فن کار بھی تھے اور مصنف و مؤلف بھی ۔ وہ شگفتہ طبع اوسنج بھی تھے۔ اور جودت فکر و نظر کے سرمایہ دار بھی ،وہ نثر نگار بھی

تھے۔ اور شاعر بھی تھے وہ ماہر موسیقی بھی تھے اور رقاص بھی وہ عاشق

مزاج بھی تھے ڈاکٹر نعیم تقوی وہ فن سپہ گری میں طاق تھے فوج کے قواعد و ’’بقول

لیکن ۹۲۰‘‘ انہ تربیت دیتے تھے۔ضوابط انھوں نے خود مرتب کیے اور روز

فوج کے نظم و ضبط ،دستوں کے نام اور فوج کی تنظیم کے بارے جب پڑھتے نے فوج کے دستوں کے نام احمد اس ہیں تو بات بڑی عجیب لگتی ہے ڈاکٹر خلیل

بانکا، ترچھا، اختری، سلطان،غازی،منصوری، بھی عجیب رکھے تھے جیسے

ی اور دکنی وغیرہ۔ اس کی ایک رجمنٹ میں غضنفری ،حسینی ،حیدری ،شاہدصرف تیلگو سپاہی تھے اس کا نام گھنگھور رکھا تھا۔ فوج کے دوسرے دستوں

کے نام خاص دل، جان نثار ،فتح مبارک ،گالب اور ظفر وغیرہ تھے۔ عورتوں کا

بھی ایک دستہ تھا جن کو روزانہ فوجی تربیت دی جاتی تھی اور روزانہ پریڈ ۹۲۱ حبشی گوریال دستہ قابل ذکر ہے۔ھی۔ یہاں کرائی جاتی ت

واجد علی شاہ اختر کی تاریخ والدت میں بھی عمومی اختالف پایا جاتا ہے۔

ء( ۱۸۲۷ھ )یکم نومبر ۱۲۴۳ربیع الثانی ۱۰ ،۹۲۲ء ،۱۹۲۳اگست ۱۸جیسے

Page 129: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

129

ء ۱۸۲۲جوالئی ۳۰ ،۹۲۳ء لکھنؤ ۱۸۲۳جوالئی ۱۹ھ/۱۲۳۸ذیقعد ۱۰،

وغیرہ سے معزول کیا اور ۹۲۶ء ،۱۸۲۷ ،۹۲۵ء،۱۹۲۳جوالئی ۳۰ ،۹۲۴، : کب قدر سجاد علی مرزا نے لکھا ہے کہکو ۹۲۷کلکتہ روانہ کردیا۔

ء کو کرنل اوٹرم نے اپنے عہدے کا چار ج لیا اور کرنل ۱۸۵۴دسمبر ۵"

نومبر ۲۱سلیمن کی رپورٹوں کے مطابق الرڈ ڈلہوزی کی منشا کے مطابقء کو وہ کلکتہ پہنچے۔ جہاں ۱۸۵۶مئی ۱۳۔۔اق کا فیصلہ ہو گیا۔ الحء کو ۱۸۵۵

ستمبر ۲۱انھیں ساری زندگی گزارنی پڑی۔ باآلخر نظر بندی کی حالت میں

۲ھ رات دو بجے داعی اجل کو لبیک کہا اور ا۱۳۰۵محرم ۳ء کو مطابق ۱۸۸۷لکتے میں گھنٹے کے بعد اپنے تیارکردہ امام باڑ ہ سبطین آباد مبارک،مٹیابرج ک

۹۲۸‘‘ دفن ہوئے۔

ء اہل قلم، ۱۷۰۰’’ایک محتاط اندازے کے مطابق آ پ کے دربار میں موجود تھے۔ اور معزولی پر جب کلکتہ کا سفر اختیار کیا ۹۲۹‘‘ طبیب ۵۰۰

تو ان کے ہمراہ سپاہی ،کنیز یں بیگمات ،موسیقار ،علماء، ادباء شعرا و شاعرات

فارسی زبانوں کے عالم تھے۔ ہندی پر بھی دسترس تھی۔ بھی تھیں۔ آپ اردو اور آپ ایک اعلی پائے کے نثر نگار اور قادر الکالم شاعر تھے۔ آپ نے جملہ

ایک سو کتابیں اصناف سخن پر قلم اٹھایا۔ اور مختلف علوم و فنون پر تقریبا

نظروں سے جو کتب تصنیف کیں۔ کوکب قدر سجاد علی مرزا نے ان کتب کیجب کہ راقم کی نظر سے مندرجہ تعداد ۹۳۰ ں ان کی تعداد بیالیس ہے۔گزری

کے عالوہ اکیس مزید کتب کے نام گزرے ہیں ۔ان کے عالوہ بھی کئی مخطوطات

ابو المظفر ناصر الدین سکندر جاہ قیصر زمان سلطان اور کتب موجود ہیں گویا ات انجام دیں انھیں واجد علی شاہ نے فروغ اردو زبان و ادب میں جتنی خدم

فراموش کرنا وقت کے بس میں نہیں ا وراگرکبھی ایسا ہو ا تو یہ اردو زبان و

نمونہ وعۂ واجدیہ سے ادب کی بد قسمتی ہو گی۔ آپ کی نثر بڑی سادہ تھی۔ مجم :مالحظہ ہو

ار ہیری اور موتی اچہی باتونکی اوس پاک پروردگار کو پہبتی ہیں کہ چ’’

دیواری اس جہان اور جہانکی رہنی والونکی اوسینی بنائی ہی اور بڑائی

بہت اور اچہا کہنا بے گنتی روس چہٹی لکہنی والیکو پہنچتا ہی کہ ایک

نکا اوسی کی قلم قدرت سے ٹکڑا اس دنیا کی تاوکا اور دنیا کی رہنی والو

۹۳۱‘‘ ے۔درست ہ

رم عصیاں سے پانی ش : تجھ سے کس منہ سے آبرو مانگوں

۹۳۲پانی ہوں

معمورۂ : مجموعۂ نیکی سر محراب زمانہ

؎933ہستی میں رخ در یگانہ

اختر تجھے وہ آنکھیں ابھی سے دکھاتے

ہیں

Page 130: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

130

دوہری نہ روکی جائے گی تیر و تبرکی

۹۳۴چوٹ

م گنگا جشن تھا وہ بھی شاعر تھے اور عزیز دیا کرشن ایمان کے والد کا نا

تخلص کرتے تھے۔ دیا کرشن شاہ آباد میں پیدا ہوئے۔ لیکن لکھنؤ میں زندگی گزاری۔ واجد علی شاہ کے دور میں بخشی الممالک کے عہدے پر فائز ہوئے۔

نازک مزاج، وضع دار، خوش ’’ کیفی چڑیا کوٹی آپ کے بارے لکھتے ہیں کہ

آپ کے کالم ۹۳۵‘‘رام موجی سے مشورۂ سخن کرتے تھے۔تقریر تھے۔ موجی میں گداز اور درد ہے جس سے ایک لطف پیدا ہوتا۔ زبان سلیس اور انداز بیان دل

نشین ہے۔

ء ۱۸۵۷احمد علی خان شجاع بھی ایک ایسے مجاہد تھے جو اپنا سب کچھ پ دلی کے رہنے والے تھے۔ کی جنگ آزادی کی نذر کر کے سر خرو ہوئے۔ آ

ء کی جنگ میں گردش تقدیر نے ہزاروں میل کی مسافت طے کر ا دی۔ ۱۸۵۷

میرٹھ سے جو باغی فوج دلی آئی تھی ۔اس کی رسد گاہ کا انتظام انھیں کے سپرد تھا۔ فنون سپہ گری کے ساتھ ساتھ درس نظامی کی تکمیل بھی کی تھی۔ آزادئ

حصہ لیا۔وطن کے جہاد میں سر فروشانہ میں کسی کو برا نہیں کہتا

۹۳۶میرا دشمن فقط فرنگی ہے

یہ ایک مغل جوان ہے نہایت بردبار ، سپاہی ’’مرزا اسد بیگ رفیق دہلوی

پیشہ ،صاحب ہنر ،مرزا ابو ظفر بہادر شاہ بادشاہ کے خواصوں میں تھا۔ شاگرد عذر سے پہلے اپنے مکان میں مشاعرہ ۹۳۷‘‘ حکیم ثناء ہللا خان فراق کا ہے۔

بھی کیا کرتے تھے۔ طبیعت دار شخص تھے۔ فکر رسا اور زبان پاکیز ہ تھی۔بہہ رہی ہے ہجر میں تیرے سدا خونبار

چشم

اور تو ہم سے خفا ہے حیف ہو کر چار

۹۳۸چشم

تھا۔ جو حضرت سید عنایت حسین طالب کے والد کا نام سید عباس حسین

بندہ نواز گیسو دراز کی اوالد سے تھے۔ سید عنایت حسین کے بزرگ گلبرگہ دکھن سے بھوپال میں آئے۔ یہاں بھی آ پ کو وہی عزت اور مقام دیا گیا اور انھیں

ریاست بھوپال میں مناصب عطا ہوئے۔سید ممتاز علی نے سید عنایت حسین کو سپاہی آدمی لکھا ہے۔ جو تیس

اگرچہ آپ کا منصب یا عہدہ نہیں لکھا گیا لیکن ۹۳۹روپیہ ماہانہ پاتے تھے۔

اس عہد میں تیس رو پے ماہوار ایک جمعدار)موجودہ نائب صوبیدار( یا حوالدار تھے۔ منشی فدا علی فارغ کی ہوتی تھی۔ آپ شعر و سخن میں باذوق اور باشوق

سے شرف تلمذ تھا ۔صوفیانہ مزاج تھا اور شعر اچھا کہتے تھے۔

منشی حسن یار خان افضل کے دادا محمد یار خان سرکار اودھ میں رسالدار تھے۔ جب کہ والد باقر علی خان کا شمار امرائے لکھنو میں ہوتا تھا۔

Page 131: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

131

بادشاہ اودھ واجد علی شاہ کے دور حکومت میں بخشی منشی حسن یار خان افضل

گری کے عہدے پر مامور ہوئے اور ساتھ ہی فوج میں منصب عطا ہوا ۔نیز سرکار سے انھیں اسعدالدولہ و بروایت دیگر اسدالدولہ کا خطاب بھی مال۔ شاہ

اودھ کے ساتھ ضعیفی کے باوجود ترک وطن کر کے کلکتہ کا سفر کیا۔ او روہیں

شاعری میں آپ خواجہ حیدر علی آتش کے ۹۴۰ء سے پہلے انتقال ہوا۔۱۸۷۳شاگرد تھے۔ کالم میں بھی وہی استاد کا سابانکپن او ررکھ رکھاؤ ہے ۔ آپ صاحب

دیوان تھے جو اب نایاب ہے۔دل کو گیسوئے پریشان سے ہوا عشق

افضل

سا نظر آتا ہے مجھے خواب پریشاں کی

۹۴۱

میر نوروز علی اہل سادات میں سے تھے آپ سید امام بخش کے سب سے

بڑے فرزند تھے۔ تعلیم حاصل کی اور جب جوان ہوئے تو اودھ کی شاہی فوج میں بھرتی ہو گئے۔ اور جلد ہی آخری تاجدار اودھ بادشاہ واجد علی شاہ کے مصاحبین

یکھ کر شعر گوئی کی طرف میں شمار ہونے لگا۔ لکھنؤ کے ادبی ماحول کو د

متوجہ ہوئے۔ اور پھر خاصا وقت لکھنؤ کی ادبی محافل میں گزارا۔ شعر و ادب کا اچھا ذوق رکھتے تھے

پشت میں گردیز سے دل شاد ہے

۹۴۲مصطفی آباد میں آباد ہے

تعمیل چاند خان عطا اصل نام چاند خان تھا لیکن موالنا تسلیم کے ارشاد کی

کی ایک میں اسے تبدیل کر کے عطا ہللا خان کر لیا۔آپ کا وطن ٹونک تھا جے پورپہلے میں آپ نے ۔آپ شاعری زندگی گزار دی پلٹن میں بھرتی ہوئے اور یہیں

۔ اردو اور فارسی میں اچھی استعداد کیموالنا تسلیم سے مشاورت پھراورجنون

شعرائے جے پور کا ایک تذکرہ بھی تھی۔ عطا ہللا خان عطا نے اپنے زمانے کےلکھا۔ آپ کا ایک ضخیم دیوان بھی تھا جس میں اردو اور فارسی کالم موجود تھا۔

یہ دونوں چیزیں اب نایا ب ہیں۔ روانی و پختگی ،مضمون آفرینی، لطیف زباں

۹۴۳،محاکات کے نمونے اور تاثیر آپ کے کالم میں بخوبی پائی جاتی ہے۔لہ مرزا محمد مہدی قبول احسان الملک ،ثابت جنگ خطاب کپتان مقبول الدو

اور قبول تخلص تھا۔ واجد علی شاہ اختر کے مصاحب و مشیر اور اس کی فوج

میں توپ خانہ کے داروغہ تھے۔ واجد علی شاہ ان کے بارے میں اپنی کتاب بنی :میں لکھتے ہیں

،میر اٹھارہ کپتان مقبول الدولہ مرزا محمد مہدی قبول ہم مشورۂ راقم’’

انیس برس کا سن تھا۔ جو میرا ان کا ساتھ ہوا۔ میرے مالزم رہے۔ میرے

والد کے مالزم رہے۔ میرے عہد میں خدمت چوکی پلنگ خاص و

مصاحبت اور چھاپہ خانہ اور کتب خانہ اور کرنیل راٹن کا توپ خانہ یہ

ئی پائی سب ان کے پاٹنام رہااور بعد انتزاع سلطنت اودھ جب راقم نے رہا

Page 132: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

132

یہ میرے پاس موجود تھے۔ حسرت زیارات عتبات عالیات میں انتقال کیا۔

‘‘۹۴۴

کپتان صاحب بادشاہ کے ساتھ کلکتہ میں آئے لیکن پھر لکھنؤ واپس چلے

ناسخ کے مشہور شاگردوں میں ۹۴۵ء کو وفات پائی۔۱۸۶۰گئے جہاں اپریل کیا۔ آپ صاحب دیوان تھے سے تھے۔ شمشیر خانی کاترجمہ اردو نظم میں

اب اے قبول : اسی سر میں شانہ کرتا تھا تھامیں کر جبیں

۹۴۶ملتا ہوں لیل و نہار ہاتھ ہاتھ کہتا ہے کہ مجھ کو دست عیسی کیجیے: خامہ کہتا ہے

مجھے بھی شاہ طوبی کیجیے

ء کے ۱۸۵۷میں صوبیدار تھے۔ کئی جنگوں میں حصہ لیا صوبیدار سیتا رام فوج ۔ ڈاکٹر راحت "سپاہی سے صوبیدار تک"آپ کی تصنیف ہے۔چشم دید گواہ تھے۔

ام ء لکھی ہے۔ سیتار۱۸۷۳ابرار نے اردو میں اس کتاب کی اشاعت الہور سے

کی وفات بھی اسی سال کی ہے۔ مثیر الحسن نے انھیں بنگال آرمی سے متعلق ۹۴۸ اور اپنی کتاب میں ان کا یہ اقتباس نقل کیا ہے۔ لکھا ہے

جس میں پنڈتوں کی راحت ابرار نے اپنی کتاب میں ایک اقتباس نقل کیا ہے

کمپنی کی اس پیش گوئی کا ذکر کیا ہے جو جنگ پالسی کے ایک سو بعد ۹۴۹ حکومت کے خاتمہ کے حوالے سے تھی۔

اہ دہلی کی جانب سے منصب نواب ذوالفقار علی خان متخلص آذر بادش

قلعداری شاہجہان آباد سے سرفراز تھے اور یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا کہ جو جگہ بادشاہوں کے رہنے کی تھی۔ اس کے منصب قلعداری پر فائز ہونا کم مرتبہ

نہ تھا۔ ہوئے نا خوش تپاں دیکھا جو مجھ کو

۹۵۰حذنگ غمزہ نے گویا خطا کی

سید محمد سجاد علی خان بہادر تیغ جنگ ،رئیس لکھنؤ ،ذوالفقار الدولہ خطاب ،سریرام نے انھیں سلطان کا بھائی اور جنرل کے عہدے پر فائز لکھا ہے۔

نیز لکھا ہے کہ آپ مٹیا برج میں بادشاہ کے ہمرکا ب تھے۔ شاعری کا شوق بچپن

اور بھی صیقل کر دی اور سے ہی تھا مگر بادشاہ کی صحبت میں سیف طبع پر اچھے خاصے شاعر بن گئے۔

اڑایا ذرہ ذرہ کر کے میری خاک تربت کو

یہی الزم تھا ان کو خوب کی توقیر مٹی

۹۵۱کی

مرزا محمود بیگ راحت ولد مرزا احمد بیگ، آبائی وطن رام پور تھا لیکن

تھا اور اس پر تقریبا تمام تذکرہ دہلی میں سکونت پذیر تھے۔ سپہگری وسیلۂ معاش

نگار متفق ہیں۔ شعر و ادب کا شوق ابتدا سے تھا اور شاعری میں حکیم مومن خان مومن سے اصالح لیتے تھے گوہر نوشاہی آپ کے بارے میں رقم طراز ہیں۔

Page 133: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

133

ء( سے قبل لیفٹنٹ کرنل جیمز سکنر)م ۱۸۲۶بھرت پور کی لڑائی)’’

خوش ہو کر انھیں تھی۔ فریزر نے تھے۔ ء ( کے رسالہ میں شامل ۱۸۴۱

مالزمت سے پہلے راحت نے سکنر کی ء۱۸۳۷دفعداری دے دی تھی۔

دہلی چھوڑ کر بھوپال آگئے۔ جہاں نواب جہانگیر محمد ترک کر دی اور

خان دولہ شمشیر جنگ نے انھیں اپنی مصاحبت میں لے لیا۔ راحت نے

واب صاحب کی طرف سے خود اقرار کیا ہے کہ آشتہ کی لڑائی میں وہ ن

ء( کے ۱۸۴۰نومبر ۱۹شامل تھے۔ نواب جہانگیر محمد خان کی وفات )

۹۵۲‘‘بعد راحت دہلی آگئے۔

۔ آپ کی چار ء درج ہے ۔لیکن کوئی سند نہیں۱۸۸۱ھ/۱۲۹۸آپ کی وفات تصانیف کا ذکر ملتا ہے۔ تذکرہ حزنیہ راحت، مثنوی ہشت عدل، نتائج المعانی

ہشت عدل میں عدل و انصاف کے موضوع پر آٹھ واقعات مثنوی ۹۵۳،واسوخت

۔مختلف بحروں میں نظم کیے گئے ہیں۔ نمونۂ کالم مالحظہ

بندۂ ذوالجالل عرش مکان

؎954جبرئیل اس کے در کا اک دربان

میر شہداد خان حیدری اپنے والد میر نور محمد خان کی وفات کے بعد

۔ ہوئےکے لقب سے حیدر آباد کی حکومت میں شریک ‘‘سرکار بلند اقتدار ’’

سقوط کے بعد دوسرے امیروں سے جدا سورت کے قید خانے میں محبوس ہوئے۔ اگست ۲۸ھ/۱۲۸۴محرم الحرام ۸وہاں سے کلکتہ منتقل کیے گئے ۔ جہاں

میر شہداد خان صاحب ذوق سلیم تھے۔ فارسی، ۹۵۵ء کو وفات پائی۔ ۱۸۵۷

سندھی اور اردو میں شعر کہتے تھے۔ صاحب دیوان تھے۔ حیدری ہو گا تو آزاد نہ گھبرا ہرگز

۹۵۶نا امید از کرم شاہ شہیداں مت ہو

بلرام پور جنھیں جنگ مہاراجہ دگ بجے سنگھ بہادر راجہ والئ ریاست آزادی کے دوران انگریزوں کی خیر خواہی کے عوض سی آئی ایس کا خطا ب

ء میں سرکار اودھ پر انگریزی تسلط ہو گیا تو بجے سنگھ ۱۸۵۶ ۔۹۵۷مال۔ ۔

ہو کر اپنی خدمات پیش کر رنگ فیلڈ کمشنر بہڑائچ کے پاس حاضنے چارلس وول نمبر کی کرسی، سات ہزار کا خلعت ء میں لکھنؤ کے دربار میں ا۱۸۵۹۔ دیں

شعر و سخن کا ۹۵۸،مہاراجہ بہادر کا خطاب اور اختیارات دیوانی عطا ہوئے۔

منشی جواہر سنگھ جوہر کے شاگرد تھے۔ ان کی سر پرستی میں ’’ ذوق بھی تھا۔ آپ ۹۵۹‘‘ ء میں انتقال کیا۔۱۸۸۴احسن التواریخ جیسی کتابیں بھی شائع ہوئیں۔

وان تھے۔ آپ کے کالم میں فصاحت و بالغت پائی جاتی ہے۔صاحب دی تیرے فروغ حسن نے اے رشک آفتاب

مکھڑے کا نور چاند سے دو چند کر دیا

۹۶۰

فرزند )متبنی(پنڈت شیام نرائن تکو عاشق: آپ پنڈت رام نرائن تکو کے لیکن ساری زندگی ریاست جے پور میں گزاری ۔ تھے۔ آبائی وطن کشمیر تھا۔

Page 134: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

134

تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ریاست جے پور کی فتح پلٹن میں مالزم ہو

آپ نے تقریبا ۹۶۱گئے۔اور ترقی کر کے کپتان کے عہد ے پر ممتاز ہوئے۔ ء میں وفات پائی۔ آپ کبھی کبھی شعر کہتے تھے اور عاشق تخلص کرتے ۱۸۹۶

اہ سے دیکھا جاتا تھا۔ جے پور میں آپ کو قدر کی نگتھے۔ دبستان

۔اپریل ۱۹ھ/۱۲۵۰ذی الحجہ ۲نواب کلب علی خان نواب: دہلی میں ء میں آپ کے والد نواب یوسف علی خان والئی ۱۸۵۷ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۸۳۵

رامپور تھے ۔جنھوں نے انگریزوں کی بھرپور مدد کی اور فائدے اٹھائے۔ جب

کووالد کی مسند پر بیٹھے تو رامپور کی ریاست میں آپ کو ۱۲۸۱ء /۱۸۶۵مارچ ۲۳انگریزوں کی مکمل حمایت حاصل کی۔ آپ نے رامپور میں

آپ اردو اور فارسی ۹۶۲ھ میں وفات پائی ۱۳۰۴جمادی اآلخر ۲۷ء/۱۸۸۷

اپنی تحریریں چھوڑیں۔نمونہء میں شعر کہتے تھے جب کہ نثر میں بھی آپ ہو۔تحریر مالحظہ

سامنے سے ایک ’’ ابھی شاہزادہ واالتبا ریہی کیفیت دیکھ رہا تھا۔ دفعتا

مار ہفت رنگ، یہ ثابت ہوتا تھا کہ صناعان ازل اور حکاکان قدرت نے بو

قلموں ٹکڑے جواہر بیش بہا کے لے کر اپنی قدرت نابغۂ خداوندی

ان وصنعت کارسازی سے شکل اسے سانپ کی بنائی ہے۔ مثل کامل مہوش

ہر گل اور پھول سے طناز سے پیچ و تاب کھاتا قریب درختوں کے آیا اور

۹۶۳ ہم آغوش ہوا۔

نواب کی شاعری کے چار دیوان کا ذکر کوائف نامہ میں کیا گیا ہے۔ لیکن

موجود ہے۔ جس ‘‘ مضامین رفیع’’راقم کے سامنے ان کا پانچواں دیوان بعنوان

:کا پہال شعر ہےاز ہے دیوان پنجم کا : نہ ہو دنیا میں کیوں کر غلغلہ خدا کی حمد سے آغ

محفل میں گو نہ سمجھے کوئی اس سے بحث کیا ۹۶۴میرے تکلم کا

۹۶۵نچانتے ہیں وہ تو مرے اضطراب کو پہ : شکار پور ضلع بلند شہر کے رہنے والے تھے۔ جے پورمحمد علی ایمان

طب )میڈیکل کور( میں اپنے فرائض ادا کی فوج میں مالزم تھے اور محکمہ

یمان خود کو مومن خان مومن کا شاگرد کہتے تھے۔ یار لوگوں نے ۔اکرتے تھےان کے اس قول کو ان کے وطن سے منسوب کیا اور یہاں تک پیچھا کیا کہ ان

کے سروس رول موجودہ محکمہ افواج سے ان کی تاریخ والدت او رمومن کی

کے اس قول کی تردید کی ۔بعض کہتے ہیں کہ بوجہ ہم تاریخ وفات معلوم کرپیشگی یعنی طبیب ہونے اور ایمان و مومن کی نسبت سے ایسا کہتے ہوں

۹۶۶‘‘گے۔

۔ایمان ایک پر گو او ر خوش فکر شاعر تھے یہ تو اے حضرت ایماں در مے خانہ ہے

آپ سر سجدے میں وہللا کدھر رکھتے ہیں

۹۶۷

Page 135: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

ء 1836عالقہ ناگپور کے قصبہ چاندہ میں نی محمد عبدالرحمان خان کلیا

ء میں الہ آباد میں رسالے کی گیارہویں رجمنٹ میں بھرتی 1849میں پیدا ہوئے۔ ہوئے ۔کچھ ہی عرصہ بعد فوج کو خیر باد کہہ دیا اور

ء میں محکمہ ۱۸۷۳ء میں مدرس عربی فارسی مقر ر ہو گیا۔ ۱۸۶۷ ’’

اپیل صدر عدالت دیوانی اور صدر نظامت فوجداری کا حاکم مقر ہوا۔

ء میں سر رشتہ تعلیم مقرر ہوا۔ کچھ عرصہ بعد ڈسٹرکٹ سپر ۱۸۷۶

نٹنڈنٹ پولیس ہو گیا جس میں مجسٹریٹی کے اختیارات کلی حاصل تھے

اور اسی کے ساتھ جج مطالبات خفیفہ اور کمشنر میو نسپلٹی اور حفظان

۹۶۸‘‘صحت مقرر ہوا۔

آپ شاعر اور نثر نگاردونوں حوالوں سے معتبر تھے لیکن آپ کی کوئی

( ۱تحریر اسالمی موضوعات سے ہٹ کر نہیں ۔ آپ کی تصانیف میں سے )

( ۴کنز اال خالق الھل اآلفاق)( ۳فقہ کے سو مسئلے)( ۲مسلمان کی چالیس باتیں)دیگر تصانیف میں درج ذیل نام سرکوب بدعت راقم کے زیر مطالعہ رہی ہیں۔

قدرت ( ۸اسرار قدرت)( ۷رموز ہستی )(۶تلخیص امور)( ۵شامل ہیں۔ )

شگوفۂ بستان مذاہب ( ۱۲جواب شافی)( ۱۱نظارۂ عالم)( ۱۰جلوۂ کائنات)(۹الہی)( ۱۷سیرت القاضی)( ۱۶چہل آیت)( ۱۵بقعۂ نور)( ۱۴رسالۂ شب برات) (۱۳)

( ۲۰مختصر تاریخ راجپوتانہ)( ۱۹کلیانی ) تاریخ ( ۱۸جامع فرائض رحمانی)

۹۶۹سوانح عمریمولوی محمد عبدالرحمان صاحب کلیانی جج و سپرنٹنڈنٹ پولیس کی نظم

نثر بھی۔ بھی اسالمی دائرے سے باہر نہیں نکلی اور قول حق جو نہ سنے خارج از اسالم ہے وہ

میں علم دیں جو نہ پڑھے ہے وہ حقیقت

۹۷۰جعل

آپ کی نثر میں بھی ایک جاذبیت ہے ۔ قرآن اسالم اور اخالقیات کے مسائل

خدا کسی ’’کو بڑے سادہ اور خوبصورت انداز میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ :کو اس طرح سمجھایا ہے‘‘میں حلول نہیں کرتا

ہو جانے کو حلول ایک چیز کا دوسری چیز میں سما جانے یا پیوست’’

۔سوخدا تعالی کی کاال یا سفید رنگ پیوست ہو جائے کہتے ہیں ۔جیسے کسی میںنسبت ایسا ہونا محال ہے۔ کس لیے کہ جس چیز میں خدا حلول کرے وہ چیز اس

کی محل ہوئی ۔اور خدا حال ہوا اور محل حادث اور محتاج ہوا اور خدا بھی ایسا

۔ پس ہللا تعالی کسی چیز میں نہیں در آتا اور کسی ہی ہوا۔ سو ایسا نہیں ہو سکتا ۹۷۱ ۔چیزمیں در آنا صفات جسم سے ہے

ء کی جنگ آزادی کے غداروں میں ۱۸۵۷رائے پردومن کشن مراد آبادی

ایک نام مراد آباد کے رئیس اور تعلقدار اضال ع رائے پر دومن کشش کا بھی آتا انگریزوں کا ساتھ دیا اور اہل وطن بلکہ ہے۔ اس نے اس جنگ آزادی میں

مجاہدین سے غداری کی۔ وہ خود اپنے دستوں کی کمان کرتے ہوئے میدان جنگ

Page 136: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

136

میں مجاہدین کے خالف لڑا۔ ایک معرکہ میں تو مجاہدین کے خالف شدید جنگ

کے بعد کچھ اسلحہ چھین لیا اور آدمی بھی زخمی کیے۔یل کھنڈ سے بھاگ کر نینی تال پر دومن نے انگریزوں کے جو آدمی روہ

کو شاعری کا بھی شوق تھا آپی رقم بھجوا کر مدد کی۔ چلے گئے تھے ان کی بھ

۔ او رہادی تخلص کرتے تھے یہ ہم تو کہتے تھے ہادی نہ دل لگاؤ کہیں

۹۷۲نتیجہ دیکھ لیا تم نے آشنائی کا

تک مغلیہ سلطنت زوال ء( سے جنگ آزادی۱۷۰۷اورنگ زیب کی وفات)

پذیری کا شکار رہی۔ راجے، مہاراجے ،رئیس ،نواب اپنی اپنی ریاستیں قائم کر

کے بڑے بڑے خواب دیکھتے رہے۔ غیر ملکی واردین نے بھی سونے کی اس چڑیا کو لوٹنے میں کوئی کسر نہ رہنے دی۔ یورپین تاجروں نے اپنی اپنی

بتہ فروغ پایا۔ نئی زبان اردو کے نام سے حکومتیں قائم کر لیں۔ شعر و ادب نے ال

متعارف ہوئی۔ تو شعراء نے خاص طورپر ادبا نے کسی حد تک اس کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن اس میں زیادہ تر حصہ ان لوگوں کا رہا۔ جن کا تعلق

افواج سے تھا۔ برصغیر کے رئیسوں ،نوابوں، راجوں ،مہاراجوں نے اپنی اپنی

رکھی تھی۔ جس کی کمان ان کے اپنے ہاتھوں میں تھی۔ مغلیہ خاندان کے فوج بنا شہزادے سب سات ہزاری یا نہ ہزاری تھے۔ اور میدان جنگ میں فوج کی کمان

کے ذمہ دار تھے۔ بہر حال اس ڈیڑھ سو سال میں ان گنت شاعر او رادیب ہوئے۔

جاہدین بھی تھے جن کا تعلق عساکرسے تھا۔ وہ باقاعدہ بھی تھے اور ان میں ماور جز وقتی بھی۔ غرض انھوں نے فروغ اردو زبان اور خدمت ادب اردو میں

اپنے بہت سے نقوش چھوڑے۔

Page 137: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

حواشی وتعلیقات ۳۴ء ،ص ۲۰۱۷شاکر کنڈان ، مقاالت نو)شخصی( ،رنگ ادب پبلی کیشنز ،کراچی ، ۔۱

ائش میں محققین کے درمیان اختالف پایا جاتا ہے۔تاریخ پید *

۲۶فیروز سنز ،امیر خسرو ،فیروز سنز پرائیوٹ لمٹیڈ الہور ،کراچی ،س ن ،ص ۔۲ ۳۷شاکر کنڈان ، ایضا،ص ۔۳

محمد حسین آزاد، شمس العلماء موالنا ،آب حیات، سنگ میل پبلی کیشنز ،الہور ، س ن ۔۴

۶۴،ص ۵۳ضا،ص فیروز سنز، ای ۔۵

نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر ،جلد اول ،خدا بخش اورینٹل پبلک الئبریری ،پٹنہ ، ۔۶

۲۱۳ء ،ص ۲۰۰۴اشاعت ثانی ،،مطبوعات شیخ غالم علی الہور ،س ن ،ص ۱اے حمید، اردو شعر کی داستان ، قسط نمبر ۔۷

۱۴

ء ،ص ۱۹۹۰محمود شیرانی ،پنجاب میں اردو،اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ ،دوسری بار، ۔ ۸۱۲۷

الف ۔د ۔نسیم ،ڈاکٹر، اردو ئے قدیم اور چشتی صوفیاء ، مقتدرہ قومی زبان پاکستان ، اسالم ۔ ۹ ۷۴ء ،ص ۱۹۹۷آباد،

ہیں یہاں در در در در کے الفاظ پنجابی زبان میں بھگانے کے معنی میں استعمال ہوتے *

موئے دو معنی استعمال ہوا ہے ایک تو اس معنی میں کہ دفعہ ہو جاؤ تمہیں موت آئے اور اگر اسے فارسی کے الفاظ سمجھا جائے تو در موتی کے معنی ہیں اور مو بال کے معنی

میں آتا ہے یعنی ایک ایک بال کی قیمت ایک ایک موتی ہے۔

۷۴الف۔د ۔نسیم ، ایضا،ص ۔ ۱۰ ۶۴، ۶۳، ۶۲محمد حسین آزاد، ایضا،ص ۔۱۱

۴۶فیروز سنز ، ایضا،ص ۔۱۲

۷۷الف ۔د۔ نسیم ، ایضا،ص ۔۱۳ ۴۴مقبول بیگ بدخشانی ، میرزا ، ارمغان عقیدت ،پیکچز لمیٹڈ الہور، س ن ، ص ۔۱۴

زبان ، نئی جامع اردو انسائیکلو پیڈیا ،جلد اول )ادبیات( ،قومی کونسل برائے فروغ اردو ۔۱۵

۲۲۲ء،ص ۲۰۰۳دہلی ، ۹۸الف۔د ۔نسیم ،ایضا،ص ۔۱۶

ء ۱۹۸۷جمیل جالبی ، ڈاکٹر،تاریخ ادب اردو، جلد اول،مجلس ترقی ادب الہور، بار سوم ، ۔۱۷

۳۵،ص ء ،ص ۱۹۸۴طاہر تونسوی ، ڈاکٹر، ملتان میں اردو شاعری ،سنگ میل پبلی کیشنز الہور ، ۔۱۸

۳۳

مقبول بیگ بدخشانی ،میرزا ،ایضا، ۔۱۹ ۷۴ء ،ص ۲۰۱۲روبینہ ترین ،ڈاکٹر، تاریخ ادبیات ملتان، مقتدرہ قومی زبان، اسالم آباد، ۔۲۰

نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر ،جلد اول، خدا بخش اورینٹل پبلک الئبریری پٹنہ، دوم ۔۲۱

Page 138: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

138

۱۹۵ء،ص ۲۰۰۴

۱۱۹لد دوم، ایضا،ص نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر، ج ۔۲۲ ۴۱۴جامع اردو انسائیکلو پیڈیا، جلد اول ،ایضا،ص ۔۲۳

۱۱۹نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر، جلد دوم، ایضا،ص ۔۲۴

۴۱۴جامع اردو انسائیکلو پیڈیا ،جلد اول، ایضا،ص ۔۲۵ ۹ء ،ص ۱۹۹۶سیدہ جعفر ،مرتبہ ،دکنی ادب کا انتخاب ،ساہتیہ اکادمی ،نئی دہلی ، ۔۲۶

شاہد نو خیز اعظمی، سلطان فیروز شاہ بہمنی بحیثیت شاعر، مشمولہ ، ماہنامہ سب رس ۔۲۷

۲۴ء ،ص ۲۰۱۰حیدر آباد، دکن ،جون ، ۴۹۷تاریخ مرکز ہند، بہت پرانا نسخہ ہے جس کی ابتدائی صفحات پھٹے ہوئے ہیں۔ ص، ۔۲۸

ء ۱۹۸۷لس ترقی ادب ،الہور ،سوم ،جمیل جالبی ، ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو ، حصہ اول، مج ۔۲۹

۶۰،ص ۔ ۳۰ ایضا

۱۵۹نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر ،جلد دوم ،ایضا،ص ۔ ۳۱

ء ،ص ۲۰۰۲محمد ریاض انجم ، ڈاکٹر،ا دبی تاریخ ضلع قصور، خزینہ علم و ادب ،الہور ، ۔ ۳۲۱۷۳

۱۷۴ایضا،ص ۔ ۳۳

۸۳ء ،ص ۲۰۰۰عزیز علی شیخ ،مشاہیر پنجاب کا انسائیکلو پیڈیا ،نگارشات، الہور ۔ ۳۴محمد حسین آزاد، شمس العلماء ،موالنا ،دربار اکبری ،قوی کونسل برائے فروغ اردو زبان ۔ ۳۵

۵۳۰، ۵۲۹ء ،ص ۲۰۱۰نئی دہلی ، دوم ،

۱۵۹نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر، جلد دوم ، ایضا،ص ۔ ۳۶ ۱۷۵محمد ریاض انجم ، ایضا ،ص ۔ ۳۷

محمد سعید احمد مارہروی ،آثار اکبری یعنی تاریخ فتح پور سیکری ،مطبع اکبری ۔ ۳۸

۱۲۱ھ ،ص ۱۳۲۴آگرہ، ۷ء،ص ۲۰۰۶امیر علی خان ،اکبر بادشاہ کے نورتن ،علم و عرفان پبلشرز ،الہور ، ستمبر ۔ ۳۹

۱۲۲محمد سعید احمد مارہروی ، ایضا،ص ۔ ۴۰

۷امیر علی خان ،ا یضا،ص ۔ ۴۱ ۶۱ناظم سیوہاروی ،ہندو زبان اورہند، کتاب منزل ،الہور، س ن ، ص ۔ ۴۲

علی محمد ،مولوی و رام دتہ مل ،راجہ بیربر کی مکمل سوانح عمری اور لطائف ،نول ۔ ۴۳ ۱۸ء ،ص ۱۹۰۳کشور پریس ،الہور

۱۹ایضا،ص ۔ ۴۴

۔ ۴۵ ایضا ۴۲۸ء ،ص ۱۹۹۳،مشائخ احمد آباد ،مکتبہ الحرمین ،الہور ،یوسف متاال، موالنا ۔ ۴۶

ء ،ص ۲۰۰۵شخصیات عالم کا انسائیکلو پیڈیا ، نگارشات پبلشرز الہور ، ۱۰۰۱عبدالوحید، ۔ ۴۷

۲۰۶ ۵۰نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر، جلد دوم ،ایضا،ص ۔ ۴۸

Page 139: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

139

۲۷۶جامع انسائیکلو پیڈیا ،جلد اول ، ایضا،ص ۔ ۴۹

۵۶۷د حسین آزاد،دربار اکبری ،ایضا،ص محم ۔ ۵۰سہیل بخاری ، ڈاکٹر،ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ ، مکتبہ اسلوب، کراچی ، ۔ ۵۱

۵۶ء ،ص ۱۹۸۵

صمدی، ڈاکٹر، خان خاناں کی ہندی شاعری ،مشمولہ ،ماہنامہ نگار کراچی ، سالنامہ ۔ ۵۲ ۱۶۶ء ،ص ۱۹۸۴،فروری/مارچ

ء ،ص ۱۹۸۷تقویم تاریخی ،ادارہ تحقیقات اسالمی ، اسالم آباد ، دوم عبدالقدوس ہاشمی ، ۔ ۵۳

۲۴۱ ۲۵۹ایضا،ص ۔ ۵۴

۵۶سہیل بخاری ، ڈاکٹر، ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ ، ص ۔ ۵۵

۔ ۵۶ ایضا ۴۳۰یوسف متاال ، موالنا ایضا،ص ۔ ۵۷

۵۶سہیل بخاری، ایضا،ص ۔ ۵۸

۵۷۰محمد حسین آزاد ،دربار اکبری ، ایضا ،ص ۔ ۵۹فرمان فتح پوری ، کالسیکل ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ، مشمولہ ،ماہنامہ نگار، ۔ ۶۰

۱۶۰ایضا،ص

۱۶۱ایضا،ص ۔ ۶۱ ۱۶۸صمدی، ڈاکٹر، ایضا،ص ۔ ۶۲

۱۹ء ،ص ۱۹۸۷ادا جعفری ،غزل نما، انجمن ترقی اردو پاکستان ،کراچی ، ۔ ۶۳

ء۱۹۷۸مجلہ صریر خامہ)نعت نمبر( شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی جام شورو، ۔ ۶۴ ۵۲۱ء،ص ۲۰۱۲نند کشور و کرم ، مصور تذکرے ، مؤ لف خود، دہلی ۔ ۶۵

)کوائف نمبر( بمبئی ،جلد اول ، شمارہ نمبر ‘‘ شخصیت اور فن’’ششماہی ، ۔ ۶۶

۱۷ء ،ص ۱۹۹۰ء تا ستمبر ۱۹۸۳،مارچ ۲۷،۲۸،۲۹،۳۰ ۴۹۴مع اردو انسائیکلو پیڈیا ،جلد اول ،ایضا،ص جا ۔ ۶۷

۲۴۴عبدالقدوس ہاشمی ،ایضا،ص ۔ ۶۸

زبیر رضوی ،سلطان محمد قلی قطب شاہ ، مشمولہ :سہ ماہی ذہن جدید ،نئی دہلی ،جلد ۔ ۶۹ ۱۱ء ،ص ۲۰۰۹جون تا اگست ۵۴شمارہ :۱۹

۵ء ،ص ۱۹۵۲،الہور، زیدی دہلوی ، مرتب ، اردو شاعروں کا البم ، غالب بک ڈپو ۔ ۷۰ ۵ء ،ص ۱۹۷۱محمد قلی قطب شاہ ، روپ رس، مرتب:جاویدو ششسٹ ،بک سروس ،دہلی ۔ ۷۱

کا پورا سال ۹۸۸درج ہے۔ لیکن ۱۶۱۲ء اور وفات ۱۵۸۱پر سن تخت نشینی ۵صفحہ *

ء میں آتا ہے۔۱۵۸۰ ۴۹۴جامع اردو انسائیکلو پیڈیا ،جلد اول ،ایضا،ص ۔ ۷۲

محی الدین قادری زور ، ڈاکٹر، سید ،کلیات سلطان محمد قلی قطب شاہ ، مکتبہ ابراہیمہ ۔ ۷۳

۳۱ء ،ص ۱۹۴۰حیدر آباد )دکن( ۵زیدی دہلوی ، ایضا،ص ۔ ۷۴

Page 140: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

140

۸محی الدین قادری زور،ایضا،ص ۔ ۷۵

۱۰،۱۱محمد قلی قطب شاہ ،روپ رس ، ایضا،ص ۔ ۷۶ ۱۰محی الدین قادری زور، ایضا،ص ۔ ۷۷

۲۳۲، ص ۱۹۵، ص ،۳ایضا،حصہ غزل ،ص ۔ ۷۸

۲۷۱ایضا ،ص ۔ ۷۹ ۲۰نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر، جلد اول ، ایضا،ص ۔ ۸۰

۱۲جامع اردو انسائیکلو پیڈیا، جلد اول ،ایضا،ص ۔ ۸۱

۱۸۵جمیل جالبی ،ڈاکٹر ،تاریخ ادب اردو، جلد اول، ایضا،ص ۔ ۸۲مرتب:اردو مخطوطات کی فہرستیں ،جلد اول ،اردو اکیڈمی پاکستان الہور رفاقت علی شاہد، ۔ ۸۳

۴۰ء ،ص ۲۰۰۰،

۲۷سیدہ جعفری ،دکنی ادب کا انتخاب، ایضا ،ص ۔ ۸۴ ۱۸۰نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر ،جلد دوم ،ایضا،ص ۔ ۸۵

دو زبان نئی دہلی محمد انصار ہللا ، جامع التذکرہ ، جلد اول ،قومی کونسل برائے فروغ ار ۔ ۸۶

۹۵ء ،ص ۲۰۰۶، ۳۶۷جامع اردو انسائیکلو پیڈیا ،جلد اول ، ایضا،ص ۔ ۸۷

۱۸شش ماہی ،شخصیت و فن ،کوائف نمبر، ایضا،ص ۔ ۸۸

۸۵ء ،ص ۱۹۵۲نصیر الدین ہاشمی ،دکن میں اردو، اردو مرکز الہور ،چوتھی بار، ۔ ۸۹ ۔ ۹۰ ۳۶۷،ص جامع اردو انسائیکلو پیڈیا ،جلد اول ، ایضا

۱۱محی الدین قادری زور ، ایضا ،ص ۔ ۹۱

۱۸شش ماہی شخصیت و فن۔کوائف نمبر، ایضا،ص ۔ ۹۲محمد قطب شاہ ،خطبہ کلیات محمد قلی قطب شاہ ، مشمولہ:سلطان محمد قلی قطب شاہ از ۔ ۹۳

۱۳محی الدین قادری زور ،ایضا،ص

۲۸۳ء ،ص ۱۹۹۱مئی ، ۱۱ہ :،شمار۲ماہنامہ زینت ،الہور ،شخصیات نمبر، جلد ۔ ۹۴محمد عبدالجبار صوفی ملکا پوری ،مولوی ،محبوب الزمن تذکرہ شعرائے دکن ،حصہ دوم ۔ ۹۵

۷۸۰ھ ،ص ۱۳۲۹،مطبع رحمانی حیدر آبا د،

۴۵نصیر الدین ہاشمی ،دکن میں اردو ، ایضا،ص ۔ ۹۶ ۱۱۰سیدہ جعفر ،دکنی ادب کا انتخاب، ایضا،ص ۔ ۹۷

۶۷نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر ،جلد دوم ،ایضا،ص ۔ ۹۸ ۷۷۸محمد عبدالجبار صوفی ملکا پوری ،ایضا،ص ۔ ۹۹

۶۸نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر ،جلد دوم ،ایضا،ص ۔ ۱۰۰

۷۸۰محمد عبدالجبار صوفی ملکا پوری ، ایضا،ص ۔ ۱۰۱ ۶۰نصیر الدین ہاشمی ، دکن میں اردو، ایضا،ص ۔ ۱۰۲

آپ نے جن اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ان میں حمد، نعت ، مرثیہ ،قصیدہ ۔ ۱۰۳

،مثنوی ، غزل اور رباعی کا ذکر کیا جا تاہے۔ ۶۱۔۶۰نصیر الدین ہاشمی ، دکن میں اردو، ایضا،ص ۔ ۱۰۴

Page 141: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

141

۱۱۱سیدہ جعفر ،دکنی ادب کا انتخاب، ایضا،ص ۔ ۱۰۵

طات انجمن ترقی اردو، جلد پنجم، انجمن ترقی افسر صدیقی امروہوی ،مرتب: مخطو ۔ ۱۰۶ ۲۰ء ،ص ۱۹۷۸اردو پاکستان ،کراچی ،

۶۴۴بحوالہ مآثر امراء ،جلد سوم ،ص *

۲۰افسر صدیقی امروہوی ،ایضا،ص ۔ ۱۰۷،شمارہ ۲فہمیدہ بیگم ، ڈاکٹر، شاہی ،مشمولہ:ششماہی فکر و تحقیق ،نئی دہلی ، جلد: ۔ ۱۰۸

۷ ء ،ص۱۹۹۰،جنوری تاجون ،۳

۲۳۷جمیل جالبی ،ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو ، جلد اول ،ایضا،ص ۔ ۱۰۹علی عادل شاہ ثانی شاہی ،کلیات شاہی ،مرتب:سید مبارز الدین رفعت ، انجمن ترقی ۔ ۱۱۰

۷۸ء،ص۱۹۶۲اردو)ہند( علی گڑھ،

۷جمیل جالبی ، ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو، جلد اول ،ایضا،ص ۔ ۱۱۱ ۷فہمیدہ بیگم ،ڈاکٹر، شاہی ،ایضا،ص ۔ ۱۱۲

۲۶۷عبدالقدو س ہاشمی ، تقویم تاریخی ،ایضا،ص ۔ ۱۱۳

۸فہمیدہ بیگم ،ایضا،ص ۔ ۱۱۴ ۵۶ء ،ص ۱۹۸۷ادا جعفری ،غزل نما، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی ، ۔ ۱۱۵

۴۷سیدہ جعفر ،دکنی ادب کا انتخاب، ایضا،ص ۔ ۱۱۶

۱۰۵انی شاہی، ایضا،ص علی عادل شاہ ث ۔ ۱۱۷ ۱۴۴ایضا،ص ۔ ۱۱۸

۱۵۲ایضا،ص ۔ ۱۱۹

۱۹۹ایضا،ص ۔ ۱۲۰ ۱۱۷نظامی بدایونی ، قاموس المشاہیر،جلد دوم، ایضا،ص ۔ ۱۲۱

محمد انصار ہللا ، جامع التذکرہ ،جلد اول ، قومی کونسل برائے فروغ اردو ،نئی دہلی ۔ ۱۲۲

۱۰۶ء ،ص ۲۰۰۶، ء،ص ۲۰۰۶نور الحسن ہاشمی ، ڈاکٹر، دہلی کا دبستان شاعری ،بک ٹاک ،الہور ، ۔ ۱۲۳

۹۵

عزیز الدین احمد بلخی راز ، سید، تاریخ شعرائے بہار، جلد اول ،دی قومی پریس ۔ ۱۲۴ ۵۳ء ،ص ۱۹۳۱لمیٹڈ بانکی پور ،پٹنہ،

۶۶محمد انصار ہللا ،جامع التذکرہ ،ایضا،ص ۔ ۱۲۵ء ،ص ۲۰۰۱ی ،رفتگاں و قائمان ،نرالی دنیا پبلی کیشنز نئی دہلی ، عبدالمنان طرز ۔ ۱۲۶

۱۸۴

۳۲نظامی بدایونی ، قاموس المشاہیر، حصہ اول، ایضا،ص ۔ ۱۲۷ ۱۶۶جامع اردو انسائیکلو پیڈیا ،جلد اول ،ص ۔ ۱۲۸

۶۹، ۶۸نصیر الدین ہاشمی ،دکن میں اردو، ایضا،ص ۔ ۱۲۹

و ڈاکٹر عبدالغنی ،ارمغان عقیدت، پیکجز لمیٹڈ ،الہور مقبول بیگ بدخشانی ، میرزا ۔ ۱۳۰ ۱۰۹،س ن ،ص

Page 142: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

142

ء ،ص ۲۰۰۵خلیق انجم ،غالب کا سفر کلکتہ ،انجمن ترقی اردو پاکستان ،کراچی ، ۔ ۱۳۱

۲۴۷ ۲۴۹ایضا،ص ۔ ۱۳۲

۶۱نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر، جلد دوم ، ایضا،ص ۔ ۱۳۳

یخ اردو ، اردو اکیڈمی سندھ، کراچی ، چوتھا ایڈیشن حامد حسن قادری ، داستان تار ۔۱۳۴ ۳۳ء ،ص ۱۹۸۸،

۱۳۰جامع اردو انسائیکلو پیڈیا ،جلد اول ،ایضا،ص ۔ ۱۳۵

۶۱نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر ،جلد دوم ،ایضا،ص ۔ ۱۳۶ ۱۳۰جامع انسائیکلو پیڈیا، جلد اول، ایضا،ص ۔ ۱۳۷

۲۰، شیخ غالم علی، الہور ، س ن ،ص ۱اے حمید، اردو نثر کی داستان، قسط نمبر ۔ ۱۳۸

۶۳ء ،ص ۱۹۰۶علی لطف، میرزا ،گلشن ہند، دارا الشاعت پنجاب، الہور ، ۔ ۱۳۹سہیل بخاری ، ڈاکٹر، ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ ،مکتبہ اسلوب، کراچی ۔ ۱۴۰

۸۳ء ،ص ۱۹۸۵

ء میں ہوئی تھی ۔ اور چند دن اعظم ۱۷۰۷چونکہ اورنگ زیب عالمگیر کی وفات ۔ ۱۴۱ء ۱۷۰۷شاہ نے حکومت کی لیکن اپنے بھائی معظم شاہ کے ہاتھوں شکست کھائی تو گویا

میں معظم شاہ تخت پر براجمان ہوا۔

۸۳سہیل بخاری، ڈاکٹر، ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ ، ایضا،ص ۔ ۱۴۲ ۸۴ا،ص ایض ۔ ۱۴۳

حیدر آباد دکن کا پرانا نام ہے۔ یہ شہر سلطان محمد قلی قطب شاہ نے اپنی محبوبہ ۔۱۴۴

بھاگ متی کے نام سے منسوب کیا تھا۔قائم چاند پوری ،قیام الدین ،تذکرہ مخزن نکات، مرتبہ:پروفیسر ڈاکٹر اقتدا حسن ۔ ۱۴۵

۱۵ء ،ص ۱۹۶۶،مجلس ترقی ادب الہور، نومبر

س ہللا قادری ، حکیم سید، تاریخ زبان اردو مع اردوئے قدیم ،جنرل پبلشنگ ہاؤس شم ۔ ۱۴۶ ۱۱۰ء ،ص ۱۹۶۳کراچی

۳، شیخ غالم علی ، الہور ، س ن ، ص ۳اے حمید، اردو شعر کی داستان ، قسط ۔ ۱۴۷

۴۷ایضا،ص ۔ ۱۴۸ ۴۸ایضا،ص ۔ ۱۴۹

۷۸سہیل بخاری ، ڈاکٹر، ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ ، ایضا،ص ۔ ۱۵۰ ۲۸۴جامع اردو انسائیکلو پیڈیا ،جلد اول ،ایضا،ص ۔ ۱۵۱

۷۸سہیل بخاری ، ایضا،ص ۔ ۱۵۲

۷۹ایضا،ص ۔ ۱۵۳ ۸۰ایضا،ص ۔ ۱۵۴

اچی افسر صدیقی امروہوی ، مرتب:بیاض مراثی ،ا نجمن ترقی اردو ،پاکستان ،کر ۔ ۱۵۵

۳ء ،ص ۱۹۹۹،بار دوم ، ۲۸۰عبدالقدوس ہاشمی ، تقویم تاریخی ،ایضا،ص ۔ ۱۵۶

Page 143: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

143

تر بھون ،تینوں عالم یعنی بہشت ،دوزخ ،دنیا کو کہتے ہیں ۔۱۵۷

۴افسر صدیقی امروہوی ،ایضا،ص ۔ ۱۵۸ ۶۸محمد انصار ہللا ، جامع التذکرہ ،جلد اول ،ایضا،ص ۔ ۱۵۹

وی ،تذکرہ خندۂ گل ،مطبع نگار مشین پریس نظیر آباد ،لکھنؤ عبدالباری آسی ، مول ۔ ۱۶۰

ء ہو گا۔ کیونکہ اہتمام نیاز فتح ۱۹۲۹ء لکھاہے لیکن راقم کے خیال کے مطابق ۱۸۲۹)طبع ء کے عہد کے ہیں نیز عبدالباری آسی کارخانہ ۱۹۲۹پوری نے کیا ۔اور مؤلف اور پبلشر دونوں

۱۵۵ء ہے۔(، ص ۱۹۴۶ء۔۱۸۹۳

ء ،ص ۱۹۹۶محمد جمیل احمد، اردو شاعر ی پر ایک نظر، غضنفر اکیڈمی ،کراچی ۔ ۱۶۱۴۷

ء ۱۹۸۳رانا گنوری ، ڈاکٹر، تذکرہ شعرائے ہریانہ ،مصنف خود،کیتھل )ہریانہ ( ، ۔۱۶۲

۱۲،ص محمد فرحت ہللا بلند شہری ،مولوی ، مرتب :کلیات میر جعفر زٹلی ، مطبع نجات ۔۱۶۳

۱۳ء ،ص ۱۹۲۵مشین پریس بجنور ،

۶:۷ایضا،ص ۔ ۱۶۴ء، ۲۰۰۳، ۲رشید حسن خان ، زٹل نامہ، مطبع ثمر آفسٹ پرنٹنگ پریس، دہلی ۔ ۱۶۵

۲۲۳ص

رؤف پاریکھ، ڈاکٹر، اردو نثر میں مزاح نگاری کا سیاسی اور سماجی پس منظر، ۔ ۱۶۶ ۷۹ء ،ص ۲۰۱۲انجمن ترقی اردو پاکستان ،کراچی ، دوم ،

۲۷ت ،کوائف نمبر، ایضا،ص شش ماہی فن اور شخصی ۔۱۶۷

۲۲۴رشید حسن خان، ایضا،ص ۔ ۱۶۸ ۲۱۷ایضا،ص ۔ ۱۶۹

ء ۱۹۸۷گیان چند پروفیسر، اردو کی نثری داستانیں ،اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ ، ۔۱۷۰

۱۸۲،ص افسر صدیقی امروہوی ،مرتب:مخطوطات انجمن ،جلد چہارم ،انجمن ترقی اردو ۔ ۱۷۱

۳۱،۳۲ء ،ص ۱۹۷۶پاکستان ،کراچی ،

محمود الرحمان ،جنگ آزادی کے اردو شعراء ،قومی ادارہ ،رائے تحقیق و ثقافت ۔۱۷۲ ۱۲۵ء ،ص۱۹۸۶اسالم آباد ،

۷۵ء ،ص ۱۹۸۵شہناز انجم ،ڈاکٹر ،ادبی نثر کا ارتقاء ،خود ،دہلی ،اکتوبر ۔۱۷۳، کراچی سر فراز علی رضوی ، ماخذات ،جلد اول ، انجمن ترقی اردو پاکستان ۔ ۱۷۴

۱۴۷ء ،ص ۱۹۷۷۔۷۸،

۴۳محمد انصار ہللا ،جامع التذکرہ ، جلد اول ، ایضا،ص ۔ ۱۷۵ ۴۳ایضا،ص ۔ ۱۷۶

۲۹۱عبدالقدوس ہاشمی ، تقویم تاریخی ،ایضا،ص ۔ ۱۷۷

۳۰۸نصیر الدین ہاشمی ، دکن میں اردو، ایضا،ص ۔ ۱۷۸شعار، مشمولہ :ماہنامہ رہبر فاروقی ،معین الدین ،حضرت آصف جاہ کے اردو ا ۔ ۱۷۹

Page 144: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

144

۸ء ،ص ۱۹۴۲ہندوستانی ادب )سالگرہ نمبر( حیدر آباد ،جون

۳۲شش ماہی شخصیت و فن ،کوائف نمبر ، ایضا،ص ۔۱۸۰،اردو ادب دوم، پنجاب یونیورسٹی ،الہو ۷تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند ،جلد ۔ ۱۸۱

۷۴ء ص ۱۹۷۱ر

کے کنارے زینت النساء بیگم نے بنوائی تھی۔ زینت المساجد دریائے جمنا ۔۱۸۲ ۸۷محمد حسین آزاد، موالنا ،آب حیات،سنگ میل پبلی کیشنز ،الہور ،س ن ، ص ۔۱۸۳

جمیل جالبی ،ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو، جلددوم، مجلس ترقی ادب الہور، سوم ، مارچ ۔ ۱۸۴

۲۵۷ء ،ص ۱۹۹۴جمیل جالبی حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ میر عبدالحئ تاباں نے مضمون کی وفات پر ۔ ۱۸۵

قطعۂ تاریخ وفات لکھا جو پانچ اشعار پر مشتمل دیوان تاباں میں موجود ہے اور جس کے آخری

ھ برآمد ہوتے ہیں۔۱۱۴۷شعر کے دو مصرعے کے پہلے چھ لفظوں سے مصرع نمونہ کے طورپر دیا ہے اس کے چھ ،لیکن جو ‘‘ کدموئے ہے ہے میاں مضمون کہا’’

میں سے ایک کم کر کے ‘‘ ہے ہے’’نکلتا ہے۔ او راگر دو ۱۱۷۴نہیں سات الفاظ ہیں جس سے

)،اعداد نکلتے ہیں۔ لہذا راقم کی سمجھ سے یہ اعداد باہر ہیں۔ )ش۱۱۶۹چھ الفاظ لیے جائیں تو ۳خ غالم علی ،الہور ،س ن، ص ، شی۱۰اے حمید، اردو شعر کی داستان ،قسط نمبر ۔ ۱۸۶

۱۹۶نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر ، جلد دوم ،ایضا،ص ۔۱۸۷

ء ،ص ۱۹۸۹عظیم الحق جنیدی ،اردو ادب کی مختصر تاریخ ،فیمس بکس، الہور ، ۔ ۱۸۸۶۸

۳۲شش ماہی شخصیت و فن ،کوائف نمبر ، ایضا،ص ۔ ۱۸۹

ء ۲۰۰۰اول ، مطبع کلکتہ پریس نیو دہلی ،بشارت فروغ، و فیات مشاہیر اردو، حصہ ۔ ۱۹۰ ۵۶۳،ص

۵۳قائم چاند پوری ،قیام الدین ،تذکرہ مخزن نکات ،ایضا،ص ۔ ۱۹۱

ء ،ص ۲۰۰۶نور الحسن ہاشمی ، ڈاکٹر ، دہلی کا دبستان شاعری ، بک ٹاک الہور، ۔۱۹۲۱۱۵

ن ،کراچی عبدالعزیز کالم ،شاہ ، اردو کے امی شعراء ،اردو اکیڈمی ،پاکستا ۔۱۹۳

۱۵۳ء ،ص ۱۹۹۶، ۸۳محمد انصار ہللا ،جامع التذکرہ ، جلد اول ،ایضا،ص ۔ ۱۹۴

۸۴ایضا،ص ۔ ۱۹۵ ۱۵۳عبدالعزیز کالم ،ایضا،ص ۔ ۱۹۶

۱۵۴ایضا،ص ۔۱۹۷

علیم صبا نویدی ،ٹمل ناڈو کے مشاہیر ،مرتبہ:جاویدہ حبیب ،ٹمل ناڈو اردو پبلی ۔ ۱۹۸ ۱۲۴ء ،ص ۱۹۹۹کیشنز ،مدراس

۱۲۴ایضا،ص ۔ ۱۹۹

شمس ہللا قادری ، شمس المورخین ،حکیم سید، تاریخ زبان اردو)اردوئے قدیم( ۔۲۰۰ ۹۰،مطبع تاج پریس اورنگ آباد ، س ن ، ص

Page 145: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

145

۱۲۵علیم صبا نویدی ،ٹمل ناڈو کے مشاہیر ،،ایضا،ص ۔ ۲۰۱

۱۲۷: ۱۲۶ایضا،ص ۔۲۰۲ ۳۷ل ، ایضا،ص محمد انصار ہللا ، جامع التذکرہ ،جلد او ۔۲۰۳

نور الحسن ہاشمی ، ڈاکٹر، ،دلی کا دبستان شاعری ، اردو اکیڈمی ،سندھ کراچی ، ۔ ۲۰۴

۱۲۳ء ،ص ۱۹۸۹ ۳۱شش ماہی فن اور شخصیت ،کوائف نمبر ،ایضا،ص ۔ ۲۰۵

۶۹عظیم الحق جنیدی ،اردو ادب کی مختصر تاریخ ،ایضا،ص ۔ ۲۰۶

۳۸، ۳۷، ۳۶ایضا،ص محمد انصار ہللا ،جامع التذکرہ ، ۔۲۰۷ ۳۱سہ ماہی فن اور شخصیت ، کوائف نمبر ،ایضا،ص ۔ ۲۰۸

۲۹۳عبدالقدوس ہاشمی ، تقویم تاریخی، ایضا،ص ۔ ۲۰۹

۳۱شش ماہی فن اور شخصیت ،کوائف نمبر ،ایضا،ص ۔ ۲۱۰ ۱۵۹،۱۶۱جمیل جالبی ، ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو، جلد دوم ،ایضا،ص ۔ ۲۱۱

نذیر احمد ،پروفیسر ،سراج الدین علی خان آرزو ،مشمولہ :سراج الدین علی خان ۔۲۱۲

۲۷ء ،ص ۲۰۰۴آرزو ، ایک مطالعہ،مرتبہ :شاہد ماہلی ، غالب انسٹی ٹیوٹ ،نئی دہلی، ۱۰۵نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر ، جلد اول ،ص ۔۲۱۳

۱۱۹،ایضا،ص نو رالحسن ہاشمی ، ڈاکٹر ،دلی کا دبستان شاعری ۔ ۲۱۴

۱۹علی لطف ، میرزا ،گلشن ہند ،ایضا،ص ۔ ۲۱۵ ۷۴،۷۵قائم چاند پوری ،تذکرہ مخزن نکات، ایضا، ص ۔ ۲۱۶

۱۳۴جمیل جالبی ، ڈاکٹر ،تاریخ ادب اردو، جلد دوم ،ایضا،ص ۔۲۱۷

لکھا ہے۔‘‘ پاس نفس’’کی بجائے ،‘‘ نقش وفا’’گلشن ہند از علی لطف میرزا میں ۔ ۲۱۸ کی بجائے کو ڈھب تحریر کیا گیاہے۔‘‘ کڈھب’’گلشن ہند میں ۔ ۲۱۹

۱۲۰،۱۲۱نور الحسن ہاشمی ، ایضا،ص ۔ ۲۲۰

سہیل بخاری ، ڈاکٹر، اردو کا قدیم ترین ادب، مشمولہ :سہ ماہی صحیفہ ، الہور ۔ ۲۲۱ ۳۰ء ،ص ۱۹۶۷اپریل ۳۹:شمارہ ،

(۵۹۳ص ایضا)بحوالہ مشر بندھو و نود، حصہ دوم ، ۔۲۲۲

غالم ہمدانی مصحفی ،تذکرہ ہندی ،مرتبہ ، مولوی عبدالحق ، مطبع جامع برقی ۔۲۲۳ ۸۰ء ،ص ۱۹۳۳پریس دہلی،

غالم ہمدانی مصحفی ،عقد ثریا، مرتبہ:مولوی عبدالحق ، جامع برقی پریس دہلی ، ۔ ۲۲۴ ۲۳ء ،ص ۱۹۳۴

۷۹، اردو ادب حصہ دوم ،ا یضا،ص ۷تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند ،جلد ۔ ۲۲۵

خان سامان مغلیہ دور میں ایک معزز عہدہ تھا۔ جسے ہم نے خانساماں میں تبدیل کر کے *باورچی بنا دیا۔ خان ساماں لشکر ہی سے متعلق ہوتے تھے ۔ جنھیں ایک خاص اعتمادی مرتبہ

حاصل تھا۔

از شیخ ظہور الدین حاتم ، مکتبہ غالم حسین ذوالفقار ،ڈاکٹر، مقدمہ دیوان زادہ، ۔ ۲۲۶ ۱۶ء ، ص،۱۹۷۵خیابان ادب، الہور، مارچ ،

Page 146: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

146

ء ،)پہلی بار ۱۹۸۳کریم الدین، طبقات شعرائے ہند، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ ، ۔۲۲۷

۱۳۳ء (،ص ۱۸۴۵رام بابو سکسینہ ،ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو، مترجم ،مرزا محمد عسکری ، مرتبہ ،تبسم ۔ ۲۲۸

۶۳ء ،ص ۱۹۸۴ی ،علی بک ہاؤس الہور ، کاشمیر

حسرت موہانی ،موالنا ،تذکرۃ الشعراء ،مرتبہ:شفقت رضوی، ادارہ یادگار ۔ ۲۲۹ ۳۰ء ،ص ۱۹۹۹غالب ،کراچی ،

رؤف پاریکھ، ڈاکٹر اردو نثر میں مزاح نگاری کا سیاسی اور سماجی پس منظر ۔۲۳۰

۸۳ص 249،ایضا ۹۸لوی ،آب حیات، ایضا،ص محمد حسین آزاد، موالنا مو ۔ ۲۳۱

ء،ص ۱۹۷۵ظہور الدین حاتم شیخ ، دیوان زادہ ، مکتبہ خیابان ادب الہور، مارچ ۔۲۳۲

۲۹ سیدہ جعفر، تاریخ ادب اردو، جلد اول ، مطبع بی ایس گرافکس، دلسکھ نگر حیدر ۔۲۳۳

۱۱۵ء ،ص ۲۰۰۲آباد،

ء تک ،سنگ میل پبلی ۱۸۵۷تبسم کاشمیری ،ڈاکٹر، اردو ادب کی تاریخ ابتدا سے ۔ ۲۳۴ ۲۷۰ء،ص ۲۰۰۹کیشنز ،الہور

۵۲ء ،ص ۱۹۹۴امیر عارفی ،ڈاکٹر ،شہر آشوب ایک تجزیہ ، مصنف خود ،دہلی ۔ ۲۳۵

۸۱، اردو ادب :دوم ،ایضا،ص۷تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند ،جلد : ۔ ۲۳۶ ۸۱ہمدانی مصحفی ، تذکرۂ ہندی ،ایضا،ص غالم ۔۲۳۷

نجم اال سالم ،ڈاکٹر ،تین نثری نوادر ،مشمولہ :ماہنامہ نقوش، الہور ،شمارہ ۔ ۲۳۸

۱۴۴ء،ص ۱۹۶۶،اپریل ،مئی ،جون ۱۰۵تک ( سنگت پبلشرز ،الہور ۱۸۵۷شگفتہ ذکریا، ڈاکٹر ،اردو نثر کا اارتقا)آغاز سے ۔ ۲۳۹

۴۰، ۳۹، ۳۸ء ،ص ۲۰۰۴،

ء میں آتا ہے۔ چونکہ زمانی ترتیب ہے اور بعض شخصیات ۱۷۱۶ھ کا سن ۱۱۲۸ ۔۲۴۰کی تاریخ والدت کی تالش میں ناکامی کے باعث کچھ شخصیات ترتیب میں آگے پیچھے ہو گئی

ہیں۔

صمصام شیرازی ، یادگار سلور جوبلی )جلد جاگیر داران( حصہ اول ، مطبع تاج ۔ ۲۴۱ ۶ص پریس حیدر آباد دکن ، س ن ،

نور الحسن ہاشمی ، ڈاکٹر، دلی کا دبستان شاعری اردو اکادمی سندھ، کراچی ، ۔۲۴۲ ۱۴۵ء ،ص ۱۹۸۹

سعادت علی خان ناصر ، خوش معرکہ زیبا، مرتبہ مشفق خواجہ، مجلس ترقی ادب ۔۲۴۳

۱۱۸ء،ص ۱۹۷۰الہور، اپریل میر حسن دہلوی ،تذکرہ شعرائے اردو ،مرتبہ :موالنا محمد حبیب الرحمان شیروانی ، ۔ ۲۴۴

۲۱۷ء ،ص ۱۹۲۲مسلم یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ ،

۸۵تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند ،ساتویں جلد، اردو ادب)دوم( ایضا،ص ۔ ۲۴۵ ۲۳ششماہی فن اور شخصیت، کوائف نمبر، ایضا،ص ۔ ۲۴۶

Page 147: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

147

۲۶۲جمیل جالبی ، ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو ،ایضا،ص ۔۲۴۷

۱۴۵نور الحسن ہاشمی ، ڈاکٹر ،دلی کا دبستان شاعری ، ایضا،ص ۔ ۲۴۸ ۴۲قائم چاند پوری ، قیام الدین ،تذکرہ مخزن نکات، ایضا،ص ۔ ۲۴۹

رقی مردان علی خان مبتال، گلشن سخن، مرتبہ:مسعود حسن رضوی ادیب ،انجمن ت ۔۲۵۰

۲۶۲ء،ص ۱۹۶۵اردو )ہند( ،علی گڑھ، ۶۵۵بشارت فروغ ، وفیات مشاہیر اردو، حصہ اول،ایضا ،ص ۔ ۲۵۱

ء ۲۰۱۳یاسر جواد ،انسائیکلو پیڈیا ادبیات عالم ،اکادمی ادبیات پاکستان، اسالم آباد ، ۔۲۵۲

۹۳۹،ص ۷۵ تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند ، ساتویں جلد، ایضا،ص ۔۲۵۳

۶۸رام بابو سکسینہ ،ڈاکٹر ،تاریخ ادب اردو،ایضا ،ص ۔۲۵۴

۱۴۸نور الحسن ہاشمی ، ڈاکٹر، دلی کا دبستان شاعری ،ایضا، ص ۔ ۲۵۵محمد شمس الحق ،گلہائے رنگ رنگ جلددوم ، نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم آباد، ۔ ۲۵۶

۴۳۶ء،ص ۱۹۹۵

۵۷قائم چاند پوری ،ایضا،ص ۔۲۵۷ ۸۶محمد انصار ہللا ،جامع التذکرہ ،جلد اول ،ایضا،ص ۔ ۲۵۸

ظہیر الدین مدنی ،سید ، سخنوران گجرات ،ترقی اردو بیورو نئی دہلی ۔ ۲۵۹

۱۷۷ء ،ص ۱۹۸۱، ۱۳۸علی لطف، میرزا، گلشن ہند ،ایضا،ص ۔۲۶۰

میر حسن دہلوی، تذکرہ شعرائے اردو، مرتبہ:موالنا محمد حبیب الرحمان، ۔ ۲۶۱

۱۰۳ایضا،ص ء ۱۹۷۹میر حسن، تذکرہ شعراء ہندی)نسخہ حیدری( اردو پبلشرز لکھنؤ ، ۔۲۶۲

۱۴۸، ۱۴۷،ص

۲۳۹محمد انصار ہللا ، جامع التذکرہ ،جلد اول ،ایضا،ص ۔۲۶۳صوفی ملکا پوری ، مولوی عبدالجبارخان، محبوب الزمن تذکرہ شعرائے دکن ،جلد ۔۲۶۴

۱۰۲۲دوم ،ایضا،ص

ی الدین زور، ڈاکٹر، دکنی ادب کی تاریخ ، اردو اکیڈمی سندھ کراچی، مح ۔ ۲۶۵ ۱۴۲ء،ص ۱۹۶۰

۱۰۲۲صوفی ملکا پوری ،ایضا،ص ۔ ۲۶۶ ۱۴۶کریم الدین، طبقات شعرائے ہند،ص ۔۲۶۷

۱۱۱نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر ،جلد اول ،ایضا،ص ۔ ۲۶۸

فتح علی حسینی گردیزی ،سید ،تذکرہ ریختہ گویاں ،مرتبہ :مولوی عبدالحق ، ۔۲۶۹ ۱۷ء ،ص ۱۹۳۳انجمن ترقی اردو اورنگ آباد، )دکن (

۱۴۷کریم الدین ،ایضا،ص ۔۲۷۰

۱۷فتح علی حسینی گردیزی ،سید، ایضا،ص ۔ ۲۷۱ ۴۸ایضا،ص ۔۲۷۲

Page 148: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

148

۱۱۰ء ،ص ۱۹۶۵و تصنیف کراچی ، ثناء الحق ،میرو سودا کا دور ، ادارہ تحقیق ۔۲۷۳

۹۹میر حسن ،تذکرہ شعراء ہندی ،نسخہ حیدری ،ا یضا،ص ۔ ۲۷۴ء ،ص ۲۰۰۶نور الحسن ہاشمی ،ڈاکٹر، دہلی کا دبستان شاعری ،بک ٹا ک،الہور ، ۔ ۲۷۵

۲۰۱

ء آتا ہے۔۱۷۴۹۔۵۰ھ میں سن عیسوی ۱۱۶۳ ۱۰۰میر حسن ،تذکرہ شعراء ،ہندی نسخۂ حیدری ،ایضا،ص ۔۲۷۶

ء ،ص ۱۹۶۸لچھمی نرائن شفیق ،تذکرہ چمنستان شعراء، عظیم الشان بک ڈپو، پٹنہ، ۔۲۷۷

۳۸ ۱۰۵ثناء الحق ،میرو سودا کا دور، ایضا،ص ۔ ۲۷۸

(ء کے سنین آتے ہیں۱۷۴۹ء اور ۱۱۴۸ھ میں ۱ ۱۶۲)۱۰۶ایضا،ص ۔ ۲۷۹

۴۷۴ء ،ص ۱۹۱۱سری رام ،اللہ، خم خانۂ جاوید، جلد دوم ،امپیریل بک ڈپو،دہلی ، ۔۲۸۰ ۱۰۴کریم الدین ، طبقات شعرائے ہند، ایضا،ص ۔ ۲۸۱

۲۰۲نور الحسن ہاشمی ،ڈ اکٹر ،دہلی کا دبستان شاعری ،ا یضا،ص ۔۲۸۲

۴۷۴سری رام ،اللہ، خم خانۂ جاوید، جلد دوم ،ایضا،ص ۔۲۸۳ ۱۰۲ر حسن ،تذکرہ شعراء ہندی ،ایضا،ص می ۔۲۸۴

۱۰۴کریم الدین ،ایضا،ص ۔ ۲۸۵

۹۰ء ،ص ۱۹۴۳جگر بریلوی ،یاد رفتگاں ،مطبع انوار احمدی الہ آباد، ۔ ۲۸۶ ء۱۹۴۰بحوالہ مضمون سید رفیق احمد مارہروی مشمولہ ماہنامہ زمانہ جوالئی *

ء ۱۹۸۳نگ، مؤلف خود اتر پردیش ،جوہر دیو بندی ، بد ھ پرکاش گپتا ، موج گی ۔۲۸۷

۳۹۹،ص ۱۰۹ء ،ص ۱۹۵۷رفیق مارہروی ،سید ، ہندوؤ ں میں اردو، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ ، ۔ ۲۸۸

۹۲جگر بریلوی ،ایضا،ص ۔ ۲۸۹

۲۵۰علی لطف میرزا، گلشن ہند، ایضا،ص ۔ ۲۹۰ ۲۵۰ایضا،ص ۔ ۲۹۱

۱۸۸قائم چاند پوری ،تذکرہ مخزن نکات، ایضا،ص ۔۲۹۲

۴۰۷ء ،ص ۱۹۹۱مالک رام ،تذکرہ ماہ و سال ، مکتبہ جامعہ نئی دہلی، ۔۲۹۳ ۱۰۹رفیق مارہروی ،سید ،ایضا،ص ۔ ۲۹۴

۴۰۰جوہر دیو بندی ،ایضا،ص ۔ ۲۹۵ ۱۱۲رفیق مارہروی ، سید ، ایضا،ص ۔ ۲۹۶

۱۰۰میر حسن، تذکرہ شعراء ہندی ،نسخہ حیدری ، ایضا،ص ۔۲۹۷

۲۳۳حق میر و سودا کا دور ،ایضا،ص ثناء ال ۔ ۲۹۸ ۳۹۰جمیل جالبی ،ڈاکٹر ،تاریخ ادب اردو، جلد دوم ، ایضا،ص ۔ ۲۹۹

۳۹۰ایضا،ص ۔۳۰۰

۸۰میر حسن دہلوی، تذکرہ شعرائے اردو، ایضا،ص ۔ ۳۰۱ ۳۹۳، ۳۹۲سریرام ،اللہ، خم خانۂ جاوید، جلد دوم ،ایضا،ص ۔۳۰۲

Page 149: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

149

۶۴۱ے رنگ رنگ ،جلد دوم ،ایضا،ص محمد شمس الحق ، گلہائ ۔۳۰۳

۱۳علی لطف ،میرزا، ایضا،ص ۔ ۳۰۴درگاہ قلی خان ، مرقع دہلی، مرتبہ و مترجم :خلیق انجم ،مطبع :ثمر آفسٹ پرنٹرز، ۔ ۳۰۵

۱۹۷ء ،ص ۱۹۹۳نئی دہلی

۱۹۷ایضا،ص ۔ ۳۰۶ ۵۰محمد انصار ہللا ،جامع التذکرہ ، جلد اول،ص ۔۳۰۷

۱۱۰ء،ص ۱۹۹۹مشرق، نظر ثانی: افضل حق قریشی، تخلیقات الہور،مشاہیر ۔ ۳۰۸

۶۳۴ء ،ص ۱۹۸۵ماہنامہ نقوش، الہور، غزل نمبر ، طبع چہارم ،اکتوبر ۔ ۳۰۹ ۱۰۲نور الحسن ہاشمی ، ڈاکٹر، دہلی کا دبستان شاعری ، ایضا،ص ۔ ۳۱۰

۷۸قائم چاند پوری، تذکرہ مخزن نکات، ایضا،ص ۔ ۳۱۱

۵۲، ۵۱نصار ہللا ، جامع التذکرہ ،جلد اول، ایضا،ص محمد ا ۔۳۱۲ ۶۴۱محمد شمس الحق، گلہائے رنگ رنگ ،جلد دوم ، ایضا،ص ۔۳۱۳

فصیح ہللا ،سید فصیح الملک ،اردوئے فصیح ،مطبع نیشنل پریس الہ آباد، دوسرا ۔ ۳۱۴

۴۹ء ،ص ۱۹۲۲ایڈیشن ، ۴۹ایضا،ص ۔ ۳۱۵

ھ اور ۱۱۰۳شروع ہوتا ہے۔ یوں یہ سن عیسوی ھ سے۱۱۰۳ء جمادی االول ۱۶۹۲ ۔۳۱۶

ھ کے نصف پر مشتمل ہے۔۱۱۰۴ ۴۴سیدہ جعفر ،تاریخ ادب اردو، جلد اول ایضا،ص ۔۳۱۷

۲۷۴تبسم کاشمیری ،ڈاکٹر، اردو ادب کی تاریخ،ایضا،ص ۔ ۳۱۸

۲۴۲جمیل جالبی ،ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو ،جلد دوم ، ایضا،ص ۔ ۳۱۹محمد عارف ،مزاحیہ غزل کے خدوخال ،نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسالم آباد، ۔۳۲۰

۶۷ء،ص ۲۰۱۵

تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، ساتویں جلد، دوم ،پنجاب یونیورسٹی الہور، ۔ ۳۲۱ ۷۳ء،ص ۱۹۷۱

۱۷ء ،ص ۱۹۶۸فضل الحق ،ڈاکٹر ،دیوان شاکر ناجی ،ادارہ صبح ادب دہلی ، ۔۳۲۲

۲۷۴کاشمیری ، ڈاکٹر،ایضا،ص تبسم ۔۳۲۳، عساکر پاکستان ۲۴۲، اردو ادب کی مختصر تاریخ ۴۰پیمانہ غزل حصہ اول ،ص ۔ ۳۲۴

۲۰کی ادبی خدمات ، ص ،تاریخ ادب ۳۸،شش ماہی فن و شخصیت۔کوائف نمبر ص ۳۵۷ارباب سیف و قلم ،ص *

۱۰۰،میر و سودا کا عہد ص، ۱۱۴اردو،ص

، و دیگر تذکرے و تواریخ۷۲عالم ص انسائیکلو یڈیا ادبیات ۲۴۵جمیل جالبی ،ڈاکٹر ،تاریخ ادب اردو ، جلد دوم ،ایضا، ص ۔ ۳۲۵

افتخار بیگم صدیقی، مرتبہ:دیوان شاکر ناجی ،ا نجمن ترقی اردو)ہند( نئی دہلی ۔ ۳۲۶

۱۵۱ء ،ص ۱۹۸۹،ء ،ص ۱۹۵۲نصیر الدین ہاشمی ،دکن میں اردو،اردو مرکز الہور، چوتھی بار، ۔۳۲۷

Page 150: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

150

۳۴۷

۔ ۳۲۸ ایضالچھمی نرائن شفیق ،تذکرہ چمنستان شعراء، مرتبہ:عطا کاکوی ،عظیم الشان بک ۔ ۳۲۹

۹۱ء ،ص ۱۹۶۸ڈپوپٹنہ،

۵۴محمد انصار ہللا ،جامع التذکرہ ،جلد اول ، ایضا،ص ۔۳۳۰ ۳۳۹غ، وفیات مشاہیر اردو ،حصہ اول ،ص بشارت فرو ۔ ۳۳۱

۹۱لچھمی نرائن شفیق ،ایضا،ص ۔۳۳۲

۲۹۸عبدالقدوس ہاشمی ، تقویم تاریخی ،ایضا،ص ۔۳۳۳ ۲۰لچھمی نرائن شفیق، ایضا،ص ۔ ۳۳۴

۳۴۷نصیر الدین ہاشمی ،د کن میں اردو، ایضا،ص ۔ ۳۳۵

۲ء ،ص ۱۹۵۵صنف خود جے پور ،احترام الدین شاغل ،تذکرہ شعرائے جے پور، م ۔ ۳۳۶محمد سردار علی ، تذکرہ شعرائے اورنگ آباد، مطبع شمس االسالم پریس، دکن ۔۳۳۷

۳۴ھ، ص۱۳۴۵،

۵۵محمد انصار ہللا ، جامع التذکرہ جلد اول ،ایضا،ص ۔ ۳۳۸ ۳۲۰نصیر الدین ہاشمی ، دکن میں اردو، ایضا،ص ۔ ۳۳۹

۵۹لچھمی نرائن شفیق، ایضا،ص ۔۳۴۰

۳۲۰نصیر الدین ہاشمی ، ایضا،ص ۔ ۳۴۱ ۳۴۶ء، ص ۲۰۱۲انوار ہاشمی ،تاریخ پاک و ہند، کراچی بک سنٹر کراچی، چہارم، ۔۳۴۲

راز عظیم آباد، سید عزیز الدین احمد بلخی ۔ تاریخ شعرائے بہار، جلد اول ،ایضا ۔۳۴۳

۳،ص ۸اورنگ آباد، ایضا،ص محمد سردار علی حیدر آبادی ، مولوی ،تذکرہ شعرائے ۔ ۳۴۴

۲۵لچھمی نرائن شفیق ،تذکرہ چمنستان شعراء ،ایضا،ص ۔ ۳۴۵

شہابی اکبر آبادی ،مفتی انتظام ہللا ، مشاہیر اکبر آباد، جناح لٹریری اکیڈمی ،کراچی ، ۔ ۳۴۶ ۴۲س ن ،ص

۳۹۷قائم چاند پوری ،کلیات قائم ،جلد دوم ،ص ۔۳۴۷

ھ ،ص ۱۲۹۰را، مطبع منشی نول کشور، مقام ندا رد ، عبدالغفور نساخ ، سخن شع ۔ ۳۴۸۳۲۰

۱۶۷علی لطف ،میرزا ،گلشن ہند، ایضا،ص ۔ ۳۴۹ ۳۲ء ،ص ۱۹۲۲میر تقی میر، نکات الشعراء،مطبوعہ نظامی پریس بدایوں ، ۔۳۵۰

حمید اورنگ آبادی ، خواجہ حمید خان، گلشن گفتار ،مرتبہ سید محمد، مکتبہ ابراہیمہ ۔ ۳۵۱

۶۷ف، ص۱۳۳۹آباد )دکن(حیدر ۶۷حسینی گرد یزی ،سید فتح علی ، تذکرہ ریختہ گویاں ،ایضا ،ص ۔۳۵۲

۸۶قائم چاند پوری ،قیام الدین ،تذکرہ مخزن نکات ،ایضا،ص ۔۳۵۳

حسن دہلوی ،میر، تذکرہ شعرائے اردو ،مرتبہ :موالنا محمد حبیب الرحمان شیروانی ۔ ۳۵۴ ۱۱۳، ایضا،ص

Page 151: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

151

ء۱۷۱۲ء تا ۱۷۰۷۔ ۳۵۵

ابو اللیث صدیقی، ڈاکٹر، لکھنؤ کا دبستان شاعری ،غضنفر اکیڈمی ، کراچی ، چہارم ۔۳۵۶ ۹۴ء ،ص ۱۹۸۷

۶۴۹جمیل جالبی ، ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو ،جلد دوم ،ایضا،ص ۔۳۵۷

۶۴۹ایضا،ص ۔ ۳۵۸ ۸۳، ۸۲امیر عارفی ،ڈاکٹر ،شہر آشوب ایک تجزیہ ، ایضا،ص ۔ ۳۵۹

۵۵ء ،ص ۱۹۹۸مود الرحمان، ڈاکٹر ،سبد گل ،دوست پبلی کیشنز ،اسالم آباد ، مح ۔۳۶۰

۱۱قائم چاند پوری ،تذکرہ مخزن نکات، ایضا،ص ۔ ۳۶۱تفصیل کے لیے دیکھیے۔ ثناء الحق ایم اے علیگ کی کتاب میر و سودا کا دور)اردو ۔۳۶۲

۳۷۶تا ۲۷۰ء ،ص ۱۹۶۵شاعری کا عہد زریں ( مطبوعہ ادارہ تحقیق و تصنیف کراچی

۱۲۶محمد حسین آزاد، موالنا ،آب حیات، ایضا، ص ۔۳۶۳ ۳۶ء ،ص۱۹۳۶چاند ،شیخ ، سودا، اورنگ آباد، ۔۳۶۴

۹۴ابو اللیث صدیقی، ڈاکٹر، لکھنؤ کا دبستان شاعری ، ایضا،ص ۔ ۳۶۵

۱۵ء ،ص ۱۹۶۰عبدالودود قاضی ، ماہنامہ سب رس، حیدر آباد)دکن ( نومبر ۔ ۳۶۶ ۶۴۹جمیل جالبی ، ڈاکٹر،تاریخ ادب اردو، جلد دوم ،ایضا،ص ۔۳۶۷

۱۳۵نور الحسن ہاشمی ، ڈاکٹر، دہلی کا دبستان شاعری ،ایضا،ص ۔ ۳۶۸

۴۰صابر دت)مدیر (ششماہی فن او رشخصیت ۔کوائف نمبر ،ایضا، ص ۔ ۳۶۹ ۵۲ء ،ص ۱۹۹۴تان ، عبدالرشید عصیم ،تذکرہ تالمذہ شاہ حاتم دہلوی ، بیکن بکس مل ۔ ۳۷۰

۲۹۳تبسم کاشمیری ،ڈاکٹر، اردو ادب کی تاریخ ،ایضا ،ص ۔ ۳۷۱

۵۳، ۵۲عبدالرشید عصیم ، ایضا،ص ۔۳۷۲ ۷۶ء ،ص ۱۹۸۴، جنوری ۱۳۰، شمارہ ۱۰ماہنامہ نقوش، الہور، رسول نمبر ۔ ۳۷۳

۱۳۹نور الحسن ہاشمی ، ڈاکٹر، دہلی کا دبستان شاعری ، ایضا،ص ۔ ۳۷۴

۹۶امیر عارفی ،ڈاکٹر، ایضا،ص ۔ ۳۷۵ ۳۷۲شہناز انجم ،ڈاکٹر، ادبی نثر کا ارتقا،ایضا، ص ۔ ۳۷۶

خلیق انجم ،نواب درگاہ قلی خان کے سوانح ،مرقع دہلی از درگاہ قلی خان ،ایضا،ص ۔۳۷۷

۳۹ ۸۰محمد انصار ہللا ، پروفیسر ،جامع التذکرہ جلد اول ، ایضا،ص ۔ ۳۷۸

۴۰خلیق انجم ،ایضا،ص ۔ ۳۷۹ ۸۰محمد انصار ہللا ، ایضا،ص ۔۳۸۰

۵۷امیر عارفی ،ڈاکٹر ،ایضا،ص ۔ ۳۸۱

۱۷۰جمیل جالبی ،ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو، جلد دوم ، ایضا،ص ۔۳۸۲ ۲۷۸عبدالقدوس ہاشمی ،تقویم تاریخی، ایضا ،ص ۔۳۸۳

۴۰خلیق انجم ،ایضا،ص ۔ ۳۸۴

۴۱ایضا،ص ۔ ۳۸۵ ۵۷امیر عارفی ، ڈاکٹر، ایضا،ص ۔ ۳۸۶

Page 152: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

152

۱۷۰جمیل جالبی ، ڈاکٹر ،تاریخ ادب اردو جلد دوم ،ایضا ،ص ۔۳۸۷

۲۱۰محمد انصار ہللا ،پروفیسر ،ایضا، ص ۔ ۳۸۸ ۱۸۲میر حسن دہلوی، تذکرہ شعراء ہندی )نسخہ حیدری( ایضا،ص ۔ ۳۸۹

۳۷ا،ص نور الحسن ہاشمی ، دہلی کا دبستان شاعری ، ایض ۔ ۳۹۰

۱۸۲میر حسن دہلوی ، تذکرہ شعراء ہندی ،ایضا،ص ۔ ۳۹۱ ۱۶۶علی لطف میرزا ،گلشن ہند ،ایضا، ۔۳۹۲

۱۸۳، ۱۸۲میر حسن دہلوی، ایضا،ص ۔۳۹۳

۲۵۰احمد خان ،سرسید،آثار الصنادید ،جلد اول ،ایضا،ص ۔۳۹۴ ۷۳ء ،ص ۱۹۵۳خلیق احمد نظامی، تاریخ مشائخ چشت، ندوۃ المصنفین دہلی ، ۔ ۳۹۵

۲۵۰سید احمد خان ،سر ،آثار الصنادید ، جلد اول ،ایضا ، ص ۔ ۳۹۶

احمد خان ، سرسید ،آثار الصنادید ،جلد دوم ،مرتبہ خلیق انجم ،قومی کونسل برائے ۔۳۹۷ ۲۵ء ،ص ۲۰۰۳فروغ اردو زبان نئی دہلی ،

فخر الدین چشتی نظامی، نظام القائد المعروف بہ عقائد نظامیہ، ترتیب و تدوین: حافظ ۔ ۳۹۸

۱۰۴ء،ص۲۰۱۲محمد عبداالحد قادری، زاویہ پبلشرز، الہور، ء تک( خود کھلنا، بنگلہ دیش، ۱۷۷۳یوسف حسن ،سید ،بنگال میں اردو )پہلی جلد ۔۳۹۹

۱۱۵ء ،ص ۱۹۹۹

۱۱۶ایضا،ص ۔۴۰۰ ۷۳ائن شفیق، تذکرہ چمنستان شعراء ،ایضا،ص لچھمی نر ۔ ۴۰۱

ء۱۷۶۱ ۔۴۰۲

صوفی ملکا پوری ،مولوی ابو تراب محمد عبدالجبار خان، محبوب الزمن ،ایضا ۔۴۰۳ ۱۰۲۴،ص

۵۸راز عظیم آبادی ، تاریخ شعرائے بہار ، جلد اول، ایضا،ص ۔ ۴۰۴

کا کردار ،مشمولہ :سہ وفا راشدی، ڈاکٹر، اردو کی ترقی میں بنگال کے ہندوؤں ۔ ۴۰۵ ۴۱ء،ص ۱۹۹۹، جوالئی تا ستمبر ۱۶۰ماہی صحیفہ الہور، شمارہ نمبر

اختر اور ینوی ،بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقاء ،ترقی اردو بیورو نئی دہلی ، ۔۴۰۶

۱۷۵ء ،ص ۱۹۸۹ ۵۷وفا راشدی، ڈاکٹر، کلکتے کی ادبی داستانیں ،مکتبہ اشاعت اردو کراچی، ص ۔۴۰۷

۲۲۸، ۲۲۷لچھمی نرائن شفیق ،تذکرہ چمنستان شعراء ،ایضا،ص ۔ ۴۰۸ ۱۷۹اختر اور ینوی ،ایضا،ص ۔ ۴۰۹

۵۲۰جامع اردو انسائیکلو پیڈیا ،جلد اول ،ایضا،ص ۔ ۴۱۰

بحوالہ تذکرہ میر حسن ،چمنستان شعراء ) ۱۸۱۔۱۸۰اختر اور ینوی ،ایضا ،ص ۔ ۴۱۱ ،تذکرہ گلزار ابراہیم ، تاریخ شعرا ئے بہار

، ادارہ شاہین پبلی کیشنز ،کراچی ۷مشہور شعراء جلد نمبر ۱۰۰محمد ظفر اقبال ، ۔۴۱۲

۱۳۶ء ،ص ۱۹۸۵، ۱۹محمد سردار علی حیدر آبادی ،مولوی ،تذکرہ شعرائے اورنگ آباد، ایضا،ص ۔۴۱۳

Page 153: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

153

۸۵، ص ۲اردو ادب ۷تاریخ مسلمانان پاکستان و ہند جلد: ۔ ۴۱۴

۳۶۸جامع اردو انسائیکلو پیڈیا ،جلد اول ، ایضا،ص ۔ ۴۱۵، شیخ غالم علی ، الہور ، س ن ، ص ۵اے حمید، اردو شعر کی داستان، قسط نمبر ۔ ۴۱۶

۳

۸۶تاریخ مسلمانان پاکستان و ہند ،ایضا،ص ۔۴۱۷ ۔ ۴۱۸ ایضا

گوپی چند نارنگ ، ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں ،قومی کونسل برائے ۔ ۴۱۹

۱۰۵ء ،ص ۲۰۰۱فروغ اردو زبان نئی دہلی ، دسمبر ۲۰محمد سردار علی حیدرآبادی ، مولوی ،تذکرہ شعرائے اورنگ آباد، ایضا،ص ۔ ۴۲۰

د اول ،الہور:مکہ بکس یونس شاہ ، پروفیسر سید، تذکرہ نعت گویان اردو، جل ۔ ۴۲۱

۲۴۴ء،ص۱۹۸۲، ۸۶تاریخ مسلمانان پاکستان و ہند ،ایضا،ص ۔۴۲۲

۱۰۵گوپی چند نارنگ ،ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں ،ایضا،ص ۔۴۲۳

۲۴۵یونس شاہ ،سید ،تذکرہ نعت گویان اردو ،جلد اول ، ص ۔ ۴۲۴ ۱۶تذکرہ شعرائے اورنگ آباد، ایضا،ص محمد سردار علی حیدر آبادی ، مولوی ، ۔ ۴۲۵

۱۵۵، ۱۵۴عبدالباری آسی ، مولوی ،تذکرہ خندہ گل ،ایضا ،ص ۔ ۴۲۶

۸۷میر حسن دہلوی ، تذکرہ شعراء ہندی ،ایضا،ص ۔۴۲۷ء ،ص ۱۹۱۷سریرام ،اللہ ، خم خانۂ جاوید، جلد سوم ، دلی پرنٹنگ ورکس دہلی، ۔ ۴۲۸

۲۵۳

ہ گلشن ہند، ایضا،علی لطف میرزا ،تذکر ۔ ۴۲۹ ۸۷میر حسن دہلوی، تذکرہ شعراء ہندی ،ا یضا،ص ۔۴۳۰

۲۵۳سریرام ،اللہ ،خم خانۂ جاوید، جلد سوم ،ایضا،ص ۔ ۴۳۱

۹۰میر حسن دہلوی، تذکرہ شعراء ہندی ،ایضا،ص ۔۴۳۲سراج اورنگ آبادی ،کلیات سراج ،مرتبہ :عبدالقادر سروری ،قومی کونسل برائے ۔۴۳۳

۳۱ء ،ص ۱۹۸۲فروغ اردو زبان نئی دہلی ،

(بحوالہ تذکرہ تحفتہ الشعراء )اور مرزا افضل بیگ قاقشال ہم عصر سراج ء۱۷۱۶ ۔۴۳۴

۴۴، ۴۰سراج اورنگ آبادی ،ایضا،ص ۔ ۴۳۵ ء بنتی ہے۔۱۷۶۴اپریل ۷سے وفات کی تاریخ عیسوی حوالے *

۲۸۹سراج اورنگ آبادی ،ایضا،ص ۔ ۴۳۶

۶۸۶ایضا،ص ۔۴۳۷ ۶۹۵،۶۹۶ایضا،ص ۔ ۴۳۸

۹۶میر حسن دہلوی، تذکرہ شعرائے اردو ، ایضا،ص ۔ ۴۳۹

قدرت ہللا شوق، تذکرہ طبقات الشعراء ، مرتبہ:نثار احمد فاروقی ،مجلس ترقی ادب ۔۴۴۰ ۷۳ء ،ص ۱۹۶۸الہور،

Page 154: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

154

۷۷محمد انصار ہللا جامع التذکرہ جلد اول ، ایضا،ص ۔ ۴۴۱

۱۷۱کریم الدین ،طبقات شعرائے ہند، ایضا،ص ۔۴۴۲ ۷۳قدرت ہللا شوق، ایضا،ص ۔۴۴۳

۱۴۱قائم چاند پوری ،قیام الدین تذکرہ مخزن نکات، ایضا،ص ۔۴۴۴

۵۰راز عظیم آبادی ، سید عزیز الدین احمد بلخی ، ایضا،ص ۔ ۴۴۵ ۲۲۶محمد انصار ہللا ، ایضا،ص ۔ ۴۴۶

۷۰۰محمد شمس الحق ،گلہائے رنگ رنگ ، جلد دوم ، ایضا،ص ۔۴۴۷

۱۴۲میر حسن دہلوی ، تذکرہ شعراء ،ایضا،ص ۔ ۴۴۸ ۱۴۱قائم چاند پوری ، ایضا،ص ۔ ۴۴۹

۳۶۱عبدالغفور نساخ ،سخن شعرائے اردو، ایضا،ص ۔ ۴۵۰

۶۶ذکرہ شعرائے اردو ، ایضا،ص میر حسن دہلوی ،ت ۔ ۴۵۱ ۷۳میر حسن دہلوی،تذکرہ شعرائے ہندی ،نسخہ حیدری، ایضا،ص ۔۴۵۲

۷۴، ۷۳ایضا،ص ۔۴۵۳

عطاء الرحمان قاسمی ، الواح الصنادید ،حصہ دوم ،موالنا آزاد اکیڈمی ،دہلی ، ۔ ۴۵۴ ۱۴۶ء ،ص ۱۹۹۱

۲۸۴عبدالقدوس ہاشمی ، تقویم تاریخی ،ا یضا،ص ۔ ۴۵۵

نسیم احمد ،ڈاکٹر،دیباچہ، مشمولہ:دیوان درد از خواجہ میر درد دہلوی ،مکتبہ جامعہ ۔ ۴۵۶ ۲۱ء ،ص ۲۰۰۳لمیٹڈ نئی دہلی ،

۳۲۷نند کشور وکرم، مصور تذکرے، ایضا، ص ۔۴۵۷

، مارچ ،ستمبر ۳۶، ۳۵ششماہی فن اور شخصیت ،قطعہ نمبر، بمبئی ،شمارہ نمبر ۔ ۴۵۸ ۱۸ء ،ص۱۹۹۵ء ،اشاعت ،مارچ ۱۹۹۳

محمد اسحاق بھٹی ، فقہائے ہند، جلد پنجم،حصہ اول، ادارہ ثقافت اسالمیہ ۔ ۴۵۹

۱۷۱ء، ص ۱۹۳۹الہور، ۵۷غالم ہمدانی مصحفی ، عقد ثریا )تذکرہ فارسی گویاں(،ایضا،ص ۔ ۴۶۰

۳۳۹تبسم کاشمیری ، اردو ادب کی تاریخ ، ایضا،ص ۔ ۴۶۱

ن خواجہ میر درد، اردو اکیڈمی سندھ کراچی ، س ن ، عبدالباری آسی ،مرتب، دیوا ۔۴۶۲ ۱۹ص

۱۰۷ایضا،ص ۔۴۶۳ ۱۰۹ایضا،ص ۔ ۴۶۴

طوفان، ابن امین ہللا ، تذکرۂ شعراء مرتبہ:قاضی عبدالوددو، خدا بخش اوری اینٹل ۔ ۴۶۵

۳ء ،ص ۱۹۹۵پبلک الئبریری پٹنہ ، ۳۳۶ثناء الحق ،میر و سودا کا دور، ایضا،ص ۔ ۴۶۶

۱۱ء ،ص ۱۹۹۱ارتضی کریم ، ڈاکٹر، انتخاب کالم میر سوز، اردو اکادمی دہلی، ۔۴۶۷

۷۹۴جمیل جالبی ،ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو ، جلد دوم ، ایضا،ص ۔ ۴۶۸نور الحسن نقوی، پروفیسر، تاریخ ادب اردو، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر سٹڈیز ۔ ۴۶۹

Page 155: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

155

۸۵ء ،ص ۲۰۱۵)نکس( میر پور،

۔۴۷۰ ایضامحمد حسین آزاد، آب حیات ،نول کشور گیس پرنٹنگ ورکس الہور، طبع ہفتم ۔ ۴۷۱

۱۸۶ء ،ص ۱۹۰۷

،شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی ‘‘ تحقیق ’’سردار احمد خان، میر سوز، مشمولہ :مجلہ ۔۴۷۲ ۲۰۲ء ،ص ۱۹۹۳، ۷، شمارہ

۶۷احتشام حسین، سید، ارد و ادب کی تنقیدی تاریخ ،ایضا،ص ۔۴۷۳

۲۰۶تاریخ ادبیات پاکستان و ہند، جلد ہفتم ،اردو ادب دوم ،ایضا،ص ۔۴۷۴ ۶۵۴ماہنامہ نقوش، غزل نمبر ایضا،ص ۔ ۴۷۵

۶۲ء ،ص ۱۹۷۴ذکی کا کوروی ،غزل انسائیکلو پیڈیا ، مرکز ادب اردو لکھنؤ ،دوم ۔ ۴۷۶

,Grahame Bailey, A History of Urdu Literature , Al-Burumi ۔۴۷۷Lahore1977,P.51

۲۲ء ،ص ۱۹۹۹آفاق صدیقی ، پروفیسر ،کالسیکی ادب ،طاہر پبلی کیشنز ،کراچی ۔ ۴۷۸

ء ،مملوکہ ۱۹۷۱سردار احمد خان ،میر سوز آثار و افکار ، مقالہ برائے پی ایچ ڈی ، ۔ ۴۷۹ ۳۶شعبہ اردو جامعہ سندھ ، ص

، شمارہ ۴ز نمبر ،جلد احمد فاروقی ،خواجہ، مرتبہ:مجلہ اردو معلی میر سو ۔ ۴۸۰

۹ء ،دہلی یونیورسٹی ،دہلی، ص۷،۱۹۶۳۔۶ء ،ص ۱۹۹۱ارتضی کریم ، ڈاکٹر، انتخاب کال م میر سوز، اردو اکادمی نئی دہلی، ۔ ۴۸۱

۷

۱۳۰سیدہ جعفر ،تاریخ ادب اردو ، جلد اول ،ایضا،ص ۔۴۸۲، جون ۱۱۲زاہدمنیر عامر، میر مہدی داغ،مشمولہ:جرنل ،پٹنہ ، شمارہ نمبر ۔۴۸۳

۱۶۳ء ،ص ۱۹۹۸

۳۲۱بشارت فروغ، وفیات مشاہیر اردو، ایضا،ص ۔۴۸۴ ۳۲۱ایضا،ص ۔ ۴۸۵

، ۵۵۶احمد فاروقی ، خواجہ، مرتبہ، اردوئے معلی ،سوز نمبر ،ایضا،ص ۔ ۴۸۶

۵۰۶،۵۱۱ ۱۱۱، ۱۱۰ذکرہ ہندی ، ایضا،ص غالم ہمدانی مصحفی ، ت ۔۴۸۷

۲۲محمد سردار علی ، تذکرہ شعرائے اورنگ آباد، ایضا،ص ۔ ۴۸۸ ۔ ۴۸۹ ایضا

صوفی ملکا پوری ، محمد عبدالجبار خان، محبوب الزمن تذکرہ شعرائے دکن ،جلد ۔ ۴۹۰

۸۲۳ھ، ص۱۳۲۹دوم ، مطبع رحمانی حیدر آباد، ۳۳۵گل، ایضا، ص عبدالباری آسی، مولوی ،تذکرہ خندۂ ۔ ۴۹۱

ء تک ( مصنف خود ۱۷۷۳یوسف حسن ،ڈاکٹر، سید ،بنگال میں اردو )پہلی جلد، ۔۴۹۲

۱۴۹ء ،ص ۱۹۹۹کھلنا)بنگلہ دیش( ۱۴۹ایضا ،ص ۔۴۹۳

Page 156: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

156

۲۶۴اختر اور ینوی ،ایضا،ص ۔ ۴۹۴

۲۶۷ایضا،ص ۔ ۴۹۵ ۳۱۹عبدالغفور نساخ ، مولوی ،سخن شعراء ،ایضا،ص ۔ ۴۹۶

۲۶۸اختر اوینوی ، ایضا،ص ۔۴۹۷

۹۴۰جمیل جالبی ،ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو، جلد دوم ، ایضا،ص ۔ ۴۹۸ ۲۵۸اختر اور ینوی ،ایضا، ۔ ۴۹۹

۵۰شش ماہی ، فن اور شخصیت ، کوائف نمبر، ایضا،ص ۔۵۰۰

۵۱ایضا،ص ۔ ۵۰۱ ۱۷۸، ۱۷۷علی لطف، میرزا، گلشن ہند، ایضا،ص ۔۵۰۲

حسن ، مقدمہ ،کلیات قائم از قائم چاند پوری ، جلد اول ، مجلس ترقی ادب اقتدا ۔۵۰۳

۲۰ء ،ص ۱۹۶۵،الہور ، ء ۱۹۷۲میر تقی میر، نکات الشعراء ،مرتبہ:ڈاکٹر محمود الہی ،ادارہ تصنیف دہلی، ۔ ۵۰۴

۱۲۰،ص

جمن فتح علی حسینی گردیزی ، سید، تذکرہ ریختہ گویاں ،مرتبہ :مولوی عبدالحق ،ان ۔ ۵۰۵ ۱۲۳ء ،ص ۱۹۳۳ترقی اردو اورنگ آباد،

۱۷۹ۂہندی،ایضا،صغالم ہمدانی مصحفی ، تذکر ۔ ۵۰۶

۲۰اقتدا حسن ، ایضا،ص ۔۵۰۷ ۱۲۵عبدالرشید صمیم ، تذکرہ تالمذہ شاہ حاتم ، ایضا،ص ۔ ۵۰۸

۲۰۰یہاں حاشیہ میں )تذکرہ مخزن نکات( قیام الدین قائم لکھا ہے، ص ۔ ۵۰۹

۲۰۱، ۲۰۰قائم چاند پوری ،قیام الدین ،تذکرۂ مخزن نکات،ایضا،ص ۔ ۵۱۰عمر مہاجر، تاریخ ادب اردو کے چند قدیم ماخذ، مشمولہ سہ ماہی مجلہ عثمانیہ ، ۔ ۵۱۱

۴ء ( ،ص ۱۹۲۸ھ )۱۳۴۷، ۴، ۳، شمارہ ۱۰جامعہ عثمانیہ حیدر آباد، جلد نمبر

۱۷۸ساتویں جلد،اردو ادب دوم ، ایضا،ص تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، ۔ ۵۱۲ ۳۴۶ثناء الحق میر و سودا کا دور، ایضا،ص ۔۵۱۳

محمد کمال ،شاہ ،مجمع اال نتخاب ،مرتبہ :نثار احمد فاروقی ،مکتبہ برہان اردو بازار ۔ ۵۱۴

،بحوالہ جرأت۹۷ء ،ص ۱۹۶۸دہلی، ۱۸نکات، ایضا،ص اقتدا حسن ، پروفیسر ڈاکٹر، مقدمہ ، تذکرہ مخزن ۔ ۵۱۵

قائم چاند پوری ، کلیات قائم جلد دوم ، مرتبہ :اقتدا حسن ،مجلس ترقی ادب ،الہور ۔ ۵۱۶ ۸۷، ۸۶ء ،ص ۱۹۶۵،دسمبر

۲۰۲قائم چاند پوری ، تذکرہ مخزن نکات ، ایضا،ص ۔۵۱۷

۲قائم چاند پوری، کلیات قائم جلد دوم ، ایضا،ص ۔ ۵۱۸ ۵۶، ۵۵ایضا، ص ۔ ۵۱۹

۳۵علی لطف ،مرزا، گلشن ہند ،ایضا،ص ۔۵۲۰

۹۰بشارت فروغ ،وفیات مشاہیر اردو ،ایضا،ص ۔ ۵۲۱ ۳۵علی لطف میرزا، ایضا،ص ۔۵۲۲

Page 157: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

157

۴۵۹، ۴۵۸ثناء الحق ،میر و سودا کا دور ،ایضا، ۔۵۲۳

۳۸۰ماہنامہ نقوش، غزل نمبر، ایضا،ص ۔ ۵۲۴ ۳۵علی لطف میرزا ،ایضا،ص ۔ ۵۲۵

۱۳۵لطف، میرزا ،ایضا، ص علی ۔ ۵۲۶

۱۵۰یوسف حسن، ڈاکٹر، سید ،بنگال میں اردو، جلد اول ، ایضا،ص ۔۵۲۷ ۱۵۱ایضا،ص ۔ ۵۲۸

صوفی ملکا پوری ، محمد عبدالجبار خان ، محبوب الزمن ،تذکرہ شعرائے دکن ، جلد ۔ ۵۲۹

۸۴۲دوم ،ایضا،ص ۵۱ء ،ص ۱۹۳۰یدر آباد، دکن، تمکین کاظمی، تذکرہ ریختی ،شمس االسالم پریس ح ۔۵۳۰

۱۱۸فتح علی حسینی گردیزی ،سید ، تذکرہ ریختہ گویاں ، ایضا،ص ۔ ۵۳۱

۳۱۷عبدالغفور خان نساخ ، سخن شعراء ،ایضا،ص ۔۵۳۲ ۱۷۰علی لطف میرزا، ایضا،ص ۔۵۳۳

راز عظیم آبادی، سید عزیز الدین احمد بلخی ، تاریخ شعرائے بہار، جلد اول، ۔ ۵۳۴

۲۶ایضا،ص منصب پنج ہزاری ایک ایسا نوابی منصب تھا کہ دوران جنگ وہ اس قدر فوجی ۔ ۵۳۵

نفری مہیا کرنے کا مجاز تھا۔ اور وہ ا س فوج کا کمانڈر بھی خود ہوتاتھا۔

۱۵۸خزن نکات، ایضا،ص قائم چاند پوری ، تذکرہ م ۔ ۵۳۶خلیق انجم ، مرزا اشرف علی خان فغاں ، مشمولہ :سہ ماہی ،صحیفہ ،الہور شمارہ ۔۵۳۷

۱۷ء ،ص ۱۹۶۴،جنوری ۲۶نمبر

۸۶ء ،ص ۱۹۹۸محمود الرحمان ، ڈاکٹر، سبد گل، دوست پبلی کیشنز ،اسالم آباد، ۔ ۵۳۸ ۲۵۱ثناء الحق ،میر و سودا کا دور، ایضا،ص ۔ ۵۳۹

۳۶۹عبدالغفور نساخ ، سخن شعراء ،ایضا،ص ۔ ۵۴۰

شیفتہ ،نواب محمد مصطفی خان ، گلشن بے خار، اکیڈمی آف ایجوکیشنل ریسرچ ۔ ۵۴۱ ۳۵۳ء ،ص ۱۹۶۲کراچی،

عبدالشکور ،شیدا،بیاض سخن، مطبع زندہ طلسمات مشین پریس حیدر آباد، )دکن( ۔۵۴۲

۱۰، ص ۱۳۵۵ی ، تذکرۂ آزردہ ، مرتبہ:ڈاکٹر مختار الدین احمد، انجمن ترقی صدر الدین آرزدہ، مفت ۔۵۴۳

۱۱۹ء ،ص ۱۹۷۴اردو پاکستان کراچی ، عبدالرحمان علیگ ،سید صباح الدین ،مرتب :دیوان فغاں)اشرف علی فغاں( انجمن ۔ ۵۴۴

۲۳۱ء ،ص۱۹۵۰ترقی اردو پاکستان ، کراچی

۱۷۵ قائم چاند پوری ، تذکرہ مخزن نکات ،ایضا، ۔ ۵۴۵ ۲۴۴علی لطف ،میرزا ، گلشن ہند ،ایضا، ص ۔ ۵۴۶

۲۵۴غالم ہمدانی ،مصحفی،تذکرۂ ہندی ، ایضا،ص ۔۵۴۷

۲۰۱میر حسن دہلوی، تذکرہ شعرائے اردو، ایضا،ص ۔ ۵۴۸ ۱۴۳فتح علی حسینی گردیزی ،سید ،ایضا، ۔ ۵۴۹

Page 158: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

158

۵۰۲عبدالغفور نساخ، سخن شعراء ، ایضا،ص ۔ ۵۵۰

۱۴۳فتح علی حسینی ، گردیزی ،ایضا،ص ۔ ۵۵۱ ۴۳۶ثناء الحق، میرو سودا کا دور، ایضا،ص ۔۵۵۲

۱۹۸سیدہ جعفر ،تاریخ ادب اردو، جلد اول، ایضا،ص ۔ ۵۵۳

۲۱۵ء ،ص ۱۹۹مالک رام ،تذکرہ ماہ و سال، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی ،نومبر ا ۔ ۵۵۴ ۱۲۰ایضا،ص بشارت فروغ، وفیات مشاہیر اردو ، ۔ ۵۵۵

۹۴عبدالرشید صمیم ،تذکرہ تالمذہ شاہ حاتم دہلوی، ایضا،ص ۔ ۵۵۶

ء ،ص ۱۹۷۴ذکی کاکوروی ، غزل انسائیکلو پیڈیا ، مرکز ادب اردو ،لکھنؤ ، دوم ، ۔۵۵۷۱۵۹

۳۳۸جامع اردو انسائیکلو پیڈیا، جلد اول، ایضا،ص ۔ ۵۵۸

۷وم ،ایضا،ص نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر، جلد د ۔ ۵۵۹ ۱۰۵ء ،ص ۱۹۰۸سریرام ،اللہ ،خم خانہ جاوید، جلد اول ،مخزن پریس دہلی ، ۔ ۵۶۰

نصیر حسین خان خیال ،ادیب الملک نواب ،داستان اردو ،ادارہ اشاعت اردو، حیدر ۔ ۵۶۱

۷۸آباد )دکن( س ن ،ص منظر اعظمی ،پروفیسر ،اردو اور ہندی زبان کا ارتقا اور ان کا لسانیاتی سلسلہ، ۔۵۶۲

۱۷ء ،ص۲۰۰۴مرتبہ:ڈاکٹر نجم السحراعظمی، مرتب خود ،دہلی ،

۱۰۷سریرام ،اللہ ، خم خانہ جاوید، جلد اول، ایضا، ۔۵۶۳و ہی لکھے ہیں جن سے مطلب اسی اور ایک س ۱۰۵۰اور ۱۰۸۰یہاں ہند سے ۔ ۵۶۴

پچاس لکھ کر واضح کر دیا گیا ہے۔ ممکن ہے اس دور میں ہند سے ا س طرح لکھے جاتے ہوں

یا کتابت کی غلطی ہو سکتی ہے۔ ۴۲۳ء ، ص۱۹۰۳شاہ عالم ثانی، آفتاب،عجائب القصص ،مطبع نول کشور کانپور، ۔۵۶۵

۲۴۵میر حسن دہلوی، تذکرہ شعرائے ہندی ، نسخہ حیدری ،ایضا،ص ۔ ۵۶۶

۲۰۷علی لطف،میرزا ، گلشن ہند، ایضا، ص ۔۵۶۷ ۴۰۳عبدالغفور ،نساخ،سخن شعراء ،ایضا،ص ۔ ۵۶۸

۲۳۶محمد انصار ہللا ،جامع التذکرہ ،ایضا،ص ۔ ۵۶۹

۲۴۶میر حسن دہلوی، تذکرہ شعرائے ہندی ، نسخۂ حیدری ، ایضا،ص ۔۵۷۰ ۱۵۰غالم ہمدانی ،مصحفی، تذکرۂ ہندی، ایضا،ص ۔ ۵۷۱

۵۹مفتی صدر الدین، آزردہ ،تذکرہ ،ایضا،ص ۔۵۷۲ ۳۴۳کریم الدین ،طبقات شعرائے ہند، ایضا،ص ۔۵۷۳

۳۳۳نساخ،مولوی عبدالغفور، سخن شعراء ،ایضا،ص ۔ ۵۷۴

۳۴۳کریم الدین ، طبقات شعرائے ہند، ایضا،ص ۔ ۵۷۵سب رس، حیدر ، بحوالہ ماہنامہ ۱۱۲مفتی صدر الدین ،آزردہ ،ایضا)حاشیہ( ،ص ۔ ۵۷۶

ء۱۹۷۰آباد، اکتوبر ،

۱۵۱، ۱۵۰غالم ہمدانی ،مصحفی،تذکرہ ہندی ،ایضا،ص ۔۵۷۷صوفی ملکا پوری ، ہیراری حیدر آبادی ، مولوی ابو تراب محمد عبدالجبار ،محبوب ۔ ۵۷۸

Page 159: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

159

۶۰۱الزمن تذکرہ شعرائے دکن ،حصہ دوم ،ایضا،ص

۶۰۱ایضا،ص ۔ ۵۷۹ ۱۸باد ی ، تذکرہ شعرائے اورنگ آباد، ایضا،ص محمد سردار علی حیدر آ ۔ ۵۸۰

۶۱۱صوفی ملکا پوری ، ایضا،ص ۔ ۵۸۱

۲۸مصحفی ،غالم ہمدانی ،تذکرہ ہندی ، ایضا،ص ۔۵۸۲ ۲۳۲کریم الدین ،طبقات شعرائے ہند، ایضا،ص ۔۵۸۳

ء۱۹۰۸سریرام ،اللہ، خم خانہ جاوید، جلد اول، ایضا، ۔ ۵۸۴

۶۸رہ ماہ و سال ،ایضا،ص مالک ارام ، تذک ۔ ۵۸۵ ۲۸غالم ہمدانی،مصحفی، ا یضا، ص ۔ ۵۸۶

۲۸مولوی عبدالغفور ،مصحفی ،ایضا، ص ۔۵۸۷

۴۳۸محمود الرحمان ،ڈاکٹر، سبد گل، ایضا،:ص ۔ ۵۸۸ ۴۳۹، ۴۳۸ثناء الحق ،ایضا،ص ۔ ۵۸۹

۲۰۶میرحسن دہلوی، تذکرہ شعرائے اردو، ایضا،ص ۔ ۵۹۰

۴۳۹، ۴۳۸ثناء الحق ، ایضا،ص ۔ ۵۹۱ ۲۰۶حسن دہلوی، میر، تذکرہ شعرائے اردو ،ایضا،ص ۔۵۹۲

۱۶۳قائم چاند پوری ،تذکرہ مخزن نکات، ایضا،ص ۔۵۹۳

۴۷ششماہی فن او رشخصیت ،کوائف نمبر ،ایضا،ص ۔ ۵۹۴ ۶۱صدر الدین ،،آزردہ ، مفتی ،ایضا،ص ۔ ۵۹۵

۱۱۷ایضا،ص ۔ ۵۹۶

۴۷ی فن اور شخصیت، کوائف نمبر، ایضا،ص ششماہ ۔۵۹۷ ۲۹۴مالک رام ، تذکرہ ماہ و سال، ایضا،ص ۔ ۵۹۸

۲۲۴محمد انصار ہللا ، جامع التذکرہ ،جلد اول ،ایضا،ص ۔ ۵۹۹

۶۲صدر الدین،آزردہ ،ایضا،ص ۔۶۰۰ ۱۷۳کریم الدین ،طبقات شعرائے ہند ، ایضا،ص ۔ ۶۰۱

۴۷ششماہی فن اور شخصیت ،کوائف نمبر، ایضا،ص ۔۶۰۲

سریرام ،اللہ ، خم خانۂ جاوید ،جلد دوم ، مطبع رائے گالب سنگھ پریس ،الہور، ۔۶۰۳ ۵۳۳ء ،ص ۱۹۱۱

۷۱غالم ہمدانی ،مصحفی، تذکرہ ہندی ،ایضا،ص ۔ ۶۰۴ ۲، اردو ادب ۔۷تاریخ ادبیات ،مسلمانان پاکستان و ہند، جلد ۔ ۶۰۵ ۳۴۴،ص ، ایضا

۶۴۵ماہنامہ نقوش، غزل نمبر، ایضا،ص ۔ ۶۰۶

۱۰۹علی لطف ،میرزا ، گلشن ہند، ایضا،ص ۔۶۰۷ ۳۴۴،ایضا،ص ۲، اردو ادب ۔۷تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، جلد ۔ ۶۰۸

ابو اللیث صدیقی، ڈاکٹر، لکھنؤ کا دبستان شاعری ، غضنفر اکیڈمی ، کراچی ، چہارم ۔ ۶۰۹

۱۶۴، س ن ، ۲۵۴کریم الدین ،طبقات شعرائے ہند، ایضا،ص ۔ ۶۱۰

Page 160: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

160

۱۹عبدالشکور ،شیدا،بیاض سخن، ایضا،ص ۔ ۶۱۱

۵۱شش ماہی فن اور شخصیت ، کوائف نمبر، ایضا،ص ۔۶۱۲راز عظیم آبادی ، سید عزیز الدین احمد بلخی، تاریخ شعرائے بہار، جلد اول ۔۶۱۳

۱۲،ایضا،ص

۴۰۶سریرام ،اللہ ،خمخانۂ جاوید ،جلد دوم ، ایضا،ص ۔ ۶۱۴ ۷۶کریم الدین ،طبقات شعرائے ہند، ایضا،ص ۔۶۱۵

۶۶میر حسن ،تذکرہ شعرائے ہندی، ایضا،ص ۔ ۶۱۶

۔۶۱۷ ۱۶۶ص 249قائم چاند پوری، تذکرۂ مخزن نکات، ایضادرہ قومی زبان ،اسالم خورشید احمد خان یوسفی ، خم خانۂ جاوید ، جلد ششم ، مقت ۔ ۶۱۸

۳۲۷ء ،ص ۱۹۹۰آباد،

۱۶۷قائم چاند پوری ، تذکرۂ مخزن نکات، ایضا،ص ۔ ۶۱۹ ۷۶عبدالغفور، نساخ،سخن شعراء ، ایضا،ص ۔۶۲۰

۳۲۷خورشید احمد خان یوسفی ، ایضا،ص ۔ ۶۲۱

۱۲۶میر حسن، تذکرہ شعرائے اردو ،ایضا،ص ۔۶۲۲ ۱۲۰تالمذہ شاہ حاتم دہلوی، ایضا،ص عبدالرشید، عصیم ،تذکرہ ۔۶۲۳

۔ ۶۲۴ ۱۶۵ص 249علی،لطف ،میرزا ،گلشن ہند، ایضا

۵۴سعادت خان،ناصر، تذکرہ خوش معرکہ زیبا، جلد اول، ایضا ،ص ۔ ۶۲۵ ۳۸۶، ایضا،ص ۲،ادو ادب ۷تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند ، جلد: ۔ ۶۲۶

۱۱۰ایضا،ص مالک رام ،تذکرہ ماہ و سال ، ۔۶۲۷

۳۸۶تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، ایضا،ص ۔ ۶۲۸ ۳۱مفتی صدر الدین ،آزردہ ،ایضا،ص ۔ ۶۲۹

سعادت خان، ناصر ، تذکرہ خوش معرکہ زیبا، جلد دوم ،مرتبہ :مشفق خواجہ ، ۔۶۳۰

۵۰۰ء ،ص ۱۹۷۲مجلس ترقی ادب ،الہور ، ۲۱۹غالم ہمدانی ،مصحفی ،تذکرہ ہندی ،ایضا،ص ۔ ۶۳۱

۱۵۹سعادت خان ،ناصر ، تذکرہ خوش معرکہ زبیا، جلد اول، ایضا،ص ۔۶۳۲

۱۷۷کریم الدین ،طبقات شعرائے ہند، ایضا،ص ۔۶۳۳ ۹۳امداد صابری ، تالمذہ میر، ایضا،ص ۔ ۶۳۴

۲۲۰غالم ہمدانی ،مصحفی ، تذکرۂ ہندی،ا یضا،ص ۔ ۶۳۵ ۳۲۳ء ،ص ۱۹۷۸نثار احمد علوی، سخنوران کاکوروی ، مے خانۂ ادب کراچی ، ۔ ۶۳۶

حیدر علی کاکوروی ، موالنا مولوی حافظ محمد علی ، تذکرہ مشاہیر کاکوروی ، ۔۶۳۷

۳۶۲ء ،ص ۱۹۲۷مطبع اصح المطابع لکھنؤ ، ۴۵شاکر کنڈان، مقاالت نو)شخصی( ،ایضا،ص ۔ ۶۳۸

ضرت شاہ کا ظم قلندر ،مختصر سوانح و تصانیف ، سہ ماہی عمر کمال الدین ،ح ۔ ۶۳۹

۱۶۰ء ،ص ۱۹۹۷، ۱۱۰خدا بخش الئبریری جرنل ،پٹنہ، شمارہ 249 ۳۲۷، ۳۲۶نثار احمد علوی ، حکیم ،سخنوران کاکوروی ، ایضا،ص ۔۶۴۰

Page 161: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

161

۶۹ء ،ص ۱۹۳۰تمکین کاظمی ،تذکرہ ریختی، شمس االسالم پریس حیدر آباد، ۔ ۶۴۱

۷۰ایضا،ص ۔۶۴۲ ۳۱۲میر حسن، تذکرہ شعراء ہندی ،ایضا،ص ۔۶۴۳

۳۱۲ایضا،ص ۔ ۶۴۴

۳۵۹، ۳۵۸خورشید احمد خان یوسفی، خم خانۂ جاوید ،جلد ششم ،ایضا، ۔ ۶۴۵ ۶۵سریرام ،اللہ، خم خانہ جاوید، جلد سوم ، ایضا،ص ۔ ۶۴۶

۴۷علی لطف ،میرزا، گلشن ہند، ایضا،ص ۔۶۴۷

۱۹۶،اللہ ،خم خانہ جاوید، جلد اول ،ایضا،ص سر یرام ۔ ۶۴۸ ۹۱عصیم ،عبدالرشید، تذکرہ تالمذہ شاہ حاتم دہلوی، ایضا،ص ۔ ۶۴۹

۱۹۷سریرام ،اللہ ، خم خانہ جاوید، جلد اول، ایضا،ص ۔۶۵۰

۱۶۵یوسف حسن، ڈاکٹر، سید ، بنگال میں اردو ،جلد اول ، ایضا،ص ۔ ۶۵۱ ۱۳۲شن ہند ،ایضا،ص علی لطف ،میرزا ، گل ۔۶۵۲

۱۶۵یوسف حسن ،ڈاکٹر ،سید ،بنگال میں اردو، پہلی جلد، ایضا،ص ۔۶۵۳

۳، بحوالہ:تاریخ اودھ ، ۶۹مالک رام ،تذکرہ ماہ و سال، ایضا،ص ۔ ۶۵۴ ۱۵۱جلد اول ، ایضا،ص ۷سرفراز علی رضوی،ماخذات ، ۔ ۶۵۵

۹ادبیات، ایضا،صجامع اردو انسائیکلو پیڈیا، جلد اول ، ۔ ۶۵۶

مہجور بنارسی ، مدائح الشعراء ،مرتبہ :افسر صدیقی ، انجمن ترقی اردو، پاکستان ۔۶۵۷ ۵ء ،ص ۱۹۷۶،کراچی ،

۳۱۷محمد بشارت علی خان، فروغ ،وفیات مشاہیر اردو، ایضا،ص ۔ ۶۵۸

، ۳۱۶ء ،ص ۲۰۱۲عتیق جیالنی ،سالک ،رام پور شناسی ، کلیتہ الحسنات رام پور، ۔۶۵۹۳۱۷

قدرت ہللا ،شوق، تذکرہ طبقات الشعراء ،مرتبہ :نثار احمد فاروقی ، مجلس ترقی ادب ۔ ۶۶۰

۴۶۹ء ،ص ۱۹۶۸الہور، وحید قریشی ، ڈاکٹر ،مرتبہ ،مقدمہ ، دیوان جہاندار ا ز میر زا جوان بخت جہاں دار ۔ ۶۶۱

۱۱ء،ص ۱۹۶۶،مجلس ترقی ادب ،الہور،

۶۵، کوائف نمبر، ایضا،ص شش ماہی فن اور شخصیت ۔۶۶۲ ۶۵۷محمد شمس الحق، گل ہائے رنگ رنگ ،جلد دوم ، ایضا،ص ۔۶۶۳

۵۱وحیدقریشی، ڈاکٹر، مقدمہ ،دیوان جہاندار ، ایضا،ص ۔ ۶۶۴جہاں دار، میرزا جواں بخت، دیوان جہاں دار، مرتب:ڈاکٹر وحید قریشی، ایضا،ص ۔ ۶۶۵

۷۷ ،۱۳۰

۴۷۵شعرائے ہند، ایضا،ص کریم الدین ، طبقات ۔ ۶۶۶ ۲۴۹میر حسن، تذکرہ شعراء ہندی ،ایضا،ص ۔۶۶۷

ظفر اقبال ،ڈاکٹر ،دیباچہ دیوان قدرت، مشمولہ :تحقیق، )سندھ یونیورسٹی جام ۔ ۶۶۸

۸۴ء ، ۱۹۹۲، دسمبر ۶شورو( ،شمارہ نمبر ۲۴۹میر حسن ،تذکرہ شعراء ہندی، ایضا،ص ۔ ۶۶۹

Page 162: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

162

۔۶۷۰ ۴۳ص 249سریرام ،اللہ ، خم خانہ جاوید، جلد سوم ، ایضا

۲۵۱، ۲۵۰اختر اور ینوی ،بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا ،ایضا،ص ۔ ۶۷۱ ۔۶۷۲ ۲۵۲ص 249ایضا

۴۳سریرام ،اللہ ،خم خانہ جاوید، جلد سوم ، ایضا،ص ۔۶۷۳

۷۴بشارت ،فروغ ،وفیات مشاہیر اردو، ایضا،ص ۔ ۶۷۴ ۱۷۱عبدالرشید،عصیم ، تذکرہ تالمذہ ، شاہ حاتم دہلوی، ایضا،ص ۔ ۶۷۵

۲۸۵عتیق جیالنی ،سالک، رام پور شناسی ،ا یضا،ص ۔ ۶۷۶

۱۶۲شفقت رضوی، حاشیہ، تذکرۃ الشعراء از موالنا حسرت موہانی ،ایضا،ص ۔۶۷۷ ۲۸۴عتیق جیالنی ،سالک ، رام پور شناسی ،ایضا،ص ۔ ۶۷۸

شعراء از حسرت موہانی اور تذکرہ تالمذہ شاہ حاتم دہلوی سے بالترتیب ص تذکرۃ ال ۔ ۶۷۹

سے لیے ہیں۔ ۱۷۲، ۱۶۲ ۳۹عبدالغفور ، نساخ ، سخن شعراء ،ایضا،ص ۔ ۶۸۰

۔ ۶۸۱ ۱۵۳ص 249عبدالرشید، عصیم ،تذکرہ تالمذہ شاہ حاتم دہلوی، ایضا

۳۹عبدالغفور، نساخ ،ایضا،ص ۔۶۸۲ ۱۶۱میرحسن دہلوی، تذکرہ شعرائے اردو ،ایضا،ص ۔۶۸۳

۱۳۶عبدالرشید، عصیم ،ایضا،ص ۔ ۶۸۴

آمنہ خاتون ، الحاجہ ڈاکٹر، مقدمہ ،کلیات انشاء ،جلد اول ، مرتبہ خلیل الرحمن داؤدی ۔ ۶۸۵ ۴۳ء ،ص ۱۹۶۹،مجلس ترقی ادب الہور،

۵۲ایضا،ص ۔ ۶۸۶

داستانیں ،اتر پردیش اردو اکیڈمی لکھنؤ ، گیان چند ،پروفیسر اردو کی نثری ۔۶۸۷ ۳۶۶، ۳۶۵ء ،ص ۱۹۸۷

۴۳۸ء ،ص ۱۸۷۶انشاء ہللا خان ، کلیات انشاء ہللا خان، مطبع منشی نول کشور، ۔ ۶۸۸

ء ،ص ۱۹۹۱ناصر کاظمی ،انتخاب انشاء ، فضل حق اینڈ سنز پبلشرز الہور، ۔ ۶۸۹۶۷،۶۸

۳۲۰ت گویان اردو، جلد اول ،ایضا، ص یونس شاہ ، پروفیسر ،سید ،تذکرہ نع ۔ ۶۹۰

انشاء ہللا خان انشاء ، دہلوی، سید، دریائے لطافت ،دارا لناظر پریس لکھنؤ ، ۔ ۶۹۱ ۱۷ء،ص ۱۹۱۶

انشاء ہللا خان انشاء ،سید، داستان رانی کیتکی اور کنوراودھے بھان کی ،انجمن ۔۶۹۲ ۱۴ء ،ص ۱۹۳۳ترقی اردو اورنگ آباد،

۲۸۲ص 249بی ،ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو ، جلد سوم ، ایضا جمیل جال ۔۶۹۳

شجاعت علی سندیلوی ، ڈاکٹر، تعارف تاریخ اردو، ادارہ فروغ اردو،لکھنؤ ،بار دوم ۔ ۶۹۴ ۱۰۰ء،ص ۱۹۶۳،

ء،ص ۱۹۹۶عزیز الکالم ،شاہ، اردو کے امی شاعر، اردو اکیڈمی پاکستان، کراچی ، ۔ ۶۹۵

۱۵۵ ۔ ۶۹۶ ۳۴۰ص 249یونس شاہ، پروفیسر سید، تذکرہ نعت گویان اردو، جلد اول، ایضا

Page 163: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

163

صابر علی خان، ڈاکٹر ، سعادت یار خان رنگین ، انجمن ترقی اردو ،کراچی ، ۔۶۹۷

۳۴۶ء ، ص ۱۹۵۶مسعود حسن رضوی ادیب، سعید، تصنیفات رنگین، مشمولہ، مجالس رنگین ،از ۔ ۶۹۸

۱۵ء ،ص ۱۹۲۹ع نظامی پریس لکھنؤ ، سعادت یار خان رنگین ، مطب

۶۸،کوائف نمبر ،ایضا،ص ‘‘ فن اور شخصیت’’ششماہی ، ۔ ۶۹۹رؤف پاریکھ ،ڈاکٹر، اردو نثر میں مزاح نگاری کا سیاسی و سماجی پس منظر، ۔۷۰۰

۹۹ایضا،ص

۶۶، ۲۲ء،ص ۱۹۶۲بحوالہ اخبار رنگین مرتبہ:سید معین الحق ،کراچی ، * ۹۷خان، ناصر، تذکرہ خوش معرکہ زیبا، جلد اول ، ایضا،ص سعادت یار ۔ ۷۰۱

۲۳۷عبدالباری آسی، مولوی ، تذکرہ خندۂ گل، ایضا،ص ۔۷۰۲

علی عباس ،سید ، اظفری گور گانی اور ان کا ریختہ کالم ،ہسٹری ڈیپارٹمنٹ پنجاب ۔۷۰۳ ۶۱یونیورسٹی الہور ،س ن ،

اظفری ، مرتبہ:محمد حسین محوی صدیقی لکھنؤ ظہیر الدین ،اظفری ،میرزا ،دیوان ۔ ۷۰۴

۹ء ،ص ۱۹۳۹ی ،مدراس ، ۶۵علی عباس ،سید ، ایضا،ص ۔ ۷۰۵

۸۵ایضا،ص ۔ ۷۰۶

میر تقی میر، تذکرہ نکات الشعراء ،مترجم :حمیدہ خاتون، مطبع جے ۔ کے آفسیٹ ۔۷۰۷ ۱۳۴ء ،ص ۱۹۹۴پرنٹر دہلی،

۱۶۲حسن دہلوی، میر، تذکرہ شعرائے اردو ،ایضا،ص ۔ ۷۰۸

لچھمی نرائن شفیق، اللہ، چمنستان شعراء، انجمن ترقی اردو اورنگ آباد، ۔ ۷۰۹ ۲۳۶ء،ص۱۹۳۴

۱۳۴میر تقی میر، تذکرہ نکات الشعراء ،ایضا،ص ۔ ۷۱۰

ر بیگم نسیم مبتال و عشق میرٹھی ، غالم محی الدین ،تذکرہ طبقات سخن، مرتبہ ،ڈاکٹ ۔ ۷۱۱ ۱۴۵ء، ص ۱۹۹۱اقتدا علی ، لکھنؤ ،

۷۴۳ء ،ص ۲۰۰۳نور احمد میرٹھی، تذکرہ شعرائے میرٹھ، ادارہ فکر نو، کراچی، ۔۷۱۲

۱۴۵مبتال و عشق میرٹھی، ایضا،ص ۔۷۱۳ ۳۳۲محمد انصار ہللا ،جامع التذکرہ ،ایضا،ص ۔ ۷۱۴

۱۴۱غالم ہمدانی ،مصحفی ، تذکرۂ ہندی ،ایضا،ص ۔ ۷۱۵ ۱۴۰ء،ص ۱۹۵۵فارغ بخاری، ادبیات سر حد ،جلد سوم ،نیا مکتبہ پشاور، ۔ ۷۱۶

۵۵ء ،ص ۱۹۹۳محبت خان بنگش ، یاد رفتگاں ، ادارہ علم و ادب کوہاٹ، سوئم ، ۔۷۱۷

تاج سعید، پشتو ادب کی مختصر تاریخ ،مقتدرہ قومی زبان پاکستان ،اسالم آباد، دوم ۔ ۷۱۸ ۱۲ء ،ص ۲۰۰۶

۲۱۱ء ،ص ۱۹۹۷احمد پراچہ، تاریخ کوہاٹ، بک سنٹر راولپنڈی ، ۔ ۷۱۹

۶۹ء ،ص ۱۹۸۴احمد پراچہ، کوہاٹ کا ذہنی ارتقا، مکتبہ مستجاب پراچہ، کوہاٹ، ۔۷۲۰خیال بخاری ، مرتب:دیوان قاسم علی خان آفریدی ، پشتو اکیڈمی یونیورسٹی آف ۔ ۷۲۱

Page 164: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

164

۶ء ،ص ۱۹۷۱پشاور ،

۶ایضا،ص ۔۷۲۲ ۶۲ج سعید، ایضا،ص تا ۔۷۲۳

۔ ۷۲۴ ۱ص 249خیال بخاری، ایضا

ہر تذکرہ نگار نے اپنے اپنے خیاالت کا اظہار کیا ہے۔ مثال سجاد احمد حیدر نے ۔ ۷۲۵لکھا ہے کہ باپ کے ساتھ جا کر شاہی فوج کو اختیار کیا۔ تاج سعید نے مختلف نوابوں کی

کیا ہے۔ احمد پراچہ اپنے ایک مضمون میں مالزمت اور پھر میر جعفر کے ہاں مالزمت کا ذکر

لکھتے ہیں۔‘‘ آفریدی آخور میں بھر تی ہونے چال گیا’’ ۔ ۷۲۶ ۴ص 249خیال بخاری، ایضا

سجاد احمد حیدر، کوہاٹ کی علمی وادبی خدمات، مقتدرہ قومی زبان پاکستان ،اسالم ۔۷۲۷

۵۵ء،ص ۲۰۱۲آباد، ۳۴خیال بخاری ، ایضا،ص ۔ ۷۲۸

۱۴۱د احمد حیدر، ایضا،ص سجا ۔ ۷۲۹

۲۷۸ء ،ص ۱۹۸۸ء ( پٹنہ ، ۱۹۱۳ء ، ۱۹۱۰انتخاب ماہنامہ ،ادیب ، الہ آباد) ۔۷۳۰ ۱۸۶عبدالشکور شیدا، بیاض سخن، ایضا،ص ۔ ۷۳۱

۲۵۴ء ،ص ۲۰۰۷نور احمد میرٹھی، گلبانگ وحدت، ادارہ فکر نو، کراچی ، ۔۷۳۲

صوفی ملکا پوری ،عبدالجبار خا ن ، محبوب الزمن تذکرہ شعرائے دکن، حصہ اول، ۔۷۳۳ ۵۳۷ایضا،ص

۵۴۱تا ۵۳۷ایضا،ص ۔ ۷۳۴

۱۸۶عبدالشکور شیدا، بیاض سخن، ایضا،ص ۔ ۷۳۵ ۵۵۰صوفی ملکا پوری ، ایضا،ص ۔ ۷۳۶

۲۵۶نور احمد میرٹھی، گلبانگ وحدت ،ایضا،ص ۔۷۳۷

ء ۱۹۳۷ولوی، ارباب نثر اردو، مکتبہ ابراہیمیہ حیدر آباد)دکن ( دوم ، سید محمد، م ۔ ۷۳۸ ۱۸۳،ص

جان طپش، مرزا ،غزلیات طپش ، مرتبہ:یوسف تقی، پروفیسر ،مرتب خود، کلکتہ ۔ ۷۳۹

۱۴ء ،ص ۲۰۱۳، ۲۲۶تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند ، جلد ہفتم ، اردو ادب دوم ، ایضا،ص ۔۷۴۰

۱۰طپش ،مرزا ،ایضا،ص جان ۔ ۷۴۱کلثوم ابو البشر ،ڈاکٹر ،ڈھاکہ میں اردو ادب ، مشمولہ :ششماہی فکر و تحقیق ،نئی ۔۷۴۲

۹۰ء،ص ۱۹۹۰،جنوری تا جون ۳دہلی، شمارہ

ء ۱۹۹۹وفا راشدی، ڈاکٹر ،کلکتے کی ادبی داستانیں ،مکتبہ اشاعت اردو ،کراچی ۔۷۴۳ ۴۰،ص

۱۱۰ص 249محمود الرحمان ،داکٹر، سبد گل ، ایضا ۔ ۷۴۴

اس سے قبل لکھی گئی جس میں ‘‘ دریائے لطافت’’انشاء ہللا خان انشاء کی کتاب، ۔ ۷۴۵کچھ حصے کے عالوہ موضوع الگ ہیں۔ یا اقبال عظیم صاحب نے بنگال میں لکھی جانے والی

Page 165: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

165

اس کتاب کو اولیت کا درجہ دیا ہو گا۔

۹۸، ص۴۲۴زا ،ایضا،ص جان طپش ،مر ۔ ۷۴۶ ۶۸مالک رام ،تذکرہ ماہ و سال، ایضا،ص ۔۷۴۷

۲۸۸عتیق جیالنی سالک، رام پور شناسی ، ایضا،ص ۔ ۷۴۸

۳۵۷ایضا ، ۔ ۷۴۹محمود الرحمان ، ڈاکٹر ،جنگ آزادی کے اردو شعراء ،قومی ادراہ برائے تحقیق و ۔۷۵۰

ء۱۹۸۶ثقافت اسالم آباد،

بادی ، نصیر الدین ،تذکرہ عروس االذکار ،مرتب: افسر صدیقی امروہوی نقش حیدر آ ۔ ۷۵۱ ۶۰ء ، ص ۱۹۷۵،انجمن ترقی ارد و پاکستان ،

یہ نام سعادت خان ناصر ہے۔ ۔۷۵۲

۱۹۸افسر صدیقی امروہوی ، حاشیہ، تذکرہ عروس االذکار، ایضا،ص ۔۷۵۳مرکز علوم اسالمیہ کراچی ضمیر اختر نقوی، عالمہ ڈاکٹر ،سید، دبستان ناسخ، ۔ ۷۵۴

۴۱۲ء ،ص ۲۰۱۰

۱۹۹افسر صدیقی امروہوی ،حاشیہ، ایضا،ص ۔ ۷۵۵ ۶۱نقش حیدر آبادی ، نصیر الدین ، ایضا،ص ۔ ۷۵۶

۴۱۴ضمیر اختر نقوی، عالمہ ڈاکٹر سید، دبستان ناسخ،ایضا، ص ۔۷۵۷

بنی بخش خان بلوچ، ڈاکٹر، سندھ میں اردو شاعری، مجلس ترقی ادب ،الہور ، سوم ۔ ۷۵۸ ۱۰۲ء ،ص ۱۹۷۸:جون

موہن لعل پریمی ، پروفیسر ڈاکٹر، سچل سر مست کی اردو شاعری ، ۔ ۷۵۹

مشمولہ:پاکستان میں اردو ،پہلی جلد)سندھ( مرتبین پروفیسر فتح محمد ملک و دیگر، مقتدرہ قومی ۱۸۲ء ،ص ۲۰۰۶ن ،اسالم آباد، زبان ،پاکستا

بنی بخش خان بلوچ، ڈاکٹر، سندھ میں فارسی شاعری کا آخری دور، )بزبان سندی( ۔۷۶۰

۱۵۱ء ،ص ۲۰۰۷مقتدرہ قومی زبان پاکستان ،اسالم آباد، ۱۱۵ء،ص ۱۹۸۰شاہدہ بیگم ،ڈاکٹر ، سند ھ میں اردو، اردو اکیڈمی سندھ کراچی، ۔ ۷۶۱

۱۰۴، ۱۰۳وچ، ڈاکٹر، سند ھ میں اردو شاعری ، ایضا،ص بنی بخش خان بل ۔۷۶۲

۱۸۳موہن لعل پریمی ، پروفیسر ڈاکٹر، ایضا،ص ۔۷۶۳ء ۱۹۷۴اعجاز الحق قدوسی ، تاریخ سند ھ، حصہ دوم ، مرکزی ارد و بورڈ الہور، ۔ ۷۶۴

۶۵۴،ص ۔ ۷۶۵ ۱۵۵،ص نبی بخش خان بلوچ، ڈاکٹر، سندھ میں فارسی شاعری کا آخری دور، ایضا

۱۰۶بنی بخش خان بلوچ، ڈاکٹر، سندھ میں اردو شاعری ، ایضا،ص ۔ ۷۶۶

۹۲، ۹۱سہیل بخاری، ڈاکٹر، ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حصہ، ایضا،ص ۔۷۶۷ء،ص ۱۹۲۳حسن نظامی ،موالنا ،گرفتار شدہ خطوط، دلی پرنٹنگ ورکس دہلی، ۔ ۷۶۸

۴۴ ،۴۵

۳۵۶مذہ شاہ حاتم دہلوی ،ایضا،ص عبدالرشید عصیم ، تذکرہ تال ۔ ۷۶۹ء ،اخبار اور دستاویزیں ،مکتبہ شاہراہ اردو بازار ۱۸۵۷عتیق صدیقی، مرتب، ۔۷۷۰

Page 166: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

166

۱۹ء ،ص ۱۹۶۶دہلی،

۱۲۰ء ،ص ۱۹۹۶نور احمد چشتی ، تحقیقات چشتی ، الفصیل ناشران کتب الہور، ۔ ۷۷۱ ۸۰، ۶۲، ۲۱ء ،ص ۲۰۰۲بہادر شاہ ظفر ،دیوان ظفر، فرید بک ڈپولمیٹڈ، دہلی، ۔۷۷۲

اثر رامپوری ، محمد علی خان ، کرم خان رامپوری ، اور ان کا کالم ، ماہنامہ ۔۷۷۳

۱۳۵، ۱۲۶ء، ص۱۹۵۱، اگست ۲، شمارہ ۶۸معارف، اعظم گڑھ، جلد ۸۷ء ،ص ۱۹۹۹پریل ،دو ماہی گلبن ، احمد آباد، بھارت، جنوری تار ا ۔۷۷۴

عبدہللا ،ڈاکٹر ،سید ،سخن ور ، حصہ اول، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی ۔ ۷۷۵

۸۸ء،ص ۱۹۷۶الہور،محمد اسماعیل شہید دہلوی، موالنا، تقویتہ اال یمان ،مکتبہ نعیمیہ مؤ ناتھ بھنجن )یوپی ۔ ۷۷۶

۹۶ء ،ص ۱۸۲۵(

۳۲۱ا ارتقا ، ایضا،ص اختر اورینوی ، بہار میں اردو زبان و ادب ک ۔۷۷۷ ۔ ۷۷۸ ۳۲۲ص 249اختر اورینوی ،ایضا

۳۲۳اختر اورینوی ، ایضا،ص ۔ ۷۷۹

۳۷۹عبدالغفور نساخ، سخن شعراء ، ایضا،ص ۔۷۸۰ ۷۵۷ضمیر اختر نقوی، عالمہ ڈاکٹر سید، دبستان ناسخ، ایضا،ص ۔ ۷۸۱

۷۵۹، ۷۵۸ایضا،ص ص ۔۷۸۲

۳۰ء،ص ۱۹۶۵امداد صابری، تالمذۂ میر، افقر اکادمی راولپنڈی، ۔۷۸۳ ۳۶سریرام ،اللہ ، خم خانہ جاوید، جلد دوم ، ایضا،ص ۔ ۷۸۴

۳۰امداد صابری، ایضا،ص ۔۷۸۵

۹عبدالحق ،مولوی، مقدمہ ، تذکرۂ ہندی از غالم ہمدانی مصحفی ، ایضا،ص ۔ ۷۸۶ر تقی میر نے لکھا ہے کہ فقیر کے نزدیک میرحسین کلیم جس کے بارے میں می ۔۷۸۷

ہے بندہ کو اس کی خدمت میں بہت قربت حاصل ہے تہ دل سے اخالص کا رشتہ ہے۔ )تذکرہ

،اگر محمد حسین کلیم میر تقی میر کے بہنوئی ہوتے یعنی میر حسین ( ۴۷نکات الشعراء ،ص مصحفی کو بھی غلط فہمی تجلی کے والد ہوتے تو میر امید ہے ضرور تذکرہ کرتے ۔یہاں غالبا

ہوئی ہے۔

۵۰غالم ہمدانی مصحفی ،تذکرۂ ہندی ،ایضا،ص ۔ ۷۸۸ ۳۱امداد صابری، ایضا،ص ۔ ۷۸۹

۳۳۵ء،۱۹۷۰جوش ملیح آبادی، یادوں کی بارات، جوش اکیڈمی کراچی، ۔ ۷۹۰دنیاد عاکف سنبھلی ، ڈاکٹر رضا و الرحمن، سوانحی انسائیکلو پیڈیا، جلد دوم ، کتابی ۔ ۷۹۱

۳۵۸ء ،ص ۲۰۱۰ہلی ،

Rekhta.org/poet/gaya - faqir Mohammed / Profile۔ ۷۹۲ ۳۴۰جوش ملیح آبادی، ایضا،ص ۔۷۹۳

کیفی چڑیا کوئی، مولوی محمد مبین ، جواہر سخن، چوتھی جلد، ہندوستانی اکیڈمی ۔ ۷۹۴

۱ء،ص ۱۹۳۹الہ آباد، کالم ،فقیر محمد خان گویا، اتر پردیش اردو اکادمی انجم ملیح آبادی ،مرتبہ:انتخاب ۔ ۷۹۵

Page 167: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

167

۳۸، ۲۳ء ،ص ۱۹۹۰لکھنؤ ،

۲ء ،ص ۱۸۸۷فقیر محمد گویا، بستان حکمت، مطبع نول کشور لکھنؤ ، ۔ ۷۹۶ ۲۶۹ضمیر اختر نقوی، سید ، دبستان ناسخ ،ایضا،ص ۔۷۹۷

اکادمی لکھنؤ ، محمد باقر، آغا،مرتبہ ، انتخاب غزلیات برق ،اتر پردیش اردو ۔ ۷۹۸

۱۳۶، ۶۹ء ،ص ۱۹۸۳ ۶۶۳محمد شمس الحق ،گلہائے رنگ رنگ ، جلد دوم ، ایضا،ص ۔ ۷۹۹

۱۴۷عبدالغفور نساخ، سخن شعراء ، ایضا،ص ۔۸۰۰

۶۶۳محمد شمس الحق ، ایضا ، ۔ ۸۰۱غالم ہمدانی مصحفی، ریاض الفصحا ، مرتبہ:مولوی عبدالحق، مطبع:جامعہ ترقی ۔۸۰۲

۹۰ء ،ص۱۹۳۴ہلی، پریس د

شخصیت و فن،سطور پبلی کیشنز، ملتان، ۰شگفتہ حسین ، ڈاکٹر، اشرف علی خان ۔۸۰۳ ۱۴ء،ص ۲۰۰۳

۱۴۷عبدالغفور نساخ، سخن شعراء ، ایضا،ص ۔ ۸۰۴

۱۱۲، ۱۱۰، ۷۴شگفتہ حسین ، ڈاکٹر، ایضا،ص ۔ ۸۰۵ ۱۳۷تا ۱۲۶بنی بخش خان بلوچ، ڈاکٹر، سندھ میں اردو شاعری، ایضا،ص ۔ ۸۰۶

نقش حیدر آبادی ، نصیر الدین ،تذکرہ عروس االذکار ،مرتبہ:افسر صدیقی امروہوی ۔۸۰۷

۱۸۳،ایضا،ص ۲۸ایضا،ص ۔ ۸۰۸

۱۸۳ایضا،ص ۔ ۸۰۹

۳۹۴صوفی ملکا پوری ، محبوب الزمن حصہ اول ،ایضا ، ۔ ۸۱۰ ۳۹۵ایضا،ص ۔ ۸۱۱

محمود الرحمن ،ڈاکٹر، جنگ آزادی کے ار ۔۸۱۲ دو شعراء ،ایضا

دیبی پرشاد بشاش، تذکرہ آثار الشعرائے ہنود، حصہ دوم ، مطبع رضوی، دہلی، ۔۸۱۳ ۱۴۶ء ،ص ۱۸۸۵ستمبر

صفدر حسین بیگ سیفی ،میرزا ، میر صوبیدار خان ٹالپور،مشمولہ :سہ ماہی پیغام ۔ ۸۱۴

۱۶۴ء،ص ۲۰۰۹، اپریل تا جون ۳۷آشنا، اسالم آباد، شمارہ نمبر ۱۱۵نی بخش بلوچ، ڈاکٹر، سندھ میں اردو شاعری ،ایضا،ص ب ۔ ۸۱۵

۱۶۹صفدر حسین بیگ، میرزا، ایضا،ص ۔ ۸۱۶موہن لعل پریمی ،پروفیسر ڈاکٹر، سچل سر مست کی اردو شاعری ، ۔۸۱۷

۱۸۸مشمولہ:پاکستان میں اردو پہلی جلد، سندھ ، ایضا،ص

۴ء ،ص ۱۹۱۱ۂجاوید،جلددوم،امپیریلبکڈپوپریسدہلی،سریرام ،اللہ ، خم خان ۔ ۸۱۸ ۶۴۳محمد شمس الحق ،گلہائے رنگ رنگ ، جلد دوم ، ایضا،ص ۔ ۸۱۹

۵سریرام اللہ، خم خانہ جاوید، جلد دوم ، ایضا،ص ۔۸۲۰

۵عبدالقدوس ہاشمی ، تقویم تاریخی ،ایضا،ص ۔ ۸۲۱ ۳۰ء ،ص ۲۰۱۱میٹڈ نئی دہلی عبدالسالم،شاہ ،دبستان آتش، مکتبہ جامعہ ل ۔۸۲۲

Page 168: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

168

۶سریرام ،اللہ ، خم خانہ جاوید، جلد دوم ، ایضا،ص ۔۸۲۳

۳۱عبدالسالم شاہ، دبستان آتش، ایضا،ص ۔ ۸۲۴ ۵۴۲ضمیر اختر نقوی، عالمہ ڈاکٹر، دبستان ناسخ ،ایضا،ص ۔ ۸۲۵

انی اکیڈمی الہ کیفی چڑیا کوئی ، مولوی محمد مبین ، جواہر سخن ،جلد سوم ،ہندوست ۔۸۲۶

۲۸۱آباد، س ن ،، وبنی بخش خان بلوچ، ڈاکٹر، ۱۸۹موہن لعل پریمی ،پروفیسر ،ڈاکٹر ،ایضا،ص ۔۸۲۷

۱۱۰سندھ میں اردو شاعری ،ا یضا،ص

طالب المولی ، مخدوم محمد زمان ،در نایاب عرف یاد رفتگاں )سندھی( سندھی ادبی ۔ ۸۲۸ ۱۲ء ،ص ۱۹۵۳بورڈ جام شورو ،

۱۲ایضا،ص ۔۸۲۹

۱۳ایضا،ص ۔۸۳۰ ۱۱۳بنی بخش خان بلوچ ، ڈاکٹر ، سندھ میں اردو شاعری ،ا یضا،ص ۔ ۸۳۱

۱۴۴عبدالباری آسی ، مولوی ،تذکرہ خندۂ گل، ایضا،ص ۔۸۳۲

۲۳تمکین کاظمی، تذکرۂ ریختی ، ایضا،ص ۔۸۳۳ ۱۴۴عبدالباری آسی، مولوی، ایضا،ص ۔ ۸۳۴

، تاریخ شعرائے روہیل کھنڈ ، جلد اول ،سید عظیم القدر شایاں بریلوی ۔ ۸۳۵

۸۶ء،ص ۱۹۹۱کراچی ۹۶ء ،ص ۱۹۹۷بشارت علی مرزا، تاریخ جھجر ، علی سنز کراچی، ۔ ۸۳۶

۹۸شیفتہ ،نواب محمد مصطفی خان، گلشن بے خار، ایضا، ص ۔۸۳۷

۱۸۷سریرام ،اللہ ،خم خانہ جاوید، جلد اول ، ایضا،ص ۔ ۸۳۸ ۷۹ء ،ص ۲۰۰۷احمد میرٹھی ، بوستان عقیدت، ادارہ فکر نو ،کراچی ، نور ۔ ۸۳۹

۴۵ء،ص ۱۹۳۲شیام سندر الل برق، بابو ، بہار سخن، مطبع یل۔ بی سیتاپور، ۔۸۴۰

۷۹نور احمد میرٹھی، بوستان عقیدت، ایضا،ص ۔ ۸۴۱ ۴۵شیام سندر الل برق، ایضا،ص ۔۸۴۲

ہندو مرثیہ گو شعرا ء ،ایالیئڈ ٹریڈرس نئی دہلی، اکبر حیدری کشمیری، پروفیسر ، ۔۸۴۳

۱۳۲ء،ص ۲۰۰۴ ۱۲۸، ۱۲۷احترام الدین شاغل ،تذکرہ شعرائے جے پور، ایضا،ص ۔ ۸۴۴

برجکشن کول بے خبر، پنڈت و جگ موہن ناتھ شوق ، تذکرہ شعرائے کشمیر پنڈتاں ۔ ۸۴۵ ۴۸۱ء ،ص ۱۹۳۲المعروف بہار گلشن کشمیر ،جلد ثانی ،ا نڈین پریس لمیٹڈ الہ آباد،

اس پر تقریبا تمام تذکرہ نگار متفق ہیں۔ *

۲۴ء ،ص ۱۹۵۲ زیدی دہلوی، مرتب: اردو شاعروں کا البم ، غالب بک ڈپو، الہور ۔ ۸۴۶ ۹۴ششماہی فن اور شخصیت، کوائف نمبر ،ایضا،ص ۔۸۴۷

جگدیشن مہتہ درد ، اردو کے ہندو شعراء ، حصہ دوم ،حقیقت بیانی پبلشرز ،نئی ۔۸۴۸

۴۶۱ء ،ص ۱۹۷۴دہلی ، ۲۸ء ،ص ۲۰۰۸غوث سیوانی ، چراخ دیر ،نجم بک ڈپو، دہلی ، ۔ ۸۴۹

Page 169: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

169

۶۳۸ء ،ص ۱۹۸۲، دسمبر ۱۳۰، شمارہ ۲بر ماہنامہ نقوش، الہور ،رسول نم ۔۸۵۰

۶۰۳کیفی چڑیا کوئی ،مولوی محمد مبین ، جواہر سخن،ایضا،ص ۔ ۸۵۱حیات وارثی ،ا تر پردیش کے اردو شعراء ، آل انڈیا ہندی اردو سنگم ،لکھنؤ ۔۸۵۲

۳۰ء ،ص ۱۹۷۴،

۱۲۹ء ،ص ۱۹۵۷مالک رام ، تالمذۂ ،غالب ،مرکز تصنیف و تالیف ،نکودر ، ۔۸۵۳ ۱۲۹ایضا،ص ۔ ۸۵۴

۸۳بشارت علی ،مرزا، تاریخ جھجھر ایضا،ص ۔ ۸۵۵

۱۳۳مالک رام ، تالمذۂ غالب ، ایضا،ص ۔ ۸۵۶ ۵۲صدر الدین آزردہ ،مفتی ، تذکرہ آزردہ ،ایضا،ص ۔۸۵۷

۲۲۸مالک رام ،تذکرہ ماہ و سال ، ایضا،ص ۔ ۸۵۸

ناشر ‘تاتریہ کیفی’سریرام ،اللہ ، خم خانۂ جاوید، جلد پنجم ،مرتبہ: پنڈت برجموہن ۔ ۸۵۹ ۷۷ء،ص ۱۹۴۰اللہ امیر چند کھنہ دہلی ،

راشد اسدی جے پوری ، جے پور میں دہلوی اور لکھنوی اساتذہ کے سلسلے ۔۸۶۰

ء۲۰۰۰،مشمولہ ماہنامہ سب رس ،کراچی ،جوالئی ، ، تذکرہ گلستان سخن ،جلد اول ،مرتبہ: خلیل الرحمان داؤدی صابر دہلوی ،قادر بخش ۔ ۸۶۱

۲۷۴ء ،ص ۱۹۶۶،مجلس ترقی ادب ،الہور،

۳۳۹عبدالباری آسی، تذکرہ خندۂ گل، ایضا،ص ۔ ۸۶۲ ۸۷ء ،ص ۱۹۲۶سریرام ،اللہ ، خم خانہ جاوید، جلد چہارم ،ہمدرد پریس دہلی ، ۔ ۸۶۳

۴۱۵ہ گلستان سخن، جلد اول، ایضا،ص صابر دہلوی ، میرزا قادر بخش، تذکر ۔ ۸۶۴

۱۴۴عبدالغفور نساخ، سخن شعراء ، ایضا،ص ۔ ۸۶۵ ۴۱۶، ۴۱۵صابر دہلوی،میرزا قادر بخش، ایضا،ص ۔ ۸۶۶

۲۶۳ء ،ص ۱۹۸۳کاظم علی خان ، ادبی مقالے ، مصنف خود، لکھنؤ ، ۔۸۶۷

اد ،جناح لٹریری اکیڈمی کراچی ، شہابی اکبر آبادی ، مفتی انتظام ہللا ، مشاہیر اکبر آب ۔ ۸۶۸ ۵۹س ن

۱۳۳بحوالہ گلستان بے خزاں ازباطن اکبر آبادی، *

بحوالہ تحریر قلمی عبدالحامد خان )۶۳شہابی اکبر آبادی، مفتی انتظام ہللا، ایضا،ص ۔ ۸۶۹ (فرزند شیفتہ

۲۶۳کاظم علی خان ،ادبی مقالے ،ایضا،ص ۔۸۷۰انور سدید ،ڈاکٹر ، اردو ادب میں سفر نامہ ،مغربی پاکستان ،اردو اکیڈمی الہور، ۔ ۸۷۱

۱۲۰ء ،۱۹۸۷

۲۴اردو محظوطات کی فہرستیں )رسائل میں ( جلد اول ،ص ۔۸۷۲ء ۲۰۱۱خالد محمود، اردو سفر ناموں کا تنقیدی مطالعہ ، مکتبہ جامعہ نئی دہلی، ۔۸۷۳

۱۰۷،ص

ا ، اردو سفر نامے کی مختصر تاریخ ،ماہنامہ سپوتنک ،الہور حامد بیگ، ڈاکٹر مرز ۔ ۸۷۴ ۵۲ء ،ص ۱۹۹۹، دسمبر ۱۲، شمارہ ۱۰،جلد

Page 170: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

170

۔ ۸۷۵ ، )بحوالہ تاریخ افغانستان ، از سید فدا ۵۳ص 249حامد بیگ، ڈاکٹر، مرزا ،ایضا

(حسین عرف بنی بخشادمی لکھنؤ، نور الدین فائق، قاضی ،تذکرہ مخزن الشعراء ،اتر پردیش اردو اک ۔ ۸۷۶

۹۱ء ،ص ۱۹۸۵

۲۷۴مالک رام دہلوی، تالمذۂ غالب، ایضا،ص ۔۸۷۷ء ،ص ۱۹۶۰ء ،کے غدار شعراء مطبع یونین پریس دہلی، ۱۸۵۷امداد صابری، ۔ ۸۷۸

۱۱۸

۱۴۳، ۱۴۲، ۱۴۱امداد صابری، ایضا،ص ۔ ۸۷۹ ۱۴۵امداد صابری، ایضا،ص ۔ ۸۸۰

آخری شمع، مرتبہ: ڈاکٹر صالح الدین ،اردو اکادمی فرحت ہللا بیگ، مرزا، دہلی کی ۔ ۸۸۱

۱۰۶ء،ص ۱۹۹۱دہلی، ۳۶۱کریم الدین ،طبقات شعرائے ہند، ایضا ، ص ۔۸۸۲

۵۹سریرام ،اللہ، خم خانہ جاوید، جلد دوم ، ایضا،ص ۔۸۸۳

۵۹سریرام ،اللہ ،ایضا،ص ۔ ۸۸۴ ۲۳۲ضا،ص نور الحسن ہاشمی ، ڈاکٹر، دہلی کا دبستان شاعری، ای ۔ ۸۸۵

۶۳سریرام ،اللہ ، خم خانہ جاوید، جلد دوم ، ایضا،ص ۔ ۸۸۶

محمد رضی عثمانی ، تعارف، کلیات امدادیہ ،از امداد ہللا مہاجر مکی ، دارا الشاعت ۔۸۸۷ ۲ء ،ص ۱۹۷۷،کراچی ،

۲ایضا،ص ۔ ۸۸۸

۹۱، ۸۷ایضا،ص ۔ ۸۸۹ھ ، ۱۳۰۴، مطبع شاہ جہانی بھوپال ، محمد ممتاز ، حافظ سید، تذکرۃ آثار الشعراء ۔ ۸۹۰

۱۰۳ص

۲۱۶سریرام ،اللہ ،خم خانہ جاوید، جلد سوم ،ایضا،ص ۔ ۸۹۱کلب علی خان فائق، مقدمہ کلیات نظام از نظام رامپوری، مجلس ترقی ادب الہور، ۔۸۹۲

۶۲ء ،ص ۱۹۶۵

انور علی ، ڈاکٹر و ڈاکٹر محمد طاہر بوستان خان، اردو شاعری میں دبستان رام ۔۸۹۳، اپریل ۶۵، شمارہ ۱۷پور کے شعرا ء کا حصہ ، مشمولہ :سہ ماہی ، پیغام آشنا، اسالم آباد،جلد :

۱۲۱ء،ص ۲۰۱۶تا جون ، ۵۷حیات وارثی ، اتر پردیش کے اردو شاعر ، ایضا،ص ۔ ۸۹۴

۴۳۸نی سالک ، رام پور شناسی ، ایضا،ص عتیق جیال ۔ ۸۹۵

۶۱۳بشارت فروغ، وفیات مشاہیر اردو، حصہ اول، ایضا،ص ۔۸۹۶ ۱۲۱انور علی، ڈاکٹر و ڈاکٹر محمد طاہر بوستان خیال ، ایضا،ص ۔۸۹۷

۶۴کلب علی خان فائق، مقدمہ ،کلیات نظام ،ایضا،ص ۔۸۹۸

۲۴۶، ۵۹، ۵، ۴ہ: کلب علی خان فائق، ایضا،ص نظام رامپوری ، کلیات نظام ، مرتب ۔ ۸۹۹ ۳ء ،ص ۱۹۱۰امیر ہللا تسلیم ، دفتر خیال، مطبع سعیدی ریاست رام پور، ۔ ۹۰۰

Page 171: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

171

امیر ہللا تسلیم کے زمانے میں ایک ہزار سپاہیوں کی پلٹن میں اعلی افسر ایک کمیدار ۔ ۹۰۱

چ سو سپاہیوں پر دوم درجہ کا افسر ،دو اولشدار ، اور دس تمندار ہوتے تھے۔ گویا اولشدار پان ہوتا تھا۔

ھ ، ۱۲۷۲امیر ہللا تسلیم ،نالۂ تسلیم ،مطبع مصطفائی ، )محمد مصطفی خان( ،لکھنؤ ۔۹۰۲

۳۰۹ص ء ،ص ۱۹۷۴فضل امام، ڈاکٹر، امیر ہللا تسلیم حیات وشاعری ، مصنف خود الہ آباد، ۔۹۰۳

۲۳

۱۴۹اریخ اردو،ایضا،ص شجاعت علی سندیلوی، ڈاکٹر، تعارف، ت ۔۹۰۴مہر تقوی جے پوری،سید خورشید علی، تذکرۂ در فشاں ،مشمولہ :سہ ماہی اردو ۔ ۹۰۵

۱۷۰۷ء،ص ۲۰۱۲، جنوری تادسمبر ۴تا ۱، شمارہ نمبر ۸۸،کراچی ،جلد نمبر

۳امیر ہللا تسلیم ،نالۂ تسلیم ،ایضا،ص ۔ ۹۰۶ ۸۳امیر ہللا تسلیم ،دفتر خیال، ایضا،ص ۔۹۰۷

سیدہ محمد ی بیگم ،سید امتیاز علی تاج کی والدہ تھیں۔ ۔ ۹۰۸

گوہر نوشاہی، ڈاکٹر، سید امتیاز علی تاج۔شخصیت و فن ، اکادمی ادبیات ، پاکستان ۔ ۹۰۹ ۳۳ء ،ص ۱۹۹۹اسالم آباد،

احمد شفیع، منشی سید، مضامین پولیٹکل ،مطبع ریاست ناہن سرمو، مقام و سن ندارد، ۔ ۹۱۰

۶۶، ۶۵ص حسن علی خان و نور الحسن خان، تذکرہ بزم سخن و کلیم طور، مرتبہ:عطا کاکوی، ۔ ۹۱۱

۶۴ء،ص ۱۹۶۸عظیم الشان بک ڈپو پٹنہ،

۴۴شہابی اکبر آبادی، مفتی انتظام ہللا، ایضا،ص ۔۹۱۲ ۔۹۱۳ ایضا

،اردو شاہد احمد جمالی، تذکرۂ خم خانہ، جاوید میں راجستھان کے شعراء راجپوتانہ ۔ ۹۱۴

۶۴ء،ص ۲۰۱۴ریسرچ اکیڈمی جے پور، ایضا، ۔ ۹۱۵

۹۸فرحت ہللا بیگ، مرزا، دہلی کی آخری شمع،ایضا،ص ۔ ۹۱۶

سعادت خان ناصر، تذکرہ خوش معرکہ زیبا، جلد دوم ،مرتبہ: مشفق خواجہ، مجلس ۔۹۱۷ ۹۱ء ،ص ۱۹۷۲ترقی ادب ،الہور،

۱۸۰کاظم علی خان، ادبی مقالے، ایضا،ص ۔ ۹۱۸ ۹۲سعادت خان ناصر، تذکرہ خوش معرکہ زیبا،جلد دوم ، ایضا،ص ۔ ۹۱۹

ء۱۹۹۱نعیم تقوی، پروفیسر ڈاکٹر، محراب عقیدت،مجلس افکار اسالمی،کراچی، ۔۹۲۰

خلیل احمد خان، ڈاکٹر، آخری تاجدار اودھ بادشاہ واجد علی شاہ، مشمولہ ماہنامہ گل ۔ ۹۲۱ ۳۱ء ،ص ۲۰۰۲، ۴کدہ ، بدایوں ،شمارہ نمبر

۶۳۱محمد شمس الحق، گلہائے رنگ رنگ، جلد دوم ، ایضا،ص ۔۹۲۲

سجاد علی مرزا، کوکب قدر، واجد علی شاہ کی ادبی ثقافتی خدمات، ترقی اردو ۔۹۲۳ ۵۴، ۵۳ء ،ص ۱۹۹۵بیورو نئی دہلی،

Page 172: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

172

۱۱۹نند کشور و کرم ، مصور تذکرے ، ایضا،ص ۔ ۹۲۴

مٹیا برج کی ادبی خدمات، شب نور پبلی کیشنز ،کلکتہ الف انصاری، ڈاکٹر، دبستان ۔ ۹۲۵ ۳۰ء ،ص ۲۰۰۵

ء ۱۹۵۸محمد عباس ،سید، سفینۂ غزل تاج کمپنی لمیٹڈ کراچی، الہور، ڈھاکہ ،مئی ۔ ۹۲۶

۳۵۵ص ۔۹۲۸۳۰الف انصاری ، ڈاکٹر، دبستان مٹیا برج کی ادبی خدمات ،ایضا،ص ۔۹۲۷

۔ ۹۲۸ ۷۴۔۶۵، صسجاد علی مرزا، کوکب تدر، ایضا

مسعو د حسن رضوی، ادیب، لکھنؤ یات ادیب، مرتبہ :ڈاکٹر طاہر تونسوی، مغربی ۔ ۹۲۹ ۱۱۶ء،ص۱۹۸۸پاکستان اردو اکیڈمی ،الہور،

۱۱۳، ۱۱۲، ۱۱۱سجاد علی مرزا، کوکب قدر، ایضا،ص ۔۹۳۰

واجد علی شاہ اختر، سلطان عالم محمد، مجموعۂ واجدیہ ، مطبع سلطانی ،لکھنؤ ۔ ۹۳۱ ۴۰۸، ۱۴۴ھ، ص ۱۲۶۷

۱۱۷مسعود حسن رضوی ،ادیب ،سید، لکھنویات ادیب، ایضا،ص ۔۹۳۲

کے حوالے ۸۱سید مسعود حسن رضوی ادیب نے لکھنویات ادیب میں حزن اختر کے ص * سے یہ اشعار نقل کیے ہیں جب کہ یہ اشعار پہال ایڈیشن جو میں نے دیکھا اس میں موجود نہیں۔

۲ش، الہور، رسول نمبرماہنامہ نقو ۔۹۳۳ ، ایضا

واجد علی شاہ اختر، دیوان محمد واجد علی شاہ اختر، مقام اشاعت و سن ندا رد، ص ۔ ۹۳۴۹۶

نسخہ اتنا پرانا ہے کہ اس پر سے الفاظ مٹے ہوئے ہیں پہال صفحہ بھی کٹا پھٹا ہے اورالقاب *

سے بھرا ہوا ہے۔ ۷۰۰، جواہر سخن جلد سوم ،ایضا،ص کیفی چڑیا کوئی ،مولوی محمد مبین ۔ ۹۳۵

انور صابری ،جانے پہچانے اور وہ جنہیں کوئی نہیں جانتا ۔صابری بک ڈپو دیو بند، ۔ ۹۳۶

۱۳۱ء،ص ۱۹۵۸ ۳۳۱کریم الدین ،طبقات شعرائے ہند، ایضا،ص ۔۹۳۷

۴۸۵سریرام ،اللہ، خم خانہ جاوید، جلد سوم ، ایضا،ص ۔ ۹۳۸

ھ، ص ۱۳۰۴افظ سید، آثار الشعراء ،مطبع شاہجہانی بھوپال ، محمد ممتاز علی، ح ۔ ۹۳۹۱۵۰

۸۴عبدالسالم ،شاہ ، دبستان آتش،ایضا،ص ۔۹۴۰ ۸۵ایضا،ص ۔ ۹۴۱

ضمیر اختر نقوی، عالمہ ڈاکٹر، سید ، شعرائے مصطفی آباد)رائے بریلی( محسنہ ۔۹۴۲

۱۴۹، ۱۴۸ء،ص ۲۰۱۳میموریل فاؤنڈیشن کراچی ، ۳۴۱احترام الدین شاغل، تذکرہ شعرائے جے پور، ایضا،ص ۔۹۴۳

۷۶۰ضمیر اختر نقوی، عالمہ ، ڈاکٹر ،سید، دبستان ناسخ، ایضا،ص ۔ ۹۴۴

۴۸۶بشارت فروغ ، وفیات مشاہیر اردو، ایضا،ص ۔ ۹۴۵ابو اللیث صدیقی، ڈاکٹر ،لکھنؤ کی آخری شمع، ایجوکیشنل بک ہاؤس ،علی گڑھ ، ۔ ۹۴۶

Page 173: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

173

۷۹س ن ،

۲۷۷:۲۷۹کیفی چڑیا کوئی ،مولوی محمد مبین ، جواہر سخن، جلد سوم ، ایضا،ص ۔۹۴۷مشیر الحسن ،جان کمپنی سے جمہوریہ تک ، ترجمہ:مسعود الحق، قومی کونسل ۔ ۹۴۸

۹۵ء،ص۲۰۰۱برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی،

شور، ایجوکیشنل ء کے انقالب کا عینی شاہد جارج پیش ۱۸۵۷راحت ابرار، ڈاکٹر، ۔ ۹۴۹ ۳۰ء،ص ۲۰۱۱پبلشنگ ہاؤس دہلی، بار دوم ،

احمد خان، سر سید، آثار الصنادید جلد دوم ،مرتبہ :خلیق انجم ،قومی کونسل برائے ۔۹۵۰

۱۶۳ء،ص ۲۰۰۳فروغ اردو زبان نئی دہلی، ۸۵ء،ص ۱۹۲۶سریرام ،اللہ، خم خانہ جاوید، جلد چہارم ، ہمدرد پریس دہلی، ۔ ۹۵۱

ر نو شاہی ،ڈاکٹر، دیباچہ ، مشمولہ:مثنوی ہشت عدل مع واسوخت از محمود گوہ ۔۹۵۲

۲۰۱ء،ص ۱۹۷۱بیگ راحت، مجلس ترقی ادب، الہور، ۶۰ء،ص ۱۹۹۶ظہیر احمد صدیقی ،دبستان مومن ،انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی، ۔۹۵۳

محمود بیگ راحت، مثنوی ہشت عدل مع واسوخت، مرتبہ :ڈاکٹر گوہر نوشاہی، ۔ ۹۵۴

۳۲ایضا،ص ۱۴۹بنی بخش خان بلوچ، ڈاکٹر، سندھ میں اردو شاعری ،ایضا،ص ۔ ۹۵۵

۱۵۰ایضا،ص ۔ ۹۵۶

۵۹دیبی پرشاد بشاش، منشی، تذکرہ آثار الشعرائے ہنود، حصہ دوم ، ایضا،ص ۔۹۵۷ ۳۰۵خم خانہ جاوید، جلد سوم ، ایضا،ص سریرام ،اللہ ، ۔ ۹۵۸

۷۲ر شعراء ایضا،ص ۱ء ،کے عذ۱۸۵۷امداد صابری ، ۔ ۹۵۹

۶۱، ۶۰دیپی پرشاد بشاش، منشی ، ایضا،ص ۔ ۹۶۰برج کشن کول بے خبر ،پنڈت و پنڈت جگموہن ناتھ رینہ شوق، بہار گلشن کشمیر ۔ ۹۶۱

۲۱،جلد دوم ،ایضا ،ص

۳۹۴ماہ و سال، ایضا،ص مالک رام ، تذکرہ ۔۹۶۲ ۷۱۵گیان چند، پروفیسر، اردو کی نثر ی داستانیں ،ایضا،ص ۔۹۶۳

، ۴۳ھ، ص ۱۳۰۲کلب علی خان نواب ، مضامین رفیع، مطبع تاج المطابع رامپور، ۔ ۹۶۴

۴۴ ۶۰، ۵۹ایضا،ص ۔ ۹۶۵

۱۰۹احترام الدین شاغل ،تذکرہ شعرائے جے پور، ایضا،ص ۔ ۹۶۶ ۱۱۰احترام الدین شاغل، ایضا،ص ۔۹۶۷

ھ ، ۱۳۱۳عبدالرحمن کلیانی، کنزاال خالق ال ھل اآل فاق ،مصنف خود میرٹھ، چہارم ۔ ۹۶۸

۱۳۳، ۱۱۴ص عبدالرحمن کلیانی ، مولوی محمد ،سرکوب بدعت، مطبع مطلع العلوم ، مراد آباد، ۔ ۹۶۹

۱۳۵ء ،ص ۱۸۹۵پنجم

۲ایضا۔ص ۔۹۷۰یانی ، مولوی محمد، فقہ کے سو مسئلے، مطبع محمدی الہور، س ن ، عبدالرحمان کل ۔ ۹۷۱

Page 174: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

174

۱۴

۱۶۸ء کے غدار شعراء ، ایضا،ص ۱۸۵۷امداد صابری ، ۔۹۷۲

Page 175: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

سومباب

کے عسکری اہل قلم بیرونی اقوام

سومباب

کے عسکری اہل قلم بیرونی اقوام ابتدائی مباحث

واسکوڈے گاما کے بعد یورپین کی آمد کا ایک نہ رکنے واال سلسلہ شروع

ہوا۔ گویا واسکوڈے گاما جارح یورپ کا ہراول دستہ تھا لیکن وہ ملک جس کا وہ

وہ اس تحریک کا زیادہ عرصہ تک خرچ برداشت کرنے ‘ باشندہ تھا یعنی پرتگاللیے دوڑ میں پیچھے رہ گیا اور قیادت دوسرے مضبوط کے قابل نہ تھا اس

ہاتھوں میں چلی گئی۔ ہالینڈ، فرانس اور انگلینڈ ۔۔۔ پرتگال اور سپین کے رقیب بن

Page 176: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

176

گئے۔ انہوں نے اتنا دباؤ ڈاال کہ یہ دونوں منظر سے ہٹ گئے۔ قیمتی عالقوں پر

ن ممالک / قبضہ کرنے کے لیے اور برصغیر کو لوٹنے کے لیے اب رقابت ان تیقوموں کے درمیان رہ گئی اور باآلخر انگلستان اس میں کامیاب ہوا اور اس نے

ہالینڈ اور فرانس کو بھی ہندوستان سے نکال باہر کیا۔ اگرچہ ہالینڈ انڈونیشیا کے

جزیروں پر قابض رہا اور فرانس نے انڈو چائنا )ہند چینی( پر اپنا تسلط قائم رکھا ز سرکار نے اپنی اجارہ داری قائم کرلی۔لیکن برصغیر پر انگری

یورپین کی آمد برصغیر پر ان کے تسلط سے کئی سو سال پہلے شروع ہوچکی

تھی اور وہ ہر شے کا بغور جائزہ لے رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ مغلیہ حکمرانوں کو مفلوج اور یہاں کی مقیم اقوام کو بے حس کرکے ایک لمبے

منصوبے بنارہے تھے جن میں سے ایک عرصے تک حکومت کرنے کے

منصوبہ یہ بھی تھا کہ یہاں بولی جانے والی زبانوں پر بھی عبور حاصل کیا جائے۔ سو اردو زبان کو انہوں نے اسی مقصد کے لیے فروغ دیا کہ اپنی

حکمرانی کو انہی لوگوں کی زبان میں قائم اور مستحکم کرکے برقرار رکھا

جائے۔ت اور فروغ کے حوالے سے ناقدین نے بہت کچھ اردو زبان کی شروعا

یورپین کے اس کام کو نہیں ‘ لکھا ہے لیکن میں ان تمام اختالفات سے ہٹ کر

بھول سکتا کہ انہوں نے کم از کم ایک بے زبان قوم کو زبان تو دے دی۔ عربی ہماری مقدس زبان تھی جسے ہم بھول گئے۔ فارسی بھی باہر سے برصغیر میں

ر ایک طبقے کے لیے یہ متبرک تھی لیکن یہاں کے سب لوگوں کے آئی تھی او

لیے اس کی خاص اہمیت نہیں تھی۔ برصغیر کی دیگر قومیں مجبوری کے عالم میں اسے سیکھ اور برت رہی تھیں لیکن اردو کے فروغ پانے سے اپنے ہونے

کا احساس اجاگر ہوا۔

طے کرتا رہا لیکن اٹھارویں صدی عیسوی تک تو یہ سلسلہ ابتدائی مرحلے ٹیپو سلطان کے بعد اگلے ہی سال انہوں نے فورٹ ولیم کالج کی بنیاد رکھی اور

تراجم کروانے اور ان کی اشاعت سے ‘ ابتدا ہی اردو زبان میں کتابیں لکھوانے

کی۔ اردو زبان اب جو اہمیت اختیار کرچکی تھی اس کے بارے میں مسٹر ام کریو :نے رائے ظاہر کی تھی کہ

مسلمانوں کے قبضہ ہندوستان سے قبل یہاں کا جو حال ہو مگر اب تو ’’

یہاں کی زبان کی حالت یہ ہے کہ نہ تو ان کا ماخذ سنسکرت ہی کہی

جاسکتی ہے اور نہ وہ زبان صرف ان کی اصل ہے جو دیوناگری میں

کھی لکھی جاتی ہے اور یہی حالت ان حروف کی ہے جس میں یہ زبانیں ل

ترکی اور سنسکرت کے میل سے بنی ہے ‘ فارسی‘ عربی‘ ردواجاتی ہیں۔

اور فارسی خط میں بہ نسبت دیوناگری کے اس کا لکھا جانا زیادہ آسان

۔۱‘‘اور بامعنی ہوتا ہے

ایسی آراء کو ذہن میں رکھتے ہوئے کمپنی سرکار نے اردو زبان کو

زاں مجلس ء میں سرکاری زبان قرار دیا۔ بعدا۱۸۳۵ء یا بروایت دیگر ۱۸۳۲

Page 177: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

177

انجمن ‘ انجمن آگرہ‘ انجمن اصالح شاہ جہان پور‘ انجمن کلکتہ‘ مباحثہ بنارس

روہیل کھنڈ لٹریری ‘ سائینٹیفک سوسائٹی‘ دہلی لٹریری سوسائٹی‘ پنجابانجمن تہذیب لکھنؤ وغیرہ جیسی کئی مجالس اور ‘ انجمن عرب سرائے‘ سوسائٹی

ر نجی سطح پر متحرک رہے لیکن یہ ادارے اس زبان کے فروغ میں سرکاری او

ادارے عسکری نہیں تھے۔ البتہ ان میں سے کئی مجالس میں عسکری شخصیات نے دلچسپی لی اور اپنی تحریروں سے انہیں مضبوط بھی کیا۔ اردو زبان کو جب

ء کو گورنر جنرل کا ایک حکم ۱۸۳۷جنوری ۹سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تو

ء کو کی گئی۔ یہ حکم نامہ فوجیوں ۱۸۴۴مئی ۳۱تجدید نامہ جاری ہوا جس کی کے دستخظ تھے۔ اس WM Casement کے لیے تھا جس پر ملٹری سیکرٹری

:نے نقل کیا ہے W.Nassu Lees)) میں تین رولز شامل تھے جنہیں ناسولیس1- No military officer who is now in the service or who

may enter it hereafter will be deemeod qualified for, or

eligible to the appointment of regimental interpreter, unless

he shall have passed the examination in the native

language, prescribed for candidates for the latter situation.

. ۲

ع ہوتے ہیں۔ تقریر اور کسی بھی زبان کے ارتقا کے لیے ابتداء دو ذرائ

گفتگو کرنے اور حوصلہ افزائی ‘ تحریر۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بولنےخدمت کررہے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ جن کو یہ (verbal) کرکے زبانی

صالحیت عطا کی گئی ہوتی ہے کہ قلم کو استعمال کرسکیں وہ تحریر سے یہ

خدمت انجام دے رہے ہوتے ہیں۔اہر سے آنے والے لوگوں نے اردو زبان کی شروعات جہاں تقریرو برصغیر میں ب

گفتگو سے کی وہیں ساتھ ہی ساتھ تحریر کے تین ذرائع بھی اختیار کیے۔

اپنی اپنی زبان ۔3 خط ۔ اردو رسم ال2 ۔ رومن زبان1 میں

یورپین باشندوں کے لیے ہندوستان میں آنے کے بعد زبان کی تحصیل

جب انہیں اس میں شد بد حاصل ہوگئی تو اس زبان میں لکھنے ضروری تھی اورکی کوششیں شروع ہوئیں۔ کچھ ارد و زبان کی اپنی چاشنی تھی اور کچھ ان

جس کی وجہ سے وہ لوگ بہت جلد اس زبان کو بولنے ‘ لوگوں کی مجبوری

لگے۔ عوام کے ساتھ عوام کی اپنی زبان میں بات چیت کرنا کسی بھی قوم کے دلوں میں اترنے کا ذریعہ ہوتا ہے۔ اردو کی زبانی خدمت کرنے والوں میں لیے

وہ شخصیات آتی ہیں یا اہمیت کی حامل گردانی جاتی ہیں جن کے پاس کوئی

مرتبہ ہوتا ہے اور ان کا رابطہ عوام سے ہوتا ہے۔ انگریزوں نے جب تسلط جمایا ان کی بات کو سمجھنا اور ‘ تو وہ یہاں کے عوام میں گھل مل گئے۔ عوام کی سننا

اپنی بات سمجھانا ان کے لیے بہت ضروری تھا۔ ایسے لوگوں میں عہدیدار بھی

Page 178: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

178

ڈپٹی کمشنر بھی اور فوج میں بھرتی کرنے ‘ کمشنر‘ افسر بھی‘ سپاہی بھی‘ تھے

والے افسر بھی۔ اگرچہ یہ لوگ ہزاروں کی تعداد میں تھے لیکن چند ایک نام جو انٹرویو میں یا مشورے کے طور پر اردو ‘ اپنی گفتگو میںسامنے آئے انہوں نے

زبان کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا اور اسے نافذ کرنے کے حق میں بھی بیان

دیے۔ یہ ایسے لوگ تھے جو کبھی فوج میں خدمات انجام دے چکے تھے یا دے و رہے تھے۔ گویا ان لوگوں نے اپنے ووٹ اردو زبان کے حق میں دیے۔ ان کا ارد

اسے گفتگو یا بات چیت سے پھیالنا اور اس کے حق میں حصہ لینا ‘ سیکھنا‘ بولنا

اس زبان کی بہت بڑی خدمت ہے۔ ایسی شخصیات میں کرنل ایچ بی ایڈورس کمشنر ریاست ہائے این روئے ستلج نے اردو زبان کو سیکھا۔ وہ اس میں روانی

اس کے حق میں ووٹ سے تقریر کرلیتے تھے۔ انہوں نے اس کے نفاذ کے لیے

:دیتے ہوئے کہاتمام پنجاب اور اس کے عالقوں میں سوائے پشاور اور اضالع کوہاٹ ’’

جاتی اور ملتانی ڈیرہ‘ کے کچہریوں کی زبان اردو ہونی چاہئے۔ پنجابی

؎3۔یںبولیاں ہ

کرنل لیک بھی ریاست ہائے این روئے ستلج کے کمشنر رہے۔ انہوں نے

االت کو بات کو محسوس کیا اور کرنل ایڈورس کے خیبھی اپنے دور میں اس

جو پنجاب کے حوالے سے تھے۔ اپنے الفاظ میں دہرایاملتان ڈویژن کے کمشنر کرنل ہملٹن نے اپنے خیاالت کا اظہار اس طرح

فارسی زبان مستعمل ہے۔ الحاق کے ’’کیا: پشاور اور سرحدی اضالع میں غالبا

کچہری کی زبان بنالیا گیا۔ نتیجہ سے یہ ظاہر تھوڑے عرصہ بعد اردو کو حکما ۔‘‘کارروائی عمدہ تھی ہوتا ہے کہ ہر

ی کمشنر گوگیرہ کیپٹن میکسویل ڈپٹروئے ستلج کے کمشنر، کرنل لیک

،ڈیرہ جات کے کمشنر کرنل بچر ،پنجابی نے بھی جالندھر کے ڈپٹی کمشنر کیپٹن الفنٹسن ،پشاور کے کمشنر کرنل ٹیلر

۔۴‘‘ ے سے ایسے ہی خیاالت کا اظہار کیا۔اردو کے حوال

اسی طرح بہت سے عہدیدار اور افسران جو کسی بھی ادارے میں تھے اردو زبان کے حق میں دالئل دیتے۔ خود بھی اردو بولتے اور اس کے فروغ میں

اپنی سی خدمات پیش کرتے رہے۔ ریکروٹنگ آفیسرز چونکہ عسکری ہوتے تھے

پ سے ہوتا تھا۔ پس وہ اردو کے فروغ میں معاون ثابت اور ان کا تعلق بھی یورہوئے۔ وہ جس شہر میں بھی جاتے اردو زبان میں ہی گفتگو کرتے جیسے میجر

ٹنکرڈ جو پہلی جنگ عظیم میں راولپنڈی ڈویژن کے ریکروٹنگ آفیسر کی حیثیت

سے خدمات سرانجام رہے تھے ان کو اردو زبان پر اتنا عبور حاصل تھا کہ ں کی بھرتی کے سلسلے میں لوگوں کو راغب کرنے کے لیے اردو میں فوجیو

اتنی جامع اور مدلل تقریر کرتے کہ جوان کھنچے چلے آتے۔

Page 179: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

179

انگریزوں نے اردو کو قومی زبان بنانے کی جو تحریک شروع کی تھی

اس سے پہلے اس لحاظ سے کی گئی کوششوں کا مطالعہ کریں تو تسلیم کرنا پڑتا ے اپنی آمد کے بعد ہی سے ہندوستانی زبان پر کام کا آغاز کردیا ہے کہ یورپین ن

تھا یہ الگ بات کہ وہ ہندوستانی زبان بعد میں اردو کے نام سے سامنے آئی۔

ء میں انگلستان کے ہاتھوں ۱۵۸۸تاریخ اس طرف بھی توجہ دالتی ہے کہ قت ہسپانیہ کے بحری بیڑے آرمیڈا کو جب شکست ہوئی اور برطانوی بحری طا

کو باالدستی حاصل ہوگئی تو انہوں نے مشرق کی طرف توجہ دینا ضروری

سمجھا۔ ان دنوں بحری طاقت کو تجارت میں اجارہ داری کا نشان سمجھا جاتا تھا۔ بحری طاقت گویا اس ملک کی عسکری طاقت تھی اور تجارت کے پیچھے اس

ء( نے ۱۶۰۳۔ ء۱۵۳۳ملک کی عسکری برتری کا راز پنہاں تھا۔ ملکہ الزبتھ )

ء کو ایسٹ انڈیا کمپنی کو مشرقی ممالک میں زیادہ سے زیادہ ۱۶۰۰دسمبر ۳۱ :کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہدایات دیں

اپنے مالزموں کو ہندوستان کے عوام کی زبان )اردو( کی تعلیم دیں۔ ۔۱’’

اپنے تجارتی مراکز کو عسکری لحاظ سے طاقتور بنائیں تاکہ غیر ملکی ۔ ۲ کے تجارتی کاروبار کو نقصان نہ پہنچاسکیں۔ ان

تجارتی فروغ کے ساتھ ساتھ عیسائی مذہب کی تبلیغ کو بھی مدنظر رکھیں ۔ ۳

۵‘‘اور اس مقصد کے لیے اردو زبان کا سیکھنا الزمی ہے۔انگریز اسی پر اکتفا کرتے ہوئے چپ ہوکر بیٹھ نہیں رہے بلکہ برصغیر

میں اپنی عسکری طاقت میں بدستور اضافہ کرتے رہے۔ تجارت میں کامیابی اور

مخالفین کو ہندوستان سے نکال کر یہ یقین کرلینے کے بعد کہ اب ان کی طاقت کا ن کے تخت کی طرف ان کی نگاہیں ہندوستا‘ مقابلہ کرنے کے لیے کوئی نہیں

اٹھیں اور انہوں نے اس خطے کی سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا۔ انہوں نے

نوابوں اور مغل بادشاہوں کے سیاسی اور خانگی معامالت ‘ برصغیر کے راجاؤںاور حاالت میں مداخلت شروع کردی اور اپنی شاطرانہ حکمت عملیوں سے کام

ہ بہادر شاہ ظفر کو شکست دے کر تخت ء میں مغل بادشا۱۸۵۷لیا یہاں تک کہ

دہلی پر قبضہ جمالیا۔شہزادے اور مہاراجے وغیرہ اپنی اپنی ‘ رؤسا‘ برصغیر میں نواب

عسکری قوت رکھتے تھے اور اپنے مقام یا مرتبے کے لحاظ سے اپنی فوج کے ساالر ہوتے تھے۔ اسی طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت یا دیگر مقرر کردہ

ولندیزی ‘ بھی ایسی ہی حیثیت کے مالک تھے۔ وہ خواہ پرتگیزی تھے سربراہان

فرانسیسی تھے یا انگریز تھے لیکن چونکہ انگریزوں ‘ اہل ڈنمارک تھے‘ تھےنے مستعدی اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کام کیا اور کامیاب رہے

م سربراہ لہذا انہوں نے اردو زبان کی طرف زیادہ توجہ دی۔ حتی کہ ان کے تما

؎۶اردو زبان کے فروغ میں کوشاں رہے۔بھی

Page 180: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

180

ء کی جنگ پالسی ۱۷۵۷ء( ۱۷۷۴نومبر ۲۲ء ۔ ۱۷۲۵ستمبر ۲۹کالئیو )

میں کرنل کے عہدے پر فائز تھا اور اس کی مختصر سی فوج میں ہیسٹنگز نے ایک عہدیدار کے طور پر جنگ میں حصہ لیا تھا اور جب ایک صوبہ دار سے

۔۷ی تو اس میں اس نے اہم کردار ادا کیاصلح کی گفتگو ہوئ

ء( نے اپنے دور میں ۱۸۱۸اگست۲۲ء ، ۱۷۳۲ستمبر ۶ہیسٹنگز )فارسی اور اردو کی کئی کتب کے انگریزی میں تراجم کرائے۔ الرڈ ‘ سنسکرت

اٹھارہ سال ۸ء( ۱۸۰۵اکتوبر ۱۵ء ۔ ۱۷۳۸دسمبر ۳۱مارکوئیس کارنوالس )

ء میں لیفٹیننٹ جنرل کا عہدہ پایا۔ ۱۷۷۶ر کی عمر میں فوج میں شامل ہوا اوء میں امریکہ چال گیا لیکن واپس آکر کمان چھوڑدی۔ اس کے خطوط کو ۱۷۷۸

بعد میں یکجا کرکے شائع کیا گیا جس میں اردو کے الفاظ کے عالوہ برصغیر

کے احوال پر مواد موجود ہے۔ اس نے تحریری طور پر اپنی یادداشتیں بھی ۔۹چھوڑیں

ء(نے اردو ۱۸۴۲ستمبر ۲۶ء ۔ ۱۷۶۰جون ۲۰ارکوئیس ویلزلی)رچرڈ م

فورٹ ولیم کالج اور کئی دیگر کاوشیں کیں۔ ‘ زبان کے فروغ کے لیے دہلی کالجمیسور کی فتح کے بعد اس کے سامنے کوئی ‘ تراجم کروائے‘ کتابیں لکھوائیں

آف رکاوٹ نہیں تھی لہذا اس جانب توجہ دی۔ ارل آف مارنگٹن سے مارکوئیس

ویلزلی بننے تک اس نے بہت محنت کی۔ اس کے مراسلے بھی کئی جلدوں میں ۔ ۱۰شائع ہوچکے ہیں نیز اس کی یادداشتیں بھی منصہ شہود پر آچکی ہیں

ء میں ویلزلی کو آئرلینڈ کے الرڈ لیفٹیننٹ کا عہدہ دیا گیا۔ ویلزلی ویسے ۱۸۲۱

ے۔ جیمز اینڈریو برون بھی ڈیوک تھا۔اور ڈیوک اپنے دستوں کے ساالر ہوتے تھء موسم سرما( ۱۸۶۰ء ۔ ۱۸۱۲اپریل ۲۲ریمزے ارل دہم مارکوئیس آف ڈلہوزی )

نے انتظامی معامالت کو چالنے کے لیے اردو زبان کو زیادہ اہمیت دی۔ اس نے

مقامی دستور اور رواج کو برقرار رکھا اور پولیس اور انتظام کے لیے سادہ ’’۔ ڈلہوزی کے عہد ۱۱‘‘انین میں سے اخذ کیےقوانین صوبہ جات کے مروجہ قو

میں حاالت کی صورت بھی دگرگوں تھی۔ لہذا آپ نے فوج کو کم تعداد کے

باوجود منظم کیا اور پورے برصغیر میں انہی محدود لوگوں سے حاالت بہتر کرنے کی کوشس کی۔ ہوم گورنمنٹ نے جنگ کریمیا کی سختی کے زمانے میں

ظمی کی دو رجمنٹیں واپس طلب کیں تو الرڈ ڈلہوزی نے ہندوستان سے ملکہ مع اس پر اعتراض اور جو خط لکھا وہ ایک پیش گوئی ثابت ہوا۔

انگریز حکام نے اردو کو ہر سطح پر جاری کرنے کے لیے عدالتوں کی

کارروائی بھی اردو میں پیش کرنا شروع کردی اور اس پر عمل کیا۔ اعلی انگریز جنوری ۷د کرتے تو اردو میں تقاریر کرتے یہاں تک کہ حکام جب دربار منعق

ء کو پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر نے الہور میں اپنی روانگی سے قبل ایک ۱۸۶۵

دربار منعقد کیا تو اس موقع پر بھی اردو میں تقریر کی۔ جب وائسرائے مقرر

Page 181: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

181

ہوئے تو وہ بھی بہت کم مدت میں اس زبان میں گفتگو کرنے اور پھر تقریر

:تصانیف و تالیفات کرنے کے قابل ہوجاتے۔زبانی خدمت انجام دینے والوں کے عالوہ دوسرے طبقے میں وہ لوگ

شامل تھے جنہوں نے قلمی طور پر اردو زبان کے ارتقاء اور اجراء میں اپنی

خدمات انجام دیں۔ ایسے عسکری اہل قلم میں ایک طبقہ وہ ہے جنہوں نے بارے میں اپنی اپنی مادری زبان اور عالقائی یا برصغیر اور اردو زبان کے

قومی زبان میں کچھ نہ کچھ تحریری اثاثہ چھوڑا ہے۔

اہل قلم میں دوسرے وہ صاحب سیف تھے جنہوں نے اردو زبان کو رومن رسم الخط میں یادگار چھوڑا یا اردو )فارسی یا دیوناگری رسم الخط( میں ایسا کام

ائم رہے گا۔کرگئے جو رہتی دنیا تک ق

ہندوستان میں سب سے پہلے پرتگیزی آئے۔ انہوں نے سواحل ہند کی زبانیں سیکھیں۔ وہ اپنے ساتھ بہت سی اشیاء الئے تھے جو ہندوستان میں عام نہیں

تھیں لیکن جاتے ہوئے وہ چیزیں بھی ہندوستان میں رہ گئیں اور ان کے نام بھی

تولیا وغیرہ۔ کیپٹن ہملٹن ‘ میز‘ کارتوس‘ صابن‘ پستول‘ پیپا‘ بالٹی‘ مثال الماریہندوستان کے ساحلوں پر اہل پرتگال کی زبان کا اس قدر اثر ’’لکھتا ہے کہ

موجود ہے کہ اہل یورپ باہمی گفتگو اور اہل ہند سے میل جول کے لیے یہی

۱۲زبان استعمال کرتے ہیں۔نے اس مسئلے کی بعد میں ولندیزی اور پھر فرانسیسی آئے لیکن انہوں

لیکن جب انگریزوں کی آمد ‘ طرف توجہ نہیں دی۔ سوائے چند ایک اہل قلم کے

شروع ہوئی اور ایسٹ انڈیا کمپنی برصغیر میں پہنچی تو انہوں نے ایک مکمل منصوبہ بندی کے تحت اردو زبان کے لیے کام شروع کیا۔

سائیت کی انگریز چونکہ عیسائی المذہب تھے اور ان کا ایک مقصد عی

تبلیغ بھی تھا جس میں یہاں کی مقامی زبان ہی ان کی معاونت کرسکتی تھی اور یہ کام انہوں نے اردو زبان سے لیا۔

دوسرا برصغیر کے مذاہب اور خاص طور پر اسالم سے بیگانگی پیدا کرنا

ان کے مقاصد میں شامل تھا لہذا عیسائیت کے حوالے سے تبلیغی لٹریچر کی میں اشاعت کو ابتداء ترجیح دی گئی۔ اس میں تراجم بھی شامل تھے اردو زبان

اور تخلیقات بھی۔ لیکن ایک بات واضح تھی کہ کسی بھی نئی زبان کو سیکھنے کے لیے چونکہ اصول و ضوابط سے آگہی ضروری ہوتی ہے اس لیے

مستشرقین نے ہندوستانی )اردو( سکھانے کے لیے گرامر )قواعد صرف و نحو(

لغات )ہندوستانی سے انگریزی اور انگریزی سے ہندوستانی( اور ‘ تابیںکی کگریرسن کے اندازے کے مطابق ’’امدادی کتابیں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔

ء )لیڈلی کی ۱۸۵۳ء )بنجمن شلر کی قواعد( سے لے کر ۱۷۴۴مستشرقین نے

گرامر کتابیں تالیف و تصنیف کیں جن میں ہندوستانی ۲۹۸علم المعیشت( تک اس سلسلے ’’( گویا ۱۳قواعد صرف و نحو کی کتب اور ڈکشنریاں شامل ہیں۔)

Page 182: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

182

(Instructie off Onderwitsing میں جو شواکیٹلر )ہندوستانی گرامرکی کتاب

جرمنی (Summula Doctrincumبنجمن شلز )ہندوستانی گرامر کی کتاب‘ ہالینڈ ۔۱۴یں کیا جاسکتااور گلکرائسٹ کی خدمات اور اولیت کو نظرانداز نہ

گرامر/ قواعد کے بعد بلکہ ساتھ ساتھ ہی لغت کی طرف توجہ دی گئی اور

بعدازاں انگریزوں / یورپین نے ادب کی طرف قدم بڑھائے۔ ابتداء میں ہی اردو دانوں کے لئے قانون کی کتابیں بھی لکھی گئیں۔ کمپنی کے مالزموں کے لیے ہر

جس میں مختلف زبانوں سے تراجم کرواکر انہیں قسم کا لٹریچر مہیا کیا جانے لگا

بھی شائع کیا گیا۔ہندوستان میں قوانین کا نفاذ حکومت کی طرف سے ہوتا تھا جس کی تشہیر اردو

زبان میں کی جاتی۔ اس سے عامۃ الناس کو بھی اپنے ساتھ منسلک رکھا جاتا۔ یوں

وہ ازیں ہر شعبے کے ایک تو اردو دان طبقہ انتظامی مسائل کو سمجھ لیتا۔ عالبارے میں اظہار کے طریقے متعین ہونے لگے۔ آئین اور قانون کی زبان اگرچہ

عام زبان سے قدرے مختلف ہوتی لیکن حکومت نے اردو زبان میں لشکری آئین

مرتب کرکے اس زبان کی بہت بڑی خدمت کی۔ ء میں شائع ہوئی تھی۱۸۶۹انڈیا کے لشکری آئین کے نام سے جو کتاب ’’

اس میں اسی سال نافذ شدہ پانچواں آئین ہے۔ اس کے بارے میں ابتدائیہ

میں لکھا ہے کہ انڈیا کے گورنر جنرل صاحب بہادر مع کونسل کے آئین

ء کے فروری کی چھبیس تاریخ کو جناب ۱۸۶۹جو نیچے مرقوم ہوتی ہے

گورنر جنرل صاحب بہادر کے پسند ہوئی اور خاص و عام کی اطالع کے

۔۱۵‘‘تہار دی گئیلیے اش

اس پورے منظرنامے کا جائزہ لینے سے پہال عسکری اہل قلم جو سامنے ء ۔ ۱۵۶۳) (Jan Huyghent Van Lim Schoton) آتا ہے وہ ہے وان لم شاٹن

ء( وان لم شاٹن نے اپنی آمد کے بعد ہندوستان کو گہری نظر سے ۱۶۱۱فروری ۸

اردو( زبان کاہے اور پھر وہ اس دیکھا اور محسوس کیا کہ مستقبل ہندوستانی )نے زبان کے سیکھنے اور فروغ دینے کی طرف اپنے قدم بڑھائے۔ وان نے

اگرچہ اردو زبان میں کچھ نہیں لکھا لیکن وہ اس حوالے سے اور ہندوستان کے

حاالت کے حوالے سے اپنی تحریریں چھوڑ گیا ہے۔کیا۔ وہ ولندیزی تھا سال قیام ۵ء میں ہندوستان آیا اور گوا میں ۱۵۸۳وان

اور ہندوستان میں آنے سے قبل بحیثیت سپاہی ایک عرصے تک کسی شمالی مہم

میں شریک رہا۔ گوا میں قیام کے دوران اس نے بغور حاالت کا جائزہ لیا۔ پرتگالی وائسرائے کو بھی اس پر اعتماد تھا جس سے اس نے فائدہ اٹھایا اور بہت سی اہم

ء میں ایک ۱۵۹۶رلیں۔ ہالینڈ واپس آنے کے بعد اس نے دستاویزات بھی حاصل ک

Discours of’’ شائع کی جس کا بعد میں انگریزی ترجمہ ‘‘Iltinerario’’ کتابVoyages into X East & West Indies‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کتاب

میں اس نے سولہویں صدی عیسوی کے اختتامی حاالت اور آنکھوں دیکھے

Page 183: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

183

ر تجربات قلم بند کیے ہیں۔ اس نے یہ حقیقت بھی واضح کی ہے کہ مشاہدات او

’’ یا اس ۱۵۰۰گوا میں کوئی بھی عسکری رہنے کے لیے تیار نہ تھا ۔۔۔ تقریباسے زائد سپاہی ساالنہ گوا پہنچتے تھے جن میں سے واپس ہونے والوں کی تعداد

۔۱۶‘‘رہتی ۱۰۰شاز ہی

ء( میں بھی یورپ ۱۶۰۵ء ۔ ۱۵۵۶ہندوستان میں شہنشاہ اکبر کے دور )سے آنے والے اشخاص میں سے چند ایک نے یہاں اکبر کی فوج میں خدمات

سرانجام دیں۔ انہی میں بوربون مسیح نامی ایک شخص تھا جو اکبر کی فوج میں

رر ہوگیا۔ بوربون فارسی اور اردو بھرتی ہوا اور بہت جلد توپ خانے کا افسر مقپر دسترس رکھتا تھا۔ شاعرانہ مزاج رکھنے کی وجہ سے جب کبھی شعر کہتا تو

فارسی میں اور بالعموم رزمیہ۔ لیکن اردو شعر کا ایک نمونہ جو اس سے منسوب

:پیش ہے‘ ہےراہ پر میں نے یہ : کھینچ کر تیغ جو وہ میرے برابر آیا

۱۷قدر آیاجانا کہ م

یہ شعر اگرچہ لفاظی اور اپنے اسلوب کے لحاظ سے اکبر کے عہد کی اردو سے مماثل دکھائی نہیں دیتا لیکن فارسی جاننے والے سے یہ توقع کی

جاسکتی ہے کہ وہ کم از کم ہندوستانی )اردو( سے واقف ضرور ہوگا۔

فرانس کے عظیم اردو دان گارساں دتاسی کی اردو خدمات کو کسیصورت نہیں بھالیا جاسکتا۔ اس نے فرانس میں بیٹھ کر اردو زبان کو جس طرح

متعارف کرایا اور اس کی خدمت کی، الئق صد تحسین ہے۔ فرانس کے ہی ایک

Abraham Hyacinthe) ‘‘ابراہیم ہیسنت انکتیل دوپراں’’عسکری اہل قلم Anquetil -Douperron) (۱۷۳۱ نے بھی مشرقی۱۸۰۵ء پیرس ۔ )زبانوں ء

‘ عربی‘ کے سیکھنے کی خاطر اپنی مذہبی تعلیم کو خیرباد کہہ دیا اور عبرانی

فارسی اور دوسری زبانیں سیکھنے کے لیے خود کو وقف کردیا اور اسی سلسلے :میں ہندوستان کا سفر کیا

With the idea of reaching India to search for the works of

Zoroaster, he enlisted as a private soldier, on Nov. 2, 1754

After a passage of six months, Anquetil landed, on۔۔۔

August. 10, 1775 at Pondicherry. ۱۸

ء اور تاریخ وفات ۱۹۳۱دسمبر ۷چیمبرز انسائیکلوپیڈیا نے تاریخ پیدائش

سال ء نقل کی ہے جبکہ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا میں صرف ۱۸۰۵جنوری ۱۷نے کی درج ہے۔ چیمبرز انسائیکلوپیڈیا نے بھی اس کے پرائیویٹ سپاہی بھرتی ہو

؎19ی ہے۔تصدیق ک

نسائیکلوپیڈیاز میں عام طور پر بہت کم اختالف ہوتا ہے۔ ہاں اتنا ضرور اہوتا ہے کہ چند فقرات کی کمی بیشی ہوجائے۔ انسائیکلوپیڈیا امریکانا نے اس کی

:اختالف سے اس طرح کیا ہےواپسی کا ذکر تھوڑے سے

Page 184: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

184

His hope proceding to Banaras to study the Hindu

language, literature, and sacred laws was clashed by the

British capture of Pondicherry, which forced him to leave

India. Returning to Paris in 1762, he took with him 180

Oriental manuscripts which he deposited in the Royal

libaray. ۲۰

اوستا کا اور اپنشد کا ترجمہ کیا وہاں ‘ انکتسل دوپراں نے جہاں ویدوں کا

‘ ہندی‘ اس نے اردو کی یہ خدمت بھی انجام دی کہ ایک لغت لکھی جو الطینی

فرانسیسی اور اردو ہرچہار زبان میں تھی اور پھر ایک مخطوطے موسومہکو نقل (Thesaurus lingua Indianae) ‘‘ہندوستانی زبانوں کا خزانہ’’

مور )اردو( اور فارسی میں ترتیب دینے کا ‘ کرلینے کے بعد ایک لغت الطینی

ء میں انقالب فرانس رونما ہوا اور ہنگامی حاالت ۱۷۸۹کام شروع کیا تھا لیکن ہلت نہ دی۔ اول الذکر نے موت تک انہیں یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچانے کی م

اردو کی قدیم ترین لغت کہی جاسکتی ہے۔ ان مخطوطات کا ذکر آغا افتخار حسین

پنجابی اور سندھی مخطوطات پر ‘ ء میں پیرس میں اردو۱۹۶۳نے کیا۔ وہ جب ‘‘ ببلیونک ناسیونال’’نوٹ لکھ رہے تھے تو پیرس کی سب سے بڑی الئبریری

کے آغا افتخار حسین نے انکتیل دوپراں میں یہ دونوں مخطوطے دیکھے تھے۔

بارے میں تفصیل اختیار کرنے کے فوج میں بھرتی ہونے اور ہندوستان کا سفر ۔۲۱سے لکھا ہے۔

آغا افتخار حسین نے دوپراں کی جن کتب کا ذکر کیا ہے ان میں

(Recherches Historiques et Geographique surl Indo ہندوستان پرتین جلدیں ‘‘Voyage aux indes Orientales ’’یائی تحقیقتاریخی اور جغراف

اپنشد ‘‘L' Inde en Rapport A vac I Europe’’ ()مشرقی ہندوستان کا سفر

کا فرانسیسی زبان میں ترجمہ شامل ہے۔مور )اردو( فرانسیسی اور ہندی زبانوں میں جو ‘ دوپران نے الطینی

میں جو نوٹ لکھے اس کا آغا مخطوطہ چھوڑا اس پر اس نے فرانسیسی زبان

اور اس کے حوالے سے کئی افتخار حسین نے اردو زبان میں ترجمہ کیا ہےمیں نے سورت میں ایک دوپراں لکھتا ہے کہ" ۲؎۲معلومات بھی دی ہیں ۔

کاپوچین مشنری کے یہاں ایک پرانا لیکن نہایت بیش قیمت مخطوطہ دیکھا۔ یہ

ا ارادہ تھا کہ اس کی نقل کرلوں لیکن میری ایک )مور۔ فرانسیسی( لغت تھی۔ میرمصروفیات اور سورت میں بعض دیگر پریشانیوں کی وجہ سے یہ کام نہ ‘ عاللت

کرسکا۔ اس کے بعد مجھے سخت افسوس رہا کہ میں نے اس بیش قیمت لغت کی

۲۳‘‘نقل نہ کی۔دیکھی۔ ‘‘Alphabetum Brahmanicum’’ ء میں ایک کتاب۱۷۷۸دوپراں نے

وہی نسخہ تھا۔ لہذا اب انہوں نے اس کتاب کی نقل کرلی اور اس کی بنیاد پر یہ

Page 185: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

185

چار زبانوں میں لغت لکھنے کی ابتدا کی۔

(Alexander Dow) پرتھ شائر )سکاٹ لینڈ( میں پیدا ہونے والے الیگزینڈر ڈوہندوستان کے شہر بھاگل پور میں فوت ہوا۔ ( ۱۷۷۹جوالئی ۳۱ء سے ۱۷۳۵)

اور ہندوستانی دونوں زبانوں کے خمیر سے اس نے جنم لیا تھا۔ وہ گویا انگریزی

ء میں ایسٹ ۱۷۶۰پہنچا۔ (Bencoolen) بھی ایک سیلر کی حیثیت سے بنکولنء میں ۱۷۶۹ء میں کیپٹن اور ۱۷۶۴انڈیا کمپنی کی بنگال آرمی میں بھرتی ہوگیا۔

ے تک لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پاکر ملٹری سیکرٹری کے مرتب

۔ ڈو کو ڈراما نگاری سے خاص شغف تھا۔ وہ مؤرخ بھی تھا۔ تین جلدوں ۲۴پہنچاء میں شائع ۱۷۷۲میں ہندوستان کی تاریخ مرتب کی جس کی تیسری جلد

۔ کرنل ڈو کو فارسی زبان پر بھی عبور حاصل تھا انہوں نے فارسی کے ۲۵ہوئی

دو تراجم بھی کیے۔لغت کی اہمیت کو محسوس کیا تو کمپنی کا ایسٹ انڈیا کمپنی نے قواعد و

ایک سول مالزم گلسٹن پہال شخص تھا جس نے ہندوستانی زبان کے قواعد پر

انگریزی میں ایک مبسوط مقالہ لکھا۔ کیپٹن جارج ہیڈلے دوسرا شخص اور پہال عسکری اہل قلم تھا جس نے قواعد و لغت کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے اس جانب

اسے ہندوستانی سپاہیوں کی ایک کمپنی کا کمانڈر مقرر کیا گیا جب ’’توجہ دی۔

تو اس نے محسوس کیا کہ جب تک سپاہیوں کی زبان سے اس کو کلی واقفیت نہ ہوگی اس وقت تک وہ اپنے فرائض پوری ذمہ داری سے انجام نہ دے سکے گا۔

مرتب ء میں ان )ہندوستانی سپاہیوں( کی زبان کے قواعد۱۷۶۵چنانچہ ہیڈلے نے

۔ پروفیسر ایس کے حسینی نے نجانے کہاں سے یہ تحریر نقل کی ۲۶‘‘کر ڈالےنے اردو (George Hadley) ضروریات کے پیش نظر جارج ہیڈلے’’ہے کہ

ء میں تالیف کی جس میں ہندوستانی لغت شامل ۱۸۷۳صرف و نحو پر ایک کتاب

۔۲۸ھےء کو وفات پاگئے ت۱۷۹۸ستمبر ۱۰۔ جبکہ جارج ہیڈلے ۲۷ہےء میں کیڈٹ کی حیثیت سے ایسٹ انڈیا کمپنی میں ۱۷۶۳جارج ہیڈلے نے

جوالئی ۲۶ء کو لیفٹیننٹ اور ۱۷۶۴فروری ۵مالزمت اختیار کی۔

ء میں فوج سے ریٹائر ۱۷۷۱ء کو کپتان کے عہدے پر فائز ہوئے۔ ۱۷۶۴

ہوئے۔ ہیڈلے نے ہندوستان آنے کے بعد ہندوستانی )اردو( زبان سیکھنا

۔۲۹‘‘ء میں اس کی گرامر مرتب کی۔ ۱۷۶۵کی اور شروع

Introductory Grammatical Remarks on" ہیڈلے کی دوسری کتابthe Persian Language, with a Vocabulary English & Pertsian" ہے۔

Grammatical Remarks on the Practical and current" ان کی کتاب

Dialect of the Jorgon of Hindustan" میں اردو زبان سکھانے کا بہت ہی :آسان طریقہ بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ مثال

The Terminatin ee seems particularly applicable to

qualities, arts and sciences, as Doast-a friend, Doastee -

Friendship, Dushman - an enemey, Haukim - A Judge,

Page 186: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

186

Huckeem - Physician, Nickush - A picture or craved

work.(۳۰)

اس کا ابتدائیہ پیراگراف کی صورت ہے۔ اسے پرکھنے کے لیے ایک

ایسے انگریز کو سامنے رکھنا پڑے گا جس نے اجنبی زبان کو دو سال میں اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران سیکھ کر اس پر گرامر کی کتاب لکھی دی۔ اس

کتاب کے دوسرے حصے میں لغت ہے جو پیرے کی صورت نہیں بلکہ الف بائی

A" کی ترتیب سے تحریر کی گئی ہے۔ جارج ہیڈلے کی ایک کتابCompendious Grammar of the current corrupt dialeet of the

Jorgaon of Hindustan .... with a vocabulary English and Moors,

Moors and English". ہے۔ اس میں دئیے گئے محاورات کا نمونہ مالحظہ ہو۔اس میں اس دور میں لکھا جانے واال اردو رسم الخط بھی جاننے میں آسانی

:ہوگی

تم نین کھایا ہوثحاToom nayn khauea hoga. Thou will eat.

ہم لوگوں نین کھایا ہوثحا

Hum logone nayn khauea hoga. We will eat.(۳۱) یہ کتاب اردو قواعد اور لغت کے حوالے سے لکھی جانے والی ہچونک

ابتدائی کوشش تھی اس لیے اس میں خامیوں کا پایا جانا بعید نہیں۔ لہذا بعد میں

آنے والوں نے ان خامیوں کی نشاندہی بھی کی تھی اور اصالح بھی۔ خاص طور ظ کا جو رومن امال اختیار ہیڈلے نے ہندوستانی الفا’’پر جو ذکر کیا گیا وہ یہ کہ

۔لیکن ہیڈلے مندرجہ باال کتاب کے دوسرے ۳۲‘‘کیا تھا وہ صحیح نہیں تھا

The spelling according to :حصے میں ایک وضاحت ضرور کرتے ہیںPersian orthography وکیبولری )جس میں مہینوں کے نام اور گنتی وغیرہ

:ا نمونہ مالحظہ ہوہے( بھی آخر میں شامل کردی گئی ہے۔ اس ک

Nut - Phull- پھول, Health - Tubeat - طبیعت, Labour - Minnuth - محنت Knowledge - Aukool - Aukul - عقلAbroad -

Bauhar- باہر All's well-Sam Araum (Sab Aram) سب آرام ۔ فقرات اور

محاورات کا نمونہ درج ذیل ہے۔The enemy is fled - Dushman bagh he (Dushman bhage hai) دشمن

بھاگے ہے

ہیڈلے کی مذکورہ کتاب کے ہر ایڈیشن میں صفحات کی تعداد کم یا زیادہ ہے اور ٹائٹل کی تحریر میں بھی الفاظ کی کمی بیشی اور تبدیلی موجود ہے۔

ء میں شائع ہوا۔ صفدر رشید نے اس کا ۱۷۷۳کیپٹن جان فرگوسن کا لغت

لکھا ‘‘ of the Hindustan language A Short Dictionary’’ نام

Page 187: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

187

۔سلیم الدین نے کتاب میں سے جو صفحہ اس کتاب کے نام کا نقل کیا ہے ۳۳ہے

:اس پر کچھ اس طرح تحریر دی گئی ہےA dictionary of the Hindustan language ; in two parts.

English and Hindustan. II, Hindustan and English. The

latter containing a great variety of phrases, to point out the

idiom and facilitate the acquisition of the language, To

which is prefixed a grammar of Hindostan language, by

John Fargusson, A.M. captain in the services of the

honourable East India Company. ۳۴؎

ہندوستان کی ‘ بحریہ کی طاقت‘ سلیم الدین قریشی نے اس کے انتساب

اس سے پیشتر کی دو مطبوعہ لغات اور ہندوستانی زبانوں کے ‘ آبادی گیارہ ملیناس لغت کے تین حصے ہیں ۔پہلے حصے میں دی ہے۔ بارے میں جانکاری

ر ان انگریزی الفاظ اور ان کے اردو متبادل،دوسرے حصے میں اردو الفاظ او

کےانگریزی معانی ہیں۔مثال انگریزی اردو

History – Nama

Idler – Soostwala

اردو انگریزی

Geet - Song, Ballad , Chant

Lerna - To fight, to engage . ۳۵

بنگال آرمی سے متعلق اور وارن ہیسٹنگز کے رفیق کار فرانسس گلیڈون جن کی زندگی سے متعلق زیادہ معلومات نہیں ملتیں لیکن ان کا ادبی کام ان کی

محنت اور جستجو سے آگاہ کردیتا ہے۔ گورنر جنرل بننے کے بعد وارن ہیسٹنگز

وصلہ افزائی کی نے مشرقی زبانوں کے ادب کی تعلیم کے حصول میں اس کی حاور پھر انہی کے ایما پراس نے ابوالفضل کی کتاب آئین اکبری کے ایک حصے

ء میں تاریخ ہند ۱۷۸۸ء کے دوران کیا۔ ۱۷۸۶ء سے ۱۷۸۳کا ترجمہ کیا جو

لکھی۔ گلستان کے عالوہ کئی اور کتابوں کا بھی ترجمہ کیا۔ اردو کے تعلق سے نی اور انگریزی ڈکشنری ہے جو ہندوستا‘ آپ کی سب سے بڑی خدمت فارسی

ء میں شائع ہوئی۔۱۸۰۹کلکتہ سے

ء میں کلکٹر آف کسٹمز کے ۱۸۰۱گلیڈون کا فوج کو چھوڑنے کے بعد ۔ درمیان ۳۶ء میں وفات پائی۱۸۱۳عہدے پر تقرر ہوا اور باآلخر اسی شہر میں

میں کچھ عرصے کے لیے فورٹ ولیم کالج میں پروفیسر بھی رہے۔

میں صرف چند An Opitome of Muhammadan Law بگلیڈون کی کتاالفاظ ایسے ہیں جو اردو میں استعمال ہوتے ہیں لیکن یہ رومن رسم الخط میں

لکھے گئے ہیں جو فارسی کی کتاب مراۃ المسائل سے لیے گئے ہیں۔

سلیم الدین قریشی کے مطابق گلیڈون نے آئین اکبری کے ترجمے کی اشاعت سے

Page 188: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

188

A Dictionary ر کے لیے ایک کتابچہ بھی شائع کرایا ۔پہلے اس کی تشہی

Persian, Hindustan and English ان کا اردو کے حوالے سے بہت اہم کامانگریزی اور اردو کی ترتیب سے الفاظ/ ‘ رومن‘ ہے۔ اس ڈکشنری میں فارسی

:معانی لکھے گئے ہیں جو انگریزی کی طرح بائیں سے دائیں ہیں جیسے

تفسیر .Tufaseer; Commentaries, Paraphrasas S :تفاسیر تفصیل .tufaseel; Commentaries, Paraphrasor. S :تفاصیل

۳۷

گلیڈون کی دیگر کتب جن میں اردو کے حوالے سے کوئی نہ کوئی لفظ یا :تحریر ملتی ہے وہ ہیں

A dictionary of the Religious Ceremonies of the Eastern

Nations. A compendious system of Bengal Revenue.

Putwary Accounts. A Dictionary of Muhammedan Law and

Bengal Revenue Terms.

اردو زبان کے حوالے سے خدمات انجام دینے والوں میں ایک نام کیپٹن

کابھی آتا ہے لیکن اسے بہت کم (Capt. James Crawford) جیمس کرافورڈ

تحریر کتابی صورت میں سامنے نہیں آئی البتہ اس کا وقت مال۔ اس کی کوئیتذکرہ کئی کتابوں میں ملتا ہے۔ پروفیسر معین الدین عقیل اپنے ایک مضمون میں

:رقمطراز ہیں

’’ ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں مالزم ہوا۔ ۱۷۶۴کیپٹن جیمس کرافورڈ غالباسی بغاوت کے مقدمے ء میں ک۱۷۶۶ء میں لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز ہوا۔ ۱۷۶۵

میں ایک عدالت میں کمپنی کے حق میں گواہی دی۔ اس کی قبر پر یہ کتبہ نصب

ء کپتان جیمس کرافورڈ ۱۷۷۰برائے یادگار یست کہ بتاریخ سیوم ماہ جون ’’ہے۔ ۔۳۸‘‘صاحب سن بست ودو سال در اینجا وفات

تو اس کا سال کو اگر درست مان لیا جائے ۲۲کرافورڈ کی وفات کے وقت عمر

ء بنتا ہے اور ایسٹ انڈیا کمپنی میں کمیشن پانے کے وقت اس ۱۷۴۸سن والدت سال قرار پاتی ہے۔ اس جمع تفریق اور عمر کے اندازسے اس کا ۱۶کی عمر

اردو زبان کو اچھی طرح سے سیکھ لینا تو سمجھ میں آتا ہے کیونکہ یہ عمر کم عمری میں کوئی بڑا کام کیا سیکھنے اور پانے کی ہوتی ہے لیکن اس نے اتنی

ہوگا، سمجھ سے باالتر ہے۔

متشرقین کے حوالے سے لغت نویسوں میں ایک نام کپتان ہیری ہیرس کا آتا ہے جس کی زندگی کے بارے میں مکمل معلومات میسر نہیں آسکیں لیکن

ڈاکٹر رضیہ نور محمد نے ہنری ہیرس کے ذیل میں اس عدم واقفیت کا اعتراف

:ئے حاشیے میں لکھا ہے کہکرتے ہوء کو ۱۷۴۶مارچ ۱۸ابن جارج ہیرس (Henry Harris)ہنری ہیرس’’

وہ بمبئی اور الک میں فوجی خدمات انجام دیں۔پیدا ہوئے۔ مختلف مم

ء( میں گورنر اور کمانڈر انچیف تھا۔ فورٹ ولیم ۱۷۹۲ء ۔ ۱۷۹۰مدراس )

Page 189: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

189

ء ۔ ۱۷۹۶)ء( کمانڈر رہا۔ مدراس میں میجر جنرل ۱۷۹۴کالج کا )

ء( رہا۔ فاتح سرنگا پٹم ۱۸۰۰ء ۔ ۱۷۹۹مئی ۴ء( رہا۔ فتح سرنگا پٹم )۱۸۰۰

ء میں ریٹائر ہوکر انگلستان چال گیا۔ وفات ۱۸۰۰ء ( ۱۷۹۹مئی ۴)

۔۳۹‘‘ء میں ہوئی۱۸۲۹مئی ۱۹

ڈکشنری آف ’’ڈاکٹر مس رضیہ نور محمد نے یہ اقتباس بک لینڈ کی کتاب

سے نقل کیا ہے۔ اس صفحے پر جارج ہیرس ۱۹۱کے صفحہ ‘‘ انڈین بایوگرافی

جارج ‘ ء( سرنگا پٹم اور میسور کے پہلے بیرن کے عالوہ۱۸۲۹ء ۔ ۱۷۴۶)جارج رابرٹ کیننگ ہیرس ‘ ء( ۱۸۷۲ء ۔ ۱۸۱۰فرانسس رابرٹ ہیرس )

ء( اور اگلے صفحے پر ۱۸۴۸ء ۔ ۱۸۰۷سر ولیم کارنوالس ہیرس )‘ ء۔(۱۸۵۱)

ے نام منقول ہیں پھر کیسے یہ اندازہ لگالیا ء( ک۱۸۴۵ء ۔ ۱۷۸۲ولیم جارج ہیرس )گیا کہ ہنری ہیرس مذکورہ باال شخص ہی ہے۔ ممکن ہے عہدے سے غلط فہمی

ہوئی ہو لیکن تحقیق میں یہ غلط فہمیاں رد کردی جاتی ہیں۔ مس رضیہ نور محمد

سے بہت سے ‘‘ گل کرسٹ اور اس کا عہد’’نے محمد عتیق صدیقی کی کتاب :سے ہیں۔‘‘ وہ کپتان ہیرس کا لغت’’مقالہ میں درج کیے ہیں۔ اقتباسات اپنے

بڑی محنت اور ’’اس لغت کی ترتیب و تالیف میں ڈاکٹر ہے رس نے "

‘ سے کام لیا تھا اور یہ کتاب ہندوستانی زبان سے مؤلف کی‘‘ صحت

ڈاکٹر ہیرس ردید ثبوت فراہم کرتی ہے۔ پوری پوری واقفیت کے ناقابل ت

‘‘ہندوستان کی زبان کا تجزیہ اور اس کے قواعد و لغت’’م کی کتاب کا نا

(Analysis, Grammar and Dictionary of the Hindustany

language))۔۴۰‘‘ہے

ء میں کپتان اور ۱۷۹۱دراصل یہ غلط فہمی دور کرنا ضروری تھا کہ

ایک کا فرض ڈاکٹری اور ‘ دوسرا اس سن میں بمبئی اور مدراس کا گورنر

پھر ناموں میں تفاوت جسے محقق کی ‘ ا جرنیلی اور وہ بھی فیلڈ کیدوسرے کتشکیک کے عالوہ ہر قاری درست سمجھ سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ صفدر

جیسے محقق نے بھی رضیہ نور محمد کے حوالے سے دھوکا کھالیا۔ ( ۴۱رشید )

:محمد عتیق صدیقی اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہمیں ‘‘Vestiges of old Madras’’ نے اپنی کتاب (Love) مسٹر لو

سے لکھا ہے کے حوالے ‘‘Madras Courier’’ مدراس کے ایک اخبار

جلد ہی شائع ‘ س کی دوسری جلد تھی۔ پہلی جلدرکہ یہ کتاب کپتان ہے

ہونے والی تھی۔ گریرسن نے اس بیان پر اتنا اور اضافہ کیا ہے کہ

ء میں مقامی ۱۷۸۵دوسری جلد غالبا شائع نہیں ہوسکی ۔۔۔ ڈاکٹر ہے رس

)۴۲طور پر افواج مدراس میں اسسٹنٹ سرجن مقرر ہوئے تھے۔)

A Dictionary of’’ نام صفدر رشید نے ہیری ہیرس کی کتاب کاEnglish & Hindustani‘‘ ء لکھا ہے جبکہ محمد عتیق ۱۷۹۰اور سن اشاعت

Analysis, Grammar and نے اس کتاب کا نام گلکرسٹ کے حوالے سے

Dictionary of the Hindustany language ء کی ۱۷۹۱تحریر کیا ہے اور Dicctionary of the ناماشاعت لکھی ہے۔ پروفیسر ایس کے حسینی نے اس کا

Page 190: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

190

Hindi language ء لکھا ہے جو کسی صورت قابل قبول ۱۷۸۰جبکہ سن تالیف

اس میں جنوبی ’’ نہیں۔ البتہ اس نے اس ڈکشنری کی خصوصیت یہ لکھی ہے کہہند میں بولی جانے والی اردو یا دکنی الفاظ کا اچھا ذخیرہ ملتا ہے اور ڈاکٹر

ے کارنامے سے بہتر ہے مگر یہ لغت بہت ہی ہارس کا یہ کارنامہ گلکرسٹ ک

& A Dictionary of English ۔ عطش درانی نے کتاب کا نام۴۳‘‘کمیاب ہےHindustani لکھا ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں:

ہر صفحہ دو کالموں پر منقسم ہے اور ان کالموں کے نمبر اس لغت کا ’’

صفحات پر مشتمل ہے۔ ۱۰۲۶کالموں یعنی ۲۰۵۲دئیے گئے ہیں۔ کتاب

صفحات بھی ہیں۔ کتاب کے آخر میں ۱۵۸اس کے عالوہ اشاریہ کے

اغالط نامہ درج کیا گیا ہے۔ الفاظ لکھنے سے پہلے اخذ کے ماخذ )زبان(

کو درج کردیا گیا ہے اور معانی بتانے سے بیشتر بتایا گیا ہے کہ یہ کس

گری رسم الخط میں لفظ سے مشتق ہے اور اس کا تلفظ کیا ہے تو دیو نا

۔۴۴‘‘یا ہے۔ بھی اسے تحریر ک

چونکہ کیپٹن ہیری ہیرس کی یہ کتاب نایاب ہے اس لیے جس محقق کو جہاں سے کچھ اشارہ مال لکھ دیا لیکن کسی نے بھی نمونۂ تحریر نقل نہیں کیا۔

مشرقی زبان دان( شائع ) Oriental Linguist ء میں۱۷۹۸گلکرسٹ نے ہندوستان کی مقبول عام زبان کا ’’کے مطابق کہ کتاب کی تو اس کے سرورق

انگریزی ‘ سیدھا سادا اور عام فہم دیباچہ تھا جس میں ہندوستانی زبان کے قواعد

‘ قصے‘ ہندوستانی اور ہندوستانی لغت کے ساتھ ساتھ عام فہم اور مفید مکالمات۔ فوجی آئین نظمیں اور فوجی آئین کے کچھ حصوں کا ترجمہ بھی شامل کیا گیا تھا

۔ اسی کتاب کا ۴۵کا جو ترجمہ درج تھا وہ گلکرسٹ کا نہیں کرنل سکاٹ کا تھا

پانچواں باب کے ایک حصے کا ترجمہ بھی کرنل اسکاٹ کا ہی ہے۔ آپ کا نام ولیم سکاٹ لکھا ہوا ملتا ہے۔ یہاں پھر رضیہ نور محمد نے وہی غلطی دہرائی ہے

سکاٹ اور جان اسکاٹ کا ذکر کردیا ہے۔ کہ کرنل ولیم اسکاٹ کے تحت جونیتھن

ء( دونوں ۱۸۲۹ء ۔ ۱۷۵۴ء( اور جونیتھن اسکاٹ )۱۸۱۹ء ۔ ۱۷۴۷جان اسکاٹ)بھائی تھے اور دونوں کا تعلق فوج سے تھا۔ رضیہ نور محمد نے یہ تعارف بھی

سے لیا ہے۔ جان سکاٹ میجر ‘‘ ڈکشنری آف انڈین بایوگرافی’’بک لینڈ کی کتاب

نچا۔ اس کا کچھ کام شائع بھی ہوا۔ اسی طرح جونیتھن سکاٹکے عہدے تک پہ(Jonathan Scott) کے بارے میں تحریر ہے کہ:

‘‘Captain 1778: Persian secretary to Warren Hastings:

helped to found the Asiatic society of bengal 1784: returned

to England: 1785: published translations of various oriental

works, including "A translation of Farishta's History of the

Dekkan, ۴۶

جونیتھن سکاٹ کا یہ تعارف پڑھ کر آدمی شک میں مبتال ہوجاتا ہے لیکن

جو فرق ہے وہ کیپٹن اور کرنل کے رینک کا،نیز جونیتھن اور ولیم نام کا۔ سکاٹ

Page 191: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

191

کو تشکیک میں مبتال کردیتا ہے۔ کرنل ولیم نام کا انطباق اچھے خاصے محقق

سکاٹ کی زندگی کے حوالے سے اگر لکھا گیا ہے تو بہت کم۔ کیونکہ انسائیکلوپیڈیا بھی اس سلسلے میں خاموش ہیں۔ البتہ وکی پیڈیا میں اس عہد کے

:مطابق جس کرنل ولیم سکاٹ کا بہت ہی مختصر ذکر آتا ہے وہ یوں ہے‘‘Letter from Col. William Scott (1754-1804) Bengal Army

1771-1804 anc Resident Lacknow, 1799 - 1804. Also letter

correspondence with Robinson's fellow trustees abou Scott's

estate, his mistress and his illegimate children. ۴۷ ’’

:راجندر ناتھ شیدا لکھتے ہیں کہانگریزوں کی ہندوستانی فوج میں افسر تھے اور فورٹ کرنل اسکاٹ ’’

ولیم کالج کے قیام کے وقت کرنل اور لکھنؤ میں ریزیڈنٹ تھے۔ جب اس

کالج کے قیام کا فیصلہ ہوچکا اور اس کے لیے فارسی کی کتابوں کا

مالزم رکھ کر وئق مترجمین کہندوستانی میں ترجمہ کرنے کے واسطے ال

۔۴۸‘‘کلکتہ بھجوایا۔ کالج کے لیے فورٹ ولیم

گویا اردو زبان کی خدمت میں یہ ان کا بہت بڑا اقدام تھا۔ اسی سلسلے میں

میر تقی میر نے بھی عرض گزاری تھی لیکن جب ان سے مالقات ہوئی تو ’’ )۴۹بڑھاپے کی وجہ سے درخور اعتنا نہ سمجھا گیا۔)

((Col. Colin Mackenzie اردو کے خادمین میں ایک نام کرنل میکنزی

کا آتا ہے۔‘‘Colonel Colin Mackenzie's name is irrevocably linked to

the huge collection of oriental manuscripts, local histories,

charts, maps, sketches, coins paintings, icons and other

arrtefacts that have a hearing on India's history and culture.

۵۰

انٹرنیٹ پر دی گئی ڈیٹیل کے مطابق کرنل میکنزی جنوبی سکاٹ لینڈ کے جزیرے کے شہر سٹورنوے میں آباد ایک ممتاز خاندان میں (Lewis) لیوس

میں پیدا ہوا۔ ہندوستان ۵۱ء ۱۷۵۳ء میں پیدا ہوا لیکن بک لینڈ کے مطابق ۱۷۵۴

ء ۱۸۱۹میں شامل ہوگیا جہاں ء میں مدراس انجینئرز ۱۷۸۲کا سفر اختیار کیا اور ‘ ء میں اس نے ہندوستان سے تاریخی۱۷۸۳میں کرنل کے عہدے پر ترقی پائی۔

ء میں ٹیپو سلطان کے ۱۷۹۰تہذیبی اور ثقافتی اشیاء اکٹھی کرنا شروع کیں۔

ء کو کلکتہ میں وفات ۱۸۲۱مئی ۸خالف جنگ میں حصہ لیا۔ کرنل میکنزی نے پائی۔

نے سب سے پہلے (William Kirk Patrick) جنرل ولیم کرک پیٹرک

اس حقیقت کو پہچانا کہ اگر برصغیر میں اپنے قدم جمانے ہیں تو یہاں کی زبان کو اپنانا پڑے گا اور پھر ایک ڈکشنری لکھنے کا ارادہ کیا جسے تین حصوں میں

مکمل کرنے پر کام شروع کیا مگر ایک حصہ ہی طبع ہونے پایا۔ اس حصے میں

Page 192: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

192

وہ الفاظ لیے جو عربی اور فارسی سے ہندی میں آئے تھے۔ باقی دو انہوں نے

حصوں کے طبع کرنے کے لیے انہیں ناگری ٹائپ کا انتظار تھا وہ جلد تیار نہ ۵۲ء میں طبع ہوا۱۷۸۵ہوسکا اور کتاب ناقص رہ گئی۔ یہ ایک حصہ لندن میں

۔یہ کام انہوں نے گلکرسٹ سے پہلے شروع کیا تھا۔

ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کرنل جیمز کرک پیٹرک ۱۷۵۴یٹرک ولیم کرک پء میں بنگال کی پیادہ ۱۷۷۳مدراس کے سواروں کے رسالے میں تھے۔ ولیم نے

ل تھے۔ ء میں آپ میجر جنر۱۸۱۱فوج سے اپنی فوجی زندگی کا آغاز کیا اور

کے (Stibbert) بنگال میں کمانڈر انچیف جنرل سٹبرٹ کے مطابقبک لینڈ ء( میں الرڈ ۱۷۹۲ء ۔ ۱۷۹۱فارسی زبان کے مترجم رہے۔ جنگ میسور )

ء میں نیپال گئے جہاں نیپال ۱۷۹۳کارنوالس کے فارسی زبان کے مترجم رہے۔

ء میں ملٹری سیکرٹری ۱۷۹۸اور چین کے درمیان ثالث کے فرائض انجام دیے۔ ء میں الرڈ مورنگٹن کے پرائیویٹ سیکرٹری رہے۔ سقوط میسور کے ۱۷۹۹اور

آپ واپس انگلستان چلے ء میں۱۸۰۱بعد خطے کی تقسیم پر مامور ہوئے۔۔۔

۔۵۳ء کو وفات پائی۱۸۱۲اگست ۲۲گئے۔۔۔ جہاں آپ نے فارسی سے انگریزی تراجم کے عالوہ ٹیپو سلطان کے ذاتی

Select letters ’’ء میں لندن سے۱۸۱۱ خطوط کا انگریزی میں ترجمہ کیا جو

of Tippu Sultan‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ سلیم الدین قریشی نے ٹیپو سلطانکے ذاتی خطوط اور روزنامچہ کی اشاعت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے

Diary and letters of Tipu Sultanکہ

۵۴وائی تھیء میں لندن سے کتاب شائع کر۱۸۰۴کے عنوان سے ترجمہ کرکے ۔سلیم الدین قریشی نے ان کے قلمی کام پر تفصیل سے بحث کرتے ہوئے لکھا

:ہےایسٹ انڈیا کمپنی کے فوجی ‘‘ ایبسریکٹ آف دی آرٹیکل آف وار’’

وج احکامات کا مجموعہ ہے جو اس زمانے میں کمپنی کی افواج میں مر

ندوستانی کتاب میں فارسی ترجمہ ہے۔ مقابلہ کے صفحہ پر ہ ۔۔تھے۔

ترجمہ ناگری خط میں اور اس کے مقابل یہی عبارت رومن رسم الخط میں

۔۵۵‘‘دی گئی ہے۔ فارسی اور اردو ترجمہ ولیم کرک پیٹرک کا ہے

ولیم کرک پیٹرک نے اس ڈکشنری کی تشہیر کے لیے چار صفحات پر

An Account of ء میں شائع کیا تھا جس کا عنوان تھا۱۷۸۲مشتمل ایک پمفلٹ the plan and contents of the new Hindvi Grammar‘‘ ’’and

Dictionary اس پمفلٹ میں پورا پالن دیا گیا تھا۔

۔۵۶۔ ہیںنی زبان سے متعلق سات جلدیں کرک پیٹرک کا ارادہ ہندوستا New Hindvi grammar and’’ جناب سلیم الدین قریشی ساتویں جلد

Dictionary Part.7‘‘ ات فراہم کرتے ہوئے رقم طراز ہیںکی معلوم:

Page 193: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

193

صفحات کا ۶یہ نیو ہندی گرامر اینڈ ڈکشنری کی ساتویں جلد ہے۔ ابتدا میں

دیباچہ ہے اس کے بعد ایک صفحہ پر اردو حروف تہجی اور ان کے رومن ۔ یہ لغت ۔یں۔ صفحات ڈکشنری کے لیے مخصوص ہ ۱۹۶متبادل درج ہیں۔ بقیہ

تمل ہے ایک صفحہ پر تقریبا بیس الفاظ ہیں اور ہر لفظ ہزار الفاظ پر مش ۴تقریبا

ایک سطر میں ہے۔ کرک پیٹرک کے بیان کے مطابق اس کی تشریح عموما :ڈکشنری کے زیادہ تر الفاظ رچرڈسن کی ڈکشنری سے لیے گئے ہیں۔ مثالیں

Populousness: a town = (Awbaudi) آبادی

Mystary: Theology. (Tusuwaf) تصوف.

Suwaneh- incidents, events, occurances, accidents- ۵۷

سوانح

جنرل ولیم کرک پیٹرک کی ایک اور کتاب کا ذکر بھی سلیم الدین قریشی نے کیا

ہے۔

A vocabulary, Persian, Arabic and English.

میں اردو اور ناگری حروف کی لدک کی وکیبولری کی پہلی جکرک پیٹر’’

ا ہے کہ ہندوی کا دوسرا نام لکھ کا استعمال بتایاگیا ہے۔ اس میںان تفصیالت اور ہے۔ اس کے لفظی معنی فوج یا فوجی زبان کے ہیں لیکن حقیقت میں یہ اردو

دربار اور شہر کی زبان ہے۔ یہ کتاب دو باب میں منقسم ہے۔ پہلے باب میں اردو

اس کے بعد ناگری حروف تہجی اور ان کی مختلف صورتیں اور تلفظ دیا گیا ہے۔ور ان کا استعمال پیش کیا حروف اور ان کے ساتھ ان کے رومن اور اردو متبادل ا

:مثالیں ہے۔ Zor: Strength, Jor- زور

Zalim: Tyrant, Jalim, ۵۸ ظالم’’

نے جوکہ ((David Thomas Richardsonکرنل ڈیوڈ تھامس رچرڈ سن

بھی اردو لغت لکھنی شروع کی نے‘ سپرنٹنڈنٹ و کمانڈر ملٹری اکادمی تھے اس ۵۹مگر افسوس کہ اس کا بھی وہی حشر ہوا اور طبع ہوتے ہوتے رہ گئی

:سے اردو جانکاری اور ان کے جذبۂ خدمت اردو سے آگاہی ہوتی ہےء میں کیپٹن بنادیا گیا اور ۱۷۹۸ء میں کنٹری کیڈٹ بنا۔ ۱۷۷۹رچرڈسن ’’

ء میں جہاز ۱۸۰۸کا عہدہ مال۔ ء میں کرنل ۱۸۰۵ء میں میجر ہوا۔۔ ۱۸۰۳

یہ ایشیاٹک سوسائٹی کا بیوی کے ساتھ ہالک ہوا۔ نیلسن کی تباہی میں اپنی

ایک سرگرم رکن تھا۔ اس نے ہندوستان کے بازی گروں پر ایک ضخیم

۶۰‘‘کتاب تصنیف کی

بھی رچرڈسن کی فرمائش پر ابوطالب اصفہانی ‘‘ تفضیح العافلین’’کتاب

نیف کی تھی۔ رچرڈسن اس وقت فوج میں کپتان تھا۔نے کلکتہ میں تصاوائل انیسویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے سپہ ساالر جنرل اسمتھ کا

:برصغیر میں طویل عرصہ تک قیام رہا۔ رام بابو سکسینہ لکھتے ہیںThe following entry in Blunti Christian Tombs at No. 354 is

interesting.

Page 194: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

194

1806 Smith J. Major General. inscription: Sacred to the

memory of Maj. General John Smith of his Majesty's

service. Commanding officer in the field, who departed this

life 6th August 1806 . ۶۲

پیدل فوج سے عسکری ۱۵ء میں پیدا ہوئے۔ ۱۷۶۵جنرل جان اسمتھ

سال تک فوج میں خدمات انجام دیں۔ روہیل کھنڈ کے ۲۵آغاز کیا اور زندگی کا

پٹھانوں کے خالف لڑی گئی لڑائیوں میں سپہ ساالر کے فرائض انجام دئیے۔ ۔ ۶۳ء میں افضل گڑھ کے مقام پر امیر خان کو شکست سے دوچار کیا۱۸۰۵

:عطا حسین تحسین رقم طراز ہیں

ساالر افواج انگریزی کے درمیان گنگ یل اسمتھ اقت جرناتفاقا ایک مرتبہ بیچ رفبہ سواری بجرہ و مور پنکھی کے سفر کلکتہ کا در پیش آیا لیکن بہ سبب مسافت

دور دراز کے بعضے وقت طوطی فارغ البال دل کی خفگی مکان کے سے بیچ

قفس کشتی کے رکتی۔ اس وقت واسطے شغل قطع منازل کے ایک عزیز سراپا گردن کے قت میری کے قمری وار حلقۂ محبت و اخالص کا اوپرتمیز کہ بیچ رفا

۶۴‘‘۔رکھتے تھے۔

میر محمد حسین عطا خان تحسین کے اس سفر کی ردوداد سے جنرل اسمتھ کو سمجھنے میں ایک آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ اس کی اردو سے محبت کا

کو مکمل اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اس نے اپنے طویل قیام میں اردو زبان

بھی کہا۔ طور پر اپنایا۔ اس میں نثر بھی لکھی اور شعر غنیمت جان اسمتھ آگیا ہے

۶۵کہ دشمن اس سے اب ٹل سا رہا ہے

کئی ایک محققین نے جان اسمتھ اور اسمتھ جان کو ایک ہی شخصیت

میں گڈمڈ سمجھ کر دونوں کے حاالت کو حافظ برخوردار کی طرح ایک دوسرے

کردیا ہے جب کہ یہ دو الگ شخصیات ہیں۔فوج سے فارغ ہونے کے بعد (Antoine Troyer) کیپٹن انٹونی ٹرائیر

مدراس کے ایک اسالمی مدرسہ میں ریاضی کے استاد مقرر ہوئے۔ آپ تامل

ہندوستانی اور فارسی زبانیں پڑھاتے رہے۔ ڈاکٹر سید محمود حسین کے مطابق :وہ

میں پیدا ہوئے۔ ملٹری سکول سے تعلیم (Autrich) ں آٹرچء می۱۷۶۹ ’’

ولیم ء میں الرڈ ۱۸۰۳اور کے توپ خانہ کے افسر بن کر نکلے۔حاصل کر

۔۶۶‘‘یکرٹری بن کر مدراس آئے۔ کے سبینٹک

کیپٹن انٹونی ٹرائیر کی تاریخ پیدائش میں اس وقت اختالف سامنے آتا ہے

ہیں۔ ڈاکٹر محی الدین لم کا مطالعہ کرتے جب ہم گارساں دتاسی کے عہد کے اہل ق

۲سال کی عمر میں ۹۳ نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے پیرس میں قادری زور ۔۶۷‘‘وفات کی تاریخ لکھی ہے۔ء ۱۸۶۹جون

Page 195: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

195

ء میں ہی اپنے ایک خطبے میں ٹرائیر کی نسبت ۱۸۶۹گارساں دتاسی نے

:کہا تھاہندوستان کے متعدد قلمی آپ کی میرے حال پر بڑی عنایت تھی۔ چنانچہ ’’

دبستان ’’نسخوں کی نقلیں آپ کی مدد سے میں نے کرائی تھی۔ آپ نے

نے شروع D' Shea کے انگریزی ترجمہ کی تکمل کی جسے‘‘ مذاہب

کیا تھا۔ راج ترنگنی کا بھی انگریزی ترجمہ آپ نے ختم کیا۔ اس کتاب کو

تعدد مضامین کشمیر کی تاریخ سمجھنا چاہئے۔ اس کے عالوہ آپ کے م

؎۶۸‘‘پیرس کے ژورنال ایشیاٹک میں نکلتے رہے ہیں۔

نصرت جہاں ظفریاب خان بہادر صاحب کا ‘ مظفرالدولہ ممتاز الملک

تذکرہ نگاروں ’’ تھا۔ کئی Alloysius Lovis Rein Hardt خاندانی نام

۔ یہاں پھر ایک غلط فہمی ۶۹‘‘نام بھی لکھا ہے Louis Balthazar نے

نواب ظفریاب خان ‘ کی کوشش کی گئی ہے۔ دراصل بالتھزارپیدا کرنے

کا دوست تھا جو اپنا تخلص اسیر کرتا تھا۔ کریم الدین نے لکھا ہے کہ

ایک نصرانی تھا۔ رفقائے پسر شمرو فرنگی ظفر یاب خان نام ’’

۷۰‘‘کے

ظفریاب خان المتخلص صاحب جرمنی کے ایک مہم جو سپاہی والٹر رین ہارڈتھ

پہلی بیوی )داشتہ( کے بطن سے پیدا ہوئے۔ ’’سمرو/ سومبر/ شمرو کی المعروف

ء میں جب ۱۷۷۳۔ سمرو نے ۷۱‘‘جنرل سمرو کی یہ بیوی بھی ہندوستانی تھیسردھنہ کی حکمران سے شادی کی تو الوئیس رینہارڈتھ کی پرورش اس نے اپنے

اختیار کرلی ذمے لی۔ اس خاتون کا نام زیب النساء یا زینت تھا جس نے عیسائیت

تھی۔بیگم سمرو نے اوالد کی طرح اس کی پرورش کی اور جوان ہونے پر

اسے سردھنہ کی فوج کا سپہ ساالر بنا دیا لیکن کسی بنا پر جب اسے اس عہدے

72 سے فارغ کیا گیا تو وہ دیلی چال گیا سمرو سے ظفریاب خان نے اپنی سوتیلی ماں )سردھنہ کی حکمران( بیگم

تخت حاصل کرنے کے لیے جنگ بھی کی لیکن شکست کھائی اور پھر دہلی میں

‘ نقاش‘ ہی اپنی زندگی شان و شوکت سے گزارنے لگا۔ ظفریاب خان ایک شاعرخوشنویس اور ماہر فن موسیقی تھا۔ شعراء کا قدردان تھا اور مشاعرے بھی منعقد

اختالفات ہمیں رام بابو کرتا تھا۔ اس کے حاالت زندگی میں بہت معمولی

اور خواجہ محمد ۷۵،شفقت رضوی۷۴، نور احمد میرٹھی۷۳سکسینہ کے ہاں حلقے ہیں۔ آپ کی وفات میں بھی نساخ اور سرد علی کے ۷۶یوسف

ء( جبکہ ۱۸۴۴ھ)۱۲۶۰نساخ نے سال وفات ‘‘ سنین میں اختالف پایا جاتا ہے۔

:کا نمونہ درجہ ذیل ہے۔ اس کی شاعری ۷۷ء لکھا ہے۱۸۲۷سردار علی نے صاحب اسے نہیں غم محشر اگر تو پھر

کاغذ پہ کیوں یہ روتی ہے، رکھ رکھ کے

۷۸رو قلم

Page 196: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

تک جس ‘‘ یے’’سے ‘‘ ث’’رام بابو سکسینہ نے صاحب کے کالم کا انتخاب

اپنا طرح تحریر کیا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ظفریاب خان نے دیوان ترتیب دیا ہوگا لیکن اس کے موجود ہونے کا ذکر کسی محقق نے نہیں کیا۔

کے بارے معلومات مہیا نہیں (Antonie de Letang) کیپٹن انتونی ڈی لیٹنگ

ہوسکیں لیکن اس کے نام سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس کا تعلق فرانس سے بارے سلیم الدین قریشی لکھتے ہوسکتا ہے۔ اس کے بارے اور اس کی کتاب کے

:ہیںThe practice of Parriery, calculated for the East Indies

collected from the best authors, and founded upon

experiment, made during a resistance of ten years in this

country. Pondichery, printed for the author, 1795. ۷۹

سلیم الدین قریشی کی ے پاس لیٹنگ کے حوالے سے ساری معلومات صرفمیر

ان کی ‘ غذا‘ ان کی عادات‘ گھوڑوں کی دیکھ بھال درج باال کتابہیں۔ ہ مہیا کرداس میں ہندوستانی زبان میں ان کے عالج کے متعلق ہے۔مختلف بیماریوں اور

ان کے انگریزی اور غذا وغیرہ کا نام اور ‘ مستعمل گھوڑوں سے متعلق ادویات

:ہے۔ تامل متبادل دیے گئے ہیں۔ الفاظ کی ترتیب بلحاظ حروف تہجی مثال کے طور پر

Tezab: Aqua forties, تیزاب

Cafoor: Comphir, کافور

Phatthkuree: Alum, ۸۰پھٹکری

لیٹنگ کارینک وغیرہ، اس کے سن پیدائش کا، عمر کا ‘ اس کتاب کی پہلی اشاعتء کے لگ بھگ والدت ہوئی ہوگی۔ ۱۷۷۰نے میں معاونت کرتے ہیں کہ اندازہ لگا

۲۹ء ۔ ۱۷۷۰) (William Linnaeus Gardner) کرنل ولیم الئنس گارڈنر

ء کاسگنج( اردو کے شاعر اور نثار نگار تھے۔ اس کا حوالہ اگرچہ ۱۸۳۵جوالئی تعارف شفقت رضوی نے بھی دیا ہے اور رام بابو سکسینہ نے بھی بڑا تفصیلی

دیا ہے لیکن اس کا کالم یا تحریر کسی نے نقل نہیں کی البتہ سکسینہ نے

انگریزی میں کچھ اقتباسات دیئے ہیں وہ اس کے انگریزی زبان کے مصنف ہونے کا پتہ دیتے ہیں۔ بک لینڈ نے اس کا مختصر مگر جامع تعارف دیا ہے جبکہ

جر ولینٹائن گارڈنر کا بیٹا اور میر الجھادیا ہے۔ دیگر محققین نے تفصیل میں پڑ کویں پیدل رجمنٹ میں کپتان تھا۔ ۸۹ء میں ۱۷۸۳پہلے الرڈ گارڈنر کا بھتیجا تھا۔

ء میں اندور کے مہاراجہ جسونت راؤ ہلکر کی ۱۷۹۸اسے چھوڑنے کے بعد

جو بنگال کی ی بریگیڈ کی کمان کی۔فوج میں شامل ہوگیا اور ترقی کرکے انفنٹر ۔۸۱۔ور کاسگنج میں رہائش پذیر ہوگیاجمنٹ تھی ادوسری رسالے کی ر

تذکرہ نگاروں نے جس انداز سے کرنل ولیم کی شادی کو زیر بحث الیا ہے اسے

لچسپ رومانی ناول لکھا اگر تفصیل سے احاطہ تحریر میں الیا جائے تو ایک د

Page 197: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

197

اپنے ایک یں اس نسبت سےء م۱۸۳۵کرنل ولیم الئنس گارڈنر نے ۔ جاسکتا ہے

82ا تھا ۔ لکھتفصیلی ون میں مضمء( کے حوالے سے ۱۸۳۵ء ۔ ۱۷۷۱فانتوم خاندان کے کپتان برنارڈ فانتوم )

بھی محققین نے بہت کچھ لکھا ہے جس سے ایک قاری یہ اندازہ لگانے پر مجبور

ہوجاتا ہے کہ یہ شخصیت اردو کی ایک بہت بڑی خادم تھی لیکن کسی نے بھی س کی نگارشات کا ذکر کیا یانمونہ نہیں دیا۔ا

کا تعلق ایسٹ انڈیا کمپنی کی (T.T. Roberts) لیفٹیننٹ ٹی ٹی رابرٹس

‘‘An Indian Glossary’’ مقامی تیسری انفنٹری بٹالین سے تھا۔ آپ کی کتابایک ایسی لغت ہے جس میں ایک ہزار سے زائد الفاظ اور اصطالحات شامل ہیں

۔ رابرٹس نے اس کتاب کے مقدمہ میں ہےبائی کی ترتیب سے درج کیا جنہیں الف

۔۸۳اور ہندوستان کی زبان )اردو(کا ذکر کیا ہے۔ہیڈلے کی گرامر اس کتاب میں ہندوستانی الفاظ رومن رسم الخط میں لکھے گئے ہیں اور ان کے

:مقابل انگریزی زبان میں ان کے معنی لکھے گئے ہیں۔ جیسےHissadar - A sharer or partner

Nazem: Munazam, the placer in order

رنل جان بیلی کے سن والدت اور قیام لکھنؤ کے سنین میں محققین کے ک ۸۴ء ۱۸۱۵ء سے ۱۷۶۷نزدیک اختالف پایا جاتا ہے۔ خواجہ محمد یوسف نے

تک لکھنؤ کا ریذیڈنٹ ہونے کا دورانیہ لکھا ہے جسے اس نے رام بابو

ء میں ووہ جوان تو ہوں گے جسے ۱۷۶۷ سے نقل کیا ہے۔ گویا ۸۵ہسکسین اور راجندر ناتھ ۸۶درست ماننے میں محققین کی آراء مانع ہیں۔ بک لینڈ

ء سن والدت قرار دیا ہے۔ شفقت رضوی نے پیدائش کے سن ۱۷۷۲ نے ۸۷شیدا

کی طرف سے آنکھیں بند رکھیں البتہ لکھنؤ میں ریذیڈنٹ رہنے کا دورانیہ تک لکھنؤ میں ۸۹ء۱۸۱۵ء سے ۱۸۰۷ بک لینڈ نے ۸۸ء۱۸۱۵ء سے ۱۸۰۳

نے اتفاق کیا ہے۔ آب ۹۰قیام کا عرصہ لکھا ہے جس سے راجندر ناتھ شیدا

میں سعادت خان کے دربار میں کرنل بیلی کی آمدورفت اور انشاء ہللا ۹۱حیاتی کے والد کا نام خان انشاء سے مالقاتوں کا دلچسپ ذکر ملتا ہے۔ کرنل جان بیل

ء ۱۷۹۴ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں شامل ہوا۔ ۱۷۹۱جارج بیلی تھا۔ جان

ء( کے زمانے میں کپتان پروموٹ ہوا۔ ۱۸۰۳میں لیفٹیننٹ اور مرہٹوں کی لڑائی )فورٹ ولیم کالج میں اسالمی فقہ اور عربی کا پروفیسر رہا بعد میں عربی اور

ء تک روہیل کھنڈ ۱۸۰۷مارچ ۳۱ء سے ۱۸۰۵نومبر ۲۸فارسی کا پروفیسر رہا۔

ء میں لکھنؤ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ۱۸۱۵میں گورنر جنرل کا ایجنٹ رہا۔ ۲۰۔بک لینڈ نے سن وفات ۹۲ء میں وفات پائی۱۸۳۲انگلستان چال گیا جہاں

۔۹۳ء لکھا ہے۱۸۳۳اپریل

:کرنل جان بپٹسٹ: رام بابو سکسینہ لکھتے ہیں

Page 198: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

198

Colonel Jean Baptiste De la Fontaine Filoze, known to

Indians as Jan Battejis and poetically surnamed Jan was

born in 1773 at Gohad and was named De la Fontain a

French man and a follow officer of his father, Michael- ۹۴

:لیکن شفقت رضوی لکھتے ہیںمائیکل کے چھوٹے بیٹے ‘ جان تخلص‘ جان بپٹسٹ ڈی فاؤنٹین فیلوز نام’’

یدا ہوئے۔ ء میں مائیکل کے برصغیر آنے کے چند سال بعد پ۱۷۷۳تھے۔

ان کے بھائی مرہٹہ فوج میں مالزم تھے۔ بھائی نے کسی وجہ سے

خودکشی کرلی تو مرہٹہ فوج میں اس کی جگہ جان کو مقرر کیا گیا۔

ء میں ان کا ۱۸۴۶ ھیا کی فوج کے کمانڈر انچیف بنے۔سند ء میں وہ۱۸۱۷

۔۹۵‘‘انتقال ہوگیا

،کوئیس ۹۶(Francoise Queence) کپتان فرانکوئیس کوئین سی

،فرانسوگاڈلیو ۹۹، فران کوئس کوئینس ۹۸ ،کپتان اکڈن ۹۷کوئینس

نے اسی ۱۰۲رٹھی،نور احمد می۱۰۱، فرانسس گاٹلیب کوئین ۱۰۰کوئنس Francois Gotliab مؤخرالذکر نام سے اتفاق کیا ہے۔ رام بابو سکسینہ نے

Koine۱۰۳ لکھا ہے جبکہ ۱۰۴ اور صابر دت نے فرانسس گادلیب کوئن

فراسو/فرانسو تخلص پر تقریبا سب محققین متفق ہیں۔ نام میں یہ اختالف تلفظ اور ‘ ے باعث ہوسکتے ہیں۔ سید عبدہللاادائیگی یا زبان کی اصل سے ناواقفیت ک

محفوظ الحق اور جنمے جے مترار مان کے عالوہ کسی محقق نے فراسو کے

حاالت زندگی میں کپتان یا فوجی ہونے کا حوالہ نہیں دیا۔ یہ تینوں مصنفین متفق ہیں کہ سردھنہ کی فوج میں آپ کپتان کے عہدے پر فائز تھے۔

رو کے ایک مالزم آگسٹن گادلیب کے ہاں ء کو بیگم شم۱۷۷۷مارچ ۱۵فراسو

پیدا ہوا۔ والد کی وفات کے بعد بیگم شمرو اور نواب ظفریاب خان کے ہاں زندگی ء کو میرٹھ میں وفات پائی۔ سید عبدہللا نے آپ کی ۱۸۶۱جوالئی ۱۵گزاری اور

۔۱۰۵شخصیت پر بڑی تفصیلی بحث کی ہے۔

:تفصیلی لکھا ہےسید عبدہللا نے ان کی ادبی خدمات پر بھی حقیقت یہ ہے کہ فراسو ایک طومار نویس شخص تھا۔ وہ صرف اردو کا ’’

شاعر نہ تھا بلکہ اس نے اردو زبان کی ضخیم لغات لکھ کر یہ بھی ثابت

کردیا ہے کہ وہ اردو لغت کا بھی ماہر تھا۔ اس کے عالوہ اس نے بہت

یادگار چھوڑی سے افسانے بھی لکھے ہیں اور فن انشا میں کچھ تصانیف

نے اپنے مضمون میں فراسو کی کتابوں کی جو فہرست ۱۰۶ہیں۔ شاکر

ان کی تعداد گیارہ ہے۔ان کے عالوہ جو کتب راقم کی نظر پیش کی ہے

۱۰۷ہے۔ 9د سے گزری ہیں ان کی تعدا

:فراسو اردو کا صاحب دیوان شاعر تھا۔ اس کے کالم سے نمونہ مالحظہ ہو زمین شعر باال ہے فراسو

۱۰۸زمین شعر سے پست آسماں ہے

Page 199: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

ریورنڈ ٹی بروٹن (Thomas Duer Broughton) کرنل ٹامس ڈویربروٹن

ء میں ۱۷۹۵میں تعلیم حاصل کی۔ (Eton) ء میں پیدا ہوئے۔ ایٹن۱۷۷۸کے ہاں زیرہ بنگال آرمی میں شمولیت اختیار کی۔ سرنگاپٹم کی لڑائی میں بھی حصہ لیا۔ ج

ء کو وفات ۱۸۳۵نومبر ۱۶ء میں کرنل ہوئے اور ۱۸۲۹جاوا میں کمان کی۔

۔۱۰۹پائیء کے اپنے ۱۸۵۴دسمبر ۴گارساں دتاسی کے دوست تھے چنانچہ دتاسی نے

بہت بااخالق شخص تھے اور ’’خطبے میں بروٹن کا ذکر کرتے ہوئے کہا:

کا انتقال لندن میں مجھے ذاتی طور پر ان کی مالقات کا شرف حاصل تھا۔ ان ۔۱۱۰ہوا

دو شخصیات لغت و قواعد کے حوالے سے قاری کو مغالطے میں مبتال کردیتی

ہیں۔ دونوں کا عہد بھی ایک ہی ہے۔ دونوں فوج میں تھے۔ ان میں سے ایک ‘‘A new ہے جس نے (William Price) شخص کیپٹن ولیم پرائس

’’Grammar of the Hindustani Language جس میں مشہور مصنفین لکھی

ء میں ۱۸۲۷کی تصنیفات مثالوں کے طور پر دی گئی ہیں۔ یہ کتاب لندن سے ۔ ڈاکٹر لکشمی کے مطابق کیپٹن ولیم پرائس پہال شخص ہے جس ۱۱۱شائع ہوئی

ء میں ہندی لفظ کا جدید معنوں میں استعمال کیا اور اس طرح تفریق کی ۱۸۲۴نے

William) دوسری شخصیت ہے میجر ولیم پرنس۔ ۱۱۲بنیاد کو مضبوط بنایاPrince) (۱۷۸۰ جس کا تقرر بحیثیت لیفٹیننٹ یکم فروری ۱۸۳۲ء ۔ )ء لندن

ء کو کپتان اور ۱۸۲۳جوالئی ۱۱ء کو بنگال کی پانچوین رجمنٹ میں ہوا۔ ۱۸۰۷

ء کو اس کا تقرر فورٹ ولیم کالج ۱۸۱۳ء کو میجر بنا۔ اکتوبر ۱۸۳۱اپریل ۲۳بنگلہ اور ہندوستانی کا اسسٹنٹ پروفیسر اور ‘ ھا جہاں وہ سنسکرتمیں ہوگیا ت

ء کو پروفیسر مقرر ہوگیا۔ اس کی اہم ۱۸۲۳اکتوبر ۲۰پھر فارسی کا ممتحن اور

سبھا بالس کی ‘ پریم ساگر کا لغت‘ تصانیف میں کھڑی بولی اور انگریزی کا لغتسائیکلوپیڈیا کے ۔ سوانحی ان۱۱۳ترتیب اور چھتر سال کی ترتیب شامل ہیں

مرتب نے تعارف میں ایک مقام پر پرائس اور پرنس کے فرق کو ختم کردیا اور

۔۱۱۴یہ ناموں کی مطابقت کے باعث ہوا (Thomas Roebuck) گلکرسٹ کے رفیق کار اور جانشین کپتان ٹامس روبک

ے ء ک۱۸۰۱ء میں لنلتھگو شائر میں پیدا ہوئے اور ایڈنبرا میں تعلیم پائی۔ ۱۷۸۱اوائل میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں مالزم ہوکر ہندوستان آئے۔ پہلے فوج میں لیفٹیننٹ

۔ روبک ۱۱۵ء( کے عہدے پر فائز ہوئے۱۸۱۵ء( اور پھر کپتان )۱۸۱۲)

ء میں انگلستان چال گیا جہاں گلکرائسٹ کے ساتھ لغت کی تدوین میں ۱۸۰۵ں اسسٹنٹ سیکرٹری ء میں اس کا تقرر فورٹ ولیم کالج می۱۸۱۱مصروف رہا۔

ء میں ٹامس روبک فورٹ ولیم ۱۸۰۴۔ اس سے پہلے ۱۱۶کی حیثیت سے ہوا

کالج میں پروفیسر مقرر ہوچکے تھے۔ آپ کالج کے پہلے معتمد اورممتحن بھی :۔ ۔ وفا راشدی لکھتے ہیں۱۱۷تھے

Page 200: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

200

دسمبر ۸ء کو لن لوتھ گروشائر میں پیدا ہوئے۔ ۱۷۸۴تھامس روبک ’’

یں انتقال کیا۔۔۔ ہندوستان آئے۔ اردو سیکھی۔ پہلے ء کو کلکتہ م۱۸۱۹

ء تک فورٹ ولیم کے ۱۸۱۷ء سے ۱۸۱۱مدراس میں قائم مقام میجر رہے

نائب سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہے۔ انہوں نے فورٹ ولیم کالج میں

متعدد کتابیں لکھیں سب کی سب کلکتہ میں اشاعت پذیر ہوئیں۔ اردو

اردو دوستی بھی نہ صرف کلکتہ بلکہ تصانیف کے ساتھ ساتھ ان کی

۔۱۱۸‘‘پورے ہندوستان میں مشہور تھی

ء اور ۱۷۸۱والدت کراتے ہوئے متعارف تھامس روبک سے۱۱۹سڈنی لی ء ہی تحریر کرتے ہیں۔۱۸۱۹دسمبر ۸وفات

تھامس روبک نے فورٹ ولیم کالج کی صداررت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے

اردو مصنفین کی بڑی سرپرستی کی۔ انہیں اردو نثر پیشرو کی طرح کالج کےکے عالوہ اردو شاعری سے بھی دلچسپی تھی۔ اسی بناء پر منشی بینی نرائن

۔ آپ ۱۲۰کے نام سے اردو شعراء کا تذکرہ لکھوایا‘‘ دیوان جہاں’’جہاں سے

نے ڈاکٹر گلکرائسٹ کو ہندوستانی لغت تیار کرنے میں بھی مدد دی۔ آپ کی درج :ل کتب شائع ہوچکی ہیںذی

1- A collection of proverbs and proverbial phrases.... :اس کتاب کے دیباچے میں ایچ ایچ ولسن لکھتے ہیں

The original plan embraced, Arabic, Sanscrit and Punjabi

proverbs, as well as Persian and Hindustani the only

language in which it has been completed ... several of the

Punjabi proverbs are already intermixed with the

Hindustani.۱۲۱

یہ کتاب کا پہال حصہ ہے جس میں صرف فارسی کے ضرب االمثال کو شامل کیا گیا ہے اور اس کا انگریزی ترجمہ دیا گیا ہے۔

2- An English and Hindustani Naval Dictionary of Technical

terms and sea phrase. اردو میں ‘ اس میں بحریہ اور جہاز رانی کی تمام اصطالحیں اور الفاظ انگریزی

جمع کردیے ہیں۔ دیباچہ کے بعد ہندوستانی گرامر کے اصولوں پر بحث کی گئی ہے۔ بعدازاں ڈکشنری اور پھر وہ الفاظ دیے گئے ہیں جو کمان کرنے کے لیے

:ہوتے ہیں۔ روبک اس کے پیش لفظ میں رقم طراز ہیں استعمالTo obviate this, I have not only translated all the words and

phrases I could find in several English Naval works, but

also availed myself of the leisure afforded by a long

passage between England and India in collecting all the

words of command, & c ۱۲۲۔

انگریزی اور ہندوستانی کے کچھ الفاظ مثال کے طور پر مالحظہ ہوں لیکن یہاں

ہندوستانی زبان کو رومن رسم الخط میں لکھا گیا ہے۔ لہذا اسے پڑھنے میں

Page 201: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

201

تھوڑی سی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کتاب کے پہلے حصے میں صرف گرامر

ہے جو رومن رسم الخط میں ہے۔ تھامس روبک نے فورٹ ولیم کالج کی خدمات پر بھی ایک مبسوط کتاب

انگریزی زبان میں لکھی۔ جواز جعفری نے کپتان تھامس روبک کی ایک لغت کا

ء میں حیدرآباد میں ۱۷۸۱ولیم پامر بھی لکھا ہے۔ ۱۳۳‘‘عسکری لغت’’نام ء میں نظام کی ۱۷۹۹ساء کے بطن سے پیدا ہوا۔ جنرل ولیم پامر کے ہاں فیض الن

ء میں وفات ۱۸۶۷ء تک اس فوج کا حصہ رہا۔ ۱۸۱۰فوج میں بھرتی ہوا اور

۔ کرنل ٹاڈ کا ذکر بھی کئی کتب میں ۱۲۴پائی۔ فارسی اور اردو میں شاعری کیمیں خوبصورت لہجے میں ذکر ‘‘ گارساں دتاسی کے خطبات’’موجود ہے لیکن

ڈکشنری آف نیشنل بایوگرافی اور ڈکشنری آف انڈین بایوگرافی میں کیا گیا ہے۔

ء ۔ ۱۸۳۵بھی تفصیل سے ذکر ہے۔ ڈکشنری آف نیشنل بایوگرافی کے مطابق )ء ۱۷۹۹مارچ ‘ ان کا اپنا نام بھی جیمس / جیمز ٹاڈ‘ ء( والد کا نام جیمز ٹاڈ۱۷۸۲

جنوری ۹ میں بنگال آئے اور سیکنڈ یورپین رجمنٹ میں شامل ہوئے جہاں

جون ۲۸ء کو لیفٹیننٹ کرنل بنے اور ۱۸۲۶ء میں کمیشن لیا۔ دو جون ۱۸۰۰۔ لیکن ڈکشنری آف انڈین بایوگرافی ۱۲۵ء کو مالزمت سے ریٹائر ہوئے۱۸۲۵

ء تاریخ وفات ہے جبکہ ۱۸۳۵نومبر ۱۷ء تاریخ پیدائش اور ۱۷۸۲مارچ ۲۰میں

Travels Annual and Antiquities of Rajisthan‘‘ ۱۲۶’’ تصانیف میںin Western India‘‘ اور ’’The Central and Western Rajput State of

India‘‘ تاریخ ’’نیز رضا علی عابدی کے مطابق اول الذکر کتاب کا اردو ترجمہ

۔۱۲۷ء ہوچکا ہے۱۸۷۷راجستھان )ٹاڈ نامہ( کے نام سے ت ہے جس کے بھی ایسی ہی عسکری شخصی (John Briggs) جنرل جان برگس

بارے لکھا گیاہے کہ اس نے انگریزی اور فارسی زبان کے ساتھ ساتھ اردو زبان

کی بھی خدمت کی لیکن پھر وہی افسوس کہ اس کی بھی کوئی اردو زبان میں :تحریر نہیں مل سکی۔ گارساں دتاسی کا کہنا ہے

اپریل کو لندن میں انتقال ہوا۔ بھرتی ہوئے۔ ۲۷جنرل جان برگس کا ’’

۔ وہ کئی ء میں جنرل کے عہدے تک پہنچے۱۸۶۱ء میں کرنل اور ۱۸۲۹

سال پیرس میں رہے۔۔۔ انہوں نے ہندوستان کے متعلق متعدد کتابیں اور

رسالے لکھے لیکن علمی دنیا میں ان کی شہرت کا مدار تاریخ فرشتہ کے

اصل فارسی متن کی اشاعت اور اس کے انگریزی ترجمے پر ہے جو

History of the rise’’ ورقی تقطیع کی چار جلدوں میں انہوں نے ہشت

of the Muhammadan Power in India‘‘ کیا ہے۔ انہوں نے

۔۱۲۸‘‘سیرالمتاخرین کا ترجمہ بھی کیا تھا

سالوں میں مرہٹوں کی حالت بہت خراب ہوگئی ۲۵اٹھارویں صدی کے آخری ’’

اقتدار نہیں رہا تھا ۔۔۔ دولت راؤ تھی۔ قریب قریب ان کی ساری ریاستوں کا پہال سا

سندھیا کے پاس اخراجات پورے کرنے کے لیے خزانے میں روپیہ نہیں ۔۱۲۹‘‘تھا

Page 202: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

202

ء کو احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ لہذا ۱۸۷۷ء سے ۱۸۷۴گارساں دتاسی کے یہ مقاالت

ء کو ہوئی ہوگی لیکن یہ ۱۸۷۷یہ مانا جاسکتا ہے کہ جنرل جان برگس کی وفات ء لکھی ۱۸۷۵اپریل ۲۷فرض کرنا ضروری نہیں کیونکہ بک لینڈ نے تاریخ وفات

ء( بک لینڈ ۱۸۴۱ء ۔ ۱۷۷۸) (James Skinner) ۔ کرنل جیمز اسکنر۱۳۰ہے

:لکھتے ہیں‘‘Son of Lt. Colonol Harcules Skinner, a scotchman, and

Rajput lady: Joined the Mahratta Army under count De

Boigne in 1796 and remained in it, performing active

service under perron, until 1803’’. ۱۳۱

نے حاالت زندگی بڑی تفصیل سے لکھے ہیں ۱۳۲رام بابو سکسینہ اطالوی االصل فیلوز خاندان سے تعلق رکھنے والے جان بپٹسٹ کے بیٹے

(Julian Filose Talib) رے اہل قلم جولین فیلوز طالباور اس خاندان کے دوس

ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق بھی مرہٹہ افواج سے تھا اور میجر کے عہدے ۱۷۹۷ء میں انتقال ۱۸۴۰ستمبر ۲۲کہالتے۔ ‘‘ بابا جان’’تک ترقی کی۔ وہ عام طور پر

۔ ۱۳۳ہوا

ہے وہ (Joseph William Taylor) لیم ٹیلرکپتان ٹیلر: پورا نام جوزف و کپتان تھا۔ فورٹ ولیم کالج کے شعبہ ہندوستانی کا پروفیسر تھا۔ اس کی تصنیف

اردو انگریزی لغت کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے جس کا ذکر ہر اس تصنیف میں

۔بک لینڈ نے بھی ۱۳۴پایا جاتا ہے جس میں فورٹ ولیم کالج کے دور کا ذکر ہو :یلر کے تحت ایک تذکرہ کیا ہے۔ لکھتے ہیںجوزف ٹ

Arrival in India, 1808, in the Engineers: Garrison Engineer

At Agra: Executive Engineer at diwapur Civil Architect at

Fort William... Brevet Major 1825-6: Lt. Colonel 1831, dead

April 20, 1835. ۱۳۵

ء کو کالج کی ۱۸۲۳مارچ ۲۳انہوں نے کے عہدے سے لیفٹیننٹ کرنل

۔۱۳۶‘‘ پروفیسری سے سبکدوشی حاصل کرلی

آپ کی فرمائش پر ابوالفضل کی معروف تاریخی کتاب اکبرنامہ کا اردو

زبان میں واقعات اکبر کے نام سے خلیل علی خان اشک نے ترجمہ کیا۔ آپ نے

ہے ‘‘A dictionary Hindustani & English جو لغت ترتیب دی اس کا نام Originally compiled for his own جس کے سرنامے پر یہ لکھا ہے۔

private use by Capt. ’’Joseph Taylor. Revised and prepared by

W.Hunter عربی سنسکرت اور ہندوستانی زبانوں میں ہے۔ جس ‘ یہ لغت فارسیمعنی الگ الگ دئیے گئے ہیں۔ اردو میں چاروں زبانوں کے انگریزی

)ہندوستانی( کی مثال مالحظہ ہو۔ یہ مثال صرف تالی لفظ کے حوالے سے ہے۔

Page 203: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

203

Talee, n.s.f. A key. 2. Clapping ofتالی ایک ہاتھ سے بجتی تالی

the hands. talee ek hath se bujnee, is used to express an impossibility. Hidayut says:

کہیں سنا ہے کہ ایک ہاتھ سے بجے تالی

جو اپنی چاہ کرے ہم بھی اس کی چاہ کریں

Kuheen soona hua ki ek hath se buje tale

Jo upnee chah kure hum bhee ooskee chah kuren. was it ever heard that a clapping was made with one hand?

.۱۳۷

عرفیت شہزاد مسیح فرانسیسی ‘ تخلص فطرت (Balthasar) تھزارکرنل بل۔ شفقت رضوی ان کے حاالت کا ذکر یوں ان سے تھےاالصل اور بوربون خاند

:کرتے ہیںفطرت کا بھوپال کے شاہی خاندان سے قریبی تعلق رہا۔ وزیر محمد خان ’’

سے فطرت کی سیاسی سوجھ بوجھ کی وجہ۔نے انہیں اپنا وزیر بنالیا تھا

والئی ریاست اور انگریزوں کے درمیان اختالفات ختم ہوئے اور دوستی

کا معاہدہ تکمیل پایا۔ فطرت کے تدبرو دانشمندی سے متاثر ہوکر

انگریزوں نے بھوپال سے ان کی خدمات خود حاصل کرلیں اور فوج میں

۔۱۳۸‘‘کرنل کے عہدہ پر فائز کیا

خدمات مکمل طریقے سے ادا فطرت نے وزیر خان کی وفات کے بعد اپنی

کیں۔ شفقت نے یہاں پھر ایک غلط فہمی پیدا کردی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ

۔ جبکہ سردار ۱۳۹سردار علی نے شہزادہ مسیحی )کرسچین پرنس( نام لکھا ہےعلی نے ایسا بالکل نہیں لکھا۔ فطرت کو فن عروض پر کامل دستگاہ تھی۔ شعر

اشتقاق الزم ‘ اسخ کے پیرو تھے اور صنعت مکررمیں لکھنوی شعراء خصوصا ن

مشکل قافیوں اور ردیفوں ‘ و ملزوم وغیرہ میں شعر کہتے تھے۔ مشکل زمینوں ۔۱۴۱‘‘میں بھی ان کی غزلیں موجود ہیں

ہاتھ آجاوے کسی ڈھب سے اگر وہ شوخ کا

پھر قیامت تک نہ چھوڑوں ہاتھ لے کر ہاتھ

۱۴۲میں

اور شفقت رضوی Louis Lajoie کیپٹن لوئیس لیزا توقیر کو سکسینہ نے

۔ جبکہ محمد سردار ۱۴۳لکھا ہے Lovis Laqvis کے مطابق سردار علی نےعلی نے اپنے تذکرے میں توقیر کا ذکر ہی نہیں کیا۔ توقیر بھی نسال فرانسیسی

:تھے۔ سکسینہ لکھتے ہیںCaptain Louis Lajoie Tauqir can only be identified with

John Legois who was a captain in the Army of Begam

Sumru. He was about 1797 A.D as he was 56 years of age in

Page 204: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

204

1853 when he was examined as a witness in the Dyce

Sombre case . ۱۴۴

اور شفقت رضوی کے مطابق ۱۴۵ء۱۸۵۹سکسینہ کے مطابق

میں وفات پائی۔ نور احمد میرٹھی نے شفقت رضوی سے اتفاق کیا ۱۴۶ء۱۸۴۹ ۔۱۴۶ہے

توقیر کا تعلق فوج کے شعبہ آرٹلری سے تھا۔آخر میں آپ گوالیار منتقل

ہوگئے۔ اردو میں بھی شعر کہتے تھے اور جان تھامس طوماس کے شاگرد تھے۔ قیدت کا شدت سے ان اشعار میں عیسائیت اور حضرت عیسی علیہ السالم سے ع

کیا گیا ہے۔ اظہار یہ فیض عام ہے بیمار جس سے پاتے ہیں

صحت

دوا کیسی شفا ‘ دوا کہیے ‘ دعا کہیے

۱۴۸کہیے

میں بوسۂ عرق آلود رخ کا ہوں تشنہ

۱۴۹پالؤ مجھ کو مالکر گالب میں پانی

ء کو یارک ۱۷۹۰جنوری ۲۵ (W.H. Sykes)کرنل ڈبلیو ایچ سائکس

ء ۱۸۰۳شائر فیملی کے سیموئیل سائیکس کے ہاں پیدا ہوئے۔ ولیم ہنری سائیکس

میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں کیڈٹ کی حیثیت سے شامل ہوا اور یکم مئی جامعہ ابرڈینکے کرنل ڈبلیو ایچ سائکس ۔۱۵۰ء کو کمیشن حاصل کیا۱۸۰۴

سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ ۸۳ء کو ۱۸۷۲جون ۱۶کا امیر بھی رہے۔ان

۔۱۵۱‘‘ء میں ۱۸۰۱ (David Lester Richardson) میجرڈیوڈلسٹر رچرڈسن

بنگال ۲ء میں ۱۸۱۹لیفٹیننٹ کرنل ڈیوڈ تھامس رچرڈ سن کے ہاں پیدا ہوئے۔

میں شمولیت اختیار کی اور (2nd Bengal Native Infantryمقامی انفنٹری ) ۱۷ء کو میجر کے عہدے سے ریٹائرمنٹ لے لی آپ نے ۱۸۳۳ جوالئی ۱۹

۔ میجر ڈیوڈ ابتدا ہی سے ادب کی طرف راغب ۱۵۲ء کو وفات پائی۱۸۵۶نومبر

۔ بنگال کے اردو رنل سے آپ نے لکھنے کا آغاز کیاء میں کلکتہ ج۱۸۲۲تھا۔ ھی رہے۔ کے ایڈیٹر ب‘‘ ہرکارہ’’جریدے

تعلق ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج سے تھا۔ وہ جنرل جیمز ایڈورڈ الیگزینڈر کا پہلے تیرہویں الئٹ ڈراگون رجمنٹ میں لیفٹیننٹ تھا بعد میں فورٹ سینٹ جارج

۔ برصغیر میں قیام کے دوران اس نے اردو میں ے گورنر کا باڈی گارڈ بن گیاک

دست گاہ حاصل کی۔ ان دونوں زبانوں میں تحریرو تقریر کی استطاعت پیدا کرلی شنگرف ’’نواب احتصام الدین موضع پاچنی پور بنگال کے سفرنامہ انگلستان تھی۔

۔ ۱۵۳‘‘نامہ والیت کا اردو میں ترجمہ کیا

Page 205: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

205

ء کو پووس کے مقام پر ۱۸۰۳اکتوبر ۱۶سر جیمز ایڈورڈ الیگزینڈر

ء کو آپ نے وفات ۱۸۸۵اپریل ۲ایڈورڈ الیگزینڈر کے ہاں پیدا ہوئے۔ ۔ ۱۵۴‘‘پائی

ایسٹ انڈیا کمپنی کے فوجی کالج موقوعہ (Rowlandson)سنکرنل رولینڈ

۔ ڈاکٹر سید سلطان محمود کے ۱۵۵/ڈسکومب میں اردو کے پروفیسررہےء ۱۸۹۴ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج میں شامل ہوئے تھے۔ ۱۸۲۰مطابق وہ

۔ ۱۵۶سال تھی ۹۰میں ان کی عمر

(Edward Back house Eastwick) کیپٹن ایڈورڈ بیک ہاؤس ایسٹ وکء میں نیٹو ۱۸۳۶ء میں کیپٹن رابرٹ ولیم ایسٹ وک کے ہاں پیدا ہوا۔ ۱۸۱۴

ء میں ہیلی بری کالج میں ۱۸۴۵ .انفنٹری رجمنٹ بمبئی میں شمولیت اختیار کی

۱۶ہندوستانی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ آپ مختلف عہدوں پر رہنے کے بعد ۔ ۱۵۷ء کو وفات پاگئے۱۸۸۳جوالئی

:ے۔ جیسےہپر بڑی تفصیلی بات کی (Roots) روٹس ں نے انہوroots which are either deficient or disfigured in the old

European languages, but which are common to the

Germanic and the Sanscrit, the gothic stands on the same

footing with the Sanscrit, especially in respect of initial

medials. Thus -- bandh "to bind" is also band in Gothic, not

pand. ۱۵۸

A concise grammar of the Hindustani’’ ایسٹ وک نےLanguage‘‘ بھی لکھی جو چار حصوں پر مشتمل ہے اور آخر میں ضمیمہ دیا

:نمونہ مالحظہ ہوںسے صرف تحریر کی چند سطریں بطور اردو ہیں۔ گیا ہےایک وزیر کا بیتا نادان و کند ذھن تہاوزیرنی ایک دانا کے پاس اسی ’’

بہیجا اور کہا کہ اس لژکی کو تربیت کر شاید کہ عقلمند ہوجاوی چنانچہ

دانانی اس کی تعلیم میں بہت سی کوشش کی پر کچیہ فایدہ نہوا پس الچار

ا ور کہا کہ تیرا بیتا عاقل ہوکر لژکی کو اس کی باپ کے پاس پہیر بہیجا

۔۱۵۹‘‘نہیں ھوا اور مجہی دیوانہ کیا

لیفٹیننٹ بنسن نے لندن میں چھٹیوں کے دوران اپنی پریکٹس کے لیے کچھ

صفحات لکھے لیکن دوستوں کے کہنے پر کہ ہندوستانی جاننے یا سیکھنے کے ہ شوقین کچھ ابتدائی معلومات ان صفحات سے حاصل کرسکتے ہیں اور فائد

میں ان (Preface) اٹھاسکتے ہیں۔ اسے شائع کروادیا۔ ان صفحات کے ابتدائیہ

:حقائق کے اعتراف کے بعد وہ لکھتا ہے کہHindustani being a combination of languages, and Arabic

words are derivatives forming a considerable portion

thereof. I have attempted to elucidate the formation of these

derivatives in a simple manner as possible, avoiding all

Page 206: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

206

unnecessary detail of the various anomalies which occur in

Arabic, caused by the vowel points, as they tend. ۱۶۰

ء میں پیدا ہوا۔ حصول تعلیم کے بعد مدراس آرمی میں ۱۸۲۰بنسن

شمولیت اختیار کی اور جب یہ کتاب تالیف کی تو لیفٹیننٹ تھا۔ نمونۂ تحریر :مالحظہ ہو

جنرل صاحب جانتیی ھین فدویی سیی ایسیی تقصیر قصدا نہ ھویی پادشاہ کا

وزیر عالیی نھایت قابل و فاضل تھا۔ ۔۱۶۱یرودیس پادشاہ نیی یوحنا کیی بھایی یعقوب تلوار سیی قتل وجدل کیا

ء میں ایڈنبرا )برطانیہ( کے قریب بمقام ۱۸۲۰سرہنری یول کرنل

میں پیدا ہوا۔ آپ کے والد میجر ولیم یول بھی ایسٹ انڈیا (Inversek) انورسیکء میں عربی ۱۸۰۹کمپنی کے مالزم تھے اور برصغیر سے واپس جاتے ہوئے

اور فارسی کے کئی مخطوطے وہ ساتھ لے گئے تھے۔ وہ چونکہ عربی اور

Apopthegms of Ali the son of’’ کے عالم تھے ان کی ایک کتاب فارسیAbu Talib‘‘ ۱۸۳۲عربی متن اور ‘ ء میں شائع ہوئی جس میں قدیم فارسی متن

۔ہنری یول نے ایڈنبرا اور ۱۶۲میجر ولیم بول کا انگریزی ترجمہ شامل ہے

میں ء ۱۸۴۰کیمبرج سے ریاضی اور انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی میں فوج کی انجینئرنگ سروس )کور( میں شمولیت اختیار

کرلی۔His first appointment in the India was among the Kasias, a

primitive Mongoloid people on the North - East borders of

Bengal, who greatly interested him, and his account of their

quaint manners and customs of the character of the

country. ۱۶۳

بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ کتاب ان الفاظ ‘‘ ہابسن جابسن’’ان کی کتاب

اور محاورات وغیرہ کی فرہنگ ہے جو ہندوستان میں انگریزوں کی بول چال میں ہندوستان میں ‘‘ ہابسن جابسن’’کتاب کے عنوان کے الفاظ شامل ہوچکے تھے

انگریزوں کی زبان میں داخل ہوچکے تھے گو اب وہ اتنے عام نہیں ہیں۔ ان الفاظ

کو یول کتاب کے عنوان کے لیے بہت موزوں سمجھتا تھا خصوصا اس لیے بھی کی ۱۶۴کہ ان دو ناموں )حسن ، حسین ( میں کتاب کے دو مصنفوں)یول اور نل

۔۱۶۵طرف اشارہ ہے

غت ہونے کے عالوہ لسانیات کے موضوع میں بھی ایک ہالبسن جابسن ل اضافہ ہے۔ دو مثالیں مالحظہ ہوں۔

اس لفظ پر روشنی ڈالتے ہوئے یول نے دستی پنکھوں (Punkha) ۔ پنکھا۱

اور چھت سے لٹکے ہوئے پنکھوں کا ذکر کیا ہے جو ہندوستان میں استعمال ء، ۱۳۰۰ء، ۱۱۶۶ ء ،۱۱۵۰ہوتے ہیں۔ اس نے جو اقتباس درج کیے ہیں وہ

ء، ۱۸۰۹ء، ۱۸۰۷ء، ۱۷۸۷ء، ۱۶۶۳ء، ۱۶۱۶ء، ۱۶۱۰ء ، ۱۵۹۸، ۱۵۹۶

Page 207: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

207

ء کی تحریروں سے لیے گئے ہیں۔ قدیم ترین حوالہ ۱۸۵۲ء اور ۱۸۲۳ء، ۱۸۱۰

زبان کے مشہور مؤرخ اور محقق دوزی کی لغت کیا ہے جس میں ہسپانوی اور گئے ہیں۔ اس میں پرتگیزی زبانوں کے ان الفاظ کا بیان ہے جو عربی سے لیے

بتایا گیا ہے کہ خیش ایک قسم کا پنکھا تھا جو ہوا جھلنے کے کام بھی آتا تھا اور

بعض اوقات اس میں خوشبو کا پانی ڈال کر کمرے کو معطر کرنے کا کام بھی لیا خلیفہ منصور ‘‘ خیش’’جاتا تھا اس کے بعد الغمزی کے حوالے سے لکھا ہے کہ

د ہے۔ء( کی ایجا۱۷۷۴ء ۔ ۱۷۵۳)

یول نے اس لفظ کو فارسی بتایا ہے اور عربی میں (Shulwar) ۔ شلوار۲ہے۔ اس کا ذکر عہد نامہ عتیق کے باب دانیال میں آیا ہے۔ ‘ سروار’اس کی شکل

یول نے متن میں یونانی ترجموں کے اقتباسات سے ظاہر کرنے کی کوشش کی

ئج تھا۔ اس کے بعد سال قبل را ۲۰۰۰ہے کہ یہ لفظ یونانی میں بھی آج سے ۔۱۶۶الطینی اور اطالوی زبان کے اقتباسات دیے گئے ہیں‘ انگریزی

The’’ اور ‘‘Cathay and the way thitter’’ یول کی ایک کتاب

book of Ser Marco polo‘‘ دسمبر ۳۰بھی ہے۔ کرنل سر ہنری یول نے ۱۶۷.. .ء کو وفات پائی۔۱۸۸۹

فوج میں انجینئر کور سے متعلق تھا (A.H.E Boileau) اے ای ایچ بائیلیو

:اور بقول سکسینہ"A.H.E Boileau was a captain in bengal Engineers" in

1845"۱۶۸

170صرف اردو نظم شامل کی ہےاس کی شفقت رضوی نے ء ۱۸۴۶ایک جیبی لغت (Robert Shedden Dobbie)رابرٹ شیڈن ڈوبی

A’’ ء میں یہ لغت۲۰۱۸میں لندن سے شائع ہوئی تھی۔ حال ہی میں یعنی

Pocket Dictionary of English & Hindustani‘‘ کے نام سے شائع ہوئیء کو برطانیہ میں پیدا ہوا اور پہلی جنگ عظیم میں سیکنڈ ۱۸۹۲شیڈونہے

ء کو وفات پائی۔ ۱۹۱۷اپریل ۱۲لیفٹیننٹ تھا کہ فرانس میں

بان و ادب میں بنیادی قواعد و گرامر سے آگاہ کرنے والے یعنی پشتو زلغت پشتو ۔ لندن ’’ء، ۱۸۶۰قواعد پشتو یا افغانوں کی زبان۔ ہرٹ فورڈ ’’

، منتخبات نظم ‘‘ ء۱۸۶۲گلشن روح یا منتخبات نظم و نثر لندن ’’، ‘‘ ء۱۸۶۰ An illustrated, an account of the District of" ۱۷۲ء۱۸۶۲افغان ۔ لندن

Peshawar- 1849 - 50"

"Pushto Grammar-1955" "A Treasurus of Hindustani - English Technical terms- 1859" "Translation of the `Tabakot-i- Nasiri"

"Notes on Afghanistan and Baluchistan-1888" - numerous

articles on geography, history and ethnology in the J.A.S.B, 1854-1905, engaged on a "History of Herat and its Dependencies

Page 208: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

208

and Anals of Khurasan from its conquest by the Muhammadans "

مرتب میجر ہنری جارج راورٹی‘ جیسی کتابوں کے مصنف، مترجم ۱۷ ۳(Henry George Raverty) ۳۱ ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام ۱۸۲۵مئی

ء میں آپ نے وفات پائی۔ ۱۹۰۶پیٹر راورٹی تھا۔ Adhesion Liptta'o- لپٹاؤ Chep چیپ Chaspani چسپانی

muwasalat ۱۷۴ مواصالت

ء میں ۱۸۲۶ (Iltudus Thomas Prichard)الٹیوڈس تھامس پریچرڈجیمس کولس (Ethnologist)برسٹل میں پیدا ہوئے۔ آپ مشہور ماہر نسلیات

فارغ التحصیل ہونے کے بعد بنگال آرمی میں شمولیت کے بیٹے تھے۔ پریچرڈ

اختیار کرلی اور بنگال کی دیسی فوج کی پندرہویں رجمنٹ میں لیفٹیننٹ کے طور پر پنجاب کی جنگ میں حصہ لیا۔ اس خطرناک اور تھکادینے والی جنگ سے

لے کر برطانیہ چلے گئے جہاں وکالت کی ء میں ریٹائرمنٹ ۱۸۵۹فارغ ہوئے تو

کے ایڈیٹر ‘‘ دہلی گزٹ’’اور پھر ہندوستان میں آکر پریکٹس کرنے لگے۔ بعدازاں بنے جس میں ان کے پرمذاق اور دلچسپ مضامین کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کا

بعد میں ان کو کتابی صورت میں ‘‘ بجے پور کے تاریخی حاالت’’عنوان تھا

:کی دو جلدوں میں شائع کیا جس کارکھا گیا ہشت ورقی صفحوں‘‘Chronicles of Budjapore, or sketch of life in upper India’’

:لیکن گارسان دتاسی کے مطابقتاج برطانیہ کی ماتحتی کے ابتدائی ’’اس کا سنجیدہ تر اور اہم کارنامہ ہے

)۱۷۵۔)ہے‘‘سالوں کی تاریخ ہنددس

ء میں انچاس سال کی عمر میں وفات ۱۸۷۵ی آپ نے ڈیرہ دون میں جنور پائی۔

ء کو فلپ سلیمن کے ۱۷۸۸اگست ۱۸میجر جنرل سرولیم ہنری سلیمن نے

ء میں بنگال آرمی میں کمیشن حاصل ۱۸۰۹ہاں جنم لیا۔ تعلیم کے حصول کے بعد ۔ آپ نے ٹھگی اور ڈکیتی کے خالف ور لڑائیوں میں حصہ لیا کیا۔ مختلف مہمات ا

اور اس کے خاتمے کے بعد اپنے تجربات کی بنا پر ۱۷۶نگرانی کی آپریشن کی

ء میں ۱۸۴۰ٹھگوں کے بارے میں ایک مفصل رپورٹ حکومت کو پیش کی جو ۔ ۱۷۷کے نام سے شائع ہوئی ‘‘Report on the Thug Gangs’’ کلکتہ سے

ء میں۱۸۴۴ء کو آپ نے وفات پائی۔ آپ کی تصنیف ۱۸۵۶فروری ۱۰

Rambles and Recollections of an India officials شائع ہوئی جو دو ۱۷۸".ی۔جلدوں میں تھ

میں کچھ ۱۷۹ٹھگوں کے بارے میں صوبیدار سیتارام نے بھی اپنی کتاب

نامی ناول ‘‘ ایک ٹھگ کے اعترافات’’انکشافات کیے ہیں۔ کیپٹن میڈوز ٹیلر نے ۔ ۱۸۰خاص کردار امیر علی کا تھا لکھا جس میں

Page 209: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

209

یفٹیننٹ کرنل سرفالرنس فیلوز مطلوب فیلوز خاندان کے صاحب دیوان ل

سال ۸۳ء میں بعمر ۱۹۱۲اکتوبر ۱۲ء میں پیدا ہوئے اور۱۸۲۹شاعر تھے۔ آپ ۔ ۱۸۱گوالیار میں وفات پائی۔

انہیں زبان پر اچھا عبور حاصل ہے اور فن عروض سے بھی کافی

واقفیت رکھتے ہیں۔ اشعار میں مختلف صنائع جیسے صنعت تجنیس مکرر کا بڑی ۔۱۸۲‘‘ خوبی سے استعمال کیا ہے

مطلوب تیرا کثرت غم سے ہے العالج

واماندہ ہے اثر سے دوا اور دوا سے ہم

۱۸۳

ء کو راولپنڈی کے قریب اپنی گاڑی ۱۸۶۷اگست ۲۰ر اے آر فلر نے میج

کے ایک نالہ میں پھنس جانے کے بعد اسے نکالنے کی کوشش میں پانی کے

ء والے ۱۸۶۵دسمبر ۴دتاسی نے اپنے ۔ ۱۸۳ریلے میں بہہ کر وفات پائی۔ :خطبے میں میجر فلر کی نسبت کہا

کے ساتھ دلچسپی ہے۔ آپ نے انہیں( خاص کر ہندوستانی زبانوں (’’

ہندوستانی کی متعدد قدیم اور نایاب کتابیں طبع کرائی ہیں اور خود بھی نئی

۔۱۸۴‘‘کتابیں اس زبان میں لکھی ہیں اور لکھوائی ہیں

جواں مرگ کیپٹن ‘ فرانسیسی النسل اردو کے معتبر صاحب دیوان شاعر

ء میں ایک مسلمان عورت ۱۸۲۹ھ ۱۲۴۶الیگزینڈر سیڈرلی آزاد ولد جیمز ہیڈرلی کے بطن سے پیدا ہوا۔ مسلمانوں کی صحبت نے اس میں شعرو سخن کا ذوق پیدا

۔ لیکن جگدیشن مہتہ نے بغیر کسی حوالہ کے لکھا ہے کہ اس کا سن ۱۸۵کیا

۔ انہیں غالب کے عزیز اور ۱۸۶۔ء ہے ۱۸۲۹ء اور وفات ۱۷۷۸پیدائش مذ تھا۔ کبھی کبھی بذریعہ خط مرزا شاگرد)زین العابدین( عارف سے شرف تل

۔ بانو سرتاج نے دہلی کی آخری شمع کے ۱۸۷غالب سے بھی اصالح لیتے تھے

:حوالے سے لکھا ہے کہدہلی میں پیدا ہوئے۔ یہیں تربیت پائی اور یہیں سے توپ خانے کے ’’

کپتان ہوکر الور چلے گئے۔ کوئی اکیس سال عمر ہے۔ ڈاکٹری بھی جانتے

ایک فرانسیسی کا اردو میں ایسے شعر ۔سخن کا بہت شوق ہےہیں۔ شعرو

۔۱۸۸‘‘کہنا واقعی کمال ہے

ء کے بعد آپ نے مذہب اسالم قبول کرلیا اور اپنا نام جان محمد ۱۸۵۷’’۔ آپ کا دیوان ان کے ۱۸۹ء کو الور میں وفات پائی۱۸۶۱جوالئی ۲۷رکھا۔۔۔

‘ غزلیات‘ اس دیوان میں قصائد شائع کیا۔رھائی تھامس ہیڈرلی نے ترتیب دے کب

؎۱۹۰تاریخی قطعات اور تضمین ہیں‘ منظوم خطکیپٹن گرین آوے : اردو ڈرامے کی دنیا میں اولیت کا سہرا کئی سروں پر

لیکن ڈاکٹر محمد افضل الدین اقبال نے کل ہند ’’ سجانے کی کوشش کی گئی

ے کا ڈراما علی بابا چالیس چور کو پہال نثری ڈراما قرار پیمانے پر کیپٹن گرین آو۔ غالم محی الدین ڈار نے بھی ۱۹۱۔ء میں مدراس سے شائع ہوا۱۸۵۲دیا ہے جو

Page 210: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

210

موجودہ تحقیق کے بموجب یہ اردو کا قدیم ترین ’’اس کی تصدیق کی ہے کہ

سے نثری ڈراما ہے۔ گرین آوے نے اس کا پالٹ مشہور عربی داستان الف لیلی ۔۱۹۲اخذ کیا ہے

فارسی اور عربی زبانوں ‘ انگریز مستشرقین میں اردو کا بہت بڑا حامی اور ماہر

میں استطاعت رکھنے واال میجر فلر کا جانشین کرنل ڈبلیو آر ایم ہالرائیڈ(Holroyed) ء کو حکومت ہند ۱۸۵۴جنوری ۱۰جدید اردو شاعری کا آغاز کار

ی حیثیت سے مقرر ہوا۔ اس وقت آپ کا عہدہ کی طرف سے درجہ اول کے افسر ک

۔۱۹۳کپتان کا تھا اس کی علمی و ادبی خدمات کی وجہ سے اسے پبلک انسٹرکٹر آف پنجاب کا عہدہ

دیا گیا۔ اقبال اس کی سفارش پر ہی گورنمنٹ کالج الہور میں اسسٹنٹ پروفیسر

۔۱۹۴فلسفہ کی آسامی پر مقرر ہوئے یں۔کتابیں شمار کی جاتی ہ چھآپ کے کریڈٹ میں یثیت سے ایک مصنف کی ح

۔۱۹۵

(Domingo Paul Lajoie Zurra) کیپٹن ڈومنگو پال لیجاؤ / لیزوا ذرہ

کے بیٹے تھے۔ John (Louis Peter Legois) کیپٹن جان لوئیس پیٹر ریگائس

۔ کیپٹن ۱۹۶ء میں جے پور میں وفات پائی۱۹۰۳ء میں پیدا ہوئے اور ۱۸۳۸آپ ۔ لیکن نور احمد میرٹھی نے بیکانیر ۱۹۷ہ بیگم سمرو کی فوج کا حصہ تھےذر

۔ ۱۹۸کی فوج کا حصہ لکھا ہے

کے والد پیٹر بنسلے (Joseph Benslay Fana) جنرل جوزف بنسلے فنا ء کو الو میں پیدا ہوئے۔ باپ کے مرنے ۱۸۴۶اکتوبر ۱۵فنا ’’بھی فوجی تھے۔

د بختاور پلٹن کے کپتان بنائے گئے۔ الور کے مہاراجہ شیو دھرن سنگھ نے کے بع

الور کی مہاراجگی کی پگڑی سر پر رکھتے ہی فنا کو فوج کا سپہ ساالر بنادیا ۔۱۹۹‘‘ء کو وفات پائی۱۸۷۱اور جاگیر بھی عطا کی۔ فنا نے یکم نومبر

اور ہندی کا کالم زبان پر عبور تھا۔ صاحب دیوان تھے جس میں اردو جوزف کو

موجودہے۔ فنا کا گناہوں رکھتے انبار قدر اس

۲۰۰جائے گا رعشہ جہاں سے خوب شرمایا ہوا Maj. Genral in (William Nassauleeas)میجر جنرل ولیم ناسولیس

the Indian Army and orientalist, fourth son of Sir Harcourt lees...

born on 26 Feb. 1825, and educated at Nut Grove and at Trinity College.۲۰۱

ء میں ڈبلن سے ایل ایل ڈی کی ڈگری حاصل کی اور برلن سے ۱۸۵۷ ناسولیس

۔ اردو زبان میں جو تحریر ۲۰۲ء کو وفات پائی۱۸۸۹مارچ ۹پی ایچ ڈی کیا۔ ہو۔ الحظہد ہے اس کا نمونہ تحریر مموجو

Page 211: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

211

ایک کوا چوہے کا بچہ اپنے جنگل میں لئے اژا جاتا تھا۔ قضا کار وہ اس

کے پنجوں سے کسی طرح چھوث کر زمین پر گرا پژا۔ اس نے اسے ازراہ شفقت ۔۲۰۳‘‘زمین سے اثھایا اور موذي کے چنگل سے چھترایا اور اس جیی بچایا

ے ہندوستانی لغت مدراس کنے انگریزی (Borredaile)کیپٹن بوریڈیل

ھا۔فوجی طلبہ کے لیے لکاسی تسلسل میں میجر ہنری کورٹ سامنے آتے ہیں جنہوں نے اردو زبان

‘‘ آرائش محفل’’ سے اپنی محبت کا اظہار کچھ یوں کیا کہ شیر علی افسوس کی

۔ سودا کا کلیات شائع کیا۔ نثر بے ۲۰۴ء میں شائع کرایا۱۸۷۱کا اردو ترجمہ اس کے عالوہ آرائش محفل کا انگریزی میں ۔انگریزی میں ترجمہ کیا ظیر کان

۔۲۰۵ترجمہ کیا

ء کو ہمسٹنگس ۱۸۵۲جنوری ۷کرنل جارج سپرس الیگزینڈر رانکنگ ۳ء کو ۱۸۷۵نومبر ۱۶ء کو بمبئی پہنچا اور ۱۸۷۵نومبر ۴سکس میں پیدا ہوا۔

وہ ایک باوردی شخص تھا۔ ۔۲۰۶نیٹو انفنٹری فوج میں میڈیکل افسر مقرر ہوگیا

ء میں انگلستان گیا۔ وہاں ۱۸۷۹فوج میں رہ کر اس نے اردو زبان سیکھی۔ ‘ فارسی‘ کیمبرج یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اس کے بعد ہندوستان آیا اور عربی

ء میں انگلستان چال ۱۹۰۵اردو اور ہندی کے امتحانات امتیاز کے ساتھ پاس کیے۔

۔ ڈاکٹر وفا ۲۰۷ونیورسٹی میں اردو کا پروفیسر مقرر ہواگیا اور وہاں آکسفورڈ ی ؎208 چار کتب شائع ہوئیں۔راشدی کے مطابق کرنل ڈاکٹر جی ایس رانکنگ کی

مطبوعہ ‘ ہندوستانی گائیڈ‘‘ بنگال میں اردو مطبوعات’’ان کتب کے عالوہ

Annotated Glossary to the ء تھکر )تھاکر( اسپنک اینڈ کمپنی کلکتہ۔۱۸۹۲Bagh-O-Bahar‘ نومبر ۵دوسرا حصہ ‘ ء۱۹۰۲اگست ۲۹حصہ اول مطبوعہ

آرائش ‘ کلکتہ‘ مرتبہ‘ نثر بے نظیر‘ ء ناشر تھاکر اسپنک اینڈ کمپنی کلکتہ۱۹۰۲

۔ ڈاکٹر عطش درانی نے قواعد ۲۰۹ء کلکتہ بھی شامل ہیں۱۹۰۳‘ مرتبہ‘ محفلء کی پنجاب یونیورسٹی الئبریری میں ۱۸۹۶وعہ مطب‘‘ رہنمائے ہندوستانی’’

مطبوعہ ‘‘ انگریزی اردو لغت’’۔ صفدر رشید نے ۲۱۰موجودگی کا لکھا ہے

۔ ۲۱۱ء کا اضافہ کیا ہے۱۹۰۵تھاکر اینڈ اسپنک کمپنی کلکتہ ‘ میں ہندوستان کے تعلیم یافتہ باشندوں سے جو مذاق سلیم رکھتے ہیں

ب کو جو ہندوستانی زبان کے ساحل پر استدعا کرتا ہوں کہ وہ اس سیال

ے تموج کی تہدید کررہا فضول اور غیرکارآمد انگریزی الفاظ ک

۔۲۱۲‘‘۔ہے

ء کی جنگ آزادی کے دوران دہلی میں ۱۸۵۷ایک انگریز مؤرخ کرنل ٹامسن جو

Rebellion’’ خدمات انجام دے رہا تھا۔ ان یادداشتوں پر اس نے ایک کتاب

Clevics‘‘ ء تک ۱۸۶۷ء سے ۱۸۶۴س میں اس نے اعتراف کیا کہ تحریر کی ج :۔ ٹامسن کے بقول ہزار مسلم علماء کو پھانسی پر لٹکایا گیا ۱۴

Page 212: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

212

دلی کے چاندنی چوک سے پشاور تک کوئی درخت ایسا نہ تھا جس پر ’’

علماء کی گردنیں نہ لٹکی ہوں۔۔۔ ٹامسن خدا کی قسم کھاکر کہتا ہے: میں

پر بھون دیے گئے اور ان کے بعد پھر ایسا نے دیکھا کہ چالیس لوگ آگ

۔۲۱۳‘‘ہی ہوا مگر کسی نے زبان تک نہ ہالئی

ء کو سائنٹیفک سوسائٹی کی ۱۸۶۴جنوری ۹سرسید احمد خان کی تحریک پر

پہلی میٹنگ غازی پور میں ہوئی۔ اس اجالس میں کرنل )بعد میں میجر جنرل( جی

اس سوسائٹی نے دو ۔ئے شریک ہو بھی (G.F.I Graham) ایف ائی گریہمکونسلیں بنائیں۔ سرسید اور کرنل گریہم ایگزیکٹو کونسل کے دو سیکرٹری مقرر

۔ اس سوسائٹی کا مقصد مغربی زبانوں کی اہم کتابوں کا اردو میں ۲۱۴ہوئے

ترجمہ کرنا تھا۔ جب سرسید کا تبادلہ علی گڑھ ہوا تو سوسائٹی کا دفتر بھی علی ء کو سوسائٹی نے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ۱۸۶۶ مارچ ۳۰گڑھ منتقل ہوا۔

۔ ۲۱۵جاری کیا۔

خاندان ڈی کاسٹا کے حوالدار میجر جان ڈی کاسٹا سیف ‘ پرتگیزی النسل رومن کیتھولک چرچ سے تعلق رکھتے تھے اور فوج میں مالزم تھے جبکہ

رومن پرتگیز نژاد ’’خواجہ محمد یوسف الدین نے اور کا ترجمہ نہ کرتے ہوئے

:۔جبکہ اصل تحریر ہے۲۱۶لکھا ہے‘‘ کیتھولک فوج میں مالزمHe belonged to a Roman Catholic Church and was

employed in the military. He took part in the actions in

Afghanistan in 1892 " ۲۱۷ After retiring from militry

service he went to live at Cawnpore permanently in

1897". ۲۱۸

ء لکھا ہے جبکہ ۱۸۸۵اس کے عالوہ محمد یوسف الدین نے سیف کا سن پیدائش سال کی عمر میں کوئی بھی ذی ہوش ۷ء میں جنگ میں حصہ لینا صرف ۱۸۹۲

ء ہی درست قرار ۱۸۵۵ماننے کو تیار نہیں۔ لہذا سن پیدائش سکسینہ کے مطابق

برس کی عمرمیں وفات پائی۔ ۷۰ء میں ۱۹۲۵دیا جاسکتا ہے۔ سیف نے فارسی اور عربی سے اچھی طرح واقف ‘ جان ڈی کاسٹا المتخلص سیف اردو

تھے اور اردو میں شعر کہتے تھے۔

نے بھی نچلے درجے کے معیار پر (A.Curtois) لیفٹیننٹ کرنل کرٹوئس ندوستانی افسروں کے لیے کچھ آسان کہانیاں اور مفید الفاظ کو ترتیب دے کر ہ

زبانی کی ایک مینوئل ترتیب دی۔A vocabulary of useful words and some sentences, such as

have usually been given at examinations by the lower

standard are apended. ۲۱۹

اردو پرانے رسم الخط میں لکھی گئی ہے Back پیٹھہpithh , Beard دارھییdarhi۲۲۰

Page 213: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

213

نے بھی عملی گرامر لکھ کر (A.O Green) لیفٹیننٹ کرنل اے او گرین

فوج کے جوانوں اور افسران کی تربیت کے لیے اپنی سی کوشش کی ہے۔ گرین عربی زبان کاماہر تھا۔ بنگال سیپرز اور رڑکی وغیرہ میں جب خدمات انجام دے

ر بھی کام کرےرہا تھا تو اس کے اندر ایک خواہش تھی کہ ہندوستانی زبان پ. The Hindustani exercises and selections being given in the

Urdu character, I have added in the form of an appendix, a

few remarks on the Hindi or Devanagari alphabet,

suffficient." ۲۲۱

:اردو لکھائی کا نمونہ مالحظہ ہو

چیژیون کی آواز نہایت میثھی آواز ھی۔ دریا سژک سے چوژا ہے۔ لومژی ’’ ۔۲۲۲‘‘کتے سے چھوثی ھیی۔ گذھے کي دم لومژی کی دم سے لمبي ھیتی

:نستعلیق میں نمونہ دیکھئے

باپ مالی تھا اور بیٹا بڑھئی ہے۔ شیر اور شیرنی اور باگھ اور باگھنی۔ وہ مشکی ۔۲۲۳‘‘اضی عقلمند اور عادل آدمی تھاگھوڑا خوبصورت جانور ہے۔ وہ ق

تھا۔ مظلوم تخلص کرتے تھے۔ آپ (Munro) مظلوم دہلوی کا نام منرو

گوالیار کے لشکر میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے۔ سپرنٹنڈنٹ اگرچہ فوج یہ لفظ کرنل کے کا رینک نہیں ہے لیکن ریاستی افواج میں انیسویں صدی میں

لیے بھی اور کبھی کسی بھی مرتبے کے کمانڈر کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ توبہ کروں گناہوں سے ہوں شرمسار میں

اتنی بھی مہلت اب تو دم واپسیں نہیں

۲۲۴

خود آموز ہندوستانی ’’ء میں ۱۹۰۲نے (C.A.Thimm)کیپٹن سی اے تھم تھم کا اس گرامر کے بارے ۔ شائع کی ‘‘Hindustani Self-Taught’’ ‘‘گرامر

:کہنا ہے کہ"The title of the volume indicates its purpose, anb every

endeavour has been used to make it of practicle service to

travellers, traders, missionaries and soldiers, as well as to

students.". ۲۲۵

لکھا ہے۲۲۶ء کی اشاعت کو چوتھی اشاعت۱۹۱۶عطش درانی نے Not at all mutlak nahin mutluk naheen

Of course albatta, be-shakk ulbuta, be-shukk ۲۲۷

.Lt. Col. D.C)ایف اے ایس بی‘ پی ایچ ڈی‘ لیفٹیننٹ کرنل ڈی سی فلوٹ

Phillot Ph.D, F.A.S.B,) کام کیا۔ نے بھی بہت ‘‘ خواب و خیال’’ان کے عالوہ ڈاکٹر شانتی بھٹا چاریہ نے ایک مرتبہ کتاب

یہ تصنیف ’’لکھی ہے۔ خواب و خیال کے بارے میں بھٹا چاریہ کا کہنا ہے کہ

ملٹری اور سول افسران کے امتحان کے سلسلے میں رہی ہے۔ بورڈ آف

Page 214: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

214

لوئر سرکلر روڈ کلکتہ سے اسے ۴۱ایگزامینرس نے بپٹسٹ مشن پریس نمبر

۔ ۲۲۸ء کو اسے شائع کیا۱۹۱۱جوالئی ۲۱چھاپ کر میں تین ہزار الفاظ کے معانی انگریزی سے An Eng-Hind Vocabulary۔ ۱

:اردو میں ا ور کہیں کہیں دیگر زبانوں کا تڑکا بھی لگایا گیا ہے جیسے

Camel: unt, m. untni, f.H.Shutur, P.sandhni (femail riding camel): mari(in Punjab; femail riding-camel): nakel, f. and mah-

ar, f.(nose string etc.)۲۹ ۲

To be something to which one has been used since :گھٹی میں پڑناinfancy, to be second nature.(Ghutti is an opening medicine

given to a newly born infant)۲۳۰

Ek to --- dusre. ۲۳۱ ہے۔ یہ کتاب ‘‘ اردو روزمرہ’’مندرجہ باال تمام کتابوں کے عالوہ ایک اور کتاب

اردو زبان میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب کے بھی تین حصے ہیں۔ پہال اور تیسرا

سے لیا گیا ہے۲۳۲حصہ کرنل ہالرائیڈ کی کتاب تعلیم المبتدیول رہا ہے۔ سامنے گاہک کھڑے ہیں۔ کیا بڑی دکان ہے۔ ہر بنیا ترازو لیے سودا ت

ایک سودا موجود ہے۔ جو چیز ہے کھری ہے۔ دال چاول اور آٹے کے ٹوکرے

۔۲۳۲کیسے چوٹی دار بھرے ہوئے ہیں۔ آؤ اسی دکان سے سودا لیںماضی قریب میں جس عسکری اہل قلم نے یورپ میں اور دنیا میں شہرت

سل کے نام سے جانتے ہیں۔ رالف رسل نے کرنل محمد پائی اسے لوگ رالف ر

خان کو بتایا تھا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران وہ ہندوستان اور برما کے ۔ رسل نے جنگ میں اپنے ایک رفیق ۲۳۴محاذ پر لیفٹیننٹ رہ چکے تھے

۔لیفٹیننٹ محمد نواز سے اردو سیکھی تھی اور پھر اس زبان سے عشق ہوگیا

اردو ادب پرگہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے اردو زبان کی رالف رسل ۔۲۳۵‘‘۔ قواعد وغیرہ کا باالستیعاب مطالعہ کیا ہے‘ عروض‘ تنقید‘ صوتیات

نے لندن یونیورسٹی کے افریقی والسنہ مشرقی کے سکول سے "رسل

ء میں ۱۹۴۹ء میں اپنی وابستگی کا آغاز کیا اور ۱۹۴۶بحیثیت طالب علم

جامعہ میں تدریس کے تک اسبتیس برسوں ری لے کردومیں ڈگار

۔۲۳۶‘‘فرائض انجام دیئے۔

۔۲۳۷‘ میں پیدا ہوا(Homerton) ء کو ہامرٹن۱۹۱۸مئی ۲۱

۔ ۲۳۸‘‘اہم ہے Three Mughal Poets ان کی تصنیف

کے زیر عنوان اپنی سوانح ‘‘ شادم از زندگی خویش’’رالف رسل نے

میں The Annual of Urdu Studiesعمری لکھی جو اقساط میں محمد عمر میمن

۔۲۳۹‘‘شائع ہوتی رہی

یہ سوانح عمری بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوچکی ہے۔

Page 215: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

215

پذیرائی ملیرالف رسل کی سب سے اہم کتاب جسے ہمارے ہاں کافی

"How not to write the History of Urdu Literature and other Eassays on Urdu and Islam" ۲۴۰۔

:احمد بشیر احمد لکھتے ہیں ان کوستمبر کو سہ پہر چار بجے ہماری چھوٹی سی فیملی ۱۳سینچر ’’

۔ اسی کمال کے شخص نے سنیچر سہ ۔گئے۔ Hospic دیکھنے کے لیے

بجے ہم سے یہ باتیں کیں اور دوسرے دن صبح ساڑھے گیارہ پہر چار

۲۴۱‘‘بجے دم توڑ دیا

:رسل کا انداز تحریر مالحظہ ہو جو زبان میں لکھتا ہوں اس کے متعلق چند اور باتیں بتانا چاہتا ہوں ۔ ’’

میری زبان کی کچھ خصوصیتیں ہیں۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ آپ اس

گے۔ اور تحریر اردو میں ہو یا انگریزی میں میں کوئی تکلف نہیں پائیں

جہاں تک ممکن ہو وہی زبان لکھنا پسند کرتا ہوں جو میں بولتا ہوں

۲۴۲‘‘۔

ء میں ہندوستان میں پید ہوئے۔ لیکن سات ۱۸۷۸ڈاکٹر سلیم وارثی:اگر آپ ترکش فوج میں رہ کر وارثی ساگر ۔ ۲۴۳ سال کی عمر میں ہندوستان کو چھوڑا

اکثر ممالک کے سیاح رہے۔ عالوہ فن طب کے ان کو نامہ نگار ی کو یورپ کے

۲۴۴‘‘گئے۔ ء راجپوتانہ چلے۱۹۱۴اگست ۱۴بھی شوق تھا۔ وعدہ کیا ہے اس نے سلیم آئے گا ضروری

کچھ اس سے ہم کو حاجت قول و قسم

۲۴۵نہیں

ء ۱۸۹۵ستمبر ۲۶ظفر حسن ایبک جن کا آبائی وطن کرنال تھا جہاں وہ فروری ۵کو پیدا ہوئے۔ ترکی کے خالف انگریزوں کی یورش سے برہم ہو کر

ء میں اپنے سکول کے ایک درجن ساتھیوں کے ہمراہ ترک فوجوں کی مدد ۱۹۱۵

ہور ء میں وہ واپس ال۱۹۴۸سال بعد یعنی ۳۴کے لیے ہندوستان سے چلے اور ۔ ۲۴۶آئے

رہے۔آپ نے جو آپ بیتی لکھی وہ ج میں کپتان کے عہدہ پر فائز فوترکش ایک انوکھی اور اکیلی داستان ہے جس میں قاری ایک قو م و ملک کی اردو میں

محبت میں سرشار جانباز سپاہی کے ساتھ تحیر خیز جذبات کا سامنا کرتا ہوا

پر یہ ایک مجاہد کی تا ہے۔ بنیادی طورروس میں افغانستان اور ترکی کا سفر کر ۲۴۷‘‘کہانی ہے۔

ء کو استنبول ترکی میں وفات پائی۔ ۱۹۸۹جنوری ۵ نےک ظفر حسن ا یب

۔۲۴۸ہیں دفن ہوئے۔ اور و

Page 216: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

216

ظفر حسن ایبک کی تحریر کا انداز درج ہے۔ اس اقتبا س سے ترکی میں

سے بھی آگاہی ہو رائج ہونے والے مصطفی کمال پاشا کے نظام کی بنیادی شقوں ۲۴۹سکتی ہے

ان محررہ عسکری اہل قلم جن کا تعلق اردو بولنے والے عالقوں یعنی برصغیر

کی خدمت میں اپنی سی کوششیں نے اردو زبان اور علم و ادب ‘ سے نہیں تھاء ۔ ۱۹۰۰۔ اسی طرح ہندوستان کے آخری وائسرائے الرڈ ماؤنٹ بیٹن )کیں۔

ء ۱۹۴۵دسمبر ۱۲ء( دوسری جنگ عظیم کے سپریم کمانڈر انچیف نے ۱۹۷۹

کو جاپانیوں کے ہتھیار ڈالنے کے موقع پر سنگاپور میں اردو میں تقریر کرتے لہجہ اتنا سبک اور طرز ‘ ہوئے سب کو حیران کردیا۔ اس کی زبان اتنی صاف

دی یہ سوچنے پر تخاطب اتنا فصیح و بلیغ تھا کہ ہندوستان کے رہنے والے تمام قی

مجبور ہوگئے کہ ان کا سپریم کمانڈر انچیف سوائے اردو کے کوئی اور زبان ۔۲۵۰جانتا ہی نہیں

Page 217: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

217

حواشی و تعلیقاتنصیر حسین خان خیال ، ادیب الملک نواب، داستان اردو، ادارہ اشاعت اردو حیدرآباد، ۔ ۱

۹۴دکن ،س ن،ص

2- Nassau Lees, W, A Guide to the Examination at the college of Fort

William...., William and Norgate, London. 1860, P-XVIa.

مشمولہ پاکستان میں اردو، ( ۲اردو ناگری کی بحث)صوبہ پنجاب میں۔‘ محمد حسین ۔ ۳

مقتدرہ قومی زبان پاکستان، ‘ پنجاب( مرتبین : پروفیسر فتح محمد ملک و دیگر)۴جلد

دیگر صفحات نمبر متین کے ساتھ ہی لکھ دیے گئے )۳۷۹ء، ص ۲۰۰۶اسالم آباد،

)ہیں

مصطفی علی بریلوی، سید، پنجاب میں انگریزوں کی لسانی پالیسی، مشمولہ پاکستان ۔ ۴

۶۷۰میں اردو، ایضا، ص

سلطان محمود حسین، ڈاکٹر سید، تعلیقات خطبات گارساں دتاسی، مجلس ترقی ادب ۔ ۵

۱۵ء، ص۱۹۸۷الہور،

باری علیگ، عبدالصمد، کمپنی کی حکومت، مترجم: ابن حسن، تعلیمی ادارہ الہور، ۔ ۶

۲۸۷، ۲۸۶س ن، ص

مالیسن، کرنل جی بی، وارن ہیسٹنگز، مترجم: ابن حسن، تخلیقات الہور، فروری ۔ ۷

۵ء، ص ۲۰۰۵

نومبر کو غازی پور )بھارت( میں ہوئی۔ ۹آپ کی تدفین ۔ ۸

الرڈ کارنوالس، مترجم: ابن حسن، تخلیقات الہور، جون مالیسن، کرنل جی بی، ۔ ۹

۸ء، ص ۲۰۰۵

مالیسن، کرنل جی بی، مارکوئیس ویلزلی، مترجم: ابن حسن، تخلیقات الہور، فروری ۔۱۰

۷۴ء، ص ۲۰۰۵

مالیسن، کرنل جی بی، الرڈ ڈلہوزی، مترجم: ابن حسن، تخلیقات الہور، فروری ۔۱۱

۱۴۹ء، ص ۲۰۰۵

حامد حسن قادری، داستان تاریخ اردو، اردو اکیڈمی سندھ ، کراچی، چوتھا ایڈیشن، ۔۱۲

۷۸ء، ص۱۹۸۸

رضیہ نور محمد، ڈاکٹر مس، اردو زبان و ادب میں مستشرقین کی علمی خدمات کا ۔۱۳

۱۲۴ء، ص ۱۹۸۵تحقیقی و تنقیدی جائزہ، مکتبہ خیابان ادب، الہور

ج سے کوئی تعلق نہیں تھا البتہ گلکرائسٹ ایک ان تینوں شخصیات کا مستقل فو ۔۱۴

سویلین ڈاکٹر کی حیثیت سے ابتداء فوج میں شامل ہوا تھا اس لیے یہ اہل قلم میرے مقالے کا

حصہ نہیں۔

شفقت رضوی، مستشرقین کی اردو خدمات، مشمولہ: ماہنامہ افکار، کراچی )برطانیہ ۔ ۱۵

، بحوالہ: مخزن االخبار، ۲۶۴ء، ص۱۹۸۱پریل ، ا۱۳۳شمارہ: ۳۷میں اردو ایڈیسن( جلد:

مدراس

مورلینڈ، ڈبلیو۔ایچ، اکبر سے اورنگ زیب تک، مترجم: جمال محمد صدیقی، قومی ۔ ۱۶

۲۵ء، ص۲۰۱۰کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی، چوتھی بار،

دہلی، جگدیش مہتہ درد ، اردو کے ہندو شعراء، جلد دوم، حقیقت بیانی پبلشرز، نئی ۔۱۷

۴۰۷ء، ص ۱۹۷۴

Page 218: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

218

18- Encyclopaedia Britannica, vol-2, Encyclopaedia Britannica inc.

William Bentan, Shicago: London: 1959, P-8

19- Chambers's Encyclopaedia, vol-1, W&R Chambers Limited London

and Edinburgh, 1926, P-300

20- The Encycyclopaedia Americana, vol-II, Glolier Incorporated

International Headquarters: Danbury (U.S.A) 1983. P-16

افتخار حسین، آغا، یورپ میں تحقیقی مطالعے، مجلس ترقی ادب، الہور، نومبر ۔ ۲۱

۱۲۷ء، ص۱۹۶۷

یورپ میں اردو کو مور کہتے تھے۔ ۔۲۲

۱۴۱افتخار حسین، آغا، ایضا، ص ۔۲۳

24- Buckland, C.E, Dictionary of Indian Biography, Sewan Sonnenchain

& Co, London. 1906, P-122

کراچی، ‘‘ افکار’’معین الدین عقیل، ڈاکٹر، ایشیاٹک سوسائٹی بنگال، مشمولہ: ماہنامہ ۔ ۲۵

۱۳۳برطانیہ میں اردو نمبر، ایضا، ص

محمد عتیق صدیقی، گل کرسٹ اور اس کا عہد، انجمن ترقی اردو)ہند( علی گڑھ، ۔ ۲۶

۵۲ء، ص۱۹۶۰

حسینی، پروفیسر ایس کے، اردو لغت نویسی اور اہل انگلستان، مشمولہ: ماہنامہ ۔۲۷

۱۵۹افکار، کراچی، برطانیہ میں اردو نمبر، ایضا ، ص

28- Buckland,C.E ibid, P-184

یشی، اٹھارویں صدی کی اردو مطبوعات)توضیحی فہرست( مقتدرہ سلیم الدین قر ۔ ۲۹

۳۲ء، ص۱۹۹۳قومی زبان، اسالم آباد،

30- George Hadley, Grammatical Remarks on the Practical and Current

dialect of the Jargon of Hindustan: J.Peerett, Piccadilly, London, 1784, P-

VIII.

31- George Hadely, A compendious grammar of the current corrupt dialect

of the Jargon of Hindustan (Commonly called Moors) with a vocabulary

English and Moors, Moors and English, Printed by S. Rousseaue at the

Arabic and Persian Press, London, 1801, P-46

سالم، اردو کی ترقی میں یورپین کاحصہ، مشمولہ: ڈھاکہ یونیورسٹی محمد محموداال ۔۳۲

۱۷۸ء، ص۱،۲۰۰۸جرنل آف اردو، ڈھاکہ بنگلہ دیش، شمارہ نمبر

۳۹ء، ص۲۰۱۵صفدر رشید، مغرب کے اردو لغت نگار، مجلس ترقی ادب الہور، ۔۳۳

۳۵سلیم الدین قریشی، اٹھارویں صدی کی اردو مطبوعات ایضا، ص ۔ ۳۴

۳۶۔۳۵ایضا ، ص ۔ ۳۵

36- Buckland, C.E, Dictionary of Indian Biography, Ibid, P-167

37- Francis Gladwin, A Dictionary-Persian, Hindustanee and English vol-

I, printed at the hindoostanee Press, Calcutta, 1809, P-194

سی و اردو کے مسیحی کتبات، مشمولہ: معین الدین عقیل، پروفیسر، ہندوستان میں فار ۔ ۳۸

۱۰۵ماہنامہ افکار کراچی، ایضا، ص

رضیہ نور محمد، ڈاکٹر مس، اردو زبان و ادب میں مستشرقین کی علمی خدمات کا ۔ ۳۹

۵۵تحقیقی و تنقیدی جائزہ، ایضا، ص

Page 219: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

219

۵۷محمد عتیق صدیقی، گل کرسٹ اور اس کا عہد، ایضا، ص ۔۴۰

۴۱صفدر رشید، مغرب کے اردو لغت نگار، ایضا، ۔ ۴۱

۵۷محمد عتیق صدیقی، ایضا، ص ۔۴۲

۱۶۰حسینی ، پروفیسر ایس کے، اردو لغت نویسی اور اہل انگلستان، ایضا، ص ۔۴۳

۲۳عطش درانی، اردو زبان اور یورپی اہل قلم،ایضا، ص ۔ ۴۴

۱۰۱محمد عتیق صدیقی، ایضا، ص ۔ ۴۵

46- Buckland, C.E, Dictionary of Indian Biography, Ibid, P-379

47- nationalarchives.gov.uk/3a9a5713.9ad5-4604

راجندر ناتھ شیدا، وثائق فورٹ ولیم کالج، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی ۔ ۴۸

۳۸۹ء، ص ۲۰۰۳دہلی،

۱۶۰محمد عتیق صدیقی، ایضا، ص ۔ ۴۹

50- www.thehindu.com/society/history and culture

51- Buckland, C.E, Dictionary of Indian Biography, Ibid, P-262

۷علی لطف ،۔ میرزا، گلشن ہند، ایضا، ص ۔۵۲

53- Buckland, C.E, Ibid, P-238

سلیم الدین قریشی، اٹھارویں صدی کی اردو مطبوعات)توضیحی فہرست(ایضا، ۔ ۵۴

۴۰ص

۴۰ی، ایضا، ص سلیم الدین قریش ۔ ۵۵

۴۱ایضا ، ص ۔ ۵۶

۴۷ایضا ، ص ۔۵۷

۶۵ایضا ، ص ۔ ۵۸

عبدالحق ، مولوی، مقدمات عبدالحق، مرتبہ: ڈاکٹر عبادت بریلوی، اردو مرکز الہور، ۔ ۵۹

۶۹ء، ص ۱۹۶۴

ابوطالب اصفہانی، تفضیح الغافلین، مترجم: ڈاکٹر ثروت علی، قومی کونسل برائے ۔ ۶۰

۲۲ء، ص ۱۹۸۷فروغ اردو زبان، نئی دہلی،

۲۳ء، ص ۱۹۸۱شفقت رضوی، اردو کے یورپین شعراء، مکتبہ رشیدیہ کراچی، ۔ ۶۱

-62 Ram Babu Saksena, European & Indo - European Poets of Urdu and

Persian, Book Traders Lahore-P-44

۲۳شفقت رضوی، ایضا، ص ۔۶۳

عطا خان تحسین، میر محمد حسین، نو طرز مرصع، ترتیب و تہذیب:پروفیسر مرتضی ۔ ۶۴

۲۳ء، ص۲۰۱۵کریم، ماڈرن پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی، بار دوم،

مطبع محمد یوسف الدین، خواجہ، تذکرہ یورپین اور انڈو یورپین شعرائے اردو، ۔ ۶۵

۴۱ء، ص۱۹۵۹ابراہیمیہ حیدرآباد ، دکن

۲۷۶سلطان محمود حسین، ڈاکٹر سید، تعلیقات خطبات گارساں دتاسی،ایضا، ۔ ۶۶

محی الدین قادری زور ، ڈاکٹر سید، گارساں دتاسی اور اس کے ہم عصر بہی خواہان ۔۶۷

۱۰۳ء، ص۱۹۴۱اردو، مطبع اعظم اسٹیم پریس حیدرآباد، دکن، طبع ثانی،

۱۰۴، ۱۰۳ایضا ، ص ۔ ۶۸

۷۳محمد یوسف الدین، خواجہ،ایضا، ص ۔ ۶۹

۳۹۹کریم الدین، طبقات شعرائے ہند، ایضا،ص ۔۷۰

۷۳محمد یوسف الدین، خواجہ،ایضا، ص ۔ ۷۱

Page 220: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

220

۶۶۸نور احمد میرٹھی، تذکرہ شعرائے میرٹھ، ایضا، ص ۔۷۲

73- Ram Babu Saksena, ibid, P-259

۶۶۸نور احمد میرٹھی،ایضا، ص ۔۷۴

۱۰۵، ۱۰۴شفقت رضوی،ایضا، ص ۔ ۷۵

۷۳محمد یوسف الدین، خواجہ،ایضا، ص ۔ ۷۶

۶۶۹نور احمد میرٹھی،ایضا، ص ۔۷۷

78- Ram Babu Saksena, ibid, P-304, 305

۵۸سلیم الدین قریشی، اٹھارویں صدی کی اردو مطبوعات، ایضا، ص ۔ ۷۹

۵۸ایضا، ص ۔ ۸۰

81- Buckland, ibid, P-159

۵۲محمد یوسف الدین، خواجہ،ایضا، ص ۔ ۸۲

۶۹سلیم الدین قریشی،ایضا، ص ۔۸۳

۴۰محمد یوسف الدین، خواجہ،ایضا، ص ۔ ۸۴

85- Ram Babu Saksena, ibid, P-42

-86 Buckland, ibid, P-22

۳۸۱راجندر ناتھ شیدا،ایضا، ص ۔۸۷

۲۹شفقت رضوی،ایضا، ص ۔ ۸۸

89- Buckland, ibid, P-22

۳۸۲راجندر ناتھ شیدا،ایضا، ص ۔ ۹۰

۲۲۰محمد حسین آزاد، موالنا، آب حیات،ایضا، ص ۔ ۹۱

۳۸۲راجندر ناتھ شیدا،ایضا، ص ۔۹۲

93- Buckland, ibid, P-22

94- Ram Babu Saksena, ibid, P-289

۸۲شفقت رضوی،ایضا، ص ۔۹۵

یورپین اور اینگلو انڈین اقوام کا حصہ، مشمولہ: ماہنامہ محفوظ الحق، اردو ادب میں ۔ ۹۶

۱۶ء ، ص۱۹۶۴، اکتوبر تا دسمبر ۴، شمارہ نمبر ۱۰کامران سرگودھا،جلد نمبر

۴۵محمد یوسف الدین، خواجہ،ایضا، ص ۔۹۷

۱۴۷ء، ص۱۹۷۹متر ارمان، جنمے جے، نسخۂ دلکشا، علمی مرکز کلکتہ، ۔ ۹۸

، یورپیئن شعرائے اردو، انتظامی کتب خانہ حیدرآباد ، دکن، محمد سردار علی، مولوی ۔ ۹۹

۲۲ھ، ص ۱۳۴۴

سید عبدہللا، ڈاکٹر، اردو کا جرمن شاعر فرانسو، سخنور)حصہ اول( مغربی پاکستان ۔ ۱۰۰

۶۰ء، ص ۱۹۷۶اردو اکیڈمی الہور،

۱۰۹شفقت رضوی،اردو کے یورپین شعراء، ایضا، ۔ ۱۰۱

۷۷۲نور احمد میرٹھی، تذکرہ شعرائے میرٹھ، ایضا، ص ۔۱۰۲

103- Ram Babu Saksena, ibid, P-328

، مارچ ۳۰تا۲۷صابر دت، مرتبہ، فن اور شخصیات )کوائف نمبر( بمبئی،شمارہ: ۔۱۰۴

۷۶ء، ص ۱۹۹۰ء تا ستمبر ۱۹۸۹

۶۳سید عبدہللا، ایضا، ص ۔ ۱۰۵

ء( اردو کے ماہر ، شاعری و انشا پردازی ۱۹۵۶ء۔ ۱۸۸۰شاکر میرٹھی، پیارے الل ) ۔ ۱۰۶

کے دلدادہ اور شعرو ادب سے فطری لگاؤ رکھتے تھے۔

Page 221: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

221

۶۵، ۶۴سید عبدہللا، ایضا، ص ۔۱۰۷

108- Ram Babu Saksena, ibid, P-328

109- Buckland, C.E, ibid, P-54

ر بہی خواہان محی الدین قادری زور ، ڈاکٹر سید، گارساں دتاسی اور اس کے ہم عص ۔ ۱۱۰

۱۰۰اردو، ایضا، ص

۱۱۰رضیہ نور محمد، ڈاکٹر مس، ایضا ، ۔ ۱۱۱

۱۱۱لکشمی ساگر وارشتے، ڈاکٹر ، اردو اور ہندی زبان کا ارتقاء،ص ۔۱۱۲

عاکف سنبھلی، ڈاکٹر رضا الرحمن، سوانحی انسائیکلوپیڈیا، جلد دوم، کتابی دنیا، ۔۱۱۳

۵۰۳ء ، ص ۲۰۱۰دہلی،

ممکن ہے کہ راقم ہی کسی غلط فہمی کا شکار ہوگیا ہو۔ لیکن میرا خیال یہ بھی ۔ ۱۱۴

بہرحال یہی ہے کہ یہ دونوں الگ الگ شخصیات ہیں۔

۱۰۶رضیہ نور محمد، ڈاکٹر مس، ایضا ، ص ۔ ۱۱۵

۵۱عطش درانی، اردو زبان اور یورپی اہل قلم، ایضا، ص ۔ ۱۱۶

۵۲ایضا، ص ۔۱۱۷

۴۶کلکتے کی ادبی داستانیں،ایضا، ص وفا راشدی، ڈاکٹر، ۔ ۱۱۸

119- Sidney Lee, Dictionary of National Biography, Vol XLIX, Smith

elder and Co, 119, London, 1897, P-97

نورالدین، ڈاکٹر ابو سعید، تاریخ ادبیات اردو، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، ۔۱۲۰

۱۳۴ء، ص ۱۹۹۷الہور،

121- Wilson, H.H. Introduction, A collection of proverbs... by Captain

Thomas Roobuck, printed Hindustani Press Calcutta, 1824, P-IV

122- Thomas Roobuck, lieutenant, An English and Hindustanee NAVAL

DICTIONARY of Technical Terms and Sea Phrases, reprinted: Black

Parry and co, London, 1813, P-ii

، ۲۰۱۰جواز جعفری، ڈاکٹر، اردو ادب یورپ اور امریکہ میں، مکتبہ عالیہ الہور، ۔۱۲۳

۵۲ص

۳۷شفقت رضوی،ایضا، ۔ ۱۲۴

125- Sidney Lee, Dictionary of National Biography, Vol-LVI , Smith elder

and Co, London, 1898, P-424

126- Buckland, C.E, ibid, P-425

ء، ص ۲۰۱۲رضا علی عابدی، کتابیں اپنے آباء کی، سنگ میل پبلی کیشنز، الہور، ۔۱۲۷

۱۸۱

ء ۱۹۶۴گارساں دتاسی، مقاالت گارساں دتاسی، جلد دوم، انجمن ترقی اردو، کراچی، ۔ ۱۲۸

۲۵۲ص

۶۶۸تاریخ مرکز ہند،ایضا، ص ۔ ۱۲۹

130- Buckland, ibid, P-52

131- ibid, P-392

132- Ram Babu Saksena, European and Indo-European Poets, Ibid, P-392

۸۲شفقت رضوی،ایضا، ۔۱۳۳

شانتی رنجن بھٹاچاریہ، بنگال کے یورپین مصنفین اردو، مشمولہ، سہ ماہی ۔ ۱۳۴

Page 222: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

222

۱۰۱ء، ص ۱۹۶۷، جوالئی ۴۰صحیفہ،الہور، شمارہ،

135- Buckland, C.E, ibid, P-416

۳۹۰راجندر ناتھ شیدا، وثائق فورٹ ولیم کالج، ایضا، ص ۔ ۱۳۶

137- Joseph Taylor, Capt, A Dictionary, Hidustani and English Vol-I

(Revised & Prepared by W.Hunter) Printed: Hindustanee press Calcutta,

1808, p-428-429

۱۳۵شفقت رضوی،ایضا، ۔۱۳۸

۱۳۵ایضا، ۔ ۱۳۹

۱۹محمد سردار علی، مولوی،ایضا، ۔۱۴۰

۹۷محمد یوسف الدین، خواجہ،ایضا، ص ۔ ۱۴۱

142- Ram Babu Saksena, ibid, p-186-187

۱۴۶شفقت رضوی،ایضا، ۔۱۴۳

144- Ram Babu Saksena, ibid, p-223, 224

ایضا ۔ ۱۴۵

۱۴۶شفقت رضوی،ایضا، ۔ ۱۴۶

۳۷۹نور احمد میرٹھی، ایضا، ص ۔۱۴۷

۱۴۷شفقت رضوی ،ایضا،ص ۔ ۱۴۸

۱۰۳محمد یوسف الدین ،ایضا،ص ۔ ۱۴۹

SindneyLee, Diectionary of National Biography, vol;lv ,smit Elder ۔۱۵۰

co 1898 p 258

گارساں دتاسی ، مقاالت رساں دتاسی ،جلد اول ، مترجمین متفرق ،انجمن ترقی اردو ۔ ۱۵۱

۳۰۱ء ،ص ۱۹۶۴پاکستان ،کراچی ،بار دوم ،

Buckland ,Ibid,p356 ۔۱۵۲

شفقت رضوی، مستشرقین کی اردو خدمات:مشمولہ :ماہنامہ افکار ، کراچی برطانیہ ۔۱۵۳

۲۴۱میں اردو ایڈیشن ،ایضا،ص

Buckland ibid ,p 130 ۔ ۱۵۴

محی الدین قادری زور،ڈاکٹر سید، گارساں دتاسی اور اس کے ہم عصر ہی خواہان ۔ ۱۵۵

۸۳،ایضا،ص اردو

سلطان محمود ،ڈاکٹر سید، یورپ میں اردو کے مراکز انیسویں صدی میں مجلس ۔ ۱۵۶

۵۲ء،ص ۱۹۸۴ترقی ادب الہور،

Buckland, Ibid ,P-130 ۔۱۵۷

Bopp professor F, A Comarative Grammer-----Translated by ۔۱۵۸

Lieutenant Eastwick , madden and Maleoln London , 1845,p-81 Eastwick ,

E.B Aconise Grammar of the Hindustan Language Ind ed, nard Queriteh

Oriental Publisher ,London , mdee ,lv111,p-104

Bonson, lieut A few words on the Arabie Dericative in Hindustan ۔ ۱۶۰

,james Madden London , 1852,p-111 ibid p-7

تخار حسین ، آغا کرنل سرہندی یول اور اس کی فرہنگ ھابسن جابسن ،مشمولہ ،سہ اف ۔ ۱۶۲

اور ماہنامہ اخبارا ردو اسالم آباد، جلد ۹۱ء،ص ۱۹۶۷اپریل، ۳۹ماہی صحیفہ الہور:شمارہ

۱۳ء ،ص ۲۰۰۰،ماچ ۳،شمارہ ۱۶

Page 223: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

223

Sindey lee mctionary of Nation Bigraphy ,vol ,c ,smith elder co ۔۱۶۳

London 1900, ,p 406

سڈلی لی نے کرنل یولی کے حاالت زندگی بڑی تفصیل سے بحث کی ہے۔ جس کو آغا ز *

افتخار حسین نے اپنے مضمون میں ترجمہ کرکے شامل کیا ہے۔

Colonel sir henry yule ,and Artheur coke burnell۔ ۱۶۴

۱۴،ص ایضا،ص ۹۴افتخار حسین ،آغا، ایضا،ص ۔ ۱۶۵

۱۷ایضا،ص ۔ ۱۶۶

167- Henry Yule, Col, and Arthur Coke Burnell, Hobson - Jobson: Being

A Glossary, John Murray, London 1886. P-476

168- Ram Babu Saksena, ibid, P-385

ء ہوگا۔۱۸۴۰میرے خیال میں ۔ ۱۶۹

170- Ram Babu Saksena, ibid, P-385-6

171- www.amazon.com/pocketDictionary-English-Hindustani

/dp/1377003272

۳۰سلطان محمود حسین، ڈاکٹر سید، تعلیقات خطبات گارساں دتاسی، ایضا، ص ۔۱۷۲

173- Buckland, ibid, P-352

174- Raverty, Captain H.G, Thesaurus of English and Hindustani -

Technical Terms, Hertford, London, MDcccLIX, P- 55

گارساں دتاسی، مقاالت گارساں دتاسی، جلد دوم، بنظرثانی ڈاکٹر حمیدہللا، انجمن ترقی ۔ ۱۷۵

۲۴۶ء، ص۱۹۷۸اردو پاکستان، کراچی،

176- Buckland, ibid, P-392

۸۰، ص۱۹۹۴مبارک علی، ڈاکٹر، تاریخ ڈاکو اور ٹھگ، تخلیقات الہور، ۔ ۱۷۷

178- Sleeman, W.H, Ramaseeana or Vocabulary of the peculiar language

used by the THUGS, Military Orphan Press, Calcutta, 1836, P-3

179- Sita Ram, from Sepoy to Subedar, Translated by Lt. Col. Norgate,

Baptist Mission Press Calcutta, Third Edition, 1911, p-5to9

۴۳تاریخ ڈاکو اور ٹھگ، ایضا، صمبارک علی، ڈاکٹر، ۔ ۱۸۰

181- Ram Babu Saksena, ibid, P-285

۱۲۱محمد یوسف الدین، خواجہ،ایضا، ص ۔ ۱۸۲

۳۰۳سلطان محمود حسین، ڈاکٹر سید، تعلیقات خطبات گارساں دتاسی، ایضا، ص ۔۱۸۳

رضیہ نور محمد، ڈاکٹر مس، اردو زبان اور ادب میں مستشرقین کی علمی خدمات کا ۔ ۱۸۴

۲۳۳تحقیقی و تنقیدی جائزہ، ایضا، ص

۳۸۵عبدالرشید عصیم، تذکرہ تالمذہ شاہ حاتم دہلوی، ایضا، ص ۔ ۱۸۵

جگدیش مہتہ، ڈاکٹر، اردو کے نان مسلم شعراء و ادیب، حصہ دوم، حقیقت بیان ۔ ۱۸۶

۴۰۲ء، ص۱۹۸۰ئی دہلی، پبلشرز ن

۶جامع اردو انسائیکلوپیڈیا، جلد اول )ادبیات( ، ایضا، ص ۔۱۸۷

بانو سرتاج، ڈاکٹر، قومی یک جہتی اور اردو شاعری، پہچان پبلی کیشنز الہ آباد ۔ ۱۸۸

۱۰۷ء، ص۲۰۰۴)یوپی(

۶۶۷محمد شمس الحق، گلہائے رنگ رنگ، جلد دوم، ایضا، ص ۔ ۱۸۹

۱۴ایضا، ص شفقت رضوی، ۔ ۱۹۰

Page 224: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

224

ء( مغربی ۱۹۸۰ء تا۱۸۰۰شانتی رنجن بھٹاچاریہ، ڈاکٹر، بنگال میں اردو مطبوعات) ۔ ۱۹۱

۴۵ء، ص۱۹۹۵پاکستان اردو اکیڈمی الہور،

ء کے بعد اردو ڈراما، ایک تنقیدی مطالعہ، مقالہ برائے ۱۹۴۷غالم محی الدین ڈار، ۔۱۹۲

۲۵سٹی سرینگر، صء، شعبہ اردو کشمیر یونیور۲۰۰۶پی ایچ ڈی اردو،

انور سدید، ڈاکٹر، اردو ادب کی تحریکیں، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، ۔۱۹۳

۳۵۱ء، ص۲۰۰۷اشاعت ششم،

۵۰۹ء، ص۱۹۸۸عبدالرؤف عروج، رجال اقبال، نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی، ۔ ۱۹۴

آشوب دہلوی، رائے بہادر ماسٹر پیارے الل اور کپتان ڈبلیو جے ہالرائیڈ، رسوم ہند، ۔ ۱۹۵

۱۹۴۔۱۹۳ء، ص۲۰۰۸کارکنان مجلس ترقی ادب، الہور طبع دوم: ستمبر

196- Ram Babu Saksena, ibid, P-224

ایضا ۔۱۹۷

۴۸۱نور احمد میرٹھی، تذکرہ شعرائے میرٹھ، ایضا، ص ۔ ۱۹۸

۵۲رضوی، اردو کے یورپین شعراء، ایضا، صشفقت ۔ ۱۹۹

۵۴ایضا، ص ۔۲۰۰

201- Sidneylee, ibid, P- 395

202- Buckland, ibid, P-249

203- Nassau Lees, A Guide to the Examination, at the College of Fort

William..., Ibid, p-13

۱۱۲، ایضا، عطش درانی، ڈاکٹر، اردو زبان اور یورپی اہل قلم ۔۲۰۴

۲۱۷گارساں دتاسی، مقاالت گارساں دتاسی، جلد اول،ایضا، ص ۔ ۲۰۵

شانتی رنجن بھٹاچاریہ، بنگال کے انگریز مصنفین، ماہنامہ افکار کراچی، برطانیہ ۔ ۲۰۶

۱۹۰میں اردو ایڈیشن، ایضا، ص

دمات کا رضیہ نور محمد، ڈاکٹر مس، اردو زبان اور ادب میں مستشرقین کی علمی خ ۔۲۰۷

۲۱۶تحقیقی و تنقیدی جائزہ، ایضا، ص

۴۷وفا راشدی، ڈاکٹر، کلکتے کی ادبی داستانیں، ایضا، ص ۔ ۲۰۸

شانتی رنجن بھٹاچاریہ، ڈاکٹر، بنگال میں اردو مطبوعات، ایضا، صفحات ۔ ۲۰۹

۶۱،۶۳،۷۶،۷۷

۶۱عطش درانی، ڈاکٹر، ایضا، ص ۔ ۲۱۰

۸۶صفدر رشید، مغرب کے اردو لغت نگار، ایضا، ص ۔ ۲۱۱

، ۶چھانیا،م۔ی، اردو میں انگریزی الفاظ، مشمولہ: ماہور ادیب، الہ آباد، ، جلد: ۔۲۱۲

۱۴۷ء،ص۱۹۱۲، ستمبر ۳شمارہ:

محمد اسماعیل طور، مفتی، ایک ذیلی یادداشت، مشمولہ: سہ ماہی دیدہ ور، بوسٹن ۔۲۱۳

۸۱، ص۵ء، شمارہ ۲۰۰۹)امریکہ(، اپریل تا جون

مظہر حسین، علی گڑھ تحریک اور ارد و ادب، مقالہ برائے پی ایچ ڈی، ۔ ۲۱۴

۶۴،۶۸ء،مملوکہ: جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی، ص۱۹۸۹

۷۴ء، ۱۹۹۱نذیر احمد تشنہ، پروفیسر ایم، اردو ادب کا ارتقا، مکتبہ عالیہ الہور، ۔ ۲۱۵

۷۲،ایضا، صمحمد یوسف الدین، خواجہ ۔ ۲۱۶

فائل میجر کوئی ایسا رینک)رتبہ( نہیں۔ فائل ایک چھوٹا سا بلند آواز بگل ہوتا ہے ۔۲۱۷

جسے خاص طور پر عسکری کوچ کے وقت بجایا جاتا ہے۔ میجر یہاں حوالدار میجر کے

رینک کے لیے استعمال ہوا ہے۔

Page 225: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

225

218- Ram Babu Saksena, ibid, P-169

219- Curtois, Lt. Colonel, A, A Manual of the Hindustani Language,

Higginbotham and Co, Madras, 1887, P-II

220- Ibid, P-120

221- Green Lt.Col.A.O, A Practical Hindustani Grammar, Part-I,

Clarendon Press, Oxford, 1895, P-Preface vi

222- Ibid- P-28

223- Green Lt.Col.A.O, A Practical Hindustani Grammar, Part-X,

Clarendon Press, Oxford, 1895, P-33.

۷۶شفقت رضوی، ایضا، ص ۔۲۲۴

225- Thimm, C.A, Captain, Hindustani Self-Taught with English Phonetic

Pronunciation, E. Marlborough & Co, London, 1916, P-Preface,3

۶۲زبان اور یورپی اہل قلم، ایضا، صعطش درانی، ڈاکٹر، اردو ۔ ۲۲۶

227- Thimm, C.A, ibid, P-58

۸۷شانتی رنجن بھٹاچاریہ، ڈاکٹر،بنگال میں اردو مطبوعات، ایضا، ص ۔۲۲۸

229- Phillott, D.C, An Eng-Hind. Vocabulary of 3000 words, Baptist

Mission Press, Caleutta, 1911, P-22

230- Phillott, D.C, Khazina-e-Muhawarat or Urdu Idioms, Baptist Mission

Press, Caleutta, 1912, P-73

231- Phillott, D.C, Annotated English Translation of Urdu Roz-Marra,

Baptist Mission Press, Caleutta, 1911, P-4

بہرحال یہ کتاب ان کرنل ہالرائیڈ کا ذکر کرتے ہوئے اس کتاب کا ذکر نہیں ہوسکا۔ ۔ ۲۳۲

کے حساب میں شامل ہے۔

فلوٹ، ڈی،سی، لیفٹیننٹ کرنل، اردو روزمرہ، بیپٹسٹ مشن پریس کلکتہ، بار دوم، ۔۲۳۳

۱۸ء، ص۱۹۱۴

شہزاد منظر، آئینۂ برطانیہ، مشمولہ ماہنامہ افکار کراچی، برطانیہ میں اردو ایڈیشن، ۔ ۲۳۴

۵۶۵ایضا، ص

ء، ص ۱۹۶۷میں تحقیقی مطالعے، مجلس ترقی ادب الہور، افتخار حسین، آغا، یورپ ۔ ۲۳۵

۱۵۵

ء، ۲۰۱۳منصور عاقل، سید، حرف معتبر، مکتبہ االقرباء فاؤنڈیشن اسالم آباد، ۔ ۲۳۶

۱۶۱ص

رالف رسل، جوئندہ پاوبندہ، جلد اول، مترجم: ڈاکٹر ارجمند آرا، مشمولہ: ادبی کتابی ۔۲۳۷

۱۱۔۱۰ء، ص۲۰۰۴اکتوبر ، ۴۶کراچی شمارہ نمبر ‘‘ آج’’سلسلہ

افتخار امام صدیقی، اردو کی نئی بستیوں کے چند مستشرقین اردو، مشمولہ، اخبار ۔ ۲۳۸

۴ء ، ص۲۰۰۰، جنوری ۱، شمارہ: ۱۶اردو اسالم آباد، جلد

عاشور کاظمی، سید، بیسویں صدی کے اردو نثر نگار)مغربی دنیا میں(، انسٹی ٹیوٹ ۔ ۲۳۹

۲۵۸ء، ص۲۰۰۳ٹریچر، برطانیہ، دوسرا ایڈیشن آف تھرڈ ورلڈ آرٹ اینڈ ل

Raspha Russell, How Not to Write the History of Urdu Literature ۔۲۴۰

and Other Essays on Urdu and Islam, Oxford University Press, New Delhi,

1999, pp-29to41

Page 226: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

226

احمد بشیر احمد،میں اور رالف رسل، مشمولہ، مجلہ مخزن، بریڈ فورڈیو کے، ۔ ۲۴۱

۱۰۷۔۱۰۶ء،ص۲۰۰۹

، ۴۰، کراچی، شمارہ نمبر ‘‘آج’’رالف رسل، شادم از زندگی خویش، مشمولہ: ۔۲۴۲

۱۸۸ء، ص۲۰۰۳جنوری، مارچ،

الہور، ساگروارثی، میاں عطا ہللا، تذکرہ شعرائے وارثیہ، وارثی منزل سمن آباد، ۔۲۴۳

۱۳۳ء،ص۱۹۹۹۳

ایضا ۔۲۴۴

۱۴۳،۱۳۵ایضا،ص ۔۲۴۵

محمد عمر رضا، ڈاکٹر، اردو میں سوانحی ادب، فن اور روایت، فکشن ہاؤس، ۔ ۲۴۶

۱۴۸ء،ص۲۰۱۲الہور،

صبیحہ انور، ڈاکٹر، اردو میں سوانحی ادب، فن اور روایت، فکشن ہاؤس، الہور، ۔۲۴۷

۲۲۵ء،ص۲۰۱۲

۲۵۲، ڈاکٹر، وفیات اہل قلم، ایضا،صمحمد منیر احمد سیچ ۔ ۲۴۸

ظفر حسن آیبک)مرحوم(، خاطرات، )آپ بیتی(، مرتب: ڈاکٹر غالم حسین ذوالفقار، ۔ ۲۴۹

۳۳۳۔۳۳۲ء،ص۱۹۹۰سنگ میل پبلی کیشنز، الہور،

محمودالحسن، ڈاکٹر، آخر ی وائسرائے ہند الرڈ ماؤنٹ بیٹن کی اردو تقریر، مشمولہ: ۔۲۵۰

۲۳ء، ص ۲۰۰۵، اپریل ۴، شمارہ ۲۱و اسالم آباد، جلد ماہنامہ اخبار ارد

Page 227: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

227

چہارمباب

برطانوی عہد میں برصغیر کے

مقامی

عسکری اہل قلم کی خدمات

اب چہارمب

برطانوی عہد میں برصغیر کے مقامی

عسکری اہل قلم کی خدمات

بیسویں صدی عیسوی کے نصف اول میں یکے بعد دیگر دو عالمی جنگوں

نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر اقوام عالم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ معاشرتی ، اقتصادی ،تہذیبی ،ثقافتی ،سیاسی ،جغرافیائی حتی کہ تمدنی تبدیلیوں

ی بری طرح متاثر ہوا نے نئی فکر اور سوچ کو جنم دیا۔ اس سے براعظم ایشیا بھ

۔جاپان سے لے کر ترکی تک پورا ایشیا جنگ کی لپیٹ میں تھا۔ ان دونوں جنگوں

Page 228: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

228

میں الکھوں سپاہی او ر شہری لقمہ اجل ہو گئے۔اٹیم بم بنا بھی اور برسا بھی۔

جہاز اور ٹینک جیسے آالت بنائے گئے اور تباہی کا باعث بنے۔ یواین اوکا دور کا رافیائی ٹوٹ پھوٹ نے ملکوں کے نقشے بدل دئیے۔ لیکن وقت قیام ممکن ہوا۔ جغ

گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلی بھی دیکھنے میں آئی کہ قوموں میں بیداری کی

ایک لہر پیدا ہوئی جس سے آزادی کا احساس اجاگر ہوا۔ اس دور غالمی میں ادیت پورے بر صغیر میں اردو زبان رابطے کی زبان کے طورپر ابھری اور انفر

قائم کر گئی۔ ان تمام تبدیلیوں نے ذہنی و فکری طورپر ادباء اور شعراء کو خاص

اضطراب و بے چینی کی ایک عجیب حبس زدہ فضا اور یاس ’’طورپر متاثر کیا۔ و محرومی کے بادلوں نے چہار طرف سے معاشرے کو گھیر رکھا تھا۔ اور امید

ری جنگ عظیم کے اختتام پر لیکن دوس۱‘‘ کی کوئی کرن نظر نہ آتی تھی۔

لوگوں نے وہ اثرات دیکھے جو جنگوں سے پہلے ہی ادباء اور شعرا کی تحریروں سے ظاہر ہونے لگے تھے۔ اب ہر طبقہ زندگی ان اثرات سے متاثر

دکھائی دیتا تھا۔ عسکری اہل قلم جو جنگ میں شامل بھی تھے۔ اور اس کے اثرات

۔ ان کی تحریریں جب سامنے آئیں تو بھی نئے سے بھی بالواسطہ متاثر ہوئے تھےپیغامات اور نئے تبدیلیوں کی عکاس تھیں۔ ان تحریروں میں مغرب سے ابھرنے

والی تندو تیز اور نظروں کو خیرہ کردینے والی بجلی کی لہروں کے وہ اثرات

احساس زباں نیز احساس زبان اور پھر آزادی کے نغموں کی فضا گویا کہ متنوع ء میں آزادی کی صورت ۱۹۴۷نمایاں ہوئے ۔ان تبدیلیوں کے اثرات ہمیں عکس

میں دکھائی دئیے۔ برصغیر کے نقشے پر صرف پاکستان اور بھارت ہی نہیں بلکہ

کئی ریاستوں نے اپنے الگ الگ جھنڈے کھڑے کیے۔ جن میں نیپال ، بھوٹان، لہ دور غالمی میں سا ۹۰برما، سری لنکاوغیرہ جیسی ریاستی شامل ہیں۔ بہر حال

جو عسکری اہل قلم ابھر کر سامنے آئے ان کا مختصر تعارف مع خدمات ذیل میں

ء سے آگے بڑھیں۔تو بریگیڈئیر )ر( آئی ۱۸۵۷ کہ درج کیا جارہا ہے۔اس سے قبل۔آ ر ۔صدیقی کی محررہ ایک شخصیت کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ آپ بی

: والہ دیتے ہوئے رقم طراز ہیں کہبی سی لندن کے ایک پروگرام کا حپہلی جنگ عظیم کا زمانہ میں( ایک مقامی ہندو صوبیدار نے اتنی ) ’’

خوبصورت اور با محاورہ اردو میں روزنامچہ لکھ ڈاال۔ چیتا رام سیالکوٹ

کا رہنے واال تھا۔ اس کی ڈائری کا جتنا حصہ سنایا گیا اس نے بھرت پور

ء ۱۸۳۹سکھوں سے مقابلہ کا حال، ء میں۱۸۴۳کے حملے کا حال،

ء میں پلٹن کا رانی گنج جانے کا حال مختصرا شامل ۱۸۵۵معرکہ کابل،

۲‘‘تھا۔

مندرجہ باال سطور میں جو حوالے تصحیح طلب ہیں وہ یہ کہ اس سپاہی

Sita Ram) )صوبیدار (کا اصل نام چیتا رام نہیں بلکہ سیتا رام پانڈےPandey)سے صوبیدار کے نام سے شائع ہوئی۔ ڈائری میں تھا۔یہ ڈائری سپاہی

Page 229: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

229

واقعات انیسویں صدی کے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شخص جنگ آزادی

:کے زمانے کا ہے جیسا کہ آنند بھٹا چاریہ نے لکھا ہے"Sita Ram a 'native' offier in the Bangal Army, served the

East India company for about forty eight years and more

importnat he was in the Army during the tumultuous years

of 1850. when the bengal army was in the forefront of

revolt of 1857.... ۳

ء سے کچھ عرصہ پہلے فوج میں سپاہی بھرتی ۱۸۵۷آمدن برسر مطلبلوکھرہ ضلع آگرہ وء کو موضع ۱۸۲۴دسمبر ۱۵ہونے والے کشن سنگھ خادم

آپ کے والد فوج میں صوبیدار تھے۔ جن کے انتقال کے بعد آپ ’’۔ میں پیدا ہوئے

کے بڑے بھائی کو فوج میں لے گیا وہ ایک لڑائی میں مارے گئے تو ان کی جگہ کشن سنگھ کو بھرتی کر لیا گیا۔ پنجاب کی ایک لڑائی میں آپ بھی شدید زخمی

۴‘‘ہوئے۔ کروں گا حمد اے خادم میں عیسی کی دل و

جاں سے

کیا جس نے جہاں میں مجھ کو اپنا مدح

۵خواں پیدا

ان کے اشعار ’’شیخ فیض الحسن فیضی ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے

ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے ہوں گے اور ۱۸۲۰۔۲۵سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ۶‘‘ء میں انتقال کیا ہو گا۱۸۹۵ء یا ۱۸۹۰

یہ توپ خانے میں بیٹھ کر شعروں کے گولے پھینکتے تھے غزل پر ناز کرتے

۔تھے اے صنم کیا کیا گناہ ترا

۷مہر کی کیوں نظر نہیں ہوتی

منشی محمد مستجاب خان خلق قاسم گنج فرخ آباد کے رہنے والے تھے اور

:سبت سے خلق فرخ آبادی لکھا کرتے تھے۔ ال لہ سریرام نے لکھا ہے کہاسی ن میں فوج باقاعدہ حیدرآباددکن سرکارنظام ۂمالزمتعرصہ سے بصیغ’’

سال سے خاص بلدے میں متعین تھے ۔ اب چند دکن ہیں۔پہلےاضالع مالزم

۸‘‘۔ میں مامور ہیں

‘‘تذکرہ تالمذۂ شاہ حاتم دہلوی’’ ء میں والدت ۱۸۷۰کچھ یوں ہے تقریبا

ء میں وفات، جب کہ نظام حیدر آباد کی باقاعدہ فوج میں مالزم ۱۹۳۶اور ۹تھے۔

ء ( میں عبدالعزیز ۱۸۳۹) ۱۲۵۵’’مولوی عبدالرزاق خان طالب رامپوری

کی فوج میں مالزم ۱۰خاں کے ہاں رامپور میں پیدا ہوئے۔ بعہد نواب خلد آشیاں ھ میں مدرسہ عالیہ میں فارسی کے اعلی استاد ہوئے فارسی کا ۱۳۰۴ ہوئے

۱۱‘‘نصاب مرتب کیا۔

Page 230: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

230

منظوم تصنیف ہے۔ دوسری ‘‘میزان سخن ’’فن عروض پر آپ کی کتاب

ء ۱۹۱۶ھ /ستمبر ۱۳۳۴ذی الحج ۱۹آپ کا انتقال ’’ تصنیف حدیقتہ البیان ہے۔ ۱۲‘‘ور اپنے امکان میں دفن ہوئے۔کو رامپوری میں ہوا ا

ریاض مدح رسالت میں راہوار غزل

چال ہے رقص کناں آہوئے صبا کی

۱۳طرح

ء( ۱۸۴۰ھ )۱۲۵۶غالم سجاد اشہر اصال طہرانی تھے لیکن ان کی پیدائش

از میں حیدر آباد میں ہوئی۔آپ کے والد کا نام مرزا حسین علی تھا جو حسین نو

۱۵‘‘ء کو وفات پائی۔۱۹۰۳ھ مئی ۱۳۲۱صفر ۲۸ ۔ ۱۴خان کہالتے تھے۔ اشہر اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے مرثیہ گوئی میں

خاصی مشق تھی اپنے مقام خاص پہ حق کا ولی نہیں

۱۶موجود ساری فوج ہے لیکن علی نہیں

غدر لی تھا۔ ل وطن قصبہ سنگھانہ ضلع شیخا واتجمل حسین تحسین کا اصکے بعد وطن سے جے پور آئے۔ اور یہاں کی فوج میں کسی عہدہ پر رہ کر پنشن

۱۷ء میں وفات پائی۔ ۱۹۱۱ء یا ۱۹۱۰پائی۔

جدت طرازی، مضمون آفرینی او رصفائی زبان آپ کے کالم کی خصوصیات ہیں۔

توقع پہ تحسین مسلماں ہوئے کس

۱۸بتوں کی خدائی تبوں کا جہاں ہے

برجیس قدر واجد علی شاہ اختر آخر ی تاجدار اودھ کے بیٹے تھے۔

ء میں اودھ کی ریاست انگریزی سامراج میں ضم ۱۸۵۶ء میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۴۵ء میں ۱۸۵۷کر دی گئی جس کے ایک سال بعد جنگ آزادی کا آغاز ہوا۔ چنانچہ

س قدر کو باغی فوج کے افسروں نے اودھ کی باگ ڈور سونپی اور شہزادہ برجی

اسے کمانڈر انچیف تسلیم کر لیا گیا۔ لیکن اس کی پشت پناہی اس کی ماں حضرت محل کر رہی تھی۔ برجیس قدر نے باغی فوج کی قیادت سنبھالتے ہی مغل بادشاہ

ے لیے حکومت بہادر شاہ ظفر سے رابطہ قائم کیا۔ اور پھر عوام کی رہنمائی ک

قیصر باغ لکھنؤ اور دوسرے مقامات پر ’’کی پالیسی کا اعالن کیا۔ اور پھر جب انگریزی فوج سے ٹکر ہوئی جس کا نتیجہ ظاہر ہی تھا لہذ ا برجیس قدر اور

حضرت محل نے راہ فرار اختیار کی۔ مولوی احمد ہللا شاہ نے انگریزی فوج کا

ھا کر رہی تھی۔ ان لوگوں نے نیپال میں جا کر راستہ روک لیا جو ان لوگوں کا پیچء میں واجد علی شاہ کے انتقال کے بعد ان کے ورثا نے انگریزی ۱۸۸۷پناہ لی۔

حکومت کی طرف سے مالی امداد بند ہونے پر برجیس قدر کو کلکتہ میں آکر

رہنے اور پنشن حاصل کرنے پر مجبور کیا۔ جسے انھوں نے بادل ناخواستہ قبول وہاں پہنچتے ہی پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت انھیں ہمیشہ کی نیند کیا۔

Page 231: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

231

۱۹‘‘سال دیا گیا۔

ء میں وفات پائی۱۸۹۳برجیس قدر نے تن خاک تیری راہ میں ہر وقت نذر ہے

کس طرح جاؤں جان تری سر زمیں سے

۲۰دور

۔آر۔صدیقی نے کرامت علی اعجاز کے حوالے سے بریگیڈئیڑ)ر( آئی ارباب سیف و قلم میں درج ذیل شعر لکھ کر عسکری فہرست میں شامل کر دیا گیا

۔ حسرت کش ستم ہوں تمنا پرست یاس

مجھ سا کوئی ملے تو سہی روزگار کو

یہ شعر انھوں نے اگر چہ تذکرہ شعرائے جے پور سے نقل کیا ہے لیکن ے تذکرہ دیکھا نہیں کیوں کہ تذکرہ نگار کا نام احترام میرے خیال میں انھوں ن

الدین احمد شاغل عثمانی ہے جب کہ بریگیڈئیڑ صاحب نے احترام الدین پر ہی

گزارا کیا ہے اسے اصوال شاغل عثمانی لکھنا چاہیے تھا ۔نیز تذکرہ شعرائے جے : پور میں تفصیلی تعارف موجود ہے۔ شاغل عثمانی لکھتے ہیں کہ

ل وطن نارنول ،مولوی حافظ حاجی امام علی کے فرزند چہارم تھے۔ اص’’

ء( میں ۱۸۴۵ھ)۱۲۶۱نسبا شیخ فاروقی االسدی اور مذہبا سنی حنفی تھے۔

بمقام نارنول پیدا ہوئے۔ ابتدائی کتابیں اپنے والد بزرگوار اور دیگر

بزرگوں سے پڑھیں۔ اور پھر جے پور پہنچ کر علوم عقلی و نقلی کی

ل موالنا تسلیم نارنولی سے کر کے دستار فضیلت حاصل کی۔ تکمی

ھ میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد اول بزمرۂ اطبا سرکار ی فوج ۱۲۸۵

میں مالزمت کی لیکن جلد ہی یہ مالزمت چھوڑ دی اور مدرس ہو گئے۔

چند سال مہاراجہ اوری اینٹل کالج جے پور میں فارسی او رعربی کے

۸ات موالنا تسلیم مفتئ ریاست مقرر ہوئے۔ آپ نے پروفیسر نیز بعد وف

ء کو ترپن سا ل کی عمر میں وفات ۱۸۹۶جون ۲۰ھ مطابق ۱۳۱۴محرم

۲۱‘‘پائی۔

کیپٹن احمد خان تاباں منشی عباد ہللا کے ہاں خورجہ ضلع بلند شہر میں پیدا

ئے ۔ اللہ سریرام لکھتے ہوئے ۔آپ منشی احمد خاں تاباں کے نام سے معروف ہوء( اور گوالیار امپیریل سروس انفنٹری ۱۹۰۸برس کی عمر ہے۔ ) ۲۶’’ہیں کہ

ء ہو گا۔ آپ ۱۸۸۲ اس نسبت سے آپ کا سن پیدائش تقریبا ۲۲‘‘ میں کپتان ہیں۔نے اٹھارہ سال کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا اور آغا شاعر دہلوی سے مشورہ

کے جدید طرز فکر کے شاعر تھے۔ اللہ سریرام کے کرتے تھے۔ آپ اپنے عہد

مطابق اگرچہ ابھی نو مشقی کا عالم ہے مگر طبیعت تیز اور ذہین ہے۔ زبان کی صفائی کی طرف زیادہ توجہ ہے ۔صاف شعر کہتے ہیں : آج وہ برگشتہ مثرگاں غیر کی محفل میں

ہے

دل میں ہے ہائے کیا چبھتا ہوا کانٹا ہمارے

Page 232: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

232

سنا منصور کا قصہ تو مجھ سے ہنس کے

فرمایا

گنہگار محبت کے لیے یہ بھی سزا کم ہے

۲۳

محمد ابراہیم علی خان خلیل صاحب بہادر صولت جنگ ، جی سی ایس آئی

ھنواب محمد علی خان سابق ۱۲۶۵ء مطابق ۱۸۴۸فرمانروائے ٹونک پیدائش

ء میں والد کی معزولی کے بعد مسندنشیں ۱۸۶۶نواب ٹونک کے خلف اکبر، ہوئے اور فوج کے کمانڈر انچیف مقر ر ہوئے۔ نابالغی کے دنوں میں صاحبزادہ

ء کو کامل ۱۸۷۰عبیدہللا خان فیروز جنگ نظام مملکت چالتے رہے۔ یکم جنوری

نواب صاحب کو شعر و سخن سے بھی شغف ۲۴اختیارات حکمرانی عطا ہوئے۔خیر آبادی اور بعد ازاں ان کے چھوٹے بھائی مضطر خیر آبادی تھا۔ ابتدا بسمل

سے اصالح لیتے رہے۔

مروت میں ،وفا میں ،ناز برداری میں

چاہت میں

ذرا میں بھی سنوں کس بات میں مجھ سے

سوا تم ہو

جو واپس ہم نے دل مانگا خلیل ان سے تو

وہ بولے

ال ہم ہیں یا تم کہ اچھا بے وفا اب کون نک

۲۵ہو

مرزا باقر علی خان کامل ولد حیدر حسین خان بیس سال کی عمر میں

ریاست الور میں مہاراجہ شیودان سنگھ کی سرکا ر میں مالزمت کر لی۔ مہاراجہ

شیودان سنگھ بہت قدر دان رئیس تھے۔ پہلے باقر علی خان کو مصاحبوں میں ہدے پرز ممتاز کر دیا۔ باقر علی خان فنون رکھا پھر جلد ہی فوج میں کپتان کے ع

سپہ گری میں اپنے آباؤ اجداد کی طرح ماہر تھے اور شیر کا شکار برچھے سے

آپ کی شادی نواب ضیاء الدین احمد خان کی بیٹی سے ہوئی۔ ۲۶کھیلتے تھے۔ سو آپ کے سسر نے نواب شہاب الدین خان ثاقب کے انتقال کے بعد داماد کو الور

لیا اور امور سلطنت اس کے حوالے کر دئیے۔الئق داماد نے یہ بار اپنے سے بال

مہینے تپ دق ۷سال کی عمر میں ۲۸سسر لیا لیکن افسوس عالم شباب میں ہی ۲۷میں مبتال رہ کر راہ گزائے عالم بقا ہوئے۔

ء میں ہوئی۔ اس ۱۸۷۶ھ/۱۲۹۳مرزا باقر علی خان کا مل کی وفات چونکہ

ء کے لگ بھگ قرار دی جا سکتی ہے۔خم خانۂ ۱۸۴۹ھ/۱۲۶۵ لیے سن والدتجاوید میں مرزا کامل کو نواب زین العابدین خان عارف کا فرزند لکھا گیا ہے۔

جو غالبا غلط فہمی کے باعث ہوا کیونکہ آپ کے بارے میں خاندان لوہار و ۲۸

ے۔لیکن یہ کے شعراء میں زین العابدین عارف کے چھوٹے بھائی لکھا ہوا ملتا ہ

Page 233: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

233

بھی درست نہیں کیونکہ نواب زین العابدین خان عارف کے والد کا نام غالم حسین

یوں عارف آپ کے چچا تو ہو سکتے ہیں بھائی نہیں۔آپ فارسی ۲۹سرور تھا ۔اور اردو کے شاعر تھے۔ فارسی میں باقر اور اردو میں کامل تخلص کرتے

تے تھے۔ ایک شہر آشوب بھی تھے۔جب کہ قربان علی بیگ سالک سے اصالح لی

:آپ سے منسوب ہے۔ نمونۂ کالم یاد آنا کسی کی کاکل کا

تیرہ ساز شب جدائی ہے

ضبط گریہ کا تو دلی نے کیا ہے گویا

۳۰نہیں پائی گئی یہ نہر روان دہلی

ء نوں اپنی ریاست خیر پورد ۱۸۸۴اگست ۹میر علی نواز خان ٹالپر ناز سند ھ میں اردو ۳۲مقاالت نو۳۱پرانے پایۂ تخت کوٹ ڈیجی وچ جمے۔ ے

میں بھی اس کی تائید ملتی ہے۔ لیکن سید مظہر ۳۴ سند ھ میں اردو۳۳شاعری

ء تحریر کی ہے۔ ۱۸۳۸ نے میرع لی نواز نیاز نام اور تاریخ والدت ۳۵جمیلتھ کسی اور جوا س پرکھ میں بھی غلط ثابت ہوتی ہے کہ ایک تو اس کے سا

ء (پر سب متفق ۱۹۳۵دسمبر ۲۵مصنف نے اتفاق نہیں کیا۔ دوسرا تاریخ وفات )

ہیں ا ور یوں سید مظہر جمیل کے مطابق میر علی نواز کی عمر سو سال سے زائد بنتی ہے۔ جب کہ اس کی اتنی طویل زندگی پر کوئی بھی تذکرہ نگار متفق

نہیں۔

امام بخش ریاست خیر پور کے میر علی نواز خان ناز اپنے والدمیر ء کو تخت نشین ہوئے۔ ۱۹۲۱جون ۲۵ء پر ۱۹۲۱فروری ۸حکمران کی وفات

۳۶

میر علی نواز خان نے ڈیرہ دون ملٹری اکیڈمی سے عسکری تربیت حاصل کرنے کے بعد برطانیہ سے پاس آؤٹ ہوئے اور کمشن حاصل کیا تھا لہذا

کمانڈر انچیف کے عہدے پر بھی فائز والد کی وفات پر ریاست کی فوج کے

ہوئے۔ میر علی نواز خان اردو، فارسی ،سندھی اور پنجابی کے شاعر تھے۔ آپ :کی تصانیف درج ذیل ہیں

خلوت عشق:اس کتاب میں پنجابی او رسندھی کافیاں ہیں۔ ۔۱طوفان عشق:اس مجموعہ میں بھی پنجابی او رسندھی کافیاں ہیں جو ۔ ۲

ء میں شائع ہوا۔۱۹۳۱کراچی سے

آتش عشق:اس میں پنجابی اور سندھی کافیوں کے عالوہ ایک کافی اردو ۔ ۳ ء میں کراچی سے شائع ہوا۔۱۹۳۳زبان میں بھی موجود ہے۔ یہ مجموعہ

بیاض ناز:یہ قلمی نسخہ ہے جس میں سندھی اور پنجابی کافیاں جب کہ ۔ ۴

کچھ نظمیں اور ایک دوہڑہ بھی شامل ہے۔کدۂ خیام ، مے کدہ ناز:اس مجموعہ میں عمر خیام کی رباعیات کا خم ۔ ۵

ء میں خیر پور سے شائع ہوا۔۱۹۳۰سندھی منظوم ترجمہ شامل ہے۔ یہ مجموعہ

Page 234: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

234

ء میں دہلی سے ۱۹۲۴گنجینۂ خرد:یہ اردو غزلوں کا مجموعہ ہے جو ۔ ۶

شائع ہوا۔دہلی سے شائع ء میں ۱۹۲۴گلدستۂ ناز:یہ اردو غزلوں کا مجموعہ ہے جو ۔ ۷

ہوا۔

کلیات ناز: میر صاحب کی اردو غزل، سالم ،قصیدہ اور مرثیہ پر مشتمل ۔ ۸ یہ مجموعہ کراچی سے شائع ہوا۔

کلیات ناز: یہ سندھی زبان میں ہے جسے سندھی ادبی بورڈ نے جام شورو ۔ ۹

حیدر آباد سے شائع کیا۔انگریزی زبان میں سیاحت یورپ:یورپ کا سفر نامہ ہے جو اردو اور ۔۱۰

ہے۔

داستان لیلی مجنوں:اردو اور انگریزی زبان میں لیلی مجنوں کی داستان ۔ ۱۱ عشق الہور سے شائع ہوئی۔

داستان لیلی مجنوں اور سیاحت یورپ کے عالوہ تمام کتابیں راقم کی نظر سے

گزری ہیں۔ چند اشعار بطور نمونہ اے ناز کیا کرو گے تم خدا کی بندگی

۳۷نہ آیا تم کو بتوں کا بھی رام کر لینا

کیا پوچھتے ہو ہجر کے دن کس طرح کٹی

موت آگئی تھی بن کے مری غم گسار رات

۳۸

پیءں گے دم تو ل ینے دو کہ نو آموز ہیں

زاہد

یہ سب جاتا رہے گا اجتناب آہستہ آہستہ

نواب میر اسد علی خان آصفی ،نواب میر غالم حسین خان کے خلف اکبر

ھ )دسمبر ۱۲۷۱جمادی االول ۷تھے۔ آپ کی والدت حیدر آباد میں بروز جمعہ ء( کو ہوئی۔ اردو، فارسی ، عربی اور انگریزی کی ابتدائی تعلیم قابل اساتذہ ۱۸۵۴

رئ اسپ ، نشانہ اندازی کی نگرانی میں گھر پر ہوئی۔ آپ نے اپنے شوق سے سوا

اور دیگر مردانہ کھیلوں میں مہارت حاصل کی۔ فنون سپہ گری اور فن خوش ھ میں جب ساالر جنگ ۱۲۹۳خاصی دلچسپی تھی۔ ۳۹نویسی سے بھی

ھ میں وہ مقامات ۱۳۰۰اعظم یورپ جا رہے تھے۔ آصفی بھی ان کے ساتھ تے۔ نظام یا رالدولہ حسام الملک ،خاں مقدسہ کی زیارت کے لیے گئے۔ اس سال وہ

خاناں کے خطاب اور چہار ہزاری وسہ ہزاری سوار سے سر فراز ہوئے۔

نواب میرا سد علی خان ۴۰ھ میں آصفی کو نظام نے وزیر افواج بنا دیا۔ ۱۳۲۵ھ روز یک شنبہ صبح کے آٹھ بجے ریاست دکن ۱۳۵۲جمادی الثانی ۳آصفی نے

سال کے سن ۸۱ز امیر ، غربا اور فقراء کا دستگیر ،کا یہ جلیل القدر ہر دلعزی

۴۱میں وفات پاگیا۔

Page 235: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

235

نواب میر اسد علی خان آصفی کو اوائل عمر ہی سے شاعری کا اعلی ذوق

تھا۔ آپ کو اس فن میں یدطولی حاصل تھا۔ اکثر شاعروں اور مسالموں میں آپ کا ں شعر کہتے تھے۔ آپ کالم آپ کی جانب سے پڑھا جاتا ۔ آپ اردو اور فارسی می

کی طبیعت میں روانی ، سالست زبان اور فصاحت بیان کی سادگی آپ کے کالم

بالغت نظام میں دکھائی دیتی ہے۔ مست مئے والئے جناب امیر ہوں

عالم ہے دل میں آنکھ میں شیشے کے جام

۴۲کا

ہر گھڑی وعدۂ طفلی مجھے یاد آتا ہے

ل کی طرف کھینچے لیے جاتا کوئی مقت

۴۳ہے

ء کو جیکب آباد ۱۸۵۷صوبیدار زیرک الشاری ولددھنی بخش الشاری سندھ میں پیدا ہوئے۔ آپ زرک خان الشاری کے نام سے مشہور تھے۔ مسجد میں

پشتو،سندھی ، بلوچی اور پنجابی )سرائیکی (سیکھنے کے عالوہ قرآن مجید اور

ز اپنے والد کے ایک دوست مولوی عبدالعزیز سے دینیات کی تعلیم حاصل کی۔ نیاردو زبان اور فارسی میں مکمل تکمیل کی اور انھیں کی صحبتوں میں علمی و

ادبی ذوق کی نشوونما پائی۔

زرک خان کے والد انگریزی فوج میں مالزم تھے۔ زرک خان بھی جوان مالزمت ہونے پر سپاہی بھرتی ہو گئے۔ اور صوبیداری کے عہدے تک پہنچے۔

کے دوران مختلف عالقوں میں قیام رہا جہاں عالقائی زبانوں میں پختگی پائی۔

زرک خان کو دیگر زبانوں کی طرح اردو سے بھی دلی لگاؤ تھا۔ اور انھوں نے جیکب آباد میں اردو کا پہال مدرسہ قائم کرنے میں بہت کوشش کیں۔ زرک خان

عبادت و ریاضت اور ذکر و فکر صوم و صلوۃ کے سخت پابند تھے۔ اکثر راتیں

ء کی رات کو نماز نفل کے ۱۹۳۲۔ مارچ ۱۴میں گزار دیتے تھے۔ حسب معمول بعد ذکر الہی میں محویت کے عالم میں اپنے محبوب حقیقی سے جا ملے اور

جیکب آباد کے خاندانی قبرستان مین دفن ہوئے۔

نھوں نے امیر زرک خان الشاری مختلف زبانوں میں شعر کہتے تھے۔ احمزہ کا اردو سے بلوچی زبان میں ترجمہ کیا سات زبانوں میں ان کا کالم موجود

ہے۔ ان کا اردو دیوان قلمی نسخہ ان کے فرزند رشید احمد الشاری نے مرتب کیا

تھا۔ جو ان کی وفات کے بعد ڈاکٹر شیخ ابراہیم خلیل کے کتب خانہ میں موجود رہا :اعری کا نمونہ مالحظہ ہو۔ زرک خان کی کافی اور ش

مرا سایہ بھی جب مجھ سے ہوا مغرور

جاتا ہے

بھال وہ کون سی ہے چیز جس پر اعتبار

آئے

زباں اپنی سے ہر لمحہ خدا کا نام لیتا رہ

Page 236: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

236

کبھی لب پہ ترے زیرک نہ ذکر روزگار

۴۴آئے

الت کو تالش کرنے میں اگرچہ ناکامی ہوئی عزیز الدین خان عزیز کے حا

ابتدا میں احمد :’’لیکن تذکرہ عروس اال ذکار کے حاشیہ میں رقم ہے کہ علی عصر سے تلمذ تھا بعد میں نواب مرزا داغ کی شاگردی اختیار کی

۔رسالہ فیض میں ان کا اکثر کالم شائع ہوتا تھا ۔کم عمری سے ہی شعر و

ء( میں خطاب خانی و ۱۸۹۸ھ)۱۳۱۶ی۔ سخن میں مہارت حاصل کر لبہادری عزیز یا ر جنگ منصب دو ہزاری و یک ہزار سوارو علم سے

ء میں وفات پائی۔ ۱۹۴۶ممتاز ہوئے۔ آپ نے

کا جان ہے کھیل وہ جو کھیل عشق کا ہے

یہ بازی ہے کھیل ہے سمجھو نہ اس کو لعب

نقد جاں ہیں دیتے پہ غلے عاشق ہر ایک ۴۵جب سے عزیز ہاتھ میں اس کے غلیل ہے

شاغل عثمانی نے ایک نام محمد معز الدین خان عزیز لکھا ہے جو نسال

افغان اور موالنا جالل الدین احمد خان جاللی کے بڑے بیٹے تھے۔ ان کا وطن رام سال ۸۰ء بعمر۱۹۲۶ ۔اپریل۱۹پور اور مسکن و مدفن جے پور ہے ۔ تاریخ وفات

ء قرار دیا جاسکتا ہے۔تعلیم اور شخصیت ۱۸۴۶تھی۔ یوں آپ کی پیدائش اندازا

: کے حوالے سے وہ لکھتے ہیں کہابتدائی تعلیم گھر پر پائی اور قرآن مجید حفظ کیا۔ علوم عقلی و نقلی کی ’’

تکمیل موالنا تسلیم سے کی۔ عربی وفارسی کے منتہی تھے اور نہایت

ہ بارعب بزرگ ۔ عرصہ دراز تک نائب بخشی فوج جے وجیہ

پور)اسسٹنٹ کمانڈر انچیف جے پور فورسز( رہے۔ انتہائی علمی و ادبی

ذوق تھا مگر مالزمتی مصروفیات کے باعث یہ جو ہر نہ چمک سکا۔ نظم

ے و نثر میں کئی تصانیف چھوڑی تھیں مگر آج تالش کرنے پر کہیں س

‘‘۔ کچھ نہ مال

کے سامنےملسو هيلع هللا ىلص حسن خدا نمائے محمد

یعقوب کی نگاہ سے یوسف اتر گئے

ملسو هيلع هللا ىلص اچھے ہیں وہ جنھیں ہے بھروسہ حضور

پر

عاصی رہے جو کثرت عصیاں سے ڈر

۴۶گئے

مرزا مظفر حسین بیگ بارق ،مرزا صفدر علی بیگ رسائیدار کنٹنجنٹ

رہ چکے تھے۔ وہ ضلع علی گڑھ نظام کے صاحبزادے تھے۔ وہ فوج میں مالزم

کے رہنے والے تھے بعد میں حیدر آباد دکن میں مقیم ہوئے اور قلعہ گولکنڈہ کے :مدرسہ میں فارسی کے مدرس رہے ۔اللہ سریرام کے مطابق

Page 237: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

237

امامیہ مذہب ہے۔ا ہل و عیال کے جھگڑے سے آزاد او رتن تنہا مزاج ’’

ہے۔ طبیعت میں سپاہیانہ میں وارستگی اور بے تکلفی حد سے بڑھی ہوئی

جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ ساتھ ہی شوخ طبعی، بذلہ سنجی سے ہر

دلعزیز اور یار شاطر ہیں۔ پچاس برس کے قریب عمر ہے۔ فن سخن میں

حضرت داغ دہلوی سے مستفید او ران کے عقیدت مند شاگردوں میں

۴۷‘‘ہیں۔

کی اشاعت کے وقت مرزا مظفر حسین بیگ بارق ضمخانہ جاوید جلد اول

ء میں ہوئی۔ سو یہ اندازہ ۱۹۰۸پچاس سال کے تھے ۔ خم خانۂ جاوید کی اشاعت

ء کے نزدیک ہو گا ۔ مرزا ۱۸۵۸لگا یا جا سکتا ہے کہ بارق کا سن والدت صاحب کے کالم میں شوخی ،صفائی ،پختگی ،جدت اور روانی سب کچھ ہے۔

:مالحظہ ہو

ار مسیحا کی دوا کیوں کھائےتیرا بیم

ان کو منظور تو جنت کی ہوا کھانی ہے

۴۸

شاغل عثمان نے امان علی امین اور امین الدین امین شعراء کا ذکر کیا ہے۔

اور ان دنوں کا ذکر ایک ہی صفحے پر ہے۔ امان علی امین جو جے پور کی پلٹن سید تھے۔ میں سپاہی تھے ان کے بارے میں مشاغل عثمانی کا کہنا ہے کہ نسبا

ی ،عطا، اعجاز ، تحسین ،رضی نارنول وطن تھا۔ موالنا تسلیم سے تلمذ تھا۔ محو

اور ساکت وغیرہ کے ہم عصر ،کالم میں پختگی ،زور ،شوخی اور روانی پائی ان معاصرین کے عہد کو دیکھا جائے تو یہ سب شعرا انیسویں ۴۹جاتی تھی۔

صدی کے پہلے نصف میں ہوئے ہیں جب کہ امین الدین کا عہد دوسرے نصف

علی امین کے کالم کو پڑھ کر ہوتا ہے وہ یہ میں آتا ہے۔ ایک اور شک جو امان کہ تذکرہ شعرائے جے پور میں جو کالم آپ کے حوالے سے شامل ہے۔ اس میں

رشک بطور تخلص استعمال ہوا ہے۔ یا تو آپ امین اور رشک دونوں تخلص

استعمال کیا کرتے تھییاپھر ان اشعار کے حوالے سے آپ کا تخلص رشک تھا۔ ے کہ پھرا مین کیوں لکھا گیا جب کہ نام تو امان علی تھا۔ بہر سوال یہ پیدا ہوتا ہ

حال تذکرہ شعرائے جے پور میں امان علی امین یا رشک کا جو کالم شامل ہے۔

:مالحظہ فرمائیے قاصد کے قتل کرنے کا واں حکم عام ہے

خط تو لکھیں ہم ان کو مگر نامہ بر کہاں

ے یہ آیا ہے ہم اے رشک کس سے ہو ک

کالم

۵۰قاصد گہر فشاں دم تقریر کیوں نہ ہو

ہزایکسی لنسی راجۂ راجاپان سرکشن پرشاد شاد مہاراجہ بہادر یمین ۵۱السطنت کے سی ۔آئی ۔جی ۔سی آئی۔ای، پیش کارو سابق مدار المہام آصفیہ

Page 238: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

238

کو راجہ ہری کشن پرشاد کے ہاں ۵۲ھ( ۱۲۸۰شعبان ۱۸ء) ۱۸۶۴جنوری ۲۸

یدا ہوئے۔ اکثر تذکرہ نگاروں اور مورخین کا اس سے اتفاق ہے جب کہ عالمہ پ لکھ کر اپنی ۵۳ھ ۱۲۸۱ھ یا ۱۲۸۰ھ ،۱۲۷۹محمد نجم الغنی رامپوری نے

اختالفی رائے دی ہے ھ بتایا ہے۱۲۷۹جمادی الثانی ۱۸مانگ راؤ وٹھل نے بستان آصفیہ میں

راج عالی نے لکھا ہے ۔ مہاراجہ کے ایک قریبی دوست راجہ نرسنگ

اسفندار ۱۷ھ مطابق ۱۲۸۰شعبان المعظم ۱۸مہاراجہ کشن پرشاد آنجہانی

۵۴‘‘ فصلی کو پیدا ہوئے۔ ۱۲۷۳

بہر حال یہ ایک سال پہلے یا ایک سال بعد کا فرق عام طورپر محققین کی

ھ کا سال سن عیسوی کے مطابق ۱۲۷۹’’سہل اندازی سے ہو جاتا ہے کیونکہ ۸ء سے ۱۸۶۳جون ۱۸ھ کا سن ۱۲۸۰ء ، ۱۸۶۳مئی ۲۰ء اور۱۸۶۲جون ۲۹

ء ۱۸۶۵اپریل ۲۷ء سے ۱۸۶۴جون ۴ہجری کا سال ۱۲۸۱ء اور ۱۸۶۴مئی

لہذا کسی نے ہجری کا عیسوی اور کسی نے عیسوی کا ۵۵‘‘کے درمیان آتا ہے۔ ہجری نکالتے ہوئے غلطی کر دی۔

نرینہ نہیں تھی۔ لہذا انھوں نے شاد کے نانا مہاراجہ نریندرپر شاد کی اوالد

شاد کی تعلیم وتربیت اپنے ذمہ لی چنانچہ شاد نے انگریزی اردو، عربی ،فارسی ،تلنگی اور مرہٹی میں اچھی استعداد حاصل کر لی۔

شاد اپنے دادا کے جانشیں ہوئے اور جاگیرات پیش کاری سے سر فراز ’’

ھ میں مدار ۱۳۱۹ے۔ ھ میں معین المہام فوج مقرر ہوئ۱۳۱۰کیے گئے۔

ھ تک بحال رہے۔ ۱۳۳۰المہامی کا عہد ہ عطا کیا گیا۔ اس خدمت پر

ھ میں آپ کو ۱۲۹۱ھ میں صدارت عظمی کی خدمت سپرد کی گئی۔ ۱۳۳۵

ھ میں یمین السطنت ۱۳۰راجہ بہادر کے خطاب سے سر فراز کیا گیا اور ا

ی ء میں سی۔ آئی۔ ا۱۹۰۳کے خطاب سے نوازے گئے ۔حکومت ہند نے

۵۶‘‘۔ای کے خطابات دئیے گئے۔ ء میں جی ۔سی آئی۱۹۱۰اور

:سر کشن پرشاد شاد نے ہیر االل نشاط کو ایک خط میں لکھا ہےبند ہ تو قوم کا خود سپاہی ہے یعنی چھتری راجہ چندر کا او رخدا نے ’’

۵۷‘‘خدمت بھی فوجی عطا کی۔

سے لگایا جا شاد صاحب کے مطالعہ کی وسعت کا اندازہ ان کی نگارشات

سکتا ہے انھوں نے تقریبا ہر صنف ادب میں طبع آزمائی کی اور نثر اور نظم میں

کتابیں منظر عام پر آئیں۔ رام بابو سکسینہ نے جبکہ انھیں (۸۰ان کی تقریبا اسی )صوفی لکھا ہے انھوں نعت بھی بڑے اہتمام سے کہی ۔نور احمد میرٹھی جناب

کھتے ہیں کہ اردو نعت گو میں یہ شرف آپ ہی کو امیر مینائی کے حوالے سے ل

حاصل ہے کہ مدینتہ النبی کے اس کتب خانے کی دیوار پر آپ کا نعتیہ کالم آویزاں ہے جو مسجد نبوی کے متصل شیخ االسالم عارف حکمت نے قائم کیا

ء کو جہان ۱۹۳۹مئی ۹تھا۔۔۔۔ یہ محسن علم و ادب او رپیکر تہذیب وشرافت

۵۸‘‘ ے رخصت ہوا۔رنگ و بوس

Page 239: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

239

راقم کی نظر سے سرکشن پرشاد شاد کی کئی کتابیں گزریں جن میں تنوع

اور فکر و خیال کی اپچ پائی ۔ میں نے کوئی کتاب ایسی نہیں دیکھی جس میں منفیت کے پہلو پر بات ہو۔ ان کی سوچ میں مثبت پہلو اور علمی فکر کو اجاگر کیا

جب کہ ۵۹ یر میں چھتیس بتائی گئی ہیں۔کی تعداد ایک تحرگیا ہے۔ کتابوں

؎۶۰راقم کی نظر سے ان کے عالوہ مزید انتیس کتابیں گزری ہیں۔ مالحظہ ہو نمونہ

مجھ کو اقبال اور دولت دی

۶۱ساری دنیا میں تو نے عزت دی

مومن جو نہیں ہوں تو میں کافر بھی نہیں

شاد

۶۲اس رمز سے آگاہ ہیں سلطان مدینہ

کافر ہوئے ہیں شاد ہم اس بت کے واسطے

۶۳شکر خدا کہ صاحب زنار ہو گئے

:کشن پرشاد شاد کی نثر کا اسلوب مالحظہ ہومحبت ،ہائے محبت اوائے محبت، کس قدر پیارا، دلچسپ اور دلگداز لفظ ’’

ہے کہ جہاں اس کا نام آیا۔ سب سے پہلے حضرت دل پر ایک خاص اثر

پڑ گیا اس کا نام اس قدر پیارا ہے کہ ہر ایک محبت کی نظر سے دیکھتا

ہے اور دل میں جگہ دیتا ہے ۔ اس کا سکہ سب کے دلوں میں رواج پائے

۶۴‘‘ ہے۔ ۔ ہوئے

منشی تہور حسین جادو کے بارے میں بھی یہی کہا جاتا ہے کہ ریاست ء میں پیدا ہوا۔ ۱۹۶۶رامپور کی فوج میں مالزم تھے اور وہیں زندگی گزاری ۔

آپ کا کالم نہیں مل ۶۵شاعری کی طرف آئے تو جالل لکھنوی سے اصالح لی۔

وفات کے بارے میں بھی سکا جس سے ان کی فکر اور فن کا اندازہ ہو سکے ء کا سن آیا ہے۔ محمد شمس الحق نے ان کا ایک شعر نقل کیا ۱۹۲۰ء یا ۱۹۱۹

ہے۔ تصور نے ترے ظالم یہاں تک تفرقہ ڈاال

کہ ملنا ہو گیا دشوار اب مثرگاں سے

۶۶مثرگاں کا

خان سپہ ساالر مظفر الملک فتح جنگ ہزہائی نس نواب میر محبوب علی ۶۷بہادر نظام الملک آصف جاہ سادس جی ۔ایس ایس آئی، جی ۔سی بی شاہ دکن

برس کی عمر میں اپنے ۳ء کو ۱۸۶۹فروری ۲۶ء ، ۱۸۶۶اگست ۱۸پیدائش

اگست ۲۹والد نواب نظام الدولہ آصف جاہ خامس کی جگہ تخت نشین ہوئے۔ ۔۔۔جنرل بنایا تھا اور جی انگریزوں نے آپ کو لیفٹیننٹ۶۸ء کو انتقال ہوا۔ ۱۹۱۱

سی ایس آئی اور جی ایس بی کے اعزازات کے عالوہ ہرنائی نس دی نظام آف

میر محبوب علی خان آصف نے شاہی رسم و ۶۹حیدر آباد سے مخاطب کیا۔ رواج کے مطابق مختلف مشہور اساتذہ کی نگرانی میں تعلیم و تربیت حاصل کی ۔

صنیوں کی وجہ سے دکن میں شعر و ادب کو آپ کی شاہانہ سر پرستیوں او ر فیا

Page 240: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

240

زیادہ فروغ حاصل ہوا۔ آپ ابتدا داغ کے شاگرد تھے ۔لیکن ان کے انتقال کے بعد

:انھوں نے جلیل کو اپنا استاد بنایا۔ پروفیسر سید یونس شاہ کے مطابقآصف کی ذاتی زندگی میں مذہب کا رنگ غالب تھا۔ غزل کے عالوہ ’’

غزل بہر حال ان ۷۰انھوں نے نعت گوئی میں بھی کیا۔ اپنے جذبات کا اظہار

کے لگاؤکا حصہ تھا۔ اورا نھوں نے اپنے شعری ماحول کے مطابق ڈھال رکھا تھا۔

کہتے ہیں وہ کہے سنے پہ نہ جاؤ

۷۱غیر کے پاس تم نے دیکھا تھا

دےآصف کو الہی تو ذرا روضہ دکھا

فضل و کرم حق سے تھی آئی شب

۷۲معراج

ء کو حیدر آباد میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۶۷ھ /۱۲۸۳میر مہدی حسین خان الم

ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی اس کے بعدمدرسہ دارالعلوم میں داخلہ لیا اورپھر تیرہ

سال کی عمر میں ڈاکٹری کے لیے میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں داخل ہوئے او رسند کے بعد فوج میں شعبہ میڈیکل میں کمیشن حاصل کیا۔ حاصل کرنے

میر مہدی حسین الم کو بچپن سے شعر کہنے کا شوق تھا۔ ابتدا میں حنا

ھ میں داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی۔ ۱۳۰۵بریلوی سے اصالح لیتے رہے۔ فارسی میں بھی شعر کہتے تھے۔ الم کے چار مطبوعہ دیوان موجود ہیں ان کے

ک اور دیوان جو مخطوطہ کی صورت میں ہے ان کے خاندان میں عالوہ ای

الم نے مرثیے اور سالم بھی لکھے اس کے مرثیے زیادہ تربین ۷۳محفوظ ہے۔ اور رزم پر مشتمل ہیں۔ وہ ایک پر گو مرثیہ نگار تھے ان میں سالست اور روانی

بہت زیادہ ہے۔

درد درانی قندھاری کانام عطامحمد خان تھا۔ قندھار آپ کا آبائی وطن تھا۔ آ پ کے جد امجد بزرگوار نواب حاجی کریم داد خان صاحب، احمد شاہ درانی کے

ء میں آپ کے والد ۱۸۴۲دور میں کشمیر کے صوبہ دار یعنی گورنر تھے۔

ء میں ۱۸۵۷و سردار محمد اسلم خان صاحب قندھار سے پنجاب تشریف الئے جایک رسالہ کے رسالدار میجر تھے۔ اس کے بعد وہ قندھار چلے گئے۔ کچھ

عرصہ بعد مع عیال و اطفال پنجاب آگئے اور رسالدار اور رسالہ و انچارج جملہ

ء میں گجرات شہر میں وفات پائی ۱۸۷۵تھانہ ہائے ضلع گجرات رہے۔ انھوں نے اور چٹی خانقاہ میں مدفون ہوئے۔

خان نے گجرات میں انگریزی وفارسی کی تعلیم حاصل کرکے عطا محمد

۳ء تک رسالہ نمبر ۱۹۰۱ء تک سول میں ، بعد ازاں ۱۸۹۶پہلے بلوچستان میں پنجاب میں دفعدار کے رینک تک رہے۔ اس کے بعد پولیس میں آگئے۔ اور

ء تک مختلف اضالع حصار ،گوڑگانوں ،ملتان ،میانوالی میں سب ۱۹۱۶

ء میں مالزمت سے کنارہ کش ہو کر محلہ فتوپورہ ۱۹۱۶رہے۔ انسپکٹرپولیس

Page 241: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

241

ء میں آپ بڑے بھائی سردار غالم محمد ۱۸۹۷شہر گجرات میں رہائش پذیر ہوئے۔

خان کی وفات پر شاعری کی طرف متوجہ ہوئے۔ اور درد تخلص اختیار کیا۔ فغان ت بعد میں ھ لیکن اشاع۱۳۳۹ فغان درد تاریخی نام ہے ۔۷۴درد آپ کا دیوان ہے

:ہوئی ۔نمونۂ کالمصریح ہیں جو دشمن مرے جسم و جاں

کے

وہی دل پہ قبضہ جمائے ہوئے ہیں

ازل سے جو دردو الم کے تھے صدمے

۷۶وہ لوح جبیں پر لکھائے ہوئے ہیں

نواب شیر بہادر جنرل و رئیس اعظم ریاست اجے گڈھ واقع بندیل

در اخگر ،شاگرد ،جناب مولوی محمد حسین علی صاحب کھنڈ،جناب شمشیر،بہاشورش لکھنوی و میر ذاکر حسین یاس لکھنوی واحسان شاہجہانپوری ،والدت

جوہر ۷۶کے مصنف ہیں۔ ‘‘شعلہ تمن ’’ اور‘‘فسانہ اخگر ’’ء آپ ۱۸۶۸قریب:

دیو بندی نے شیر بہادر اور محمد شمس الدین نے شمشیر بہادر نام لکھا ہے۔ ہ ہو۔مالحظ

دیے ہیں داغ دشمن کو مری شستہ زبانی

نے

مئے کوثر سے ہے دھوئی ہوئی اخگر

۷۷زباں میری

مزا ہو جائے مے خانہ میں اخگر

۷۸جو دس بیس اور آجائیں ہمیں سے

لیفٹیننٹ میر محمد علی رنج ، میرعالم بہادر کے خاندان سے تعلق رکھتے

ء( میں حیدر آباد میں پید اہوئے۔ عربی ،فارسی کے ۱۸۶۹۔۷۰ھ )۱۲۸۶تھے۔

ساتھ انگریزی سے بھی خوب واقف تھے۔ ساالر جنگ ثانی وزیر اعظم کے نبیرہ میرمحمد حسین خان مرحوم، قلعہ گولکنڈہ ۷۹مصاحبوں میں سے تھے۔

کے بریگیڈ میں کیڈٹ تھے پھر درجہ بدرجہ ترقی کر کے لیفٹیننٹ ہو گئے۔

اقتضا سے شاعری کا بھی شوق عرصے سے ہے۔ اور خاصہ موزوئی طبع کے دیوان شائع ہو چکا ہے۔ ۸۰کہہ لیتے ہیں حضرت داغ دہلوی کے شاگرد ہیں۔

:نمونۂ کالم جو کہا غیر سے اب ترک محبت کی جے

ہنس کے فرمایا کہ یہ بات بہت مشکل ہے

دربدر خاک بسر، چاک گریباں مضطر

۸۱ال ذرا دیکھنے کے قابل ہےرنج کا ح

ء کو دلیل پور )چکوال( میں پیدا ۱۸۷۰حضرت خواجہ پیر جمال الدین شاہ

ہوئے۔آپ کے والد سید شہابل شاہ آپ کے بچپن میں ہی وفات پا گئے۔آپ نے راولپنڈی میں اپنے بڑے بھائی کے زیر تربیت تعلیم حاصل کی اور اردو ،فارسی

ی۔ بعد ازاں فوج میں بھرتی ہو گئے او رالہور میں اور عربی میں مہارت حاصل ک

Page 242: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

242

آپ کا تبادلہ ہو ا۔ جہاں حضرت داتا گنج بخش کے دربار پر اکثر وقت گزارنے

لگے پھر استعفی دے کر خواجہ شمس الدین سیالوی کی بیعت کی اور سلوک و ۱۸جذب کی منازل طے کیں۔ محمد عابد حسین منہاس نے آپ کی تاریخ وفات

مکرم تحریر کی ہے۔ لیکن سن نہیں لکھا۔ ایک اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شوال ال

ء میں پیدا ہوئے۔ جس کی تعلیم و تربیت آپ کی ۱۹۳۰آپ کے بیٹے سید بادشاہ گویا آپ نے اسی سال سے زائد عمر پائی ہو گی۔ پیر ۸۲نگرانی میں ہوئی۔

جمال الدین شاہ پنجابی اردواور فارسی کے شاعر تھے۔ اور کوہ قاف کے لب پر ہے دوہائی تیری

۸۳ذرہ ذرہ میں ہویدا ہے خدائی تیری

ابتدائی قصبہ کاکوری کے خاندان سادات میں سے تھے ۔عجاز علی شہرت اتعلیم کے حصول کے بعد حیدر آباد کی فوج میں شامل ہوئے اور کپتان کے عہدے

۸۴‘‘انتقال ہوا۔ آپ کاء کو ۱۹۳۵دسمبر ۱۸۔ سے سبکدوش ہوئے۔

حکیم نثار احمد علوی نے اگرچہ یہی تحریر نقل کی ہے لیکن اس نے فوج کی مالزمت کے فقر ے کو حذف کر دیا اور صرف اتنا لکھا کہ وہیں فوج میں

کیپٹن ہو گئے تھے۔ نیز اخبار حسن کار میں شہباز بلند پرواز کے نام سے

درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ فکاہیہ شاعری میں ۸۵مضامین بھی لکھتے تھے۔ اتنا طویل تخلص استعمال نہیں ہوتا۔ نثر میں یہ نام استعمال کیا جا سکتا ہے۔ کیپٹن

میر اعجاز علی شہرت کے بارے میں عبدالشکور نے آبائی وطن میں قدرے

د کا باشندہ قرار دیا ہے۔ مزی‘‘ امیٹھی ضلع لکھنؤ’’ اختالف کرتے ہوئے انھیںلکھا ہے کہ صاحب شمشیر بھی تھے اور صاحب قلم بھی ناظم بھی تھے اور نثار

کے نام سے ایک مزے کا ناول بھی ان کی ‘ نیاز و الفت’بھی اور غزل گو بھی۔

تصنیف ہے اور کالم نظم و نثر کا بھی خاصا مجموعہ ہے۔ مگر افسو س کہ غیر ۸۶مطبوعہ ہے۔

صاحب بہادر کمانڈنگ افواج ریاست کرنل صاحبزادہ محمد حسن رضا خان

آپ کے والد ’’رامپور ،خاندان شاہی سے نسبت کی بنا پر اس عہدے پر فائز تھے۔ احمد رضا خان عرف پیارے صاحب مرحوم نواب خلد آشیاں کے بھانجے تھے۔

۳۶یا ۳۵ خم خانۂ جاوید جلد دوم کی اشاعت کے وقت ایک ، دو سال کم ۸۷

وسال کا اندازہ اس لیے کہ کتاب کی اشاعت سے کم از کم سال آپ کی تھی۔ ایک دء ۱۸۷۲اتنا عرصہ پہلے کوائف یکجا کیے جاتے ہیں۔گویا آپ کاسن والدت

ء کے لگ بھگ ہوسکتا ہے۔ آپ ریاست رامپور کی فوج کے جب کمانڈر ۱۸۷۳یا

روپے ماہوار کے منصب دار تھے۔ شاعری کا ۵۰۰تھے۔ تو آپ ریاست میں ائل عمر سے ہی تھا۔ سو حسن کے تخلص سے ہی شعر کہتے شوق آپ کو او

:تھے۔ او رمضطر خیر آبادی سے استفادہ کرتے تھے۔ نمونۂ کالم دیا جو رنج کسی نے تو خوش ہوا دل زار

اٹھا جو درد کلیجے میں ہم دوا سمجھے

Page 243: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

243

وہ خوب جانتے ہیں مرے دل کا مدعا

نہیں ہوں میں حاالنکہ کچھ زبان سے کہتا

۸۸

ء کو ہمیر پور سدھر تحصیل ۱۸۷۱نومبر ۲۱حکیم عبدالنبی شجر طہرانی

ء کو سیالکوٹ میں وفات پائی۔ ۱۹۶۸نومبر ۴اکھنور )جموں (میں پیدا ہوئے۔ اور

لکھتے ۹۰ء۱۸۷۲ نصیر احمد اسد اپنے پی ایچ ڈی کے مقالے میں پیدائش ۸۹ سے یہ تاریخ نقل کی ہے۔ آپ کے والد ۹۱ہیں شاید انھوں نے کشمیر مں اردو

ء میں میڈیکل کالج ۱۹۰۲’’امیر الدین امیر دہلی میں طبیب تھے شجر طہرانی نے

ء میں والدین سمیت ہجرت کی اور ۱۹۲۰لکھنؤ سے طب کی سند حاصل کی۔ سیالکوٹ میں مستقل سکونت اختیار کی۔ آپ نے برطانوی فوج میں ڈاکٹر کی

جنگ عظیم کے دوران ان کا قیام بالد ’’ ۹۲‘‘یار کی۔حیثیت سے شمولیت اخت

اسالمیہ میں رہا۔ جنگ کے خاتمہ پر سیاسی کاموں میں حصہ لینا شروع کیا اورذ جب آپ میڈیکل کالج ۹۳وق آزادی وطن کی پاداش میں قید فرنگ بھی کاٹی۔

کے طالب علم تھے تو اسی دور میں حضرت داغ دہلوی کی شاگردی اختیار کی ایک الکھ شعر کہے۔ ان کی اور ایک متحرک ادبی زندگی گزاری آپ نے تقریبا

آپ کی مطبوعات میں صبر ۹۴شعری مسودات محفوظ ہیں۔ ۲۲باقیات میں

ء( ،نظم القواعد )صرف و ۱۹۲۹ء( ، زبان فطرت )نظمیں ۱۹۲۸جمیل،) مثنویمالحظہ شامل ہیں۔ آپ کے چند قطعات۹۵ء (۱۹۳۲نحو( جہاں گرد) قطعات

ہوں جن سے آپ کی ادبی خدمات کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ دل سے نا بلد دیر و کعبہ میں

جا کے یزداں تالش کرتے ہیں

کارگاہ حیات میں ہم تو

۹۶کوئی انساں تالش کرتے ہیں

ء ۱۸۷۲اپریل کی درمیانی شب ۱۷اور ۱۶موالنا عزیز الرحمن عزیز

مولوی کا امتحان پاس کرکے پیدا ہوئے۔ النا غالم رسول کے ہاں مو میں ۹۷۔ الئبریرین اور پھر کلرکی اختیار کی۔

۳۱ھ میں فوج بحیثیت کلرک بھرتی ہو گئے۔۔۔ ۱۳۲۱ء /۱۹۰۳مئی "

ء کو آپ جو ڈیشل ممبر کونسل آف ریجنسی بہاولپورکے دفتر ۱۹۰۷اگست

ھ میں سر رشتہ دار ۱۳۲۷ء / ۱۹۰۹میں سینئر کلرک مقرر ہوئے۔ اپریل

چیف کورٹ بہاولپور کی اسامی پر فائز ہوئے۔ منصفی کا امتحان پاس کیا

ء کو آپ مجسٹریٹ درجہ اول متعین ہوئے۔ یکم جون ۱۹۱۴فروری ۶اور

مئی ۲ھ کو ضلع بہاولپور کے ڈسٹرکٹ جج مقرر ہوئے۔ ۱۳۵۰ء /۱۹۳۱

۹۸‘‘ہوئے۔ ھ کو مالزمت سے سبکدوش۱۳۵۷ربیع االول ۱۲ء/ ۱۹۳۸

موالنا عزیز الرحمان نے زندگی کو مختلف اوقات میں متنوع حاالت میں حج ’’گزارا جب نواب صاد ق محمد خان کے ہمراہ حج کا فریضہ ادا کیا۔ تو

Page 244: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

244

کے ‘‘ دبیر الملک’’کے نام سے سفر نامہ لکھا۔ نواب نے اس موقع پر ‘‘ صادق

:ک کے نام درج ذیل ہیںخطاب سے نوازا ۔ آپ کی تصانیف میں سے چند ایصبح صادق،لغت عزیز، تاریخ الوزرا، حیات نواب بہاول خان، مختصر ’’

جغرافیہ ،دیوان فرید)مرتب (بوستان عزیز ،گلستان عزیز ،مثنوی نورو نار

۹۹‘‘وغیرہ۔

ء کو وفات پائی۔ آپ نے سرائیکی ،اردو اور ۱۹۴۴آپ نے یکم جنوری فارسی میں لکھا۔

عمر بھر جس نے حکومت کی تھی وہ بے

بس ہے آج

بیکسوں کا داد رس جو تھا وہ خود بے کس

۱۰۰ہے آج

برصغیر پاک و ہند کے نامور صحافی ،بلند پایہ لیڈر اور قادر الکالم زود

گو شاعر ،نعت گو، شعلہ بیاں مقرر، مشہور مترجم، معروف ادیب، مقبول سیاسی

راہنما ،بے باک اور نڈر شخصیت ،مدیر اعلی اور نامہ زمیندار الہور، ہفت روزہ ستارۂ صبح ،راہنما تحریک خالفت ،تحریک مسجد شہید گنج، تحریک پاکستان

ء کو کوٹ مہرتھ ضلع سیالکوٹ میں ۱۸۷۴جنوری ۱۷’’،موالنا ظفر علی خان باد تحصیل وزیر آباد ضلع ء کو وفات پائی اور کرم آ۱۹۵۶نومبر ۲۷پیدا ہوئے۔

۱۰۱‘‘گوجرانوالہ میں دفن ہوئے۔

موالنا ظفر علی خان کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا او ران تحریروں میں تاریخ پیدائش میں خاص طورپر اختالفات موجود ہیں۔ لہذا وہ سب حوالے دینا

ا ہے ایک الگ کتاب کے متقاضی ہیں بہر حال تاریخ میں بھی اختالف پایا جات

۔جنوری ۱۷ء ،۱۸۷۴ء اور ۱۸۷۳اورسن میں بھی لیکن بہت ہی معمولی جیسے جنوری وغیرہ۔آپ نے علی گڑھ سے بی اے کیا۔ چراغ حسن حسرت، ۲۷اور

سے متعلق رقم طرازہیں :موالنا ظفر علی خاں حیدر آباد کی مالزمت کے زمانے میں کچھ دن فوج میں رہے یہ قصہ "

ی کے کرتب دکھا رہے تھے۔ ان کی طبیعت بھی عجیب ہے سپاہی نیزہ باز

لہرائی ،گھوڑ ے پر سوار ہو کے نیزہ تانا اور آن کی آن میں میخ اکھیڑی

۔ ہر طرف سے تحسین و آفرین کا غلغلہ بلند ہوا۔ او ران کی خدمات فوج

کے صیغہ میں منتقل کر دی گئی لیکن افسر الملک سے نباہ نہ ہو سکا ۔

۱۰۲‘‘ے دیا۔اور اس لیے استعفی د

اورر اسی عہدے سے آپ ۱۰۳آپ کو لیفٹیننٹ کے عہدے پر لیا گیا تھا

نے ۱۰۴‘‘نے استعفی دیا آپ کے فوج میں شمولیت کی رفیع الدین اشفاق

نظام دکن کے ۱۰۵ء ۱۸۹۶پروفیسر جاوید اقبال نے اس تصدیق کے ساتھ کہ لملک کے سیکرٹری رہے ہاں فوج میں مالزمت کا سال لکھا ہے۔آپ نواب محسن ا

،ریاست حیدر آباد کے دار الترجمہ میں کام کیا۔ ہوم ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ ہوم

سیکرٹری کے عہدے پر پہنچے لیکن والدمحترم مولوی سراج الدین کی وفات کے

Page 245: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

245

بعد ان کے جاری کردہ اخبار ، زمیندار کی ادارت سنبھال لی ۔ آپ کو اردو

بانوں پر عبور تھا۔ پنجابی آپ کی اپنی زبان تھی ،انگریزی ،عربی اور فارسی زآپ نے تحریکوں میں بہت ظلم سہا۔ قید و بند کی صعوبیتں برداشت کیں۔ قلم کی

گرفت اور مضبوطی سے بھی آپ نے دشمنان اسالم کو ہمیشہ نوک پر رکھا آپ

کی تصانیف میں اردو، انگریزی، نظم و نثر ،ترجمہ وغیرہ شامل ہیں۔وہ شمع اجاال جس نے کیا چالیس برس تک

غاروں میں

اک روز چمکنے والی تھے سب دنیا کے

۱۰۶درباروں میں

گزرے ہوئے وہ دن اب واپس نہ آسکیں

گے

پھر کیوں نہ یہ نصیحت سن لو مری زبان

۱۰۷

مل گئی دونوں جہانوں کے خزانوں کی

کلید

نے معراج پہ پہنچا ہے بشر آج کی رات اپ

۱۰۸

موالنا ظفر علی خان کی نثر بھی ان کے شعر کی طرح کافی جاندار تھی

آپ نے جو تراجم کیے وہ بھی اپنی مثال آپ ہیں اور ان پر تخلیق کا گمان ہوتا ہے

:ان کے اسلوب نثر و ترجمہ کے حوالے سے چند سطور مالحظہ ہوںمختلف نسخوں میں جو زمانہ کی دست بردسے بچے بچائے باقی چلے ’’

آتے تھے ۔ بہت کچھ اختالف تھا۔ مثال سامری نسخہ میں پیدائش یعنی

آفرینش عالم سے طوفان تک کا زمانہ ایک ہزار تین سو سات سال درج

تھا۔ عبرانی نسخہ میں یہ مدت ایک ہزار چھ سو چھپن سال تھی۔ حاالنکہ

سبعینیہ میں یہی مدت دو ہزار دو سو تریسٹھ سال مذکور تھی۔ نسخہ نسخہ

سبعینیہ میں پیدائش سے حضرت ابراہیم تک کا زمانہ عبرانی نسخہ کے

نہ کوئی ایسا نشان لیکن اب ۱۰۹۔ مقابلہ میں ڈیڑھ ہزار سال زیادہ تھا

یا عالمت موجود ہے جس سے انسان کو معلوم ہو سکے کہ فالں نسخہ

۱۱۰‘‘یح اور غیر محرف ہے۔صح

کے لیے رنگروٹ ۱۱۱ٹوانہ النسرز ۱۸جنرل سرعمرحیات خان ٹوانہ

عمرحیات خان ’’اور گھوڑے مہیا کرنے کی بنا پر ذمہ دار فوجی افسروں نے کے لیے اعزازی کمیشن کی سفارش کی ۔ حکومت پنجاب نے بھی سفار ش کی

االنسرز ۱۸ء میں انھی اعزازی لفیٹنٹ بناد یا گیا۔ اور ۱۹۰۱تائید کی ۔چنانچہ

میجر جنرل ملک محمد عمر حیات خان جی۔ بی ۱۱۲‘‘ سے وابستہ کر دیا گیا۔۔ای کے۔ سی آئی ،ای ، ایم ۔وی۔او، کونسل آف اسٹیٹ آف انڈیا کے منتخب ممبر کا

صاحب خان تعلق شاہ پور کی ٹوانہ فیملی سے تھا۔ آپ کے والد کا نام سر ملک

Page 246: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

246

تھا۔ آپ نے ایچی سن کالج الہور سے تعلیم حاصل کی۔ وکی پیڈیامیں آپ کی

: عسکری خدمات کے حوالے سے لکھا ہے کہ"Someliland war of 1902 -1904, receiving the Jidblli madal

and clasp, in the Tibet Expedition of 1903-1904 in the

European theatre of the great war, 1914 -1915 and then in

the third Anglo-Afghan war, he was attached to the 18th

king george's own lancers. He deted as an honorary aid-de-

camp to george V, Edward V111 and george V1-" ۱۱۳

ری ء میں آنری۱۹۱۱ء میں انڈین آرمی میں آنریری لیفٹیننٹ، ۱۹۰۱آپ کو ء ۱۹۳۰ء میں آنریری لیفٹیننٹ کرنل،۱۹۲۰ء میں آنریری میجر ، ۱۹۱۷کیپٹن ،

۱۸ء میں آنریری میجر جنرل اور آنریری کرنل آف ۱۹۳۵میں آنریری کرنل،

ء میں آنریری لیفٹنٹ جنرل ۱۹۲۵النسرز بنایا گیا۔ غالم رسول مہر کے مطابق کالر دروازے پر بھی بنائے گئے۔ لیکن میرے خیال مینیہ درست نہیں کیونکہ

ھ ۱۲۹۱شعبان ۲۳ء مطابق ۱۸۷۴۔اکتوبر ۵میجر جنرل لکھا ہے۔ عمر حیات خان

کو میگھا میں پیدا ہوئے۔ لیکن بعد میں آپ نے جب کالر ا میں مکان تعمیر کرائے ء کو ۱۹۴۴ماچ ۲۴تو اہل و عیال میگھا سے کالرا منتقل ہو گئے ۔ آپ نے

۱۱۴کالرا میں جنازہ کے بعد انھین دفن کیا گیا۔سرگودھا میں وفات پائی۔ جب کہ

یہاں ایک دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ سر عمر حیات خان تمام فوجی عہدے اعزازی طور پر رکھنے کے باوجود میدان جنگ میں برطانوی راج کے ہمراہ

ہوتے تھے۔ صومالی لینڈ کی تمام جنگوں میں آپ نے حصہ لیا ۔ فیروز پور بریگیڈ

آپ شامل تھے۔ قط العمارہ کی لڑائی میں شریک تھے۔ افغانستان کے سٹاف میںکے تین محاذوں پر جنگ کا حصہ رہے۔ نیز اور کئی محاذوں پر یا تو شریک

میدان تھے یا سٹاف ڈیوٹی پر مامور تھے۔ملک عمر حیات خان سے اگرچہ کوئی

رسول کتاب منسوب نہیں لیکن آپ روزنامچہ عموما لکھا کرتے تھے۔ اسے غالممہر نے کچھ کچھ یکجا کر دیا وہ کتاب نہیں بلکہ کتاب کا حصہ ہے۔ اس میں

جنگ کے دوران لکھا گیا روزنامچہ ،سفر حج ،بادشاہ کی سلور جوبلی اور سیر

۱۴یورپ کے واقعات ،معلومات کا خزانہ ہے۔ مثال عالمی جنگ سے متعلق : دسمبر کی ڈائری میں لکھتے ہیں

اذ پر رہا پھر مجھے عراق بھیج دیا گیا۔ اپنے بریگیڈ دسمبر تک مح۱۱’’

۱۲۹کے ہمراہ مارسائی پہنچا۔ وہاں سے آرکیڈیا جہاز پر روانہ ہوا۔

ہاسپٹل پلٹن اور گھاگرا پلٹن بھی ۱۱پٹھان پلٹن، نمبر ۴۰بلوچی پلٹن، نمبر

ء کو بصرہ پہنچے اور وہاں ۱۹۱۶جنوری ۸اسی جہازمیں سوار تھی۔

۱۱۵‘‘شرکت کی۔ کی لڑائی میں

اسی عہد کی ایک اور شخصیت دفعدار منشی مداری لعل بھرتپوری شاگرد

حضرت طاہر فرخ آبادی ہیں ۔ اس کے بارے میری تمام معلومات اس کے متذکرہ

نام تک محدود ہیں۔ جس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ مداری لعل نام تھا۔ فوج

Page 247: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

247

ار آرمرڈ کور) رسالے (کا حوالدار میں دفعدار کے رینک پر فائز ہو ں گے۔ دفعد

کے برابر کا رینک ہوتا ہے۔ جسے این سی او کہا جاتا ہے ۔آپ بھرت پور کے تھےرہنے والے ہوں گے۔ اور طاہر فرخ آباد ی کے شاگرد

جگا دے سبزۂ خوابیدہ تک کو صحن گلشن

میں

اڑائے بلبل شیدا اگر طرز فغاں میری

ا بھید اپنے دلربا سے بھی نہیں میں دل ک

کہتا

خموشی ہی فقط ہے واقف راز نہاں میری

۱۱۶

ناصر الملک ،مخلص الدولہ مستعد جنگ امیر االمراء ،فرزنددلپذیر، دولت انگلشیہ کرنل ہزہائی نس نواب سر سید محمد حامد علی خان بہادر جی۔ سی ۔آئی۔

قیصر ہند،والئی ریاست رامپور ای ،جی ۔سی ۔وی۔ ای ، اے ڈی سی شہنشاہ معظم

ء کو پیدا ۱۸۷۵۔اگست ۳۱’’تخلص بہ رشک نواب مشتاق علی خان کے ہاں ہوئے۔ آپ کے والد نواب مشتاق علی خان ، نواب کلب علی خان مرحوم کے دوسر

ء میں والد کی وفات پر اختیارات حکومت عطا ہوئے۔ ۱۸۹۶ے صاحبزادے تھے۔ ۱۱۷‘‘ی سیر اپنی نا بالغی میں فرما چکے تھے۔آپ یورپ ،امریکہ اور جاپان ک

کرنل محمد حامد علی خان کو انگریزی ،ا ردو اور فارسی زبان پر معقول

دستگاہ تھی اردو ادب سے گہری وابستگی رکھتے تھے۔ اور اپنے ذوق و شوق کی تکمیل کے لیے کتب شائع کرانے کے احکامات صادر فرماتے رہتے تھے۔

ر گاہ گاہ شعر و سخن بھی کیا کرتے تھے اور منشی امیر تفنن طبع کے طورپ

و صریر آپ کی استادی سے مینائی کے بڑے صاحبزادے منشی محمد احمد قمر ہوئے۔مشرف

ء میں اکتالیس برس حکومت کر کے وفات پائی اور ۱۹۳۰آپ نے جون

اوراق پر ۵۹ر دیوان نجف اشرف آخری آرام گاہ قرار پائی۔ آپ کا ایک مختص ۱۱۸مشتمل محفوظ ہے۔

جے پور کی فوج کے ایک صوبیدار میجر محفوظ علی محفوظ کے بارے

میں بھی تذکرہ نگار او رمورخین میری پہنچ سے باہر رہے۔ تذکرہ شعرائے جے : پور کے تذکرہ نگارنے لکھا ہے کہ

فن بٹوٹ نسبا سید تھے جے پور کی فوج میں صوبہ دار میجر تھے اور’’

کے مسلم استاد ،فن سپہگری سے بھی خوب واقف تھے۔ تمام عمر یہیں بسر کی اور یہیں انتقال ہوا۔ شعر و سخن سے خاص دلچسپی تھی اور حضرت آگاہ سے

تلمذ تھا۔اگر آگاہ سے آپ کا مطلب مولوی باقر علی آگاہ ہیں تو ان کا عہد اٹھارہویں

عیسوی کی ابتدا کا ہے۔ صدی عیسوی کے اواخر اور انیسویں صدیکچھ اور منہ سے نکل جائے کیا عجب اے

شیخ

Page 248: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

248

نہ چھیڑنا کہ مجھے نشۂ شراب ہوا

ہمارے خون سے تر کر کے دامن خنجر

۱۱۹وہ منفعل ہوا ایسا کہ آب آب ہوا

کا تعلق فوج سے تھا شکار پور ضلع بلند شہر کے محمد علی خان ایمان

:ھے۔ بقول شاغل عثمانیرہنے والے تجے پور کی فوج میں طبیب تھے ۔اپنے کو مومن خان مومن کا شاگرد ’’

کہتے تھے مگر یہ صحیح نہیں تھا ۔ بعض کہتے ہیں کہ بوجہ ہم پیشگی

یعنی طبیب ہونے اور ایمان و مومن ہونے کی نسبت سے ایسا کہتے ہوں

۱۲۰‘‘گے۔

مکمل تھا لیکن وہ کاغذات آپ ایک پرگو اور خوش فکر شاعر تھے۔ دیوان

نجانے اب کہاں ہو ں گے۔ کم سنی میں بھی ستم کی ہے شرارت ان

کی

شمع پر دوڑ کے پروانوں کے پر رکھتے

ہیں

یہ تو اے حضرت ایماں در مے خانہ ہے

آپ سر سجدے میں وہللا کدھر رکھتے ہیں

۱۲۱

ایشور داس )عیسی داس( کے گھر ’’رسا لکھنوی کا نام الیاس داس تھا۔ آپ ء کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد فوج میں ۱۸۷۹دسمبر ۲۵

چلے گئے۔ جہاں آپ کو پادری کی خدمات انجام دینے پر مامور کیا گیا۔ لیکن آپ

رسا ۱۲۲‘‘ہوئے ترقی کرتے رہے اور بریگیڈیٹر کے عہدے سے پنشن یاب صاحب نے ریٹائر منٹ کے بعد امرتسر میں سکونت اختیار کی لیکن آپ کی وفات

۱۲۳‘‘ء کو قادیان کے مقام پر ہوئی۔۱۹۶۵مئی ۲۲’’

رسا لکھنوی افضل علی خان افضللکھنوی کے شاگرد تھے شاعری کا آغاز غزل ئی ہیں بعد میں سے کیا اور طویل غزلیں لکھیں جو قافیہ پیمائی کے زمرے میں آ

مذہبی شاعری کی طرف آگئے ۔زود نویس تھے ۔غزل ،نظم ،مسدس، رباعی

وغیرہ اصناف میں ان کا کالم موجود ہے شرمندہ نگاہوں سے آج توبہ کر

تو کفر کی راہوں سے آج توبہ کر

کچھ سوچ بھروسا ہے رسا زیست کا کیا

۱۲۴نادان گناہوں سے آج توبہ کر

خان بہادر کرنل سردار اصغر علی خان سی ۔آئی۔ ای کے حاالت زندگی کے حصول میں ناکامی نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیسے کیسے لوگوں

Our کی زندگی پر پردہ اور خاک پڑی ہے۔ آپ نے متہوران ہند کے نام سے

Honour of great war جس پر کا بڑا خوبصورت اور رواں تبصرہ کیا ہے۔کسی صورت ترجمہ کا گمان نہیں ہوتا۔ اور شاید اسی وجہ سے اس کتاب کے

Page 249: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

249

کا لفظ رقم ہے اس کتاب کا فارورڈ جنرل رالنسن )کمانڈر ‘‘مصنفہ ’’سرور ق پر

ء کو لکھا۔ اس کتاب میں ہندوستانی فوج کے ان ۱۹۲۲جنوری ۱۱انچیف ہند( نے عظیم اول میں تمغائے جانبازوں کا با تصویر مرقع شامل ہے جن کو جنگ

وکٹوریہ کراس پانے کا امتیاز حاصل ہوا۔ اور ان دستہ ہائے فوج کا تذکرہ ہے جن

ء میں سردار اصغر علی غالبا کرنل ۱۹۲۲سے ایسے نامور بہادروں کا تعلق رہا۔ کے عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے۔ اس نسبت سے آپ کی والدت کا سن

۔کرنل اصغرعلی متہوران ہند کے جا سکتا ہے ء کے لگ بھگ قرار دیا ۱۸۸۰

دیباچے میں لکھتے ہیں :اس توپ کے لوہے سے بنایا جاتا ہے جو دشمن سے چھینی اعزاز یہ "

گئی ہو اور قیمت میں اس برگ کرفس کے سہروں سے زیادہ نہیں ہے جو

یونان قدیم میں استعمال ہوتے تھے۔ اور ان پہلوانوں کے سرو گردن کو

تے تھے جن کی شہ زوری او رجواں مردی پر ملک کو فخر اور زیب دی

مسرت حاصل ہو۔ نشان کی یہ حیثیت شاہی خدمات بجا النے والوں کے دل

پر موثر ہوتی ہے۔ اور جانباز کی خدمات کو برا فروختہ کرتی ہے۔ سیم و

زر اور خطابوں کا اعزاز شجاعت و شہامت کے اعلی ترین کارناموں کا

۱۲۵‘‘ہ نہیں ہو سکتا۔ مناسب معاوض

کیپٹن سید ضامن علی نقوی ضامن مصطفی آبادی ثم الہ آبادی سید واجد

ء میں ۱۸۸۰علی نقوی کے فرزند قصبہ مصطفی آباد ضلع رائے بریلی میں ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کرنے کے بعد سینٹ ۱۲۷ میں پیدا ہوئے۔ ۱۲۶

ء میں ۱۹۱۰ء میں میٹرک اور ۱۹۰۶جانس کالج آگرہ میں داخلہ لیا جہاں سے

انٹر میڈیٹ پاس کرنے کے بعد ایوننگ کرسچین کالج الہ آباد سے بی اے میور ء میں فارسی میں ایم اے کیا اور ایوننگ کالج میں بحیثیت ۱۹۲۲کالج الہ آباد سے

ء میں الہ آباد یونیورسٹی کے شعبہ فارسی سے ۱۹۲۴لیکچرار مقرار ہوئے۔

ضامن ’’ بات بھی قابل غور ہے کہ عرفان عباسی کے مطابقوابستہ ہوئے۔ یہ صاحب شعبہ فوجی تعلیم سے متعلق تھے اور انھیں فوج سے کیپٹن کا عہدہ مال

تھا۔ بعض حلقوں میں وہ کیپٹن ضامن کے نام سے مقبول تھے۔ علمی و ادبی

سرگرمیوں میں شروع سے ہی حصہ لیتے تھے ان کی خدمات کے صلے میں ان کی نثری تصانیف ۱۲۸‘‘انیہ نے انھیں کئی خطابات دیے تھے۔ حکومت برط

میں بہار کشمیر ، خزینتہ القواعد ،واقعات کربال ،خط شکست، انتخاب معراج سال کی عمر میں شعر کہنا شرو ع کر ۱۴المضامین وغیرہ مشہور ہیں۔ آپ نے

ند نے ان کی حکومت ہ’’دیا تھا۔ اور میر علی عباد نیساں کے شاگرد ہوئے۔

ء میں ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا جس پر ان کی ۱۹۸۰خدمات کے اعتراف میں ء میں ۱۹۵۵تصویر سنین والدت وفات چھپے ہیں۔ آپ نے طویل عاللت کے بعد

وفات پائی اور آپ کی غزلوں کا مجموعہ ان کی صاحبزادی نے غزلیات ضامن

۱۲۹‘‘ء میں شائع کرایا۔ ۱۹۷۸کے نام سے

Page 250: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

250

سن پیدائش ڈاک ٹکٹ سے نقل کیا گیا ہے جب کہ غزلیات ء کا ۱۸۸۰

ء ۱۸۸۸ء او رمختصر ادب اردو از ڈاکٹر سید اعجاز حسین نے ۱۸۹۳ضامن پر ۱۳۰سن پیدائش لکھا ہے ۔

ء میں عالقہ و نہار کے ۱۸۸۰’’خان فیروز کااعوان اقوام سے تعلق تھا۔

یں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم قصبہ بوچھال کالں کے ایک زمیندار گھرانے مء میں بحری راستے سے ۱۹۳۷پرائمری سکول نور پور و نہار سے حاصل کی۔

۱۳۱‘‘ سنگاپور اور ہانگ کانگ گئے وہاں آرمی میں بھرتی ہو گئے۔

ء میں فوج میں بھرتی ۱۹۳۷ء سن والدت مان لیا جائے اور ۱۸۸۰اگر جائے تو بھرتی ہوتے وقت فیروز خان فیروز کی عمر ہونے کا سن تسلیم کیا

سال کی عمر میں ایک ۵۷ستاون سال بنتی ہے۔ یہاں قابل توجہ بات یہ ہے کہ

آدمی کو فوج میں بھرتی کیا جا سکتا ہے ۔تیس پنتیس سال کی عمرکو اس وقت سال میں ڈھلتی عمر کا ۵۷کے حاالت کے مطابق تسلیم کیاجاسکتا ہے لیکن

چہرے بشرے سے لگا یا جا سکتا ہے۔ لہذا تاریخ والدت یا بھرتی ہونے کے اندازہ

سن میں کہیں غلطی ضرور ہے ۔ بلکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ ابھی جنگ عظیم دوم شروع بھی نہیں ہوئی تھی۔ دوران جنگ چالیس سال کی عمر تک کی گنجائش

ز خان کو بھی سوچی جا سکتی ہے۔ بہر حال دوسری جنگ عظیم کے دوران فیرو

جاپانی افواج نے پکڑ لیا او رقید میں ڈال دیا۔ اسی دوران فیروز نے منظوم سفر لکھا۔ یہاں محمد عابد منہاس نے ایک ‘‘ سفرنامہ فیروز تاریخ ہانگ کانگ’’نامہ

ء میں وطن ۱۹۴۳رہائی پانے کے بعد ’’اور غلطی کی ہے اور وہ یہ ہے کہ

جب کہ جاپانی قیدیوں کو جنگ عظیم کے خاتمے پر رہا کیا ۱۳۲‘‘ واپس آگئے۔گیا۔ پھر تحریک آزادی میں بھرپور حصہ لیا ۔حضرت شاہ ولی ہللا کی کتاب

ء میں وفات پائی ان کی ۱۹۵۰دسمبر۱۶کا پنجابی ترجمہ کیا ہے۔ ‘‘پیش گوئیاں ’’

ہللا کی میرے خیال میں پیش گوئیاں بھی شاہ نعمت ۱۳۳قبر بوچھال میں ہے۔ فارسی منظوم کتاب ہے شاہ ولی ہللا کی نہیں آپ نے اس ترجمے او رسفر نامے

بھی قلمبند کیے اور یہ چاروں ‘‘پاکستانی قصہ ’’او ر‘‘واقعہ کربال ’’کے عالوہ

غیر مطبوعہ ہیں۔ سفر نامہ اردو زبان میں لکھا گیا ہے۔ا تاریخی نام رحمت محمد عبدالرحمن کوکب نسبا نو مسلم راجپوت شیخ تھے آپ ک

ء میں کریم بخش جن کا منتی ۱۸۸۱ھ ،۱۲۹۹ھ( ہے۔ آپ سانبھر میں ۱۲۹۹خان )نام میراں بخش تھا کے ہاں پیدا ہوئے۔ پرائیوٹ طورپر منشی فاضل تک تعلیم پائی

ء میں ۱۹۰۴۔ پھر کرکٹ کا شوق اور شعر کا ذوق رستے کی رکاوٹ بن گیا۔ آپ

بھرتی ہوئے اور تھوڑے ہی عرصہ بعد جے پور کی ایک پلٹن میں جمعدارء میں عاللت کی ۱۹۱۱صوبیدار اور پھر صوبیدار میجر پروموٹ ہوگئے لیکن

ء ۱۹۱۷وجہ سے مستعفی ہو گئے اور وکالء کے ہاں محرری کرنے لگے لیکن

ء کو کورٹ سب ۱۹۴۶مارچ ۱۳میں جے پور پولیس میں بھرتی ہوگئے جہاں ۲۰ محمد عبدالرحمن کوکب ۱۳۴پائی۔ انسپکٹر پولیس کے عہدے سے پنشن

Page 251: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

251

ء کو ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ کوکب کو آگاہ دہلوی سے تلمذ تھا۔ ۱۹۵۰مارچ

ء میں لکھی۔ آپ کو یہ شوق مولوی ۱۹۰۰صاحب دیوان تھے پہلی غزل آپ کے کالم ۱۳۵عبدالمجید اخگر سے تعلیم کے حصول کے دوران پیدا ہوا۔

۔فرینی اور بلند پردازی کی کوشش نمایاں ہے میں مشاقی کازور ،مضمون آ

ء میں گلگت ۱۸۸۵صوبیدار راجہ شاہ رئیس خان ولد راجہ علی داد خان کے مقام پر پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گلگت مڈل سکول سے حاصل کی۔ کچھ

عرصہ محکمہ مال میں مالزمت کی۔ پھر ریاستی فوج میں بحیثیت صوبیدار

ء میں فوج ۱۹۲۵ر گئے اور اسی عہدے پر گئے لیکن بھرتی ہو گئے۔ آپ کشمی ۱۳۶چھوڑدی اور واپس گلگت آگئے۔

سید عالم نے آپ کا نام شارئس خان اور گلگت کے آخری حکمران کے

ء میں آپ کو والئی گلگت کا عہدہ ۱۹۴۴چشم و چراغ لکھا ہے نیز لکھتے ہیں کہ ء میں ۱۹۴۷والد نہ تھی۔ دیا گیا کیونکہ راجہ جعفر خان والئی گلگت کی کوئی ا

گلگت کے آخری ڈاگرہ گورنر بریگیڈئیر گھنسار اسنگھ کی گرفتاری کے بعد آپ

کو جمہوریہ گلگت کا صدر مقرر کیا گیا۔ آپ کی خدمات کے صلے میں حکومت ۱۳۷کی طرف سے آ پ کو ستارہ امتیاز مال۔

کی راجہ شاہ رئیس خان ایک بہترین انشا پرداز تھے جس کی گواہی آپ

کتاب تاریخ گلگت بتائی جاتی ہے۔ آ پ کی یہ کتاب شمالی عالقہ جات میں

اردو کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ تاریخ گلگت سے ایک

: اقتباس

ملکہ نور بخت خاتون کی نظر جوان رعنا ،صورت زیبا،ہالل ابرو، ’’

و چھید کر جمال بے مثال، صاحب جاہ و جالل پر پڑی ۔ تیر عشق جگر ک

پار نکل گیا۔ ملکہ نور بخت خاتون زخم تیر جگرزو ر عشق کی تاب نہ ال

کر غش کھا گئی۔ گرتے ہی نقاب چہرۂ زیباسے الٹ گیا گویا لکۂ ابر ہٹا۔

آفتاب تاباں چرغ نیلوفری سے طلوع ہوا تا اینکہ آفتاب درخشاں اوج آسمان

کھا ایک پری پیکر سے اتر کر صحن خانہ میں در آیا شہزادے نے کیا دی

خود منظر ابرو ہالل، چشم غزل ،کا کل عنبریں چہرہ زیبا پر بکھرے

۱۳۸‘‘ہوئے گویا دو مار سیاہ قرص آفتاب پر لہراں و پیچاں ہیں۔

ء کو گلگت میں وفات پائی۔۱۹۷۴جنوری ۲۲راجہ شاہ رئیس خان نے ہید کی تقی حیدر انوریمولوی عبدالباقی کے صاحبزاد ے ،رسول بخش ش

ھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خاندانی ۱۳۰۲ء /۱۸۸۵کاکوی میں ’’نسل سے

دستور کے مطابق تکیہ شریف کاظمیہ میں حاصل کی۔ حضرت شاہ علی انور قلندر کے مرید تھے اور غوث وقت حضرت شاہ حبیب حیدر قلندر کے شاگرد

۱۳۹‘‘رشید تھے۔

ے سے تھے۔ صوفیا سے تعلیم حاصل تقی حیدر انوری چونکہ ایک صوفی گھرانکی لہذا خود بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ لیکن آپ نے دنیا سے قطع

تعلق نہیں کیا تھا ،آپ کو شطرنج کا بہت ذوق تھا۔ آپ نے کاکوی سے حیدر آباد کا

Page 252: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

252

رخ کیا اور وہاں جا کر فوج میں بھرتی ہو گئے۔ لیکن جنگ طرابلس کے موقع پر

ں کے خالف لڑنے سے انکار کرتے ہوئے اس مالزمت کو چھوڑ مسلمان بھائیو دیا کچھ عرصہ بعد حکومت نظام میں تھوڑی مدت کے لیے تحصیل دار رہے۔

تقی حیدر انوری شعر کہتے تھے اور عروض کے ماہر تھے۔ ان کا کالم حیدر

ے آباد کے رسائل میں شائع ہوتا اور داد پاتا رہا۔ آپ مشاعروں میں بھی شریک ہوت :آپ آمد کے شاعر تھے۔ نمونۂ کالم

زخم دل ہو اور پھر برسوں وہ اچھا بھی نہ

ہو

کوئی دشمن ہو مگر یہ حال اس کا بھی نہ

ہو

حضرت موسی تو اس کو دیکھ کر غش کھا

گئے

کوئی اس کے دل سے پوچھے جس نے

دیکھا بھی نہ ہو

ھ( بھوپال چلے ۱۳۶۶ء/۱۹۴۷میں )جناب تقی حیدر انوری آخری عمر ۱۴۰ھ میں انتقال کیا ۔۱۳۶۸ء /۱۹۴۹گئے اور وہیں

ء کو خاندان لوہارو کے ۱۸۸۵دسمبر ۲۷مرزا اعز الدین احمد خان اعظم

نواب سرامین الدین احمد خان فرخ مرزا کے ہاں پیدا ہوئے۔ والد کی زندگی میں دی گئیں۔ والد کی ،ماحول کی ہی عنان ریاست اور فوج کی ساالری انھیں سونپ

اور اساتذہ کی تربیت کا اثر یہ تھا کہ عالم طفولیت میں ہی شعر موزوں کرنے

لگے تھے۔ لیکن باقاعدہ شاعری اپنی حوروش چہیتی ،جواں مرگ ،رفیقۂ حیات دیوان ۱۴۱کی وفات کے بعد شروع کی اور دو ہی سال میں دیوان مکمل کر لیا۔

لکھی جو زبان کی ‘‘نور جہاں جہانگیر ’’نے ایک مثنوی کی تکمیل کے بعد آپ

‘‘ گلزار اعظم’’ سالست اور انداز بیان میں ادب عالیہ کا درجہ رکھتی ہے۔ مثنویبھی آپ کا تاریخی اور ادبی کارنامہ ہے۔ اس مثنوی کی انفرادیت یہ بیان کی جاتی

و ،شاہی ہے کہ شاہان مغلیہ کے محالت کے طورطریقے، بیگمات کی گفتگ

شادیوں کے رسم و رواج آپس کا میل جول اور اس دور کے تفریحی مشاغل بڑی خوش اسلوبی سے بیان کیے ہیں۔مرزا اعظم عمر کی بیالیس منزلیں طے کرنے

ء کو آنتوں کے دق کی بیماری میں مبتال ہو کر اس دنیا ۱۹۲۶اکتوبر ۳۰کے بعد :سے رخصت ہوئے نمونہ کالم

چرخ کج رفتار کا جور و ستم ہے آشکار

ہائے کیا کیا صورتیں نظروں میں پنہاں ہو

گئیں

شعر ہیں یہ آپ کے اعظم کہ ہیں سحر

حالل

میر اور سودا کی غزلیں ان پر قربان ہو

۱۴۲گئیں

Page 253: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

حضرت اقدس و اعلی ،قدر قدرت ،سکندر شوکت، داراحشمت، فریدوں

اکز الٹڈ ہائی نس، مظفر الملک و ممالک ،آصف جاہ ،نظام الملک سپہ منزلت، ہزساالر سر میر عثمان علی خان بہادر فتح جنگ، سلطانی العلوم ،آصف سابع ،یار

میر محبوب علی ۱۴۳وفا دار، جی ۔ سی۔ ایس۔ آئی ۔ جی ،سی ۔ای شہریار دکن

در آباد دکن ء کو حی۱۸۸۶اپریل ۶ء( کے ہاں ۱۹۱۱خان آصف جاہ سادس)ف ھ( اور عماد الملک ۱۳۳۵میں پید اہوئے۔ موالنا انوار ہللا خان فضیلت جنگ )ف

ء( جیسے صاحبان علم و فضل سے فیض صحبت ۱۹۲۶سید حسین بلگرامی )ف:

و تربیت حاصل ہوا۔۔۔۔ سر افسر الملک کمانڈر اور افواج سے شہسواری اور فن سن نے ان کا عہدہ لیفٹیننٹ جنرل مرزا ظفر الح۱۴۴حرب کی تربیت حاصل کی۔

۱۴۵اور فیتھ فل االئی آف دی برٹس ایمپائر لکھا ہے۔

اپریل ۵ھ /۱۳۰۳جمادی االول ۲۹سید تسکین عابدی نے تاریخ والدت ۲۹ھ میں ۱۳۰۳ یہاں اصالح طلب پہلو یہ ہے کہ ۱۴۶ء تحریر کیہے ۔۱۸۸۶

ا ۶یا ۵نکلتی ہے نہ کہ کی ۱۴۷ء ۱۸۸۶مارچ ۶یا ۵جمادی االول کی تاریخ

پریل کی۔میر عثمان علی خان نے عربی و مذہبی تعلیم نیز اردو ،فارسی اور

انگریزی کی تعلیم کے بعد لڑکپن سے ہی مختلف عسکری ، شاہی ،سیاسی

ء میں کلکتہ ۱۹۰۰،سماجی او ر علمی و ادبی سر گرمیوں میں حصہ لینے لگے۔ ء میں شاہ ایڈ ورڈ ہفتم کی تاجپوشی میں شرکت کی۔ سید تسکین ۱۹۰۳سفر کیا۔

ء کوستائیس سال ۱۹۱۱اگست ۲۹ھ/۱۳۲۹رمضان المبارک ۴عابدی کے مطابق

ء میں جنگ شروع ہوئی تو سلطنت برطانیہ ۱۹۱۴کی عمر میں تخت نشین ہوئے۔ ھ میں ایک فرمان کے ذریعے عثمانیہ ۱۳۲۶کی بھرپور مدد کی۔ ذی الحجہ

فروری ۲۴ آپ نے ۱۴۸نیورسٹی کا قیام عمل میں آیا۔ دارالترجمہ قائم کیا۔ یو

میر عثمان علی ۱۴۹ھ کو حیدر آباد دکن میں وفات پائی۔ ۱۳۸۶ء /ذیقعد ۱۹۶۷خان عثمان اردو ،فارسی اور عربی میں شعر کہتے تھے۔ اردو کا کالم بلند پایہ

تے جب کہ مضامین سادہ ہوتے اور نفیس ہے۔ زبان ستھری خیاالت بلند اور اچھو

ہیں آپ جلیل مانکپوری سے مشورہ لیتے تھے۔ آپ کا دیوان شائع ہو چکا ہے ۔حمد :و نعت او رایک غزل بطور نمونہ مالحظہ ہو

حمد و نعت دل کو خدا نے اپنی محبت سے بھر دیا

تسبیح کو زبان دی سجدہ کو سر دیا

ملسو هيلع هللا ىلصغالمان مصطفینازاں ہیں اس عطا پہ

۱۵۰ ہم کو دیا رسول تو خیر البشر دیا

غضب سے منہ چھپانا اون کا چشم شوق

سے عثماں

نگاہوں میں وہ خون حسرت دیدار کرتے

۱۵۱ہیں

Page 254: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

صوبیدار اے ڈی طالب شیخ محمد ہللا دتہ طالب نقشبندی مجددی ،جماعتی

ان میں پیر بخش ء کو کنجاہ ضلع گجرات کے کشمیری خاند۱۸۸۶فروری ۱۲کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں سے حاصل کی۔ اور پھر گجرات سے

آپ نے کنگ ایڈورڈ ’’ میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ انوار طالب میں لکھا ہے کہ

جب کہ ڈاکٹرمحمد ۱۵۲‘‘ میڈیکل کالج الہور سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لی۔میڈکل کالج سے ایل ایم ایس ایف کی منیر احمد سلیچ کے مطابق گنگ ایڈورڈ

لیکن کیمکولین کی فہرست میں آپ کا نام درج ۱۵۳ڈگری حاصل کی۔

اور نہ ہی میٹرک کے بعد مزید حصول تعلیم کا کوئی ثبوت ملتا ہے ۱۵۴نہیں۔البتہ میٹرک کے بعد ڈسپینسری میں ڈپلومہ لیا اور پھر فوج میں بھرتی ہو گئے۔

ء میں پیر جماعت علی شاہ ۱۹۰۷ء یا بحوالہ دیگر ۱۹۰۹کیونکہ جب آپ نے

۱۵۵صاحب کی بیعت کی تو آپ فوج میں مالزم تھے۔ پہلی عالمی جنگ میں دنیا کے مختلف ممالک کی سیاحت کا اتفاق ہوا ۔ جنگ کے

خاتمے پر آپ نے ریٹائر منٹ لے لی۔ تب آپ صوبیدار کے عہدے پر فائز تھے

بعد بھی اور مالزمت کے دوران بھی تبلیغ دین آپ نے ریٹائر منٹ کے۱۵۶۔کے لیے خود کو ہمیشہ مصروف رکھا۔ حتی کہ تبلیغ کے سلسلے میں ہی سفر

کنجاہ ضلع گجرات میں آپ کی ۱۵۷ء کو وفات پائی۔ ۱۹۵۸مارچ ۳کے دوران

تدفین ہوئی۔ آپ نے نظم اور نثر دونوں میں مثبت انداز سے بہت کچھ کہنے کی انوار ’’، ‘‘مکتوبات طالب’’،‘‘تصوف ’’آپ کی مطبوعات میں کوشش کی ہے۔

شامل ہیں۔ انوار طالب سے آپ ‘‘تفسیر طالب ’’او ر‘‘سیرت طالب ’’ ،‘‘ طالب

:کی شاعری کا نمونہ مالحظہ ہو اے خدا، اے خالق موت و حیات

۱۵۸اے خدا اے مالک کل کائنات

خدا سےمحمد نور ہیں ، نور

۱۵۹خدا کا نام روشن مصطفے سے

جناب اے ڈی طالب کے خطوط، تفسیر قرآن اور تصوف کے حوالے سے لکھی گئی تحریر ان کے اسلوب کا مظہر ہیں۔

ہر فعل کا کچھ نہ کچھ نتیجہ ہوتا ہے خواہ برا ہو یا بھال۔ اس نتیجے کے ’’یا باطنی اور علم ان کا ظہور کی عالمتیں اور آثار ہوتے ہیں خواہ ظاہری ہوں

خواہ ہو یا نہ ہو ۔ ایسا ہی حال ذکر کاہے۔ اگر آداب اور قاعدہ سے کرے گا اثر اس

کا اچھا اور نتیجہ او رعالمت اس کی عمدہ ہو گی ورنہ ال حاصل بلکہ خراب ہو ۱۵۹‘‘گا ۔

عزیز جے پور ی کا نام سید محمد یوسف علی جعفری، حافظ قرآن ،عزیز

سلیمانی کے لقب سے معروف جب کہ عزیز الملک سیلمانی بھی لقب تھا۔ اال ولیا آپ محقق پاکستان کے لقب سے بھی پہچانے جاتے تھے۔ محمد آبادٹونک میں

ء کو پیدا ہونے واال ۱۸۸۹مارچ ۴افضل شاہ جعفری صوابی کے گھرانے میں

Page 255: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

255

انھیں گود ماہ کی عمر( میں ہی یتیم ہو گیا۔ ان کے خاکونے ۱۰عہد شیر خواری)

ابتدائی تعلیم دینی مدرسے ۱۶۰میں لیا اور جے پور میں لے جا کر پرورش کی۔برس کی عمر میں حفظ ۹میں حاصل کی۔ قرأت و تجوید کے مراحل طے کرکے

قرآن مکمل کیا۔ دینیات ،اردو اور فارسی کی تعلیم گھر پر بزرگوں کی سر پرستی

پورسے مزید تعلیم لے کر فن حرب میں حاصل کر چکے تھے۔ مہاراجہ کالج جے منظر عارفی سے ڈاکٹر ۱۶۱و ضرب ،توپ خانے کے ایک استاد سے سیکھے۔

کو والدت تحریر کی ۱۶۲ھ بروز جمعرات ۱۳۰۶شہزاد احمد کے حوالے سے

ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب تاریخ پیدائش کا پتہ نہیں تو جمعرات کا مارچ کی تاریخ لکھنے کے بعد ۱۴زاد نے کیسے علم ہو گیا۔ ویسے ڈاکٹر شہ

ڈھائی برس کے بعد والد گرامی کے ’’ بروز جمعرات لکھا ہے مزید لکھا ہے کہ

سایۂ پدری سے محروم ہو گئے۔ اور آپ کے خالو محمد فیاض خان یوسف زئی بونیری صوبیدار توپ خانہ ال ولد تھے انھوں نے آپ کی پرورش جے پور میں

قیق کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں سندی تحقیق کی مجبوریاں دراصل تح۱۶۳‘‘کی۔

آڑ ے آتی ہیں لیکن شوقیہ تحقیق میں ان تمام تقاضوں کو پورا کرنے میں کوئی روک نہیں ہوتی ۔ عزیز جے پور ی کے تعارف میں ڈاکٹر شہزاد احمد، منظر

عارفی اور سید محمد قاسم نے ایک دوسرے کی نقل کی ہے۔ لیکن عقل کا

کم ہوا ہے۔ جیسے سید محمد قاسم نے صوابی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ استعمالصوابی صوبہ خیبر پختونخواہ میں ایک ضلع ہے جو پہلے مردان کی ایک

زرخیز تحصیل ہوا کرتا تھا۔ ڈاکٹر شہزاد احمد نے فضل علی شاہ جعفری سواتی

ایک الگ سوات شمالی عالقہ جات میں صوبہ خیبر پختونخواہ کا۱۶۷لکھا ہے۔ ضلع ہے جو قیام پاکستان کے وقت اور بعد میں بھی کچھ عرصے تک ایک

ریاست رہی پھر ایک شک اور جو ابھرتا ہے وہ یہ کہ اگر افضل علی شاہ جعفری

سید تھے تو ان کی سالی کی شادی یوسفزئی قبیلے میں کیسے ہو گئی۔ کیونکہ وہ اتھ ملحق ہے او راسی طرح تو سید زادی ہوں گی بونیر کا عالقہ سوات کے س

صوابی کے ساتھ بھی کہیں سے ملتا ہے۔ لیکن الگ ضلع ہے اسی طرح ان تینوں

ء تک ریاست ۱۹۲۰ء سے ۱۹۰۹حضرات نے لکھا ہے کہ عزیز اال ولیا ستمبر کی فوج میں اکاؤنٹنٹ صوبیدار میجر مقرر ہوئے۔ اور ترقی کرتے ہوئے مختلف

ء تک ریاست ۱۹۲۰دسمبر ۲۰ء سے ۱۹۰۹ ستمبر ۱۶۵عہدوں پر فائز رہے۔کی فوج میں اکاؤ نٹنٹ ،صوبیدار میجر ،میجر پھر ترقی کرتے کرتے مختلف

کچھ ایسے ہی الفاظ سید محمد قاسم نے نقل کیے ۱۶۶اعلی عہدوں پر فائز رہے۔

یہاں توپ خانے کی تعلیم اکاؤنٹنٹ صوبیدار میجر ،میجر اورترقی پا ۱۶۷ہیں۔ تک پہنچنا سب کچھ کسی بھی فوجی سیٹ اپ کو سمجھنے والے کر اعلی عہدوں

۱۶۸کے لیے سمجھ سے باہر ہے۔

سا ۸۶ء ۱۹۷۵نومبر ۱۲بہر حال اسی طرح کے اور بھی تضاد ہیں۔ اور باآلخر

Page 256: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

256

ل کی عمر میں وفات پائی اور النڈھی کے ریڑھی قبر ستان کے جوار میں آپ کی

۱۶۹آخری آرام گاہ ہے۔ مطابق ادب اور تاریخ میں دور درجن کتب آپ کی یادگار منظر عارفی کے

تاریخ کی نئی ’’ہیں۔ نو الکھ اشعار کے خالق ہیں۔ چند کتب کے نام درج ذیل ہیں۔

)نصف ‘‘ تصویر کے حقیقی خدوخال ‘‘ دنیا عالمگیری کی اصلی تصویرادوب عزیز )پہال، دوسرا ور آخری حصہ( ’’اخالق عالمگیری۔’’المالقات(۔

’’ ،‘‘نوادر عزیز کے درہائے سینہ بہ سینہ’’، ‘‘نسانی زندگی کا اخالقی دستورا’’

فقہ کے امام ’’ ،‘‘تصدیق شہید’’ ،‘‘اسالم آل عمران’’ ،‘‘عزیز الملک سیلمانی، ‘‘ایمان عزیز ’’،‘‘دین عزیز ’’،‘‘ انوکھے انسان کا نراال ناول’’،‘‘اعظم

حق آیات’’ ،‘‘معجز نما سیرت’’ صورت ’’ ،‘‘ہادی بر حق’’، ‘‘مبشرات

‘‘ اور اد عزیز یہ’’ ،‘‘تذکرہ خواجہ عزیز اال ولیا ء’’ تین حصے(‘‘) سرمدی وغیرہ۔‘‘نغمۂ عندلیب ’’،

عزیز اہل طاعت میں طاعت پہ نازاں

۱۷۰یہاں آسرا ہے شفیع الوری کا

مدینے جانے والے کیوں رکے کھٹکا ہی

کیا اس کو

سامنے ہر وادی پر خار ہو جائے بال سے

۱۷۱

پاک و ہند کی سیاست اور صحافت کا ایک معتبر نام سید حبیب شاہ جاللپور

ء کو پیدا ۱۸۹۰ستمبر ۵جٹاں کے سادھو محلہ میں سید سعد ہللا شاہ کے گھر

ہوئے۔ آپ کا بچپن بنوں ،ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں گزرا۔ پرائمری اور ت اعزاز کے ساتھ سکاچ مشن سکول جاللپور جٹاں سے پاس مڈل کے امتحانا

ء ۱۸۹۱ محمد عبدہللا قریشی نے والدت کے بارے میں لکھا ہے کہ ۱۷۲کیے۔

میں جاللپور جٹاں میں پیدا ہوئے۔ سب سے پہلے وہ میٹرک کا امتحان فرسٹ جب کہ اسحاق آشفتہ ۱۷۳ڈویژن میں پاس کر کے سکول میں مالزم ہو گئے۔

ء میں جنم لیا۔ مشن ہائی سکول وزیر آباد سے میٹرک کیا اور ۱۸۹۱کے مطابق

ء میں مشن سکول وزیر ۱۹۰۹ ڈاکٹر محمد منیر سلیچ نے ۱۷۴الہور چلے گئے۔ ۱۷۵آباد سے انٹر نس کا امتحان پاس کرنے کا لکھا ہے ۔

م شماری ،میڈیکل سٹور کی کلرکی اور سید حبیب تدریس ،محکمہ مرد

ء میں فوج میں بحیثیت سپاہی بھرتی ہو ۱۹۱۴صحافت میں وقت گزارنے کے بعد گئے۔ سنگاپور میں کسی گورے سے ان بن ہوئی او رآپ وہاں سے بھاگ آئے

لیکن آپ کو پکڑ کر جیل میں بند کر دیا گیا یہیں سے انگریزوں کے خالف نفرت

اوقات میں مختلف اخبارات و رسائل سے منسلک رہے۔ نے جنم لیا آپ مختلفکئی با ر گرفتا رہوئے اور سیاست میں حصہ لیا۔ اور باآلخر ایک بھرپور زندگی

۱۷۷ ۔ء کو وفات پا گئے ۱۹۵۲فروری ۲۳گزار کر

Page 257: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

یہی ۱۷۸ لکھی ہے۔ء۱۹۵۱وفیات اہل قلم میں آپ کی تاریخ وفات

جس کی بنیاد وفیات ۱۷۹ں نقل کیا گیا ہے۔ می‘‘ بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ’’ء (تاریخ ۱۹۵۱یہ غلطی سے تحریر ہو جانے والی ) ۱۸۰نامور ان پاکستان

ہے۔ جب کہ اس کا ماخذ اقبال اور گجرات ،کتبہ قبر اور محمد عبدہللا قریشی کا

میں سن وفات ۱۸۱ء ہیں ۔ البتہ ماہنامہ نقوش۱۹۵۲مضمون ہے۔ لیکن یہ تینوں ء درج ہے۔ ڈاکٹر عبدالسالم خورشید نے کشمیری میگزین ،ترمذی، رہبر، ۱۹۵۱

جیسے اخبارات کے اجراء او روابستگی کا ۱۸۲نقاش، سیاست، منشور، غازی

لکھا ہے۔سید حبیب ایک نڈر صحافی کے عالوہ اچھے مقرر، ادیب او رشاعربھی

کرۂ خاران سفر نامہ تھے۔ تراجم میں بھی آپ نے نام کمایا ۔ آپ کی کتب میں تذ

،بھگوت گیتا، منظوم اردو ترجمہ ،شری جپ جی منظوم ترجمہ ، گل انصاف )منظوم اردو ‘‘ بھگوت گیتا’’،سگ باسکرول، انمول رتن ،) سفر نامہ(

سگ ’’،‘‘گل انصاف’’منظوم ترجمہ(،‘‘)شری جپ جی’’ترجمہ(،

‘‘ چترالسفر نامہ ’’،‘‘سفرنامہ افغانستان ’’،‘‘انمول رتن’’،‘‘باسکرولرد قادیانیت میں دو جلدیں( شامل ہیں۔ سورۃ فاتحہ کا ترجمہ ‘‘)تحریک قادیان ’’،

:مالحظہ ہو

اے خالق زمانا : مغضوب ہیں جو تیرے المغضوب علیہم: اے صاحب یگانا : گمراہ ہوئے جو تجھ سے وال الضالین :

توانا اے قادر : ہے عرض تجھ سے اتنی : آمین

او المکان والے : مقبول یہ دعا ہو ۱۸۳

ء میں لکھنؤ کے نواحی عالقے ۱۸۵۳’’منشی احمد علی شوق قدوائی

جگور میں پیدا ہوئے۔ کم سنی میں باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا اعزہ کی مدد سے ء میں انتقال۱۹۲۵عربی ،فارسی اور انگریزی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔۔۔۔

اسی تعلیمی عرصے میں آپ نے قرآن مجید بھی حفظ کیا۔۱۸۴‘‘ کیا۔

شوق قدوائی کی تاریخ والدت اور وفات میں اختالف پایا جاتا ہے۔ شبیر جنوری ۳۱ھ/۱۲۷۹شعبان ۱۰رام پور میں ’’علی خان شکیب نے لکھا ہے کہ

برس ۷۳ء کو ۱۹۳۳ھ /دسمبر ۱۳۵۲ء کو پیدا ہوئے۔ اور اوئل رمضان ۱۸۶۳ مندرجہ ہندسوں کی جمع تفریق سے عیسوی لحاظ ۱۸۵کی عمر میں وفات پائی ۔

سال بنتی ہے۔ اس کے ۷۳سال اور ہجری سال کے لحاظ سے ۷۰سے عمر

ء لکھا ہے۔ جو بالکل غلط ہے ۱۸۹۳برعکس عتیق جیالنی سالک نے سن والدت : یں کہبلکہ اسے کمپوزنگ کی غلطی کہا جا سکتا ہے ۔ وہ مزید لکھتے ہ

والدت (محمد اصغر علی خان خلف محمد خدا بخش خاں کے ہاں بجنور ’’(

ء تک ریاست ۱۸۸۹ء سے ۱۸۸۷ء میں جمعدار ۱۸۸۲میں ہوئی تھی۔

ء میں ان کے چچا حافظ مبارک علی خان ۱۸۹۱اندور میں کپتان رہے۔

Page 258: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

258

جنرل اعظم خان کے بچانے میں شہید ہوئے ان کی جگہ قائم مقام منصرم

ء کو ہوا۔ ۱۹۳۳دسمبر ۲۰۔ احمد علی شوق کا انتقال ۔۔ ےنزول ہوئ

‘‘۱۸۶

حافظ احمد علی خان شوق کی ادبی خدمات کا دائرہ بھی اگرچہ وسیع ہے

لیکن آپ کا عمدہ اور بڑا کام تذکرہ کا مالن رام پور ہے۔ اس کے دیباچہ میں

:معذرت وشکریہ میں ایک دکھ کا اظہار یوں کرتے ہیں کہچھا پ کر شہر اور بیرو نجات میں تقسیم کیے تاکہ موجودہ چھ سو خط ’’

اخالف اپنے اسالف کا حال بتائیں مگر میری بد قسمتی دیکھیے کہ دس

۔ اور آج ۔وا کسی نے بھی مجھے جواب نہ دیا۔بارہ صاحبوں کے س

۱۸۷‘‘ء میں یہ ہدیہ حاضر خدمت ہے۔۱۹۲۹

ی مشہور مثنوی ہے۔ حافظ صاحب اردو کے عمدہ شاعر تھے ترانۂ شوق ان ک :نمونہ کالم

قصد گلہ نہ تھا مگر حشر میں جوش شوق

سے

ہاتھ مرا نہ رک سکا دامن یار دیکھ کر

جس طرف کی تان سنیے اک نراال راگ

ہے

شوق اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ ہے

۱۸۸

،باشندہ قصبہ بابو گور مکھ داس نشتر ولد اللہ شیودیال قوم کیشب کھتری

پہلی جنگ عظیم ۱۸۸ء میں پید اہوئے۔ ۱۸۹۴ڈین ضلع گوردا سپور )پنجاب(

ء میں آپ کو عراق بھیجا گیا۔ جہاں آپ ۱۹۱۷میں آپ فوج میں بھرتی ہو گئے۔ ء ۱۹۲۰نے اگلے موچوں میں وقت گزار کر جنگ کے خاتمے پر واپس آئے اور

ء میں آپ مراد آباد میں قیام پذیر ۱۹۳۲میں محکمہ ریلوے میں مالزم ہو گئے۔

آپ کو فن موسیقی سے بھی لگاؤ تھا۔ اور شعر بھی اچھا کہہ لیتے ۱۸۹تھے۔ تھے

تمہارے وحشیوں کو اس قدر ہے فکر

آزادی

کہ زنداں میں بھی تصویریں بناتے ہیں

بیاباں کی

اچھا ہوا جو تو شب فرقت نہ آسکا

کو ترے انتظار نے مرنے دیا نہ ہم

نواب ہوش یار جنگ سیدنا ظر الحسن ہوش بلگرامی اودھ کے قصبہ بلگرام

ء میں ۱۸۹۴میں ہردوئی کے سادات قبیلہ حاتم زئی کے سید اقبال حسین کے گھر

پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی حیدر آباد میں علوم متداولہ کی تکمیل ء میں حیدر آباد دکن سے ایک ادبی رسالہ ۱۹۱۴سال کی عمر میں ۲۰نے کی۔

ء میں رام پور پہنچے۔۔۔۔ اور بخشی فوج کے عہدے ۱۹۱۸ذخیرہ کا اجراء کیا۔۔۔۔

Page 259: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

259

ء میں حاالت سازگار ہوئے تو واپس حیدرآباد آگئے۔ او ر ۱۹۳۳پر فائز ہوئے۔

مہاراجہ کشن پرشاد کی توجہ سے محکمہ تار میں انسپکٹر ہوئے اس کے بعد ر آ باد نے انھیں مددگار معتمد افواج کے عہدے پرفائز کیا ۔کچھ عرصہ نظام حید

بعد ترقی پا کر نائب معتمد ہو گئے۔ اس کے بعد معتمد تعمیرات سیکرٹری پی

ڈبلیو ڈی بھی رہے۔ ہوش صاحب کو دربار شاہی کا تقرب بھی حاصل ہو گیا۔ اور ۱۹۰‘‘ نواب ہوش یا رجنگ کے خطاب سے نوازا گئے۔

گرامی اردو نظم اور نثر دونوں میں طبع آزمائی کرتے تھے۔ کتابی ہوش بل

سرور ’’ اور‘‘ عروس ادب’’،‘‘ہماری بت پرستیاں ’’ شکل میں ان کی تصانیفنومبر ۱۹ہے۔ آپ نے ‘‘ مشاہدات’’وغیرہ کے عالوہ ایک ضخیم کتاب ‘‘ غم

ء کو وفات پائی۔۱۹۵۵و تری بزم میں مجھے یاد ہیں وہ دن ج

گزارے

وہ جھکی جھکی نگاہیں وہ دبے دبے

اشارے

یہ ترا سکوت رنگیں یہ ادائے بے نیازی

کہیں تجھ کے اور جائیں مری روح کے

شرارے

حاجی لق لق ا اصل نام عطا محمد ،قلمی نام ابو العال چشتی اور حاجی لق

م ہے۔ ایک شخص لق ہے۔ حاجی لق لق برصغیر میں بالکل انوکھا او رنراال نا

نےعراق میں موجود ایک پرندے یہ نام انہوںاسے پڑھ کر سوچنے لگتا ہے۔ لسے مستعار لیا اور پھر اسی نام سے معروف ہو گئے۔اس کی تفصیلی وضاحت

۱۹۱‘‘۔انہوں نے اپنی ایک تحریر میں بھی کی ہے

حاجی لق لق کے والد کا نام بند وخان تھا آپ کی تاریخ والدت میں کچھ ۱۹۳ء ۱۸۹۳ اور مسعود شیخ ۱۹۲اختالف پائے جاتے ہیں۔ مثال شاکر کنڈان

اور نسرین ۱۹۶ محمد علی چراغ ۱۹۴ء ۱۸۹۴۔ ستمبر ۱۴زاہد حسین انجم

خالد مصطفی ۱۹۸ء ۱۸۹۷ اور بریگیڈئیٹر آئی آر صدیقی ۱۹۷چوہدری سن ۲۰۱ء ۱۸۹۸ وکی پیڈیا نے ۲۰۰ یاسر جواد ۱۹۹ء ۱۸۹۷۔ستمبر ۱۴

پیدائش لکھا ہے۔حاجی لق لق کے ایک شاگر رشید مسعود شیخ جو اپنے استاد کے ساتھ

ء میں حاجی صاحب کے جاری کردہ اخبار روزنامہ ۱۹۶۰کئی اخبارات اور

: ناقوس الہور سے منسلک تھے لکھتے ہیں کہحاجی لق لق مرحوم کے والد کا نام بندو علی تھا وہ پرائمری جماعت ’’

ء میں پٹی مغالں ۱۸۹۳ور محکمہ مال میں پٹواری تھے۔ حاجی لق لق پاس تھے ا

تحصیل قصور ضلع الہور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اس دور کے مطابق سات برس تک مولوی صاحب سے حاصل کی۔ اور پھر پٹی مغالں ہی سے پرائمری

Page 260: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

260

نھیں ء میں امر تسر سے فوج میں نائب صوبیدار بھرتی ہوئے۔ ا۱۹۱۴پاس کیا۔

ابتدا ہی سے انٹر سروسز پبلک ریلیشز یعنی فوج کے تعلقات عامہ میں رکھا گیا۔ ۔۔۔حاجی صاحب کا کمال یہ تھا کہ اس شعبے کے تحت انھیں عراق بھجوا دیا گیا

وہ اردو انگریزی ، عربی اور فارسی پر یکساں عبور رکھتے تھے۔ وہاں

جی صاحب کی شادی حا۔مشاعروں میں گورنر کوفہ بھی شریک ہوتے تھے ء میں عبدہللا الطہری حاجی ۱۹۳۴گورنر کوفہ کی صاحبزادی سے ہو گئی۔

صاحب کے چھوٹے بھائی نہایت اصرار سے انھیں وطن واپس لے آئے۔ انھوں

نے اندرون گلوالی دروازہ امر تسر میں رہائش اختیار کی۔ واپس آتے ہوئے وہ اسوج ۱۲حاجی صاحب نے اپنے بیوی بچے عراق ہی میں چھوڑ آئے تھے۔۔۔۔

ء ۱۹۶۱ستمبر ۲۷ء میں بکرمی ،منگل اور بدھ کی درمیانی رات یعنی ۲۰۱۸

ء کو تین بجے سہ ۱۹۶۱ستمبر ۲۷کے اول حصہ میں انتقال کر گئے۔ مرحوم کو ۲۰۲‘‘پہر جی ٹی روڈ پر قبرستان بدھو کے آوا)الہور( میں سپر دخاک کیا گیا۔

لق کے بارے ان کے ایک قریبی ہم کار اور مندرجہ باال حوالہ حاجی لق شاگرد کا ہے لیکن اس میں بھی کئی سوال اٹھتے ہیں جیسے کیا پانچ جماعت پڑھا

ہوا شخض ایک نائب صوبیدار بھرتی ہو سکتا تھا اور اسے آئی ایس پی آر میں

ڈائریکٹ لیا جا سکتا تھا عراقی حکومت کا انھیں اپنے تعلقات عامہ کے شعبے نا کیا تعلیمی معیار نہیں دیکھا گیا تھا۔ گورنر کوفہ کااپنی صاحبزادی کا میں لی

رشتہ دینا۔ عراق میں مشاعروں کا انعقاد کویا حاجی صاحب عربی میں شعر کہتے

ستمبر کی سہ ۲۷ستمبر کی رات کے حصہ اول میں انتقال کرنا او ر ۲۷تھے۔ مد منیر احمد نے سلیچ نے ستمبر کو وفات ہوئی جو ڈاکٹر مح ۲۶پہر تدفین گویا

۲۰۳تحریر کی ہے۔

حاجی لق لق کے بارے میں لکھنے والے دیگر اہل قلم نے بھی کچھ ء میں ۱۹۱۶’’اختالفی سوال کھڑ ے کر دیے ہیں جن میں چند ایک درج ذیل ہیں۔

ء میں انھیں ہیڈ کلرک بنا دیاگیا۔ ۱۹۲۴بطور مترجم فوج میں بھرتی ہوئے۔

کیپٹن کے عہدے پر ترقی دے کر ریٹائر کر دیا گیا۔ ئکے اوائل میں ۱۹۳۱ وہ ایف اے تک پڑھے ۲۰۵ء ۱۹۳۰ء تا ۱۹۱۴ پیشہ فوجی مالزمت ۲۰۴‘‘

ہوئے تھے۔ پھر فوج میں بھرتی ہو گئے۔ فوج میں انھیں مترجم کا عہدہ مال تھا ء ۱۹۳۲’’ ۲۰۷‘‘ ء میں برطانوی فوج میں شمولیت اختیار کی۔۱۹۱۹’ ’ ۲۰۶۔

ء ۱۹۱۹ ۲۰۸‘‘ ی لق لق نے فانوس خیال صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔میں حاج

میں فوج می بھرتی ہو گئے۔ تقریبا گیارہ برس کا عرصہ مشرق وسطی میں گزارا۔ ء میں روزنامہ زمیندار پھر احسان اور شہباز کے ۱۹۳۳پھر وطن واپس آگئے۔

بھرتی ہوئے تھے بروایت دیگر آپ حوالدار۲۰۹عملۂ ادارت میں شامل رہے۔

ء میں آپ کے بھائی عبدہللا اثری نہایت اصرار کر کے آپ کو وطن واپس ۱۹۳۴ یہ اور اس طرح کے بہت سے سوال ہیں جن کے جواب دینا ۲۱۰الئے۔

Page 261: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

261

لہ کی ضروری ہیں لیکن ان تضادات اور ان کے جوابات کے لیے ایک مقا

احوال خود بھی درج نے فوج میں بھرتی ہونے کا آپضرورت ہے۔ البتہ حاجی ۲۱۱‘‘ کیا ہے

بریگیڈئیڑ عنایت الرحمن صدیقی نے بھی لکھا ہے کہ ان کا عہدہ فوجی

مترجم تھا۔ آپ خودکو پیدائشی شاعر کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ نے ایک عجیب

:منطق پیش کی ہے۔ جو ہر شخض پر الگو ہو سکتی ہے۔ لکھتے ہیں کہے تھا اگرچہ اس عہد میں الفاظ سے مجھے شاعری کا شوق بچپن ہی س’’

نا آشنا تھا تاہم شاعری کرنے کا ڈھنگ میں نے نکال لیا تھا۔ جس وزن میں

ہواں ’شعر کہتا تھا علم عروض کے لحاظ سے ان کے چار رکن تھے

۔ کبھی کبھی میں مستزاد بھی کہہ جاتا تھا۔ ہواں ہواں ‘ ہواں ہواں ،ہوں

۲۱۳‘‘ہواں ہواں ، آں آں آں آں ۔

بہر حال یہ تو ان کا اسلوب نگارش تھا البتہ ابتدا میں آپ ابو العال چشتی

کے نام سے لکھا کرتے تھے لیکن جب طنز و مزاح کی جانب بقول حسرت میں متوجہ ہوئے تو حاجی لق لق کا ادبی نام اپنے لیے ۲۱۴ء ۱۹۳۴کاشمیری

ہور (جناح اور پسند فرمایا ۔ آپ کی تصانیف میں حاجی لق لق کے افسانے، )ال

ء جالندھر( آدم اللغات ۱۹۴۶ء الہور( اردو کی پہلی کتاب )۱۹۴۵پاکستان) جینوئن انگلش اردو ڈکشنری )الہور (تقدیر کشمیر ۲۱۵ء الہور( ۱۹۵۱)

ء( ۱۹۵۲ء( ،عالمی معلومات )۱۹۳۹ء الہور ( تعلقہ )۱۹۴۵ء (درانتی )۱۹۵۰)

، پرواز لق لق )دہلی (کالم لق لق ء الہور(۱۹۴۲آواز لق لق ،)دہلی( ادب کثیف ) :)دہلی (منقار لق لق حاجی لق لق کے مزاح کا شاعرانہ انداز مالحظہ ہو

الفت کا کیا مزا ہے ادھر ہو ادھر نہ ہو

ہم کو تو درد دل ہو ادھر درد سر نہ

۲۱۶ہو

حاجی لق لق کے افسانے اور مضامین میں بھی ہمیں طنزو مزاح کی ایسی

ہی چاشنی ملتی ہے۔ جو بقول ان کے ایک نئے انداز میں دیکھنے اور اس کا

اظہار ہے۔ ہم چار پارسل کلرک تھے دو ہندو ایک سکھ اور ایک مسلمان ۔ ہمارا ’’

ا کرتے تھے معمول تھا کہ ہم کھانے پینے کی چیزوں کے پارسل کھول لی

اور ان میں سے کچھ نکال کر کھا لیا کرتے تھے۔۔۔ عورت نے ایک چھٹی

میرے ہاتھ میں دے لکھا تھام میری بیٹی اللہ ھارام ساہو کار کے بیٹے کی

شادی تھی میں نے لکھا تھا کہ شادی پر آجاؤ کیونکہ بہت سی مٹھائی آئے

ایک من کے قریب گی لیکن تم نہ آئیں ۔شادی ہو چکی ہے اور ہمارے ہاں

مٹھائی کی جھوٹ )جوٹھ۔پنجابی میں( آئی ہے۔ اس میں سے دس سیر

بھیجی ہے بلٹی ارسال ہے رسیدگی سے اطالع دو۔ تمہاری ماں سنتو

۲۱۷‘‘وبھنگن۔

Page 262: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

262

بریگیڈئیڑ سید نذیر علی شاہ عسکری ڈاکٹر نوازش کا وش کے مطابق

انجم نے مقام پیدائش زاہد حسین۲۱۸‘‘ ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔۱۸۹۵ جس کی تائید ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ نے کی ۲۱۹امر تسر لکھا ہے۔

دلشاد کالنچوی نے مقام اگرچہ سیالکوٹ ہی لکھا ہے مگر پیدائش ۲۲۰ہے۔

ؤاجدادایران سے آ کر سیال آباسید نذیر علی شاہ کے ۲۲۱ء لکھی ہے۔ ۱۹۰۷مشن سکول سیالکوٹ سے میٹرک کیا پھر ایس ای کالج کوٹ میں آباد ہوئے تھے۔

۔اپریل ۱۸ء میں انڈین آرمی میں مالزم ہو گئے۔ ۱۹۱۸بہاولپور میں داخلہ لیا۔

ء مین ان کی بہاولپور کی ریاستی فوج میں بطور کیپٹن تعیناتی ہو گئی۔ ۱۹۲۶ء میں وہ بریگیڈئیڑ کے عہدے سے ۱۹۴۶سرکاری خدمات انجام دینے کے بعد

۲۲۲‘‘ائر ہوئے۔ ریٹ

فوجی ’’دلشاد کالنچوی نے یہاں بھی اختالف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ء وچ ہندوستانی فوج کوں چھوڑتے سابقہ ریاست ۱۹۲۹مالزمت کرگھدی۔

ء میں ۱۹۰۷ غور طلب بات یہ ہے کہ ۲۲۳‘‘بہاولپور دی فوج وچ شامل آتھئے

پانے کے بعد کیسے ء میں فوج سے ایک اعلی عہدہ ۱۹۲۹پیدا ہونے واال شخص سال کا عرصہ بنتا ہے۔ ۲۲فارغ ہوا جب کہ یہ کل

ء میں صحافتی زندگی کا آغاز ۱۹۳۸بریگیڈیئر سید نذیر علی شاہ نے

کے ‘‘ سرائیکی بہاولپور’’کے اجراسے کیا۔ ایک رسالہ سہ ماہی ‘‘ رود ستلج’’‘‘ سالک صادق’’ایڈیٹر بھی رہے۔ آپ نے کئی کتب تصنیف کیں جن میں

‘‘ آبادکار’’ء(، ۱۹۳۲فرنامہ انگلستان، فرانس، مصر، حجاز، عراق، ایران۔ )س

‘‘ سوغات’’ء بہاولپور( ۱۹۲۹)سپاہی کی زندگی ۔ ‘‘ سپاہی’’ء( ۱۹۳۹)الہور ۔ ‘‘ صادق دوست’’ء الہور( ۔ ۱۹۵۹)تاریخ، ‘‘ صادق نامہ’’ء( ۱۹۴۹)الہو ۔

)تشریح و ‘‘ ات غالبآی’’ھ الہور ۔ ڈرامہ( ۱۴۰۰‘‘ )لجپال’’ء( ۱۹۷۲)الہور ۔

ہے جو اشاعت ‘‘ ورثہ’’ء الہور( اور ان کی آخری کتاب ۱۹۸۸حاالت غالب، پذیر نہ ہوسکی۔

ء ۱۹۸۴اکتوبر ۶ھ / ۱۴۰۵ماہ محرم الحرام ۱۰بریگیڈیئر نذیر علی شاہ

بروز ہفتہ بعداز نماز فجر فوت ہوئے اور قبرستان باوا شیر شاہ بخاری بہاولپور آپ کبھی کبھی شعر بھی کہہ لیا کرتے تھے۔ صاحبزادہ ۲۲۴میں دفن ہوئے۔

محمد عباس کی شادی پر آپ نے جو سہرا لکھا چھوٹی بحر کی ایک خوبصورت مثال ہے۔

اور زہد : کا ہدایت اور علم

کا عبادت

عباس کے ؛ کاہو دین کی دولت

۲۲۵ اسر سہر

ڑی دلکش ہے جس میں لطافت کا ایک رنگ اردو نثر میں آپ کی تحریر ب

پایا جاتا ہے۔

Page 263: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

263

ٹوکری بھر کھجوریں، آم یا خربوزے چار آنے میں مل جانا معمولی بات

تھی۔ دو چار دوست یار چائے پینے بیٹھیں تو کم از کم پانچ کا نوٹ ذبح

کرنا پڑتا ہے ورنہ ایس ای کالج کے سن دس کے زمانے میں پانچ روپے

طلبا اپنا پورا لباس، پگڑی، کرتہ، شلوار، بشمول میں تو کالج کے

۲۲۶‘‘اخراجات بٹن سالئی وغیرہ تیار کروالیا کرتے تھے۔

ء کو پیدا ۱۸۹۶جنوری ۲۳وقار انبالوی: چنار تھل نزد انبالہ کے مقام پر

ہوئے۔ ابتدائی تعلیم پشاور میں پائی جہاں آپ کے دادا پشاور جیل کے افسر اعلی

تھے پھر مڈل سکول مالنہ اور مسلم ہائی سکول انبالہ سے فارغ التحصیل ہونے پنجابی رجمنٹ میں نائیک بھرتی ہوگئے۔ آپ ۹۰/۱کے بعد پہلی جنگ عظیم میں

قوں میں حوالدار ناظم کے نام سے معروف کا نام ناظم علی تھا جب کہ فوجی حل

جون لکھی ہے۔ نیز گاؤں ۲۳ ندیم افضل ندیم نے آپ کی تاریخ پیدائش ۲۲۷تھے۔ء لکھا ۱۹۱۸ء سے ۱۹۱۵کا نام خیار تھل اور عسکری مالزمت کا دورانیہ

اس بات پر تقریبا سب متفق ہیں کہ آپ نائیک بھرتی ہوئے تھے۔ ۲۲۸ہے۔

۲۲۹رحمن صدیقی نے لکھا ہی کہ وہ بعد میں حوالدار ہوگئے۔بریگیڈیئر عنایت الجون تاریخ والدت اور چنار تھل گاؤں کا نام لکھا ۲۲ڈاکٹر منیر سلیچ نے

کی پیدائش، مالک رام ۲۳۱ یاسر جواد نے موضع مالنہ ضلع انبالہ۲۳۰ہے۔

شعرائے ۲۳۲ء تاریخ والدت لکھی ہے۔۱۹۰۴فروریء ۲۲نے بھی مالنہ لیکن ۲۳۴ نے مالک رام کی تائید کی ہے جبکہ نفیس اقبال ۲۳۳نجاب کے مؤلفپ

نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ آپ کے مقام پیدائش اور تاریخ پیدائش کی طرح آپ کے

نام کے حوالے سے بھی مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔ زاہد حسین انجم،راقم، یاسر اور کئی دیگر اہل قلم نے جواد، بریگیڈیئر عنایت الرحمن صدیقی،خالد مصطفی

وقار انبالوی کا نام ناظم علی اور مالک رام،نفیس اقبال اور نسیم رضوانی وغیرہ

:نے کاظم علی نام لکھا ہے۔ اپ نے اپنا تخلص بھی دوبار بدال۔ لکھتے ہیں‘‘ خم خانۂ جاوید’’ کے پاس ۲۳۵میرا تخلص ابتدا میں شاکر تھا۔شاذ ’’

آگئیں وہ کہنے لگے اس تخلص کے بعد بہت کی جلدیں نجانے کہاں سے

سے شاعر ہوئے ہیں اور پیارے الل شاکر تو ابھی زندہ ہیں لہذا کوئی اور

آخر ایک دن خود مجھے انہوں نے ایک بے مثال اور ۔تخلص اختیار کرو

الجواب لیکن غیر معروف تخلص غاضف عنایت کیا۔ اسے موالنا تاجور

مجھے پسند نہیں تھا اور پھر میں نے نے نظر سے بدلنا چاہا لیکن نظر

۲۳۶‘‘وقار تخلص لکھ لیا۔

وقار انبالوی نے زندگی مختلف راستوں پر چلتے ہوئے گزاری ہے۔ ‘‘ زمیندار’’صحافت میں آئے تو نام کمایا۔ اپنی صحافتی زندگی کا آغاز روزنامہ

میں میں پروف ریڈر کی حیثیت سے کیا۔ بعدازاں پرتاب، مالپ اور ویر بھارت

نکاال۔ ‘‘ سفینہ’’فکاہی کالم لکھتا رہا پھر روزنامہ احسان میں کام کیا۔ اپنا اخبار ‘‘ نوائے وقت’’احسان کے مدیر رہے۔ وفاق کے عملہ ادارت میں رہے۔ روزنامہ

سے تقریبا بیس سال تک منسلک رہے۔

Page 264: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

264

اردو ادب میں بھی آپ نے اپنی حیثیت کو منفرد رکھا۔ آپ کی تصانیف میں

موت ’’ء(، ۱۹۴۷)نظمیں ‘‘ زبان حال’’ء( ۱۹۳۵)قومی نظمیں ‘‘ ہنگ رزمآ’’دیہاتی ’’)شاعری( ‘‘ بیان حال’’)سفرنامہ میدان جنگ(، ‘‘ کی وادیوں میں

۔ آپ کی شاعر ی کا نمونہ مالحظہ ہو۔‘‘افسانے نہ ہونا دہر میں بہتر ہمارے ہونے سے

ر ہیں ہم لوگ خراب و خستہ و بدنام و خوا

۲۳۷

عرش سے سنتا ہوں میں صل علی کی آواز

لب پہ آتا ہے جو محبوب کا نام آج کی رات

۲۳۸

ان ۲۳۹ء کو پیدا ہوئے۔۱۸۶۷کرنل بھوال ناتھ وارث مذہبا عیسائی تھے۔

کا تعلق ایک ذی عزت راجپوت خاندان سے تھا۔ کسری منہاس نے کرنل بھوال ناتھ :سی الجھن پیدا کردی ہے۔ وہ رقمطراز ہیںکے تعارف میں عجیب

ء میں ڈاکٹری کا ۱۸۸۷ابتدائی تعلیم الہور میں ہوئی پھر میڈیکل کالج سے ’’

امتحان پاس کیا اس کے بعد انگلستان جاکر انڈین میڈیکل سروس میں داخل ہوئے۔ ء کو کرنل ۱۹۳۶جنوری ۳۱ء میں لیفٹیننٹ ہوئے پھر کرنل ہوگئے۔ ۱۹۲۰

۲۴۰‘‘۔ صاحب چل بسے

:کرنل بھوال ناتھ کے تعارف میں وہ مزید لکھتے ہیں کہچونکہ وہ ایک ڈاکٹر تھے۔ ان کے نام کے ساتھ آئی ایم ایس سی، ایس ’’

آئی، سابق ڈائریکٹر میڈیکل سروس )الہ آباد( و جنرل انچارج برٹش فیلڈ

ہسپتال عراق، آنریری فزیشن ہز میجسٹی شہنشاہ جارج پنجم لکھا جاتا

۲۴۱‘‘تھا۔

کرنل بھوالناتھ اردو، پنجابی اور انگریزی زبان میں طبع آزمائی کرتے کسری منہاس ۲۴۲۔‘‘اوائل عمری سے ہی شعرو سخن کے دلدادہ تھے’’تھے۔

کی اس تحریر کہ شعرو سخن کے دلدادہ تھے سے یہ شک گزرتا ہے کہ اللہ

ل کیے ہیں وہ ممکن ہے سریرام نے ڈاکٹر بھوال ناتھ کے حوالے سے جو اشعار نقء میں ریاست ۱۸۹۹انہی کے ہوں لیکن وہاں تخلص ڈاکٹر استعمال کیا گیا ہے۔

رام پور کا مالزم اور امیر مینائی کا تلمیذ لکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر تخلص میں تو یہ

گنجائش نکالی جاسکتی ہے کہ ابتدا میں ڈاکٹر تخلص ہوسکتا ہے بعد میں وارث میں بھی شوخی اور خوش کالمی پائی جاتی ہے۔ لکھنے لگے ہوں۔ اشعار

ڈاکٹر سے نہ ہوا درد محبت کا عالج

چل دیا چھوڑ کے جس دم تپ فرقت آئی

۲۴۳

کرنل بھوال ناتھ نے پنجابی زبان و ادب میں اپنی پہچان بنائی۔ پنجابی

ری کرنا۔ نیز ان کا جا‘‘ سارنگ’’کی ادارت اور ‘‘ امرت پتر کا’’صحافت میں

ناقابل فراموش کام ہیں۔ اردو زبان ‘‘ شہر الہور دی تاریخ’’کی پنجابی تصنیف

Page 265: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

265

یادگار ‘‘ جنسی امراض اور ان کا عالج’’اور ‘‘ علم و عمل طب’’میں آپ کی

ء میں مفید ۱۹۱۵علم و عمل طب ’’ہیں۔ یہ دونوں کتابیں علم طب سے متعلق ہیں۔ ے بہادر الل موہن الل چھپی۔ ان دنوں کرنل بھوال ناتھ عام پریس میں باہتمام رائ

لوراالئی )کوئٹہ ڈویژن( میں مقیم تھے ۔۔۔ یہ کتاب ان یونانی طبیبوں کے استفادے

کے لیے لکھی گئی جو عموما انگریزی سے ناواقف اور جدید معلومات سے بے کی تحقیق کرنل بھوال ناتھ ایک محقق اور نقاد بھی تھے۔ ان ۲۴۴‘‘بہرہ تھے۔

کافرستان کے عالقے میں جو زبان آج کل بولی جاتی ہے وہ پنجابی ’’کے مطابق

کرنل بھوال ناتھ تنقیدی شعور بھی رکھتے ۲۴۵کی لہندی بولی سے ملتی ہے۔تھے ۔اس سلسلے میں عالمہ اقبال کی ایک نظم پر تنقید ان کے تنقیدی شعور کی

۲۴۶‘‘۔گواہ ہے

ری منہاس کی لفظ جیسے عسکری مدبر نے کس ۲۴۷حمنبریگیڈیئر عنایت الرء ۱۹۲۲ء میں لیفٹیننٹ ۱۹۲۰ہوئے اس جانب خیال نہیں کیا کہ تےبہ لفظ کاپی کر

میں کرنل کیسے ریٹائر ہوسکتا ہے۔ میرے خیال میں سب سے تیز پروموشن کی

ء میں ۱۹۴۶ء میں فوج میں گئے اور ۱۹۴۲مثال فیض احمد فیض ہیں جو کرنل ہوئے۔ لیفٹیننٹ

ء کو منشی سنت پرساد کے ہاں پیدا ہوئے جو ۱۸۹۶دسمبر ۴رنگ بہادر پرساد

سون پور تھانہ نیا گاؤں )سارن( ہندوستان کے باشندے تھے۔ رنگ بہادر نے کلکتہ یونیورسٹی اور بی این کالج پٹنہ سے تعلیم حاصل کی۔ پہلی عالمی جنگ

گ کے خاتمے پر آپ نے یہ جن۲۴۸کے دوران آپ فوج میں بھرتی ہوگئے۔

مالزمت چھوڑدی اور دانا پور ریلوے میں مالزم ہوگئے ۔بعدازاں سیکرٹریٹ میں مالزمت اختیار کی لیکن سے بھی چھوڑ دیا اور سیاست میں آگئے جہاں بہار

اسمبلی کے لئے آرا سے کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے۔ آپ کو شاعری کا

مشورہ سخن کرتے تھے۔ شوق بھی تھا اور نصرت آروی سے بھروسہ غیر کو ہوگا تمہاری آشنائی کا

یہی طرز وفائی ہے تو کس کے آشنا ہو تم

کیپٹن منظور حسن اردو، فارسی کے نامور شاعر، تاریخ گو، ناول نگار، مصنف،

ر سماجی شخصیت، سابق ایگزیکٹو آفیسر میونسپل کمیٹی گوجرانوالہ کیپٹن منظو

ء کو گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام موالنا عزیزالدین ۱۸۹۷حسین ۲۵عزیز تھا۔ کیپٹن صاحب کی عالمہ اقبال سے خط و کتابت بھی رہی۔ آپ نے

۲۴۹ء کو وفات پائی اور گوجرانوالہ میں دفن ہوئے۔۱۹۷۳نومبر

:کیپٹن منظور حسن کی درج ذیل کتب شائع ہوچکی ہیں )خلف )فن تاریخ گوئی(، پیام غربت )شعری مجموعہ(، مجرم عشق )ناولسلف و

ھ سن والدت نکلتا ہے۔ آپ نے ۱۳۱۴منظور حسن تاریخی نام ہے جس سے

ء میں فوج میں ۱۹۳۸ء میں اسالمیہ کالج الہور سے ایم اے فارسی کیا اور ۱۹۲۵کمیشن لیا۔ دوسری عالمگیر جنگ میں ملک سے باہر بھی خدمات سرانجام دیں۔

Page 266: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

266

ء سے ۱۹۳۸ لیکن ۲۵۰ء میں ریٹائر ہوئے۱۹۵۲بقول بریگیڈیئر عنایت الرحمن

سال کا عرصہ بنتا ہے۔ ڈائریکٹ کمیشن لینے واال ایک شخص ۱۴ء تک ۱۹۵۲عد تین سال کپتانی تک ہی کیسے سال اور قیام پاکستان کے ب ۹تقسیم سے پہلے

رہا۔ آپ نے فوج میں رہتے ہوئے تاریخ گوئی جیسے مشکل فن پر کام کیا اور آپ

ء میں شائع ہوگئی۔ ناول بھی آپ نے اسی دوران ۱۹۴۵‘‘ سلف و خلف’’کی کتاب لکھا۔ شاعری وقت کے ساتھ ساتھ چلتی رہی اور خاص طور پر آپ کا نعتیہ کالم

جسے یکجا کرنے کی ضرورت ہےبہت بکھرا پڑا ہے ہے حقیقت میں خدا کا حکم ہی حکم

حضور

ہاتھ ہے ہللا کا جو ہاتھ ہے سرکار کا

چھاگیا ابر شفاعت حشر کے میدان میں

جب عمل نامہ کھال منظور عصیاں کار کا

۲۵۱

ا۔ فن تاریخ کیپٹن منظور حسن کو نظم کے ساتھ ساتھ نثر پر بھی عبورحاصل تھ

گوئی کے حوالے سے چند سطریں آپ کے اسلوب اور خدمات کے اظہار کے :لیے مالحظہ ہوں

فن تاریخ گوئی کی تیمور کے عہد سے آہستہ آہستہ ترقی شروع ہوئی ’’

اور عہد تیموریہ کے ادیب اور شعراء کے کالم سے تاریخ گوئی کی بہت

خ گو شاعر نہیں تھے لیکن ان سی مثالیں مل سکتی ہیں۔ حافظ خود تو تاری

کے زمانے میں تاریخ گو شعراء کی کمی نہیں تھی۔ شاہ شجاع جس کا

سے ۷۸۶ھ میں ہوا۔ اس کا سال وفات حیف از شاہ شجاع/ ۷۸۶انتقال

۲۵۲‘‘ظاہر ہوتا ہے ۔

ء میں مہتاب الدین کے ۱۸۹۸ید بہاولپوری کا اصل نام جالل الدین تھا۔ آپ لب ا ہوئے۔ آپ فارسی اور اردو کے ممتاز شاعر اور مثنوی نگار ہاں جھنگ میں پید

تھے۔ نوائے تلخ )فارسی مثنوی(، درس عبرت )فارسی( اور حیات جاودانی )اردو

ء کو بہاولپور میں ۱۹۴۹مثنوی( آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔ آپ نے یکم جنوری د نے ایس یلب جالل الدین ۲۵۳وفات پائی اور قبرستان شاہ ملوک میں دفن ہوئے

ڈی ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ایف اے صادق ایجرٹن کالج سے کیا اور کوئٹہ میں جاکر ڈاکخانہ میں کلرکی سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ یہاں

کچھ عرصہ فوج میں ۲۵۴‘‘فوجی رسالے میں بھرتی ہوگئے’’سے اکتائے تو

یئری کا کورس کیا اور محکمہ گزارنے کے بعد رسول کالج سے دو سالہ اوورس انہار میں بطور سرویئر خدمات انجام دینے لگے۔

ید بہاولپوری نے شاعری میں معاشرتی ناہمواریوں کو موضوع بنایا اور لب

معاشرے پر طنز کیا۔ ید کے کالم کا ۔ لبشاعری میں انہیں بہاولپور کا اکبر الہ آبادی کہا جاتا ’’

ہے۔ ڈاکٹر سلیم ملک نے لبسید بہاولپوری ایک بڑا حصہ فارسی زبان میں

Page 267: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

267

لبسید بہاولپوری، شخصیت ’کے حاالت زندگی اور تمام دستیاب کالم کو

۲۵۵‘‘میں یک جا کردیا ہے۔‘ اور شاعری

میجر شمس الدین نواب صادق محمد خان خامس )بہاولپور( کے اتالیق شمس

میں پیدا ہوئے۔ آپ ء ۱۸۹۸آپ ’’العلماء مولوی غالم حسین کے فرزند اکبر تھے۔ کے پہلے گریجوایٹ تھے۔ فوج میں بھرپور زندگی گزارنے کے بعد ریاست

ء میں امیر ریاست بہاولپور کے پی ۱۹۲۴میجر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

ء میں ریاست بہاولپور کے سیکرٹری خارجہ بنائے گئے۔ ۱۹۲۶اےرہے اور ء تک ۱۹۴۷ء تا ۱۹۳۶ء آپ ریاست کے غیرمعمولی وزیر اور ۱۹۳۶ء، ۱۹۳۵

۔ میجر صاحب نے اپنے خاندانی حاالت پر ایک ۲۵۶‘‘وزیر تعلیم رہے۔

انگریزی میں اور ایک کتاب‘‘ ذکراالصفیا’’کتاب The Concept of Education in Islam اپنی علمی یادگار چھوڑی ہے۔ ان

کے عالوہ دو اور کتابیں بھی تصنیف کی تھیں جو مفتی انتظام ہللا شہابی کو

طباعت کی غرض سے دی تھیں لیکن ان کے چھپنے کی نوبت نہ آئی۔ میجر ۲۵۷‘‘گئے۔صاحب تو رخصت ہوئے ہی تھے مفتی صاحب بھی رخصت ہو

ء کو وفات پائی اور قبرستان شاہ ۱۹۶۸مارچ ۱۳میجر محمد شمس الدین نے

۲۵۸ملوک میں ان کی تدفین ہوئی۔اعظم کریوی کے نام، رینک، تاریخ والدت : رسالدار ڈاکٹر اعظم کریوی

اور تاریخ وفات میں عام محققین کے درمیان اختالفات موجود ہیں۔ رینک کے

نے ۲۶۰ اور بریگیڈیئر عنایت الرحمن صدیقی۲۵۹مصطفی حوالے سے خالدرسالدار لکھا ہے لیکن حوالہ نہیں دیا۔ خالد مصطفی نے عنایت الرحمن صدیقی

تحریر کیاہے ۲۶۱سے نقل کیا ہے جب کہ شاکر کنڈان )راقم( نے رسالدار میجر

سید اور حوالہ سید ضمیر جعفری سے اپنی گفتگو کا دیا ہے۔ اعظم کریوی نے ضمیر جعفری کے ساتھ صرف مالزمت ہی نہیں کی بلکہ ان سے بہت اچھے

رابطے بھی تھے لیکن ضمیر صاحب کی ایک تحریر اس کے برعکس ہے۔ وہ

:رقم طراز ہیںجب مجھے بھی حفیظ جالندھری نے اپنے ساتھ رہنے کے لیے کراچی ’’

اور گاڑی جب ڈرگ روڈ پر رکی تو یہ دیکھ کر بڑی مسرت بلوالیا تو

مسرت سے زیادہ حیرت ہوئی کہ حفیظ صاحب خود اسٹیشن پر موجود

صوبیدار کی وردی میں تھے۔ ان کے ساتھ ایک اور صاحب بھی تھے جو

حفیظ صاحب نے اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ملبوس تھے۔

۔ وہ رسالدار کہا۔ انہیں جانتے ہو کون ہیں؟ ___ یہ ڈاکٹر اعظم کریوی ہیں

۲۶۲‘‘یوی تھے۔ اعظم کر

اعظم کریوی آروی ایف سی )ریماؤنٹ، وٹرنری اینڈ فارمز کور( میں تھے۔ نیز

ہومیوپیتھک ہونے کی نسبت سے ڈاکٹر کہلواتے تھے۔ سید محمد قاسم کے ء کو رائی پرگنہ الہ آباد میں انصار ۱۸۹۸جون ۲۲فیاض احمد کے گھر :مطابق

Page 268: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

268

ء کو انہیں ۱۹۵۵جون ۲۲مذ تھا۔۔۔احمد پیدا ہوئے۔۔۔ نوح ناروی سے شرف تل

۲۶۳کراچی میں قتل کردیا گیا۔اعظم کریوی پر لکھنے والوں میں سے اکثریت کا اس تاریخ پیدائش، تاریخ وفات

نے تاریخ والدت میں ۲۶۴اور نام سے اتفاق ہے لیکن احمد حسین صدیقی

تاریخ وفات ء تحریر کی ہے۔ ماہنامہ شاعر میں آپ کی ۱۸۹۹اختالف کیا ہے اور ڈاکٹر عاکف سنبھلی نے تاریخ وفات ۲۶۵ لکھی گئی ہے۔ء۱۹۵۴جون ۲۲

لکھا ہے جو اختالفی ۲۶۶میں ماہنامہ شاعر کی تقلید کی ہے اور نام محمد اعظم

ہے نیز مقام والدت کا نام کرہ ضلع الہ آباد لکھا ہے۔ایک معروف ڈاکٹر اعظم کریوی انٹرنس تک تعلیم حاصل کرسکے تھے۔ وہ

افسانہ نگار، شاعر، ناول نگار، مضمون نگار اور ممتاز ادیب تھے۔ آپ کی

:ہے۔ ناہید اعظم کا کہنا ہے( ۱۴مطبوعات کی تعداد )افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ انہیں شاعری میں بھی ایک مقام حاصل ’’

اعظم ے۔۔۔ ہے۔ اس لیے ان کی تحریر میں ایک شاعرانہ رنگ بھی ہ

۔ شیخ و ۱افسانوی مجموعے جو شائع ہوچکے ہیں ان میں کریوی کے

۔ ۶۔ روپ سنگھار ۵۔ دکھ سکھ ۴۔ پریم کی چوڑیاں ۳۔ انقالب ۲برہمن

۔ دیہاتی گیت )دیہاتی عورتوں کے احساسات ۸۔ ہندوستانی افسانے ۷کنول

۔ دکھیا کی کہانی ۱۰۔ ہندی شاعری ۹اور جذبات کے گیتوں کا مجموعہ(

عظم کریوی کی آخری تحریر ہے جو ظلم کے خالف میری زبانی )یہ ا

۲۶۷‘‘ایک جنگ تھی جس کی بنا پر انہیں جام شہادت نصیب ہوا۔

لیکن پولیس کے مطابق غالبا کسی نے ان سے رقم چھیننے کے لیے ان پر حملہ

کیا اور ان کی مزاحمت پر انہیں قتل کرکے رقم لوٹ لی جبکہ آپ سائیکل پر آپ کی دیگر کتب کے ۲۶۸رہائش گاہ کو جارہے تھے۔ ڈرگ روڈ پر واقع اپنی

۔ پریم ۱۴ ۲۶۹۔ دل کی باتیں۱۳۔ نئے افسانے ۱۲۔ افسانے ۱۱نام یہ ہیں۔

۲۷۰پترکے عنوان ‘‘ تحفے افسانے’’مطبوعات کے عالوہ احمدحسین صدیقی نے ۱۴ان

سے ایک افسانوی مجموعے کی اشاعت کا ذکربھی کیاہے۔ جبکہ غیر مطبوعہ

ء کو موصول ہوا اس ۱۹۵۵جون ۱۹یا ۱۸’’ سید ضمیر جعفری کو جوخطمیں ۔ ان ۲۷ا‘‘میں ایک ناول کی اشاعت کا انتظام ہونے کی بشارت سنائی تھی

میں سے چند سطریں ان کی اردو ادبی خدمات میں ‘‘ ہولی’’کے ایک افسانے :اسلوب کی شناخت کے لئے حاضر ہیں

لگیں۔ وہ زمیندار جو عدالت تک جانا اپنی مقدمہ چال، تاریخیں بڑھنے ’’

کسر شان سمجھتے تھے انہی کی اوالد اب اہلکاروں کی جوتیاں اٹھانے

میں بھی کوئی بے عزتی نہیں سمجھتی تھی۔ باپ دادا کی کمائی مقدمہ

بازی میں اڑنے لگی۔ فصلیں کھڑی تھیں لیکن ان کو اتنی فرصت ہی نہ

جداری سے پہلے رام سنگھ کے کچھ ملتی تھی کہ انہیں کاٹ سکیں۔ فو

بھی گھر کھیت کٹ چکے تھے اور ان کا اناج کھلیان میں پڑا تھا وہ اسے

۲۷۲‘‘تک نہ السکے تھے۔

Page 269: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

ڈھینڈس بھوپالی کے ادبی نام سے پہچانے جانے والی شخصیت کا اصل نام قمر

آپ بہت ہی معمولی لیاقت علی خان تھا جو خاندان میں حاجی قمر کہالتے تھے۔ :کے آدمی تھے۔ شاہ عزیزالکالم لکھتے ہیں

ریاست بھوپال کی فوج میں مالزم تھا۔ بھوپال کے ہزل گو شعراء میں بہت ’’

مشہور تھا۔ حکیم معشوق علی خان جوہر کا شاگرد تھا۔ معمولی استعداد کا آدمی بدیہہ کہنے کا کمال تھا مگر استاد کی توجہ اور اصالح کی وجہ سے برمحل فی ال

رکھتا تھا۔ اس حرامی کی لحد پر رات بھر مشعل

جلے

برمزار ما غریباں نے چراغے نے گلے

۲۷۴

رہے قضا خیال کہ چاہیے کو نساںا

۲۷۵رہے رہیں گے جب نہ رسول خدا ہم کیا قاضی نذراالسالم: بنگالی ادب کے باغی شاعر کی حیثیت سے مشہور

اکثریت نے آپ کی ۲۷۶ہوئے۔ آپ کی تاریخ والدت میں اختالف موجود ہے

ضع چرولیا میں ء لکھی ہے۔ آپ ضلع بردوان کے مو۱۸۹۹مئی ۲۵تاریخ والدت پ ابھی بچپن آل۲۷۷۔ارکھ‘‘ ںدکھو میا’’ان کا عرف والدین نے ۔۔پیدا ہوئے۔

میں ہی تھے کہ والد وفات پاگئے جس پر آپ کو آٹھ سال کی عمر میں مسجد کی

خدمات سنبھالنا پڑی اور مؤذن بن گئے۔ آپ نے زندگی کو کئی رنگوں میں دیکھا۔ ء میں فوج میں بھرتی ہوگئے۔ کلکتہ سے نوشہرہ )موجودہ خیبر پختونخواہ ۱۹۱۶

ور عراق میں محاذ اور مورچے سنبھالنے کے بعد کراچی سے پاکستان(، کراچی ا

؎ 278۔ء میں فراغت پائی۱۹۲۰واپس بنگال میں حوالداری کے رینک سے :نمونہ پیش خدمت ہےے دو اشعار بطوران کی لکھی ہوئی ایک اردو حمد ک

روزی دینا کام ہے تیرا سب سے اعلی نام ہے تیرا

، ذی شان ہے ، سلطان ہے اے ستارتو رحمن ہے درد دل تیرے سوا آہ سنائیں کس کو

میرا مالک میرا خالق میرا معبود ہے تو۲۷۹‘‘اے ستار اے غفار

پروفیسر شمیم بانو نے لکھا ہے کہ محقق عبدالستار نے نذراالسالم کے اشعار

ہے جن میں سے تقریبا تین ہزار عربی، فارسی اور اردو الفاظ کی جمع بندی کی فیصد اردو ترکی اور دیگر الفاظ ہیں۔ ۱۰فیصد فارسی اور ۳۰فیصد عربی، ۶۰

فارسی کے بیشتر وہی الفاظ ہیں جو اردو میں مستعمل ہیں، کا استعمال کیا گیا ہے۔

۲۸۱ء میں دیوانگی کے عالم میں وفات پائی۔۱۹۷۶ قاضی نذراالسالم نے ۲۸۰بسم قریشی اردو، فارسی اور پنجابی کیپٹن محمد رمضان تبسم المعروف ت

ء کو ۱۸۹۹جنوری ۱۳آپ ’’ زبان کے شاعر، ادیب، مترجم اور صحافی تھے۔

Page 270: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

270

جنوری کو قلعدار ضلع گجرات میں ۱۴ بروایت دیگر ۲۸ترکھہ میں پیدا ہوئے۔

ابتدائی تعلیم اپنے والد عبدالکریم قلعداری سے حاصل کی۔ ۲۸۲‘‘پیدا ہوئےٹرکٹ سکول کنجاہ سے اور پھر نارمل سکول سرگودھا جونیئر سپیشل کالس ڈس

ء میں نارمل ۱۹۲۴ء میں منشی فاضل پاس کیا بعدازاں ۱۹۲۳سے ٹریننگ لی۔

سکول اللہ موسی سے تدریسی تربیت حاصل کرکے محکمہ تعلیم میں آگئے۔ کئی مقامات پر بشمول وزیرآباد اور زمیندار سکول گجرات میں استاد رہے۔ تھوڑا ہی

تدریسی فرائض ادا کیے اور پھر فوج میں بطور سپاہی بھرتی ہوگئے عرصہ

لیکن چند سال کے بعد یہ مالزمت بھی چھوڑ دی اور واپس آکر محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ اسی دوران آپ نے ہومیوپیتھی کی سند حاصل کی اور ساتھ ہی

ء ۱۹۴۳۔ کے مدیر بھی رہے‘‘ محب کسان’’کلینک چالنے لگے۔ نیز ہفت روزہ

میں آپ نے دوبارہ فوج کا رخ کیا اور کمیشن پایا۔ اب کے بار آپ کیپٹن کے ، ‘‘غم آشام’’عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ آپ نے کئی کتابیں تصنیف کیں جیسے

ضلع گجرات کی قلمی ’’، ‘‘ریاض مضامین’’، ‘‘جیبی لغات’’، ‘‘خم خانۂ دل’’

، ‘‘کمل ہومیوپیتھی عالجدانتوں اور مسوڑھوں کی تکالیف کا م’’، ‘‘تصویراور ‘‘ زمیندار’’، ‘‘اے خاصہ خاصان رسل’’،‘‘کالی کھانسی’’، ‘‘ذہنی معالج’’

ء کو ہمیشہ ہمیشہ ۱۹۷۳دسمبر ۱۸۔ علم و ادب کا یہ درخشندہ ستارہ ‘‘ہڑتال’’

:آپ کی شاعری کا نمونہ ۲۸۴کے لیے روپوش ہوگیا۔ یا ہےجانے ساقی نے کیا پال

درد کو زندگی بنایا ہے

عارضی کیف تھا تبسم مے

جام پی کر فریب کھایا ہے

ء کو پسرور میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۹۹حوالدار خواجہ عنایت ہللا ولد عبدالسبحان بٹ ‘‘ گیا’’مکانی کرکے بہار چلے گئے اور والد نقلابھی بچے ہی تھے کہ ان کے

’’ میں رہائش اختیار کی۔ عنایت ہللا نے گنج ہائی سکول گیا سے میٹرک کیا اور

ء میں انڈین آرمی میں بھرتی ہوگئے۔ آپ کو کلرک ٹریڈ دیا گیا آپ جلد ہی ۱۹۱۸ء میں موالنا محمد علی جوہر کی تحریک سول ۱۹۲۲حوالدار بنادئیے گئے لیکن

ماہ کی ۴ اس سلسلے میں آپ کو ۲۸۵‘‘ی کے باعث مالزمت چھوڑدی۔نافرمانسزا بھی کاٹنا پڑی اس کے بعد مستقل طور پر زندگی فالح و بہبود کے لیے وقف

کردی اور سیاسی لحاظ سے مختلف تنظیموں میں بطور ممبر اور صدر کے کام

یاد ’’کتاب ء میں انڈین پارلیمنٹ کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔ ان کی ۱۹۵۰کیا۔ ء سے قبل ہی اپنے آبائی وطن ۱۹۵۸بڑی مشہور ہوئی۔ آپ اکتوبر ‘‘ ماضی

سپاہی سید ۲۸۶ء میں وفات پائی اور یہیں دفن ہوئے۔۱۹۶۵پسرور آگئے جہاں

کی شخصیت بڑی پہلودارتھی۔ وہ بیک وقت حافظ قرآن، عالم دین، سید عبدہللا شاہنے مبلغ دین، اول نمبر کے گھڑسوار، عالی نسب، سیاست دان اور سپاہی تھے۔آپ

۱۲اعلی نشانہ باز اور ایک منتظم کی حیثیت سے بھی اپنی پہچان بنائی۔ آپ

Page 271: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

271

ء بروز بدھوار رات بارہ بجے موضع ۱۸۹۹ستمبر ۱۸ھ/ ۱۳۱۷جمادی االول

آپ ابھی بچے ہی تھے کہ آپ کے والد ۲۸۷پدھراڑ ضلع شاہپور میں پیدا ہوئے۔وفات پاگئے۔ آپ نے یتیمی کی حالت میں مختلف مساجد اور سید ہاشم دریا شاہ

ء کو عبدہللا ۱۹۱۵اکتوبر ۲۳مدرسوں میں حفظ قرآن اور تعلیم حاصل کی۔ آپ

نفنٹری بٹالین میں سانتا کروز چھاؤنی نزد ۱۰۹خان کے نام سے بھرتی ہوکر ت ء تک فوج میں وق۱۹۱۹جون ۱۷بمبئی اپنی خدمات انجام دینے لگے۔ آپ نے

گزارا۔ چونکہ سادات کو اس زمانے میں فوج میں بھرتی نہیں کرتے تھے اس لئے

آپ کو عبدہللا خان اور اعوان قومیت دے کر بھرتی کیا گیا۔فوج سے واپسی پر ایک مقدمہ میں چار سال قید ہوئی لیکن اچھے کردار کی وجہ

زمت اختیار ء میں سنٹرل جیل پشاور میں مال۱۹۲۲سے قید کم ہوگئی۔ رہائی پر

کرلی۔ بعدازاں ریلوے، پولیس، امامت، تبلیغ، خطابت، ہفت روزہ الفالح کی ادارت اور متنوع قسم کے اشغال میں مصروف رہے۔ فوج کے دوران بصرہ، کوت

اکتوبر ۲۳عمارہ، ترکی کی فائرنگ الئن وغیرہ پر فرائض انجام دیے ۔ آپ نے

ہی میں دفن ہوئے۔ء کو پشاور میں وفات پائی اور پشاور ۱۹۹۰سید عبدہللا شاہ نے اپنی یادداشتوں میں اپنا ماضی، حال، حاالت، کیفیات، تاریخ

اور گزرا ہوا پل پل یکجا کردیا ہے۔ مختلف ادارے، سہولیات، شہر، ممالک، رسم

و رواج، تہذیب و ثقافت، فوج اور سول کا کردار، جنگ کے نقصانات، سیاست کی اور نجانے کیا کچھ ان یادداشتوں میں شامل ہے۔ اس پر اونچ نیچ، مذاہب، تبلیغ

طرہ یہ کہ آپ نے بڑے سادہ اور سلیس انداز میں لکھا ہے جسے ایک کم پڑھا

کے باب ‘‘ طبی شہرت’’لکھا آدمی آسانی سے پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔ آپ اپنی :میں ایک پنڈت کے حوالے سے لکھتے ہیں

کی بیوی ہمارے گھر آئی۔ پنڈٹ کی ایک دن گرنتھی کی بیوی اور پنڈت’’

کی بیوی بیمار تھی۔ میں نے اسے دوائی دی وہ اچھی ہوگئی۔ دوسری بار

جب آئی تو میری بیوی نے دونوں کو چائے دی۔ گرنتھی کی بیوی اور

بیٹی نے چائے پی۔ پنڈت کی بیوی کہنے لگی کہ ان کے برتنوں میں

۔ گرنتھی کی بیوی کہنے گوشت پکتا ہے اس لیے میں یہ چائے نہیں پیتی

لگی۔ اری پنڈتانی! شاہ جی تو ہمارے بھگوان ہیں ان کے برتن تو برشٹ

نہیں ہوتے لیکن اس نے پھر بھی ہماری پیالیوں میں چائے پینے سے

۲۸۸‘‘انکار کردیا۔

سید عبدہللا شاہ نے چوتھے حصے کے آخر میں اعالن کیا ہے کہ

ء سے شروع ہوگا اور ۱۹۳۷ا جو پانچواں حصہ سیاست پر مشتمل ہوگ’’

انشاء ہللا تادم زیست اس سے متعلق تمام یادداشتیں قلمبند کی جائیں

۲۸۹گی۔

ہوش بلگرامی کا نام سید ناظرالحسن اور نواب ہوش یار جنگ خطاب تھا۔ آپ نہایت ذکی، ذہین اور کثیرالمطالعہ تھے۔ اودھ کے قصبہ بلگرام ضلع ہردوئی

ء میں پیدا ۱۸۹۴زئی کے سید اقبال حسین کے ہاں کے سادات قبیلہ حاتم

Page 272: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

272

تعلیم کے دوران ہی شعرو سخن کا شغف شروع ہوا اور تعلیم سے ۲۹۰۔ہوئے۔

کے نام سے ‘‘ ذخیرہ’’فارغ ہوتے ہی بیس سال کی عمر میں ایک ادبی رسالہ ء میں آپ رام پور پہنچے اور ۱۹۱۸جاری کیا جو چار سال تک شائع ہوتا رہا۔

بارہ اپنی ذہانت و طباعی کی بدولت بخشی فوج کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ تقریبا

ء کو وفات پائی۔۱۹۵۵نومبر ۱۹ آپ نے ۲۹۱سال تک رام پور میں قیام کیا۔چونکہ شاعری کا شوق تھا اس لئے دیگر مصروفیات میں سے وقت نکال

۔لیتے تھے

گی ہوش مجھ سےمری آرزوئے رسوا نہ چھپے ۲۹۲کہ مری نگاہ میں ہے مرے درد کا فسانہ

ہر اک جزو کل پر ہے اس کا عمل

۲۹۳وہ ہے علت ربط و ضبط علل

ء میں اللہ شیو الل کے ہاں قصبہ ڈین ضلع ۱۸۹۴بابو گورمکھ داس نشتر

۲۹۴تری قوم سے تھا۔گورداسپور )پنجاب( میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق کشپ کھاوائل عمری سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ جب سنجیدگی سے اس طرف آئے تو

بال کرشن قمر لکھنوی کی شاگردی اختیار کی لیکن پہلی عالمی جنگ میں فوج

ء میں عسکری مالزمت کے سلسلے میں ہی ۱۹۱۷میں بھرتی ہوگئے۔ آپ کو د فوج کی مالزمت چھوڑ دی عراق جانا پڑا۔ جنگ ختم ہونے کے کچھ عرصہ بع

اور ریلوے میں مالزمت اختیار کرلی۔ بعدازاں آپ مراد آباد میں قیام پذیر

آپ کو موسیقی سے بھی لگاؤ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے کالم ۲۹۵ہوگئے۔ :میں موسیقیت پائی جاتی ہے

افغان، نواب امی ر خان بانی ریاست لیفٹیننٹ کرنل ولی احمد قدسی نسبا

ء میں جے پور ۱۹۰۰ٹونک کے پڑپوتے، صاحبزادہ علی احمد خان کے فرزند آپ کے جد امجد نے مستقال جے پور میں سکونت اختیار ۲۹۶میں پیدا ہوئے

کرلی تھی جس کے باعث یہی آپ کا وطن قرار پایا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم یہیں

یم ایف و )علوم مشرقی (کی ڈگریاں حاصل کی اور پھر الہور سے ایم اے اور اآپ لیفٹیننٹ کرنل کے منصب پر ’’حاصل کیں۔ احترام الدین شاغل کے مطابق

فائز اور جے پور کے پشتینی تعظیمی سردار ہیں۔ دہلی و پنجاب یونیورسٹیوں،

اجمیر بورڈ، فیڈرل سروس کمیشن آف انڈیا کے پانچ سال ممتحن رہ چکے ہیں۔ صف و مجسٹریٹ رہے اور مختصر عرصہ کے لیے ریاست جے پور میں من

نیز آپ بہت سے دیگر عہدوں پر ۲۹۷‘‘ریاست سروہی میں چیف منسٹر رہے۔

بھی اعزازی و مستقال فائز رہے۔ولی احمد خان قدسی کو شعرو سخن کا ذوق طبعی تھا۔ موالنا اطہر جے پوری

، ‘‘اچھوتا سفر’’سے اصالح لیتے تھے۔ نثر میں بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔

نیز انگریزی میں محاورات باترجمہ اردو ‘‘ محاورات داغ’’، ‘‘انشائے سلمی ’’ ہندی شامل ہیں۔

Page 273: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

موالنا عبدالغفور اسالم جالندھری ایک استاد، عالم دین، پنجابی اور اردو

سن ء۱۹۰۱تھے۔ سید محمد قاسم نے شاعر، مفسر قرآن اور ایک عسکری کے :ڈاکٹر حفیظ احمد آپ کے تعارف میں رقمطراز ہیں ۲۹۸والدت لکھا ہے

ء نوں ۱۹۰۰جون ۲۱نم اوہنا دے سر ٹیفکیٹ مطابق عبدالغفور اسلم ہوراں دا ج’’

پنڈ ماناں تلونڈی تحصیل بھولتھ کپور تھلہ ضلع جالندھر وچ امیرالدین دے گھر آپ نے کچھ عرصہ فوج میں بطور حوالدار آرمی سکول آف ایجوکیشن میں "ہویا۔

۹بھی خدمات انجام دیں۔ قیام پاکستان کے بعد گجرات کو اپنا مسکن بنایا اور یہیں

ء کو وفات پائی۔ مولوی عبدالغفور نے قرآن مجید کی تفسیر ۱۹۸۱جوالئی ی میں منظوم کے نام سے تین جلدوں میں لکھی جو پنجاب‘‘ تفسیر یسیر’’

۲۹۹‘‘ہے۔

موالنا اسلم جالندھری قیام پاکستان کے بعد پاکستان تشریف الئے تو گجرات ء کو تعلیمی ۱۹۶۵دسمبر ۱۵ ہوئے۔او ٹی مقررمیں ۱پبلک ہائی سکول نمبر

مشاغل سے سبکدوشی کے بعد قرآن حکیم کی پنجابی میں منظوم تفسیر شروع کی

۳۰۰‘‘ء کو مکمل کرلی۱۹۶۷اگست ۲۱جو آپ کا مطبوعہ نعتیہ کالم ہے ‘‘ عقیدت کے پھول’’

مرے پاؤں میں زنجیر غالمی ہے تیری

شاہا

مری اک اس اسیری پر ہزار آزادیاں

۳۰۱صدقے

شیر محمد شفق شاہ جہان پوری کا تعلق شاہ جہان پور کے پٹھان گھرانے

ء میں ۱۹۲۰کے ہاں پیدا ہوئے۔ ء میں فیض محمد خان ۱۹۰۰سے تھا۔ آپ جنوری

ریاست جوناگڑھ کی فوج میں بھرتی ہوئے جہاں ترقی کرکے دفعدار کے رینک ۳۰۲ء میں پنشن پائی۔۱۹۴۶سال کی مالزمت کے بعد ۲۶تک پہنچے اور

ء کو زندگی کی بازی ہارگئے۔ آپ ۱۹۶۵جنوری ۲۴آپ کینسر کے ہاتھوں

۳۰۳ل نگر )شاہ جہان پور( میں ہوئی۔کی تدفین آبائی قبرستان ایمن زئی جال‘‘ افکار شفق’’آپ کے بیٹے اکبر نسیم شاہ جہان پوری نے آپ کا کالم

کے نام سے ترتیب دیا تھا۔ قفس میں رہ کے شفق ہے مجھے یہ اندیشہ

۳۰۴بدل گئی مری طرز فغاں تو کیا ہوگا

اجوری میں پنڈت گوبند سہائے ء کو ر۱۹۰۱فروری ۵عبدالعزیز عالئی کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام درگات شرما رکھا گیا مڈل جماعت تک تعلیم

راجوری سے ہی حاصل کی۔ کالس نہم میں میرپور میں داخلہ لیا لیکن اخراجات

ء میں نوشہرہ ۱۹۱۵کی عدم فراہمی کے باعث یہ سلسلہ ادھورا چھوڑ دیا اور ۳۰۵فوج میں سپاہی بھرتی ہوگئے۔ چلے گئے جہاں کچھ عرصہ بعد

درگات شرما یا بقول ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ درگہ دت برنال بچپن سے ہی

Page 274: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

274

اسالم کی طرف مائل تھا اور یہ بات اس کے والد کو پسند نہیں تھی۔ ایک یہ وجہ

بھی ہے کہ آپ کو گھر سے نکل کر پر فوج میں جانا پڑا لیکن دو سال کے بعد ے پر یہ مالزمت چھوڑ دی اور واپس راجوری آکر مدرس کے طور والدہ کے کہن

پر نئی زندگی کا آغاز کیا۔ آپ کا مقام والدت ڈاکٹر منیر سلیچ نے موضع ہرناالں

آپ ۳۰۶ء نقل کیا ہے۔ ۱۹۳۰تحصیل گوجرخان لکھا ہے اور قبول اسالم کا سن ۳۰۷‘‘پائی۔ھ کو وفات ۱۴۰۱ربیع الثانی ۹ء بمطابق ۱۹۸۱فروری ۱۵نے

آپ کی تدفین موہڑہ بخشیاں۔ کھوئی رتہ )آزاد کشمیر( میں ہوئی۔

آپ جب مدرس تھے تو فارسی پڑھاتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ اس میں ‘‘ نالۂ شب گیر’’اور ‘‘ جام گلگوں’’آپ کی دو تصانیف ۔تین دیوان مرتب کیے

ہجرت کے باعث مرور ایام کی نذر ہوگئیں۔ صلہ کیا مال مجھ کو میری وفات

۳۰۸لحد پر وہ آئیں مری یا نہ آئیں

ء میں چکوال میں جنم لیا اس پٹی کے لوگ فوج ۱۹۰۱احمد دین انجم نےکی مالزمت کو باعث عزت اور روزگار کا ذریعہ سمجھتے ہیں لہذا احمد دین

رتی ہوگئے۔ وہاں سے فراغت کے بعد انجم بھی حصول تعلیم کے بعد فوج میں بھ

کراچی کے ایڈیٹر اور روزنامہ ‘‘ حیات’’صحافت سے وابستہ ہوگئے۔ روزنامہ سے بھی وابستگی رہی۔ ماہنامہ تصوف کراچی کے ‘‘ مشرق’’اور ‘‘ انجام’’

اپریل ۱۱ھ / ۱۴۰۹رمضان المبارک ۴ادارتی عملہ میں بھی شامل رہے۔ آپ نے

۳۰۹اچی میں وفات پائی۔ء کو منگل کے دن کر۱۹۸۹احمد دین انجم صحافت کے ساتھ ساتھ ادب سے بھی منسلک رہے۔ شاعری

سے آپ کو شروع سے لگاؤ تھا جس میں آپ نے اپنی سادہ طبیعت اور سادہ مزاج

کے مطابق اپنے خیاالت کا اظہار کیا ہے مایوسیوں سے کھیل رہا ہوں میں ان دنوں

و کسی کے سہارے پہ چھوڑ کر امید ک

۳۱۰

ء میں الہور میں ملک محمد دین کے ہاں پیدا ۱۹۰۲کرنل مجید ملک مئی ہوئے۔ آپ کا نام عبدالمجید رکھا گیا اور آپ بعد میں کرنل مجید ملک نامور اردو

انگریزی صحافی، اردو شاعر، ڈرامہ نگار، ادیب، مدیر مسلم آؤٹ لک، الہور،

اردو مجلہ کارواں کے بانی، سول جج ٹونک، ڈپٹی ‘‘ رائز سن’’بانی ہفت روزہ ڈائریکٹر روزنامہ امروز، پاکستان ٹائمز، آرگنائزر کاؤنٹر پروپیگنڈا )انڈیا(

ڈائریکٹر آف پبلک ریلیشنز مسلم لیگ، پبلسٹی ایڈوائزر حکومت پاکستان، کولمبو

کے حوالوں سے پہچانے گئے۔۳۱۱پالن آفیسرتک الہور میں تعلیم حاصل کی اور ایل ایل بی کی مجید ملک نے بی اے

سند مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے لی۔ عملی زندگی کا آغاز انگریزی صحافت

ء میں آپ کو فوج میں تعلقات عامہ کے محکمہ میں بطور ۱۹۴۰سے کیا لیکن

Page 275: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

275

ء میں کرنل کے عہدہ سے استعفی ۱۹۴۶کیپٹن منتخب کرلیا گیا جہاں سے آپ نے

اور مسلم لیگ کے پبلک ریلیشنز کے طور پر کام شروع کردیا۔ آپ کا دے دیا داکٹر منیر احمد سلیچ نے ۳۱۲ء کو کراچی میں ہوا۔۹۷۶۱اکتوبر ۲۲انتقال

والدت اور وفات کی تاریخوں میں ادارہ یادگارغالب سے اختالف کرتے ہوئے سن

عقب گورا اکتوبر جبکہ مدفن فوجی قبرستان ۲۶ء اور وفات ۱۹۰۱والدت ۳۱۳قبرستان کراچی لکھا ہے۔

مالحظہ اس کا ایک بند گئی، کافی مشہور ہوئی۔ آپ کی ایک نظم جوگائی

ہو مجھے تجھ سے عشق نہیں نہیں

مگر اے حسینۂ نازنیں

تو کہے یہ مجھ سے اگر کبھی

ہمیں الدولعل و گہر کبھی

تو میں دور دور کی سوچ لوں

فلک کے تارے بھی نوچ لوںمیں

یہ ثبوت شوق کمال دوں

ترے پاؤں پر انہیں ڈال دوں

مجھے تجھ سے عشق نہیں نہیں

۳۱۴مگر اے حسینہ نازنیں

چند ’’میں ان کی شاعری کے عالوہ ‘‘ خرمن جاں’’مجید ملک کی کتاب

سانے اور ڈرامے بھی کے عنوان سے اپنے دور کی تاریخ، مضامین، اف‘‘ یادیںشامل تھے۔ گویا مجموعہ تحریر کا ایک بڑا حصہ نثر پر مشتمل ہے لہذا ان کی

۳۱۵‘‘ سے نثر کو منہا نہیں کیا جاسکتا۔اردو ادبی خدمات میں

ء ۱۹۰۳ستمبر ۲۷میجر مرزا مصطفی اشرف گورکانی رزمی ،مخفی : کو مرزا محمد اشرف گورگانی بزمی کے ہاں جے پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی

تعلیم جے پور ، مڈل رحیم یار خان اور میٹرک کا امتحان اینگلو عریبک ہائی

ء میں پاس کیا۔ صادق ایجرٹن بہاولپور سے ایف اے اور ۱۹۲۱سکول کلکتہ سے خالو نےء میں آپ۱۹۳۰ ۔آپ ۳۱۶علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے کیا۔

فیاض حسین اور کرنل مقبول قریشی کے ایماء پر بہاولپور آکر فوج میں شامل

ء میں آپ نے کیپٹن کے عہدے سے ریٹائرمنٹ لے لی لیکن ۱۹۳۷ہوگئے۔ دوسری عالمی جنگ میں آپ کو دوبارہ بالیا گیا اور میجر کا رینک دیا گیا تاہم آپ

انکار کردیا اور جے پور چلے گئے۔ نے انگریزی فوج کی طرف سے لڑنے سے

ء کو آپ کو ۱۸۴۸مئی ۸آپ کو گرفتار کرکے بہاولپور الیا گیا اور قید کردیا گیا۔ رہائی ملی جو کہ مشروط تھی کہ ایک سال تک آپ اپنی اراضی یعنی اشرف آباد

ضلع رحیم یار خان میں مقیم رہیں گے لیکن آپ نے زندگی کے باقی ایام وہیں

ء میں وفات پائی۔ آپ کو اپنے مکان کے برابر ہی دفن کیا ۱۹۶۴گزارے اور ۳۱۷گیا۔

Page 276: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

276

اردو ادب میں آپ ایک افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور شاعر کی حیثیت سے پہچانے

جاتے ہینآپ مخفی اور رزمی دونوں تخلص استعمال کرتے تھے۔وئے۔ منشی فاضل اور دبیر ء میں لکھنؤ میں پید اہ۱۹۰۴اختر لکھنوی

کامل کے امتحانات پاس کیے اور ایک سکول میں معلم ہوگئے لیکن کچھ ہی

عرصہ بعد تدریس کے سلسلے کو ترک کرکے انڈین آرمی میں بھرتی ہوگئے۔ قیام پاکستان پر نوکری چھوڑدی اور پاکستان ہجرت کرکے آگئے اور شہداد پور

حمدی کاٹن فیکٹری میں مالزم ہوئے اور یہاں م۳۱۸)سندھ( میں رہائش رکھی۔

ترقی کرکے منیجر بن گئے یہاں تک کہ اسی مالزمت کے دوران وفات پائی۔ :آپ کی شاعری کا نمونہ کالم

نہ دل کو چین ملتا ہے نہ شب کو نیند آتی

ہے

سراپا درد جو ہو، اس کا درماں ہو نہیں

سکتا

مسلمانوں کی اے ادب فطرت میں داخل ہے

اختر

نہ ہو مشق سخن جب تک سخنداں ہو نہیں

۳۱۹سکتا

ء ۱۹۰۴ھ بمطابق ۱۳۲۲چراغ حسن حسرت المعروف حسرت کاشمیری چونکہ یہ آپ کا تاریخی نام ۳۲۰کو بمیار نزد بارہ موال )کشمیر( میں پیدا ہوئے

یخ تار۳۲ ۲ء۱۹۰۵ یا ۳۲ ۱ء۱۹۰۲ھ( اس لیے جون ۱۳۲۲ہے )چراغ حسن

والدت غلط ثابت ہوتی ہے۔ آپ کے آباؤ اجداد ہندو تھے۔ آپ کے والد کا نام اللہ کشمیر چند تھا جنہوں نے عنفوان شباب میں اسالم قبول کیا اور اسالمی نام

حسرت نے منشی فاضل پونچھ سے کیا اور پھر راولپنڈی ۳۲۳بدرالدین رکھا۔

کی سند حاصل کی۔ انگریزی، سے، انگریزی کا اضافی پرچہ پاس کرکے میٹرک اردو، فارسی اور عربی کی استعداد کے ساتھ خانگی طور پر ایف اے کا امتحان

پاس کرنے کے بعد کچھ دنوں تک مدارس میں ہیڈ اورینٹل ٹیچر کے فرائض انجام

دیے لیکن اس پیشہ سے دلی لگاؤ نہ تھا اسی لیے کلکتہ جاکر اخبار نویسی شروع جرائد عصر جدید، نئی دنیا، جمہور اور استقالل میں فرائض کی اور مختلف مقتدر

کلکتہ سے موالنا ظفر علی خان انہیں الہور لے ۳۲۴ادارت انجام دیتے رہے۔آئے اور زمیندار کے ادارہ تحریر میں کام کرنے لگے۔ موالنا کی عدم موجودگی

ے مطابق ڈاکٹر طیب منیر ک۳۲۵میں اداریہ اور فکاہات آپ ہی لکھتے تھے۔

ء میں الہور آکر بی اے کے امتحان کی تیاری مکمل کی مگر اسباب و ۱۹۲۴ ۳۲۶نامساعدت کے باعث امتحان نہ دے سکے۔

حسرت کاشمیری نے امتیاز علی تاج، ابوالکالم آزاد اور موالنا ظفر علی

خان کی تربیت میں کام کیا جس نے آپ کے اندر کے اعلی درجے کے ادیب، عر، بہترین مصنف، عمدہ مؤرخ، مہذب مزاح نگار، خوبصورت قادرالکالم شا

Page 277: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

277

خاکہ نگار، زبان و محاورے کے استاد، فکاہات اور مضحکات کے محرر، گل

سرسبد، ادبی محفل کی جان شخصیت، علمی مجلس کے روح رواں فرد، صاف سلیس اور صحیح اردو لکھنے والے قلمکار، انشا پرداز، ایک قابل تقلید اور بے

صحافی کو باہر نکاال اور اس سے کام لیا۔ آپ نے مختلف ناموں سے اپنی باک

نگارشات یادگار چھوڑیں۔ جیسے کولمبس، کوچہ گرد، سندباد جہازی، دیپک، اخبار سے آغاز کرتے ‘ عصر جدید’الیاس ہارون کے فرضی ناموں سے لکھا۔

حسان، شیرازہ، آفتاب، نئی دنیا، زمیندار، انصاف، پھول، تہذیب نسواں، ا’ہوئے

شہباز، نیشنل کانگریس، پنچایت، جمہور، نوائے وقت، ماہ نو اور باغ و بہار جیسے اخبارات و رسائل کے عملہ ادارت میں آپ نے کام کیا۔ ریڈیو میں اپنی

ء میں آپ کو مجید ملک فوج میں لے آئے بطور ۱۹۳۹صالحیتوں کا اظہار کیا۔

مولیت اختیار کی جہاں فوجی اخبار کپتان آپ نے آرمی پبلک ریلیشنز میں شوغیرہ کی ادارت ‘‘ قومی اخبار’’اور ‘‘ پنچایت’’، ‘‘جوان’’بعدازاں ‘‘ اردلی’’

کے ساتھ ملکی اور غیر ملکی عسکریوں کی تربیت زبان بھی کرتے رہے۔ آپ

ء کو سنگاپورسے واپس آئے تو میجر کے عہدے پر ترقی ۱۹۴۷فروری ۱۲ء کو الہور میں وفات ۱۹۵۵جون ۲۶ھ / ۱۳۲۷ ذیعقدہ ۵پاچکے تھے۔ آپ نے

غلطی سے یوسف حسن نے۳۲۷پائی اور میانی صاحب میں دفن ہوئے۔

تاریخ وفات لکھی ہے۔ ۳۲۸ء۱۹۵۶چراغ حسن حسرت خاکہ نگاری میں ممتاز تھے۔ اور تحریر میں ایک

کے عنوان سے لکھے گئے خاکے ‘‘ دیوان سنگھ مفتون’’لطافت پائی جاتی ہے۔

:یں سے ایک مختصر اقتباس مالحظہ ہوماگر اس کی حیثیت گفتگو میں سامع کی ہے تو یقین کیجیے کہ آپ نے جو کچھ ’’

کہا ہے وہ اس نے نہیں سنا، یا سنا ہے تو پورا نہیں سنا۔ وہ آپ کے سامنے بیٹھا

ہے لیکن اس کا ذہن پٹیالہ، الور اور شملہ کی سیر کررہا ہے۔ ہاں! اگر آپ نے اس ڈھب کی کوئی بات کہی ہے تو وہ ذہن کو ایک جھٹکے کے ساتھ شملہ کی کے

رمارہے تھے آپ؟ بلندی سے زمین پر لے آتا ہے اور مسکرا کے کہتا ہے۔ کیا ف

۳۲۹‘‘۔میں نے نہیں سنا کا ایک شعر مالحظہ ہو۔ چراغ حسن حسرت

اب کے برسات میں بھی پی نہ سکے

۳۲۰ہم پہ روتی ہوئی برسات گئی

میجر ذوالفقار علی بخاری نامور براڈکاسٹر، اردو شاعر، ادیب، فن کار،

صداکار، ماہر موسیقی، متعدد زبانوں کے جانکار، سابق ڈائریکٹر آل انڈیا ریڈیو بمبئی، کلکتہ، بانی بی بی سی اردو سروس، اولین ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان،

جون ۴منیجر ، پاکستان ٹیلی ویژن سنٹر کراچی، زیڈ اے بخاری اولین جنرل

ء کو اسدہللا شاہ بخاری کے گھر پشاور میں پیدا ہوئے۔ آپ براڈکاسٹنگ میں ۱۹۰۴وقت گزار رہے تھے کہ اسی سلسلے میں آپ کو برطانیہ کی وزارت اطالعات

Page 278: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

278

عجیب اتفاق ہوا کی جوائنٹ براڈ کاسٹنگ کونسل میں لندن میں بھیج دیاگیا اور پھر

آپ کوچند روزہ تربیت دے کراورمیجر رینک دے کر محاذ جنگ پربھیج دیا گیا ۔ :آپ لکھتے ہیں

ہم کو بہت ہنسی آئی کہ ہم میجر کیسے ہوگئے۔ یقیناکسی نے لفظ مسٹر کو

میجر بنادیا ہے لیکن دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ غلطی نہیں۔ یہ عہدہ ہم کو

ے کہ اگر ہم کو دشمن گرفتار کرلے اور اپنی قید میں اس لیے دیا گیا ہ

رکھے تو ہم سے وہ سلوک کرے جو میجر کے شایان شان ہوتا

۳۳۱‘‘ہے۔

یہ روداد تھی آپ کے میجر بننے کی اور ایک واقعہ جو آپ نے اپنی

عسکری تربیت کے حوالے سے لکھا ہے وہ بھی اتنا ہی عجیب ہے۔ اس سے

آپ نے انگریزوں کا بے سروسامانی کے عالم میں قاری حیران بھی ہوتا ہے ۳۳۲جنگ جیتنے کو بھی حیران کن قرار دیا ہے۔

میجر اور فوج سے ساتھ صرف لندن تک رہا اور جنگ کے خاتمے پر آپ

لندن سے واپسی کے تھوڑے دن بعد ’’وردی اور رینک وہیں اتار کر رکھ آئے۔ الی سیکھی۔ ان کا بنگال کا علم اور ان کا تبادلہ کلکتہ ہوگیا جہاں انہوں نے بنگ

معیار گجراتی اور مراٹھی سے کہیں بہتر تھا۔ اس میں بے تکلف تقریر کرسکتے

ء میں جب ملک کو آزادی ملی ۱۹۴۷تھے۔ کلکتہ سے انہیں پھر بمبئی جانا پڑا۔ الغرض آپ نے زندگی گزارنے کے لیے کئی کام ۳۳۳‘‘تو وہ بمبئی میں تھے۔

ء بمطابق یکم ۱۹۷۵جوالئی ۱۲’’ افت کو پہچان بنایا اورکیے۔ ادب اور صح

۳۳۴‘‘ھ بروز ہفتہ کراچی میں ہوئی۔۱۳۹۵رجب زیڈ اے بخاری کو بیک وقت اردو، انگریزی، فارسی، عربی، پنجابی، پشتو،

بنگالی، گجراتی وغیرہ زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ آپ کو نثر اور نظم پر بھی

)موسیقی کے ‘‘ راگ دریا’’آپ کی خودنوشت، ‘ ‘سرگزشت’’یکساں عبور تھا۔ آپ کا شعری مجموعہ ہے‘‘ میں نے جو کچھ بھی کہا’’اسرارورموز( اور

یہ اور بات ہے منبر پہ جاکے کچھ نہ کہیں

خموش لوگ بال کے خطیب ہوتے

۳۳۵ہیں

لی بار ء میں پہ۱۹۱۶کرنل سید فقیروحیدالدین کرنل سید فقیروحیدالدین

حضرت عالمہ اقبال سے ملے تھے جب علی گڑھ یونیورسٹی کے طالب علم تھے اور عالمہ مرحوم کے آخری لمحوں تک ملتے رہے کیونکہ ان کے خاندانی

تعلقات بھی تھے۔ یوں تو ان کی اردو زبان کی خدمت کے حوالے سے روزگار

اور جاننے کے فقیر ایک بہت بڑی کاوش ہے لیکن حضرت اقبال کو سمجھنے لیے بھی یہ ایک عمدہ کتاب ہے۔ اس میں وہ اپنے والد فقیر سید نجم الدین کے

:حوالے سے ان کی عالمہ صاحب سے ایک مالقات کو یوں تحریر کرتے ہیںمیں ایک دن ڈاکٹر صاحب سے ملنے گیا تو کیا دیکھتا ہوں اکیلے بیٹھے ’’

میں تو سب بخیرو زاروقطار رورہے ہیں۔ میں نے کہا خیرباشد! گھر

Page 279: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

279

عافیت ہیں۔ انہوں نے جواب دیا۔ ہاں! سب بخیریت ہیں۔ میں نے پوچھا، تو

پھر آپ اس طرح کیوں رورہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے جواب دینے کی

بجائے میری طرف ایک خط بڑھادیا جو لندن سے اسی دن ان کے نام آیا

ے ڈاکٹر تھا۔ یہ خط انگلستان کے ایک پروفیسر کی طرف سے تھا جس ن

صاحب سے ان کی ایک فارسی کتاب کا ترجمہ کرنے کی اجازت مانگی

۳۳۶‘‘۔ تھی

فقیر سید وحیدالدین ولد سید نجم الدین مہاراجہ رنجیت سنگھ کے وزیراعظم

۳۳۸ء ۱۹۰۴ و بحوالہ دیگر ۳۳۷ء ۱۹۰۵فقیر سید عزیزالدین کی نسل سے

م یونیورسٹی سے بی اے کو الہور میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسل۳۳۹ء۱۹۰۶ء میں فوج میں کمیشن ۱۹۴۰کیا۔ پہلے ریلوے میں مالزمت اختیار کی لیکن

ء میں ایم بی اے کا اعزاز اور جلد ہی ۱۹۴۴ء میں میجر، ۱۹۴۳حاصل کیا جہاں

کرنل پروموٹ ہوئے لیکن تقسیم ہند پر جہاں ملکی صنعتی ترقی میں اہم کردار ادا ۱۶ی میں بھی اپنی خدمات بااحسن انجام دیں۔ آپ نے کیا وہاں مہاجرین کی بحال

ء ۱۹۶۸جوالئی ۱۴ یا ۳۴۱ء کراچی ۱۹۶۸جوالئی ۲۰ ۳۴۰ء ۱۹۶۸جوالئی

میں وفات پائی۔ آپ کی تدفین الہور میں ہوئی۔۳۴۲کو الہورجون ۲مصلح الدین احمد اسیر کاکوروی ولد کبیرالدین احمد عثمانی،

ء میں دکن گئے اور ۱۹۳۰۔ میں پیدا ہوئے کاکوری ضلع لکھنؤء کو ۱۹۰۴

روزنامہ پیام سے اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران فوج میں حوالدار کے رینک پر شامل ہوئے آپ کا

ٹریڈ کلرک تھا۔ اس عرصے میں آپ کو متعدد مقامات پر عسکری خدمات کی

ء میں وفات پائی اور کاکوری میں دفن ۱۹۸۷ع مال۔ آپ نے ادائیگی کا موق ۳۴۳ہوئے۔

مختلف موضوعات و اصناف پر طبع کی اسیر کاکوروی کو شعرو ادب

آزمائی کرتے رہتے تھےفلم کی گردش سے تصویریں بدلتی ہی

رہیں

عمر رفتہ کا نہ آیا پھر وہ منظر سامنے

۳۴۴

ء کو موضع تلونڈی راہوالی ضلع گوجرانوالہ میں ۱۹۰۴میر ہللا بخش تسنیم ۔ جنگ عظیم دوم میں پیدا ہوئے۔ ایف اے تک تعلیم حاصل کی۔ منشی فاضل کیا

فوج میں بھرتی ہوگئے اور اس دوران مختلف مقامات پر جانے کا موقع مال۔ جنگ

ء میں مرزائیت ۱۹۳۰ چونکہ آپ ۳۴۵کے خاتمے پر یہ مالزمت چھوڑ دی۔ اختیار کرچکے تھے لہذا باقی زندگی اسی میں گزاردی۔

نظارے دم بخود ہیں رنگ پھیکا ہے

فضاؤں کا

ہے خالی کیف و سرمستی سے اب دامن

Page 280: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

280

ہواؤں کا

بس اک تیرے نہ ہونے سے لٹا سب حسن

گاؤں کا

ہے سونی ہر گلی ہر کوچہ غیر آباد ہے اب

تک

یاد ہے اب تک مجھے تو یاد ہے مجھے تو

۳۴۶اب تک

ء میں منشی الیاس حسن خان ۱۹۰۵سوار محمد حسن خان صائب رامپوری مدرسہ عالیہ الہور میں منشی کے ۔تعلیم میںکے ہاں رامپور میں پیدا ہوئے

کئی ۔ درجات تک پہنچے لیکن یہ سلسلہ منقطع کرکے فوج میں بھرتی ہوگئے

ء ۱۹۷۴اپریل ۱۳اور پھر رامپور واپس آگئے جہاں کے بعد جے پور، دہلیسال ۳۴۷کو وفات پائی۔

شعری حلقوں میں مقبول تھے۔ آپ کا کالم اکثر جرائد میں شائع ہوتا رہتا تھا۔ دروبام پر طور سینا کا عالم

منور ہر اک رہگزر ہللا ہللا

یہ نیاز عشق کے انداز ناز حسن میں

معنی و الفاظ میں صائب نہیں النے کی

۳۴۸بات

بے تک رامپوری کا اصل نام عجب نور خان تھا اور عرفیت چندا پیارے

خان تھی۔ ان کے جد امجد افغانستان سے آکر رام پور میں آباد ہوئے تھے اور سال کی زندگی گزار کر ۶۵ء میں عجب نور خان پیدا ہوئے۔ آپ نے ۱۹۰۵جہاں

۳۴۹ء کو وفات پائی۔۱۹۷۰اپریل ۱۷مشغلہ اچھا ہے بے تک اپنی شہرت کے

لیے

وہ ہو آتی نہ کو جس شاعری

۳۵۰ بنے گر شاعر

ء بروز ۱۹۰۸دسمبر ۲۰حوالدار باقی صدیقی: محمد افضل ولد احمد جی آپ ۳۵۱اتوار سہام قریشی قوم میں موضع سہام ضلع راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔

۲۰سن والدت میں ایک مختصر سا اختالف دیکھنے میں آیا ہے۔ جیسےکے نجمی صدیقی نے ان کے فوج میں جانے اور مالزمت کے ۳۵۲ء۱۹۰۹دسمبر

۳۵۳‘‘میں بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔بارے

ء تک انہوں ۱۹۷۲جنوری ۸ء کے بعد ۱۹۷۱دسمبر ۱۶قمر رعینی کے مطابق اس کا حال وہی لوگ بہتر جانتے ہیں نے جس اذیت اور کرب سے دن گزارے

۳۵۴‘‘جنہوں نے ان دنوں میں انہیں دیکھا ہے۔

باقی صدیقی نے اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں اپنا ادبی اثاثہ چھوڑا ہے۔

Page 281: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

281

آنچ آئی ہے صبا سے باقی

کیا کوئی گل ہے شہ ربار ابھی

اشرف علی خان لکھنؤ میں پیدا ہوئے سردار خورشید علی خان ولد سردار

جہاں آپ کے اجداد کابل )افغانستان( سے آکر آباد ہوئے تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم ء میں آپ اپنے خاندان کے ہمراہ ۱۹۱۹مشن سکول قیصر باغ لکھنؤ میں پائی۔

ء ۱۹۳۱دہلی منتقل ہوگئے۔ دہلی، شملہ اور علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی اور

یں کمیشن لے لیا ۔ تقسیم ہند کے بعد آپ پاکستان آگئے۔آپ کا کالم میں فوج م مختلف ادبی رسائل میں شائع ہوتا رہا جو بکھرا پڑا

دیکھیے خورشید کیا منظر ہو اب آفاق کا

خاک کے ذروں پہ تاروں کی نظر ہوتی

۳۵۵نہیں

خان بہادر شہزادہ اعظم میجر جنرل / کمانڈر انچیف نواب میر حمایت علی

ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۹۰۷ھ بمطابق ۱۳۲۵محرم ۸جاہ، ولی عہد دولت آصفیہ

سپہ گری میں فارسی، عربی اور انگریزی کی باضابطہ تعلیم حاصل کی۔ فنون ۔ آپ کو ملک معظم نے افواج آصفی کے کمانڈر انچیف خاص مہارت حاصل کی

آپ نے ۳۵۶برار کا لقب عطا کیا۔ کے عہدے سے سرفراز فرمایا اور پرنس آف

ء کو وفات پائی۔۱۹۷۰اکتوبر ۷ آپ فکر سخن فرماتے تھے۔

زمزم و کوثر و تسنیم سے تو اے اعظم

ھولے منہ اپنا ذرا حمد خدا سے پہلے

۳۵۷

میجر جنرل معظم شاہ نواب شجاعت علی بہادر شجیع سلطان دکن میر

۱۵۔ ء کو پیدا ہوئے۱۹۰۷دسمبر ۲۱ھ/ ۱۳۲۵ذیقعد ۱۵ہاں عثمان علی خان کے

ء کو آپ نے وفات پائی۔۱۹۸۷ستمبر ۔ آپ کا ایک دیوان بھی مرتب ہوچکا ہے۔ فکر شعر خوب فرماتے تھے

کیا ہے نسبت کسی خوشی کو شجیع

۳۵۸غم الفت کی شادمانی سے

سید صفدر حسین آصف الجعفری میرٹھ کے ایک معزز زمیندار گھرانے

ء ۱۹۰۸اگست ۸میں سید محمد حیدر حسن جعفری آنریری مجسٹریٹ کے گھر کو پیدا ہوئےآپ دوسری جنگ عظیم میں فوج میں بھرتی ہوگئے اور نگر نگر

ء میں بھارت سے ہجرت کی اور پاکستان آکر خیرپور ۱۹۵۱پھرتے رہے۔ آپ نے

وفات پائی۔ کراچی میں ء کو ۱۹۸۴جوالئی ۱۴ آپ نےیں سکونت اختیار کی۔ م ۳۵۹ آپ کے دو شعری مجموعے ہیں۔

وہ آصف گر کے قدموں پر مرا بے ہوش

ہوجانا

Page 282: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

282

وہ گھبرا کر ہوا کرنا کسی کا اپنے دامن

۳۶۰سے

ھئے۔وہ دیک گئی نکالی جوصفدر حسین کی جو تاریخ وفاتڈاکٹر کرگئے بزم عزا میں صف منبر پر قضا

وہ مہ اوج سعادت نامور صفدر حسین

۳۶۱ھ۱۴۰۰ء ۱۹۸۰

اء میں پیدا ۹۰۸پنڈت روپ چند موضع ہنیسر تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی میں

۔آپ ہوئے۔ میٹرک کا امتحان سناتن دھرم ہائی سکول راولپنڈی سے پاس کیا تھے۔سوشلسٹ ریپبلکن آرمی میں شامل

۳۶۲۔پایا جاتا ہےپنڈت روپ چند کی شاعری میں وہی سپاہیانہ طمطراق پست کر ڈاال ہے نقالوں نے لوگوں کا مذاق

جانے کیوں ایمان کا بھی خون پانی ہوگیا

۳۶۳

فغانستان ء کو ا۱۹۰۹جنوریء ۳بھٹناگر ساز سکندری میجر رشی ناگیش

ء میں الہور ۱۹۲۸میں کابل کے مقام پر پیدا ہوئے۔ لڑکپن میں ہندوستان آگئے اور سے سینئر کیمبرج کا امتحان پاس کرنے کے بعد انگلستان چلے گئے جہاں

ء میں فوج میں ۱۹۳۹کیمبرج یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ اور ہندوستان آکر

اعری کا شوق پیدا ہوا قیام الہور کے دوران اردو ش ۳۶۴۔کمیشن لیا ہر قدم اک رنج نو ہے میزباں

۳۶۵غم کدہ ہی اک میری جاگیر ہے

سپاہی بدرالدین بدر سپاہی بدرالدین بدر پاہڑیانوالی تحصیل پھالیہ ضلع

آپ کی سکولنگ تیسری جماعت تک ۳۶۶ء میں پیدا ہوئے۱۹۰۹گجرات میں

سپاہی رینک کی مدت مالزمت اورآپ فوج میں بھرتی ہوگئے۔ ۔بعد ازاں رہی ء تک برٹش آئل ۱۹۶۱ء سے ۱۹۴۶ آپ نے ۳۶۷پوری کرکے پنشن لی۔

کمپنی کویت میں مالزمت کی جب کمپنی کویت سے برطانیہ منتقل ہوگئی تو آپ

۳۶۸واپس پاکستان آگئے۔ آپ نے شائع ہوئے‘ ‘خیابان بدر’’اور ‘‘ جمال بدر’’شعری مجموعے دوآپ کے

ء کو آپ نے اس جہان فانی کو الوداع کیا۔ ۱۹۸۸ستمبر ۱۱ غالب ذہن رسا کو جاکے یہ کہہ دو بدر

تیرے ہم سر تو نہیں لیکن ترے ہم دوش

۳۶۹ہیں

راجا غالم محمد کھجولہ ضلع چکوال میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کے حصول کے

۔ راجا حیدرآباد دکن میں بھی قیام رہا ہوگئے اس سلسلے میں بعد فوج میں بھرتیرمضان المبارک ۲۹ء میں مستقل طور پر الہور منتقل ہوگئے۔ ۱۹۵۹غالم محمد

ء کو وفات پائی اور قبرستان گلشن راوی الہور میں دفن ۱۹۸۸مئی ۱۶ھ / ۱۴۰۸

فدا حسین فدا نے آپ کی تاریخ وفات کہی۔ہوئے

Page 283: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

283

سال وفات از سر حسرت فدا کہو

۳۷۱واصل بحق غالم محمد ہوا ہے آہ

ھ ۱۴۰۸ = ۸ +

اب ’’آپ کی ایک ایسی کاوش ہے‘‘ امتیاز حق’’راجا غالم محمد ایک محقق تھے۔

ایک اور مسئلہ توجہ طلب ہے کہ انگریزوں کے یہ مخالف فوج اکٹھی کرتے

رہے۔ لوگوں سے ٹیکس وصول کرتے رہے۔ فوج لے کر اسالم کے تحفظ کی جنگ لڑنے سکھوں اور سرحدی مسلمانوں کے عالقے کی طرف چل پڑے۔

الت میں کبھیطویل سفر ایک مدت میں انہوں نے طے کیا۔ انگریز ان تمام معام

۳۷‘‘۔ان سے نہیں الجھےمیجر کوکب شادانی کے مجموعۂ کالم نوائے وقت کا پیش لفظ مالحظہ ہو۔

ہر قاری خود فیصلہ کرسکتا ہے کہ جس کتاب کا پیش لفظ اتنا خوبصورت اور

جاندار ہے وہ مجموعۂ کالم کتنا حریت پرور ہوگا۔ر پاتا میں اپنے قلب میں اک مستقل ناسو

ہوں

زباں کو اب بیان راز پر مجبور پاتا ہوں

۳۷۳

ء ۱۹۱۰مارچ ۱۱پروفیسر سید محمد ایوب علی المعروف کوکب شادانی

کو نگینہ ضلع بجنور کے مقام پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام سید محمد اسماعیل

میشن لیا ء میں فوج میں ک1۹۴۰ ۳۷۴ء میں الہور سے ایم اے کیا۔۱۹۲۹تھا۔ اور بنگلور چلے گئے۔ تقسیم ہند تک یہ مالزمت کی لیکن قیام پاکستان پر سب

آپ نے کراچی ۳۷۵کچھ چھوڑ کر پاکستان آگئے اور کراچی میں رہائش رکھی۔

۳۷۶ء کو وفات پائی اور عزیزآباد قبرستان میں دفن ہوئے۔۱۹۹۴نومبر ۹میں خدمت اور سالست کو اجاگر کرنے ایک مختصر سا اقتباس ان کی ادبی و علمی

:کے لیے پیش ہےارم ذات العماد: کشک سے آگے ایک عظیم قوم آباد ہے اور ان دونوں ’’

کے درمیان فرات جیسا ایک بڑا دریا بہتا ہے جو آگے چل کر بحر روم یا

‘ ارم ذات العماد’بحر نیطس میں جاگرتا ہے۔ اس بڑی قوم کا دارالحکومت

ے قریب جو سمندر ہے اس کے متعلق عجیب و غریب کہالتا ہے۔ یہاں ک

۳۷۷‘‘بلکہ مضحکہ خیز حکایات بیان کی جاتی ہیں۔ ۔

ادبی ۳۷۸ابر سیمابی: ڈاکٹر رانا گنوری نے دیسراج نام اور ابر سیمابی

حوالہ لکھا ہے جبکہ نور احمد میرٹھی نے دیش راج شرما نام اور ابر ء کو دھول کالں )جاللپور جٹاں( ۱۹۱۰نومبر ۳ لکھا ہے۔ آپ ۳۷۹تخلص

جوالئی ۲۳۔ لد کا نام شری اننت رام شرما تھاپاکستان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے وا

ء کو فوج سے ڈسچارج ۱۹۴۷جنوری ۱۶ء کو فوج میں بھرتی ہوگئے اور ۱۹۴۳جوہر دیوبندی کے مطابق فوج کی مالزمت سے علیحدہ ہونے ۳۸۰ہوئے۔

ابر ۳۸۱کیتھل ہریانہ میں بطور ٹیچر مالزم ہوگئے۔کے بعد ہندو ہائی سکول

Page 284: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

284

حضرت سیماب اکبر آبادی کے تالمذہ میں سے تھے۔ بدھ پرکاش گپتا جوہر

جبکہ ڈاکٹر رانا ۳۸۲لکھا ہے۔ء۱۹۶۳دیوبندی نے آپ کی وفات کا سن بوجہ عاللت فروری ’’گنوری نے تفصیل بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے کہ

ء کو کیتھل میں ان کا ۱۹۶۷اگست ۱۷ء میں ریٹائر کردئیے گئے اور ۱۹۶۷

۳۸۳انتقال ہوگیا۔موالنا الحاج کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری ممتاز اردو انگریزی

ادیب، مترجم، پیر طریقت، خلیفہ سید محمد ذوقی شاہ، دفاعی امور، تاریخ، مذہب

ء میں ۱۹۱۰مؤلف ’’اور تصوف وغیرہ پر متعدد کتب کے مصنف، مترجم اور ار خان میں محمد بستی مہر کالو سیال، ہللا آباد تحصیل لیاقت پور ضلع رحیم ی

بی اے کرنے کے بعد فوج میں ۳۸۴‘‘عبیدہللا شیخ کے ہاں پیدا ہوئے۔

و ۳۸۵ کو انڈین ملٹری اکیڈمی دہرہ دون سےء۱۹۳۳شمولیت اختیار کی اور آپ نے ۳۸۶ میں بہاولپور اسٹیٹ فورسز میں کمیشن پایا۔ء۱۹۳۵بروایت دیگر

علمی و ادبی کام کیا۔ آپ کی تدفین اپنے ء تک بھرپور۱۹۹۵اپریل ۲۱اپنی وفات

گاؤں میں ہی ہوئی۔ نمونۂ تحریر مالحظہ ہو۔اولیائے کرام نے اپنی کتابوں میں حجابات جو بندہ و موال کے درمیان "

حائل ہوتے ہیں ان کی تین اقسام فرمائی ہیں۔ اول: حجابات ظلمانی ،جو

ت نورانی، جو کشف معصیت یعنی گناہوں سے پیدا ہوتے ہیں۔ دوم: حجابا

و کرامات کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ سوم: حجابات کیفی، جو اس لذت

کی وجہ سے بندہ اور موال کے درمیان حائل ہوجاتے ہیں جو سالکین کو

۳۸۷‘‘قرب حق تعالی یعنی فنا فی ہللا میں محسوس ہوتی ہے ۔

۔ پیدائش: یکم مولد اکال گڑھ، ضلع گوجرانوالہ پنجاب’’کیپٹن ن۔م۔راشد ، ایم اے اکنامکس گورنمنٹ کالج الہور ء، خاندان راجپوت جنجوعہ۱۹۱۰اگست

ء۔ شاعری سات برس کی عمر میں ایک ہجو سے شروع کی۔ پھر کچھ ۱۹۳۲

۳۸۸‘‘۔لیں اور انگریزی نظموں کے ترجمے،حمدیں اور نعتیں لکھیں۔ غزنومبر ۹دائش جمیل جالبی نے نذر محمد راشد )ن۔م۔راشد( کی تاریخ پی

لکھا ہے۔ کنور اخالق محمد شہریار نے ۳۸۹ء اور مقام گوجرانوالہ ۱۹۱۰

ن۔م۔راشد کے اپنے حوالے کو معتبر گردانا اور ان کی ابتدائی تحریروں کے :حوالے سے جان کاری دی ہے کہ

تھی جو سات آٹھ برس کی عمر میں ‘‘ انسپکٹر اور مکھیان’’پہلی نظم ’’

۔ نذر محمد خضر عمر ں نے اپنا تخلص گالب رکھا تھالکھی گئی ۔۔۔ انہو

)تاریخی نام( اور بعض دفعہ اس کے ساتھ راجپوت جنجوعہ کا اضافہ بھی

ہوتا تھا کچھ عرصے تک راشد وحیدی کے نام سے بھی مضامین اور

نظمیں لکھیں۔ ایک آدھ غزل خاطف جبلپوری کے نام سے بھی شائع ہوئی

الہی چشتی کو فارسی شاعری سے عشق ۔۔۔ راشد کے ولد راجہ فضل

۳۹۰‘‘تھا۔

Page 285: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

285

ء کو آپ نے لندن میں وفات پائی۔ آپ کی نعش کو جنوبی ۱۹۷۵اکتوبر ۹

۳۹۱‘‘لندن کے برقی شمشان میں جالدیا گیا۔ کسی سے دور یہ اندوہ پنہاں ہو نہیں سکتا

خدا سے بھی عالج درد انسان ہو نہیں

۳۹۲سکتا

ء میں گوالیار میں پیدا ہوئے۔ آپ کے ۱۹۱۰نعام الرحمن انعا م گوالیاری اوالد آزاد محمد ریاست گوالیار کے وکیل دربار تھے جو اس وقت کا بڑا اہم عہدہ

تھا۔

ء میں آپ فوج میں بھرتی ۱۹۴۰دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو جنگ کے خاتمے ہوگئے اور جنگ کے دنوں میں مختلف مقامات پر تعینات رہے۔

ء میں آپ نے ہجرت ۱۹۴۷ء میں یہ مالزمت ترک کردی۔ نومبر ۱۹۴۶کے بعد

وفات پائیء کو ۱۹۹۶جنوری ۲۰نےآپ ہوئے۔ کی اور کراچی میں رہائش پذیر ۳۹۳اور عزیز آباد قبرستان کراچی میں مدفون ہوئے ۔

بھی شائع ہوچکا ہے۔‘‘ نغمہ زیر لب’’آپ کا ایک مجموعہ کالم حبیب حق کا یہاں مل چکا ہے جس کو

خطاب

۳۹۴بروز حشر وہی شافع امم ہوگا

اردو، فارسی، پنجابی اور انگریزی کے معروف ادیب، نقاد، محقق، ناشر، ء( مشیر قومی ۱۹۶۵۔۷۰مرتب، اسکالر، ماہر تعلیم، پرنسپل اورینٹل کالج الہور )

ء ۱۹۱۰اپریل ۴برائے تاریخ و ثقافت ، فالئٹ لیفٹیننٹ ڈاکٹر محمد باقر کمیشن

اپریل ۳۹۶ الہور بنگلہ، الئل پور ۳۹۵کو فیصل آباد کے قریب ایک بستیء ۱۹۰۹ ؎ یا ۳۹ء گجرات ۱۹۱۰اپریل ۳۰ یا ۳۹۷ء فیصل آباد ۱۹۱۰

۔ ۴۰۰ میں پیدا ہوئے۔ء۱۹۰۹یکم جنوری ۳۹۹ضلع فیصل آباد

ء کو پیدا ہوا تھا مگر ۱۹۱۰اپریل ۴کی اطالع کے مطابق والد صاحب ء درج ہونا شروع ہوگئی ۱۹۰۹میٹرک کے فارم میں تاریخ پیدائش یکم جنوری

۴۰۱۔

آپ کے والد گرامی کا نام حاکم دین تھا جو انگریزیت کی زد میں آکر حکیم ء میں رائل انڈین ائیر فورس میں کمیشنڈ افسر ۱۹۴۰ آپ دین بھی لکھا جانے لگا۔

ء میں فالئٹ لیفٹیننٹ کے عہدے سے ۱۹۴۶کی حیثیت سے شامل ہوئے اور

ورسٹی میں لیکچرر شپ اختیار کرلیمالزمت کو خیرباد کہہ کر پنجاب یونی ۴۰۲‘‘۔

مفتی علی الدین کی تصنیف ہے جس کا نسخہ انڈیا آفس ‘ عبرت نامہ’

قصر ’ئبریری لندن سے منگواکر شائع کیا گیا۔ مولوی احمد علی کا نسخہ ال

سید مہر حسن ‘ تذکر زبدۃ المعاصرین’دانشگاہ پنجاب سے لیا۔ ‘ عارفاں

الحسنین شیرازی، تذکرہ خطاطین، واحد محفوظ نسخہ شاہ ایران محمد

Page 286: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

286

معارب ’اور‘ تاریخ کنجپور’رضا کے کتب خانے سے لے کر شائع کیا۔

۴۰۳‘‘بھی ترتیب دے کر چھاپے گئے۔‘ ینالخاشع

فقیر نے بساط بھر ہر اس آدمی سے استفادہ کیا جس میں اس نے کوئی "

خوبی دیکھی۔ اس سلسلے میں اپنے پرائمری کے استاد کو اس کی

ناتاریخی حیثیت کے باوجود بڑا آدمی مانتا ہوں اور ان پر ایک مفصل

شی پرتاپ رائے( نے زندگی مضمون بھی لکھ چکا ہوں کیونکہ انہوں )من

میں عزم اور حوصلہ سے کام لینے کا درس اپنے انداز میں مجھے بچپن

۴۰۴‘‘میں دیا۔

ء کو اپنی بہت سی ان مٹ یادیں ۱۹۹۳اپریل ۲۵یہ فقیر باش عظیم شخص چھوڑ کر ہمارے سے رخصت ہوگیا اور ماڈل ٹاؤن الہور کے قبرستان میں منوں

مٹی میں جا سمایا۔

ء کو اعجاز رسول کے ہاں ۱۹۱۰نومبر ۱۱ایئرمین محمد عتیق صدیقی ۔ دوسری جنگ عظیم کے شروع میں بارہ بنکی )یوپی( میں پیدا ہوئےردولی ضلع

۔ ا ٹریڈ دیا گیاانڈین ایئرفورس میں ایئرمین بھرتی ہوگئے جہاں آپ کو کلرک ک

۴۰۶ انڈین آرمی پبلک ء کے اوائل میں محمد عتیق صدیقی کو ۱۹۴۵اپریل

ریلیشنز کے اخبار اور ریڈیو فوجی سے منسلک ہوتے ہی بیرون ملک

۴۰۷‘‘عراق کی راجدھانی بغداد کی جانب سفر کرنے کا حکم ہوا۔

ء تحریر کی ہے ۱۹۱۲دسمبر ۲۳نندکشور وکرم نے آپ کی تاریخ پیدائش

ء ۱۹۸۲فروری ۷ آپ نے ۴۰۸اور والد کی طرف سے پکا نیشنلسٹ لکھا ہے۔

نئی دہلی میں ‘‘ اوکھال’’کو نئی دہلی میں وفات پائی اور بٹلہ ہاؤس قبرستان ۴۰۹‘‘مدفون ہوئے۔

لیفٹنٹ کرنل فیض احمد فیض کی اختالفی والدت کی تاریخوں سے اجتناب

ء ۱۹۱۱فروری ۱۳کرتے ہوئے ان کے اپنے الفاظ میں بلدیہ کے کاغذات میں مشہور زماں ۔ضع کاال قادر میں پیدا ہوئے مو ۴۱۰‘‘تاریخ پیدائش درج ہے۔

جناب مولوی سید میر حسن صاحب سے ساتویں جماعت میں صرف و نحو پڑھی۔

‘‘۴۱۱ فیض احمد فیض نے سیالکوٹ اور الہو رمیں تعلیم حاصل کی۔ بی اے

)عربی آنرز ( ،ایم اے )انگریزی ( اور ایم اے )عربی( کیا ۔تدریس، صحافت اور

۴۱۲‘‘ ختلف مالزمتوں میں رہےفوج کے عالوہ م ۴۱۳ ۔ء میں پہال شعر کہا ۱۹۲۸فیض احمد فیض نے

ء کو الہور میں وفات پائی او ر جی بالک ،ماڈل ۱۹۸۴نومبر ۲۰آپ نے (

۴۱۵نومبر ۱۹ ڈاکٹر محمد علی صدیقی نے ۴۱۴ٹاؤن الہور میں دفن ہوئے۔ وفات کی تاریخ لکھی ہے

فیض کے حوالے سے بہت سی کتب مرتب کی گئیں۔بہت سے رسائل نے ان کی

Page 287: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

287

زندگی میں اور وفات پر نیز وفات کے بعد نمبرز شائع کئے۔ فیض احمد فیض کی

:مالحظہ ہو کا مطلع آخری غزل کہ لطف کیا ہے مرے مہرباں ستم کیا ہے

بہت مال نہ مال زندگی سے غم کیا

۴۱۶ہے

جان باقی ہے تو کرنے کو بہت باقی ہے

آج جو کچھ کہ مری جاں نہیں کرنے دیتے

۴۱۷

فیض احمد فیض عسکری اہل قلم میں ایک ایسا نام ہے۔ جو انقالب رومان اور امید کے سہارے رہتی دنیا تک زندہ رہے گا۔ آپ کی نثر کا نمونہ آپ کی ادبی

:کے لیے مالحظہ ہو خدمات اور اسلوب کو اجاگر کرنے اور سمجھنےشاید آ پ کو معلوم کر کے تعجب ہو گا کہ اٹھارویں صدی تک لفظ ڈیما ’’

ے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ اس ریسی اور ڈیمو کریٹ یورپ میں بر ک

کے معنی شہر گردی یا افرا تفری یا غنڈہ گردی کے تھے۔ مسیح سے پانچ

تو اس وقت اور اس کے سو برس پہلے جب یونانیوں نے یہ لفظ ایجاد کیا

بہت بعد تک کوئی رشتہ یا تعلق یورپ کی ڈیما کریسی اور فیوڈلزم یعنی

جاگیر داری نظام سے نہیں تھا۔ ان کے ذہن سے یہ تصور مٹ چکا تھا کہ

۴۱۸‘‘۔ لوگ یا جمہوریت بھی کوئی چیز ہوتی ہے

صوفی محمد برکت علی کی وفات پر ان کے حوالے سے بہت کچھ

اور رسائل میں شائع ہوا لیکن کسی نے بھی حقائق تک پہنچنے کی اخبارات

کوشش نہیں کی۔ ہر شخص نے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ ۸۸باوا جی سرکار حضرت ابو انیس صوفی محمد برکت علی لدھیانوی ’’

سال کے لگ بھگ علم و حکمت اور رشد و ہدایت کی فضا کو معطر اور

ء ۱۹۹۷جنوری ۲۶ھ/۱۴۱۷المبارک رمضان ۱۶برقرار رکھنے کے بعد

کو اپنے ہزاروں مریدوں کو داغ مفارقت دے کر اپنے مالک حقیقی سے

جا ملے۔ آپ کی رحلت کے بعد آپ کے حاالت زندگی سامنے آئے۔ چونکہ

مجھے تو آپ کے فوجی حاالت درکار تھے لہذا ادھر ہی توجہ دی بقول

ء میں بھرتی ۱۹۳۷ی بشری رحمن آپ نے سات سال فوج میں مالزمت ک

۴۱۹‘‘ہوئے۔ اسی دوران آپ نے فرسٹ کالس کا امتحان پاس کیا۔

صدر محمد ایوب اور جنرل موسی کا بیج فیلو سید ضمیر حافظ آبادی نے

ء میں ۱۹۲۶فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے جون حاالنکہ ۴۲۰‘‘۔لکھا ہےء ۱۹۳۲اصل کر کے فوجی تعلیم رائل ملٹری کالج سینڈ ہرسٹ )انگلستان( سے ح

میں برطانوی ہندی فوج میں کمشن حاصل کیا ۔فوجی ٹائمز کے ایک شمار ے میں

ء ۱۹۲۶جلیس سالسل نے جنرل محمد موسی کا تعارف کراتے ہوےء لکھا کہ ء میں بہترین کیڈیٹوں کی صف میں شامل ۱۹۳۲میں فوج میں شمولیت اختیار کی۔

لیکن بعد میں جب پاکستان آرمی ۴۲۱‘‘ہو کر دیرہ دون میں تربیت حاصل کی۔

: لسٹ نظروں سے گزری تو وہاں لکھا ہے کہ

Page 288: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

288

ء کو ۱۹۲۸فروری ۲ء کو پیدا ہوئے۔ ۱۹۰۷مئی ۱۴محمد ایوب خان ’’

۲۰ء کو پیدا ہوئے ۔ ۱۹۰۸نومبر ۲۰فوج میں کمشن لیا۔ محمد موسی

ء ۱۹۳۵ء کو فوج میں سپاہی بھرتی ہوئے اور یکم فروری ۱۹۲۶نومبر

۴۲۲‘‘کو فوج میں کمشن حاصل کیا۔

سال ۱۷ء میں سہارن پور میں پیدا ہوئے۔ تقریبا ۱۹۰۹ صوفی برکت علی

کی عمر میں فوج میں بھرتی ہو گئے۔ اور انجینرز کو رمیں تعینات ہوئے۔

سال کی مالزمت کے بعد صوبیدار کے عہدے سے دوسرے جنگ ۱۷

ت آپ نے د و ایم اے کیے اور عظیم میں ریٹائر منٹ لے لی۔ دوران مالزم

ء میں ساالر واال فیصل آباد میں ایک ۱۹۴۷پاکستان کے وجود میں آنے پر

جنگل میں آپ کو جو زمین االٹ ہوئی وہ ہللا کے راستے میں وقف کر دی

۴۲۳‘‘۔

: اشرف اشعری نے آپ کے تعارف میں لکھا ہے کہا زیادہ عرصہ ء میں آپ آرمی میں شامل ہوئے۔ مالزمت ک۱۹۳۰اپریل

رڑ کی کینٹ میں گزرا۔ فوجی زندگی کے دوران پیشہ ورانہ ذمہ داریوں

کو احسن انداز سے نبھانے کے ساتھ ساتھ دینی شعائر کی پابندی کا عمل

۴۲۴‘‘ ۔خدادا د استقامت سے جاری رکھا

!اے اوسونے والے نوجوان مسلمسیاہ زلفیں سمیٹ لیں تو کسی بھی آواز پر کیوں نہیں جاگتا۔ شب نے اپنی

مرغ نے بانگ دی۔سحر ہونے کو ہے بیدار ہواب سونے کا کوئی وقت نہیں۔اگر تو

اب بھی نہ جاگا تو بتال پھر کب جائے گا۔ وما علینا االلبالغ ۴۲۵فاہلل خیر الرزاقین ۔الحمد للحی القیوم

متین نیازی کا اصل نام محمد متین تھا آپ شاہ نیاز حسین قادری ،چشتی

میں پیدا ہوئے۔ اور ۴۲۶ء کو بریلی ۱۹۱۳نومبر ۱۹نیازی ،نصیری کے ہاں ،ء میں ۱۹۴۱۔ ھی الحقہ کے طورپر لکھا کرتے تھےاسی نسبت سے بریلوی ب

فوج میں بحیثیت کیپٹن کمشن لیا اور مشرق وسطی کے ممالک میں خدمات انجام

آپ کی تصانیف ء میں کانپور میں وفات پائی۔ ۱۹۹۳مئی ۱۰ آپ نے ۴۲۷دی میں فکر متین اور جبل المتین دوشعری مجموعے شامل ہیں۔ کہیں کار کھا نہ مذہب کی جدتوں نے متین

جو روز حشر سے مسنوب تھا وہ ڈر بھی

۴۲۹گیا

مضمون میں دلچسپی مرزا اختر بیگ اگر چہ ایک محقق تھے سائنس کے

رانی کا دعوی کیا جس پر سی آئی ڈی کی نگ‘‘ہوں م بنا سکتا ٹیا’’رکھتے تھے۔

ء میں برما میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم برما کے انگریزی ۱۹۱۶’’ئےمیں آگمدرسے سے حاصل کی بی۔ا ے تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوج کے محکمہ

۴۳۰‘‘۔ رقی کرتے کرتے افسر بن گئےمیں بطور کلرک بھرتی ہو گئے اور ت

Page 289: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

289

افسر ہی ۴۳۱میں وی سی اوز)موجودہ جے سی او( دراصل اس دور

ء میں چھپ چکی ہے۔ ۱۹۹۳کہالتے تھے انھوں نے ایک کتاب کیف منظوم ‘‘۴۳۲

ء کو ۱۹۹۳اگست ۲۱مرزا اختر بیگ ذیابیطس کے مرض کے ہاتھوں

بیگم رشیدہ ۴۳۳وفات پا گئے او رایچ ایٹ کے مرکزی قبرستان میں دفن ہوئے۔ ۴۳۴ء تحریر کیا ہے۔۱۹۹۴پ کی وفات کا سن آفتاب اقبال نے آ

ھ۱۴۱۴ربیع االول ۲ء بروز ہفتہ ۱۹۹۳اگست ۲۱تاریخ وفات:

۴۳۵انا ہلل وانا الیہ راجعون

:میں سے تین بند مالحظہ ہوں‘‘ نوائے غم’’ایک پانچ بند کی نظم

ہے دل میںخزاں بصورت حشر دراز

خیال رخصت اختر جہاز ہے دل میں

۴۳۶

سرحد کا واحد منفرد مزاح ’’جنھیں فارغ بخاری نے مرزا محمود سرحدی

لکھا ہے یکم جنوری ۴ ۳۷‘‘ کہنا بے جا نہ ہو گا۔‘ اکبر سرحد’نگار جسے ء کو پشاور کے محلہ رام گنج میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام مرزا عبدللطیف تھا ۱۹۱۴

: اقم نے اپنی ایک تحریر میں لکھا تھا کہ۔رسپاہی مرزا محمودسرحدی نے۔۔۔کچھ عرصہ مزدوری کی اور پھر ’’

دوسری جنگ عظیم میں فوج میں بھرتی ہو گئے۔چند سال تک انگریز کی

خاطر در بدر پھرتے رہے لیکن یہ سلسلہ روز وشب پسند نہ آیا۔ یا ر لوگ

۴۳۸پر پاگل پن طاری کر لیا تھا۔ تو کہتے ہیں کہ آپ نے خود اپنے او

لیکن آپ کا کہنا ہے کہ بد قسمتی سے پاگل ہو گیا تھا جس کے سبب تین

ا آپ بہر حال کچھ بھی ہو ۴۳۹سال تک مینٹل ہسپتال میں رہنا پڑا۔

۴۴۰‘‘۔ میڈیکل بورڈ ہو کر گھر آگئے

آپ کے بارے میں لکھنے والی تمام شخصیات نے فوج میں سپاہی ہی لکھا

ہے اور کہیں اس کی تصحیح نہیں کی گئی ہے

ء بروز منگل ہمیں یہ احساس دال ۱۹۶۸نومبر ۱۲یہ عظیم مزاح نگار ’’ کر چل دیا کہ

۴۴۱‘‘اس باغ سے کیا کیا گل رعنا نہ چل دیے۔

ری میں بڑا نام کمایا۔ آپ کے مرزا محمود سرحدی نے طنزو مزاح نگا شائع ہو چکے ہیں۔‘‘ اندیشۂ شہر’’اور‘‘ سنگینے ’’دوشعری مجموعے

محبت ہے محمود تجھ کو بتوں سے

۴۴2مگر کہہ رہے ہو کہ کافر نہیں ہوں

کو وفات ء ۱۹۸۲ء کو پیدا ہوئے۔ یکم فروری ۱۹۱۵فروری ۴قاضی نور الحق

۴۴۳پائی اور ڈھروال میں آپ کی تدفین ہوئی۔ ‘‘اردو ،پنجابی اور عربی کے شاعر تھے۔

Page 290: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

290

آہ یہ مجبوریاں ،الچاریاں ،ناداریاں

اور تو سب جا چکے اک میں پھڑکتا رہ گیا

۴۴۴

ء اور ۱۹۱۵دسمبر۱۸’’مسعود اختر جمال بنارس کی تاریخ پیدائش

خاندانی نام عبدالحمید ہے۔ ادبی زندگی کے آغاز پر آپ نے اپنا نام مسعود اختر

آپ کے ۴۴۵‘‘ ء میں علی گڑھ سے ہوا۔۱۹۳۴اور تخلص جمال رکھا۔ جو والد ماجد محمد کریم کا آبائی وطن اودھ کا مشہور قصبہ دولی ضلع بارہ بنکی تھا

سال تک دواؤں کے ۲۴ار ہوئے اور ء میں بیم۱۹۵۷مسعودا حمد اختر جمال ’’۔

ء کو حالت بگڑنے پر الہ آبا د میڈیکل ۱۹۸۱جنوری ۱۹سہارے چلتے رہے۔ ۲۵کالج میں داخل کرائے گئے۔ جہاں پانچ چھ دن امید و بہم میں گزارا کر

ء کی رات کو دنیائے شعر وا دب کی یہ معروف شخصیت ہم سے ۱۹۸۱جنوری

۴۴۶‘‘ بچھڑ گئی۔انصار سے مل کر مہاجر بھائی بھائی بن

گئے

یک جان دو قالب ہوئے مفرد اکائی بن گئے

۴۴۷

کسی کی اور شکایت جمال کیا کیجے

ہمیں تو شکوہ ہے اپنے ہی مہربانوں سے

۴۴۸

قصری کانپوری کی تاریخ والدت میں دو اختالفی حوالے ملتے ہیں۔وفیات ’’ ۴۵۰‘‘وفیات اہل قلم’’ ۴۴۹‘‘بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ’’

کتوبر( ۱۔۱۶ء )۱۹۱۴ میں ۴۵۲‘‘ پیمانہ غزل’’ اور ۴۵۱کراچی‘‘ مشاہیر

تذکرہ شعراء و شاعرات پاکستان ’’ ۴۵۳‘‘ شہر ادب کانپور’’تحریر ہے جب کہ ‘‘ ان کراچیدبستانوں کا دبست’’ ۴۵۵‘‘کراچی میں مدفون شعراء ’’ ۴۵۴‘‘

خاک میں پنہاں صورتیں ’’ ۴۵۷‘‘ پاکستان کے نعت گو شعراء’’ ۴۵۶

۴۶۰‘‘ اردو لغت پاکستان میں’’ ۴۵۹‘‘ کراچی کا دبستان نعت’’ ۴۵۸‘‘قصری کانپوری کا اصل نام مطلوب ء درج ہے۔۱۹۱۶وغیرہ میں تاریخ پیدائش

ء میں ۱۹۳۶حسین ہے۔ آپ کی والدت بھارت کے شہر کان پور میں ہوئی۔

ء میں ہجرت ۱۹۵۰۔رکے فوج میں سپاہی بھرتی ہو گئےمیٹرک کا امتحان پاس کء ۱۹۹۶۔جنوری ۱۹کی اور کراچی میں رہائش پذیر ہوئے۔ باآلخر اسی شہر میں

د میں تدفین ہوئی۔ کو وفات پا ئی ۔اور لیاقت آباکرم کی آغوش میں مرادیں ،مدام فرمائیں

رقص قصری

اگر دعاؤں کا رابطہ ہو ،نبی کے باب اثر

۴۶۱سے پہلے

Page 291: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

ارسمجھ نہ پائے گا قصری وہ عظمت فنک

جوا ایک عمر عملدارئ حسد میں رہا

۴۶۲

نومبر ۴ھ مطابق ۱۳۳۵محرم الحرام ۷ صوبیدار محمد یوسف کوکن

ء کو سینچر کے دن مینمبور گاؤں میں محمد ابراہیم کوکن کے ہاں پیدا ۱۹۱۶

۴۶۳ہوئے۔ ء کو فوج میں جمعدار کے رینک سے شامل ہوئے۔ اور انٹیلی ۱۹۴۴جون ۲ ۷آپ

۔ ۔ صوبیدار جلد ہی پروموٹ ہو گئےجنس کو ر میں خدمات انجام دینے لگے

ء کو آپ نے یہ مالزمت چھوڑ دی اور پہلے الئبریرین پھر ۱۹۴۶فروری ۱۲اسسٹنٹ لیکچرار اور پھر گورنمنٹ محمڈن کالج مدراس میں ہی ایڈیشنل منشی

ربیع االول ۱۵آپ نے ایک مدت کی عاللت کے بعد بروزشنبہ ۴۶۴‘‘رہے۔

سرے دن ء کو بعد نماز مغرب وفات پائی۔ اور دو۱۹۹۰اکتوبر ۶ھ مطابق ۱۴۱۱تصوف ’’ ۴۶۵‘‘قبرستان امیر النساء بیگم )راماراؤ باغ( مدراس میں تدفین ہوئی۔

کے حوالے سے آپ رقم طراز ہیں کہ :‘‘میں فلسفیانہ الجھاؤ علم تصوف کی بنیاد جب تک قرآن مجید اور سنت رسول کے کھلے ’’

ے کچھ نصوص پر رہی اس کے عام مسائل میں علمائے کرام کو ارباب تصوف س

زیادہ اختالف نہیں رہا۔ لیکن جب تصوف پر کالم و منطق اور فلسفہ کا اثر پڑتا گیا اور نئے نئے نظریے پیدا ہو تے گئے اور جو قرآں و حدیث کے کھلے نصوص

کے بالکل بر خالف تھے تو علماء نے بھی ان نئے مسائل کی مخالفت شروع کر

۴۶۶‘‘دی۔ ہار شخصیت جن کے بارے میں عزیز افضل پرویز ایک ہمہ جہت ،سدا ب

ملک کا کہنا ہے کہ :میں اکثر سوچتا ہوں کہ افضل پرویز بڑا شاعر ہے یا نثر نگاری میں ’’

بلند پایہ ہے ۔ اردو اچھی لکھتا ہے یا پنجابی مصور اونچا ہے یا سر تال

میں مہارت رکھتا ہے۔ قوالی بہتر کر سکتا ہے یا قرأت اور تجوید کے فن

واقف ہے ادبی انجمنوں کا کامیاب سیکرٹری ہے یا خاکسار سے زیادہ

۴۶۷‘‘۔ے ساالر کی حیثیت سے نمایاں تھاتحریک ک

ء کو ۱۹۱۷مارچ ۲افضل پرویز کا اصل نام قاضی محمد افضل تھا۔ آپ

کو راول پنڈی میں ء۲۰۰۱آپ نےیکم جنوری ۴۶۸راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ڈی کے قدیم قبرستان ڈھوک کھبہ میں ناہید خان کے قبر راولپن وفات پائی۔آپ کی

آپ ۴۸۹آبائی احاطہ میں ہے۔

ء دوسری جنگ عظیم کے دوران سگنل یونٹ میں وارنٹ افسر۱۹۴۱ ۴۷۰‘‘۔ے گئےبھرتی ہو کر برمافرنٹ پر چل

زاہد حسین انجم نے دوسری جنگ عظیم میں رائل سگنلز انڈین آرمی میں

ابتدائی تعلیم کے ’’کہ خالد مصطفی لکھتے ہیں کہ: جب ۴۷۱مالزمت لکھا ہے۔ء میں نیوی میں بھرتی ہو گئے۔ برما کے محاذ پر عسکری خدمات ۱۹۴۱بعد

Page 292: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

292

اسٹیفن ڈرامے کے ایک نغمے کے حوالے سے اندوز و ۴۷۲‘‘انجام دیں۔

اسلوب دیکھیں:یہ بھوت پیانو میں داخل ہو کر عجیب و غریب سر نکالتے تھے۔ جن ’’

تند ہواؤں ،چارلس آئیوز کے بچپن کے گیتوں، فوج کے مارچ، حمدیہ میں

نغموں ،حب وطن ترانوں ،گاؤں کے کلیسا کی گھنٹیوں او رریل گاڑی کی

آوازوں وغیرہ کو گڈ مڈ کر دیا جاتا ہے۔ یہ دھن بڑی دلچسپ اور مسرت

۴۷۳‘‘انگیز ہے۔

میں ہر طرح الغرض اسی طرح با ت سے بات نکالتے ہوئے وہ اپنے فیچر کی معلومات بہم پہنچانے اور ثقافت کے بڑے بڑے مسائل کو آسانی سے حل کر

جیسےامختلف انداز میں رواں رہ دیتے تھے۔ شاعری میں بھی آپ کا قلم ذراوفور سبزہ و گل سے تو خود پرے ہوں

گے

یہ زخم ناخن غم سے چھلیں چھلیں نہ

۴۷۴چھلیں

محمد کا ابتدائی نام غالم حسین اور تبدیل کردہ یوسف جبریلعالمہ

سکیسر ضلع شاہ ء کو موضع کھبیکی وادی سون ۱۹۱۷فروری ۷یوسف ہے۔ آپ ۴۷۵‘‘۔ملک محمد خان کے ہاں پیدا ہوئے میں اعوان قوم کے پور

اس سزا کے بعد آپ نے سوچا کہ تعلیم کا جو سلسلہ منقطع ہو گیا تھا اسے

جائے۔جاری کیا راقم نے عالمہ یوسف جبریل پر بڑی تفصیل سے بحث کی ہے اس سلسلے

‘‘ عکس سرستان’’ اور۴۷۶‘‘ سرگودھا کا دبستان شاعری’’میں میری کتب

نثر میں آپ اسلوب مالحظہ کریں۔۔ ں دیکھی۴۷۷آگے دیکھا کہ ایک نہایت بوڑھا ،نہایت الغر ،نحیف و نزار شیرا پنا سر ’’

رحم کی تصویر بنا بیٹھا ہے۔ او رکان ہال ہال کر مکھیاں اڑا رہا زمین پر ڈالے

ہے۔ واہ رے بڑھاپے۔یہ بوڑھا شیر بالکل اس طرح لگ رہا ہے کہ جیسے گلی کی نکڑ پر کوئی بڑا بوڑھا چارپائی ڈالے قمیص اتارے گنجے گول مٹول سر پر

ر آتا پرانی یادوں میں غرق نظکنڈوں کی گول ٹوپی اوڑھے سر کو زخم کئے

۴۷۸‘‘۔ہےمجھ کو موال نے وہ عرفاں کی شہنشاہی

دی

۴۷۹نالۂ نیم شبی، آہ سحر گاہی دی

میر رضی میر راجپوتانہ کی ریاست الور کے ایک قصبے کہیر تل میں

ء کو بروز جمعہ پید اہوئے۔ آپ کے والد سید محمد تقی زید سوز ۱۹۱۷اگست ۱۶

گئے۔ آپ کی ہوء میں فوج میں بھرتی ۱۹۳۴اہر تھے۔ آپ خوانی کے فن کے م رجمنٹ اسٹیٹ فرسٹ رجمنٹ تھی۔ ضمیر اختر نقوی کے مطابق:

Page 293: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

293

ء میں چیف انسٹرکٹر ہو ۱۹۳۸ایک سال بعد ڈرل انسٹرکٹر ہو گئے۔ ’’

ماہ ڈرل او رپی ٹی ۶ء میں ریاست کے راجہ تیج سنگھ کو ۱۹۴۲گئے۔

ء میں اجمیر چلے ۱۹۴۴ملی۔ کی ٹریننگ دی جس کے صلے میں خلعت

گئے۔ جہاں پرنس میو کالج میں انسٹر کٹر ہو گئے۔ بعد میں ٹیچرٹریننگ

۴۸۰‘‘کالج اجمیر میں پی ٹی آئی انسٹرکٹر کے عہدے پر آگئے۔

ء کو وفات پائی اور بہشت زہر ا میں ۲۰۰۵۔اپریل ۱۴آپ نے کراچی میں

۴۸۱دفن ہوئے ۔

ء کو گورکھپور یوپی میں شیخ محمد ۱۹۱۷جوالئی ۱۷ہندی گورکھ پوری ۔ او نام وحید ہللا انصاری رکھا گیا کریم ہللا انصاری کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کا

ردوسری جنگ عظیم میں فوج میں بھرتی ہو گئے۔ قومی شاعر ی ایوارڈ )ہند ی

ء( میر اکادمی ایوارڈ)امتیاز ۱۹۷۴اردو سنگم( حکومت یوپی کی سند) مجنوں گورکھ پوری نے انھیں ۴۸۲صول پا چکے ہیں۔ ء( بھی و۱۹۸۱میر

باغیانہ احساس یا انقالبی خیال کو بڑے شائستہ سوز و گداز سے ادا کرنے واال

شاعر لکھا ہے۔ نئی تعمیر پر میری نظر ہے

۴۸۳میں باغی ہوں نظام زندگی کا

لق رکھتے تھے آپ عبداللطیف مضطر ایک علمی و ادبی خانوادے سے تع

ء کے لگ بھگ ۱۹۱۸آپ ’’کے والد شیخ عبدالعزیز ایک تعلیم یافتہ شخص تھے

ء میں ۱۹۳۸سال کی عمر میں ۲۰جال لپور جٹاں ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔ ء میں آرمی چھوڑ کر ۱۹۴۰انڈین آرمی میں کمشن لیا مگر صرف دو سال بعد

وانی میں تپ دق کے مرض میں واپس جاللپور جٹاں آگئے۔ دو سال بعد عالم ج

۴۸۴‘‘انتقال ہوا ۔جس کے پینے سے ہو فرحت وہ پال

مضطر کو مے

ساقی مے خانے میں باقی جو دھری

۴۸۵شیشے میں ہے

لیفٹنٹ کرنل راحت سعید چھتاری نواب سر احمد سعید بلند شہر چھتارہ کے ۔ آپ اردو شاعر، ہوئےکو پیدا ء۱۹۱۸جنوری ۹فرزند تھے آپ چھتارہ میں

ادیب، سیاستدان ، تحریک پاکستان کے کارکن، سفار ت کار، بہترین فوٹو گرافر

،پختہ کار شکاری کی حیثیت سے اپنا مقام بنانے میں کامیاب رہے ہالینڈ اور اردن میں پاکستان کی طرف سے سفیر رہے۔ راحت سعید چھتاری نے تعلیم کی تکمیل

۔ چےی فوج میں کمشن پایا اور لیفٹنٹ کرنل کے عہد ے تک پہنکے بعد برطانو

ء کو کراچی میں وفات پائی او رسو سائٹی قبرستان کراچی ۱۹۸۷مارچ ۴آپ نے ۴۸۶میں دفن ہوئے۔

Page 294: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

294

مری قسم نہ ہو مایوس بے رخی سے مری

کہ کھو نہ جائے محبت ہی زندگی سے

۴۸۷مری

اردو ادیب، انشا پرداز، سفر نامہ نگار، منتظم الہیکیپٹن شیخ منظور

،دانشور ، ریٹائر سول سرونٹ )آئی سی ایس ، سابق کمشنر بورڈ آف ریونیو،

سیکرٹری تعلیم ،چیف سیکرٹری سندھ، چیئر مین پنجاب بیت المال ،رکن نظریۂ پیدا ء میں ضلع انبالہ میں ۱۹۱۹پاکستان ٹرسٹ اورسابق نگران وزیر اعلی پنجاب

ہوئے۔ ابتدائی تعلیم فیرو ز پور اور ضلع انبالہ میں حاصل کی۔ آپ کے والد شیخ

ء میں فوج میں کمشن لیا اور ۱۹۴۲محبوب الہی چونکہ سرکاری مالزم تھے ۔ ۴۸۸‘‘برما کے محاذ پر خدمات انجام دیں۔

میں دفن ۳ء کو الہور میں وفات پائی۔ اور گلبرگ ۲۰۰۸دسمبر ۱۱آپ نے

۴۸۹ہوئے۔ :ایک اقتباس مالحظہ ہو

(غرناطہ کا بڑ ا دآلویز حصہ ہے۔ جہاں Sacromonteسیکر و مونٹے )’’غاروں اور جپسیوں کی گپھائیں ہیں۔ نوارد کو حیرت ہوتی ہے کہ شکم کوہ میں

داخل ہونے کے لیے ایک معمولی دروازہ ہے۔ اندر آسودگی او ر خوش وقتی کی

ازہ سفیدی سے چکا چوند، صاف ستھرا کمرہ، انگیٹھی او ر فضا ہے۔ اور تر مٹی کی ظروف دیواروں پر تانبے کے چمکدار برتن ،شیشے کی اشیاء او

۴۹۰۔ قرینے سے چنے ہیں

ایک ترقی پسند شاعر، منفرد نثر نگار ،مترجم ،بنگلہ دیش تحریک کے جدید اردو کلکتہ مخالف ،رائٹرز گلڈ کے بانی رکن ،معتبر صحافی ،مدیر ماہنامہ

،مدیر روزنامہ پاکستان ڈھاکہ ،اور ایک ہر دلعزیز استاد ،احسن احمد اشک کے

مشرقی ’’ ۴۹۱سن والدت میں بھی اختالف پایا جاتا ہے۔ محفل جو اجڑ گئی، ، اور گلہائے ۴۹۳ء )نومبر( پیمانۂ غزل ۱۹۱۶ میں ۴۹۲‘‘ بنگال میں اردو

کہ پاکستان میں اردو غزل کا ارتقا ء جب۱۹۱۹ میں یکم جنوری ۴۹۴رنگ

میں ۴۹۷ اور ڈھاکہ یونیورسٹی جنرل آف اردو ۴۹۶ بنگال میں اردو ۴۹۵ء ۱۹۹۳دسمبر ۱۷آپ نے ۴۹۸۔ ء تحریر ہے۱۹۱۸تاریخ والدت یکم جنوری

۴۹۹کو اپنے گھر )سدھیشوری ہاؤزنگ اپارٹمنٹ ( ڈھاکہ میں وفات پائی۔

’’ ڈھاکہ سے ،دوسرا مجموعہ‘‘برق و باراں ’’ آپ کا پہال مجموعہ کالم کراچی سے او رمشرقی بنگال کی انقالبی شاعری کا اردو ‘‘جاگتے جزیرے

نمونۂ کالم: ۵۰۰شائع ہوا۔ ‘‘آہنگ انقالب ’’ترجمہ ،تھکے ہو اشک سو رہو آب اندھیوں کی راہ

میں

لگاؤ بھی ہے الگ بھی تمہیں تو حادثات

۵۰۱سے

Page 295: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

کسی کی زلف پریشاں نہ ہوگی اشک

کبھی

تم اپنے حال پریشاں کی بات بند کرو

۵۰۲

دسمبر ۲۲مظفر حسین جوش آفندی خاندان کے چشم و چراغ تھے۔

ے بعد بحری فوج ء کو خیر پور )سند ھ( میں پیدا ہوئے۔تعلیم مکمل کرنے ک۱۹۱۹

کے ادیب تھے لیکن کبھی کبھی اردو میں بھی ۔ آپ سندھی میں بھرتی ہو گئے شعر کہتے تھے:

نشیب عشق کے سمجھا نہ تو فراز مجھے

جفائے حسن کو سر گرم راز رہنے دے

۵۰۳

میجر شیخ ساز علی رونق شکار پور کے ایک شیخ گھرانے سے تعلق

ران فوج میں رکھتے تھے۔ تعلیم کے حصول کے بعد دوسری جنگ عظیم کے دو

شامل ہو گئے۔ تقسیم ہند کے وقت میجر کے عہدے پر فائز تھے کہ اسے چھوڑ دیا۔ اور سول سروس میں آگئے

اے صراحی بدوش و جام بدست

۵۰۴دیکھ خالی نہ میرا جام رہے

ء میں امر تسر ۱۹۱۹عارف امر تسری کا اصل نام غالم قادر بٹ تھا۔ آپ

ا ہوئے۔ آپ کے والد محمد شفیع بٹ ایک نعت گو شاعر تھے۔ کچھ عرصہ میں پیدالہو ر کارپوریشن میں مالزمت کی اور پھر فوج میں بھرتی ہو گئے۔ وہاں کے

حاالت بھی موافق نہ پا کر ڈیڑھ سال بعد واپس آگئے۔ اور وثیقہ نویسی شروع کر

۵۰۵ دی۔کی شفاعت حشر میں ہو گی ضرور ان

عارف

میری سرکار کے جو چاہنے والے ہوں

۵۰۶گے

در حضور پہ پہنچوں تو پھر نہ آؤں کبھی

وں عمر میں بن کر گدا مدینے گزار

۵۰۷ میں

کیپٹن ایس ایم ادریس کا نام غالبا سید محمد ادریس ہوگا۔ کیونکہ تالش بسیار جناب حامد حسین کے ہاں کے باوجود آپ کا مکمل نام نہیں مل سکا۔ بہر حال آپ

ء کو پالی ضلع در بھنگہ بہار میں پیدا ہوئے۔ آپ نے ہجرت کے ۱۹۱۹دسمبر ۱۲

ء کو کراچی ۱۹۹۰جنوری ۱۹بعد الڑکانہ سندھ میں شہریت اختیار کی۔ آپ نے ۵۰۸ی کی سرز مین ہی آپ کا مدفن بنی۔میں وفات پائی۔ او رکراچ

ابی ،معلم ،دانشور ،پروفیسر معروف اردو و پنجابی شاعر، ادیب ،صح

آپ کے ۵۰۹ء کو گجرات میں پید اہوئے۔ ۱۹۱۹نومبر ۱۵محمد اصغر سلیم ء ۱۸۴۰والد میر نبی بخش اوورسیز تھے عمارتیں بناتے تھے۔ آپ کا خاندان

Page 296: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

296

ء میں ائیر فورس ۱۹۴۲ آپ ۵۱۰ء کے قریب گجرات میں آکر آباد ہوا۔ ۱۸۵۰،

ء میں واپس ۱۹۴۶میں بھرتی ہو گئے اور برمامحاذ پر چلے گئے۔ جہاں سے برما ۵۱۱ء میں ایم اے کیا۔ ۱۹۶۰آئے۔ اور محکمہ تعلیم میں مالزمت کر لی۔

کے محاذ پر ائیر کموڈور ایم کے جنجوعہ اور ائیر مارشل نور خان کے ساتھ

ء کو آپ نے الہور میں وفات پائی۔۱۹۹۵جون ۱۲ ۵۱۲خدمات انجام دیں ۔چلو کہیں خونچکاں بگولوں کی رہگزر

میں اتار آئیں

سلیم برسوں سے بار سر ہے ردائے بانو

۵۱۳قبائے خواجہ

چلتا ہے سلیم آج بھی ان پر ترا جادو

دیتے ہیں برہمن کو صنم تیرے حوالے

۵۱۴

ء کو شاہ آباد، مارکنڈہ ضلع ۱۹۲۰دسمبر ۱۷کیپٹن سوشیل کمار رام پال

مرے ع سیالکوٹ تھا۔کو رو کشیتر میں پیدا ہوئے۔ آپ کا آبائی گاؤں پسرور ضل ۵۱۵‘‘۔ کالج سیالکوٹ سے گریجوایشن کی

۔آپ ایک اور فوج میں کمشن لے لیا۔ جہاں دوسری جنگ عظیم کا وقت گزارا ۵۱۶‘‘ ۔افسانہ نگار، ناول نگار اور شاعر تھے

آ پ کے افسانے اور ناول راقم کی دستر س سے باہر رہے لہذا کشف و کرامات

سے آغاز ‘‘ایک التجا مہاپربھو ’’ میں سے نمونۂ تحریر حاضر ہے۔ ابتدائی عنوان کرتے ہیں کہ:

میں ایسا مدبر ہوں جس کا کوئی ثانی نہیں۔ ایسا لطیفہ گو ہوں جس کی

یں۔ ایسا ادب شناس ہوں جس ایک ایک بات پر لوگ لوٹ پوٹ ہو جاتے ہ

کے سامنے پرانے ادیب پانی بھریں۔ ایسا لکھاری ہوں جس کا ایک ایک

لفظ پڑھنے کو لو گ ترسیں ایسا عقل مند ہوں جو مشکل سے مشکل

مسئلے کو چٹکیوں میں حل کر دے۔ ایسا جابر ہوں جس کے غصے کے

مات ہو آگے پرانے بدمعاش نہ ٹھہریں ۔ ایسا منتظم کہ پرانے کھالڑی

نے مجھے کہیں کا نہ رکھا۔ کیونکہ میں نے کبھی ‘ میں’جائیں۔ اور اسی

ہوں وہ تیرا عطیہ ہے۔ تیری ‘ میں’بھی یہ نہ سوچا کہ جو کچھ بھی

بخشش مہا پربھو۔ مجھے بخش دے ،میری رکشا کر،میں نا چیز ہوں

۵۱۷‘‘،ناسمجھ ہوں۔

ام اللۂ صحرائی سے اللۂ صحرائی: سپاہی محمد صادق جو اپنے قلمی ن

۵۱۸ء کو مہیہ ضلع امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۲۰فروری ۱۴پہچانے گئے۔ء پر متفق ہیں لیکن محمد سلیم چودھری نے ۱۹۲۰اگرچہ تمام محققین

فوج میں بھرتی ہو میں دوسری عالمی جنگ ۵۱۹ تحریر کیا ہے۔ء۱۹۲۵

خیر باد کہہ گئے۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ پر آپ نے اس مالزمت کو ، ایک غزل کا مجموعہ اور تین ۵۲۱آپ کے گیارہ نعتیہ مجموعے ۵۲۰‘‘۔دیا

۵۲۲۔ نثر کی کتب شائع ہوئیں

Page 297: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

297

ء بروز جمعہ کو ملتان میں وفات ۲۰۰۰جوالئی ۷محمد صادق اللۂ صحرائی نے

۵۲۳جوالئی اپنے گاؤں جہانیاں ضلع خانیوال مین دفن ہوئے ۸پائی اور کہی ہیں سینکڑوں نعتیں بفیض رب کریم

مگر حضور کے شایاں نہ کہہ سکا ہوں

۵۲۴میں

صحرائی گوردا سپوریتحریک پاکستان کے مجاہد اور اردو پنجابی و شاعر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ آپ کا نام عبدالرحیم اور والد کا نام ناظر الدین

اہ ضلع گوارد سپور میں پیدا ہوئےء کو کوٹ سندوخ ر۱۹۱۸مارچ ۱۳آپ ’’ تھا۔

۔ آپ کو یہ نمایاں اعزا ز حاصل ہوا کہ چودہ اگست کو بارہ بج کر ایک منٹ پر ۲۰ ۵۲۵‘‘ا پہال ترانہ انھی کی تخلیق تھا۔ریڈیو پاکستان الہور سے آزادی ک

کا نعرہ لگانے واال یہ جانباز ہللا کو ‘‘ء کو بن کے رہوے گا پاکستان ۱۹۸۷نومبر

پیارا ہو گیا۔ جہاں ملتا ہے کوئی تشنہ لب انسان

صحرائی

وہیں میں اہتمام کوثر و تسنیم کرتا ہوں

۵۲۶

بھگت فنائی کا نام ذوالفقار حسین تھا لیکن دوست محمد میاں کہتے تھے

ہ انھوں نے اپنا قلمی نام بھگت فنائی رکھا ہوا تھا۔ والد کا نام حاجی محمد جب ک

آپ نے ائیر فورس جوائن کر لی جہاں پائلٹ میں نگ عظیم حسین تھا۔ دوسری جآفیسر کے مرتبے پر مالزمت کی لیکن قیام پاکستان کے بعد ہجرت کر آئے اور

۵۲۷۔ یت کالونی ( میں رہائش اختیار کحیدر آباد )لیاقپسند آئی سر محفل مجھے ساقی کی

معصومی

وہ مے خواروں سے بوال ہے یہ آئین جنم

بھومی

صالئے عام ہے ہر ایک کو مصری ہو

یارومی

یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے

محرومی

اٹھالے بڑھ کے جو پہلے تو بس منا اسی

۵۲۸‘‘کا ہے

مئی ۱۱ میںر رتسری ولد میاں عبدالرحمان خان امرتسعبدالرؤف خان ام ء میں عملی زندگی کا آغاز ہوا آپ نے ایک سال ۱۹۳۵ء کو پیدا ہوئے ۱۹۲۱

اپریل ۵الہور میں قیام کیا ۔ آپ کے بڑے بھائی میجر عبدالکریم لکھتے ہیں کہ

ء کو وہ رائل انڈین انجینئرز میں بطور کلرک سپاہی بھرتی ہو گیا۔ مگر۱۹۴۲ماہ کی مالزمت کے بعد بھاگ نکال اور ۱۰ء کو ۱۹۴۳فروری ۲۲یہاں سے بھی

Page 298: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

298

۵۲۹‘‘ء کو ڈسچارج کر دیا گیا۔۱۹۴۶دسمبر ۱۵طویل غیر حاضری کی بنا پر

ء کو کراچی میں وفات پائی۔ ۱۹۷۳ستمبر ۲ اب ہوائے گلستاں کو بھی ہیں اختر محتاج

۵۳۰بند اس نے روزن دیوار زنداں کر دیا

نیر جہلمی کا اصل نام محمد یعقوب تھا۔ تعلق پنجاب کے اعوان قبیلے سے تھا۔ پانچ سال کے تھے کہ پھوپھی نے انھیں گود لے لیا او رچوتھی جماعت میں

ستمبر ۲۹ضلع جہلم ہے آپ کا وطن ۵۳۱تھے کہ نیر تخلص اختیار کیا۔

جہلم جہاں اہی ہندوستانی بحریہ میں بھرتی ہو گیااور بمبئی پہنچ گیا۔ ء کو ش۱۹۳۹پھر شاعر بننے کی کے مشہور شاعر حضرت شہید جہلمی سے مالقات ہوئی اور

۵۳۲گیا۔ کوشش کرنے لگعلم و حکمت کے خزانے النے والے

السالم

گمرہوں کو راستہ دکھالنے والے السالم

۵۳۳

کسی کی بزم حسیں میں چلے تو ہو نیر

مثال شمع شبستاں جو جل سکو تو چلو

۵۳۴

ء میں ۱۹۳۸ء میں کوہاٹ شہر میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۲۱عبدالغفور مصور

میٹرک کا امتحان پاس کرلینے کے بعد آپ فوج میں چلے گئے مگر یہ مالزمت چھوڑ کر کنٹونمنٹ بورڈ میں مالزمت اختیا کر طبیعت کو راس نہ آئی اور اسے

اس دور میں آپ نے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا او رپرائیوٹ طورپر ۵۳۵لی۔

بی اے کا امتحان شاندار نمبروں میں پاس کیا۔ اور آپ جب ریٹائر ہوئے تو اسسٹنٹ سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔

کے دیپک جال کئے شب بھر تمہاری یاد

شب بھر تمہاری گیت سناتی رہی فضا

۴۳۶

عقل انساں کی تھی یہی معراج

۵۳۷پتھروں نے یہاں خدائی کی

ء کو مختار حسین سول انجینئر ۱۹۲۱۔اپریل ۱۲ڈاکٹر آغاز افتخار حسین

کے ہاں پیدا ہوئے والد جھنگ میں تعینات تھے لہذا ابتدائی تعلیم جھنگ میں پائی۔

ء میں علی گڑھ ۱۹۴۲ء میں دہلی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور ۱۹۳۷ انسائیکلو پیڈیا ادبیات عالم میں سن والدت ۵۳۸۔اے کیا یونیورسٹی سے بی

۔ ۱۷ میں تاریخ والدت ۵۴۰ جب کہ تنہائیاں بولتی ہیں ۵۳۹ء درج ہے۱۹۲ا

ء ہے۔ آ پ نے فلسفہ میں یونیورسٹی سے ایک نئے ریکارڈ کے ساتھ ۱۹۲۱اپریل اور فوج میں چلے گئے۔ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کے مطابق kiaبی۔اے آنرز

ادبی مزاح اور فلسفیانہ ذہن کی وجہ سے فوجی ورزشوں کو برداشت نہ کر سکے

Page 299: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

299

وہاں پبلک ء میں حیدر آباد دکن چلے گئے اور ۱۹۴۷او رفوج چھوڑ کر اپریل

ء میں ہجرت کی اور ۱۹۵۰سروس کمیشن کے اسسٹنٹ سیکرٹری مقرر ہوئے۔ ء میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے اسسٹنٹ سیکرٹری ۱۹۵۱کراچی چلے گئے۔

سوربوں یونیورسٹی پیرس سے ایڈمنسٹریشن سائنس میں ۵۴۱مامور ہوئے۔

چ ڈی کیا۔فرنچ زبان میں اپنا مقالہ ڈھائی برسوں میں پیش کر کے پی ایھ کو اسالم آباد میں وفات پائی ۱۴۰۴شعبان ۲۹ء بمطابق ۱۹۸۴مئی ۳آپ نے ا

قبرستان میں دفن ہوئے۔ ۸اور ایچ

ء کو خواجہ بلند شہر )یوپی (میں پیدا ۱۹۲۱عبدالرشید ارمان عثمانی ستمبر ارمان میٹرک ،ادیب عالم اور ادیب فاضل کرنے کے بعد فوج میں بھرتی ہو ہوئے۔

جب کہ ۵۴۲ء میں لیہ چلے گئے۔ ۱۹۵۷ئے۔ زاہد حسین انجم کے مطابق آپ گ

نواز کاوش نے لکھا ہے کہ وہ الہور چلے گئے او ر وہاں کچھ عرصہ رہنے کے ۵۴۳بعد عمر کا آخری حصہ رحیم یار خان میں گزارا۔ اور یہیں انتقال کیا۔

حیم یار خان میں ء کو ر۱۹۸۱اکتوبر ۲۸ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ نے بھی

نمونہء نثر ۵۴۴وفات اور قبرستان تھی مہاتماں میں تدفین تحریر کی ہے۔

ریاست بہاولپور کا بچہ بچہ واقف ہے کہ چوہدری رحمت ہللا کے سرمائے اور

منظر عالم اینڈ کو کے تعاون سے بہاولپور میں ریاستی لیگ کے نام سے جو ے تمام کانگریسی بتوں کو محمودی ضرب واردھائی مندر قائم کیا گیا تھا اس ک

سے توڑنے او ران کے ناپاک عزائم کو شکست دینے میں ان ہی متذکرہ لیگی

۵۴۵‘‘اصحاب کی اجتہادی قوت کا ماحصل ہے۔شہاب دہلوی کے مطابق شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ بے تکان شعر کہتے

سے نئے نئے معانی تراشنا ان ہیں ۔بات سے بات پیدا کرنا اور الفاظ کے الٹ پھیر

۵۴۶کا کمال ہے ۔سید انعام نادر کا اصل نام سید انعام الحق ہاشمی ہے۔ نادر تخلص کرتے ہیں

ء کو اورنگ آباد دکن میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کا آغاز مدرسے ۱۹۲۲مارچ ۲۷آپ

سے ہوا۔ منشی فاضل اور فارسی فاضل کرنے کے بعد برطانوی فوج میں بھرتی ہو گئے۔

جو اشک نہیں یہ موتی ہیں

۵۴۷موتی مفت لٹائے کون

احسان دربھنگوی کا اصل نام احسان الرحمن خان اور والد کا نام حاجی

ء میں کوٹھیا مرزا پور ضلع در بھنگا بہار ۱۹۲۲عزیز الرحمان خان تھا ۔ احسان میں پیدا ہوئے۔ اردو اور فارسی کی تعلیم گھر پر حاصل کی اور پھر سکول میں

ڈین نیوی میں بھرتی ء میں رائل ان۱۹۴۴داخلہ لیا تعلیم کے حصول کے بعد

ء میں عالمہ جمیل مظہری کلکتہ گئے تو احسا نکا درج ذیل شعر ۱۹۵۲ہوگئے ۔ سن کر اسے اپنی شاگردی میں لے لیا۔

Page 300: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

300

وقت رخصت نہ مجھے دیدۂ ترسے دیکھو

اک مجاہد کو مجاہد کی نظر سے

۵۴۸دیکھو

شوق کے ممکنات کو دونوں ہی آزما چکے

فریب کھا چکے ہم بھی فریب کھا تم بھی

۵۴۹چکے

ء کو ریٹہ ضلع میر پور) کشمیر( ۱۹۲۲۔ جون ۱۷محمد الل خان کاشمیری

میں پیدا ہوئے۔ پرائمری تعلیم گاؤں ہی کے سکول میں حاصل کی۔ اورپھر مڈل

ء میں لڑائی کے نعرے بلند ۱۹۳۹ جبسکول میں پرتاب سنگھ پورہ میں داخلہ لیاھی نعروں سے لطف اندوز ہونے کے لیے رائل انڈین نیوی میں ہوئے اور ہم ب

بھرتی ہو گئے۔ شعر گوئی کا شوق فلمی دنیا میں ہی دنیا میں پیدا ہو گیا تھا۔ نیوی

میں پہنچے تو حضرت نیر سیمابی کی معیت نے اس شوق کو ہوا دی اور محمد ۵۵۰‘‘الل خان میں الل کاشمیری کا اضافہ ہو گیا۔

قسمت کو بدل دے جو بیک جنبش نظر

اس مرد قلندر کی نظر ڈھوند رہا ہوں

۵۵۱

ء کو قصبہ پروا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان ۱۹۲۲اکتوبر ۲۵سمن سرحدی

میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول ڈیرہ اسماعیل خان سے ے۔ہوئپیداصوبہ سرحد میں

حوالدار کلرک فوج میں کام کیا۔ نومبر ۔ تین برس تک بطور ء میں کیا۱۹۳۸ ۵۵۲‘‘ء میں تقسیم وطن کے باعث دہلی آکر آباد ہو گیا۔۱۹۴۷

کے نام سے قائم کیا۔ ‘‘فرنٹیئ کمرشل کالج ’’ سمن نے دہلی میں اپنا ادارہ

وید منتروں ،آٹھا ۴۰۰پندرہ روزہ ہند سندیش کے اعزازی جوائنٹ ایڈیٹر رہے۔ پنشدوں کے منظوم تراجم کیے۔سوامی چنمایانند کے ایک سو سے زائد گیتا

لیکچروں کا اردو ترجمہ کیا۔ بچوں کی دنیا)منظوم روسی ادب( کے نام سے ایک

کتاب شائع کی۔ لینن کے نام سے ایک کتاب منظوم ترجمہ کیا اور شائع کی۔ ہیٹ ہالتے ہوئے جبھیچیمبر سے اپنا

ساتھ اس کے گیت گا کے مکمل اسے کیا

۵۵۳

بے حس الہ آبادی کا اصل نام احمد حسین ہے۔ آپ کے والد حافظ حاجی

اکبر علی سکندر پور ضلع بلیا )اتر پردیش ( کے ایک نزدیکی گاؤں رودروار

ل کے رہنے والے تھے لیکن احمد حسین کی پیدائش رواج کے مطابق اپنے نا نہاکچھ عرصہ ۔ء میں ہوئی۱۹۲۲کے ہاں ضلع الہ آباد کی تحصیل کر چھنا میں

ہومیو پیتھک کلینک چالتے رہے لیکن فوج میں بھرتی کا اشتہار دیکھ کر فوج

۵۵۴‘‘۔یڈپر وٹیکشن ( میں بھرتی ہو گئےکے شعبے اے۔ آر ۔پی )ائیرر مرے دل کو دے رہا ہے کوئی دعوت تبسم

یہ خوشی بھی رہ نہ جائے کہیں آنسوؤں

۵۵۵میں ڈھل کر

Page 301: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

44

ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ سکول اور کالج ۱۹۲۲نومبر ۱۸جگدیش جین

سے تعلیم مکمل کی اور پھر دوسری عالمی جنگ میں فوج میں بھرتی ہو گئے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد ریٹائر منٹ لے کر حکومت ہند کے محکمہ ٹیلی گراف

۵۵۶اختیار کر لی۔ کی مالزمت جگدیش ترے لطف سے محروم نہیں ہے

لیکن دل بے تاب کی مشکل تو وہی ہے

۵۵۷

ء ۱۹۲۴ ۵۵۸ء ۱۹۲۴فروری ۲۴حوالدار محمد ایوب صابر مرحوم

کو جنگل خیل کوہاٹ میں پید اہوئے۔ آپ کے ۵۶۰ء ۱۹۲۲فروری ۲۴ ۵۵۹ء میں کوہاٹ سے میٹرک کا ۱۹۴۱شی تھا۔ آپ نے والد کا نام محمد یوسف قری

ء ۱۹۸۹فروری ۸امتحان پاس کیا اور جنگ عظیم دوم کا حصہ بن گئے۔ آپ نے

کو وفات پائی اور اپنے گاؤں جنگل خیل میں دفن ہوئے۔ ایوب صابر کا نثر میں :سے مالحظہ ہو‘‘ اس حمام میں’’ مزاحیہ اسلو ب ان کی کتاب

ر گالیوں کی یادیوں آئی کہ ہمارے یاردلبر مرحوم آج ہمیں غالب کی او’’کی پہلی برسی کے سلسلے میں جناب عطوف شفیق نے ایک ادبی اجتماع کااہتمام

کیا او رہم اپنے ذہن پر زور دے کر وہ تمام گالیاں یاد کر رہے تھے جو مرحوم

۵۶۲‘‘۔ و بڑی بے تکلفی سے دیا کرتے تھےہمیں اور ہم مرحوم کچیتھڑوں میں بھی خودی رہتی ہے قائم

صابر

۵۶۳ریشمی جبہ و دستار و قباحت مانگو

اسیر فیض آبادی کا نام مرزا حیدر تھا۔ آپ مرزا باسط علی حزیں فیض ء میں ۱۹۲۲آبادی کے بیٹے تھے۔ جو ہومیو پیتھک ڈاکٹر اور شاعر تھے۔ اسیر

فاربس ہائی سکول سے میٹرک پاس کیا اور فوج ۵۶۴فیض آباد میں پیدا ہوئے۔

میں مالزم ہو گئے ۔ قیام پاکستان کے بعد ہجرت کی، کراچی میں اقامت پذیر ہوئے اور یہیں وفات پائی۔

خدا نے رحمت کون و مکاں کے پیکر میں

۵۶۵دیا ہے آئینہ تصویر زندگی کے لیے

جو اختالف ہے وہ یہ کہ زاہد حسین انجم کے ظہور نظر کے نام میں

اور محمد ۵۶۷ جب کہ یاسر جواد ۵۶۶مطابق ظہیر احمد ولد ملک حبیب احمد ء کو ۱۹۲۳اگست ۲۲ نے ظہور احمد نام لکھا ہے۔ آپ ۵۶۸شمس الحق

منٹگمری )ساہیوال (میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم ساہیوال اور قادیان سے حاصل

۔ آپ حاالت ۵۶۹ہوٹل لدھیانہ میں اسسٹنٹ مینجر ہو گئے۔ کی۔ اور اقبال ۵۷۰بھاگ گئے۔ کچھ عرصہ بعدتنگ آکر فوج میں بھرتی ہوگئے۔ مگر سے

ء کو بہاولپور میں وفات پائی ۔ ڈاکٹر شمیم ۱۹۸۱ستمبر ۷نظر نےظہور

: حیدر ترمذی لکھتے ہیں کہ

Page 302: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

302

کہ شہر کے فقیہوں ظہور نظر مرا تو نماز جنازہ میں اس لیے دیر ہوئی’’

کا فیصلہ تھا کہ ایک قادیانی او رملحد کی نما ز جنازہ جائز نہیں ہو سکتی

۵۷۱‘‘۔بعد ظہور کو قبر میں اتارا گیا ۔مکمل تصدیق اور شہادت کے

ان گنت اشک بہانے سے بھی شاید نہ

دھلیں

دل پہ جو نقش تری ایک نہیں نے چھوڑے

۵۷۳

ء کو بریلی ۱۹۲۳دیقی کا نام مشرف علی صدیقی ہے۔ آپ جنوری اکمل صبھارت میں پید اہوئے۔ تعلیم کے حصول کے بعد فوج میں بھرتی ہو گئے۔ دوسری

جنگ عظیم کا زمانہ مختلف مقامات پر گزارا۔ جنگ کے خاتمے پر یہ نوکری

چھوڑ دی اور مزید تعلیم کی طرف توجہ دی لیکن تقسیم ہند پر ہجرت کرنا ۵۷۴ظفر بریلوی کے حلقۂ تلمذ میں شامل ہو گئے۔ پڑی۔

گلوں کی وہ حسیں وادی جہاں رہتے ہو تم

اکمل

بہار اس کی تمہارے نام سے تعبیر ہوتی

۵۷۵ہے

ڈاکٹر رشید انور

‘‘مہاراج ایک کھیڈ تلوار دی اے جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی’’

بالکل وہی رشید انور جس نے پنجابی زبان و ادب میں نام کمایا۔ جیسے شعری مجموعوں کے ‘‘ لشکاں’’ اور‘‘ یاداں’’ ،‘‘ اڈاریاں’’،‘‘ منزالں’’

ء کو نوشہراں پنواں تحصیل ترنتارن ضلع امرتسر میں ۱۹۲۳ستمبر ۷خالق۔آ پ

سندھو قوم کے محکمہ نہر کے عہدے دار میاں کرم الدین کے ہاں پیدا ہوئے۔ ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر اسی سال فوج۱۹۴۲ آپ نے ۵۷۶

ء وچ ۱۹۴۶۔ دوجی جنگ عظیم وچ شامل رہے پر ۵۷۷ میں بھرتی ہو گئے۔

‘‘ م لیگی ایجی ٹیشن وچ حصہ لین دے شوق ہتھون فوج دی نوکری چھوڑ دی۔مسل ء کو الہور میں وفات پائی۔۱۹۸۹جنوری ۱۸آپ نے ۵۷۸

ء کو الہ آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام ۱۹۲۴جنوری ۱۱انور الہ آبادی

احبزادے تھے آپ محمد حیدر زیدی رکھا گیا۔ سید محمود حسین زیدی کے صمسلم انڈین ہائی سکول سے میٹرک کرنے کے بعد فوج میں بھر تی ہو گئے۔ اور

۵۷۹بقیہ تعلیم آرمی ایجوکیشن بورڈ سے حاصل کی۔

ابو جعفر کشفی کا آبائی وطن کشمیر تھا دوسری جنگ عظیم کے دوران ء ۱۸۸۱ں عالمہ رضا علی وحشت )مالزمت کے سلسلہ میں کلکتہ گئے تو وہا

ء ( سے مالقات نے شاعری کے موجودشوق کو تقویت بخشی اور ان کی ۱۹۵۶۔

شاگردی میں شامل ہو گئے۔ تب آپ فوج میں میجر تھے اور سرکار برطانیہ نے

Page 303: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

303

۔ آپ کی رباعیات کا مجموعہ رباعیات خان بہادر کا خطاب دے رکھا تھا آپ کو

کا ہے۔کشفی کے عنوان سے شائع ہو چ آزاد ہے پھر جی سے گزرتا ہے کیوں

جو کام ہے نا پسند کرتا ہے کیوں

مختار جو بنتے ہیں بتائیں تو ذرا

۵۸۰مجبور نہیں بشر تو مرتا ہے کیوں

باب چہارم کے حوالے سے اختتامیہ الفاظ میں یہ کہنا ضروری سمجھتا م ہند سے پہلے ہندوستانی فوج کا حصہ ہوں کہ ایسے عسکری اہل قلم جو تقسی

رہے اور بعدا زاں اپنی خدمات کو جاری رکھتے ہوئے بھارت یا پاکستان کی فوج

کا حصہ بنے ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ایک ضخیم کتاب ترتیب دی جاسکتی ہے۔

Page 304: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

304

حواشی و تعلیقاتکے عناصر اربعہ،بزم ادب اردو جناح یونیورسٹی برائے عائشہ سعید، پروفیسر ،اردو غزل ۔ ۱

۱۸۳ء ،ص ۲۰۰۳خواتین ،ناظم آباد کراچی ،

عنایت الرحمن صدیقی، بریگیڈئیر)ر( ،ارباب سیف و قلم ،نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسالم ۔۲

۲۸۶ء ،ص ۱۹۹۷آباد ،

۔۳ Ananda Bhattacharyya from sepoy to subedar, Kunal books New

Delhi, 2013, P-5

ء ،ص ۱۹۸۳ہیر یسن قربان ، ڈی۔اے ، اردو کے مسیحی شعراء ،خود سہارنپور ، ۔۴

۵۹

۶۰ایضا،ص ۔ ۵

ء ۲۰۱۰نواز کاوش ،ڈاکٹر، بہاولپور کا ادب ،چولستان علمی و ادبی فورم بہاولپور ، ۔ ۶

۵۹،ص

ایضا ۔۷

۳۱سریرام ،اللہ، خم خانۂ جاوید، جلد سوم ،ایضا،ص ۔ ۸

ء ،ص ۱۹۹۴عبدالرشید عصیم ، تذکرہ تالمذہ شاہ حاتم دہلوی، بیکن بکس ،ملتان ، ۔ ۹

۶۵۸

غالبا نواب کلب علی خان کی طرف سے اشارہ ہے۔ ۔۱۰

ء ،ص ۱۹۵۶ھ/دسمبر ۱۳۷۶ماہنامہ معارف،اعظم گڑھ، ربیع الثانی ،جمادی االول ، ۔ ۱۱

۲۵

ایضا ۔۱۲

ء۱۹۸۴،جنوری ۱۰ماہنامہ نقوش، الہور ،رسول نمبر ۔۱۳

ء ،ص ۱۹۷۵نقش حیدر آبادی ، تذکرہ عروس اال ذکار ،انجمن ترقی اردو کراچی ۔ ۱۴

۱۸۶

ایضا ۔ ۱۵

۴۹۴ء ،ص ۱۹۵۲نصیر الدین ہاشمی ،دکن میں اردو،اردو مرکز الہور، بار چہارم ، ۔ ۱۶

۱۳۲شاغل عثمانی ،ا حترام الدین احمد ،تذکرہ شعرائے جے پور ،ایضا،ص ۔۱۷

۱۳۳ایضا،ص ۔۱۸

،تاریخ ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،نئی دہلی ۲جامع اردو انسائیکلو پیڈیا ، ۔ ۱۹

۸۱ء ،ص ۲۰۰۰،

ء۱۹۵۸رئیس احمد جعفری ، واجد علی شاہ او ران کا عہد، ۔۲۰

ء ،ص ۱۹۵۸شاغل عثمانی ،احترام الدین ا حمد ، تذکرہ شعرائے جے پور ،ایضا،ص ۔ ۲۱

۹۳ ،۹۴

۲۱سریرام ،اللہ ، خم خانۂ جاوید، جلد دوم ،ایضا،ص ۔۲۲

۲۲، ۲۱ایضا ،ص ۔۲۳

۵۱ۂجاوید،جلدسوم،ایضا،صسریرام ،اللہ ، خم خان ۔ ۲۴

۵۲، ۵۱ایضا،ص ۔ ۲۵

ء ۱۹۸۱حمیدہ سلطان احمد، خاندان لوہارو کے شعراء ، غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ، ۔ ۲۶

۹۸،ص

۹۹ایضا،ص ۔۲۷

شید احمد خان یوسفی، مرتب ،خم خانۂ جاوید ،جلد ششم ،مقتدرہ قومی زبان، اسالم خور ۔ ۲۸

Page 305: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

305

۵۵ء ،ص ۱۹۹۰آباد،

سری رام ،اللۂ ،خم خانۂ جاوید، جلد پنجم ،مرتبہ پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی ، اللہ ۔ ۲۹

۵۰۹ء ،ص ۱۹۴۰امر چند کھنہ،دہلی ،

۵۵خورشید احمد خان یوسفی، ایضا،ص ۔۳۰

۱۱۱ء ،ص۲۰۱۲کنڈان ،لیکھ لکھتاں ، اکادمیات الہور، شاکر ۔ ۳۱

۲۰۱ء ،ص ۲۰۱۷شاکر کنڈان ، مقاالت نو)شخصی ( ،رنگ ادب ،کراچی ، ۔۳۲

نبی بخش خان بلوچ، ڈاکٹر، سندھ میں اردو شاعری ،مجلس ترقی ادب الہور، بار ۔۳۳

۳۴۱ء ص ۱۸۷۸سوم ، جون

۲۸۲ء ،ص ۱۹۸۰شاہدہ بیگم ، ڈاکٹر، سندھ میں اردو ،اردو اکیڈمی سندھ کراچی، ۔ ۳۴

مظہر جمیل ،سید ، مختصر تاریخ زبان و ادب سندھی ،مقتدرہ قومی زبان اسالم آباد، ۔ ۳۵

۱۹۳ء ،ص ۲۰۰۹

۶ء ،ص ۱۹۸۷علی نواز خان، ناز ،میر، کلیات ناز،سندی ادبی بورڈ ، جام شورو، ۔ ۳۶

۲۶ص ایضا، ۔۳۷

۲۸ایضا،ص ۔ ۳۸

صمصام شیرازی، یادگار سلور جوبلی )جلد جاگیرداران۔حصہ اول(مطبع تاج پریس ۔ ۳۹

۴۲حیدر آباد ،دکن ، س ن ،ص

ء( ترقی اردو ۱۹۵۷ء۔۱۸۵۷رشید موسوی ،ڈاکٹر، دکن میں مرثیہ اور عزا داری ) ۔۴۰

۱۰۹، ۱۰۸ء ،ص ۱۹۸۹بیورو نئی دہلی ،

۔ ۴۱ ۴۵،ص صمصام شیرازی،ایضا

۱۰۹نصیر الدین ہاشمی ، دکن میں اردو، ایضا،ص ۔ ۴۲

۱۰۹رشید موسوی ، ڈاکٹر، ایضا،ص ۔ ۴۳

وفا راشدی ، ڈاکٹر ،صوبیدار زیرک الشاری ،مشمولہ: ماہنامہ قومی زبان کراچی ۔ ۴۴

۳۸تا ۳۵ء ،ص ۱۹۸۴،فروری

۲۲۴، ۲۲۳نقش حیدر آبادی ، تذکرہ عروس اال ذکار ،ایضا،ص ۔ ۴۵

۳۳۳شاغل عثمانی ، احترام الدین احمد،ایضا،ص ۔ ۴۶

ء ،ص ۱۹۰۸سریرام ،اللہ ، خم خانۂ جاوید، جلد اول،مطبع منشی نول کشور الہور ، ۔ ۴۷

۵۲۹

۵۳۰ایضا،ص ۔ ۴۸

۱۰۱شاغل عثمانی ،احترام الدین احمد، ایضا،ص ۔ ۴۹

۱۰۱ایضا،ص ۔۵۰

ء ،سر ورق۱۹۱۸ہ پریس حیدر آباد دکن ، کشن پرشادشاد ، سیر و سفر ، مطبع ذخیر ۔۵۱

۴۳۴ء ،ص ۲۰۰۷انو راحمد میرٹھی ،بوستان عقیدت ،ادارہ فکر نو، کراچی ۔۵۲

نجم الغنی رامپوری ، تاریخ ریاست حیدر آباد دکن ،مطبع منشی نول کشور ،لکھنؤ ۔۵۳

۵۵۹ء ،ص ۱۹۳۰،

ت او رادبی خدمات ، سید فہیم حبیب ضیا ء ،ڈاکٹر ،مہاراجہ سرکشن پرشاد شاد ۔ حیا ۔ ۵۴

۲۱ء ،ص ۱۹۷۸الدین حیدر آباد

ء ۱۹۸۷عبدالقدوس ہاشمی ، تقویم تاریخی،ادارہ تحقیقات اسالمی ،اسالم آباد ،بار دوم ، ۔ ۵۵

۳۲۱، ۳۲۰،ص

ء ،ص ۱۹۷۶رفیع الدین اشفاق ، اردو میں نعتیہ شاعری ، اردو اکیڈمی سندھ ،کرچی ، ۔ ۵۶

۴۹۰

Page 306: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

306

۲۴۰ھ ،ص ۱۳۱۷کشن پر شاد شاد، رقعات شاد، محبوب پریس عالقہ پیشکار ، ۔ ۵۷

۲۳۹ء ،ص ۲۰۰۷نور احمد میرٹھی ،گلبانگ وحدت، ادارہ فکر نو، کراچی، ۔ ۵۸

۔ ۵۹ کشن پرشاد شاد، سیر و سفر ،ایضا

نشان زد کتابیں راقم کی نظر سے گزریں ۔ ۔ ۶۰

۲ھ ،ص ۱۳۴۰ل ،نظامی پریس بدایوں ،کشن پرشادشاد ،مہراج سر ، عرض حا ۔ ۶۱

ء۱۹۸۴، جنوری ۱۳۰ماہنامہ نقوش، رسول نمبر، الہور، شمارہ نمبر ۔۶۲

۷۸کشن پرشاد شاد ،سر ، بیاض شاد، نظامی پریس بدایوں ، س ن ، ص ۔۶۳

ھ ۱۳۲۹کشن پرشاد شاد، فریاد شاد)در فراق آصف پرشاد( ،مطبع اختر حیدر آباد ۔۶۴

۷،ص

مد شمس الحق، گلہائے رنگ رنگ، جلد دوم، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسالم آباد، مح ۔ ۶۵

۶۵۳ء، ص ۱۹۹۵

۵۰۰ایضا،ص ۔ ۶۶

۸۷سریرام ،اللہ ، خم خانۂ جاوید، جلد اول،ایضا،ص ۔۶۷

سر فراز علی رضوی، ماخذات۔ احوال شعراء اور مشاہیر، جلد اول، انجمن ترقی اردو ۔ ۶۸

۱۶۹ء ،ص ۱۹۷۷کراچی ،

۵۵ء ،ص ۱۹۷۷ظفر الحسن، مرزا، ذکر یار چلے ، نفیس اکیڈمی کراچی، فروری ۔ ۶۹

یونس شاہ ، پروفیسر ،سید ، تذکرہ نعت گویان اردو ،جلد دوم ،مکہ بکس الہور، ۔۷۰

۸۰ء ،ص ۱۹۸۴

۹۰سریرام ،اللہ ، خم خانۂ جاوید، جلد اول،ایضا،ص ۔ ۷۱

۱۵۲ء،ص ۱۹۷۶لوم اسالمی کراچی ، شفیق بریلوی، ارمغان نعت، مرکز ع ۔۷۲

۱۴۴رشید موسوی ، دکن میں مرثیہ او رعزا داری ، ایضا،ص ۔۷۳

( ء۱۹۲۹ھ/۱۳۴۷در درانی قندھاری ، فغان درد ، مصنف خود ۔گجرات س ن )غالبا ۔ ۷۴

تعارف اور کالم اسی دیوان کے مختلف صفحات سے لیا گیا ہے۔ ۔ ۷۵

ء ،ص ۱۹۸۳گ )تذکرہ شعرائے ہنود( ،مرتب خود ،دیو بند ،جوہر دیو بندی، موج گن ۔ ۷۶

۴۳

۴ء (،ص ۱۹۰۲ھ )۱۳۲۰محمد شمس الدین ، مرقع سخن ، مطبع حسنی فتح گڈھ ، ۔۷۷

۴۴جوہر دیو بندی ،ایضا،ص ۔ ۷۸

۴۹۸نصیر الدین ہاشمی ، دکن میں اردو ،ایضا،ص ۔ ۷۹

۵۰۸سریرام ،اللہ ، خم خانۂ جاوید، جلد سوم ، ایضا،ص ۔۸۰

ایضا ۔ ۸۱

ء ۲۰۰۲محمد عابد حسین منہاس ، تاریخ کہون ،چکوال ریسرچ سو سائٹی چکوال ، ۔۸۲

۱۵۷،ص

۱۵۷ایضا،ص ۔۸۳

ء ،ص ۱۹۳۸تسکین عابدی ،سید ، سخنوران دکن ،مطبع: برقی پریس حیدر آباد دکن ، ۔ ۸۴

۲۵۱

ء ،ص ۱۹۷۸حمد علوی ، حکیم ، سخنوران کاکوروی ،مے خانۂ ادب ،کراچی نثار ا ۔ ۸۵

۵۳۷

۱۲۸عبدالشکور شیدا، بیاض سخن، مؤلف خود حیدر آباد ،س ن ، ص ۔ ۸۶

۴۴۹سریرام ،اللہ ، خم خانۂ جاوید، جلد دوم ،ایضا،ص ۔۸۷

۴۵۰ایضا،ص ۔ ۸۸

Page 307: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

307

ں چراغ، قلم فاؤنڈیشن انٹر نیشنل محمد منیر احمد سلیچ ، ڈاکٹر، بجھتے چلے جاتے ہی ۔ ۸۹

۲۲۸ء ،ص ۲۰۱۸،الہور ،ء ۲۰۱۲نصیر احمداسد، سیالکوٹ میں نقدو ادب کی روایت ،مقالہ برائے پی ،ایچ ،ڈی ۔ ۹۰

۷۳ء مملوکہ یونیورسٹی آف سرگودھا ،ص۲۰۱۵۔

ء ،ص ۱۹۷۹حبیب کیفوی ، کشمیر میں اردو ، مرکزی اردو بورڈ گلبرگ الہور، ۔ ۹۱

۴۵۰

۷۳نصیر احمد اسد، ایضا،ص ۔۹۲

۴۵۰حبیب کیفوی، ایضا،ص ۔۹۳

۔ ۹۴ ۷۳ص 249نصیر احمد اسید، ایضا

۲۲۸محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر، بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ، ایضا،ص ۔ ۹۵

۴۵۲، ۴۵۱حبیب کیفوی ،ایضا،ص ۔ ۹۶

ء ۲۰۱۰رم بہاولپور ،نواز کاوش، ڈاکٹر، بہاولپور کا ادب ،چولستان علمی و ادبی فو ۔۹۷

۷۴،ص

عصمت درانی ، ڈاکٹر، ریاست بہاولپور کے عمائدین کی فارسی ادبی خدمات، ۔ ۹۸

،جنوری تامارچ ۶۴،شمارہ ۱۷مشمولہ :سہ ماہی پیغام آشنا، اسالم آباد، جلد

۳۸ء،ص ۲۰۱۶

ایضا ۔۹۹

۷۵نواز کاوش،ڈاکٹر، ایضا،ص ۔۱۰۰

محمد منیر احمد سلیچ ،ڈاکٹر ، وفیات ناموارن پاکستان ،ا ردو سائنس بورڈ الہور، ۔ ۱۰۱

۴۴۷ء ،ص ۲۰۰۶

چراغ حسن حسرت، مردم دیدہ ، مرتب: محمد عارف، نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسالم ۔۱۰۲

۷۳،۷۴ء ،ص ۲۰۱۵آباد،

ت آثار ، سنگ غالم حسین ذوالفقار، پروفیسر ڈاکٹر، موالنا ظفر علی خان۔ حیات خدما ۔۱۰۳

۳۷ء،ص ۱۹۹۳میل پبلی کیشنز ،الہور

ء،ص ۱۹۷۶رفیع الدین اشفاق ، اردو میں نعتیہ شاعری ،اردو اکیڈمی سندھ کراچی ، ۔ ۱۰۴

۴۵۱

محمد اقبال جاوید ، پروفیسر ، ظفر علی خان کی نعت ، ماہنامہ نعت ،الہور ،جون ۔ ۱۰۵

۸۴ء ،ص ۲۰۰۱

۲۳ء ،ص ۱۹۴۴تان ،پبلشرز یونائٹیڈ الہور، ظفر علی خان ، موالنا ، چمنس ۔ ۱۰۶

۱۰۴ء ،ص ۲۰۰۰ظفر علی خان ، موالنا ، نگارستان ،پبلشرز یونائیٹڈ الہور، ۔۱۰۷

محمد اقبال جاوید، پروفیسر ، موالنا ظفر علی خان کی نعت، ماہنامہ نعت ،الہور ۔ ۱۰۸

۴۶ء ،ص ۲۰۰۱،جون ایک ایک لفظ ،ایک ایک حرف اور ایک ایک اس کے برعکس قرآن مجید فرقان حمید کا ۔ ۱۰۹

سطر کسی تحریف، ترمیم یا تغیر کے بغیر اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود بعینہ اسی

کی ‘‘وانا لہ لحافظون ’’طرح ہے جس طرح حضور نبی کریم پر نازل ہوا تھا۔ اور

تصدیق کر رہا ہے۔

ز ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر ، مطبوعۂ ظفر علی خان ،موالنا ،مترجم ،معرکۂ مذہب و سائنس ا ۔ ۱۱۰

۲۵۶ء، ص ۱۹۱۰رفاہ عام اسٹیم پریس الہور ،

۱۹النسرز عمر حیات خان کے والد ماجد کی رجمنٹ تھی بعد ازاں اس کا نام ۱۸ ۔ ۱۱۱

النسرز ۱۹کنگ جارج النسرز رکھا گیا ۔ یہ یونٹ آج پاکستان فوج کا حصہ ہے۔ اور

Page 308: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

308

کی میت جب برطانیہ سے آئی تو اس کے نام سے مشہور ہے۔ ملک خضر حیات

یونٹ نے اسے وصول کیا اور اعزا ز کے ساتھ دفن کیا۔ اس یونٹ کے اعلی افسران

میں جنرل حمید گل ،جنرل توقیر ضیاء ، جنرل تنویر نقوی اور جنرل محمد عارف

جیسے ماہر فوجی جرنیل اور سویلین منتظمین قوم کو دئیے۔

۱۶۵ء ،ص ۲۰۰۳حیات خان ٹوانہ ، فکشن ہاؤس الہور ، غالم رسول مہر، سر عمر ۔۱۱۲

113- En .wikipedia.org/wiki/malik.umar-Hayat-Khan militory service.

۱۳۴،۲۹۵غالم رسول مہر، ایضا،ص ۔۱۱۴

۲۷۴غالم رسول مہر، ایضا،ص ۔ ۱۱۵

۴۶، ۴۵محمد شمس الدین ،مرقع سخن ، ایضا ،ص ۔ ۱۱۶

۴۱۹سریرام ،اللہ ، خم خانۂ جاوید، جلد سوم، ایضا،ص ۔۱۱۷

شبیر علی خان شکیب، رام پور کا دبستان شاعری ،رام پور رضا الئبریری رام پور ، ۔ ۱۱۸

۴۱۷ء ،ص ۱۹۹۹

۴۵۴شاغل عثمانی ، تذکرہ شعرائے جے پور، ایضا،ص ۔ ۱۱۹

۱۰۹ایضا،ص ۔۱۲۰

۱۱۰ایضا،ص ۔ ۱۲۱

،اردو محل پبلشرز لکھنؤ ۱۰تذکرہ شعرائے اتر پردیش، جلد عرفان عباسی ، ۔۱۲۲

۱۲۸ء ،ص ۱۹۸۴،

۱۶۸ہیریسن قربان ،ڈی۔اے ، اردو کے مسیحی شعراء ،ایضا،ص ۔۱۲۳

۱۲۹،۱۳۰،ایضا،ص ۱۰عرفان عباسی ، تذکرہ شعرائے اتر پردیش ،جلد ۔ ۱۲۴

، ۲ء،ص ۱۹۲۶،الہور ،اصغر علی خان ،کرنل سردار ، متہوران ہند، مفید عام پریس ۔ ۱۲۵

۳

عرفان عباسی، تذکرہ شعرائے اتر پردیش، جلد سوم، اردو محل پبلشرز لکھنو، ۔ ۱۲۶

۲۱۶ء، ص۱۹۸۳

ء ہو گئی کیونکہ ایک بچہ ۱۸۹۰ء نہیں بلکہ ۱۸۸۰میرے خیال میں تاریخ پیدائش ۔۱۲۷

سال کی عمر میں میٹرک کر لیتا ہے۔ ۱۶گھر میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے پر بھی

سال کی عمر میٹرک کے وقت بنتی ہے۔ ۲۶یہاں

۲۱۷عرفان عباسی ، تذکرہ شعرائے اتر پردیش، جلد سوم ،ایضا،ص ۔ ۱۲۸

۲۱۸ایضا،ص ۔ ۱۲۹

اعجا زحسین ،ڈاکٹر سید، مختصر تاریخ ادب اردو، ادارہ فروغ اردو لکھنؤ، ۔۱۳۰

۲۱۹ص ء ،۱۹۶۵گیارھواں ایڈیشن

ء ،ص ۲۰۰۸محمد عابد منہاس ، چکوال میں نعت گوئی ،کشمیر پبلی کیشنز ،چکوال ۔ ۱۳۱

۵۱

۵۱ایضا،ص ۔۱۳۲

۵۸شاہ سوار علی ناصر ،ملک ، جواہر اال عوان،ایضا،ص ۔۱۳۳

۳۹۳شاغل عثمانی ، تذکرہ شعرائے جے پور ، ایضا،ص ۔۱۳۴

۹۸ید ،جلد ششم ،ایضا،ص خورشید احمد خان یوسفی ، خم خانۂ جاو ۔ ۱۳۵

تذکرہ اہل قلم و شعرائے گلگت،ایضا ۔ ۱۳۶

۔۱۳۷ سید عالم ، شمالی عالقہ جات میں اردو،ایضا

ایضا ۔ ۱۳۸

۱۴۴نثا راحمد علوی ،حکیم ، سخنوران کاکوری،ص ۔ ۱۳۹

Page 309: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

309

۱۴۴ایضا،ص ۔۱۴۰

۱۱حمیدہ سلطان احمد، خاندان لوہار کے شعراء ،ایضا، ص ۔ ۱۴۱

۱۸ایضا،ص ۔۱۴۲

۱تسکین عابدی ،سید ، سخنوران دکن ، ایضا،ص ۔۱۴۳

محمد صادق قصوری، تذکرہ شعرائے جماعتیہ ،مرکزی مجلس امیر ملت پاکستان ۔۱۴۴

۹۶ء ،ص ۲۰۰۶،برج کالں قصور ،مئی

۵۵ظفر الحسن ،مرزا ، ذکر یار چلے ،ص ۔ ۱۴۵

۲تسکین عابدی، سید، ایضا،ص ۔ ۱۴۶

۳۲۶دالقدوس ہاشمی ، تقویم تاریخی، ایضا،ص عب ۔۱۴۷

۲تسکین عابدی، سید، ایضا،ص ۔۱۴۸

۹۷محمد صادق قصوری ، تذکرہ شعرائے جماعتیہ ،ایضا،ص ۔ ۱۴۹

عثمان علی خان ،میر ، دیوان آصف سابع نظام حیدر آباد، جلد اول ،حیدر آباد ۔۱۵۰

۱ھ ،ص ۱۳۲۵دکن

۵۹ایضا،ص ۔ ۱۵۱

دتہ طالب ، ڈاکٹر، شیخ،انوار طالب ،مطبع شرکت پرنٹنگ پریس الہور، س محمد ہللا ۔۱۵۲

۸ن ،ص

محمد منیر احمد سلیچ ،ڈاکٹر ، خفتگان خاک گجرات ،سلیچ پبلی کیشنز ۔۱۵۳

ء۱۹۹۶لوراں)گجرات(

کنگ ایڈورڈ کالج الہور کی مکمل فہرست ،ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ کے ہاں راقم ۔۱۵۴

نے مطالعہ کی اس میں کہیں بھی ہللا دتہ طالب اور فقیر محمد فقیر کا نام شامل نہیں

ہے۔ فقیر محمد فقیر کے نام کے ساتھ بھی ڈاکٹر کا سابقہ لگایا جاتا ہے۔

ساکر پاکستان ،جلد اول ،حصہ دوم ،ادارہ فروغ ادب شاکر کنڈان ، اردو ادب اور ع ۔ ۱۵۵

۱۸۱ء ،ص ۲۰۰۰پاکستان ، کنڈان )سرگودھا( ،

ء۱۹۹۷جوالئی ۲ ۰گفتگو ،ڈاکٹر احمد حسین احمد قریشی قلعہ داری ،گجرا ت ، ۔ ۱۵۶

۱۸۱شاکر کنڈان، اردو ادب اور عساکر پاکستان ،جلد اول حصہ دوم ، ایضا،ص ۔۱۵۷

۵۰ایضا،ص ۔ ۱۵۸

محمد ہللا دتہ طالب ، ڈاکٹر شیخ ، تصوف ،دربار عالیہ طالبیہ یہ کنجاہ شریف ۔ ۱۵۹

۵۱ء ،ص ۱۹۹۷)گجرات(

محمد قاسم ،سید ، پاکستان کے نعت گو شعراء ،جلد دوم ، حرا فاؤنڈیشن پاکستان ۔ ۱۶۰

۲۸۴ء ،ص ۲۰۰۷کراچی ،

ء ۲۰۱۶کراچی ،فروری محمدقاسم ،سید ، خاک میں پنہاں صورتیں ، ادارہ تذکرہ ۔ ۱۶۱

۵۳۹،ص

ء ،ص ۲۰۱۶منظر عارفی ، کراچی کا دبستان نعت ،نعت ریسرچ سنٹر کراچی ، ۔۱۶۲

۳۷۸

شہزاد احمد ، ڈاکٹر، ایک سو ایک پاکستان نعت گو ، رنگ ادب پبلی کیشنز کراچی ، ۔۱۶۳

۷۳ء،ص ۲۰۱۷

شہزاد احمد، ڈاکٹر، اردو نعت پاکستان میں ،حمد ونعت ریسرچ فاؤنڈیشن کراچی ، ۔ ۱۶۴

۱۷۳ء،ص۲۰۱۴

۳۷۸منظر عارفی ، ایضا،ص ۔ ۱۶۵

۷۳شہزاد احمد ،ڈاکٹر، ایک سو ایک پاکستانی نعت گو، ایضا،ص ۔ ۱۶۶

Page 310: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

310

۲۸۳محمد قاسم ،سید ، پاکستان کے نعت گو شعراء ، جلددوم ،ایضا،ص ۔۱۶۷

پر بڑی تفصیل سے بحث کی جا سکتی ہے۔ لیکن میں وقت اور ورق کا زیاں نہیں اس ۔ ۱۶۸

کروں گا جنھوں نے سمجھنا ہو گا سمجھ لے گا۔

۵۴۰محمد قاسم ،سید، خاک میں پنہاں صورتیں، ایضا،ص ۔ ۱۶۹

۲۴، ۲۳شہزاد احمد ،ڈاکٹر، اردو نعت پاکستان میں ، ایضا،ص ۔۱۷۰

۲۸۵ستان کے نعت گو شعراء، جلد دوم ، ایضا،ص محمد قاسم ،سید، پاک ۔ ۱۷۱

۲۲۹محمد منیرا حمد سلیچ ،ڈاکٹر، اقبال اور گجرات ،ایضا ،ص ۔۱۷۲

محمد عبدہللا قریشی ،نڈر صحافی سید حبیب ،مشمولہ سہ ماہی صحیفہ الہور، جوالئی ۔۱۷۳

۸ء ،ص ۱۹۸۷ستمبر

ء ،۱۹۹وسی،ااسحاق آشفتہ ، گجرات کی بات، مصنف خود ،اللۂ م ۔۱۷۴

محمد منیر احمد سلیچ ، ڈاکٹر، اقبال اور گجرات، ایضا، ۔ ۱۷۵

کلیم احسان بٹ، گجرات میں اردو شاعری ، ناوک پبلشز ز جاللپور جٹاں ۔ ۱۷۶

۱۰۶ء،ص ۱۹۹۶،

محمد اسلم ، پروفیسر ، خفتگان خاک الہور، ادارہ تحقیقات پاکستان دانشگاہ پنجاب ۔۱۷۷

ء۱۹۹۳الہور،

محمد منیر احمد سلیچ ،ڈاکٹر ، وفیات اہل قلم ،اکادمی ادبیات پاکستان، اسالم آباد ، ۔ ۱۷۸

۱۳۳ء ،ص ۲۰۰۸

۱۵۲محمد منیر احمد سلیچ ،ڈاکٹر، بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ،ص ۔ ۱۷۹

محمد منیر احمد سلیچ ،ڈاکٹر، وفیات نامور ان پاکستان، اردو سائنس بورڈ ،الہور ۔ ۱۸۰

۲۵۶ء،ص ۲۰۰۶،

محمد اسماعیل پانی پتی ،شیخ ، ادیب اور مصنف،مشمولہ:ماہنامہ نقوش، الہور ،شمارہ ۔ ۱۸۱

۹۲۶ء ،ص ۱۹۶۲الہور نمبر ( فروری )۹۲

ء ،ص ۱۹۷۶عبدالسالم خورشید، ڈاکٹر، وے صورتیں الہی، قومی کتب خانہ الہور، ۔۱۸۲

۱۰۹

، ۲۷۸حصہ دوم ،ایضا،ص شاکر کنڈان ، اردو ادب اور عساکر پاکستان ،جلد اول، ۔۱۸۳

۲۷۹

۲۵۴محمود الرحمان ، ڈاکر، سبد گل ،ایضا،ص ۔۱۸۴

۴۳۰شبیر علی خان شکیب، رام پور کا دبستان شاعری ،ایضا،ص ۔ ۱۸۵

ء ،ص ۲۰۱۲عتیق جیالنی سالک ، رام پور شناسی ،کلیتہ الحسنات رام پور ،)یوپی (، ۔ ۱۸۶

۲۸۰

ء ،ص ۱۹۲۹احمد علی خان شوق، حافظ، تذکرہ کامالن رام پور ،ہمدرد پریس دہلی، ۔۱۸۷

۲

۳۸۸جوہر دیو بندی ، موج گنگ، ایضا،ص ۔ ۱۸۸

۳۷۶ء ،ص ۱۹۳۲شیام سندر الل برق ،بابو ،بہار سخن، مطبع ایل بی، سیتا پور، ۔ ۱۸۹

محل پبلشرز، لکھنؤ عرفان عباسی ، تذکرہ شعرائے اتر پردیش ، جلد ششم ،ارود ۔ ۱۹۰

۳۲۵ء ،ص ۱۹۸۳،

۶ء ،ص ۱۹۶۲حاجی لق لق، کالم لق لق ، ہندوستانی پبلشنگ ہاؤس دہلی، ۔ ۱۹۱

شاکر کنڈان ، اردو ادب اور عساکر پاکستان ،جلد اول، حصہ اول، ادارہ فروغ ادب ۔۱۹۲

۲۹۶ھ،ص ۱۴۱۷کنڈان سرگودھا،

۔اکتوبر ۱۳وزنامہ نوائے وقت الہور، مسعود شیخ ،حاجی لق لق مرحوم ،مشمولہ:ر ۔۱۹۳

Page 311: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

311

۱۲ء ،ص ۱۹۹۵

۴۰۴ء ،ص ۱۹۸۸زاہد حسین انجم ، ہمارے اہل قلم ،ملک بک ڈپو الہور، ۔ ۱۹۴

۱۲۸محمد منیر احمد سیچ، ڈاکٹر، وفیات اہل قلم ،ایضا،ص ۔ ۱۹۵

ء ۲۰۰۵محمد علی چراغ، انسائیکلو پیڈیا ، مسلم شخصیات، نذیر سنز پبلشرز، الہور ، ۔ ۱۹۶

۲۰۵،ص

ء ،ص ۱۹۷۴نسرین چوہدری ، حاجی لق لق ، مقالہ برائے ایم اے اردو، جنوری ۔۱۹۷

۴مملوکہ :پنجاب یونیورسٹی الہور، ص

۶عنایت الرحمن صدیقی ، بریگیڈئیر )ر ( ارباب سیف و قلم ،ایضا،ص ۔ ۱۹۸

۲۲۵ء ،ص ۲۰۱۴خالد مصطفی ، وفیات اہل قلم عساکر پاکستان ،فکشن ہاؤس الہور، ۔ ۱۹۹

ء ۲۰۱۳یاسر جواد، انسائیکلو پیڈیا ،ادبیات عالم ،اکادمی ادبیات پاکستان ، اسالم آباد، ۔۲۰۰

۶۳۰،ص

201- en.wikipedia.org/wiki/haji-laq-laq

۔ ۲۰۲ مسعود شیخ، ایضا

محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر، وفیات ا ۔۲۰۳ ہل قلم ،ایضا

نسرین چوہدری ،ایضا ۔ ۲۰۴

۔ ۲۰۵ زاہد حسین انجم ، ہمار ے اہل قلم ،ایضا

۔ ۲۰۶ محمد علی چراغ، ایضا

۔۲۰۷ یاسر جواد، ایضا

۵۴۶ء ،ص ۲۰۰۸علی محمد خان، ڈاکٹر ، الہور کا دبستان شاعری ، نشریات الہور، ۔ ۲۰۸

۲۵۸ء ،ص ۲۰۰۰ائیکلوپیڈیا ،نگارشات الہور، عزیز علی شیخ ، مشاہیر پنجاب کا انس ۔ ۲۰۹

شاکر کنڈان ، اردو ادب اور عساکر پاکستان ،جلد اول ،حصہ اول، ایضا ۔ ۲۱۰

حاجی لق لق ، درانتی اور دوسرے مضامین ، اردو بک سٹال الہور ،سوئم ،ستمبر ۔ ۲۱۱

۸،۹ء ،ص ۱۹۴۸

۷عنایت الرحمن صدیقی ، بریگیڈئیر )ر( ایضا،ص ۔۲۱۲

ء،ص ۱۹۹۳شیدا کاشمیر ی ،آغا، آتش زیر پا، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی الہور ، ۔۲۱۳

۲۱

سند باد جہازی ،دیباچہ ، لق لقہ ا ز حاجی لق لق ، اردو اکیڈمی پنجاب الہور، ۔ ۲۱۴

۶ء ،ص ۱۹۳۹،

آدم اللغات از حاجی لق لق پیروڈی ہے کئی لغات کی۔ اصل میں آدم اللغات سیٹھ آدم ۔ ۲۱۵

عبدہللا بمبئی والے کی تالیف ہے۔ جی

۱۱۸حاجی لق لق، پرواز لق لق، کتابستان نیو دہلی ،س ن ، ص ۔ ۲۱۶

۱۵تا ۱۳حاجی لق لق ، آواز لق لق، کتابستان نئی دہلی ، س ن ، ص ۔۲۱۷

۱۶۱نواز کاوش، ڈاکٹر، بہاولپور کا ادب ، ایضا،ص ۔ ۲۱۸

از ثروت ملک، مقالہ برائے ایم اے سرائیکی، بحوالہ نذیر علی شاہ شخصیت تے فن *

ء ۱۹۹۲بہاولپور،

۴۸۰زاہد حسین انجم ، ہمارے اہل قلم ،ایضا،ص ۔ ۲۱۹

۴۶۶محمد منیر احمد سلیچ ،ڈاکٹر، وفیات اہل قلم ،ایضا،ص ۔۲۲۰

دلشاد کالنچوی ،پروفیسر ، ضلع بہاولپور ،تاریخ ثقافت ادب ، پاکستان پنجابی ادب ۔ ۲۲۱

۲۷۴ء ،ص ۱۹۹۷رڈ الہور، بو

نواز کاوش، ڈاکٹر،ایضا ۔۲۲۲

Page 312: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

312

دلشاد کالنچوی ،ایضا،ص ۔۲۲۳

۳۱ء ،ص ۱۹۹۱محمد حسن خان میرانی، قندیل تواریخ ،اردو اکیڈمی بہاولپور ، ۔ ۲۲۴

شاکر کنڈان ،اردو ادب اور عساکر پاکستان ،جلد دوم ،حصہ اول ، ادارہ فروغ ادب ۔ ۲۲۵

۵۹ء ،ص ۱۹۹۷سرگودھا،پاکستان ،کنڈان

۱۶۲نواز کاوش، ڈاکٹر، ایضا،ص ۔ ۲۲۶

طاہرہ سرور، ڈاکٹر، عساکر پاکستان کی ادبی خدمات ، اردو نثر میں ،اکادمیات ۔۲۲۷

۲۱ء ،ص ۲۰۱۳،الہور ،

ندیم افضل ندیم ،وقار انبالوی شخصیت اور شاعری ، مقالہ برائے ایم اے اردو ۔ ۲۲۸

۳۹ہور، ص ء ،پنجاب یونیورسٹی ال۱۹۸۹

۱عنایت الرحمن صدیقی، بریگیڈئیر ،ارباب سیف و قلم ،ایضا،ص ۔ ۲۲۹

۴۸۹محمد منیر احمد سلیچ، وفیات اہل قلم ،ایضا،ص ۔۲۳۰

۹۳۲یاسر جواد، انسائیکلو پیڈیا ، ادبیات عالم ،ایضا،ص ۔ ۲۳۱

۴۰۷ء ،ص ۱۹۹۱مالک رام دہلوی ، تذکرہ ماہ و سال ، مکتبہ جامع نئی دہلی، ۔۲۳۲

نسیم رضوانی ، ملک محمد باقر ،شعرائے پنجاب)عصر حاضر(، گجرات پرنٹنگ ۔۲۳۳

۲۰۷ء ،ص ۱۹۳۷پریس گجرات)پنجاب (

ء ۱۹۸۶نفیس اقبال، پاکستان میں اردو گیت نگاری ، سنگ میل پبلی کیشنز ،الہو ر ۔ ۲۳۴

۲۱۶،ص

ان دنوں کی ہے جب وقار انبالوی محمد صادق شاذ کا تعلق کوئٹہ سے تھا اور یہ بات ۔ ۲۳۵

کوئٹہ میں مقیم تھے۔

ء ۱۹۸۶انعام الحق کوثر، ڈاکٹر، بلوچستان میں اردو ، مقتدرہ قومی زبان اسالم آباد، ۔ ۲۳۶

۱۹۷،ص

۱۲۱وقار انبالوی، بیان حال ،مکتبہ نوائے وقت الہور، س ن ،ص ۔۲۳۷

۸۷ء ،،ص۱۹۴۷ر ،وقار انبالوی، زبان حال ،تاجر ان کتب ،الہو ۔ ۲۳۸

احمد حسین قریشی ،ڈاکٹر، پنجابی ادبیات کی مختصر تاریخ ، عزیز بک ڈپو، الہور، ۔ ۲۳۹

۱۵۹ء،ص ۲۰۰۲

۹۲کسری منہاس ، مؤرخین الہور، مشمولہ: ماہنامہ نقوش، الہور ،شمارہ نمبر ۔۲۴۰

۹۹۳،۹۹۴ء ،ص ۱۹۶۲فروری

۹۹۴ایضا،ص ۔ ۲۴۱

ایضا ۔۲۴۲

۲۲۲، خم خانۂ جاوید، جلد سوم ،ایضا،ص سریرام ،اللہ ۔۲۴۳

۵۱۰انعام الحق کوثر، ڈاکٹر، بلوچستان میں اردو ،ایضا،ص ۔ ۲۴۴

ء ۱۹۸۸حمید ہللا شاہ ہاشمی ، پنجابی زبان و ادب ،انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی، ۔ ۲۴۵

۷،ص

۱۵۰ء ،ص ۱۹۸۸عبدالرؤف عروج، رجال اقبال ، نفیس اکیڈمی کراچی، ۔۲۴۶

۲۸۷عنایت الرحمن صدیقی، بریگیڈئیر ،ایضا،ص ۔۲۴۷

اسرار احمد ، ڈاکٹر، اردو شاعری میں بہار کے ہندو شعراء کا حصہ، ایجوکیشنل ۔ ۲۴۸

۵۲ء،ص۲۰۰۹پبلشنگ ہاؤس، دہلی،

۴۴۷محمد منیر احمد سلیچ ،ڈاکٹر ، وفیات اہل قلم ،ایضا،ص ۔ ۲۴۹

۲۰عنایت الرحمن صدیقی، بریگیڈئیر ،ایضا،ص ۔۲۵۰

۵ء ،ص ۱۹۶۹مارچ ۹ہفت روزہ ہالل ،راولپنڈی ، ۔ ۲۵۱

Page 313: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

313

بحوالہ فن تاریخ گوئی از منظور ۲۱عنایت الرحمن صدیقی ،بریگیڈئیر ،ایضا،ص ۔۲۵۲

حسن

۳۴۵محمد منیر احمد سلیچ ،ڈاکٹر ، بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ، ایضا،ص ۔۲۵۳

ز کاوش ،ڈاکٹر ،ریاست بہاولپور کے عمائدین کی فارسی ادبی خدمات ،ایضا،ص نوا ۔ ۲۵۴

۴۰

۸۳عصمت درانی، بہاول پور کا ادب، ایضا، ص ۔ ۲۵۵

۱۸۸خالد مصطفی ، وفیات اہل قلم عساکر پاکستان ،ایضا،ص ۔ ۲۵۶

ء ۱۹۸۷مسعود حسن شہاب دہلوی ، مشاہیر بہاولپور ،اردو اکیڈمی بہاولپور ،دوم ۔۲۵۷

۳۴،ص

۴۰۰محمد منیر سلیچ ،ڈاکٹر ، وفیات ناموران پاکستان، ایضا،ص ۔ ۲۵۸

۲۵۵خالد مصطفی ، وفیات اہل قلم عساکر پاکستان، ایضا،ص ۔ ۲۵۹

۹۰عنایت الرحمان صدیقی،بریگیڈئیر ،ایضا،ص ۔ ۲۶۰

شاکر کنڈان ، کیپٹن، اردو ادب او رعساکر پاکستان ،جلد دوم ،حصہ اول ، ایضا ،ص ۔ ۲۶۱

۳۳۰

۲۱ضمیر جعفری سید، اڑتے ہوئے خاکے، شیخ غالم علی الہور ،س ن ،ص ۔۲۶۲

ء ،ص ۲۰۱۶محمد قاسم ،سید ، خاک میں پنہاں صورتیں ، ادارہ تذکرہ ،کراچی ، ۔۲۶۳

۱۲۸ ،۱۲۹

دبستانوں کا دبستان ،جلد چہارم ،محمد حسین اکیڈمی کراچی ، احمد حسین صدیقی ، ۔ ۲۶۴

۲۸ء،ص ۲۰۱۴

ء ،ص ۱۹۹۷ء۔۱۹۹۸ماہنامہ شاعر ، ہم عصر اردو ادب نمبر ، جلد اول ،ممبئی ، ۔ ۲۶۵

۵۲۴

عاکف سنبھلی ، ڈاکٹر رضا الرحمان ،سوانحی انسائیکلوپیڈیا ،جلد دوم ،کتابی دنیا ۔ ۲۶۶

۶۴ء ،ص ۲۰۱۰،دہلی ، ہید اعظم ،ڈاکٹر اعظم کریوی کا فن افسانہ نگاری ،مشمولہ ،سہ ماہی اال قربا، اسالم نا ۔۲۶۷

۸۷ء ،ص ۲۰۰۳، اکتوبر تا دسمبر ۴،شمارہ ۶آباد، جلد

۲۸احمد حسین صدیقی، ایضا،ص ۔ ۲۶۸

۶۲محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکڑ، وفیات اہل قلم ، ایضا،ص ۔ ۲۶۹

ماہنامہ شاعر، ہم عصر اردو ادب نمبر، ایضا ۔۲۷۰

۳۳ضمیر جعفری ،سید ، اڑتے ہوئے خاکے، ایضا،ص ۔ ۲۷۱

اعظم کریوی ، پریم کی چوڑیاں اور دوسرے افسانے ،کتاب خانہ دانش محل لکھنؤ ، ۔۲۷۲

۷۵ء ،ص ۱۹۴۲

۳ء،ص ۱۹۵۰جون ، ۳۰ہفت روزہ مجاہد، کراچی ، ۔۲۷۳

ء ۱۹۹۶ا ردو کے امی شعراء ،اردو اکیڈمی پاکستان کراچی ، عزیز الکالم ،شاہ، ۔ ۲۷۴

۱۳۹،ص

۱۴۰ایضا،ص ۔ ۲۷۵

مشمولہ ، ‘‘رائد سیف و قلم ۔قاضی نذر االسالم ’’راقم نے اپنے ایک مضمون بعنوان ۔ ۲۷۶

ء ،ص ۲۰۱۷مقاالت نو )شخصی ( از شاکر کنڈان، رنگ ادبی پبلی کیشنز کراچی

مطبوعہ سہ ماہی ادب معلی الہو رجنوری تامارچ اور ۱۳۹تا صفحہ ۱۱۵صفحہ

ء میں بڑی تفصیل سے بحث کی ہے۔۲۰۰۸

Page 314: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

314

ء ،ادارہ ۱۹۵۲ء سے ۱۹۴۸میزان الرحمن ،نذر االلسالم ،مشمولہ : انتخاب ماہ نو ، ۔۲۷۷

۱۰۱مطبوعات پاکستان کراچی ، ص

ء ،ص ۱۹۵۵اکستان( ،وفا راشدی ، بنگال میں اردو ، مکتبہ اشاعت ،اردو حیدر آباد)پ ۔ ۲۷۸

۱۳۹ ،۱۴۰

شمیم بانو، پروفیسر ،قاضی نذ ر االسالم کی شاعری میں اردو الفاظ او رجملوں کا ۔ ۲۷۹

، شعبہ اردو ڈھاکہ ۱استعمال ،مشمولہ :ڈھاکہ یونیورسٹی جرنل آف اردو شمارہ نمبر

۷۳، ۷۲ء ،ص ۲۰۰۸یونیورسٹی بنگلہ دیش

۷۳ایضا،ص ۔ ۲۸۰

۱۳۷شاکر کنڈان، مقاالت نو)شخصی( ،ایضا،ص ۔ ۲۸۱

۲۱۴شاکر کنڈان ، اردو ادب اور عساکر پاکستان ، جلد اول ،حصہ اول ، ایضا،ص ۔۲۸۲

۱۱۰محمد منیر احمد سلیچ ،ڈاکٹر ، وفیات اہل قلم ، ایضا،ص ۔۲۸۳

اکثر راقم نے اردو ادب اور عساکر پاکستان کی تالیف کے دوران ان میں سے ۔ ۲۸۴

معلومات تبسم قریشی کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر احمد حسین قریشی قلعداری سے

’’ ء میں گجرات میں حاصل کیں۔ کچھ شکوک کی بنا پر کتب کے ساتھ میں نے۱۹۹۷

لکھا ہے کہ مطبوعہ نہیں لکھا۔‘‘ تصنیف کیں

ہور سلطان محمود حسین ،ڈاکٹر ،سید ، تاریخ پسرور، سنگ میل پبلی کیشنز، ال ۔ ۲۸۵

۲۶۱ء ،ص ۱۹۸۱

ء،ص ۲۰۱۳مشتاق احمد قریشی، محمد ندیم قاسمی ، آئینہ پسرور، ادبی دائرہ پسرور، ۔ ۲۸۶

۲۲۱

۲۳ء ،ص ۱۹۸۵عبدہللا شاہ ، سید، میری داستان ، آتش فشاں پبلی کیشنز ،الہور، ۔۲۸۷

ء ۱۹۸۲سالہ زندگی کی یاداشتیں ،مصنف خود، پشاور ، ۸۱عبدہللا شاہ ،سید، میری ۔ ۲۸۸

۱۰،ص

۴۴۵ایضا،ص ۔ ۲۸۹

ء ۱۹۸۳عرفان عباسی ، تذکرہ شعرائے اتر پردیش ، جلد ششم ،مصنف خود لکھنؤ ، ۔ ۲۹۰

۳۲۴،ص

ایضا، ۔ ۲۹۱

ہوش بلگرامی ،نواب ہوش یار جنگ بہادر ، سرور غم ،مطبع دارلطبع سرکار عالی ۔۲۹۲

۲ء ،ص ۱۹۴۷،حیدر آباد، )دکن( ،

ء ۱۹۴۶ہوش بلگرامی، طوفان محبت، دارالطبع سرکار عالی حیدر آباد،) دکن( ، ۔۲۹۳

۳، ۲، ۱،ص

۳۷۵ء ،ص ۱۹۳۲شیام سندر الل برق ، بابو، بہادر سخں ،مطبع ایل بی سیتاپور ، ۔۲۹۴

۳۸۸جوہر دیو بندی ، موج گنگ ،ایضا،ص ۔ ۲۹۵

۳۶۹رائے جے پور ، ایضا،ص شاغل عثمانی ،احترام الدین شاعل ، تذکرہ شع ۔ ۲۹۶

ایضا ۔۲۹۷

محمد قاسم ،سید، پاکستان کے نعت گو شعراء ، جلد سوم ، جہان حمد پبلی کیشنز ۔ ۲۹۸

۴۲۵ء ،ص ۲۰۱۰،کراچی ،

ء ،ص ۲۰۰۱حفیظ احمد ،ڈاکٹر ، گواچے مہاندرے ، فروغ ادب اکادمی ،گوجرانوالہ ، ۔ ۲۹۹

۱۴۳

،علی شفقت ، گجرات کی بات ، خود اللہ موسی گجرات محمد اسحا ق آشفتہ و لیاقت ۔۳۰۰

۱۱۴ء ،ص ۱۹۹۱

Page 315: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

315

۴۲۶محمد قاسم ، سید، پاکستان کے نعت گو شعراء ، جلد سوم ،ایضا،ص ۔ ۳۰۱

۱۸۸عرفان عباسی ، تذکرہ شعرائے اتر پردیش ،جلد سوم ،ایضا ، ص ۔۳۰۲

۱۸۹ایضا،ص ۔۳۰۳

۱۹۱، ۱۹۰ایضا،ص ۔ ۳۰۴

۲۸۰شاکر کنڈان ، اردو ادب اور عساکر پاکستان ،جلد اول ،حصہ دوم ،ایضا،ص ۔ ۳۰۵

۵۰۴محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر، وفیات ناموران پاکستان ،ایضا،ص ۔ ۳۰۶

۴۱۷حبیب کیفوی ، کشمیر میں اردو، ایضا،ص ۔۳۰۷

۴۱۹ایضا،ص ۔ ۳۰۸

۔ ۳۰۹ ۱۳۶،ص محمد صادق قصوری، تذکرہ شعرائے جماعتیہ ، ایضا

۱۳۷ایضا،ص ۔ ۳۱۰

ء ،ص ۱۹۶۹محمد سعید، حکیم ، مقاالت شام ہمدرد، جلد اول مکتبہ جدیدہ الہور، ۔ ۳۱۱

۲۲۲

۱۲ء،ص ۲۰۰۳ادارہ، ابتدائیہ ، خرمن جان، مجید ملک، ادارہ یادگار غالب کراچی ۔۳۱۲

ان جوہر کراچی ، محمد منیر احمد سلیچ ،ڈاکٹر، وفیات مشاہیر ،کراچی ، قرطاس گلست ۔۳۱۳

۲۴۷ء ،ص ۲۰۱۶

۲۸، ۲۷، ۲۶ء ،ص ۲۰۰۳مجید ملک ، خرمن جان، ادارہ یادگار غالب، کراچی ، ۔۳۱۴

۱۷۷ایضا،ص ۔۳۱۵

۱۲۷شاکر کنڈان ، اردو ادب اور عساکر پاکستان، جلد اول ،حصہ اول ، ایضا،ص ۔ ۳۱۶

ایضا ۔۳۱۷

اردو سانگھڑ ، حلقہ یاران سخن ،ٹنڈو آدم غالم مصطفی تبسم ،ملک ، تذکرہ شعرائے ۔ ۳۱۸

۱۷ء،ص ۲۰۱۴)سندھ( ،

۱۸ایضا،ص ۔ ۳۱۹

طیب منیر ، چراغ حسین حسرت کی غیر مدون تحریر وں کی تدوین اور جائزہ ۔۳۲۰

ء ،مملوکہ:عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی ۱۹۸۹۔۹۰)شاعری( مقالہ برائے ایم فل اردو

۹اسالم آباد، ،ص

عہد ساز شخصیات ،علم و عرفان ،پبلشر ز الہور ،مئی ۱۰۰ی و دیگر ، حمیر ہاشم ۔ ۳۲۱

۲۰۰ء ،ص ۲۰۰۱

چند ایک درسی کتب پر یہ سن لکھا ہوا ہے۔ ۔۳۲۲

۲۸۷حبیب کیفوی، کشمیر میں اردو،ایضا،ص ۔۳۲۳

۱۹۹محمد باقر نسیم ،ملک ، شعرائے پنجاب )عصر حاضر( ،ایضا،ص ۔ ۳۲۴

عبدہللا بٹ، مرتبہ ، حسرت کا شمیری کے منتخب اشعار ،کتاب خانہ پنجاب الہور، س ۔ ۳۲۵

۲ن ،ص

طیب منیر ، چرا غ حسن حسرت کی غیر مدون تحریروں کی تدوین اور جائزہ ۔ ۳۲۶

۱۰)شاعری( ،ایضا،ص

کتبہ بر مرقد چراغ حسن حسرت ۔۳۲۷

جوالئی ۳ئے وقت اسالم آباد، یوسف حسن ، چراغ حسن حسرت، مشمولہ روزنامہ نوا ۔ ۳۲۸

ء۲۰۰۱

چراغ حسن حسرت، مردم دیدہ، محمد عارف ، نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم آباد ۔ ۳۲۹

۹۹،۱۰۰ء ،ص ۲۰۱۵،

۲۹۰، ۲۸۸حبیب کیفوی، کشمیر میں اردو،ایضا،ص ۔۳۳۰

Page 316: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

316

ذوالفقار علی نجاری ، سر گزشت ،مشمولہ ،روزنامہ امت، کراچی /حیدر آباد، ،قسط ۔ ۳۳۱

ء۲۰۱۴،اپریل ۲۴، ۳۵بر نم

ایضا، ۔۳۳۲

۴۳۱ء،ص ۲۰۱۰مالک رام ، تذکرۂ معاصرین، الفتح پبلی کیشنز ،راولپنڈی ، ۔۳۳۳

عاکف سنبھلی ، ڈاکٹر رضا الرحمن ، سوانحی انسائیکلو پیڈیا ، جلد دوم ، ایضا،ص ۔۳۳۴

۱۹۴

نڈیشن اسالم آباد، ذوالفقار علی نجاری ، میں نے جو کچھ بھی کہا، نیشنل بک فاؤ ۔ ۳۳۵

۱۸، ۲۰ء ،ص ۲۰۰۲

۴۹، ۴۸ء ،ص ۱۹۵۰وحید الدین ،فقیر سید، روزگار فقیر ،سید برادرز الہور، ۔ ۳۳۶

۱۶۶شاکر کنڈان ، اردو ادب اور عساکر پاکستان، جلد دوم ، حصہ اول ،ایضا،ص ۔۳۳۷

۲۸۵عنایت الرحمن صدیقی بریگیڈئیر ، ارباب سیف و قلم ،ایضا،ص ، *

ء ۱۹۹۰محمد اسلم ،پروفیسر ، وفیات مشاہیر پاکستان ،مقتدرہ قومی زبان ، اسالم آباد، ۔ ۳۳۸

۳۰۸،ص

۳۶۷عزیز اے شیخ ، مشاہیر پنجاب کا انسائیکلو پیڈیا ،ایضا ،ص ۔ ۳۳۹

۴۸۶محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر ، وفیات اہل قلم ، ایضا،ص ۔۳۴۰

۷۸۵ا،ص مالک رام ، تذکرہ معاصرین ،ایض ۔ ۳۴۱

۹۵ء ،ص۱۹۹۸صابر براری ، تاریخ رفتگاں ،حصہ دوم ، ادارہ فکر نو کراچی ، ۔۳۴۲

ء ۱۹۹۶، مؤ لف خود ،لکھنوء ، ۱۶عرفان عباسی ، تذکرہ شعرائے اتر پردیش ،جلد ۔۳۴۳

۳۷،ص

۳۹، ۳۸ایضا،ص ۔۳۴۴

۴۱۹ سلیم شاہ جہان پوری، شعرائے احمدیت ،ابو العارف کراچی ، س ن ، ص ۔ ۳۴۵

۴۲۰ایضا،ص ۔ ۳۴۶

،ارد و محل پبلشرزلکھنؤ ۱۰عرفان عباسی ، تذکرہ شعرائے اتر پردیش ، جلد نمبر ۔۳۴۷

۱۷۳ء ،ص ۱۹۸۴،

۱۷۵، ۱۷۳ایضا،ص ۔ ۳۴۸

خان فہیم ،مرتب، تذکرہ شعرائے طنز و مزاح ،روہیل کھنڈ ،اتر پردیش ،خود بدایوں ۔۳۴۹

۷۴ء ،ص ۱۹۹۳،

۷۵ایضا،ص ۔۳۵۰

نجمی صدیقی، پروفیسر ،باقی صدیقی)حیات و خدمات( ،اکادمی ادبیات پاکستان اسالم ۔ ۳۵۱

۸ء ،ص ۲۰۰۰آباد،

نجمی صدیقی ،باقی صدیقی کے بھتیجے تھے اس لیے بھی آپ کی تحریرمیں دم خم

ہو سکتا ہے۔

۱۷۷مالک رام ، تذکرہ معاصرین ،ایضا،ص ۔۳۵۲

ء۱۹۹۸اپریل ۲۶تا ۲۰جہاں، کراچی، عقیل عباس جعفری ،،ہفت روزہ ،اخبار *

ء۱۹۷۷غالم مصطفی بسمل، میلے متراں دے ، پنجابی ادبی مرکز گوجرانوالہ ، *

۱۷نجمی صدیقی، پروفیسر ،ایضا،ص ۔۳۵۳

قمر رعینی ، تذکرہ نعت گویان راولپنڈی ،اسالم آباد، انجم پبلی کیشنز راولپنڈی ۔ ۳۵۴

۲۵ء ،ص ۲۰۰۳،

ء ،ص ۱۹۶۶عبدالرشید تبسم واراکین ، یاران نو، انجمن ترقی ادب الہور، دسمبر ۔ ۳۵۵

۴۰۱،ص ۳۹۹

Page 317: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

317

۷تسکین عابدی ،سید، سخنوران دکن، ایضا،ص ۔ ۳۵۶

۸ایضا،ص ۔۳۵۷

۱۰، ۹ایضا،ص ۔ ۳۵۸

۲۲۸ء ،ص ۲۰۰۳نور احمد میرٹھی ، تذکرہ شعرائے میرٹھ،ادارہ فکر نو، کراچی ۔ ۳۵۹

۔ ۳۶۰ ۲۲۹،ص ایضا

۲۸۹ایضا،ص ۔ ۳۶۱

ء ،ص ۱۹۸۳رانا گنوری ، ڈاکٹر، تذکرہ شعرائے ہریانہ ، مصنف خودکیتھل ہریانہ ۔۳۶۲

۹۰

۹۳، ۹۲ایضا،ص ۔۳۶۳

جگدیش مہتہ درد ، اردو کے ہندو شعراء ،جلد دوم ،حقیقت بیانی پبلی کیشنز ، نئی ۔ ۳۶۴

۲۶۰ء ،ص ۱۹۷۴دہلی

۲۶۱ایضا،ص ۔ ۳۶۵

ء ،ص ۲۰۱۲کنڈان ، سرگودھا کا دبستان شاعری ،جلد اول ،اکادمیات الہور، شاکر ۔ ۳۶۶

۱۰۶

ء ۲۰۰۶شاکر کنڈان ، نعت گویان سرگودھا، ادارہ فروغ ادب پاکستان ، سرگودھا، ۔۳۶۷

۱۳۹،ص

ہارون الرشید تبسم ، ڈاکٹر، اب انھیں ڈھونڈہ چراغ رخ زیبا لے کر ،بزم علم و فن ۔ ۳۶۸

۱۹۱ء،ص ۲۰۰۳سرگودھا ،

ء ۱۹۷۸سرگودھا ۲۷بدر الدین بدر، جمال بدر ،ضمیر اال سالم نشیمن منزل بالک ۔ ۳۶۹

۶۳،ص

۱۲۴، ۱۲۳ایضا،ص ۔۳۷۰

ء ،ص ۱۹۹۲فدا حسین فدا، ابو الطاہر ، معدن التواریخ ،ادارہ معارف نعمانیہ الہور ، ۔ ۳۷۱

۶۸

۸۲، ۸۱ء ،ص ۱۹۷۹ر، غالم محمد راجا، امتیا زحق ، مکتبہ قادریہ الہو ۔۳۷۲

۵،۶ء ،ص ۱۹۴۷کوکب شادانی ، نوائے وقت ،دارالتالیفات، دہلی ، ۔۳۷۳

ضمیر اختر نقوی، عالمہ ڈاکٹر، اردومرثیہ پاکستان میں ، مرکزعالم اسالمیہ کراچی ۔ ۳۷۴

۲۶۹ء ،ص ۲۰۱۲، دوم

ایضا ۔ ۳۷۵

۲۴۰یضا،ص محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر ، وفیات مشاہیر کراچی ، ا ۔ ۳۷۶

کوکب شادانی ،پروفیسر، مترجم ، تاریخ المسعودی ،جلد اول ،نفیس اکیڈمی کراچی ، ۔۳۷۷

۱۶۷ء ،ص ۱۹۸۵

۹۴رانا گنوری ،ڈاکٹر، تذکرہ شعرائے ہریانہ ، ایضا،ص ۔ ۳۷۸

۳۳ء ،ص ۲۰۰۷نور احمد میرٹھی ،گلبانگ وحدت، ادارہ فکر نو کراچی ، ۔ ۳۷۹

،ڈاکٹر، ایضا رانا گنودی ۔ ۳۸۰

جوہر دیو بندی ، نغمۂ ناقوس، تذکرہ شعرائے ہنود،مطبع محبوب پریس دیو بند ۔ ۳۸۱

۴۴ء ،ص ۱۹۸۵

۴۴جوہر دیو بندی، ایضا،ص ۔۳۸۲

۹۴رانا گنوری ،ایضا،ص ۔۳۸۳

۴۳۹محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر، بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ، ایضا،ص ۔۳۸۴

۳۸۵۔ en.wikipedia.org/wiki/Wahid-Buksh-sial-rabbatni

Page 318: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

318

۵۲عنایت الرحمن صدیقی، بریگیڈئیرر)ر( ، ارباب سیف و قلم ،ایضا،ص ۔ ۳۸۶

ء ،ص ۱۹۸۳واجد بخش سیال ،کپتان ،مقام گنج شکر ، صوفی فاؤنڈیشن الہور، سوم ۔۳۸۷

۳۶ ،۳۷

ء، ص ۱۹۴۲محمد حسن عسکری ،مرتبہ : میری بہترین نظم، کتابستان الہ آباد، ۔ ۳۸۸

۱۸۶،۱۸۷

ء ۱۹۸۶جمیل جالبی ،ڈاکٹر، مرتبہ، ن م راشد ایک مطالعہ ،مکتبہ اسلوب کراچی ، ۔ ۳۸۹

۷،ص

شہر یار اور ڈاکٹر مغنی تبسم ، ن م راشد فکر و فن، مکتبہ شعر و حکمت حیدر آباد ۔ ۳۹۰

۱۰،۱۱ء ،ص ۱۹۷۱)دکن (

۲۹ء ،ص ۲۰۱۱شیما مجید،مرتبہ ،مقاالت ن م راشد ،بک ٹائم کراچی ، ۔ ۳۹۱

۲۵، ۲۴راشد، ن م ،کلیات راشد، ماورا پبلشرز الہور ، س ن ،ص ۔۳۹۲

ء ،ص ۲۰۱۳طاہر سلطانی ،مرتب ، نعت رحمت، جہان حمد پبلی کیشنز ،کراچی ، ۔۳۹۳

۱۲۵

ء ،ص ۱۹۹۵بلی کیشنز کراچی ،انعام گوالیاری، سب سے اچھا کہیں جسے ، رحمن پ ۔ ۳۹۴

۱۰۵

نصرت بخاری ،سید، مکاتیب مشاہیر بنام حق نواز خان ، جمالیات ،پبلی کیشنز ،اٹک ۔ ۳۹۵

۹۰ء ،ص ۲۰۱۲،

۳۶۱محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر ، بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ،ایضا،ص ۔ ۳۹۶

۲۷۰ عزیز علی شیخ ، مشاہیر پنجاب کا انسائیکلو پیڈیا ،ایضا،ص ۔۳۹۷

۲۴۹ء ،ص ۱۹۹۴نند کشور وکرم ، مدیر، مجلہ عالمی اردو ادب ، دہلی ، ۔ ۳۹۸

محمد علی چراغ ، انسائیکلو پیڈیا مسلم شخصیات ، نذیر سنز پبلشرز، الہور ۔ ۳۹۹

۵۴۷ء،ص ۲۰۰۵،

۲۲عنایت الرحمن صدیقی بریگیڈئیر )ر( ،ارباب سیف وقلم ،ایضا،ص ۔۴۰۰

منظور ثروت، مرتبہ ، راز گجراتی اعتراف و تحسین، ادارہ تصنیف و تالیف گجرات ۔ ۴۰۱

۱۳۰ء ،ص ۱۹۸۷،

محمد اسماعیل صدیقی، بریگیڈئیر ، لخت لخت داستاں،دوست پبلی کیشنز ،اسالم آباد، ۔۴۰۲

۱۹۳ء ،ص ۲۰۰۱

امہ نوائے ، مشمولہ ،روزن۲سال ،قسط نمبر ۸۰محمد باقر ،ڈاکٹر، آپ بیتی ۔زندگی کے ۔۴۰۳

۵ء ،ص ۱۹۸۸ستمبر ۳۰وقت ،جمعہ میگزین الہور،

سال ،آخری قسط، مشمولہ ،روزنامہ نوائے ۸۰محمد باقر ،ڈاکٹر، آپ بیتی ۔زندگی کے ۔ ۴۰۴

۵ء ،ص۱۹۸۸اکتوبر ۷وقت ،جمعہ میگزین الہور،

۱۱ محمد باقر، ڈاکٹر، الہور سے لندن تک، مشمولہ: سہ ماہی صحیفہ، الہور، شمارہ: ۔ ۴۰۵

۲۱۴ء، ص۱۹۵۷جون،

محمد عتیق صدیقی کے تاریخی مضامین( )محمد ارشد، ترتیب، تاریخی تناظرات، ۔ ۴۰۶

۱۰ء ،ص ۲۰۱۱کتابی دنیا دہلی ،

ء ،ص ۲۰۱۰محمد ارشد، محمد عتیق صدیقی۔ حیات و خدمات، مصنف خود دہلی ، ۔۴۰۷

۲۹

ء ،ص ۱۹۸۳، اردو ،دہلی ۱نند کشورو کرم ،مرتب ،وفیات، حوالہ جاتی سلسلہ نمبر ۔ ۴۰۸

۲۴۶

ء ۱۹۸۳، دہلی ۱اکبر حیدری کاشمیری ، عتیق صدیقی، مشمولہ اردو، سلسلہ نمبر ۔ ۴۰۹

Page 319: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

319

۲۰۳،ص

صہبا لکھنوی ،فیض احمد فیض، ماہنامہ افکار، کراچی ،فیض نمبر ،شمارہ نمبر ۔ ۴۱۰

۲۵ء ،ص ۱۹۶۵،مئی ،جون ، اپریل۱۶۶، ۱۶۴،۱۶۵

م ۔ ش ، فیض کی کہانی اپنی زبانی ، مشمولہ ،باتیں فیض سے، مرتبہ: شیما مجید ۔ ۴۱۱

۳۱ء ،ص ۱۹۹۳،الحمد پبلی کیشنز ،الہور

۲۲۶، تا ۲۱۴شاکر کنڈان ، مقاالت نو)شخصی(، ایضا،ص ۔۴۱۲

ودہ عالمی استعماری عبدالرشید، شیخ ،فیض احمد فیض ۔اجمالی خاکہ، مشمولہ ،موج ۔۴۱۳

:شیخ عبدالرشید، شعبہ تصنیف و ور فیض احمد فیض کی شاعری ،مرتبہصورت حال ا

۳۰ء ،ص ۲۰۱۱تالیف یونیورسٹی آف گجرات ، مارچ

۳۲۶محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر ، بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ، ایضا،ص ۔۴۱۴

درماں کا شاعر،پیس پبلی کیشنز، محمد علی صدیقی ،ڈاکٹر، فیض احمد فیض دردا ور ۔ ۴۱۵

۱۸۴ء ،ص ۲۰۱۱الہور،

۱۴۴ء ،ص ۱۹۸۵کھلر، کے کے ، فیض احمد فیض ،ادارہ فکر جدید نئی دہلی ، ۔ ۴۱۶

ء ۲۰۱۱، نومبر ۷کتابی سلسلہ ،سطور ، فیض احمد فیض نمبر ،ملتان ،شمارہ نمبر ۔۴۱۷

،ص سر ورق کا پشتی صفہ

ء ،ص ۱۹۸۶ۂیادگارغالبکراچی،فروریثقافت ،ادارفیض احمد فیض ، ہماری قومی ۔ ۴۱۸

۱۵ ،۱۶

۳۴۳شاکر کنڈان ، اردو ادب اور عساکر پاکستان ،جلد دوم ،حصہ اول ، ایضا،ص ۔ ۴۱۹

محمد ضمیر حافظ آبادی ، سید، حضرت صوفی برکت علی بانی داراال حسان ،مشمولہ ۔۴۲۰

۷ء ، ص ۱۹۹۷۔فروری ۱۳:روزنامہ نوائے وقت الہور،

۳۴۳شاکر کنڈان ، اردو ادب اور عساکر پاکستان ،جلد دوم ، حصہ اول،ایضا،ص ۔ ۴۲۱

کتاب کا حوالہ نہیں دیا جا سکتا ۔ اور دیگر معلومات نقل کرنے میں تحفظات ہیں۔ ۔۴۲۲

۳۴۳شاکر کنڈان ، اردو ادب اور عساکر پاکستان ، جلد دوم ،حصہ اول ، ایضا،ص ۔۴۲۳

ل آباد، )الئل پور( تاریخ کے آئینے میں ،فضہ پبلشرز ، فیصل اشرف اشعری ، فیص ۔ ۴۲۴

۴۴۴، ۴۴۳ء ،ص ۲۰۱۲آباد،

محمد برکت علی لدھیانوی ، ابو انیس ، مکشوفات منازل احسان المعروف بہ مقاالت ۔ ۲۴۵

۱۴، ۱۳ھ ، ص ۱۳۹۸حکمت دارا الحسان، جلد سوم داراالحسان فیصل آباد،

ء ۲۰۰۰بشارت فروغ، وفیات مشاہیر اردو ، حصہ اول، مطبع کلکتہ پریس نئی دہلی، ۔ ۴۲۶

۵۲۷،ص

۱۱ء ،ص ۱۹۸۶متین نیازی ، فکر متین ،خود کانپور ، ۔۴۲۷

۵۲۷بشارت فروغ،ایضا،ص ۔ ۴۲۸

۴۸اور۴۵، ۴۴متین نیازی،ایضا،ص ۔ ۴۲۹رزند اکبر آفتاب اقبال، فیروز سنز رشیدہ آفتاب ،اقبال، بیگم ،عالمہ اقبال اور ان کے ف ۔۴۳۰

۲۵۲ء ،ص ۱۹۹۹پرنٹرز لمیٹڈ کراچی ، اگست

وی سی اوز، وائسرائے کمشنڈ آفیسر ز اور جے سی اوز،جونئیر کمشنڈ آفیسرز کا ۔ ۴۳۱

مخفف ہے۔

۲۵۳رشیدہ آفتاب قبال ،بیگم ،ایضا،ص ۔۴۳۲

محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر ، تنہائیاں بولتی ہیں، نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسالم آباد، ۔۴۳۳

۸۲ء ،ص ۲۰۱۲

۲۵۳رشیدہ آفتاب اقبال ، ایضا،ص ۔۴۳۴

Page 320: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

320

۸، مرکزی قبرستان ایچ ایٹ ۱۰۳، قبر نمبر ۵۴کتبہ مرزا اختر بیگ ، پالٹ نمبر ۔ ۴۳۵

،اسالم آباد،

۔ ۴۳۶ ۲۵۶، ۲۵۵،ص رشیدہ آفتاب اقبال ، ایضا

۱۵فارغ نجاری ،سرحد میں اردو، مشمولہ ، پاکستان میں اردو اباسین ،ایضا،ص ۔۴۳۷

خود پر پاگل پن طاری کرنے کا حوالہ راقم نے ادبیات سر حد سے لیا تھا۔ اب وہ ۔ ۴۳۸

حوالہ یاد نہیں۔

مکتبہ ارژنگ جلیل حشمی ،میرزا محمود سرحدی ،مشمولہ ، ہم قلم ،مرتبہ ،تاج سعید، ۔ ۴۳۹

۱۶۱ء،ص ۱۹۷۷پشاور ،

۳۵۲شاکر کنڈان ، اردو ادب اور عساکر پاکستان، جلد اول ، حصہ اول، ایضا،ص ۔۴۴۰

مختار علی نیر ،اس کی باتوں میں گلوں کی خوشبو ، مشمولہ :مرزا محمود سرحدی ۔ ۴۴۱

۴۲ء ،ص ۱۹۸۳شخصیت اور فن مرتبہ خاطر غزنوی ، کتاب کار، پشاور،

۱۹ء ،ص۱۹۵۴محمود میرزا سرحدی، سنگینے، ملک بک ڈپو، الہور، ۔۴۴۲

۲۶۳محمد عابد منہاس ، چکوال میں نعت گوئی ،ایضا،ص ۔۴۴۳

ایضا ۔۴۴۴

باسمہ خاتون ، عرض ناشر، مشمولہ ، کاروان آزادی از مسعود اختر جمال، ادارہ ۔ ۴۴۵

ء ،ص ج۱۹۸۲ادبستان اتر سوئیا ،الہ آباد،

عباسی ، تذکرہ شعرائے اتر پردیش ،جلد دوم ،اردو محل پبلشرز، نیا گاؤں عرفان ۔ ۴۴۶

۹۰ء ،ص ۱۹۸۲لکھنؤ ،

۲۱، ۲۰ء ،ص ۱۹۷۹مسعود اختر جمال، پیغمبر اسالم ، شاہین پبلی کیشنز الہ آباد، ۔۴۴۷

۱۵۸، ۱۵۷ء ،ص ۱۹۴۱مسعود اختر جمال ، نورس ،مکتبہ دبستان بنارس، ۔ ۴۴۸

۳۳۰د سلیچ، ڈاکٹر، بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ، ایضا،ص محمد منیر احم ۔ ۴۴۹

۳۵۳محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر، وفیات اہل قلم ،ایضا،ص ۔۴۵۰

۲۳۳محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر، وفیات مشاہیر کراچی، ایضا،ص ۔ ۴۵۱

ء ۲۰۰۹محمد شمس الحق، پیمانۂ غزل ،جلد دوم ،نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسالم آباد، ۔۴۵۲

۶۶،ص

ء ،ص ۲۰۰۱سعید احمد،ڈاکٹر سید، شہر ادب کانپور، سید اینڈ سید پبلشرز کراچی ، ۔۴۵۳

۳۰۰

مہر بیلی ، بھیتی ، ۔ ۴۵۴

۲۸۱ء ،ص ۱۹۸۳ۂشعراءوشاعراتپاکستان،اذکاروافکارگلشنمصطفیکراچی،تذکر

اظہر عباس ہاشمی ،مرتب: کراچی میں مدفون شعراء ، ساکنان شہر قائد ٹرسٹ ۔ ۴۵۵

۱۰۳ء ،ص ۲۰۱۴،کراچی ،

احمد حسین صدیقی ، دبستانوں کا دبستان کراچی ، جلد سوم ،محمد حسین اکیڈمی ۔ ۴۵۶

۲۷۹ء ،ص ۲۰۱۰فیڈرل بی ایریا کراچی ،

دوم ، حرا فاؤنڈیشن پاکستان ، محمد قاسم ،سید، پاکستان کے نعت گو شعراء ، جلد ۔ ۴۵۷

۳۰۹ء ،ص ۲۰۰۷کراچی ،

۵۷۴محمد قاسم ،سید، خاک میں پنہاں صورتیں ،ص ۔ ۴۵۸

۴۲۰منظر عارفی ،کراچی کا دبستان نعت، ایضا ،ص ۔ ۴۵۹

۱۳۸شہزاد احمد، ڈاکٹر، اردو نعت پاکستان میں، ص ۔ ۴۶۰

۲۶ء ،ص ۱۹۸۱آباد کراچی ، قصری کانپوری ، نور ازل ، مکتبہ قصری لیاقت ۔ ۴۶۱

ء ۱۹۸۶قصری کانپوری ،آبگینۂ احساس،مکتبہ قصرئ کانپوری لیاقت آباد، کراچی ، ۔۴۶۲

Page 321: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

321

۶۸،ص

علیم صبا نویدی، ٹمل ناڈو کے مشاہیر ادب ،مرتبہ :جاوید حبیب، ٹمل ناڈو اردو پبلی ۔۴۶۳

۴۵۱ء ،ص ۱۹۹۹کیشنز مدارس

۴۵۴، ۴۵۳ایضا،ص ۔ ۴۶۴

۴۵۶ایضا،ص ۔ ۴۶۵

ء ۲۰۱۴محمد یوسف کوکن عمری ،عالمہ ، امام ابن تیمیہ ،نعمان پبلی کیشنز ،الہور ، ۔۴۶۶

۳۲۱، ۳۲۰،ص

۱۱۰عزیز ملک ،کارواں،ایضا،ص ۔۴۶۷

۱۲ء ،ص ۱۹۷۲اقبال صالح الدین ،سنگی نامہ ،عزیز بک ڈپو، اردو بازار الہور ، ۔ ۴۶۸

شاہد ،ایم آر، شہر خموشاں کے مکیں ، الفیصل ناشران و تاجران کتب، الہور ، ۔ ۴۶۹

۳۶۶ء ،ص ۲۰۰۴

عزیز ملک،ایضا ۔۴۷۰

۸۹ء ،ص ۱۹۸۸زاہد حسین انجم ، ہمارے اہل قلم ، ملک بک ڈپو، الہور، ۔ ۴۷۱

۲۷۴خالد مصطفی ، وفیات اہل قلم عساکر پاکستان ، ایضا،ص ۔۴۷۲

۱۰ء ،ص ۱۹۸۸دسمبر ۲۸قافت بینی ،روزنامہ ،جنگ راولپنڈی ،افضل پرویز، ث ۔۴۷۳

۳۹ء ،ص ۱۹۷۶افضل پرویز، غم روزگار کے ،مکتبہ خرابات راولپنڈی ، ۔ ۴۷۴

محمد یوسف جبریل ،عالمہ ،علوی اعوان قبیلہ مختصر تعارف، ادرہ تحقیق اال عوان ۔ ۴۷۵

۱۵۴ء ،ص ۲۰۰۰،پنجاب ،واہ کینٹ ،

ء ،ص ۲۰۱۲دھاکا دبستان شاعری ، جلد اول اکادمیات الہور، شاکر کنڈان ، سرگو ۔ ۴۷۶

۱۶۷تا ۱۶۰

۷۲تا ۵۸ء ،ص ۲۰۱۳شاکر کنڈان ، عکس سرستان ،مغل پبلشنگ ہاؤس الہور، ۔۴۷۷

محمد یوسف جبریل ، عالمہ ،چڑیا گھر کا الیکشن ،ادارہ افکار جبریل واہ کینٹ ضلع ۔ ۴۷۸

۴۲ء ،ص ۲۰۰۷راولپنڈی ،

یوسف جبریل ،عالمہ ، نغمۂ جبریل آشوب، اوکاسا پبلی کیشنز ، واہ چھاؤنی محمد ۔ ۴۷۹

۴۲ء ،ص ۲۰۰۷ضلع راولپنڈی ،

ء ۱۹۸۲ضمیر اختر نقوی ، اردو مرثیہ پاکستان میں ،سید اینڈ سید پبلشرز کراچی ، ۔ ۴۸۰

۲۸۶،ص

۴۵۵محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر ، وفیات اہل قلم ،ایضا،ص ۔ ۴۸۱

د نارنگ و عبدا للطیف اعظمی، ہندوستان کے اردو مصنفین اور شعراء ، گوپی چن ۔۴۸۲

۵۸۹ء ،ص ۱۹۹۶اردو اکادمی ،دہلی

ہندی گورکھپوری ، قفس سے آشیاں تک ،ہندی اکیڈمی ،ٹانڈہ ضلع فیض آباد، یوپی ۔۴۸۳

۸۹، ۸۸ء ،ص ۱۹۷۲،

۶۳کلیم احسان بٹ، گجرات میں اردو شاعری، ایضا،ص ۔۴۸۴

لطیف مضطر کے بھانجے ،پروفیسر ڈاکٹر کلیم احسان بٹ سے مالقات پر کالم عبدال ۔ ۴۸۵

حاصل کیا۔

۱۳۵محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر، وفیات مشاہیر کراچی ، ایضا،ص ۔ ۴۸۶

ء۱۹۴۰ماہنامہ ساقی،دہلی ،نومبر ۔۴۸۷

۹منظور الہی ، درد لکشا، ص : ۔ ۴۸۸

ء۲۰۰۸بر دسم ۱۲روزنامہ نوائے وقت، الہور، ۔ ۴۸۹

۱۵۱ء ،ص ۱۹۹۶منظور الہی ، نیرنگ اندلس، سنگ میل پبلی کیشنز، الہور، ۔ ۴۹۰

Page 322: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

322

ہارون الرشید، پروفیسر، محفل جو اجڑ گئی، زین پبلی کیشنز، ناظم آباد کراچی ۔ ۴۹۱

۵۵ء ،ص ۲۰۰۲،

اقبال عظیم سید، مشرقی بنگال میں اردو، مشرقی کو آپریٹو پبلی کیشنز ،ڈھاکہ ۔۴۹۲

۲۹۴ء ،ص ۱۹۵۴

۶۳۶محمد شمس الحق ،گلہائے رنگ رنگ ، جلد دوم ،ایضا،ص ۔۴۹۳

۹۷محمد شمس الحق، پیمانۂ غزل، جلددوم ،ایضا،ص ۔ ۴۹۴

انو رصابر ،ڈاکٹر، پاکستان میں اردو غزل کا ارتقا ،مغربی پاکستان اکیڈمی ،الہو،ر ۔ ۴۹۵

۷۶۳ء ،ص ۲۰۰۲

ء ہو( ۱۹۵۵دو پبلشنگ ہاؤس دہلی ،س ن )ممکن ہے وفا راشدی، بنگال میں اردو، ار ۔ ۴۹۶

۱۹۶،ص

جعفر اقبال بھویال، ڈاکٹر ،احسن احمد اشک حیات کارنامے ،مشمولہ:ڈھاکہ ۔۴۹۷

یونیورسٹی جرنل آف اردو ،شمارہ اول ،ڈھاکہ یونیورسٹی ،ڈھاکہ ،بنگلہ دیش،

۱۵ء ،ص ۲۰۰۸

ایضا ۔ ۴۹۸

ء۲۰۰۳مارچ ۲۷بنام راقم سرگودھا، مکتوب محمد عالم مختار حق ،الہور، ۔ ۴۹۹

شانتی بھٹا چاریہ ، اردو اد اور بنگالی کلچر، مغربی بنگال اردو اکیڈمی کلکتہ ، ۔۵۰۰

۱۵۰ء ،ص ۱۹۸۲

۱۱۱ء ،ص ۱۹۶۰ماہنامہ ہم قلم ،کراچی ، اگست ستمبر ، ۔ ۵۰۱

۲۳ء ،ص ۱۹۵۸ماہنامہ آب و گل ، ڈھاکہ، فروری ، ۔۵۰۲

ء ،ص ۱۹۸۰شاہدہ بیگم ،ڈاکٹر ،سندھ میں اردو، اردو اکیڈمی سندھ کراچی ، جون ۔۵۰۳

۳۱۷

کرن سنگھ، میر پور کی ادبی سر گرمیاں ،مقالہ برائے ایم اے، شعبہ اردو جامعہ ۔ ۵۰۴

۱۲۳ء ،ص ۱۹۸۴سندھ اولڈ کیمپس حیدر آباد،

بی پاکستان اردو محمد سلیم چودھری ، شعرائے امر تسر کی نعتیہ شاعری ، مغر ۔۵۰۵

۱۹۰ء ،ص ۱۹۹۶اکیڈمی الہور،

ایضا ۔۵۰۶

ء۱۹۹۴مئی ۳۰ہفت روزہ ہالل،راولپنڈی ، ۔۵۰۷

۵۵، ۵۴ء ،ص ۱۹۷۴ادریس ،کیپٹن ایس ایم ، سنگ گراں ،فیروز سنز کراچی ، ۔ ۵۰۸

محمد منیر احمد سلیچ ،ڈاکٹر، وفیات ناموران پاکستان ،ایضا ۔ ۵۰۹

فروری ۲۱ہانی ، صفدر میر کی زبانی ،پاکستان ٹیلی ویژن ، صفدر میر کی ک ۔ ۵۱۰

ء۲۰۰۴

ء۱۹۸۹عبدالغفور قریشی ، پنجابی ادب دی کہانی ،پنجابی ادبی بورڈ الہور،بار دوم ۔ ۵۱۱

محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر، گجرات دے پنجابی شاعر، غیر مطبوعہ ۔۵۱۲

۳۱۷، ص ۱۰،۱۱ماہنامہ سویرا، الہور، شمارہ نمبر ۔۵۱۳

۲۲۸ء ،ص ۱۹۶۰ماہنامہ ادب لطیف، الہور سالنامہ ۔ ۵۱۴

ء ،ص ۱۹۸۳مصنفین کے اپنے قلم سے ، دستاویز، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ ، ۔ ۵۱۵

۱۵۵

ایضا ۔ ۵۱۶

رام پال ،کشف و کرامات ، حضرت شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر، پنجابی پستک ۔۵۱۷

۷،۸ء ،ص ۱۹۷۷بھنڈار دریبہ کالں دہلی ،

Page 323: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

323

۳۲۷محمد قاسم ،سید، پاکستان کے نعت گو شعراء ، جلد دوم ،ایضا،ص ۔۵۱۸

۲۶۰محمد سلیم چودھری ، شعرائے امر تسرکی نعتیہ شاعری ،ایضا،ص ۔ ۵۱۹

ء ،ص ۱۹۹۲اللۂ صحرائی ، چمن میری امیدوں کا ، ادارۂ معارف اسالمی ،الہور ۔۵۲۰

۲۵۳،۲۵۴

، پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر، نعت ریسرچ سنٹر کراچی ، عزیزا حسن ، ڈاکٹر ۔ ۵۲۱

۱۳۴ء ،ص ۲۰۱۴

۳۴۴محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر، بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ، ایضا،ص ۔۵۲۲

۲۰۰اللۂ صحرائی ،چمن میری امیدوں کا ،ایضا،ص ۔۵۲۳

۔ ۵۲۴ ۲۶۰ص 249محمد سلیم چودھری ، شعرائے امر تسر کی نعتیہ شاعری ، ایضا

بشیر رحمانی ،تعارف مشمولہ ،اللۂ صحرا از صحرائی گورد اسپوری ، امتیاز ۔ ۵۲۵

۸ء ،ص ۱۹۹۴برادران الہور،

۹۹، ۱۳ء ،ص ۱۹۹۴صحرائی گوردا سپوری ، اللۂ صحرا،امتیاز برادران الہور، ۔ ۵۲۶

مرتب: تذکرہ شعرائے طنزومزاح)روہیل کھنڈ اترپردیش(، خود، بدایواں، خان فہیم، ۔۵۲۷

۶۱ء،ص۱۹۹۳

۶۲،۶۳ایضا،ص ۔ ۵۲۸

عبدالکریم خان ،اے ،روشنی طبع ،مشمولہ ، ہجوم افگار از اختر امر تسری ،میجر ۔ ۵۲۹

۳۱ء ،ص ۱۹۸۳عبدالکریم خان راولپنڈی ،

۹۱، ۸۳اختر، امرتسری ، ہجوم افکار ، ایضا،ص ۔۵۳۰

، شاہین پبلی کیشنز کراچی ، ۴مشہور شعراء ،جلد نمبر ۱۰۰محمد ظفر اقبال، ۔ ۵۳۱

۱۹۲ء ،ص ۱۹۸۵

نعمان تاثیر و مظہر صدیقی ،مرتبین ، شعر ستان )تذکرہ شعرائے پاکستان ( مکتبہ پرچم ۔۵۳۲

۸۹ء ،ص ۱۹۵۲حسن آغندی روڈ کراچی نومبر

۲۸۹طفیل احمد بدر، سید، مرتب ، سالم قدس، تاج کمپنی لمیٹڈ الہور، س ن ، ص ۔ ۵۳۳

۵۴ء ،ص ۱۹۶۲، مئی ۵، شمارہ ۶۵ماہنامہ ساقی ،کراچی ، جلد ۔۵۳۴

۲۵۵ء ،ص ۱۹۹۷احمد پراچہ، تاریخ کوہاٹ، بک سنٹر ،راولپنڈی ، ۔ ۵۳۵

۱۵۳ء ،ص ۱۹۸۴کوہاٹ، احمد پراچہ،کوہاٹ کا ذہنی ارتقاء ، مکتبہ مستجاب پراچہ ۔ ۵۳۶

سجاد احمد حیدر، کوہاٹ کی علمی و ادبی خدمات، مقتدرہ قومی زبان ، پاکستان ، ۔۵۳۷

۹۹ء ،ص ۲۰۱۲اسالم آباد ،

۱۰۲محمد بشیر رانجھا، انسائیکلو پیڈیا اہل قلم ، غیر مطبوعہ، ص ۔ ۵۳۸

۵۴۵ یاسر جواد، ایڈیٹر ، انسائیکلو پیڈیا ادبیات عالم ، ایضا،ص ۔ ۵۳۹

۱۰۳محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر، تنہائیاں بولتی ہیں، ایضا،ص ۔۵۴۰

ایضا، ۔ ۵۴۱

۶۸زاہد حسین انجم ، ہمارے اہل قلم ،ایضا،ص ۔۵۴۲

۱۶۹نواز کاوش ،ڈاکٹر ، بہاولپور کا ادب ،ایضا،ص ۔۵۴۳

۷۶محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر، بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ، ایضا،ص ۔ ۵۴۴

بحوالہ :اداریہ انصاف) ہفت ۱۷۰نواز کاوش، ڈاکٹر ، بہاولپور کا ادب، ایضا،ص ۔۵۴۵

ء ،۱۹۴۹روزہ( بہاولپور نومبر

۲۶۱مسعود حسن شہاب دہلوی، مشاہیر بہاولپور، ایضا،ص ۔ ۵۴۶

ء ۲۰۱۱باقی احمد پوری ،مرتب، ہمارے شاعر، جلد دوم ،القمر انٹر پرائزز ،الہور ، ۔۵۴۷

۱۸۶،ص

Page 324: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

324

مشتاق احمد، بیسویں صدی میں مغربی بنگال کے اردو شعراء ، اقبال احمد اینڈ ۔ ۵۴۸

۱۳۹ء ،ص ۱۹۷۲بردارز کلکتہ

۱۴۲، ۱۴۱ایضا،ص ۔ ۵۴۹

۳۱۴نعمان تاثیر و مظہر صدیقی، شعر ستان ،ایضا،ص ۔۵۵۰

۳۱۵ایضا،ص ۔ ۵۵۱

۱۵۳مصنفین کے اپنے قلم سے ، دستاویز ، ایضا،ص ۔۵۵۲

سمن سرحدی، بچوں کی دنیا)منظوم روسی ادب( ،پریس سروس انسٹی ٹیوٹ ،نئی ۔۵۵۳

۳۳، ۳۰ء ،ص ۱۹۷۳دہلی ،

بے حس الہ آبادی ،محمد عبدالقدیر، مضمون ،مشمولہ : شعرائے بنگالہ حصہ اول ۔ ۵۵۴

۱۶۷ء ،ص ۲۰۰۶،مرتبہ :ڈاکٹر الف انصاری ، شب نور پبلی کیشنز ،کلکتہ

۱۷۰، ۱۶۸ایضا،ص ۔۵۵۵

عظیم اختر، مرتب، بیسویں صدی کے شعرائے دہلی ، جلد اول ، اردو اکادمی دہلی ، ۔۵۵۶

۴۳۴ء ،ص ۲۰۰۵

۴۳۵،۴۳۸ایضا،ص ۔۵۵۷

۳۰۸شاکر کنڈان ، اردو ادب اور عساکر پاکستان ،جلداول حصہ اول ، ایضا ۔ ۵۵۸

لہ : ایوب محمد شفیع صابر، پروفیسر ،ایوب صابر ایک تحریک کا نام تھا ،مشمو ۔ ۵۵۹

صابر ادب کا قلندر، مرتبہ :محبت خان بنگش ،ادارہ علم وا دب ویزم اردو کوہاٹ،

۶۸ء ،ص ۲۰۰۲

۹۰محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر، وفیات اہل قلم ،ایضا،ص ۔ ۵۶۰

،ادارہ شاہین پبلی کیشنز ،کراچی ۴مشہور ادیب، جلد نمبر ۱۰۰محمد ظفر اقبال، ۔ ۵۶۱

۱۳۰ء ،ص ۱۹۸۵

وب صابر، اس حمام میں ، مشمولہ:یاد رفتگاں ،مرتب:محبت خان بنگش،ا دارہ علم ای ۔۵۶۲

۱۷۷ء ،ص ۱۹۹۳وا دب کوہاٹ، بار سوم ،

ایوب صابر، منحرف، مرتب: شاہد زمان ،شاہد زمان ۔ابتسام پبلی کیشنز ۔۵۶۳

۷،۸ء ،ص ۱۹۹۹کوہاٹ،

ذکرۂ ،کراچی ،شمارہ نمبر محمد قاسم ،سید، اسیر فیض آبادی، مشمولہ:کتابی سلسلۂ ت ۔۵۶۴

ء۲۰۱۰، نومبر ۴

۱۱۳ء ،ص ۲۰۱۶محمد قاسم، سید، خاک میں پنہاں صورتیں،ایضا،ص ۔ ۵۶۵

۳۱۸زاہد حسین انجم ، ہمارے اہل قلم ،ایضا،ص ۔ ۵۶۶

۷۶۰یاسر جواد، ایڈیٹر، انسائیکلو پیڈیا ادبیات عالم ،ایضا،ص ۔۵۶۷

۱۴۹محمد شمس الحق، پیمانۂ غزل ،جلد دوم ایضا،ص ۔ ۵۶۸

ء ،ص ۱۹۸۵،شاہین پبلی کیشنز ،کراچی ۳مشہور شعراء ،جلد ۱۰۰محمد ظفر اقبال، ۔ ۵۶۹

۱۸۸

۳۷ء،ص۱۹۹۷خالد احمد، لمحہ لمحہ، بیاض الہور، ۔۵۷۰

۱۱۷ء ،ص ۲۰۱۰شمیم حیدر ترمذی ،ڈاکٹر، ادب اور اثر ،بیکن بکس الہور، ۔ ۵۷۱

۱۰۰ء ،ص ۲۰۰۲یعقوب انجم ، خوشبوئے محبت، ارباب ادب پبلی کیشنز الہور، ۔۵۷۲

ء ،ص ۱۹۸۰ء ،اکادمی ادبیات، پاکستان اسالم آباد، ۱۹۷۶۔۷۹اردو غزل انتخاب، ۔۵۷۳

۳۵۶

۴۶ھ ،ص ۱۴۰۷قرطاس غزل، بزم شعر و ادب ،اسالم آباد، ۔ ۵۷۴

۵۰، ۴۸ایضا،ص ۔ ۵۷۵

Page 325: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

325

احمد حسین قریشی ، ڈاکٹر، پنجابی ادبیات کی مختصر تاریخ ،عزیز بک ڈپوالہور، ۔ ۵۷۶

۲۸۱ء ،ص ۲۰۰۲

۲۲۱زاہد حسین انجم ، ہمارے اہل قلم ،ایضا،ص ۔۵۷۷

۱۷۴ء ،ص ۱۹۷۱اختر حسین اختر، سید ،کھلرے موتی ،پنجابی ادبی لیگ، الہور، ۔ ۵۷۸

ء ۱۹۸۷ول ، ادارہ فکر نو، کراچی ، جنوری نور احمد میرٹھی ، اذکار و افکار، جلد ا ۔۵۷۹

۹۷،ص

۳۸۰مشتاق احمد ، بیسویں صدی میں مغربی بنگال کے اردو شعراء ، ایضا،ص ۔ ۵۸۰

باب پنجم

Page 326: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

326

محاکات و امکانات

باب پنجم

محاکات و امکانات

تو سب سے پہلے لوح و قلم یکائنات کرنا چاہ ق یخالق کائنات نے جب تخل ہی۔ تب ایکے ساتھ ہر شے کا مرتبہ و مقام طے کر د بیاور پھر ترت ےیک قیتخل

یکے بعد جب انسان ک بیاورترت ریتحر یقدرت ک ۂکن کا عمل شروع ہوا۔ کارخان

کہ اب انسان ایقلم تھما د ںیم ھنے فرشتوں کے ہات ی تو ہللا تعال ایکا عمل آ قیتخلدے کر ںیقلم انسان کے ہاتھ م یجاؤ۔ اور پھر وہ ےیک ریکے اعمال نامے تحر

استعمال ےیخاص مقصد کے ل ی۔ اس سے پہلے قلم کسایاسے خود مختار بناد

۔ لوح و ےیلہذا انسان نے دفتروں کے دفتر لکھ دئ ینہ رہ یپابند یہوتا تھا۔ اب کوئانسان یا اور ابد تک رہے گا۔ اس کے ساتھ ہازل سے شروع ہو سلہسل ہیقلم کا

کے خالف زبان کھولنا اوار پھر قیتخل یکا اس ک لیعزاز یسے قبل ہ قیتخل یک

ےیتک کے ل امتیاور ق یحق سبحانہ کے فرمان سجدہ سے حکم عدول یہللا تعال یاس بات ک انا،لڑ ںی۔ اسے آپس مایمہلت لے کرا نسان کو انسان کا دشمن بنا د

دفاع یصور ت، اور کبھ یک تیجارح یجو کبھ یہے کہ جنگ کا سلسلہ بھ لیدل

سے شروع ہوا لیاور قاب لیاوالد ہاب یہے،حضرت آدم ک تاید یصورت دکھائ یکارض پر انسان ۂ۔ جوں جوں کرایآ ںیصورت استعمال م یک اریاور پتھر پہلے ہتھ

زداںی ،یاور بد یکی،ن یاور منف بتاور شر، مث ریخ یگئ یتعداد بڑھت یک

رہے تےیکو جنم د وںیاوراہرمن اپنے اپنے طورپر وقت کے ساتھ ساتھ متضاد رو

Page 327: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

327

ایقلم پکڑ ل یپکڑنے والے ہاتھوں نے بھ اریتک کہ ہتھ ہاںیاو رمنظم ہوتے رہے

ںیپکڑنے والے ہاتھ ،قلم و قرطاس سے رشتہ نہ اریکہ ہتھ ایتاثر دم توڑ گ ہی۔ اور کہ : یتھ ہی تیفیسکتے۔ اب ک ڑجو

طرح نرم یک شمیتو بر اراںیحلقہ ہو

حق و باطل ہو تو فوالد ہے مومن رزم

)حضرت اقبال (

ممکن ہے کہ قلم کا وجود تو ہو اور زبان موجود نہ ہو البتہ سےیک ہیوجود ںیزبان ینئ یسے نئ وںیلیالگ بات ہے ان تبد کیآنا ا اںیلیتبد ںیزبانوں م

یملک ک ایخطے یبھ یتسلسل ہے کس کیا ہی۔ یگ ںیرہ یاو رآت ںیرہ یت نآیم

یلیاور تبد یترقزبان کے اختالط سے یملک ک ایدوسرے خطے یزبان سے کس ںیزبان یپاک و ہند ک ریکر سکتے۔ کہ برصغ ںیسے انکار نہ قتیکا ۔ ہم اس حق

ئتیہ یزبان جو مختلف ناموں سے اپن یاور ہمار ںیرہ یعمل سے گزرت یاس یبھ

بلکہ خی۔ قبل از تاریاردو کے نام اور وجود تک پہنچ یہوئ یاور صورت بدلتہمارے ںیمکمل صورت م کیوہ آج ا ہواسے جو سلسلہ شروع نشیابتدائے آفر

خیتار ونکہی۔ کیصورت کب تک رہے گ ہیجا سکتا کہ ںیکہا نہ کنیسامنے ہے ل

ہے کہ جب ادق اور یکھول کر ہمارے سامنے رکھ د قتیحق ہیکے اوراق نے ی۔ اور کوئںیہے تو وہ بگڑ جاتے ہ یآت شیمشکل پ ںیبولنے م ںیالفاظ جنھ لیثق

یہی۔ ںیہ تےیکر ل لیتبد ئتیہ یوہ الفاظ اپن ای۔ ںیہ تےیجگہ لے ل ینئے ا لفاظ ان ک

زبانوں کے ساتھ ہوا کہ سنسکرت ،پراکرت یجانے وال یبول ںیم ریغکچھ برصزبان نے یاور نئ ںیرہ گئ چھےیکے باعث پ یگیمشکل ادائ یاپن رہیوغ یاور پال

ینے مقام قوامجگہ لے ۔ فاتح ا یلطافت ،سالست اور لچک کے باعث ان ک یاپن

اہم کیا ںیزبانوں کا ڈھانچہ بدلنے م یاپنے الفاظ شامل کر کے مقام ںیزبانوں ملڑتے ہوئے منظم ںیجو جنگ ایکردار ان لوگوں نے ادا ک ہیاور ایکردار ادا ک

قلم سے محررہ زیگفتار سے ن یآئے اور اپن ہاںی ںیگروہوں)فوج (کے روپ م

۔ قلم سے لکھے ےیشامل ک ںیزبانوں م یجانے وال یبول ںیالفاظ اس خطے مکو بھول زیاس چ ںینسل یکر گئے۔ اور آنے وال اریروپ اختہوئے الفاظ مستقل

۔ںیہ یسیالفاظ بد ہیکہ ںیگئ

یپائ ںینہ لیتشک ںیموجودہ صورت دو چار دونوں م یزبان و ادب ک اردواور ڈ،دراوڑیہے۔ آسٹر والئ یکا سفرطے کر کے اس حالت تک پہنچ وںیبلکہ صد

۔ یرہ یکے عمل سے دو چا ر ہوت یلیزبان تبد یک یآئے تو اس دھرت نیپھر آر

کے نیہے۔ لہذا آر تاجا ایک میآمد سے چونکہ اردو زبا کا گہرا تعلق تسل یک نیآرہے کہ الیکا خ نیہے۔ مورخ یجات یآراء پائ یکئ یاصل وطن کے حوالے سے بھ

لکھا رینے پام یان کا اصل وطن ہے۔ کچھ نے باختر لکھا کس یدائرہ قطب شمال

نے نیاور کچھ محقق ایک ریشاخ سے تعب یجرمنوں ک میے قدنے اس یاو رکس ای،روس اور سابئر ایشیان کا مسکن وسط ا لسے قب یجانب انتقال آباد یمشرق ک

Page 328: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

328

جتنے منہ کنیہے۔ ل ایقرار د یبھ ایمیاور بو ہ یہنگر ا،ی، آسٹر دانیم یکے شمال

یکا آغاز ان لوگوں ک بیتہذ یکے مصداق اتنا ضرور ہے کہ نئ ںیبات یاتنکو دوںیکے و یکتب انہ یمیقد یآمد کے بعد ہوا۔ سو ہندوستان ک ںیم ریبرصغ

ممالک کے حملہ آور اس کا رہیوغ ونانی، رانیجاتا ہے۔ بعد ازاں مصر، ا اگردان

جب یہوئ ریاس وقت وقوع پذ یلیتبد یتک کہ بہت بڑ ہاںیحصہ بنتے رہے کیبعثت کے بعد آپ کے خلفاء اور جان نثار دبستا ن سے ا یاکرم ک یحضور نب

ایدن یسلطنتوں کو تار اج کرتے ہوئے پور یصورت اٹھے اور تمام بڑ یک یآندھ

ایآمد اور اثرات نے نقشہ بدل کر رکھ د یان ک یبھ ںیم ریپر چھا گئے۔ برصغد تھے بہت سے اہل قلم موجو ںیفوج م یمحمد بن قاسم خودشاعر تھے اور آپ ک

اس کا تعلق ایجس شخص نے ترجمہ ک ںیزبان م یکا سندھ دیتک کہ قرآن مج ہاںی

یسے اپن تیثیح یشاعر ک کیا یبھ یوفوج سے تھا۔ سلطان محمود غزن یبھ دیو قلم ساتھ الئے تھے۔ مز فیصاحب س یپہچان رکھتے تھے اور اپنے ہمراہ کئ

سے ںیتو ان م ایشامل ک ںیفوج م یسے جن لوگوں کو اپن ںیآپ نے ہندوستان م

یاور ہندوستان یاہل قلم نے پراکرت ،ہندو یعسکر ںیاور بعد م اتیاہل قلم شخصاور اردو نے ختہیسے ر یبلکہ س اید ںیپر اس زبان کو روک نہ یلیتبد یتک ک

یطاقت پکڑنے لگ ںیزبان جو ہندوستان م یرونیب یاس کے ساتھ ہ کنی۔ لایجنم ل

۔ یتھ یوہ فارس یخاندان تقر یغزنو خاندان نصف یدو سو سال حکمران رہا پھر غور با

سے کچھ زائد عرصہ گزار کر خاندان غالماں کو تخت وتاج سونپ کر چلتا یصد

یخاندان نے تقر ہیاور بعد ازاں مغل ی،تغلق، سادات ،لودھ یبنا۔ خلج نیساڑھے ت باکوشاں ںیزبان کے فروغ م یتمام خاندان فارس ہیسوسال تک اپنا سکہ رائج رکھا ۔

زبان کو ختم نہ کر سکے اورہ وہ آہستہ یوال نےیسے جنم ل یدھرت کنیرہے ل

۔ یہو گئ یاور باآلخر اپنے قدم سے کھڑ یرہ یقدم بہ قدم چلت یسہ یسے ہ یرو یاور فارس یکے عہد تک تو عرب نیکے عہد سے سبکتگ نیراشد خلفائے

کنیل ںیرہ یاپنے الفاظ شامل کرت ںیانوں مزب یمقام یہندوستان ک ںیدونوں زبان

نے اپنے اثرات مرتب کر نا شروع یاورترک یسے فارس یسلطان محمود غزنو اسنے زوںیتک کہ انگر ہاںیحکومت کے خاتمے تک رہے ہیجو مغل ےیک

۔ ایخطے پر اپنا تسلط جما لپر آئے۔ بارتھولو نیسر زم یہندوستان ک یزیبار پرتگ یپہل ںیء م۱۴۸۷

تک پہنچنے دیراس ام ںیساحل کا چکر کاٹ کر جنوب م یکے مغرب قہیباز افر

ساحل یء کو واسکوڈے گاما ہندوستان کے مغرب۱۴۹۸ یمئ ۲۰ہوا۔ ابیکام ںیمنے وںیزیواسکوڈے گاما او راس کے ہمراہ آنے والے پرتگ ای۔ گوپر اترا

ایانڈ سٹیا ںیء م۱۶۰۰۔ ےیکھول دراستے ےیآمد کے ل یک ورپی ںیہندوستان م

یپر قابض ہوئ ایشیانڈون یکمپن ایانڈ سٹیڈچ ا ںیء م۱۶۰۲۔ یپڑ ادیبن یک یکمپنء تک اس نے ۱۶۵۸گوا کا محاصرہ کر کے آہستہ آہستہ ںیء م۱۶۳۹اور پھر

Page 329: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

329

ادیبن یک یکمپن ایانڈ سٹیفرنچ ا ںیء م۱۶۶۴۔ ایپر قبضہ کرل وںیآباد یزیپرتگ یکئ

تھے، ںیامن پسند نہ یداخل ہوئے کوئ ںیم ریجو برصغ نیورپیتمام ہی۔ یپڑآمد سے ہیاتفاق یاور باز ک یتھ یحاصل کر رکھ تیترب یانھوں نے باقاعدہ فوج

یاپنے اپنے ملک کے عسکر زیآئے وہ مسلح اور جنگجو ن ہاںیدستے یجو بھ

یہون ںیعار محسوس نہ ںیسمجھنے م ایکہنے یعسکر ںیانھ اینمائندہ تھے۔ گو ںیتو ہم ںیہ کھتےید ریتحر لیدرج ذ ی۔ او رجب ہم جنرل شاہد حامد کےیچاہ

Courage is aکتا ب یواضح فرق نظر آتا ہے۔ وہ اپن کیکا ا نیلیاور سو یفوج

weapon کہ : ںیپر لکھتے ہ ۵۱کے صفحہ نمبر Civilian life is very different to that prevailing in the army,

and comparisons would be indivious but in the army a man

is trained to a balanced indiviual in times of peace but to

use controlled violence when at war. He is conditaioned for

battle and trained to have the correct reflexes when faced

with danger.

حاالت کے حوالے سے لکھا تھا کہ : یہ سےیا دینے شا راقم یعشق کے بات اخالص ک تذکرے

یاکثر لکھ ینے نوک سناں سے بھ ہم

لگے ارےیخون کے رنگ پ ںیم جنگ

یکہ یک تیپر بات انسان وقت

محبت مگر یبانٹ ںینے اپنوں م ہم

یجب گئے ظلم کو موت د ںیم رزم

رےیآکر ڈ ہاںینے ہیبرطان ںیاور آخر م یسیاہل ڈنمارک ،فرانس ،یزیولند

ںیاثرات چھوڑ گئے کہ آج تک اس چنگل سے نہ سےیا یڈالے اور جانے پر بھ نکل پائے۔

جب مستقل یرہا۔ تب بھ یتسلط ابتدا سے ہ یپاک و ہند پر فوج ر یبرصغ

یاور جب عسکر ںیصورت م یتھے تو جنگجوؤں ک ںیادارے نہ یمنظم عسکر لوںیگروہوں کے، اقوام کے ،قب ںی۔ ابتدا مںیادارے قائم ہوئے تو منظم صورت م

سردار اور ئدکرتے تھے اور وہ ان کے قا ادتیق یطاقتور لوگ ان ک ایکے ،بڑے کے فرائض انجام یبادشاہ ، حکمران سپہ ساالر ںیسپہ ساالر ہوتے تھے۔ بعد م

اپنے اپنے سیواب ،راجے ،مہاراجے اور رئدار ،ن ریتھے شہزادے ،جاگ تےید

ر یز یفوج رکھتے اور اس کے سپہ ساالر ہوتے تھے۔ ان ک یا پن ںیعالقوں مکرنے والے ایکے وقت مہ رتبادشاہ سالمت کو ضرو ایلڑنے والے ادتیق

یہوتے تھے۔ جو اپن یاہل قلم بھ ںیم وںیدربار یدستوں اور بے قاعدہ فوج

آج ںیریتحر یطرح محفوظ کرتے اور وہ ینہ کس یکس ںیاداشتی ای ںیریتحر ۔ںیکا حصہ ہ خیاور تار ادی یہمار

Page 330: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

330

ینہ کس یکس یوہ بھ یرہ یعمل سے گزرت یزبان جس ارتقائ اردو

کہ اردو زبان یواضح ہوئ ہیبات تو کیکا حصہ بنتا رہا۔ اس سے ا خیصورت تار۔ آج ید باہر سے مل۔ البتہ اسے کھایبڑھ یپل ںیہیاور یسے پھوٹ یدھرت یاس

خسرو ریحضر ت ام ںیواضح شکل ہم یابتدائ یاردو زبان ک یجانے وال یبول

ںیفوج سے تھا آپ نے جنگووں م یخسرو کا تعلق بھ ریہے۔ ام یملت یکے ہاں بھسبقت لے گئے۔ آ یبھ ںیم وںیہوئے اور اردو زبان کے بان یبھ دی۔ قایحصہ ل یبھ

خالص رہیوغ ںیڈھکوسلے، کبت، دو سخنے، کہاوت اں،یلی،پہ اںیکہہ مکرن یپ ک

کے الفاظ کو ی،اور ہند ی،فارس ںیغزل ںیم ختہیر زی۔ نںیکا رنگ ہ یاس دھرتجو اردو زبان کے رہنما ےیتجربے ک ابیکام سےیاستعمال کر کے ا ںینظم م

ثابت ہوئے۔

خود نوشت یلفظ بابر نے اپن‘‘اردو ’’بار یآمد کے بعد پہل یک مغلوں ہی۔ مغلایک ریتحر ںیم یلکھا۔ جسے اس نے لشکر کے معن ںیم یتزک بابر

۔ وہ جنگوں یبھ ی فوجوں کے ساالر اعل یتھے اور اپن یاہل قلم بھ ںیحکمرانوں م

علم و وںی۔ تےیکر د فوظلکھ کر مح ںیادداشتی یکرتے اور پھر اپن ادتیخود ق ںیمجا سکتا۔ مغل بادشاہ ایک ںیمات کو فراموش نہخد یان ک ںیجنگ م دان یادب اور م

شعر کہتا تھا۔ اور اسکے ںیاردو زبان م یبھ یان پڑ ھ آدم سایاکبر ج نیجالل الد

ںیلوگ نہ یخان خانان کے اشلوک آج بھ میعبدالرح یسپہ ساالر جنگجو سپاہ یآج بھ ںیصورت م یجو کتاب ےیاشلوک اور دوہے نقل ک ہبھولے۔ لوگوں نے و

سےیا یاور کئ یضیف ربر،یب ںی۔ اور اقوال و ملفوظات کا حصہ ہںیمحفوظ ہ

ںیجنگ م دان یقلم کا استعمال کرتے تھے۔ تو م ںیجو امن م یعسکر ای یدربارسے چالتے تھے۔الغرض بابر سے بہادر شاہ ظفر یزیشدت اور ت یاس یتلوار بھ

یفروغ پانے والزبان کے ساتھ ساتھ یحکمرانوں نے فارس ہیتمام مغل کت

بہادر شاہ ہیاور جب ایمقام و مرتبہ د کیا یزبان کو بھ یک یدھرت یہندوستان ک ۔یتھ یمکمل زبان بن چک کیتوا یڈھل کر سامنے آئ ںیظفر کے شعروں م

ڈسپلن کے یآنے کے بعد جہاں جہاں رہے فوج ںیم ریبرصغ ورپی اہل

عرصے یکاف ںیتھا کہ اگر اس خطے م ایمحسوس کر ل ہیساتھ رہے انھوں نے ںیجو پور ے ہندوستان م یہو گ ناید حیزبان کو ترج یسیا کیتک رہنا ہے تو ا

سے اس نامکے یجائزے کے بعد ہندوستان عیہو۔لہذا انھوں نے وس یجات یسمجھ‘‘ اردو’’زبان تیثیبح ںیجس کا نام شاہ جہان کے عہد م ید حیزبان کو ترج

۔اتھایسامنے آ

ںیآپس م یک نوںیوفات کے بعد ا س کے جانش یک ریعالمگ بیز اورنگجو سیسے فائدہ اٹھاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے عالقوں کے نواب ،رئ وںیلڑائ

اور مفاد ہیحکومت مغل ن یکے باجگزار ہوتے تھے۔ اور مخالف ہیپہلے سلطنت مغل

کرتے نکا اعال یآزاد یاپن یپرست راجوں ،مہاراجوں اور سرداروں نے اپناتحاد ٹوٹا اور ونٹی۔ جب ون یالگ الگ مسجد بنا ل یک نٹیا ڑھیڈ ڑھیہوئے ڈ

Page 331: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

331

تو اس کا فائدہ ںیآگئ ںیوجود م ںیاستیمستحکم ر ریغ یچھوٹ یالگ الگ چھوٹ

داخل ہو کر اسے ںینے ہندوستان م وںیاور ابدال وںیدران زی۔ ناینے اٹھا نیورپیکر زیرفتار ت یاپن ینے بھ زوںیانگر ابخوب لوٹا اور دولت افغانستان لے گئے۔

۔ ایصورت فائدہ اٹھا یک وںیکمپن یمداخلت او رتجارت ںی۔ انھوں نے درباروں مید

ںیکھیتھا کہ اردو زبان س یضرور ےیجس کے ل یک اریانھوں نے باقاعدہ فوج ت کیا ےیکے ل وںی۔ موجود عساکرںیاستطاعت حاصل کر ںیاور اس م ںی،اسے بول

تھا۔جب کہ نئے آنے والوں یاردو کا امتحان پاس کرنا ضرور تکمقررہ مدت

تی۔ اس اہمںیآئ ںیکے بعد فوج م کھنےیکہ اردو زان س ایالزم قرار پا ےیکے ل وںیموجود اردو جاننے والے خاص طورپر عسکر ںیم رینظر برصغ ش یکے پ

رتکث یگرامر اور لغت ک ںیجن م ںیک ریتحر ںیکتاب یضرورت ک ینے ابتدائ

زبان کے عالوہ رومن اور اردو یملک یاپن یاپن یلکھنے والوں ک ںیکتاب ہی۔ یتھ ۔ںیتھ یگئ یلکھ ںیم

اقوام کے نیورپی گریطاقت پکڑ رہے تھے د زیسے انگر ںیم ورپی اہل

یچھوٹ یچھوٹ یہندوستان ک ےیکے ل ہینے برطان زوںیخاتمے کے بعد انگر یانھوں نے حکمت عمل ےیتھا۔اس کے ل ںیمشکل نہ یپر غلبہ پانا کوئ استوںیر

ھونسکہ بہت سے سرداروں اور حکمرانوں کو اللچ دے کر اور د یبنائ وںی

پوینواب سراج الدولہ اور ٹ ںی۔ان حکمرانوں مایسے اپنے ساتھ مال ل یدھاندل یجنگوں سے بھ انیاور ان کے درم زوںی۔ انگریسلطان نے بھرپور مزاحمت ک

تو ان کے ساالروں اور وزرائے اعظم ینہ د یدکھائ یابیکو کام زوںیجب انگر

ے ریشکست دے کر بال شرکت غ ںیانھ ںیجنگ م دان یسے ساز باز کر کے منے نواب سراج الدولہ کو تو زوںیسے لذت اندوز ہونے لگے۔ جب انگر یحکمران

یکمپن ایانڈ سٹیڈٹے ہوئے تھے۔ توا ںیم دانیسلطان م پویٹ کنیل یشکست دے د

نوںیت ہی، یاور بمبئے آرم ی،بنگال آرم ی،مدارس آرم ںیک اریافواج ت نیت نے فیکمانڈر انچ یآزاد ادارے تھے۔ ان اداروں ک ےدوسر ے س کیا حدہیعل حدہیعل

یکوئ ںیآپس م یاور ٹروپس کا بھ سرزیہوتے تھے۔ آف حدہیعل حدہیبظاہر عل یبھ

تو پورے ہندوستان پر کیان کے مقاصد مشترک تھے ا کنیتھا ل ںیرابطہ نہفوجوں نوںیان ت ںی۔ اوراس میمشترک تھ یقبضہ کرنا اور دوسرا اردو زبان ان ک

کررہے تھے۔ یاہل قلم طبع آزمائ یکئ ںیم یکے سامنے کوئ زوںیء کے بعد انگر۱۷۹۹شہادت یسلطان ک پویٹ

۔ جس یطرف توجہ د یمسائل ک گرینے د زوںی۔ لہذا انگریتھ یرہ ںیرکاوٹ نہ

۔ ایکلچر ابھر کر سامنے آگ این کی۔ اب ایشامل تھ یبھ یترق یاردو زبان ک ںیم یک ششکو ینظام النے ک کیا ی۔ او راس کے متوازایکو زوال آگ یمنصب دار

حاصل تیثیح یکو مرکز ی۔ اب ساہو کار، دالل او رکرائے کے سپاہیجانے لگ

۔ جس یلگ جانے یطرف توجہ د یسے زبان ک یسوئ کیطرف ی۔ دوسریہوئکے ساتھ ساتھ می۔ جو تعلایگ ایال ںیادارہ عمل م سایکالج ج میفورٹ ول ےیکے ل

Page 332: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

332

کیسے ا امیاہم قدم تھا۔ کالج کے ق کیا ےیاردو زبان کے فروغ اور ارتقا کے ل

کا قیطر یکالج محض اس عمل میتھا کہ فورٹ ول ہیوہ ایاور پہلو جو سامنے آکے تجار اور ارباب انتظام اپنے عمال اور اپنے ایانڈ سٹیرکا درازہ تھا جو ا

رابطے کے طورپر کھولنا یبیاور تہذ یلسان انیداللوں اور اپنے تاجروں کے درم

اداروں او یاور مشنر یٹک سو سائٹ ایشیرائل ا یچاہتے تھے۔ سواسے ہاور ینے طاقت د نیکہا جاتا ہے۔ جسے مستشرق ادیبن یکے فروغ ک تیسائیرع

سے آگے بڑھنے لگے۔ یابیکام ںیپنے مقاصد ما زیانگر

اخبار تھا یکہ اردو کا پہال اخبار فوج ایگ ایک ںیپہلو پر آج تک غور نہ اسکے زوںیانگر ںیشائع ہوتا تھا اس اخبار م ںیم یسر پرست یسلطان ک پویجو ٹ

افواج سے متعلقہ اہل قلم یک پویٹ ںی۔ جس مںیتھ یشائع ہوت ںیریخالف سخت تحر

وںیفوج سورکےیصرف م باراخ ہیکا اظہار کرتے تھے االتیاپنے اپنے خ یبھ۔ اردو زبان کو ایاخبار بند ہو گ ہیجا تا تھا۔ سقوط سر نگا پٹم کے بعد ایک میتقس ںیم

ء تک اس زبان نے ۱۸۳۵۔ اور ایگ ایزبان کا درجہ دے د یدفتر ںیء م۱۸۳۲

۔ حکام نے یجگہ لے ل یک یفارس ںیدفاتر م یہو کر سرکار میتسل یسیاور د یملککے فیو تال فیتصن ںیاہل قلم نے ارد و م ںیوہ یک یسر پرست یجہاں اس زبان ک

اردو صلےیاور ف اںیکاروائ یزبان اردو ہوتے ہ ی۔ عدالتید یترق دیکام کو مز

اہل ی۔ عسکرںیعام ہو گئ یبھ ںیکتاب یقانون ک ںیلکھے جانے لگے۔ اردو م ںیم پنیوری وہعساکر کے عال یاور مقام یاس جانب توجہ مبذول ک یقلم نے بھ

نثر لکھنا یشعر کہنا اور ادب ںیتعداد نے اردو م یبڑ کیا یاہل قلم ک یعسکر

اپنا گھر بنانے یبھ ںیباعث فخر سمجھا اس سے وہ عوام کے دلوں م ےیاپنے ل۔ ںیہوئ دایپ اںیاناو رآس یآئ یلیتبد ںیم یہو گئے۔ا ن کے طرز حکمران ابیکام ںیم

نے پورے زوںیاگرچہ انگر ںیء م۱۸۴۹۔ یگہونے ل یبھ لیتکم یشوق ک رین

پر یتک تخت شاہ یبادشاہ بہادر شاہ ظفر ابھ کنیتھا۔ ل ایپر قبضہ کر ل ریبرصغ یدار ریجاگ یاپن ںینہ کہ ںیچھوٹے چھوٹے نواب کہ یبھ گریمتمکن تھا اور د

کنیتھا ل یصورت مزاحمت کا سلسلہ جار ینہ کس یسنبھالے ہوئے تھے۔ لہذا کس

حکمرانوں کو بے دست و یسینے د یحکمت عمل یک یپسند عیتوس یک زوںیانگربرائے تی۔مغل شہنشاہایگ ایلے ل تیاوالد سے حق ملک یمتنب ی۔ راجاؤں کایپا کر د

۔ یلاجازت نہ م یبنانے ک ی متبن یکو بھ یآف جھانس یبائ یلکشم ی۔ رانینام رہ گئ ےیکے دروازے کھول د شپر دادو دہ زوںیشاہ نے اگرچہ انگر ینواب واجد عل

معزول کر کے اودھ سے نکال باہر ںیکے الزام م ینواب کو بد نظم کنیتھے ل

خوار فہیسرکار کے وظ زی۔ مغل حکمران جوکہ انگر ایگ اید جیاور کلکتہ بھ ایکعوام اور یہندوستان ک یدبکے وقت گزار رہے تھے وہ بھ ںیتھے اور کونے م

استوںیر یکھچ ینے پر باہر نکلے۔ بچیخاص طورپر مسلمانوں کے زور د

فوج رکھنے یاپن یاپن ںیکے مالکوں اور نوابوں جنھ روںیجاگ یچھوٹ ی،چھوٹکرتے مینے بہادر شاہ ظفر کو اپنا حکمران اور سپہ ساالر تسل یاجازت تھ یک

Page 333: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

333

کیا ںیء م۱۸۵۷۔ یکوشش ک ینکالنے ککو ہندوستان سے باہر زوںیہوئے انگر

طرف بکھر ے ہوئے اور یفوج اور دوسر سیاسلحہ سے ل دیطرف منظم اور جدناکارہ اسلحہ سنبھالے ہوئے جتھے آمنے سامنے آئے اور جو کچھ مسلمانوں کے

اس جنگ جسے غدر، بغاوت یء ک۱۸۵۷ وںی ٹھےیگنوا ب یتھا وہ بھ ایپاس بچ گ

کے بال شرکت ریہو کر برصغ ابیزکامیکے بعد انگر ا،یگ ایکا نام د یاور آزادنے جنرل کالزوٹز زوںیانگر ںی۔ اس جنگ مٹھےیمالک اور حکمران بن ب ریغ

یاور انکسار یاگر روا دار ںیجنگ م ۂفلسف’’رکھا کہ ںیکے اس قول کوذہن م

عمل سایا کیکہ جنگ ا یحماقت ہو گ ہیجائے تو ایکو بطور اصول جنگ اپنا لکے ہاںیاور ‘‘ ۔ہےجلوہ گر ہوتا ںیصورت م یانتہائ یتشدد اپن ںیہے جس م

یجھولت ںیگئے۔درختوں پر الش ےیک غیکہ بے شمار لوگ تہ ت کھایلوگوں نے د

یاور جس شخص پر ذرا بھ ںیلگ گئ اںیگھاٹ پر بار ی۔ پھانسںینظر آئ یہوئخصوصا ںیعالقے م۔ ہر شہر اور ایگ ایگمان ہوا اسے موت کے گھاٹ اتار د

شامل تھے جو ںیاس جنگ م یبھ نیجاہد۔ بہت سے مایاگیمسلمانوں کو نشانہ بنا

انبالہ سےیکے خالف نبرد آزما رتھے۔ ج زوںیانگر ںیم وںیمختصر مختصر ٹکڑ ادتیق یمحا ذ ک ی۔ شاملیکے پاس تھ یسریموالنا جعفر تھا ن ادتیق یمحاذ ک

یحافظ ضامن تھانو ںی۔ اس جنگ میکے پاس تھ یحضرت امداد ہللا مہاجر مک

یاور موالنا قاسم نانوتو یگنگوہ دیہوئے۔ موالنا رش دیہش نیعالم د یکئ سےیج یطرح کئ یک یآباد ریہوئے۔ موالنا فضل حق خ یصاحب قلم زخم سےیج

آزردہ نیصدر الد یگئے۔ مفت ےیجال وطن کر د مانیصاحبان علم و دانش انڈ

لوگ باقاعدہ فوج ہیکے تختے پر لٹکائے گئے۔ یانشور پھانسد یکتنے ہ سےیجو قلم ضرور تھے۔ ہندوستان کے لوگوں پر فیتھے۔ البتہ صاحب س ںینہ ہکا حص

جنگوں کا ںیم یگزرے۔ اس صد یء تک سو سال بڑے بھار۱۸۵۷ء سے ۱۷۵۷

یسے ترق یزیاردو زبا ن و ادب نے اس پر ت یساتھ ہ کنیرہا ل یسلسلہ جار کیا ۔ایپا ل یکو بھ ینام کے ساتھ ساتھ آزاد کیکہ ا یک

کا دور کہتے یحکمران یزکیکے بعد وہ دور شروع ہوا جسے انگر اس

اپنے زیتھا اور عوام کو ن ایزبان تو قرار د ینے اردو کو دفتر زوںی۔ انگرںیہعوام سے ان کا تعلق اردو کے ونکہی۔ کاتھایراغب کر د یلوگوں کو اس طرف بھ

تھا۔ اس سے ایبو جیب کا تیزیاور انگر یزیاندر انگر یاندر ہ کنیقائم تھا ل عےیذرزبان ہے۔ یحکمرانوں ک یزیاور انگر یغالموں ک یعنیتاثر ابھرا کہ عوام ہی

نےید تیزبان کے حصول کوا ہم یزیدار ،نواب اور اہل ثروت انگر ریجاگ وںی

روش پر چل پڑے۔ یاس ےیلگے۔ او رخود کو عوام سے برتر ثابت کرنے کے للکھ پڑھ اور بول یزیوہ طبقہ جو انگر کی۔ اےطبقے سامنے آئ نیت یبھ ںیفوج م

سٹ ندھریاسیگاہ تیترب ی دون کے اعل رہیجاتا اور د ایسکتا تھا۔ اسے افسر بنا د

پل کا کام کیاستعداد کے ساتھ ا ںیسے اسے کمشن ملتا۔ دوسرا طبقہ جو رومن م ےوائسرائ ںیتھے۔ انھ تےیل کھیس یبھ یزیکچھ لوگ انگر سے ںی۔ ان م تاید

Page 334: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

334

یسے حوالدار تک تھا ۔ جو اردو کو ہ یطبقہ سپاہ سرایکہا جاتا اور ت سریکمشنڈ آف

نفرت کا یقائم رہا اور طبقات یکے بعد بھ یتاثر آزاد ہیمنزل سمجھتے تھے ۔ یاپن سبب بنا۔

ی۔ افواج کیتو مسلم ہو گئ تیریہمہ گ یء تک اردو زبان ک۱۹۰۰حال بہر

شائع ہونے لگے۔ ںیاردو م یاخبارات اور رسائل بھ ںیفوج م ،یتھ یہی یزبان بھ ںیبنارس م ںیء م۱۹۰۰۔ یشروع ہوئ یکمشکش بھ یلسان ںیدور م یاس کنیل

ام کے بعد اردو یاردو کے ق ی انجمن ترق ںیء م۱۹۰۳سبھا اور یپرچارن یناگر

اس کے اثرات مرتب ںیفوج م کنی۔ لیکر ل اریواضح شکل اخت کیتنازعے نے امتعصب کیسوائے چند ا یحاصل رہ تیاہم ینہ ہو سکے۔ اور وہاں اردو کو ہ

۔ ہندوؤں کے

او راردو ی ،اردوئے معل ی،گوجر یدکھن ختہ،ی، ر یہندوستان ،ی،ہند یہندو ںیخط نسخ م ابتدا یزبان اپنے مقام تک پہنچ ہیغرض جتنے ناموں سے گزر کر

ی۔ او رجب ہندیجانے لگ یلکھ ںیم قیاور بعد ازاں خط نستعل یتھ یجات یلکھ

کا نام یلگا جسے ہند انےلکھا ج ںیم یناگر ویاردو تنازع شروع ہو ا تو اسے د ۔ ایگ ایدے د

بادلوں اہی۔ جنگ کے سیتھ ںینہ یاچھ یشروعات کوئ یک یصد ںیسویب

یشروع ہوئ میجنگ عظ یپہل ںیء م۱۹۱۴۔ ایلے ل ںیم ٹیلپ یکو اپن ایدن ینے پورادب کو ائےیدن کنیل ایبنا ندھنی۔ اس جنگ نے انسان کو اپنا ایء تک رہ۱۹۱۸جو

اور نئے زیوریتھ ی،نئ اتیسوچوں ،نئے افکار، نئے نظر ی۔ نئایماال مال کر د

اس کے اثرات مرتب یرجحانات صفحا ت پر بکھرنے لگے۔ اردو زبان پر بھرہے تھے ںیاہل قلم جو صرف اپنے وطن تک محدود نہ یعسکر ںیہوئے۔ جس م

گئے۔ ںیکے مختلف اور دور دور تک کے عالقوں م ایعساکر دن یبلکہ ہندوستان

کا کھنےید ایعالقے کے عالوہ دن نےہندوستان کے عالوہ اور اپ ںیاس سے انھبھرپو ر ںیتجربات سے اردو ادب کے فروغ ماپنے یموقع مال۔ ان اہل قلم نے بھ

کے اہل قلم ورپیاہل قلم کے ساتھ ساتھ یعسکر یحصہ ڈاال۔ ہندوستان کے مقام

مختلف محاذوں پر ںیاصل سے دور ہندوستان م یجو فوج کا حصہ تھے اور اپن۔ ایاپنا مثبت کردار ادا ک ںیاردو زبان کے فروغ م یانھوں نے بھ تھے کاریبرسر پ

جس کا اظہار ایبہت متاثر ک ںینے انھ یلطافت اور چاشن یصل اردو زبان کدرا ۔ یبھ ںیاور اردو زبان م ایک یبھ ںیزبان م یانھوں نے اپن

ےیک یبھرت ںیہندوستان کے تمام عالقوں سے جوان فوج م ںیجنگ م اس

۔ یتھ ادہیز ںیصوبوں اورعالقوں سے کہ گریتعداد د یپنجاب ک کنیگئے لاوڑ وائر کا کہنا ہے کلیسر مائ ںیفوج کے بارے م یگئ یک یسے بھرتہندوستان

ںیء م۱۹۱۷تھے۔ ںیفوج م یالکھ آدم کیتو صرف ا یکہ جب جنگ شروع ہو ئ

ہی۔جب کہ اگلے سال یہزار ہو گئ سیالکھ چوب کیتعداد ا ہی ںیسال م یڈھائ یعنیالکھ افراد کیسے نومبر تک ا لیسال اپر ی۔ اسیتھ ادہیالکھ سے ز یتعداد اڑھائ

Page 335: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

335

زیانگر یہزار فوج ۶۰الکھ ۳ ںیگئے جنگ کے چار سالہ دور م ےیک یبھرت

سے اہل قلم کااندازہ ںیتعداد م یڑب ی۔ اتنےیک ایحکمرانوں کو ہندوستان نے مہپہنچ یکے نام ہ اتیلگانا بہت مشکل ہے ۔ ہمارے عہد تک صرف چند سو شخص

بڑا ساز گار رہا۔ برٹش ےیدور اردو زبان کے لکا میجنگ عظ یسکے۔ دوسر

نیفوج انڈ ینئ کیمحب وطن اشخاص پر مشتمل ا یکے عالوہ ہندوستان یآرماور یکے خالف تھ زوںیفوج انگر ہی یآگئ ںیم دکے نام سے وجو یآرم شنلین

ی۔ اس فوج نے بھ یتھ کاریبر سر پ ںیبرمام ںیم ادتیق یسبھاش چندر بوس ک

یدل یہم دل’’ ایک قینغمہ تخل کی۔ انھوں نے اایک افتیاہل قلم کو در یعسکر یکئتک ایمقبول ہوا ۔ اور مال یبھ ںیم وںیہندوستان رینغمہ اس وقت غ ہی‘‘ گے ںیجائ

۔یگونج پہنچ یاس نغمے ک

یپلٹا تو برطانو ںیکے حق م وںیکا پانسہ اتحاد میجنگ عظ یدوسر جبپر مشتمل تھے۔ ان کے شعبہ نشر و وںیفوج یتر ہندوستان ادہیدستے جو ز یفوج

شامل تھے جن پر اردو زبان وا دب کو ناز یاردو دان بھ سےیبعض ا ںیاشاعت م

اور ایفروغ د یھصحافت کو ب ںیاہل قلم نے اردو زبان م یہے۔ ان نامور عسکرل چراغ حسن حسرت، کرن جریم ںیم اتیاہل قلم شخص ی۔ ان عسکر یادب کوبھ

ریضم دیس جریم ںیبعد م پٹنی،ک ضیاحمد ف ضیکرنل ف فٹنٹیمسعود احمد،ل

گرید ین ۔ م راشد اوربہت س پٹنی( کدی)ابن سع ی،کمانڈر حسن عسکر یجعفر ۔یکام بھ ورچھوڑا یاپنا نام بھ ںینے اردو ادب م اتیشخص

خاص بات جو قابل ذکر ہے کہ الرڈ کیاردو کے حوالے سے ا ہاںی

ایک ریتقر ںیوائسراے (اردو م یکا افسراور ہندوستان کا آخر یوی،)ن ٹنیماؤنٹ باردو زبان و یبھ رہیوغ یسیاور گر ،یسرویم ک،یکرتے تھے۔ جنرل سلم ، آکن ل

ںیبان م وزاپنے ٹروپس او رجوانوں سے مخاطب ہوتے تھے۔ ارد یہ ںیادب م

برداشت کرنا بہت کچھ ےیزبان کو اپنے موجودہ مقام تک پہنچنے کے ل یلشکر یبے شمار سواالت چھوڑتے ہوئے آگے ہ ےیاپنے ل ںیم یماض ہی کنیپڑا ل

لہجوں اور یزبانوں ، کئ یمکاتب فکر ،کئ یکئ ںیم ادوںیبن ی۔ اس کیرہ یبڑھت

حصہ یتاجروں کا بھ ںیم دالنےمقام ہی۔ اسے ںیشامل ہ ںیکاوش یاقوام ک یکئ۔ گداؤں اور ایک نیدانش اور فکر سے مز یاپن یہے اور علماء وفضال نے بھ

ادہیسب سے ز ںیم الیخ رےیم کنیاپنا حصہ ڈاال۔ ل قیحسب توف یشاہوں نے بھادارے کا حصہ ہے تو وہ عساکر ہے جنھوں نے اس کے نام ایطبقے یاگر کس

فوقتا سونا اگلنے زی۔ نیبھ یک یاور معن یالج رکھ یبھ یک وہ عساکر جو وقتا

اسے ی۔ کبھںیرہ یجسے ہندوستان کہا جاتا ہے، پر حملہ آور ہوت یرتاس دھ یوال ب،یتہذ یک یاس دھرت کنیل ںیبن یاسے لوٹ کر چلت یاور کبھ ایاپنا مسکن بنا

وجہ یہی۔ ںیرہ یتمدن ،ثقافت اور رسم و رواج اور زبان پر اپنے اثرات چھوڑت

۔ںیسامنے آتے ہ اتیآنے سے بہت سے نظر ںیہے کہ اس زبان کے وجود م

Page 336: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

336

ںیم لیتشک یاس ک زیکروانے ن میزبان کو اپنا آپ منوانے اور تسل اس

زبانوں کے یبلکہ ہزاروں سال کا عرصہ لگا۔ باہر سے آنے وال ںینہ اںیصدبھرپور حصہ کیا یاور زبانوں کا بھ وںیبول یمقام یک ہاںیاختالط سے عالوہ

زبان یاور ابتدائ یمیقد یک یاس دھرت کہا جائے کہ اردو زبان ہیرہا ہے۔ اور اگر

نے اس پر جو بوںیزبانوں ،کرداروں اور تہذ یہے اور آنے والے لوگوں ان ک لیتشک یاور ڈھانچے ک ںیاس زبان کے فروغ م یاثرات چھوڑے انھوں نے بھ

۔ یبہت معاونت ک ںیم

عساکر نے اس کنیجگہ ل یخدمات اپن یمکتبہ فکر اور قوموں ک مختلف ںیان م ںیجو خدمات انجام د ںیاور اس کے علم و ادب م ید یترق ا،یزبان کو بنا

ںی۔ جنھںیاہل قلم نے انمٹ نقوش چھوڑے ہ کنیکا حصہ ہے ل یاگرچہ ہر عسکر

ںی۔ آخر متاہےجا سک ایک ںیفراموش نہ ںیعہد م یحال اور کس یصورت کس یکسحق بجانب ہوں کہ ںیکہنے م ہی ںیسے م تیثیح یمقالہ نگار ک کیا ایمحقق کیا

نظر شہیہم ںیکے شعبے م قیکو متعلقات کو تحق اتیاداروں کو، شخص یعسکر

کا حصہ خیتار ایتذکرے یاہل قلم کس یتک کہ اگر کوئ ہاںیجاتا رہا ہے۔ ایانداز ک ںی۔ میگئ یک ںیزحمت گوارا نہ یکو لکھنے ک دبنا ہے تو اس کے عہدے اور عہ

لمحہ سایا یکوئ ایرکھتا ہوں کہ ازل سے آج تک ک یجرأت بھ یھنے کپوچ ہی

دوسرے کے خالف صف آرا نہ رہے ہوں۔ کیاور شر ا ریگزرا ہے جب کہ خ حضرت اقبال کے شعر: کار رہا ہے ازل سے تاامروز زہیست

یسے شرار بو لہب یمصطفو چراغ

ی( کا فلسفہ اپنورانٹیہے۔ ول دوراں )ڈ یہوت دیبھرپور تائ یاس ک سے

کو زیورسٹیونی۔ ٹھےیب ںیبند ہو کر نہ ںیکمروں م یکبھ زداںیاہر من و کنیجگہ لہو ںینہ وںیعساکر پر کام ک ںیوجہ ہے کہ اردو زبان م ایسوچنا پڑے گا کہ ک

فوج سے وابستہ ایک ںینہ ماہل ق یکوئ ہاںی ایکے عالوہ ک اتیشخص کیسکا۔ چند ا

ںیم رہیآر اور ہسپتالوں وغ یپ سیا ی،آئ سیا یا میاکاؤنٹ ،ا یملٹر سےیدارے جااور شنزیجا سکتا۔ فوج کے مختلف فارم ایکرا ںیپر کام نہ نیلیکام کرنے والے سو

سمجھے جا سکتے کہ ان پر کام ںیاس قابل نہ ایسنٹرز سے نکلنے والے رسائل ک

یڈرامے بھ ںیپروگرامز جن م یحیہونے والے تفر ںیفوج م ایکجا ئے؟ ایکرامناسبت سے ہونے والے پروگرام یخاص مواقعو ں ک ای یاور نغمات بھ ںیہوتے ہ

ای، یس فی،ا نجرزیر سےیاداروں ج یعسکر مین ایآتے۔ ک ںینہ ںیا س زمرے م

استعمال ںیفوج م ایک ے؟یرکھنا چاہ ایکو نظر انداز ک رہیوغ زی بلریکنسٹ یعالقائکا تی)حساسے؟یچاہ یہون ںینہ تیکو واقف یسے عام آدم یکنالوجیٹ یہونے وال

ایدن ںیانھ ےیکرانا چاہ ںیپر کام نہ وںیشہدا اور غاز ایرکھا جا سکتاہے (ک الیخ

نے ی مل سکتا، جس کا وعدہ ان سے ہللا تعال ںینہ وںیوہ عزت اور مقام ک ںیماترنے والے ںیعمل م دانیم ےیمدد کے ل یسول حکومت ک ایہے ؟ک ایفرما

Page 337: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

337

ے؟یرہنا چاہ ںیزد م یتعصب ک یہ وںینمائندوں اور ان کے کاموں کو یعسکر

طوفانوں سے ںیانھ یجا تاہے۔ کبھ ایچڑھا نٹیبھ یک یدہشت گرد ںیانھ یکبھکے بعد حاال ت کو سنبھاال یتباہ یزلزلوں ک یجاتا ہے کبھ ایبال ےینمٹنے کے ل

گم ہو جائے تو فوج الیتھ ایپرس کیکا ا یآدم یجاتا ہے۔ کس ایے الیکے ل نےید

۔ ںیجاتے ہ ےیان سے ہر لمحہ جواب طلب ک ںیم منٹیجاتا ہے۔ پارل ایکو بال ل ایکو فوج کے سر تھوپ د وںیغلط یہے۔ اپن ٹایبے وجہ گھس ںیانھ ںیم استیس

کے اتھل پتھل کا ںجا تاہے۔ حکومتو ایٹھہرا ںیجاتا ہے۔ کر پشن کا ذمہ دار نہ

گئے چار کمروں دےیبچت سے خر یتنخواہ ک یگردانا جاتا ہے۔ اپن ںیجوابدہ انہ۔ ںیکا شکار وہ بنتے ہ یگول یجاتا ہے۔دشمن ک ایکا نشانہ بنا دیکے گھر کا تنق

ان موضوعات کے اںیٹیورسیونی ایک ںیوہ ہ ںیزد م یک یزبان دراز یاپنوں ک

کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر یبے زبان ی۔ فوج کںیکر اسکت ںیحوالے سے کام نہفوج مورد الزام یپور ےیکا قدم الٹا پڑ جائے تواس کے ل یفوج کیا یکس

جائزہ یحکومتوں کے کام کا تقابل نیلیفوج کے کام او رسو ایہے۔ ک یجات یٹھہرائ

سچ کا اظہار اور برداشت اتنا مشکل او رناممکن ہے۔ ایجا سکتا۔ ک ایک ںینہ ہیکہ ںیعار نہ ںیکہنے م ہی مجھے

کنیرکھتے ل ںیکا درجہ نہ تیامکانات آفاق

دانہ کنی۔لںیپہال قدم تو ثابت ہو سکتے ہ

است ہنوز نیرا کہ بآغوش زم

نمیب یدر شاخ برو مندو جواں م شاخ

ابمی یرا مثل پر کاہ سبک م کوہ

نمیب یکاہے صفت کوہ گراں م پر

افالک ر یکہ نگنجد بہ ضم انقالبے

نمیب یندانم کہ چساں م چیو ہ نمیب

ندیگرد سوارے ب ںیآں کس کہ در خرم

ندیتارے ب دن ینغمہ ز لرز جوہر

)حضرت عالمہ اقبال (

وںیپر ،رو اتیحال فوج کے حوالے سے موضوعات ،پر رجحانات پر، شخص بہرکام ہونا یقیجن پر تحق ںیعنوانات ہ ےسیکہ بے شمار ا یپر ،حت تیپر ،کام پر ،ترب

وہ اس ںیہ یکا گڑھ بن چک بیتہذ کولریجو س اںیورسٹیونیہے کہ دی۔ مجھے امےیچاہ

۔ یگ ںیتوجہ د یطرف بھ

انظر ما قال ال تنظر من قال

Page 338: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

338

کتابیات

کتابیات القرآن الکریم *

بائبل *

(آ)ڈاکٹر، پنجابی شاعروں کا جدید تذکرہ ،ادارہ روداد، اسالم آباد، آصف ریاض قدیر، *

ء ۲۰۱۲آفاق احمد ،پروفیسر ،مدھیہ پردیش میں اردو زبان و ادب ،مدھیہ پردیش اردو *

ء۱۹۹۶اکادمی بھوپال ، ء۱۹۹۹آفاق صدیقی ، پروفیسر ،کالسیکی ادب ،طاہر پبلی کیشنز ،کراچی *

سائنس کا سفر ،مترجم : ارشد رازی ،مشعل بکس آئزک ایسی موف، علم اور *

ء۲۰۰۳الہور ،

Page 339: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

339

(ا)الف انصاری ،ڈاکٹر،شعرائے بنگالہ )حصہ اول(، شب نور پبلی کیشنز ،کلکتہ *

ء۲۰۰۶

ابن امین ہللا ،طوفان، تذکرۂ شعراء،مرتبہ:قاضی عبدالوددو، خدا بخش اورینٹل * ء۱۹۹۵پبلک الئبریری، پٹنہ ،

ء۱۹۷۱یقی، ڈاکٹر جامع القواعد، مرکزی اردو بورڈ الہور، ابو اللیث صد *

ابو اللیث صدیقی، ڈاکٹر ،لکھنؤ کی آخری شمع، ایجوکیشنل بک ہاؤس ،علی گڑھ ، * س ن

ابو اللیث صدیقی، ڈاکٹر، لکھنؤ کا دبستان شاعری ،غضنفر اکیڈمی ، کراچی ، بار *

ء۱۹۸۷چہارم ابوطالب اصفہانی، تفضیح الغافلین، مترجم: ڈاکٹر ثروت علی، قومی کونسل برائے *

ء۱۹۸۷فروغ اردو زبان، نئی دہلی،

احتشام حسین ، سید،اردو ادب کی تنقیدی تاریخ ،قومی کونسل برائے فروغ اردو * ء۲۰۰۹،نئی دہلی ،‘‘زبان

فروغ اردو زبان ،نئی احتشام حسین، سید، اردو کی کہانی ، قومی کونسل برائے * ء۲۰۱۱دہلی، بارپنجم،

ء۱۹۹۷احمد پراچہ، تاریخ کوہاٹ، بک سنٹر ،راولپنڈی ، *

ء۱۹۸۴احمد پراچہ،کوہاٹ کا ذہنی ارتقاء ، مکتبہ مستجاب پراچہ کوہاٹ، *احمد حسین صدیقی ، دبستانوں کا دبستان ،جلد چہارم ،محمد حسین اکیڈمی کراچی *

ء۲۰۱۴،

صدیقی ، دبستانوں کا دبستان کراچی ، جلد سوم ،محمد حسین اکیڈمی احمد حسین * ء۲۰۱۰فیڈرل بی ایریا کراچی ،

احمد حسین قریشی قلعداری ،ڈاکٹر ،ضلع گجرات، تاریخ۔ ثقافت ،ادب،پاکستان *

ء۱۹۹۵پنجابی ادبی بورڈ،الہور ک ڈپو، احمد حسین قریشی ،ڈاکٹر، پنجابی ادبیات کی مختصر تاریخ ، عزیز ب *

ء۲۰۰۲الہور،

احمد حسین قریشی ،ڈاکٹر، پنجابی ادبیات کی مختصر تاریخ ،عزیز بک ڈپو * ء۲۰۰۲الہور،

احمد خان، سر سید، آثار الصنادید، جلد اول،پاکستان ہسٹاریکل سو سائٹی کراچی ، *

ء۱۹۶۶برائے احمد خان ، سرسید ،آثار الصنادید ،جلد دوم ،مرتبہ خلیق انجم ،قومی کونسل *

ء۲۰۰۳فروغ اردو زبان نئی دہلی ،

احمد شفیع، منشی سید، مضامین پولیٹکل ،مطبع ریاست ناہن سرمو، مقام و سن * ندارد

ء۱۹۲۹احمد علی خان شوق، حافظ، تذکرہ کامالن رام پور ،ہمدرد پریس دہلی، *

Page 340: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

340

ء۲۰۰۷احمد ندیم قاسمی ، میر ے ہم قدم ،سنگ میل پبلی کیشنز الہور، *

ء۱۹۸۳اختر امر تسری ،ہجوم افکار،میجر عبدالکریم خان راولپنڈی ، *اختر اور ینوی ، بہار میں اردو زبان و ادب کا ارتقا ء ،ترقی اردو بیورو ،نئی *

ء۱۹۸۹دہلی ،

ء۱۹۷۱اختر حسین اختر، سید ،کھلرے موتی ،پنجابی ادبی لیگ، الہور، * ء۱۹۸۷پاکستان ،کراچی ، ادا جعفری ،غزل نما، انجمن ترقی اردو *

ء۱۹۷۴ادریس ،کیپٹن ایس ایم ، سنگ گراں ،فیروز سنز کراچی ، *

ء۱۹۹۱ارتضی کریم ، ڈاکٹر، انتخاب کالم میر سوز، اردو اکادمی دہلی، *اسد ہللا خان غالب، مرزا، عود ہندی،مرتبہ :سید مرتضی حسین فاضل ،مجلس *

ء۱۹۶۷ترقی ادب الہور ، جون

رار احمد ، ڈاکٹر، اردو شاعری میں بہار کے ہندو شعراء کا حصہ، ایجوکیشنل اس * ء۲۰۰۹پبلشنگ ہاؤس، دہلی،

اشرف اشعری ، فیصل آباد، )الئل پور( تاریخ کے آئینے میں ،فضہ پبلشرز ، *

ء۲۰۱۲فیصل آباد، اشرف علی فغاں،دیوان فغاں، مرتبہ:سید صباح الدین،عبدالرحمان علیگ ، انجمن *

ء۱۹۵۰ترقی اردو پاکستان ، کراچی

ء ۱۹۲۶اصغر علی خان ،کرنل سردار ، متہوران ہند، مفید عام پریس ،الہور ، *اطہر مبارکپوری ،موالنا قاضی ، خالفت راشدہ اور ہندوستان ،ندوۃ المصنفین *

ء۱۹۷۲،دہلی ،

د ٹرسٹ اظہر عباس ہاشمی ،مرتب: کراچی میں مدفون شعراء ، ساکنان شہر قائ * ء۲۰۱۴،کراچی ،

اعجاز الحق قدوسی ، تاریخ سند ھ، حصہ دوم ، مرکزی ارد و بورڈ الہور، *

ء۱۹۷۴اعجاز حسین ، ڈاکٹر، سید، مختر تاریخ ادب اردو،ادارہ فروغ اردو لکھنؤ، *

ء۱۹۶۵گیارھواں ایڈیشن،

محل اعظم کریوی ، پریم کی چوڑیاں اور دوسرے افسانے ،کتاب خانہ دانش * ء۱۹۴۲لکھنؤ ،

ء۱۹۸۹افتخار بیگم صدیقی، دیوان شاکر ناجی ،ا نجمن ترقی اردو)ہند( نئی دہلی ، *افتخار حسین، آغا، یورپ میں تحقیقی مطالعے، مجلس ترقی ادب، الہور، نومبر *

ء۱۹۶۷

ء۲۰۰۲افتخار وڑائچ کالروی ، عجب آزاد مرد،منز سانجھ گجرات، *امروہوی ، مرتب: بیاض مراثی ،ا نجمن ترقی اردو ،پاکستان افسر صدیقی *

ء۱۹۹۹،کراچی ،بار دوم ،

افسر صدیقی امروہوی ،مخطوطات انجمن ترقی اردو، جلد پنجم، انجمن ترقی اردو * ء۱۹۷۸پاکستان ،کراچی ،

Page 341: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

341

افسر صدیقی امروہوی ،مرتب: مخطوطات انجمن ترقی اردو ،جلد چہارم ،انجمن *

ء۱۹۷۶پاکستان ،کراچی ، ترقی اردو ء۱۹۷۶افضل پرویز، غم روزگار کے ،مکتبہ خرابات راولپنڈی ، *

ء۱۹۷۲اقبال صالح الدین ،سنگی نامہ ،عزیز بک ڈپو، اردو بازار الہور ، *

اقبال عظیم سید، مشرقی بنگال میں اردو، مشرقی کو آپریٹو پبلی کیشنز ،ڈھاکہ * ء۱۹۵۴

ء۲۰۰۴ہندو مرثیہ گو شعرا ء ،ایالئیڈ ٹریڈرس نئی دہلی، اکبر حیدری کشمیری، *

ء۲۰۰۴اکرم باجوہ ، نویں پنجابی نظم دے رتن، ادب رنگ پبلی کیشنز ،ملتان *الف انصاری ،ڈاکٹر ، شعرائے بنگالہ ، حصہ دوم ،دی مسلم انسٹی ٹیوٹ کلکتہ ، *

ء۲۰۰۹

دمات، شب نور پبلی کیشنز الف انصاری، ڈاکٹر، دبستان مٹیا برج کی ادبی خ * ء۲۰۰۵،کلکتہ

ء۱۹۷۷امداد ہللا مہاجر مکی ،کلیات امدادیہ ،دارا الشاعت ،کراچی ، *

ء۱۹۶۰ء کے غدار شعراء ، مطبع یونین پریس دہلی، ۱۸۵۷امداد صابری ، * ء۱۹۶۵امداد صابری، تالمذۂ میر، افقر اکادمی راولپنڈی، *

قصہ چہار درویش، رحمن برادرس تاجران کتب امن دہلوی ،میر،باغ و بہار *

کراچی ،س نامولیہ رنجن مہاپتر، فلسفۂ مذاہب ، مترجم :یاسر جواد ،فکشن ہاؤ س،الہور ، *

ء۲۰۰۱

ھ۱۲۷۲امیر ہللا تسلیم ،نالۂ تسلیم ،مطبع مصطفائی ،لکھنؤ * ء۱۹۹۴امیر عارفی ،ڈاکٹر ، شہر آشوب ایک تجزیہ ، مصنف خود ،دہلی *

امیر علی خان ،اکبر بادشاہ کے نورتن ،علم و عرفان پبلشرز ،الہور ، ستمبر *

ء۲۰۰۶ ء۱۹۱۰امیرہللا تسلیم، دفتر خیال، مطبع سعیدی ریاست، رامپور، *

انجم ملیح آبادی ،انتخاب کالم فقیر محمد خان گویا، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ *

ء۱۹۹۰،سید،دریائے لطافت،مترجم: پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی، انشاء ہللا خان انشاء ، *

ء۱۹۸۸انجمن ترقی اردو) ہند(، نئی دہلی، باردوم انشاء ہللا خان انشاء ،سید، داستان رانی کیتکی اور کنوراودھے بھان کی ،انجمن *

ء۱۹۳۳ترقی اردو، اورنگ آباد،

،دارا لناظر پریس لکھنؤ ، انشاء ہللا خان انشاء ، دہلوی، سید، دریائے لطافت * ء۱۹۱۶

انشاء ہللا خان انشاء، کلیات انشاء، جلد اول، مرتبہ خلیل الرحمان داؤدی، مجلس *

ء۱۹۶۹ترقی ادب، الہور، انشاء ہللا خان ، کلیات انشاء ہللا خان انشا، مطبع منشی نول کشور، مقام *

Page 342: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

342

ء۱۸۷۶ندارد،

ں اردو ، مقتدرہ قومی زبان اسالم آباد، انعام الحق کوثر، ڈاکٹر، بلوچستان می * ء۱۹۸۶

ء۱۹۹۵انعام گوالیاری، سب سے اچھا کہیں جسے ، رحمن پبلی کیشنز کراچی ، *

انو رصابر ،ڈاکٹر، پاکستان میں اردو غزل کا ارتقا ،مغربی پاکستان اکیڈمی * ء۲۰۰۲،الہو،ر

ء۲۰۱۲ی ،بار چہارم،انوار ہاشمی ، تاریخ پاک و ہند ،کراچی بک سنٹر ،کراچ *

انور سدید، ڈاکٹر، اردو ادب کی تحریکیں، انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، * ء۲۰۰۷اشاعت ششم،

انور سدید، ڈاکٹر، اردو ادب میں سفر نامہ ،مغربی پاکستان اردو اکیڈمی *

ء۱۹۸۷،الہور،بک ڈپو دیو انور صابری ،جانے پہچانے اور وہ جنہیں کوئی نہیں جانتا ،صابری *

ء۱۹۵۸بند،

ایوب صابر، منحرف، مرتب: شاہد زمان ،شاہد زمان ۔ابتسام پبلی کیشنز * ء۱۹۹۹کوہاٹ،

، شیخ غالم علی اینڈ سنز ، الہور،س ۱اے حمید، اردو شعر کی داستان،قسط نمبر *

ن ، شیخ غالم علی اینڈ سنز، الہور ، س ن۳اے حمید، اردو شعر کی داستان ، قسط *

، شیخ غالم علی اینڈ سنز، الہور ، س ۵اے حمید، اردو شعر کی داستان، قسط نمبر *

ن، شیخ غالم علی اینڈ سنز ،الہور ۱۰اے حمید، اردو شعر کی داستان ،قسط نمبر *

،س ن

(ب)بادشاہ منیر بخاری، اردو اور کھوار کے لسانی روابط ، مقتدرہ قومی زبان ، *

ء۲۰۰۳پاکستان ،اسالم آباد

ء۱۹۶۹باری علیگ،کمپنی کی حکومت، نیا ادارہ الہور، بارچہارم، *

باشم ، اے۔ ایل ، ہندوستانی تہذیب کی داستان ، مترجم ،ایس غالم سمنانی * ء۱۹۹۹،نگارشات، الہور ،

ء۲۰۱۱باقی احمد پوری ، ہمارے شاعر، جلد دوم ،القمر انٹر پرائزز ،الہور ، *

کٹر، قومی یک جہتی اور اردو شاعری، پہچان پبلی کیشنز الہ آباد بانو سرتاج، ڈا * ء۲۰۰۴)یوپی(

سرگودھا ۲۷بدر الدین بدر، جمال بدر ،ضمیر اال سالم نشیمن منزل بالک *

ء۱۹۷۸

Page 343: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

343

برج کشن کول بے خبر ،پنڈت و پنڈت جگموہن ناتھ رینہ شوق،تذکرہ *

دوم،انڈین پریس لمیٹڈ الہ آباد، شعرائے کشمیر پنڈتاں المعروف بہار گلشن ،جلد ء۱۹۳۲

ء۱۹۹۷بشارت علی مرزا، تاریخ جھجر ، علی سنز کراچی، *

بشارت فروغ، وفیات مشاہیر اردو ، حصہ اول، مطبع کلکتہ پریس نئی دہلی، * ء۲۰۰۰

ء۲۰۰۲بہادر شاہ ظفر ،دیوان ظفر، فرید بک ڈپولمیٹڈ، دہلی، *

یر ،مترجم :رحم علی الہاشمی ،قومی کونسل برائے فروغ بینی پرشاد، تاریخ جہانگ * ء۲۰۱۰اردو زبان ،نئی دہلی ، چہارم

(پ)پیارے الل آشوب دہلوی و کپتان ڈبلیوجے ہالرائیڈ، رسوم ہند، کارکنان مجلس ترقی *

ء۲۰۰۸ادب، الہور ،

(ت)تاج سعید، پشتو ادب کی مختصر تاریخ ،مقتدرہ قومی زبان پاکستان ،اسالم آباد، * ء۲۰۰۶دوم

ء۱۹۷۷تاج سعید، ہم قلم ، مکتبہ ارژنگ پشاور ، *

ء تک ،سنگ میل پبلی ۱۸۵۷تبسم کاشمیری ،ڈاکٹر، اردو ادب کی تاریخ ابتدا سے * ء۲۰۰۹کیشنز ،الہور

ء۱۹۳۸کن ،مطبع: برقی پریس حیدر آباد دکن ،تسکین عابدی ،سید ، سخنوران د *

ء۱۹۳۰تمکین کاظمی، تذکرہ ریختی ،شمس االسالم پریس حیدر آباد، دکن، *

(ث) ء۱۹۶۵ثناء الحق ، میرو سودا کا دور ، ادارہ تحقیق و تصنیف کراچی ، *

(ج) ء۲۰۱۳جان طپش، مرزا ،غزلیات طپش ، مرتبہ:یوسف تقی، کلکتہ ، *ش مہتہ درد ، اردو کے ہندو شعراء ،جلد دوم ،حقیقت بیانی پبلی کیشنز ، نئی جگدی *

ء۱۹۷۴دہلی جگدیشن مہتہ ڈاکٹر، اردو کے نان مسلم شعراء ، حصہ دوم ،حقیقت بیانی پبلشرز *

ء۱۹۸۰،نئی دہلی ،

ء۱۹۴۳جگر بریلوی ،یاد رفتگاں ،مطبع انوار احمدی الہ آباد، *اکٹر، مرتبہ، ن م راشد ایک مطالعہ ،مکتبہ اسلوب کراچی ، جمیل جالبی ،ڈ *

ء۱۹۸۶

ء۱۹۷۹جنمے جے متر ارمان،نسخۂ دلکشا، علمی مرکز کلکتہ، * ۲۰۱۰جواز جعفری، ڈاکٹر، اردو ادب یورپ اور امریکہ میں، مکتبہ عالیہ الہور، *

ء۱۹۶۶جواں بخت جہاندار، میرزا،دیوان جہاندار، مجلس ترقی ادب الہور، *

Page 344: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

344

ء۱۹۷۰جوش ملیح آبادی، یادوں کی بارات، جوش اکیڈمی کراچی، *

جوہر دیو بندی ، نغمۂ ناقوس، )تذکرہ شعرائے ہنود(،مطبع محبوب پریس دیو بند * ء۱۹۸۵

ء۱۹۸۳خود دیوبند، جوہر دیوبندی، موج گنگ)تذکرہ شعرائے ہنود(،مؤلف *

)چ(چراغ حسن حسرت، مردم دیدہ ، مرتب: محمد عارف، نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسالم *

ء۲۰۱۵آباد،

)ح( حاجی لق لق ، آواز لق لق، کتابستان نئی دہلی ، س ن *

حاجی لق لق ، درانتی اور دوسرے مضامین ، اردو بک سٹال الہور ،بارسوم *

ء۱۹۴۸، پرواز لق لق، کتابستان نیو دہلی ،س ن حاجی لق لق، *

ء۱۹۶۲حاجی لق لق، کالم لق لق ، ہندوستانی پبلشنگ ہاؤس ،دہلی، *

حامد بیگ، ڈاکٹر مرزا ، اردو سفر نامے کی مختصر تاریخ ،ماہنامہ سپوتنک * ء۱۹۹۹،الہور ، دسمبر

راچی، چوتھا ایڈیشن، حامد حسن قادری، داستان تاریخ اردو، اردو اکیڈمی سندھ ، ک *

ء۱۹۸۸حبیب ضیا ء ،ڈاکٹر ،مہاراجہ سرکشن پرشاد شاد ۔ حیات اور ادبی خدمات ، سید *

ء۱۹۷۸فہیم الدین حیدر آباد

ء۱۹۷۹حبیب کیفوی ، کشمیر میں اردو ، مرکزی اردو بورڈ گلبرگ الہور، *ہ یادگار غالب حسرت موہانی ،موالنا ،تذکرۃ الشعراء ،مرتب:شفقت رضوی، ادار *

ء۱۹۹۹،کراچی ،

حسن دہلوی ،میر، تذکرہ شعرائے اردو ،مرتب :موالنا محمد حبیب الرحمان * ء۱۹۲۲شیروانی ،مسلم یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ، علی گڑھ،

حسن دہلوی،میر، تذکرہ شعراء ہندی ،)نسخہ حیدری( ،اردو پبلشرز لکھنؤ، *

ء۱۹۷۹حسن علی خان و نور الحسن خان، تذکرہ بزم سخن و کلیم طور، مرتبہ:عطا *

ء۱۹۶۸کاکوی، عظیم الشان بک ڈپو پٹنہ،

ء۱۹۲۳حسن نظامی ،موالنا ،گرفتار شدہ خطوط، دلی پرنٹنگ ورکس دہلی، * ء۲۰۰۱حفیظ احمد ،ڈاکٹر ، گواچے مہاندرے ، فروغ ادب اکادمی ،گوجرانوالہ ، *

ء۲۰۰۷الفت ملغانی ، پاکستانی زبانوں کا ادب، بیکن بکس ملتان ،الہور ،حمید *

حمید ہللا شاہ ہاشمی ، پنجابی زبان و ادب ،انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی، * ء۱۹۸۸

حمید اورنگ آبادی ، خواجہ حمید خان، گلشن گفتار ،مرتبہ سید محمد، مکتبہ *

Page 345: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

345

ھ۱۳۲۹ابراہیمہ حیدر آباد )دکن(

میدہ سلطان احمد، خاندان لوہارو کے شعراء ، غالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی ح * ء۱۹۸۱،

عہد ساز شخصیات ،علم و عرفان ،پبلشر ز الہور ۱۰۰حمیر ہاشمی و دیگر ، *

ء۲۰۰۱،مئی حنیف خلیل ، اردو کی تشکیل میں پشتونوں کا کردار ،مقتدرہ قومی زبان پاکستان ، *

ء۲۰۰۵اسالم آباد ،

حیات وارثی ، ا تر پردیش کے اردو شعراء ، آل انڈیا ہندی اردو سنگم ،لکھنؤ * ء۱۹۷۴،

(خ)خاطر غزنوی،مرتب، مرزا محمود سرحدی شخصیت اور فن ، کتاب کار، پشاور، *

ء۱۹۸۳

ء۱۹۹۷خالد احمد، لمحہ لمحہ، بیاض الہور، * ء۲۰۱۱جامعہ نئی دہلی، خالد محمود، اردو سفر ناموں کا تنقیدی مطالعہ ، مکتبہ *

ء۲۰۱۴خالد مصطفی ، وفیات اہل قلم عساکر پاکستان ،فکشن ہاؤس الہور، *خان فہیم، مرتب، تذکرہ شعرائے طنزومزاح )روہیل کھنڈ اترپردیش(، خود، *

ء۱۹۹۳بدایواں،

ء۲۰۰۵خلیق انجم ، غالب کا سفر کلکتہ ،انجمن ترقی اردو پاکستان ،کراچی ، * ء۱۹۶۴خلیل صدیقی، زبان کا مطالعہ،خود، مستونگ قالت، *

خورشید احمد خان یوسفی ، خم خانۂ جاوید ، جلد ششم ، مقتدرہ قومی زبان ،اسالم *

ء۱۹۹۰آباد، خورشید احمد فاروق)مترجم( تاریخ ہند پر ایک نئی روشنی ،ندوۃ المصنفین ،اردو *

بازار دہلی، س ن

دیوان قاسم علی خان آفریدی ، پشتو اکیڈمی یونیورسٹی آف خیال بخاری ، مرتب: * ء۱۹۷۱پشاور ،

(د)دارا شکوہ ،شہزادہ ، سکینتہ االولیاء،مترجم:پروفیسر مقبول بیگ بد خشانی *

ء۱۹۷۱،پیکجز لمیٹڈ الہور،

در درانی قندھاری ، فغان درد ، مصنف خود ۔گجرات،پاکستان، س ن )غالبا * ( ء۱۹۲۹ھ/۱۳۴۷

درگاہ قلی خان ، مرقع دہلی، مرتب و مترجم :خلیق انجم ،ثمر آفسٹ پرنٹرز، نئی *

ء۱۹۹۳دہلی دلشاد کالنچوی ،پروفیسر ، ضلع بہاولپور ،تاریخ ثقافت ادب ، پاکستان پنجابی ادب *

ء۱۹۹۷بورڈ الہور،

Page 346: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

346

ات دیانند سرسوتی ، سوامی ، رگ وید۔ایک مطالعہ ،مترجم :نہال سنگھ ، نگارش *

ء۲۰۰۲الہور ، دیبی پرشاد بشاش، تذکرہ آثار الشعرائے ہنود، حصہ دوم ، مطبع رضوی، دہلی، *

ء۱۸۸۵ستمبر

(ذ)ذوالفقار علی نجاری ، میں نے جو کچھ بھی کہا، نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم آباد، *

ء۲۰۰۲

(ر)ء( ترقی اردو ۱۹۵۷ء۔۱۸۵۷رشید موسوی ،ڈاکٹر، دکن میں مرثیہ اور عزا داری ) *

ء۱۹۸۹بیورو نئی دہلی ،

ء۱۹۵۸رئیس احمد جعفری ، واجد علی شاہ او ران کا عہد،دہلی، * ء۱۹۷۶رفیع الدین اشفاق ، اردو میں نعتیہ شاعری ،اردو اکیڈمی سندھ کراچی ، *

ء۱۹۸۸زاہد حسین انجم ، ہمارے اہل قلم ، ملک بک ڈپو، الہور، *

ء۱۹۸۳رانا گنوری ، ڈاکٹر، تذکرہ شعرائے ہریانہ ، مصنف خودکیتھل ہریانہ * راشد، ن م ،کلیات راشد، ماورا پبلشرز الہور ، س ن *

رشیدہ آفتاب ،اقبال، بیگم ،عالمہ اقبال اور ان کے فرزند اکبر آفتاب اقبال، فیروز *

ء۱۹۹۹سنز پرنٹرز لمیٹڈ کراچی ، اگست ف و کرامات ، حضرت شیخ فرید الدین مسعود گنج شکر، پنجابی رام پال ،کش *

ء۱۹۷۷پستک بھنڈار دریبہ کالں دہلی ،

ریاض الدین عطش، خواجہ ، ا ردو کا شجرۂ نسب ،سید آصف صالح الدین شکاگو * ء۱۹۹۸لینڈ، یو ایس اے،

د، راج بہادر گوڑ، ادبی مطالعے ،انجمن ترقی اردو، آندھر پردیش، حیدر آبا *

ء۱۹۷۸رماشنکر تر پاٹھی ، تاریخ قدیم ہندوستان،مترجم :سید سخی حسن نقوی،سٹی بک *

ء۲۰۰۳پوائنٹ کراچی ،

ء۱۹۵۷رفیق مارہروی ،سید ، ہندوؤ ں میں اردو، نسیم بک ڈپو، لکھنؤ ، *رفعیہ سلطانہ ،ڈاکٹر ،اردو نثر کا آغاز ، اور ارتقا ،مجلس تحقیقات اردو حیدر آباد *

اے پی( س ن،)

ء۲۰۱۲روبینہ ترین ،ڈاکٹر، تاریخ ادبیات ملتان، مقتدرہ قومی زبان، اسالم آباد، * ء۱۹۵۲زیدی دہلوی ، مرتب ، اردو شاعروں کا البم ، غالب بک ڈپو ،الہور، *

رفاقت علی شاہد، مرتب:اردو مخطوطات کی فہرستیں ،جلد اول ،اردو اکیڈمی *

ء۲۰۰۰پاکستان الہور ،رشید حسن خان ، زٹل نامہ، )کلیات جعفر زٹلی(،انجمن ترقی اردو )ہند( نئی دہلی *

ء۲۰۱۱

Page 347: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

347

رؤف پاریکھ، ڈاکٹر، اردو نثر میں مزاح نگاری کا سیاسی اور سماجی پس منظر، *

ء۲۰۱۲انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی ، دوم ،محمد عسکری ، علی بک رام بابو سکسینہ ،ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو، مترجم ،مرزا *

ء۱۹۸۴ہاؤس الہور ،

ء کے انقالب کا عینی شاہد جارج پیش شور، ۱۸۵۷راحت ابرار، ڈاکٹر، * ء۲۰۱۱ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی، بار دوم ،

رضیہ نور محمد، ڈاکٹر مس، اردو زبان و ادب میں مستشرقین کی علمی خدمات *

ء۱۹۸۵کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ، مکتبہ خیابان ادب، الہور رضیہ نور محمد، ڈاکٹر مس، اردو زبان و ادب میں مستشرقین کی علمی خدمات *

ء۱۹۸۵کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ، مکتبہ خیابان ادب الہور،

راجندر ناتھ شیدا، وثائق فورٹ ولیم کالج، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان * ء۲۰۰۳نئی دہلی،

ء۲۰۱۲رضا علی عابدی، کتابیں اپنے آباء کی، سنگ میل پبلی کیشنز، الہور، *

(س)ساگروارثی، میاں عطا ہللا، تذکرہ شعرائے وارثیہ، وارثی منزل سمن آباد، الہور، *

ء۱۹۹۹۳

ء۱۹۸۶حسن ، پاکستان میں تہذیب کا ارتقاء،مکتبہ دانیال کراچی ،بار ہشتم، سبط *

سجاد احمد حیدر، کوہاٹ کی علمی وادبی خدمات، مقتدرہ قومی زبان پاکستان * ء۲۰۱۲،اسالم آباد،

،مقتدرہ قومی ‘‘مختصر تاریخ زبان و ادب سرائیکی ’’ سجاد حیدر پرویز، ڈاکٹر، *

ء۲۰۰۹آباد، زبان پاکستان ،اسالمسجاد علی مرزا، کوکب قدر، واجد علی شاہ کی ادبی ثقافتی خدمات، ترقی اردو *

ء۱۹۹۵بیورو نئی دہلی،

ء۲۰۰۲سجاد مرزا ، لفظ آئینہ ، فروغ ادب اکادمی گوجرانوالہ *سر فراز علی رضوی ، ماخذات۔احوال شعراء اور مشاہیر ،جلد اول ، انجمن ترقی *

ء۱۹۷۷ن ، کراچیاردو پاکستا

سراج اورنگ آبادی ،کلیات سراج ،مرتبہ :عبدالقادر سروری ،قومی کونسل برائے * ء۱۹۸۲فروغ اردو زبان نئی دہلی ،

ء۱۹۰۸سریرام ،اللہ، خم خانۂ جاوید، جلد اول ،مطبع نول کشور،الہور، *

ء۱۹۱۱سریرام ،اللہ، خم خانۂ جاوید، جلد دوم ،امپیریل بک ڈپو،دہلی ، * ء۱۹۱۷سریرام ،اللہ، خم خانۂ جاوید، جلد سوم ، دلی پرنٹنگ ورکس دہلی، *

ء۱۹۲۶سریرام ،اللہ، خم خانۂ جاوید، جلد چہارم ، ہمدرد پریس دہلی، *

سریرام ،اللہ، خم خانۂ جاوید، جلد پنجم، مرتبہ: پنڈت برجموہن دتاتریہ کیفی، اللہ * ء۱۹۴۰امرچند کھنہ دہلی،

سعادت خان ناصر، تذکرہ خوش معرکہ زیبا، مرتبہ، مشفق خواجہ، مجلس ترقی *

Page 348: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

348

ء۱۹۷۰ادب الہور،

سعادت خان، ناصر ، تذکرہ خوش معرکہ زیبا، جلد دوم ،مرتبہ :مشفق خواجہ ، * ء۱۹۷۲مجلس ترقی ادب ،الہور ،

ء۲۰۰۱سعید احمد،ڈاکٹر سید، شہر ادب کانپور، سید اینڈ سید پبلشرز کراچی ، *

ء۲۰۱۴سکندر خان بلوچ،تاریخ کے زخم ،الفصیل ناشران الہور، *سلطان محمود حسین ،ڈاکٹر ،سید ، تاریخ پسرور، سنگ میل پبلی کیشنز، الہور *

ء۱۹۸۱

سلطان محمود حسین، ڈاکٹر سید، تعلیقات خطبات گارساں دتاسی، مجلس ترقی ادب * ء۱۹۸۷الہور،

ء۲۰۰۶، فروغ ادب اکادمی گوجرانوالہ ، ملسو هيلع هللا ىلصگلستان رسول سلیم اختر فارانی ، *

سلیم الدین قریشی ،اٹھارویں صدی کی اردو مطبوعات)توضیحی فہرست( مقتدرہ * ء۱۹۹۳قومی زبان اسالم آباد،

ء۲۰۰۱سلیم شاہجان پوری، شعرائے احمدیت، سید اینڈ سید پبلشرز کراچی، *

ء۱۹۵۱،مطبع ،کلیم پریس کراچی ، سلیمان ندوی ، سید، نقوش سلیمانی *سمن سرحدی، بچوں کی دنیا)منظوم روسی ادب( ،پریس سروس انسٹی ٹیوٹ ،نئی *

ء۱۹۷۳دہلی ،

سموئیل جے شلٹز ،عہد عتیق کاتاریخی سفر،مترجم :جیکب سموئیل شنوا،مسیحی * ء۱۹۹۴اشاعت خانہ ، الہور ،

ر نیازی ، شعبہ اردو یونیورسٹی آف سمیرا اعجاز ، ڈاکٹر، مرتب :کلیات نثر منی *

ء۲۰۱۷سرگودھا ،سمیرا اعجاز، ڈاکٹر، منیر نیازی ، شخص اور شاعر، مثال پبلشرز، فیصل آباد، *

ء ۲۰۱۴

ء۱۹۷۱سہیل بخاری ، ڈاکٹر ،اردو کا روپ ،مجلس علوم آل عبا، سرگودھا ، *ہ ،مکتبہ اسلوب، کراچی سہیل بخاری ، ڈاکٹر، ہندی شاعری میں مسلمانوں کا حص *

ء۱۹۸۵

ء۱۹۹۶سید عالم ، شمالی عالقہ جات میں اردو،مصنف خود، گلگت، *سید عبدہللا، ڈاکٹر، سخنور)حصہ اول( مغربی پاکستان اردو اکیڈمی الہور، *

ء۱۹۷۶سید محمد، مولوی، ارباب نثر اردو، مکتبہ ابراہیمیہ حیدر آباد)دکن ( دوم ، *

ء۱۹۳۷

ء۱۹۹۶سیدہ جعفر ،ڈاکٹر ،دکنی ادب کا انتخاب ،ساہتیہ اکادمی ،نئی دہلی ، *سیدہ جعفر،ڈاکٹر، تاریخ ادب اردو، جلد اول ، مطبع بی ایس گرافکس، دلسکھ نگر *

ء۲۰۰۲حیدر آباد،

(ش)

Page 349: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

349

شاغل عثمانی ، احترام الدین احمد، تذکرہ شعرائے جے پور، انجمن ترقی اردو *

ء۱۹۵۸ہند، علی گڑھ، ء۲۰۱۲شاکر کنڈان ، سرگودھا کا دبستان شاعری ،جلد اول ،اکادمیات الہور، *

ء۲۰۱۳شاکر کنڈان ، عکس سرستان ،مغل پبلشنگ ہاؤس الہور، *

ء۲۰۱۷شاکر کنڈان ، مقاالت نو)شخصی ( ،رنگ ادب ،کراچی ، * ء۲۰۰۶سرگودھا، شاکر کنڈان ، نعت گویان سرگودھا، ادارہ فروغ ادب پاکستان ، *

شاکر کنڈان ، اردو ادب اور عساکر پاکستان ،جلد اول ،حصہ دوم ،ادارہ فروغ ادب *

ء۲۰۰۰پاکستان ، کنڈان )سرگودھا( ، ء۲۰۱۲شاکر کنڈان ، سرگودھا کا دبستان شاعری ، جلد اول ، اکادمیات الہور، *

،حصہ اول ، ادارہ فروغ ادب شاکر کنڈان ،اردو ادب اور عساکر پاکستان ،جلد دوم *

ء۱۹۹۷پاکستان ،کنڈان سرگودھا، ء۲۰۱۲شاکر کنڈان ،لیکھ لکھتاں ، اکادمیات الہور، *

شانتی رنجن بھٹا چاریہ ، اردو ادب اور بنگالی کلچر، مغربی بنگال اردو اکیڈمی *

ء۱۹۸۲کلکتہ ، ء( ۱۹۸۰ء تا۱۸۰۰شانتی رنجن بھٹاچاریہ، ڈاکٹر، بنگال میں اردو مطبوعات) *

ء۱۹۹۵،مغربی پاکستان اردو اکیڈمی الہور،

شائق حسین ،سفیر ، سید، دیوان سفیر ، حیدر آباد) دکن( س ن * ء۲۰۱۰شاہ سوار علی ناصر، ملک، جواہراالعوان،پنجابی لکھاریاں، الہور، *

ء۱۹۰۳شاہ عالم ثانی، آفتاب،عجائب القصص ،مطبع نول کشور کانپور، *

شاہد احمد جمالی، تذکرۂ خم خانہ، جاوید میں راجستھان کے شعراء راجپوتانہ * ء۲۰۱۴،اردو ریسرچ اکیڈمی جے پور،

شاہد ماہلی، مرتبہ:سراج الدین علی خان آرزو ، ایک مطالعہ، غالب انسٹی ٹیوٹ *

ء۲۰۰۴،نئی دہلی، ان کتب، الہور ، شاہد ،ایم آر، شہر خموشاں کے مکیں ، الفیصل ناشران و تاجر *

ء۲۰۰۴

ء۱۹۸۰شاہدہ بیگم ،ڈاکٹر ،سندھ میں اردو، اردو اکیڈمی سندھ کراچی ، جون *شایاں بریلوی ، تاریخ شعرائے روہیل کھنڈ ، جلد اول ،سید عظیم القدر *

ء۱۹۹۱کراچیشبیر علی خان شکیب، رام پور کا دبستان شاعری ،رام پور رضا الئبریری رام *

ء۱۹۹۹پور ،

ء۱۹۸۱شفقت رضوی، اردو کے یورپین شعراء، مکتبہ رشیدیہ کراچی، * ء۱۹۷۶شفیق بریلوی، ارمغان نعت، مرکز علوم اسالمی کراچی ، *

تک (، سنگت پبلشرز ۱۸۵۷شگفتہ زکریا، ڈاکٹر ،اردو نثر کا اارتقا)آغاز سے *

ء۲۰۰۴،الہور ،ن اردو مع اردوئے قدیم ،جنرل پبلشنگ شمس ہللا قادری ، حکیم سید، تاریخ زبا *

Page 350: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

350

ء۱۹۶۳ہاؤس کراچی

شمس ہللا قادری ،حکیم سیدشمس المؤرخین، تاریخ زبان اردو)اردوئے قدیم(،مطبع * تاج پریس اورنگ آباد ، س ن

ء۲۰۱۰شمیم حیدر ترمذی ،ڈاکٹر، ادب اور اثر ،بیکن بکس الہور، *

اسالمی حکومت، دین دنیا پبلی کیشنز جامع شوکت علی فہمی ، مفتی ،ہندوستان پر * ء۱۹۵۷مسجد دہلی ، جدید ایڈیشن

شہابی اکبر آبادی ،مفتی انتظام ہللا ، مشاہیر اکبر آباد، جناح لٹریری اکیڈمی *

،کراچی ، س نشہر یار/کنور اخالق محمد خان و ڈاکٹر مغنی تبسم ، ن م راشد فکر و فن، مکتبہ *

ء۱۹۷۱د )دکن ( شعر و حکمت حیدر آبا

شہزاد احمد ، ڈاکٹر، ایک سو ایک پاکستان نعت گو ، رنگ ادب پبلی کیشنز * ء۲۰۱۷کراچی ،

شہزاد احمد، ڈاکٹر، اردو نعت پاکستان میں ،حمد ونعت ریسرچ فاؤنڈیشن کراچی ، *

ء۲۰۱۴ ء۱۹۸۵شہناز انجم ،ڈاکٹر ،ادبی نثر کا ارتقاء ،خود ،دہلی ،اکتوبر *

ء۱۹۳۲شیام سندر الل برق، بابو ، بہار سخن، مطبع ایل۔ بی سیتاپور، *

ء۱۹۳۶شیخ چاند ، سودا، اورنگ آباد، * ء۱۹۹۳شیدا کاشمیر ی ،آغا، آتش زیر پا، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی الہور ، *

ء (، مقتدرہ قومی زبان ۱۹۹۸ء تا ۱۹۸۵شیما مجید)مرتب( لسانی مذاکرات ) *

ء۲۰۰۶،اسالم آباد، پاکستان ء۱۹۹۳شیما مجید،مرتب ،باتیں فیض سے، الحمد پبلی کیشنز ،الہور *

ء۲۰۱۱شیما مجید،مرتبہ ،مقاالت ن م راشد ،بک ٹائم کراچی ، *

ء۱۸۶۰شیو پرشاد، بابو،جام جہان نما، جلد دوم ،مطبع نول کشورلکھنو ،بار دوم *

(ص) ء۱۹۹۸حصہ دوم ، ادارہ فکر نو کراچی ، صابر براری ، تاریخ رفتگاں ، *

صابر علی خان، ڈاکٹر ، سعادت یار خان رنگین ، انجمن ترقی اردو ،کراچی ، *

ء۱۹۵۶صبیحہ انور، ڈاکٹر، اردو میں سوانحی ادب، فن اور روایت، فکشن ہاؤس، الہور، *

ء۲۰۱۲

ء۱۹۸۲کھنؤ، صبیحہ انور،ڈاکٹر،اردو خود نوشت۔ سوانح حیات، نامی پریس ل * ء۱۹۹۴صحرائی گورداسپوری ،اللۂ صحرا ، امتیاز برادران الہور، *

صدر الدین آرزدہ، مفتی ، تذکرۂ آزردہ ، مرتبہ:ڈاکٹر مختار الدین احمد، انجمن *

ء۱۹۷۴ترقی اردو پاکستان کراچی ، ء۲۰۰۰صدیق مجاہد ،کرن کرن غنیمت، بزم غنیمت پبلی کیشنز کنجاہ )گجرات( *

ء۲۰۱۵صفدر رشید، مغرب کے اردو لغت نگار، مجلس ترقی ادب الہور، *

Page 351: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

351

صفیر بلگرامی ،سید فرزند احمد،تذکرہ جلوہ خضر) جلد اول و دوم( مطبع نو راال *

ء۱۸۸۵نوار ،لکھنؤ ،صمصام شیرازی ، یادگار سلور جوبلی )جلد جاگیر داران( حصہ اول ، مطبع تاج *

نپریس حیدر آباد دکن ، س

(ض)ضامن علی ایم ،اے ،مولوی سید، اردو زبان و ادب ،کے متراانڈین پریس الہ آباد، *

ء۱۹۲۷ضمیر اختر نقوی ، اردو مرثیہ پاکستان میں ،سید اینڈ سید پبلشرز کراچی *

ء۱۹۸۲،

ضمیر اختر نقوی، عالمہ ڈاکٹر ،سید، دبستان ناسخ، مرکز علوم اسالمیہ کراچی * ء۲۰۱۰

میر اختر نقوی، عالمہ ڈاکٹر، اردومرثیہ پاکستان میں ، مرکزعالم اسالمیہ ض *

ء۲۰۱۲کراچی ، دوم ضمیر اختر نقوی، عالمہ ڈاکٹر، سید ، شعرائے مصطفی آباد)رائے بریلی(، *

ء۲۰۱۳محسنہ میموریل فاؤنڈیشن کراچی ، ضمیر جعفری سید، اڑتے ہوئے خاکے، شیخ غالم علی الہور ،س ن *

ضیا تسنیم بلگرامی ، سوانح انبیاء ،جلد اول ، کتابیات پبلی کیشنز ،کراچی ، س ن *

(ط)طاہر تونسوی ، ڈاکٹر، ملتان میں اردو شاعری ،سنگ میل پبلی کیشنز الہور *

ء۱۹۸۴، ء۲۰۱۳، جہان حمد پبلی کیشنز ،کراچی ،ملسو هيلع هللا ىلصطاہر سلطانی ،مرتب ، نعت رحمت *

ساکر پاکستان کی ادبی خدمات ، اردو نثر میں ،اکادمیات طاہرہ سرور، ڈاکٹر، ع *

ء۲۰۱۳،الہور ، طفیل احمد بدر، سید، مرتب ، سالم قدس، تاج کمپنی لمیٹڈ الہور، س ن *

(ظ)ظفر حسن آیبک، خاطرات، )آپ بیتی(، مرتب: ڈاکٹر غالم حسین ذوالفقار، سنگ *

ء۱۹۹۰میل پبلی کیشنز، الہور،

ء۱۹۴۴ظفر علی خان ، موالنا ، چمنستان ،پبلشرز یونائٹیڈ الہور، * ء۲۰۰۰ظفر علی خان ، موالنا ، نگارستان ،پبلشرز یونائیٹڈ الہور، *

ظفر علی خان ،موالنا ،مترجم ،معرکۂ مذہب و سائنس از ڈاکٹر جان ولیم ڈریپر ، *

ء۱۹۱۰مطبوعۂ رفاہ عام اسٹیم پریس الہور ، ء۱۹۷۵ن حاتم شیخ ، دیوان زادہ ، مکتبہ خیابان ادب الہور، مارچ ظہور الدی *

ء۱۹۹۶ظہیر احمد صدیقی ،دبستان مومن ،انجمن ترقی اردو ہند، نئی دہلی، *

ء۱۹۸۱ظہیر الدین مدنی ،سید ،سخن وران گجرات، ترقی اردو بیورو نئی دہلی، *

Page 352: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

352

ہ:محمد حسین محوی صدیقی ظہیر الدین ،اظفری ،میرزا ،دیوان اظفری ، مرتب *

ء۱۹۳۹لکھنؤ ی ،مدراس ، ء۱۹۹۲ظہیر بابر، دیدۂ بیدار کے خواب ،سنگ میل پبلی کیشنز الہور ، *

(ع) ء۱۹۸۰عابد حسین ، سید، قومی تہذیب کا مسئلہ ،ترقی اردو بیورو ، نئی دہلی ، *

عاشور کاظمی، سید، بیسویں صدی کے اردو نثر نگار)مغربی دنیا میں(، انسٹی ٹیوٹ آف تھرڈ ورلڈ *

ء۲۰۰۳آرٹ اینڈ لٹریچر، برطانیہ، دوسرا ایڈیشن عائشہ سعید، پروفیسر ،اردو غزل کے عناصر اربعہ،بزم ادب اردو جناح *

ء۲۰۰۳یونیورسٹی برائے خواتین ،ناظم آباد کراچی ،

باری آسی ،مرتب، دیوان خواجہ میر درد، اردو اکیڈمی سندھ کراچی ، س نعبدال *

عبدالباری آسی، مولوی، تذکرہ خنددۂ گل، مطبع نگارمشین پریس نظیر آباد لکھنؤ، * ء۱۹۲۹

عبدالحق ، مولوی، مقدمات عبدالحق، مرتبہ: ڈاکٹر عبادت بریلوی، اردو مرکز *

ء۱۹۶۴الہور، عبدالحئ ،موالنا حکیم سید، تذکرہ شعرائے اردو موسوم برگل رعنا ، مطبع *

۱۳۵۳معارف اعظم گڑھ ،دوم

عبدالرحمان کلیانی ، مولوی محمد، فقہ کے سو مسئلے، مطبع محمدی الہور، س * ن

عبدالرحمن کلیانی ، مولوی محمد ،سرکوب بدعت، مطبع مطلع العلوم ، مراد آباد، *

ء۱۸۹۵پنجم عبدالرحمن کلیانی، کنزاال خالق ال ھل اآل فاق ،مصنف خود میرٹھ، چہارم *

ھ۱۳۱۳

ء۱۹۹۴عبدالرشید عصیم ، تذکرہ تالمذہ شاہ حاتم دہلوی، بیکن بکس ،ملتان ، *عبدالرشید، شیخ ،موجودہ عالمی استعماری صورت حال اور فیض احمد فیض کی *

ء۲۰۱۱ٹی آف گجرات ،شاعری ، شعبہ تصنیف و تالیف یونیورس

ء۱۹۸۸عبدالرؤف عروج، رجال اقبال ، نفیس اکیڈمی کراچی، * ء۱۹۷۶عبدالسالم خورشید، ڈاکٹر، وے صورتیں الہی، قومی کتب خانہ الہور، *

ء۲۰۱۱عبدالسالم،شاہ ،دبستان آتش، مکتبہ جامعہ لمیٹڈ نئی دہلی *

سمات مشین پریس حیدر آباد، )دکن( عبدالشکور ،شیدا،بیاض سخن، مطبع زندہ طل *۱۳۵۵

ء۱۹۸۷عبدالعزیز ہزاروی ، موالنا، تذکرۃ النبیین،پرنٹنگ محل، کراچی، *

عبدالغفور خان بہادر، نساخ ،مولوی ،زبان ریختہ ،منشی نول کشور لکھنؤ * ء۱۸۷۴،

عبدالغفور قریشی ، پنجابی ادب دی کہانی ،پنجابی ادبی بورڈ الہور،بار دوم *

ء۱۹۸۹

Page 353: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

353

ھ۱۲۹۰عبدالغفور نساخ ، سخن شعرا، مطبع منشی نول کشور، مقام ندا رد ، *

عبدالقادر بن ملوک شاہ بدایونی ، منتخب التواریخ، مترجم :محمد احمد فاروقی ، * شیخ غالم علی اینڈ سنز لمیٹڈ الہور ،س ن

م آباد ، دوم عبدالقدوس ہاشمی ، تقویم تاریخی ،ادارہ تحقیقات اسالمی ، اسال *

ء۱۹۸۷عبدالقیوم خان ،سردار ، مذاکرات سے مارشل الء تک ، جنگ پبلشرز الہور ،سوم *

ء۱۹۸۸:اگست

عبدہللا بٹ، مرتبہ ، حسرت کا شمیری کے منتخب اشعار ،کتاب خانہ پنجاب الہور، * س ن

ء۱۹۸۵عبدہللا شاہ ، سید، میری داستان ، آتش فشاں پبلی کیشنز ،الہور، *

سالہ زندگی کی یاداشتیں ،مصنف خود، پشاور ، ۸۱عبدہللا شاہ ،سید، میری * ء۱۹۸۲

عبدالمجید سندھی، ڈاکٹر میمن ،نگارشات سندھ، سندھی ادبی اکیڈمی الڑکانہ *

ء۱۹۹۲)سندھ( عبدالمصطفی محمد مجاہد العطاری ، موالنا، انبیائے کرام اور ان کی قوموں کے *

ء۲۰۱۳سیلرز ،الہور ، احوال ، اکبر بک

ء۲۰۰۱عبدالمنان طرزی ،رفتگاں و قائمان ،نرالی دنیا پبلی کیشنز نئی دہلی ، * ء۲۰۱۲عتیق جیالنی سالک ، رام پور شناسی ،کلیتہ الحسنات رام پور ،)یوپی (، *

عثمان علی خان ،میر ، دیوان آصف سابع نظام حیدر آباد، جلد اول ،حیدر آباد *

ھ۱۳۲۵دکنعرفان عباسی ، تذکرہ شعرائے اتر پردیش ، جلد ششم ،ارود محل پبلشرز، لکھنؤ *

ء۱۹۸۳،

،ارد و محل پبلشرزلکھنؤ ۱۰عرفان عباسی ، تذکرہ شعرائے اتر پردیش ، جلد نمبر * ء۱۹۸۴،

عرفان عباسی ، تذکرہ شعرائے اتر پردیش ،جلد دوم ،اردو محل پبلشرز، نیا گاؤں *

ء۱۹۸۲لکھنؤ ،، مؤ لف خود ،لکھنوء ۱۶عرفان عباسی ، تذکرہ شعرائے اتر پردیش ،جلد *

ء۱۹۹۶،عرفان عباسی، تذکرہ شعرائے اتر پردیش، جلد سوم، اردو محل پبلشرز لکھنو، *

ء۱۹۸۳

عزیز الرحمن احمد بلخی راز ، سید، تاریخ شعرائے بہار، جلد اول، دی قومی * ء۱۹۳۱پریس لمیٹڈ بانکی پور پٹنہ،

ء۱۹۸۴عزیز ملک، کارواں، راول پبلی کیشنز، راولپنڈی، *

عزیزا حسن ، ڈاکٹر، پاکستان میں اردو نعت کا ادبی سفر، نعت ریسرچ سنٹر * ء۲۰۱۴کراچی ،

Page 354: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

354

ء۱۹۹۶عزیزالکالم ،شاہ ، اردو کے امی شعراء ،اردو اکیڈمی ،پاکستان ،کراچی ، *

عطا خان تحسین، میر محمد حسین، نو طرز مرصع، مرتب:پروفیسر مرتضی * ء۲۰۱۵کریم، ماڈرن پبلشنگ ہاؤس،نئی دہلی، بار دوم،

عطاء الرحمان قاسمی ، الواح الصنادید ،حصہ دوم ،موالنا آزاد اکیڈمی ،دہلی ، *

ء۱۹۹۱ ء۱۹۸۷ز ،الہور عطش درانی ،اردو زبان اور یورپی اہل قلم،سنگ میل پبلی کیشن *

عطش درانی ،پروفیسر ڈاکٹر، پاکستانی زبانوں کی تدریس،نذیر سنز ایجوکیشنل *

ء۲۰۱۴پبلشرز ،الہور ،جون عظیم اختر، مرتب، بیسویں صدی کے شعرائے دہلی ، جلد اول ، اردو اکادمی *

ء۲۰۰۵دہلی ،

ء۱۹۸۹ہور ،عظیم الحق جنیدی ،اردو ادب کی مختصر تاریخ ،فیمس بکس، ال *علی عادل شاہ ثانی شاہی ،کلیات شاہی ،مرتب:سید مبارز الدین رفعت ، انجمن *

۱۹۶۲ترقی اردو)ہند( علی گڑھ،

ء۱۹۶۷علی عباس جاللپوری ، روایات تمدن قدیم، الہور *علی عباس ،سید ، اظفری گور گانی اور ان کا ریختہ کالم ،ہسٹری ڈیپارٹمنٹ *

ٹی الہور ،س نپنجاب یونیورس

ء۱۹۰۶علی لطف، میرزا ،گلشن ہند، دارا الشاعت پنجاب، الہور ، * ء۲۰۰۸علی محمد خان، ڈاکٹر ، الہور کا دبستان شاعری ، نشریات الہور، *

علی محمد ،مولوی و رام دتہ مل ،راجہ بیربر کی مکمل سوانح عمری اور لطائف *

ء۱۹۰۳،نول کشور پریس ،الہور ء۱۹۸۷ی نواز خان، ناز ،میر، کلیات ناز،سندی ادبی بورڈ ، جام شورو، عل *

علیم صبا نویدی، ٹمل ناڈو کے مشاہیر ادب ،مرتبہ :جاوید حبیب، ٹمل ناڈو اردو *

ء۱۹۹۹پبلی کیشنز مدارس عنایت الرحمن صدیقی، بریگیڈئیر)ر( ،ارباب سیف و قلم ،نیشنل بک فاؤنڈیشن *

ء۱۹۹۷،اسالم آباد ،

عین الحق فرید کوئی ،اردو زبان کی قدیم تاریخ،ارسالن پبلی کیشنز ،الہور ،جون * ء۱۹۷۲

(غ)غالم حسین ذوالفقار، پروفیسر ڈاکٹر، موالنا ظفر علی خان۔ حیات خدمات آثار ، *

۱۹۹۳سنگ میل پبلی کیشنز ،الہور ء۲۰۰۳غالم رسول مہر، سر عمر حیات خان ٹوانہ ، فکشن ہاؤس الہور ، *

ء ،کتاب منزل الہور ،س ن۱۸۵۷غالم رسول مہر، موالنا ، *

ء۱۹۷۹غالم محمد راجا، امتیا زحق ، مکتبہ قادریہ الہور، *غالم محی الدین ،مبتال وعشق میرٹھی ،تذکرہ طبقات سخن، ڈاکٹر بیگم نسیم اقتدا *

ء۱۹۹۱علی ، لکھنؤ ،

Page 355: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

355

ء۱۹۷۷غالم مصطفی بسمل، میلے متراں دے ، پنجابی ادبی مرکز گوجرانوالہ ، *

غالم مصطفی تبسم ،ملک ، تذکرہ شعرائے اردو سانگھڑ ، حلقہ یاران سخن ،ٹنڈو * ء۲۰۱۴آدم )سندھ( ،

غالم ہمدانی مصحفی ،تذکرہ ہندی ،مرتبہ ، مولوی عبدالحق ، مطبع جامع برقی *

ء۱۹۳۳پریس دہلی، غالم ہمدانی مصحفی ،عقد ثریا، مرتبہ:مولوی عبدالحق ، جامع برقی پریس دہلی ، *

ء۱۹۳۴

غالم ہمدانی مصحفی، ریاض الفصحا ، مرتبہ:مولوی عبدالحق، مطبع:جامعہ ترقی * ء۱۹۳۴پریس دہلی،

ء۲۰۰۸غوث سیوانی ، چراخ دیر ،نجم بک ڈپو، دہلی ، *

)ف(حمد ملک و دیگر ،مرتبہ:پاکستان میں اردو، جلداول)سندھ(، مقتدرہ قومی فتح م *

ء۲۰۰۶زبان ،اسالم آباد، فتح محمد ملک و دیگر ،مرتبہ:پاکستان میں اردو، جلددوم)بلوچستان(، مقتدرہ قومی *

ء۲۰۰۶زبان ،اسالم آباد، ، مقتدرہ قومی فتح محمد ملک و دیگر ،مرتبہ:پاکستان میں اردو، جلدسوم)اباسین( *

ء۲۰۰۶زبان ،اسالم آباد،

فتح محمد ملک و دیگر ،مرتبہ:پاکستان میں اردو، جلدچہارم)پنجاب(، مقتدرہ قومی * ء۲۰۰۶زبان ،اسالم آباد،

فارغ بخاری ،پہلی بات ، مشمولہ :خوشحال خان خٹک،از فارغ:بخاری و رضا *

ء ،۱۹۸۷ہمدانی ،لوک ورثہ اشاعت گھر اسالم آباد، دوم فارغ بخاری ،سرحدمیں اردو، مشمولہ:پاکستان میں اردو،تیسری جلد)اباسین ( *

ء۲۰۰۶،

ء۱۹۵۵فارغ بخاری، ادبیات سر حد ،جلد سوم ،نیا مکتبہ پشاور، *فتح علی حسینی گردیزی ،سید ،تذکرہ ریختہ گویاں ،مرتبہ :مولوی عبدالحق ، *

ء۱۹۳۳انجمن ترقی اردو اورنگ آباد، )دکن (

ء۱۹۹۲فدا حسین فدا، ابو الطاہر ، معدن التواریخ ،ادارہ معارف نعمانیہ الہور ، *فرحت ہللا بیگ، مرزا، دہلی کی آخری شمع، مرتبہ: ڈاکٹر صالح الدین ،اردو *

ء۱۹۹۱اکادمی دہلی،

ء۱۹۲۲فصیح ہللا ،سید ، اردوئے فصیح،مطبع نیشنل پریس الہ آباد ،بار دوم ، * ء۱۹۶۸ل الحق ،ڈاکٹر ،دیوان شاکر ناجی ،ادارہ صبح ادب دہلی ، فض *

ء۱۹۷۴فضل امام، ڈاکٹر، امیر ہللا تسلیم حیات وشاعری ، مصنف خود الہ آباد، *

ء۱۸۸۷فقیر محمد گویا، بستان حکمت، مطبع نول کشور لکھنؤ ، *کلکتہ، بار دوم، فلوٹ، ڈی،سی، لیفٹیننٹ کرنل، اردو روزمرہ، بیپٹسٹ مشن پریس *

Page 356: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

356

ء۱۹۱۴

ء۱۹۸۶ۂیادگارغالبکراچی،فروریفیض احمد فیض ، ہماری قومی ثقافت ،ادار *

(ق)قادر بخش،صابر دہلوی ،مرزا ، تذکرہ گلستان سخن، جلد اول ، مرتبہ :خلیل *

ء۱۹۶۶الرحمان داؤدی ، مجلس ترقی ادب الہور،

مرتبہ :اقتدا حسن ،مجلس ترقی ادب ،الہور قائم چاند پوری ، کلیات قائم، جلد دوم ، *

ء۱۹۶۵،دسمبر قائم چاند پوری ،قیام الدین ،تذکرہ مخزن نکات، مرتبہ:پروفیسر ڈاکٹر اقتدا حسن *

ء۱۹۶۶،مجلس ترقی ادب الہور، نومبر

قدرت ہللا شوق، تذکرہ طبقات الشعراء ، مرتبہ:نثار احمد فاروقی ،مجلس ترقی ادب * ء۱۹۶۸الہور،

ء۱۹۸۱قصری کانپوری ، نور ازل ، مکتبہ قصری لیاقت آباد کراچی ، *

قصری کانپوری ،آبگینۂ احساس،مکتبہ قصرئ کانپوری لیاقت آباد، کراچی * ء۱۹۸۶،

قمر رعینی ، تذکرہ نعت گویان راولپنڈی ،اسالم آباد، انجم پبلی کیشنز راولپنڈی * ء۲۰۰۳،

(ک)کارل مارکس ، ہندوستان کا تاریخی خاکہ ،ترتیب و تعارف :احمد سلیم ،تخلیقات *

ء۲۰۰۲الہور،

ء۱۹۸۳کاظم علی خان ، ادبی مقالے ، مصنف خود، لکھنؤ ، * ء۱۹۶۱کاال سنگھ بیدی، تین ہندوستانی زبانیں، انجمن ترقی اردو، دہلی ، *

الم،حصہ دوم ،تاجران کتب اسالمیہ کرم الہی ڈونگوی ،صوفی ،تذکرہ بہادران اس *

ء۱۹۱۰الہور، ء ،)پہلی ۱۹۸۳کریم الدین، طبقات شعرائے ہند، اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ ، *

( ء۱۸۴۵بار

کش پرشاد کول ،ادبی اور قومی تذکرے، انجمن ترقی اردو )ہند( علی گڑھ * ء۱۹۵۱،

ھ۱۳۱۷پیشکار ، کشن پر شاد شاد، رقعات شاد، محبوب پریس عالقہ *

کشن پرشاد شاد ،سر ، بیاض شاد، نظامی پریس بدایوں ، س ن * ھ۱۳۲۹کشن پرشاد شاد، فریاد شاد)در فراق آصف پرشاد( ،مطبع اختر حیدر آباد *

ء۱۹۱۸کشن پرشادشاد ، سیر و سفر ، مطبع ذخیرہ پریس حیدر آباد دکن ، *

ھ۱۳۴۰حال ،نظامی پریس بدایوں ، کشن پرشادشاد ،مہراج سر ، عرض *کلب علی خان فائق ، مرتبہ کلیات میر)دیوان اول۔جلد اول( مجلس ترقی ادب الہور *

ء۱۹۷۶،

Page 357: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

357

کلب علی خان فائق، مقدمہ کلیات نظام از نظام رامپوری، مجلس ترقی ادب الہور، *

ء۱۹۶۵ ھ۱۳۰۲امپور، کلب علی خان نواب ، مضامین رفیع، مطبع تاج المطابع ر *

ء۱۹۹۶کلیم احسان بٹ، گجرات میں اردو شاعری ، ناوک پبلشز ز جاللپور جٹاں ، *

کوکب شادانی ،پروفیسر، مترجم ، تاریخ المسعودی ،جلد اول ،نفیس اکیڈمی کراچی * ء۱۹۸۵،

ء۱۹۸۵کھلر، کے کے ، فیض احمد فیض ،ادارہ فکر جدید نئی دہلی ، *

تہذیبوں کی کایا کلپ، مترجم ،پروفیسر حنیف کھوکھر ، مشعل کیرن آرمسٹرانگ ، * ء۲۰۰۹بکس ،الہور ،

(گ)گارساں دتاسی ، مقاالت رساں دتاسی ،جلد اول ، مترجمین متفرق ،انجمن ترقی *

ء۱۹۶۴اردو پاکستان ،کراچی ،بار دوم ،

ی، گارساں دتاسی، مقاالت گارساں دتاسی، جلد دوم، انجمن ترقی اردو، کراچ * ء۱۹۶۴

گوپی چند نارنگ و عبدا للطیف اعظمی، ہندوستان کے اردو مصنفین اور شعراء ، * ء۱۹۹۶اردو اکادمی ،دہلی

گوپی چند نارنگ ، ہندوستانی قصوں سے ماخوذ اردو مثنویاں ،قومی کونسل *

ء۲۰۰۱برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی ، دسمبر مشمولہ:مثنوی ہشت عدل مع واسوخت از محمود گوہر نو شاہی ،ڈاکٹر، دیباچہ ، *

ء۱۹۷۱بیگ راحت، مجلس ترقی ادب، الہور،

گوہر نوشاہی، ڈاکٹر، سید امتیاز علی تاج۔شخصیت و فن ، اکادمی ادبیات ، پاکستان * ء۱۹۹۹اسالم آباد،

گیان چند ،پروفیسر، اردو کی نثری داستانیں ،اتر پردیش اردو اکیڈمی لکھنؤ ، *

ء۱۹۸۷

(ل) ء۱۹۹۲اللۂ صحرائی ، چمن میری امیدوں کا ، ادارۂ معارف اسالمی ،الہور * ء۱۹۶۸لچھمی نرائن شفیق ،تذکرہ چمنستان شعراء، عظیم الشان بک ڈپو، پٹنہ، *

ء۱۹۳۴لچھمی نرائن شفیق، اللہ، چمنستان شعراء، انجمن ترقی اردو اورنگ آباد، *

ء۲۰۱۱طہ پبلی کیشنز الہور ،لیاقت علی سندھو، کھوج ، *

(م) ء۱۹۹۱مالک رام دہلوی ، تذکرہ ماہ و سال ، مکتبہ جامع نئی دہلی، * ء۲۰۱۰مالک رام ، تذکرۂ معاصرین، الفتح پبلی کیشنز ،راولپنڈی ، *

ء۱۹۵۷مالک رام ، تالمذۂ ،غالب ،مرکز تصنیف و تالیف ،نکودر ، *

مالیسن، کرنل جی بی، الرڈ کارنوالس، مترجم: ابن حسن، تخلیقات الہور، فروری *

Page 358: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

358

ء۲۰۰۵

مالیسن، کرنل جی بی، مارکوئیس ویلزلی، مترجم: ابن حسن، تخلیقات الہور، * ء۲۰۰۵فروری

مالیسن، کرنل جی ۔بی، الرڈ ڈلہوزی، مترجم: ابن حسن، تخلیقات الہور، فروری *

ء۲۰۰۵جی۔ بی، وارن ہیٹنگز، مترجم: ابن حسن، تخلیقات الہور، فروری مالیسن، کرنل *

ء۲۰۰۵

مبارک علی ، ڈاکٹر ،تاریخ اور تحقیق ،فکشن ہاؤس الہور، دوسرا ایڈیشن * ء۲۰۰۵،

مبارک علی ،ڈاکٹر ،برطانوی راج،ایک تجزیہ،فکشن ہاؤس الہور، بار دوم *

ء۲۰۰۵، ۱۹۹۴گ، تخلیقات الہور، مبارک علی، ڈاکٹر، تاریخ ڈاکو اور ٹھ *

ء۱۹۸۶متین نیازی ، فکر متین ،خود کانپور ، *

ء۲۰۰۳مجید ملک ، خرمن جان، ادارہ یادگار غالب، کراچی ، * ء۱۹۹۳محبت خان بنگش ، یاد رفتگاں ، ادارہ علم و ادب کوہاٹ، سوئم ، *

یزم اردو کوہاٹ، محبت خان بنگش، ایوب صابر ادب کا قلندر، ادارہ علم وا دب و *

ء۲۰۰۲محمد ارشد، ترتیب، تاریخی تناظرات، )محمد عتیق صدیقی کے تاریخی مضامین( *

ء۲۰۱۱کتابی دنیا دہلی ،

ء۲۰۱۰محمد ارشد، محمد عتیق صدیقی۔ حیات و خدمات، مصنف خود دہلی ، *محمد اسحاق آشفتہ و لیاقت علی شفقت، گجرات کی بات، مؤلفین خود، اللہ موسی *

ء۱۹۹۱)گجرات(

ء۱۹۴۷محمد اسلم ، آئین مشرقی منظوم، چشتی دارالکتب الہور، *محمد اسلم ، پروفیسر ، خفتگان خاک الہور، ادارہ تحقیقات پاکستان دانشگاہ پنجاب *

ء۱۹۹۳الہور،

پروفیسر ، وفیات مشاہیر پاکستان ،مقتدرہ قومی زبان ، اسالم آباد، محمد اسلم ، * ء۱۹۹۰

محمد اسماعیل دہلوی، مولوی، تقویتہ اال یمان ،مکتبہ نعیمیہ مؤ ناتھ بھنجن )یوپی * ء۱۸۲۵(

محمد اسماعیل صدیقی، بریگیڈئیر ، لخت لخت داستاں،دوست پبلی کیشنز ،اسالم *

ء۲۰۰۱آباد، ء۲۰۱۰نجمی، نعت کے آبدار موتی ،فروغ ادب اکادمی گوجرانوالہ ، محمد اقبال *

محمد ہللا دتہ طالب ، ڈاکٹر شیخ ، تصوف ،دربار عالیہ طالبیہ یہ کنجاہ شریف *

ء۱۹۹۷)گجرات( محمد ہللا دتہ طالب ، ڈاکٹر، شیخ،انوار طالب ،مطبع شرکت پرنٹنگ پریس الہور، *

Page 359: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

359

س ن

پروفیسر،جامع التذکرہ،جلد اول ، قومی کونسل برائے فروغ محمد انصار ہللا ، * ء۲۰۰۶اردو زبان نئی دہلی،

محمد انصار ہللا،تاریخ ارتقائے زبان و ادب) پہال حصہ( مغربی پاکستان اردو *

ء۲۰۰۶اکیڈمی ،الہور ،محمد باقر، آغا،مرتبہ ، انتخاب غزلیات برق ،اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ ، *

ء۱۹۸۳

محمد برکت علی لدھیانوی ، ابو انیس ، مکشوفات منازل احسان المعروف بہ مقاالت حکمت دارا *

ھ۱۳۹۸الحسان، جلد سوم داراالحسان فیصل آباد، محمد جمیل احمد بریلوی ،اردو شاعری کی مختصر تاریخ، نولکشور پریس لکھنؤ * ء۱۹۴۰،

ء۱۹۹۶ظر، غضنفر اکیڈمی ،کراچی محمد جمیل احمد، اردو شاعر ی پر ایک ن *

محمد جواد رضوی ، سید ، ریاست حیدر آباد میں جدوجہد آزادی )ابتدائی دور( * ء۱۹۹۲،ترقی اردو بیورو نئی دہلی ،

ء۱۹۹۱محمد حسن خان میرانی، قندیل تواریخ ،اردو اکیڈمی بہاولپور ، *

ء۱۹۴۲محمد حسن عسکری ،مرتبہ : میری بہترین نظم، کتابستان الہ آباد، *محمد حسین آزاد، حضرت شمس العلماء موالنا مولوی ،آب حیات،سنگ میل پبلی *

کیشنز ،الہور ،س ن

محمد حسین آزاد، شمس العلماء ،موالنا ،دربار اکبری ،قوی کونسل برائے فروغ * ء۲۰۱۰م ،اردو زبان نئی دہلی ، دو

محمد ریاض انجم ، ڈاکٹر،ا دبی تاریخ ضلع قصور، خزینہ علم و ادب ،الہور * ء۲۰۰۲،

محمد زمان طالب المولی ، مخدوم، در نایاب۔ عرف یاد رفتگاں، سندھی ادبی بورڈ *

ء۱۹۵۳جام شورو، محمد زمان کھوکھر، گجرات تصاویر کے آئینے میں، یاسر اکیڈمی گجرات، *

ء۲۰۰۰یڈیشن، دوسرا

محمد سردار علی ، تذکرہ شعرائے اورنگ آباد، مطبع شمس االسالم پریس، دکن * ھ۱۳۴۵،

محمد سردار علی، مولوی، یورپیئن شعرائے اردو، انتظامی کتب خانہ حیدرآباد ، *

ھ۱۳۴۴دکن، محمد سعید احمد مارہروی ،آثار اکبری یعنی تاریخ فتح پور سیکری ،مطبع اکبری *

ھ۱۳۲۴رہ،آگ

ھ۱۳۳۳محمد سعید احمد مارہروی ،آثار خیر، مطبع عزیزی آگرہ ، * ء۱۹۶۹محمد سعید، حکیم ، مقاالت شام ہمدرد، جلد اول مکتبہ جدیدہ الہور، *

محمد سلیم چودھری ، شعرائے امر تسر کی نعتیہ شاعری ، مغربی پاکستان اردو *

Page 360: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

360

ء۱۹۹۶اکیڈمی الہور،

ء۱۹۸۷بر، شخصیات سرحد، خبیر بک ایجنسی پشاوری، محمد شفیع صا *محمد شمس الحق ،گلہائے رنگ رنگ ،جلددوم ، نیشنل بک فاؤنڈیشن اسالم آباد، *

ء۱۹۹۵

ء۲۰۰۹محمد شمس الحق، پیمانۂ غزل ،جلد دوم ،نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسالم آباد، * ( ء۱۹۰۲ھ )۱۳۲۰محمد شمس الدین ، مرقع سخن ، مطبع حسنی فتح گڈھ ، *

محمد صادق قصوری، تذکرہ شعرائے جماعتیہ ،مرکزی مجلس امیر ملت پاکستان *

ء۲۰۰۶،برج کالں قصور ،مئی محمد صالح کنبوہ، شاہ جہان نامہ، جلد دوم، سوم، مترجم، ڈاکٹر ناظر حسین *

ء۱۹۷۴زیدی،مرکزی اردو بورڈ، الہور،

، شاہین پبلی کیشنز کراچی ، ۴مشہور شعراء ،جلد نمبر ۱۰۰محمد ظفر اقبال، * ء۱۹۸۵

محمد عابد حسین منہاس ، تاریخ کہون ،چکوال ریسرچ سو سائٹی چکوال ، *

ء۲۰۰۲ ء۲۰۰۸محمد عابد منہاس ، چکوال میں نعت گوئی ،کشمیر پبلی کیشنز ،چکوال *

ء۲۰۱۵ن ،اسالم آباد، محمد عارف ،مزاحیہ غزل کے خدوخال ،نیشنل بک فاؤنڈیش *

محمد عباس ،سید، سفینۂ غزل ،تاج کمپنی لمیٹڈ کراچی، الہور، ڈھاکہ ،مئی * ء۱۹۵۸

محمد عبدالجبار صوفی ملکا پوری ،مولوی ،محبوب الزمن تذکرہ شعرائے دکن *

ھ۱۳۲۹،حصہ دوم ،مطبع رحمانی حیدر آبا د، ب انسانی، جلد اول ، محمد عبدالرسول ، پروفیسر صاحبزادہ ،تاریخ تہذی *

ء۲۰۰۸یونیورسٹی آف سرگودھا ،

محمد عتیق صدیقی ، گل کرسٹ اور اس کا عہد، انجمن ترقی اردو)ہند( علی گڑھ، * ء۱۹۶۰

ء اخبار اور دستاویزیں، مکتبہ شاہراہ اردو بازار دہلی، ۱۸۵۷محمد عتیق صدیقی، *

ء۱۹۶۶رد اور درمان کا شاعر، پیس پبلی محمد علی صدیقی ، ڈاکٹر، فیض احمد فیض۔ د *

ء۲۰۱۱کیشنز، الہور، محمد عمر رضا، ڈاکٹر، اردو میں سوانحی ادب، فن اور روایت، فکشن ہاؤس، *

ء۲۰۱۲الہور،

محمد فخرالدین چشتی نظامی، موالنا، نظام العقائد المعروف بہ عقائد نظامیہ، * ء۲۰۱۲ہور، مرتب: حافظ محمد عبداالحد قاری، زاویہ پبلشرز، ال

محمد فرحت ہللا بلند شہری ،مولوی ، مرتب :کلیات میر جعفر زٹلی ، مطبع نجات *

ء۱۹۲۵مشین پریس بجنور ،محمد فیض احمد اویسی، مترجم: قصص االنبیا از ابن کثیر، زاویہ پبلشرز، الہور، *

Page 361: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

361

ء۲۰۰۶

محمد قاسم فرشتہ، تاریخ فرشتہ، جلد اول، مترجم، عبدالحئی خواجہ)مشفق * ء۲۰۰۸خواجہ(، المیزان ناشران کتب، الہور،

محمد قاسم ،سید ، پاکستان کے نعت گو شعراء ،جلد دوم ، حرا فاؤنڈیشن پاکستان *

ء۲۰۰۷کراچی ، ء۲۰۱۶چی ،محمد قاسم ،سید ، خاک میں پنہاں صورتیں ، ادارہ تذکرہ ،کرا *

محمد قاسم ،سید، پاکستان کے نعت گو شعراء ، جلد سوم ، جہان حمد پبلی کیشنز *

ء۲۰۱۰،کراچی ، محمد قلی قطب شاہ ، روپ رس، مرتب:جاویدو ششسٹ ،بک سروس ،دہلی *

ء۱۹۷۱

محمد مبین کیفی چڑیا کوئی، جواہر سخن، جلدسوم، ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد، س * ن

حمد مبین کیفی چڑیا کوئی، جواہر سخن، چوتھی جلد، ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد، م *

ء۱۹۳۵محمد مجیب ،تاریخ تمدن ہند،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،دہلی ،اول *

ء۱۹۹۹ء ،سوم ۱۹۷۲،

محمد مصطفی خان شیفتہ ،نواب ،گلشن بے خار ،اکیڈمی آف ایجوکیشنل ریسرچ، * ۲۸۴ء ،ص ۱۹۶۲کراچی ،

ھ۱۳۰۴محمد ممتاز ، حافظ سید، تذکرہ آثار الشعراء ،مطبع شاہجہانی بھوپال ، *

محمد منیر احمد سلیچ ، ڈاکٹر، بجھتے چلے جاتے ہیں چراغ، قلم فاؤنڈیشن انٹر * ء۲۰۱۸نیشنل ،الہور ،

محمد منیر احمد سلیچ ،ڈاکٹر ، خفتگان خاک گجرات ،سلیچ پبلی کیشنز *

ء۱۹۹۶جرات( لوراں)گمحمد منیر احمد سلیچ ،ڈاکٹر ، وفیات اہل قلم ،اکادمی ادبیات پاکستان، اسالم آباد ، *

ء۲۰۰۸

محمد منیر احمد سلیچ ،ڈاکٹر ، وفیات ناموارن پاکستان ،ا ردو سائنس بورڈ الہور، * ء۲۰۰۶

جوہر محمد منیر احمد سلیچ ،ڈاکٹر، وفیات مشاہیر کراچی ، قرطاس گلستان * ء۲۰۱۶کراچی ،

محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر ، تنہائیاں بولتی ہیں، نیشنل بک فاؤنڈیشن ،اسالم آباد، *

ء۲۰۱۲محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر، اقبال اور گجرات، سلیچ پبلی کیشنز، لوراں، *

ء۱۹۹۸گجرات،

صنف خود بہرائچ محمد نعیم ہللا خیالی ،اردو الفاظ ایک بین االقوامی رابطہ ،م * ء۱۹۸۸)بھارت (

Page 362: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

362

محمد واجد علی شاہ اختر، دیوان محمد واجد علی شاہ اختر، مجموعۂ واجدیہ، *

ھ۱۲۶۷مطبع سلطانی لکھنؤ، محمد واجد علی شاہ اختر، سلطان عالم، مجموعۂ واجدیہ، مطبع سلطانی لکھنؤ، *

ھ۱۲۶۷

رپین شعرائے اردو،مطبع محمد یوسف الدین ،خواجہ تذکرہ یورپین اور انڈویو * ء۱۹۵۹ابراہیمہ حیدر آبا د ،دکن ،

محمد یوسف جبریل ، عالمہ ،چڑیا گھر کا الیکشن ،ادارہ افکار جبریل واہ کینٹ *

ء۲۰۰۷ضلع راولپنڈی ،محمد یوسف جبریل ،عالمہ ، نغمۂ جبریل آشوب، اوکاسا پبلی کیشنز ، واہ چھاؤنی *

ء۲۰۰۷ضلع راولپنڈی ،

یوسف جبریل ،عالمہ ،علوی اعوان قبیلہ مختصر تعارف، ادرہ تحقیق اال محمد * ۱۵۴ء ،ص ۲۰۰۰عوان ،پنجاب ،واہ کینٹ ،

محمد یوسف کوکن عمری ،عالمہ ، امام ابن تیمیہ ،نعمان پبلی کیشنز ،الہور *

ء۲۰۱۴،محمود الرحمان ، ڈاکٹر ،جنگ آزادی کے اردو شعراء ،قومی ادراہ برائے تحقیق *

ء۱۹۸۶ثقافت اسالم آباد، و

محمود شیرانی ،پنجاب میں اردو،اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ ،دوسری بار، * ء۱۹۹۰

محمود شیرانی ،حافظ ، مقاالت شیرانی ، جلد اول، مرتب :مظہر محمود شیرانی *

ء۱۹۶۶،مجلس ترقی ادب ،الہور ، ء۱۹۶۰اکیڈمی سندھ کراچی، محی الدین زور، ڈاکٹر، دکنی ادب کی تاریخ ، اردو *

محی الدین قادری زور ، ڈاکٹر سید، گارساں دتاسی اور اس کے ہم عصر بہی خواہان اردو، مطبع *

ء۱۹۴۱اعظم اسٹیم پریس حیدرآباد، دکن، طبع ثانی، محی الدین قادری زور ، ڈاکٹر، سید ،کلیات سلطان محمد قلی قطب شاہ ، مکتبہ *

ء۱۹۴۰د )دکن( ابراہیمہ حیدر آبا

مردان علی خان مبتال، گلشن سخن، مرتبہ:مسعود حسن رضوی ادیب ،انجمن ترقی *

ء۱۹۶۵اردو )ہند( ،علی گڑھ، مسعو د حسن رضوی ادیب، لکھنؤ یات ادیب، مرتبہ :ڈاکٹر طاہر تونسوی، مغربی *

ء۱۹۸۸پاکستان اردو اکیڈمی ،الہور،

ء۱۹۴۱مسعود اختر جمال ، نورس ،مکتبہ دبستان بنارس، * ء۱۹۷۹مسعود اختر جمال، پیغمبر اسالم ، شاہین پبلی کیشنز الہ آباد، *

ء۱۹۸۲مسعود اختر جمال، کاروان آزادی، ادارہ ادبستان اترسوئیا، الہ آباد، *

دانش محل مسعود حسن رضوی ادیب، سید، اردو زبان اور اس کا رسم الخط ، * ء۱۹۴۸لکھنؤ ،

ء۱۹۸۷مسعود حسن شہاب دہلوی ، مشاہیر بہاولپور ،اردو اکیڈمی بہاولپور ،دوم *

Page 363: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

363

مسکین حجازی ، پنجاب میں اردو صحافت، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی ،الہور ، *

ء۱۹۹۵ ء۲۰۱۳مشتاق احمد قریشی، محمد ندیم قاسمی ، آئینہ پسرور، ادبی دائرہ پسرور، *

مشتاق احمد، بیسویں صدی میں مغربی بنگال کے اردو شعراء ، اقبال احمد اینڈ *

ء۱۹۷۲بردارز کلکتہ مشیر الحسن ،جان کمپنی سے جمہوریہ تک ، مترجم:مسعود الحق، قومی کونسل *

ء۲۰۰۱برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی،

قومی زبان اسالم مظہر جمیل ،سید ، مختصر تاریخ زبان و ادب سندھی ،مقتدرہ * ء۲۰۰۹آباد،

مقبول بیگ بدخشانی ، میرزا ، ارمغان عقیدت ،پیکچز لمیٹڈ الہور، س ن *

ء۲۰۱۳منصور عاقل، سید، حرف معتبر، مکتبہ االقرباء فاؤنڈیشن اسالم آباد، * ء۲۰۱۶منظر عارفی ، کراچی کا دبستان نعت ،نعت ریسرچ سنٹر کراچی ، *

ء۱۹۹۶، نیرنگ اندلس، سنگ میل پبلی کیشنز، الہور، منظور الہی *

ء۱۹۹۹منظور الہی، در دلکشا، سنگ میل پبلی کیشنز، الہور، *منظور ثروت، مرتبہ ، راز گجراتی اعتراف و تحسین، ادارہ تصنیف و تالیف *

ء۱۹۸۷گجرات ،

ء۱۹۸۹ی ، منیر نیازی ، پہلی بات ہی آخری تھی ، ماورا ،الہور ،سوم :مئ * ء۱۹۹۴منیر نیازی ، سفید دن کی ہوا ، عمیر پبلشرز، الہور،جوالئی *

مورلینڈ، ڈبلو۔ایچ ،اکبر سے اورنگ زیب تک ،مترجم :جمال محمد صدیقی *

،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان حکومت ہند، نئی دہلی ، چوتھی بار، ء۲۰۱۰

مصطفی ۂشعراءوشاعراتپاکستان،اذکاروافکارگلشن مہر بیلی ، بھیتی ، تذکر *

ء۱۹۸۳کراچی،میر تقی میر ،میر کی آپ بیتی ، مترجم:نثار احمد فاروقی ،بک کارنر جہلم *

ء۲۰۱۶،

میر تقی میر، تذکرہ نکات الشعراء ،مترجم :حمیدہ خاتون، مطبع جے ۔ کے آفسیٹ * ء۱۹۹۴پرنٹر دہلی،

بیتی، مترجم: نثار احمد فاروقی، بک کارنر جہلم، میر تقی میر، میر کی آپ * ء۲۰۱۶

ء۱۹۲۲میر تقی میر، نکات الشعراء،مطبوعہ نظامی پریس بدایوں ، *

(ن)نثار صفدر بلوٹی ،قومی زبان اور دور حاضر، ارباب ادب پبلی کیشنز الہور ، س *

نہ قومی زبان پاکستان نسیم ،ڈاکٹرالف ۔ د ،اردوئے قدیم اور چشتی صوفیاء ، مقتدر *

ء۱۹۹۷، اسالم آباد،

Page 364: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

364

نصیر حسین خان خیال ،ادیب الملک نواب ،داستان اردو ،ادارہ اشاعت اردو، حیدر *

آباد )دکن( س ننصیر حسین خان خیال، ادیب الملک نواب سید، مغل اور اردو ، ادارہ اشاعت *

ء ۱۹۳۳اردو، حیدر آباد )دکن (

وس المشاہیر ،جلد اول ،خدا بخش اورینٹل پبلک الئبریری ،پٹنہ نظامی بدایونی ،قام * ء۲۰۰۴، اشاعت ثانی ،

نظامی بدایونی ،قاموس المشاہیر ،جلد دوم ،خدا بخش اورینٹل پبلک الئبریری ،پٹنہ *

ء۲۰۰۴، اشاعت ثانی ،نکوالؤ مونوچی ،داستان مغلیہ) اسٹوریادی موگور کا ترجمہ( مترجم:سجاد باقر *

ء۱۹۶۸رضوی ،نگارشات الہور،

ء۲۰۰۶نور الحسن ہاشمی ، ڈاکٹر ، دہلی کا دبستان شاعری ، بک ٹاک الہور، * ناظم سیوہاروی ،ہندو زبان اورہند، کتاب منزل ،الہور، س ن *

نور الحسن ہاشمی ، ڈاکٹر، دلی کا دبستان شاعری اردو، اکادمی سندھ، کراچی ، *

ء۱۹۸۹نور الحسن نقوی، پروفیسر، تاریخ ادب اردو، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر سٹڈیز *

ء۲۰۱۵)نکس( میر پور،

ء۱۹۹۱ناصر کاظمی ،انتخاب انشاء ، فضل حق اینڈ سنز پبلشرز الہور، *نبی بخش خان بلوچ، ڈاکٹر، سندھ میں فارسی شاعری کا آخری دور، مقتدرہ قومی *

ء۲۰۰۷الم آباد، زبان پاکستان ، اس

نبی بخش خان بلوچ، ڈاکٹر، سندھ میں اردو شاعری ،مجلس ترقی ادب الہور، بار * ء۱۸۷۸سوم ، جون

ء۱۹۹۶نور احمد چشتی ، تحقیقات چشتی ، الفصیل ناشران کتب الہور، *

نور الدین فائق، قاضی ،تذکرہ مخزن الشعراء ،اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ، * ء۱۹۸۵

ء۱۹۶۵نظام رامپوری، کلیات نظام، مجلس ترقی ادب، الہور، *

ء۱۹۹۱نعیم تقوی، پروفیسر ڈاکٹر، محراب عقیدت،مجلس افکار اسالمی،کراچی، *نورالدین، ڈاکٹر ابو سعید، تاریخ ادبیات اردو، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی، *

ء۱۹۹۷الہور، ء۱۹۹۱ادب کا ارتقا، مکتبہ عالیہ الہور، نذیر احمد تشنہ، پروفیسر ایم، اردو *

ء۲۰۰۷نور احمد میرٹھی ، بوستان عقیدت، ادارہ فکر نو ،کراچی ، *

نجم الغنی رامپوری ، تاریخ ریاست حیدر آباد دکن ،مطبع منشی نول کشور ،لکھنؤ * ء۱۹۳۰،

ء۲۰۰۷نور احمد میرٹھی ،گلبانگ وحدت، ادارہ فکر نو کراچی ، *

ء۱۹۵۲یر الدین ہاشمی ،دکن میں اردو،اردو مرکز الہور، بار چہارم ، نص * ء۱۹۷۵نقش حیدر آبادی ، تذکرہ عروس اال ذکار ،انجمن ترقی اردو کراچی *

Page 365: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

365

نواز کاوش ،ڈاکٹر، بہاولپور کا ادب ،چولستان علمی و ادبی فورم بہاولپور *

ء۲۰۱۰، ء۱۹۷۸نثار احمد علوی ، حکیم ، سخنوران کاکوروی ،مے خانۂ ادب ،کراچی *

نصرت بخاری ،سید، مکاتیب مشاہیر بنام حق نواز خان ، جمالیات ،پبلی کیشنز *

ء۲۰۱۲،اٹک ، ء۲۰۰۳نور احمد میرٹھی ، تذکرہ شعرائے میرٹھ،ادارہ فکر نو، کراچی *

)حیات و خدمات( ،اکادمی ادبیات پاکستان نجمی صدیقی، پروفیسر ،باقی صدیقی *

ء۲۰۰۰اسالم آباد، ء۱۹۸۶نفیس اقبال، پاکستان میں اردو گیت نگاری ، سنگ میل پبلی کیشنز ،الہو ر *

نسیم رضوانی ، ملک محمد باقر ،شعرائے پنجاب)عصر حاضر(، گجرات پرنٹنگ *

ء۱۹۳۷پریس گجرات)پنجاب ( دریچہ ،تعمیر انسانیت الہور، س ننصرت چوہدری ، دستک اور *

نصرت چوہدری ،کروٹ اورانگڑائی، مطبع علی حسن پرنٹنگ پریس سرگودھا، *

س ننصرت چوہدری، کچھ دیر پہلے نیند سے ،مطبع انصار آرٹ پریس ، سرگودھا س *

ن

م نگہت سلیم ،مدون، پاکستانی اہل قلم کی ڈائریکٹری ،اکادمی ادبیات پاکستان ، اسال * ء۱۹۹۴آباد، دوم ،

ء۲۰۱۲نند کشور و کرم ، مصور تذکرے، مؤ لف خود دہلی ، *

نعمان تاثیر و مظہر صدیقی ،مرتبین ، شعر ستان )تذکرہ شعرائے پاکستان ( مکتبہ * ء۱۹۵۲پرچم حسن آغندی روڈ کراچی نومبر

(و)لس تحقیقات و ، مج‘‘سلطان ٹیپو شہید’’ واضح رشید حسنی ندوی، موالنا ،سید، *

ء۲۰۱۱نشریات اسالم، لکھنؤ، بار دوم ، ء۱۹۸۳واجد بخش سیال ،کپتان ، مقام گنج شکر ، صوفی فاؤنڈیشن الہور، سوم *

ء۱۹۸۹وارث سر ہندی ، زبان و بیان، مقتدرہ قومی زبان پاکستان ، اسالم آباد، *

ء۱۹۵۰ور، وحید الدین ،فقیر سید، روزگار فقیر ،سید برادرز الہ * وفا راشدی، بنگال میں اردو، اردو پبلشنگ ہاؤس دہلی ،س ن *

ء۱۹۵۵وفا راشدی، بنگال میں اردو،مکتبہ اشاعت اردو حیدر آباد )پاکستان( *

وفا راشدی، ڈاکٹر ،کلکتے کی ادبی داستانیں ،مکتبہ اشاعت اردو ،کراچی * ء۱۹۹۹

ء۱۹۴۷کتب ،الہور ،وقار انبالوی، زبان حال ،تاجر ان *

وقار انبالوی، بیان حال ،مکتبہ نوائے وقت الہور، س ن *مترجم :حسن عابدی ، مشعل ‘‘ انسانی تہذیب کے پانچ ادوار ’’ولیم میک گاگی ، *

بکس الہور، س ن

Page 366: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

366

،جلد اول ،پورب اکادمی اسالم آباد ‘‘تاریخ ادبیات عالم’’وہاب اشرفی ، پروفیسر، *

ء۲۰۰۶،

(ہ)ہارون الرشید تبسم ، ڈاکٹر، اب انھیں ڈھونڈہ چراغ رخ زیبا لے کر ،بزم علم و فن *

ء۲۰۰۳سرگودھا ،

ء۲۰۱۲ہارون الرشید، پروفیسر ، دو ہجرتوں کے اہل قلم ،میڈیا گرافکس کراچی، *

ہارون الرشید، پروفیسر، محفل جو اجڑ گئی، زین پبلی کیشنز، ناظم آباد کراچی * ء۲۰۰۲،

ہندی گورکھپوری ، قفس سے آشیاں تک ،ہندی اکیڈمی ،ٹانڈہ ضلع فیض آباد، یوپی *

ء۱۹۷۲،ہوش بلگرامی ،نواب ہوش یار جنگ بہادر ، سرور غم ،مطبع دارلطبع سرکار *

ء۱۹۴۷عالی ،حیدر آباد، )دکن( ،

ء۱۹۴۶ہوش بلگرامی، طوفان محبت، دارالطبع سرکار عالی حیدر آباد،) دکن( ، * ء۱۹۸۳ہیر یسن قربان ، ڈی۔اے ، اردو کے مسیحی شعراء ،خود سہارنپور ، *

(ی) ء۲۰۰۲یعقوب انجم ، خوشبوئے محبت، ارباب ادب پبلی کیشنز الہور، *

۳یوسف حسن ، چراغ حسن حسرت، مشمولہ روزنامہ نوائے وقت اسالم آباد، * ء۲۰۰۱جوالئی

ء تک ( مصنف خود ۱۷۷۳،بنگال میں اردو )پہلی جلد،یوسف حسن ،ڈاکٹر، سید *

ء۱۹۹۹کھلنا)بنگلہ دیش( ء ،دوم ۱۹۹۳یوسف متواال ،موالنا ،مشائخ احمد آباد ،مکتبہ الحرمین الہور، اول *

ء۲۰۱۱

یونس شاہ ، پروفیسر ،سید ، تذکرہ نعت گویان اردو ،جلد دوم ،مکہ بکس الہور، * ء۱۹۸۴

ی مرتبہ کتبادبی تنظیموں/ اداروں ک ء۱۹۸۰ء، اکادمی ادبیات پاکستان، اسالم آباد، ۱۹۷۶۔۷۹اردو غزل انتخاب *

ء۲۰۱۷امیر خسرو، فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹڈ الہور، *

تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند، تیسری جلد فارسی ادب )اول( پنجاب * ء۱۹۷۱یونیورسٹی الہور،

، اردو ادب )دوم( پنجاب یونیورسٹی ۷پاکستان و ہند، جلد تاریخ ادبیات مسلمانان *

ء۱۹۷۱الہور، تاریخ مرکز ہند، )بہت قدیم نسخہ، جس کے ابتدائی اور آخری صفحات پھٹے *

(ہوئے ہیں۔

ء۱۹۸۳دستاویز، اترپدریش اردو اکادمی لکھنؤ، *

Page 367: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

367

ء۱۹۵۹شہر غزل، بزم فکروادب منٹگمری، *

ء۱۴۰۴روادب اسالم آباد، قرطاس غزل، بزم شع * ء۱۹۶۶یاران نو، انجمن ترقئ ادب الہور، دسمبر *

غیر مطبوعہ کتب محمد منیر احمد سلیچ، ڈاکٹر، گجرات دے پنجابی شاعر *

محمد بشیر رانجھا، انسائیکلو پیڈیا اہل قلم *

انسائیکلوپیڈیاز ء۱۹۷۴ذکی کاکوری، غزل انسائیکلوپیڈیا، مرکز ادب اردو لکھنؤ، بار دوم، *

عاکف سنبھلی، ڈاکٹر رضاء الرحمان، سوانحی انسائیکلوپیڈیا، جلد دوم، کتابی دنیا، *

ء۲۰۱۰دہلی، عالم کا انسائیکلوپیڈیا، نگارشات پبلشرز، الہور، ۱۰۰۱عبدالوحید، * شخصیات

ء۲۰۰۰

۲۰۰۰مشاہیر پنجاب کا انسائیکلوپیڈیا، نگارشات پبلشرز، الہور، عزیز اے شیخ، * ء۲۰۰۵محمد علی چراغ، انسائیکلوپیڈیا مسلم شخصیات، نذیر پبلشرز الہور، *

یاسر جواد، ایڈیٹر، انسائیکلوپیڈیا ادبیات عالم، اکادمی ادبیات پاکستان، اسالم آباد، *

ء۲۰۱۳ ء۱۹۹۶قومی کونسل برائے ترقی اردو، نئی دہلی، اردو انسائیکلوپیڈیا، جلد اول، *

ء۱۹۷۳، دانش گاہ پنجاب، الہور، ۱۰اردو دائرہ معارف اسالمیہ، جلد *

جامع اردو انسائیکلوپیڈیا، جلد اول، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی * ء۲۰۰۳دہلی،

روغ اردو زبان، نئی جامع اردو انسائیکلوپیڈیا، جلد دوم، قومی کونسل برائے ف *

ء۲۰۰۰دہلی،

فرہنگ/لغات ء۱۹۰۸احمد دہلی، مولوی سید، فرہنگ آصفیہ، جلد اول، رفاہ عام پریس، الہور، *

نورالحسن نیر ،مولوی، نوراللغات، جلد چہارم، نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسالم آباد، *

ء۱۹۸۹سوم ء۲۰۱۷الہور، چہارم،وارث سرہندی، قاموس مترادفات، اردو سائنس بورڈ *

آدم اللغات، سیٹھ آدم جی عبدہللا بمبئی والے، الہور، س ن *

غیر مطبوعہ تحقیقی مقاالت

پی ایچ ڈی ء۱۹۷۱احمد خان، سردار، میرسوزآثار و افکار، شعبہ اردو، جامعہ سندھ، *

ء کے بعد اردو ڈراما، ایک تنقیدی مطالعہ، شعبہ ۱۹۴۷غالم محی الدین ڈار، *

Page 368: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

368

ء۲۰۰۶اردو، کشمیر یونیورسٹی سری نگر،

مظہر حسین، علی گڑھ تحریک اور اردو ادب، شعبۂ اردو، جواہر لعل * ء۱۹۸۹نہرویونیورسٹی، نئی دہلی ،

نصیر احمد اسد، سیالکوٹ میں نقد و ادب کی روایت، شعبۂ اردو، یونیورسٹی آف *

ء۲۰۱۵ء ۔۲۰۱۲ھا، سرگودھا، سرگود

ایم فلطیب منیر، چراغ حسن حسرت کی غیر مدون تحریروں کے تدوین اور جائزہ، *

۱۹۹۹۰ء۔۱۹۸۹عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسالم آباد،

محسن عباس، اردو ادب کے فروغ میں خوشاب کا حصہ، عالمہ اقبال اوپن *

ء۲۰۰۵یونیورسٹی، اسالم آباد،

ایم اےاحسنہ بتول، ظہیر بابر کی افسانہ نگاری، بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی، ملتان، *

ء۱۹۹۹

کرن سنگھ، میرپور خاص کی ادبی سرگرمیاں، جامعہ سندھ اولڈ کیمپس حیدرآباد، *

ء۱۹۸۴ندیم افضل ندیم، وقار انبالوی شخصیت اور شاعری، پنجاب یونیورسٹی، الہور، *

ء۱۹۸۹

ء۱۹۷۴حاجی لق لق، پنجاب یونیورسٹی ، الہور، نسرین چوہدری، *

رسائل و جرائد ء۱۹۵۸آب و گل)ماہنامہ( ڈھاکہ،فروری * ء۲۰۰۳آج)کتابی سلسلہ( کراچی، جنوری تا مارچ *

ء۲۰۰۴آج)کتابی سلسلہ( کراچی، اکتوبر *

ء۱۹۸۷اٹک فیسٹیول)ساالنہ( اٹک، * ء۱۹۸۷اخبار اردو )ماہنامہ( اسالم آباد، اگست *

ء۱۹۹۱اخبار اردو )ماہنامہ( اسالم آباد، مئی * ء۲۰۰۰اخبار اردو )ماہنامہ( اسالم آباد،جنوری *

ء۲۰۰۰اخبار اردو )ماہنامہ( اسالم آباد،مارچ *

ء۲۰۰۲اخبار اردو )ماہنامہ( اسالم آباد،ستمبر * ء۲۰۰۵اخبار اردو )ماہنامہ( اسالم آباد،اپریل *

ء۱۹۹۸اپریل ۲۶تا۲۰اخبار جہاں ) ہفت روزہ( کراچی، *

ء۱۹۶۰ادب لطیف)ماہنامہ( الہور، سالنامہ * ء۱۹۱۲ادیب)ماہنامہ( الہ آباد)بھارت( ستمبر *

ء۱۹۱۳ء تا ۱۹۱۰ادیب)ماہنامہ( انتخاب الہ آباد، *

Page 369: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

369

ء۱۹۵۳اردو)سہ ماہی(کراچی، جنوری تا اپریل *

ء۲۰۰۴ری تا اپریلاردو)سہ ماہی(کراچی، جنو * ء۲۰۱۲اردو)سہ ماہی(کراچی، جنوری تا اپریل *

ء۱۹۸۳، ۱اردو)حوالہ جاتی سلسلہ( دہلی، نمبر *

ء۱۹۶۳، ۷۔۶اردوئے معلی)مجلہ(، میر سوز نمبر، دہلی یونیورسٹی، شمارہ * ء۱۹۶۵افکار)ماہنامہ( فیض نمبر، کراچی، اپریل، مئی ، جون *

ء۱۹۸۱ہ میں اردو ایڈیشن، کراچی، اپریل افکار)ماہنامہ( برطانی *

ء۱۹۸۳اقبالیات)سہ ماہی(کراچی، جنوری تا اپریل * ء۲۰۰۱اقدار)سہ ماہی( کراچی، جوالئی *

ء۲۰۰۳االقرباء)سہ ماہی( اسالم آباد، اکتوبر تا دسمبر *

ء۲۰۰۳پیغام آشنا)سہ ماہی( اسالم آباد، اکتوبر تا دسمبر * ء۲۰۱۶پیغام آشنا)سہ ماہی( اسالم آباد، جنوری تا مارچ *

ء۲۰۱۶پیغام آشنا)سہ ماہی( اسالم آباد، اکتوبر تا دسمبر اپریل تا جون *

ء۱۹۹۲تحقیق)مجلہ( سندھ یونیورسٹی جام شورو، دسمبر * ء۱۹۹۳، ۷تحقیق)مجلہ( سندھ یونیورسٹی جام شورو، *

ء۲۰۱۰ تذکرہ)کتابی سلسلہ( کراچی، نومبر *

ء۱۱۰،۱۹۹۷جرنل)سہ ماہی( پٹنہ، شمارہ * ء۱۹۹۸جرنل )سہ ماہی( پٹنہ، جون، *

ء۲۰۰۸، ۱جرنل آف اردو)مجلہ( ڈھاکہ یونیورسٹی بنگلہ دیش، شمارہ: *

ء۲۰۰۹دیدہ ور، )سہ ماہی( بوسٹن)امریکہ( اپریل تا جون، * ء۲۰۱۱دیدہ ور، )سہ ماہی( بوسٹن)امریکہ( جوالئی تا ستمبر *

ء۲۰۰۹ذہن جدید )سہ ماہی( نئی دہلی، جون تا اگست *

ء۱۹۹۱زینت)ماہنامہ، شخصیات نمبر، جلد دوم، الہور، مئی * ء۱۹۳۹ساقی )ماہنامہ( دہلی، ستمبر *

ء۱۹۴۰ساقی )ماہنامہ( دہلی،نومبر *

ء۱۹۶۲ساقی )ماہنامہ( دہلی،مئی * ء۱۹۶۰سب رس)ماہنامہ( حیدر آباد)دکن(نومبر *

ء۲۰۱۰سب رس )ماہنامہ( حیدر آباد)دکن( جون * ء۲۰۰۰سب رس)ماہنامہ( کراچی، جوالئی *

ء۲۰۱۱سطور)کتابی سلسلہ( فیض احمد فیض نمبر، ملتان، نومبر *

۱۱۔۱۰سویرا)ماہنامہ( الہور، شمارہ نمبر * ء۱۹۹۷۔۹۸شاعر)ماہنامہ( ہم عصر اردو ادب نمبر، جلد اول، ممبئی، *

ء۱۹۸۱، الہور، جنوری ، فروری، ۱سحر)ماہنامہ( نعت نمبر شام و *

ء۱۹۹۰ء تا ستمبر ۱۹۸۹شخصیت اور فن)ششمائی( کوائف نمبر، بمبئی ، مارچ * ء۱۹۵۷صحیفہ)سہ ماہی( الہور، جون *

Page 370: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

370

ء۱۹۶۴صحیفہ)سہ ماہی( الہور، جنوری *

ء۱۹۶۷صحیفہ)سہ ماہی( الہور، اپریل * ء۱۹۶۷الئی صحیفہ)سہ ماہی( الہور، جو *

ء۱۹۷۳صحیفہ)سہ ماہی( الہور، جنوری *

ء۱۹۸۷صحیفہ)سہ ماہی( الہور، جوالئی تا ستمبر * ء۱۹۹۹صحیفہ)سہ ماہی( الہور، جوالئی تا ستمبر *

ء۱۹۸۷صریرخامہ) مجلہ( شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی جام شورو، *

ء۱۹۹۴عالمی اردو ادب)ساالنہ( دہلی، * ۱، شمارہ ۲ماہی( جامعہ عثمانیہ حیدرآباد)دکن( جلدعثمانیہ)سہ *

ء۴،۱۹۴۷۔۳عثمانیہ)سہ ماہی( جامعہ عثمانیہ حیدر آباد)دکن( جلد *

ء۲۰۰۵عقیدت )سہ ماہی( سرگودھا، جوالئی * ء۱۹۹۰فکروتحقیق)ششماہی( نئی دہلی، جنوری تا جون، *

ء۱۹۸۴قومی زبان)ماہنامہ( کراچی، فروری *

ء۱۹۶۴نامہ( سرگودھا، اکتوبر تا دسمبر کامران)ماہ * ء۱۹۹۹گلبن)دوماہی( احمد آباد)بھارت( جنوری تا اپریل *

ء۲۰۰۴۔۴گل کدہ)ماہنامہ( بدایواں، *

ء ، کراچی۱۹۵۲ء سے ۱۹۴۸ماہ نو)ماہنامہ( انتخاب، * ء۱۹۹۰ماہ نو)ماہنامہ( الہور، فروری *

ء۱۹۵۰جون، ۳۰مجاہد) ہفت روزہ( کراچی، *

ء۲۰۰۹۔ ۸مخزن)سہ ماہی( بریڈ فورڈ)یوکے( * ء۱۹۵۱معارف)ماہنامہ( اعظم گڑھ)بھارت( اگست *

ء۱۹۵۶معارف)ماہنامہ( اعظم گڑھ)بھارت(دسمبر *

ء۱۹۹۲معلومات)ماہنامہ ( کشمیر نمبر، کراچی، اپریل * ء۲۰۰۱نعت)ماہنامہ( الہور، جون *

ء۱۹۲۶نقوش)ماہنامہ( الہور نمبر، الہور، فروری، *

ء۱۹۵۸نقوش)ماہنامہ( غزلنمبر، الہور، طبع چہارم ،اکتوبر * ء۱۹۶۶نقوش)ماہنامہ( الہور نمبر، اپریل، مئی، جون، *

ء۱۹۸۲، الہور، دسمبر ۲نقوش)ماہنامہ( رسول نمبر * ء۱۹۸۴، الہور، جنوری ۱۰نقوش)ماہنامہ( رسول نمبر *

ء۱۹۸۴ار)ماہنامہ( کراچی، )سالنامہ( فروری ، مارچ نگ *

ء۱۹۶۹مارچ ۹ہالل) ہفت روزہ( راولپنڈی، * ء۱۹۷۸جون، ۲۰ہالل) ہفت روزہ( راولپنڈی، *

ء۱۹۹۴مئی ۳۰ہالل) ہفت روزہ( راولپنڈی، *

ء۱۹۶۰ہم قلم)ماہنامہ( کراچی، اگست ،ستمبر * ء۱۹۴۲حیدر آباد )دکن(، جون ہندوستانی ادب)ماہنامہ( سالگرہ نمبر، *

Page 371: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

371

روزنامے ء۲۰۱۴اپریل ۲۴امت، کراچی؍حیدرآباد، *

ء۱۹۹۱ستمبر ، ۱۰پاکستان، الہور، *

ء۱۹۸۸دسمبر ۲۸جنگ، راولپنڈی، * ء۱۹۸۸ستمبر ۳۰نوائے وقت، الہور، *

ء۱۹۸۸اکتوبر ۷نوائے وقت، الہور، *

ء۱۹۹۵اکتوبر ۱۳نوائے وقت، الہور، * ء۱۹۹۷فروری، ۱۳نوائے وقت، الہور، *

ء۲۰۰۱جوالئی ۳نوائے وقت، الہور، *

ء۲۰۰۲اکتوبر ۶نوائے وقت، الہور، * ء۲۰۰۸دسمبر ۱۲نوائے وقت، الہور، *

ء۲۰۱۵جوالئی ۱۱ڈان، کراچی، *

مکاتیب بنام راقم ء۲۰۰۳مارچ ۲۷محمد عالم مختار حق، الہور، * ء۲۰۰۷جوالئی ۱۶لہ، سجاد مرزا، گوجرانوا *

کتبہ قبر ، اسالم آباد۸مرزا اختر بیگ، مرکزی قبرستان، ایچ *

ٹی ویفروری ۲۱صفدر میر کی کہانی صفدرمیر کی زبانی، پاکستان ٹیلی ویثرن، *

ء۲۰۰۴

ء۱۹۹۹۷جون ۲۰احمد حسین احمد قریشی قلعداری، ڈاکٹر، گجرات، * ء۱۹۹۳مشاعرہ(،منیر نیازی، کوئٹہ، )پی ٹی وی *

انگریزی کتب* Ananda Bhattacharyya from sepoy to subedar, Kunal books New

Delhi, 2013 * Buckland, C.E, Dictionary of Indian Biography, Sewan

Sonnenchain & Co, London. 1906

* Chambers's Encyclopaedia, vol-1, W&R Chambers Limited London and Edinburgh, 1926

* Encyclopaedia Britannica, vol-2, Encyclopaedia Britannica

inc. William Bentan, Shicago: London: 1959 * Francis Gladwin, A Dictionary-Persian, Hindustanee and

English vol-I, printed at the hindoostanee Press, Calcutta, 1809

Page 372: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

372

* George Hadely, A compendious grammar of the current

corrupt dialect of the Jargon of Hindustan (Commonly called Moors) with a vocabulary English and Moors, Moors and

English, Printed by S. Rousseaue at the Arabic and Persian Press,

London, 1801 * Grahame Bailey A History of Urdu Litrature, Al-Biruni, Lahore

1977 * Green Lt.Col. A.O, A Practical Hindustani Grammar, Part-I, Clarendon Press,

Oxford, 1895

* Green Lt.Col.A.O, A Practical Hindustani Grammar, Part-II, Clarendon Press,

Oxford, 1895

* Hall, H.R. "The Ancient History of the near East", New Delhi 2013, Methueu & Coy, London 3rd Ed. 1916.

* Henry Yule, Col, and Arthur Coke Burnell, Hobson -

Jobson: Being A Glossary, John Murray, London 1886 * Joseph Taylor, Capt, A Dictionary, Hidustani and English

Vol-I (Revised & Prepared by W.Hunter) Printed: Hindustanee

press Calcutta, 1808 * Mojumdar, R.C. An Advanced History of India ,vol 8,Aziz

publisher, Lahore, 1980 * Phillott, D.C, An Eng-Hind. Vocabulary of 3000 words, Baptist Mission Press,

Caleutta, 1911

* Phillott, Lieut Colonel, DC Khazima-e-Muhawarat or Urdu

Idioms, Babtist mission press cakeutta, 1911

* Ram Babu Saksena, European & Indo - European Poets of Urdu and Persian, Book Traders Lahore

* Sita Ram, from Sepoy to Subedar, Translated by Lt. Col.

Norgate, Baptist Mission Press Calcutta, Third Edition, 1911 * Sleeman, W.H, Ramaseeana or Vocabulary of the peculiar

language used by the THUGS, Military Orphan Press, Calcutta,

1836 * Smith, E.J,The Cambridge History of India ,vol 1, Delhi, 1962

* The Encycyclopaedia Americana, vol-II, Glolier

Incorporated International Headquarters: Danbury (U.S.A) 1983 * Thimm, C.A, Captain, Hindustani Self-Taught with English

Phonetic Pronunciation, E. Marlborough & Co, London, 1916

Page 373: تقسیم ہند سے قبل اردو زبان و ادب کے فروغ میں عسکری اہلِ قلم ...

373

* Thomas Roobuck, lieutenant, An English and Hindustanee

NAVAL DICTIONARY of Technical Terms and Sea Phrases, reprinted: Black Parry and co, London, 1813, P-ii

* Wilson, H.H. Introduction, A collection of proverbs... by

Captain Thomas Roobuck, printed Hindustani Press Calcutta, 1824

Website * en.wikipedia.org/wiki/haji-laq-laq * en.wikipedia.org/wiki/Muhammad-Abdul-Qayyum-Khan

* en.wikipedia.org/wiki/wahid-bukhsh-qayyum-rabbani

* Rekhta.org/poet/gaya - faqir Mohammed / Profile * www.amazon.com/pocketDictionary-English-Hindustani

/dp/1377003272

* www.thehindu.com/society/history and culture